یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ معاشی ترقی کا حصول معاشرتی ذمہ داریوں ( Social responsibility) پر توجہ دیے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بزنس کمیونٹی صرف منافع کی طرف متوجہ ہونے یا تجارتی شراکتی تعاون (business partner co-opration) کو بڑھانے تک خود کو محدود نہیں کرسکتی بلکہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے معاشرتی ذمہ داریوں کی انجام دہی از حد ضروری ہے۔ اسی احساس نے ہی ساؤتھ کوریا جیسے ملک کو ترقی یافتہ بنایا ہے۔ اگر ساؤتھ کوریا کی تاریخی حیثیت دیکھی جائے اور اس کے ترقی کرنے کے مراحل کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ وہاں کی معروف کمپنیز Samsung اور Daewoo اور دیگر بڑی بڑی پرائیویٹ کمپنیوں نے احسن انداز میں اس ملک کو ترقی کی منازل طے کروائی ہیں۔ اگر ہمارے ملک کے تمام چیمبرز آف کامرس اور تمام کمپنیز اس progressive سوچ کو اپنالیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ساؤتھ کوریا کی طرح تیزی سے ترقی کی منازل طے نہ کرسکے۔
آج یقیناً پاکستان اور پاکستانی قوم معاشی اور دیگر بہت سے حوالوں سے نہایت پریشان کن دور سے گزر رہی ہے۔ جملہ طبقات معاشرہ بشمول بزنس کمیونٹی بھی ان حالات سے متاثر ہوئی ہے۔ زیر نظر مضمون میں امت مسلمہ کے مجموعی معاشی حالات اور ان کی developmental صورتحال کا جائزہ لے کر یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے گی کہ ان حالات میں پاکستان کہاں کھڑا ہے اور وہ کون کون سے سیکٹرز ہیں جن کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں ہم موجودہ بحران کا شکار ہیں۔ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے دو امور ایسے ہیں کہ اگر ہم ان کی جانب کماحقہ متوجہ ہوں تو ہم پاکستان سے غربت ختم کرسکتے ہیں:
1۔ حلال انڈسٹری کی طرف توجہ
2۔ نظامِ زکوٰۃ کی اصلاح
ذیل میں ان دونوں امور کو تفصیل سے بیان کیا جارہا ہے:
1۔ حلال انڈسٹری
پوری دنیا میں پاکستان سمیت 55 اسلامی ممالک ہیں۔ ان مسلم ممالک میں مسلمانوں کی آبادی کم و بیش 1.9 بلین ہے۔ اگر ان مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی اشیاء ضروریہ کا استعمال (consumptions)، ان کے کاروبار اور مارکیٹ کا جائزہ لیا جائے تو 1.9 بلین کی مسلم آبادی سالانہ 2 ٹریلین ڈالرز کا حلال فوڈ استعمال کرتی ہے۔ جس میں فارما سوئیٹیکلز، کاسمیٹکس، فیبرک کلاتھ، فیشن اور حلال ٹریولنگ (مزارات اور مقدس مقامات) شامل ہیں۔ ان سارے سیکٹرز کی worth 2 ٹریلین ڈالرز ہے۔ ذیل میں حلال انڈسٹری کی ان اشیاء کی معاشی قدر کے حوالے سے اعداد و شمار درج کیے جارہے ہیں:
(1) مسلم دنیا اور حلال انڈسٹری
1۔ حلال فوڈز میں گوشت، مچھلی، کوکنگ آئل اور بہت سی اشیاء شامل ہیں، صرف ان تمام غذائی اشیاء کی worth 1.27 ٹریلین ڈالرز سالانہ ہے۔ اس سیکٹر میں مزید نمو (growth) کو دیکھ کر اب یہ توقع کی جارہی ہے ہے کہ 2025ء تک اس سیکٹر کی worth 1.27 سے بڑھ کر 1.67 ٹریلین ڈالرز تک ہوجائے گی۔
2۔ اسلامک فنانشل پروڈکٹس میں اسلامک بنکس، نان بنکنگ فنانس کمپنیز، مائیکروفنانس کمپنیز اور سکوک بانڈز شامل ہیں۔ اس مارکیٹ کا جائزہ لیا جائے تو پوری دنیا میں ان کی worth 3.6 ٹریلین ڈالرز ہے۔ اس سیکٹر میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ 2025ء تک اس کی worthبھی 4.9 ٹریلین ڈالرز ہوجائے گی۔
3۔ حلال فیشن اور کلاتھ انڈسٹری کو اگر دیکھا جائے تو یہ انڈسٹری 295 ملین ڈالرز کی ہوگئی ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ 2025ء تک یہ مارکیٹ بھی 375 بلین ڈالرز کی ہوجائے گی۔ توقع کی جارہی ہے کہ 2025ء تک یہ مارکیٹ بھی 375 بلین ڈالرز کی ہوجائے گی۔
4۔ حلال فارما سوئیٹیکلز کم و بیش 100 بلین ڈالرز کی انڈسٹری ہے جو آنے والے سالوں میں مزید ترقی کرجائے گی۔
5۔ حلال کاسمیٹکس کی انڈسٹری تقریباً 70 بلین ڈالرز کی worth رکھتی ہے۔
6۔ حلال میڈیا میں فلم، ڈرامہ اور اس طرح کی انٹرٹینمنٹ آجاتی ہیں۔ اس وقت اس انڈسٹری کی worth 231بلین ڈالر کی بن چکی ہے اور 2025ء تک تقریباً 250 بلین ڈالر تک پہنچنے کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔ اس انڈسٹری میں ترکی بہت آگے نکل گیا ہے۔ انھوں نے ڈراماز کو بطور product متعارف کروایا ہے۔ یہ زبان اور ملک کی قید سے بہت اوپر ہیں اور بلا تفریق وہ مذہبی و تاریخی واقعات و شخصیات پر dramas بنا رہے ہیں اور پوری دنیا تک ان کے ذریعے اپنی رسائی کو ممکن بنالیا ہے۔
حلال میڈیا اس لیے ترقی کررہا ہے کیونکہ مسلمانوں کی نوجوان نسل تیزی سے بڑھ رہی ہے اور جتنا آبادی بڑھتی چلی جاتی ہے اتنا ہی کسی چیز کا استعمال بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جتنی مذہبی و اخلاقی آگہی (awareness) بڑھتی چلی جائے گی، اتنی حلال پروڈکٹس کے متعلق آگہی (awareness) بڑھے گی اور یہ میدان اتنا ہی وسیع ہوتا چلا جائے گا اور لوگ اس کے استعمال کی طرف متوجہ ہوں گے۔
7۔ حلال ٹریولنگ کا تعلق مزارات اور مقدس مقامات کے لیے سفر کرنے سے ہے۔ اس انڈسٹری کی worth بھی بلینز ڈالر میں ہے اور ترکی اس حوالے سے سب سے آگے ہے۔ ترکی نے اپنی معیشت کو ٹورازم سے ایک نیا موڑ دیا ہے اور اس سطح پر لایا ہے کہ انھوں نے مزارات کو ایک وراثت کے طور پر مارکیٹ میں پیش کیا ہے اور صاحبِ مزار کی شخصیت کا عالمی سطح پر تصور اجاگر کیا ہے۔ ان کے متعلق لٹریچر اور ڈراماز بنائے ہیں۔ انھوں نے مولانا روم کے ذریعے اپنی پوری ثقافت کو اجاگر کیا ہے۔
(2) پاکستان اور حلال انڈسٹری
سوال پیدا ہوتاہے کہ حلال انڈسٹری میں دنیا کے مقابلے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ذیل میں چند اعداد و شمار کے حوالے سے اس کا بھی اجمالی خاکہ نذرِ قارئین ہے:
1۔ اسلامک فنانس کے حوالے سے ہمارے دعوے ایک طرف ہیں اور حقیقت دوسری طرف ہے۔ اس وقت اسلامک فنانس کی انڈسٹری کی مالیت 3.6 ٹریلین ڈالرز ہے لیکن اس میں پاکستان کا مارکیٹ شیئر صرف 42 بلین ڈالرز ہے۔
2۔ حلال فوڈ کی 1.27 ٹریلین ڈالرز کی انڈسٹری میں پاکستان کا شیئر صرف 87 بلین ڈالر ہے۔ تقریباً 2 بلین مسلم آبادی میں پاکستان حلال فوڈ کا ایک بڑا برآمد کنندہ (exporter) بن سکتا ہے جس میں گوشت اور خوراک کی دیگر اشیاء شامل ہیں۔ پاکستان اگر پوری دنیا کی مارکیٹ میں حلال فوڈز کی ضروریات پوری کردے تو ملک کا معاشی بحران بھی ختم جائے گا۔
3۔ حلال ٹورازم (religious tourism) کی انڈسٹری جسے ترکی نے promote کیا ہے اور وہ مولانا رومؒ اور سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مزارات سے بہت زیادہ (revenue) آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ سعودی عرب حج اور عمرے سے revenue حاصل کرتا ہے۔ پاکستان میں بھی بہت زیادہ مزارات ہیں مگر آمدنی کے حوالے سے ترکی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ ترکی کو مولانا روم کا مزار جتنا بزنس دیتا ہے اتنا پاکستان کے تمام مزارات پاکستان کو نہیں دیتے کیونکہ انھوں نے تجارتی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسے مشتہر کیا ہے۔ ہم علامہ محمد اقبال، حضرت داتا علی ہجویری، حضرت بابا فرید گنج شکر، خواجہ غلام فرید، بابا بھلے شاہ اور میاں محمد بخش رحمھم اللہ کو ایک وراثت اور ایک کلچر کے طور پر پوری دنیا کے سامنے کیوں پیش نہیں کرسکے؟ اس لیے کہ ہماری توجہ اس طرف نہیں ہے۔ ہم تو اپنے بزرگوں اور ان کی تعلیمات کو باعثِ نزاع بنانے سے باز نہیں آتے چہ جائیکہ ان کو legend کے طور پر متعارف کرواکر پوری دنیا میں اس طرح پیش کیا جائے کہ لوگ محسوس کریں کہ مجھے جاکر وہاں کا visit کرنا چاہیے۔ لوگ محسوس کریں کہ مجھے علامہ اقبال کا شہر دیکھنا ہے، لاہور جاکر داتا علی ہجویریؒ کا مزار دیکھنا ہے۔ اسی طرح ٹورازم کے ساتھ ہوٹل انڈسٹری بھی ترقی کرے گی۔
4۔ حلال فارما سوئیٹیکلز کمپنیز کی worth ایک سو بلین ڈالرز کی ہے۔ اس انڈسٹری میں پاکستان شامل ہونے کے اہل ہی نہیں ہے۔
5۔ حلال کاسمیٹکس 70 بلین ڈالرز کی ہے مگر پاکستان کا اس میں کہیں وجود نہیں ہے۔
6۔ حلال میڈیا انٹرٹینمنٹ جو 250 بلین ڈالرز کا setup بننے جارہا ہے، اس میں شاید پاکستان 12 بلین پر سٹینڈ کرتا ہے۔ مسلم ممالک جیسے ملائشیا، سعودی عرب، بحرین، کویت، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، عمان، قطر، اردن حتی کہ ایران بھی جس پر نہ جانے کتنی پابندیاں لگی ہوئی ہیں، یہ تمام مسلم ممالک حلال فوڈز، مقدس مقامات اور مزارات سے متعلقہ سیاحت اور حلال انڈسٹری کی دیگر اشیاء کے حوالے سے پاکستان کے مقابلے میں بہت آگے ہیں۔
یہ وہ اشیاء ہیں جو مسلمان استعمال کررہے ہیں اگر ان سیکٹرز پر توجہ دی جائے اور اسے بڑھایا جائے تو ملکی خسارہ ختم ہوسکتا ہے۔
(3)حلال انڈسٹری میں ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں
ایسی کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان ان میادین (sectors) میں اپنا کردار ادا نہیں کر پارہا؟ یعنی اس 4 ٹریلین ڈالرز کی انڈسٹری میں پاکستان اپنی جگہ نہیں بناپارہا؟ ذیل میں ان میں سے چند اہم مشکلات درج کی جارہی ہیں:
1۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ملک میں بے روزگاری کا ہونا اور شرح خواندگی (literacy rate) کی کمی کا ہونا ہے۔
2۔ نئے کاروبار اور نئے خیالات کو تلاش نہ کرنا بھی ایک بہت اہم مسئلہ ہے، جس کی طرف ہم متوجہ نہیں ہوتے۔
3۔ ہمارے ہاں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے مناسب نظام کا نہ ہونا بھی ان میادین میں آگے نہ بڑھنے کا ایک سبب ہے۔
4۔ ہمارے پاس پیکجنگ کی بہتر سہولت میسر نہیں ہے۔
5۔ ٹیکسیشن کی پالیسیز اچھی نہیں ہیں۔
6۔ انرجی بہت مہنگی ہے۔
7۔ ہمارے ہاں سیکیورٹی ایشوز ہیں جن کی وجہ سے لوگ پاکستان میں سفر کرنے کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ نیا سرمایہ کار (investor) ہمیشہ محفوظ مقام کی طرف جانا چاہتا ہے جہاں پر اس کی دولت دوگنی چوگنی ہوجائے۔ پاکستان جتنا اس بات پر دنیا کو قائل کرنے پر توانائی ضائع کرتا ہے کہ پاکستان ایک محفوظ ملک ہے، اگر اتنی انرجی سیکیورٹی کو مضبوط بنانے پر خرچ کرے تو بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔
8۔ گورنمنٹ بھی سرمایہ کار کو سپورٹ نہیں کرتی۔ حتی کہ ان سیکٹر کو بہتر بنانے کے لیے پالیسیز بھی وضع نہیں کرتی۔
9۔ ہمارے ہاں اسلامک فنانس میں بھی معیار کا فقدان ہے، کوالیفائیڈ سٹاف بنکس میں نہیں ہے ۔ اسی طرح اسلامک فنانشل انڈسٹری کو گورنمنٹ کی تائید حاصل نہیں ہے۔
10۔ حلال فیشن اور وہ حلال اشیاء جن میں ہم revenue پیدا نہیں کررہے، ان تمام سیکٹرز سے متعلق آگہی (awareness)کا فقدان ہے۔
یہ وہ تمام امور ہیں جن کی وجہ سے پاکستان مسلم دنیا کو حلال فوڈز سمیت دیگر حلال اشیاء مہیا نہیں کرپارہا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے سیکٹرز جنہیں ہم بڑھا (grow) سکتے ہیں اور ایسے خاص سیکٹرز جو برانڈ یعنی ایک خاص نام اور پہچان بن سکتے ہیں، ان کی طرف متوجہ ہوا جائے۔ اگر پاکستانی اشیاء کا معیار اچھا ہو تو مسلم ممالک کی مارکیٹ بن سکتی ہے۔ پاکستان کا المیہ ہے کہ بعض اوقات حلال سرٹیفیکیٹس کا کام بھی نان مسلم کررہے ہوتے ہیں۔ ان امور کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم حلال انڈسٹری کے ذریعے عالمی سطح پر اپنا مقام بناسکیں اور اس کے ذریعے آمدنی(revenue )پیدا ہوسکے۔
2۔ معاشی ترقی میں زکوٰۃ کا کردار
موجودہ معاشی بحران اور پاکستان سے غربت کے خاتمہ کے لیے دوسرا حل ’’زکوٰۃ‘‘ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ مسلم ممالک میں اس بات پر اتفاق ہے کہ زکوٰۃ بذاتِ خود ایک بہت بڑا ایسا ذریعہ ثابت ہوچکی ہے جس کے درست استعمال سے معاشرے سے غربت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اب یہ صرف مذہبی مسئلہ نہیں ہے کہ چونکہ زکوٰۃ اسلام کے ستونوں میں سے تیسرا ستون ہے، اس وجہ سے ہم نے زکوٰۃ دینی ہے، نہیں بلکہ زکوٰۃ گردشِ دولت (Circulation of wealth) کے لیے ضروری ہے۔ ایسے مسلم ممالک جنہوں نے زکوٰۃ کو صرف ایک مذہبی عقیدہ تصور نہیں کیا بلکہ معیشت کا ایک tool تصور کیا ہے اور اس کا درست استعمال کیا ہے، انھوں نے اپنے ملک سے بہت حد تک غربت کا خاتمہ کرلیا ہے۔
قرآن مجید کے اندر کم و بیش تیس مقامات پر نماز اور زکوٰۃ کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے، اس سے زکوٰۃ کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ اسی طرح احادیث مبارکہ کے اندر بھی مختلف مقامات پر زکوٰۃ کی اہمیت و ناگزیریت بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ فرض کرنے کا مقصد یہ بتایا گیا ہے تاکہ پیسہ چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہوجائے بلکہ گردش کرے۔ اس گردشِ دولت سے روزگار بڑھتا ہے۔ مارکیٹ میں خریدار تب آئیں گے جب ان کے پاس پیسہ ہوگا اور زکوٰۃ کی صحیح طریقہ کے مطابق تقسیم کے ذریعے مارکیٹ میں نہ صرف خریدار پیدا کیے جاسکتے ہیں بلکہ مارکیٹ میں بہت ساری پیداواری صنعتوں کی تعداد اور پیداوار میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔
(1) اسلامی دنیا میں زکوٰۃ جمع کرنے اور تقسیم کرنے کے ماڈلز
پوری دنیا کے اندر زکوٰۃ جمع کرنے اور اسے تقسیم کرنے کے حوالے سے مختلف ماڈلز ہیں:
1۔ کچھ ممالک کے اندر زکوٰۃ کا مرکزی (central) نظام ہے، اس کی مثال عرب ممالک ہیں، ان کے ہاں تمام زکوٰۃ حکومت کے پاس جاتی ہے اور حکومت اس پیسے کو مناسب طریقے سے استعمال کرتی ہے۔
2۔ کچھ ممالک کے اندر مرکزی (central) نظام نہیں ہے بلکہ دو سطحی نظام ہے۔ اس کی مثال ملائیشیا ہے، ملائیشیا میں مرکز بھی زکوٰۃ جمع کرتا ہے اور صوبے بھی زکوٰۃ جمع کرتے ہیں اور اس کا استعمال بھی اسی طریقے سے ہوتا ہے۔ یہ زکوٰۃ جمع کرنے اور اس کا استعمال کرنے کے حوالے سے دو سطح پر decentralized ماڈل ہے۔
3۔ انڈونیشیا کے اندر تین سطحوں کا (three stairs) ماڈل ہے یعنی مرکزی سطح پر بھی زکوٰۃ جمع کی جاتی ہے، صوبے بھی زکوٰۃ جمع کرتے ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر بھی اس میں شامل ہے۔
(2) پاکستان میں زکوٰۃ جمع کرنے اور تقسیم کرنے کا ماڈل
پاکستان کے اندر زکوٰۃ جمع اور تقسیم کرنے کے حوالے سے چھ سطحوں کا (six stairs) ماڈل چل رہا ہے۔ مرکزی سطح پر بھی زکوٰۃ جمع ہوتی ہے، صوبے بھی جمع کرتے ہیں اور ضلعی، تحصیلی اور یونین کونسل لیول پر بھی زکوٰۃ جمع ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر بھی زکوٰۃ جمع کرتا ہے اور NGO’s، فلاحی تنظیمیں اور ہسپتال زکوٰۃ اکٹھی کرکے اس کی تقسیم بھی کرتے ہیں۔
حکومت کی سطح پر جمع کی گئی زکوٰۃ کا کچھ کوٹہ سسٹم ہے۔ جیسے گزارہ الاؤنس کے نام پر غرباء میں تقسیم کیا جاتا ہے، کچھ نابینا افراد کے لیے مخصوص ہے، کچھ غرباء و مساکین کی شادیوں کے لیے خرچ ہوتا ہے، کچھ دینی مدارس اور ہیلتھ سیکٹر کے اوپر خرچ کیا جاتا ہے۔ جبکہ بہت سارا حصہ کرپشن کی نذر بھی ہوجاتا ہے۔
(3) پاکستان میں رائج نظامِ زکوٰۃ کی اصلاح کی ضرورت
یہ بات ذہن نشین رہے کہ پاکستان اس وقت دنیا کے چند غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے جس کی 25 فیصد آبادی (6 کروڑ) خط غربت کے نیچے رہ رہی ہے۔ یعنی ایسے حالات میں رہ رہی ہے کہ جہاں جینا ممکن نہ ہو۔ 10 کروڑ افراد ایسی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں جس میں زندہ تو رہا جاسکتا ہے مگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ بے روزگاری اور ملازمت کے مواقع کا نہ ہونا ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان میں جاری معاشی بحران کا حل پاکستان میں اسلام کے دیئے گئے نظامِ زکوٰۃ سے ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے زکوٰۃ کے جمع اور تقسیم کے نظام کی اصلاح کرنا ہوگی۔ زکوٰۃ ایک دینی فریضہ ہے جو ہر صورت ادا کرنا پڑتا ہے مگر اس کے ذریعے معاشی مسائل کا حل بھی نکالنا پڑے گا تاکہ پاکستان میں غربت و افلاس کا خاتمہ ہوسکے۔ زکوٰۃ ایک معاشی حل ہے جنہوں نے حقیقی معنی میں زکوٰۃ کو معاشی حل کے طور پر لیا ہے تو انھوں نے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور جنہوں نے اسے ایک مذہبی فریضہ یا رسم سمجھا ہے تو اس کا طریقہ کار جدا ہے۔
پاکستان میں زکوٰۃ کی تقسیم کا عموماً طریقہ کار یہ ہے کہ کچھ تو حکومت خود تقسیم کرتی ہے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر رمضان المبارک یا دیگر مواقع پر خود اپنے ہاتھوں سے غرباء میں تقسیم کرتا ہے۔ ان دونوں طریقوں سے زکوٰۃ کے ذریعے معاشرے سے غربت ختم نہیں کی جاسکتی۔ حکومت اگر دو تین ہزار روپے زکوٰۃ کی مد میں ہر ماہ غریب بندے کو دیتی رہے تو اس سے غربت ختم نہیں ہوسکتی بلکہ وہ لوگ ہر سال مانگتے ہی رہیں گے۔ پرائیویٹ سیکٹرز بھی ایسے ہی زکوٰۃ تقسیم کرتے ہیں۔ مثلاً: اگر کسی کے پاس زکوٰۃ کی مد میں ایک لاکھ روپیہ ہے اور وہ دو دو ہزار پچاس لوگوں میں تقسیم کردے تو وہ پچاس افراد دو ہزار سے خطِ غربت سے اوپر نہیں آسکتے کیونکہ دو ہزار سے زندگی کے حالات نہیں بدلتے بلکہ وہ اگلے سال پھر مانگنے والوں کی قطار میں کھڑے ہوں گے۔ ایسی صورت میں ہم نے زکوٰۃ کا فریضہ بھی سرانجام دیا اور غربت بھی دور نہ ہوئی۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب کسی کو زکوٰۃ دو تو اس کو یوں زکوٰۃ دو کہ اسے غنی کردو۔ یعنی وہ اگلے سال زکوٰۃ مانگنے والوں کی قطار میں نہ ہو۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے ایک بار کوئی شخص زکوٰۃ مانگنے آگیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے تین اونٹ عطا فرمادیئے، وہ پھر آیا تو آپ نے اور دے دیئے حتی کہ اس ایک شخص کو دو سو اونٹ عطا فرمادیئے۔ کسی نے کہا کہ امیرالمومنین! یہ دو سو اونٹ تو کئی لوگوں میں تقسیم ہوسکتے تھے لیکن آپ نے ایک شخص کو عطا فرمادیئے۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک شخص کو اس وقت تک دیتے رہو جب تک اس کا زکوٰۃ مانگنا ختم نہ ہوجائے۔
سمجھانا مقصود یہ ہے کہ اس انداز میں زکوٰۃ کو تقسیم کیا جائے گا تو پھر صحیح معنوں میں زکوٰۃ ایک economic toolکے طور پر قومی معیشت کو فائدہ دے گی۔ لیکن اگر ہم یونہی تقسیم کرتے رہے تو اس سے ہمارا باطن تو خوش ہوجاتا ہے کہ میں نے 100بندوں کو گھر کے باہر بلاکر ان میں پیسے تقسیم کیے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ غریب آدمی ہزار یہاں سے لے گا پھر اور دس گھروں میں جاکر ہزار ہزار اکٹھا کرے گا تاکہ ماہ رمضان گزر جائے لیکن اس طرح اس کی غربت ختم نہیں ہوگی۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقہ کار یہ تھا کہ جو سائل پہلے آجاتا تھا، اس کو اتنا غنی کردیتے کہ پھر اسے دوسرے گھر جانے کی حاجت پیش نہ آتی تھی۔ یعنی خیرات کا عمل یوں بجا لاتے کہ مانگنے والا غنی ہوجاتا اور اس کی غربت کا خاتمہ ہوجاتا۔
3۔ پاکستان میں تقسیمِ زکوٰۃ کے دو نئے ماڈلز
پاکستان سے زکوٰۃ کی رقم کے ذریعے غربت کے خاتمے کے لیے میرے پاس دو ماڈلز ہیں۔ اگر ان ماڈلز کو اپنایا جائے تو ہم اپنے معاشی بحران بالخصوص غربت کے خاتمہ میں کسی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں:
(1) ریاستی سطح پر جمع ہونے والی زکوٰۃ کی تقسیم کا ماڈل
پاکستان میں حکومت کم و بیش 7 ارب روپے زکوٰۃ جمع کرتی ہے۔ اگر کرپشن پر قابو کرلیا اور عوام کے اعتماد کو بحال کرکے اس کو تھوڑا سا بہتر کرلیا جائے تو 7 ارب سے دس ارب تک زکوٰۃ جمع کرنا کوئی مشکل نہیں۔ لہذا اگر دس ارب روپے حکومت زکوٰۃ جمع کرتی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ دو دو یا تین تین ہزار کرکے مختلف مستحق افراد میں تقسیم کردے اسے صحیح طریقے سے مائیکروفنانس کے ذریعے بلاسود کاروباری قرضے کی صورت میں تقسیم کیا جائے تو لوگوں کی غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ مائیکرو فنانس بنکس یا نان بنکنگ فنانس کمپنیز اپنے بل بوتے پر یہ کام کررہی ہیں لیکن اگر حکومت ان بنکس اور کمپنیز کے الحاق سے جن میں 11 مائیکروفنانس بنکس اور 25 نان بنکنگ فنانس کمپنیز ہیں، چھوٹے چھوٹے قرضہ جات دے تو حکومت لوگوں کو اپنا روزگار مہیا کرسکتی ہے۔ یہ قرضہ جات نقد رقم کی صورت میں نہیں ہوں گے بلکہ مختلف products کی صورت میں دیے جائیں گے۔
منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے المواخات مائیکرو فنانس کمپنی چھوٹی چھوٹی اشیاء کے ذریعے لوگوں کو باعزت روزگار مہیا کررہی ہے۔ جن میں لوڈر رکشے، آٹو رکشے فوڈ ڈیلیوی کے لیے موٹر سائیکل اور لیپ ٹاپ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے منصوبے ہیں جن کے ذریعے غربت کے خاتمے کے لیے المواخات مائیکرو فنانس کمپنی اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ اگر مائیکرو فنانس اور زکوٰۃ کو اکٹھا کردیا جائے تو اس عمل سے پاکستان سے غربت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
اس کے لیے یہ کرنا ہوگا کہ ایسی نجی کمپنیاں جو کاروباری productsکا محدود سطح پر کام کررہی ہیں، ان کے ساتھ مل کر بلاسود (intrest free) ماڈل کے اوپر دو دو، تین تین لاکھ کے قرض (بصورتِ products) پانچ سال کے لیے دیئے جائیں۔ اس طرح اگر دس بلین روپے اڑھائی لاکھ فی یونٹ کے حساب سے تقسیم کیے جائیں تو اس سے40 ہزار لوگوں کے روزگار کا بندوبست ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے ماڈل کوئی بھی ہوسکتا ہے چاہے تو گورنمنٹ پرائیویٹ سیکٹرز کے ساتھ شراکت (partnership) کرلے یا مائیکرو فنانس اسلامی بنکس کے ساتھ معاہدہ کرلے یا اس کے علاوہ اس سے متعلقہ دوسرے اداروں کو ساتھ ملائے۔ گویا 40 ہزار لوگوں کو پانچ سال کے لیے بلاسود قرضے نقدی کی صورت میں نہیں بلکہ بصورتِ بزنس پروڈکٹس دیئے جائیں،پھر ان بزنسز کے لیے ٹریننگ بھی مہیا کی جائے تو غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔
جن ممالک نے زکوٰۃ کو مذہبی عقیدہ کے ساتھ ساتھ ایک معاشی tool بھی تصور کیا تو وہ اس کے درست استعمال کے ذریعے اپنے ملک سے غربت کے خاتمے میں بھی کامیاب ہوئے
اس طرح ہر ماہ قرض لینے والے کو صرف 4 ہزار کی قسط دینا پڑے گی جو کہ ایک غریب آدمی پر بوجھ بھی نہیں ہوگا۔ اگلے سال اقساط کی وصولی کی مد میں دو ارب وصول ہوں گے اور اس سال زکوٰۃ کی مد میں 10 ارب جمع ہوجائے گا۔ یوں زکوٰۃ اور اقساط ملاکر 12ارب ہوجائیں گے۔ اس سے اگلے سال 14ارب ہوجائیں گے۔ یہاں تک کہ پانچ سال کے اختتام پر نہ صرف تین لاکھ افراد برسر روزگار ہوچکے ہوں گے بلکہ اربوں روپے کا smart business poolبھی بن چکا ہوگا۔
(2) ریاستی اور پرائیویٹ سطح پر جمع ہونے والی کل زکوٰۃ کی تقسیم کا ماڈل
پاکستان کا کل GDP 346 بلین US ڈالر ہے۔ اگر موجودہ شرح کے مطابق دیکھ لیا جائے تو تقریباً 75502 ارب روپے بنتے ہیں۔ کچھ معیشت دانوں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ سال میں گورنمنٹ اور پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے کم و بیش 19 سو ارب روپے زکوٰۃ تقسیم ہوتی ہے۔ میں نے جو دوسر اماڈل ترتیب دیا ہے وہ 15 سو بلین پر مشتمل ہے۔ اگر حکومت کے پاس مائیکرو فنانس کرنے کے لیے سالانہ 1500 ارب روپے ہوں اور اگر اڑھائی لاکھ روپے تک مائیکرو فنانس قرض کا ماڈل ہو تو 1500 ارب سے 6 لاکھ چالیس ہزار افراد برسر روزگار ہوتے ہیں۔ اس میں بھی 4 ہزار روپے کی ایک قسط بنتی ہے۔ اگلے سال اقساط کی صورت میں ملنے والی رقم اور اس سال کی زکوٰۃ 1500 ارب روپے سے پھر دوبارہ اسی طرح مائیکرو فنانس قرض کی صورت میں اجراء سے نہ صرف غربت کا خاتمہ بلکہ روزگار کے مواقع بھی ملک میں پیدا ہوں گے۔ اس طرح یہ سلسلہ 5 سال جاری رہے گا اور پانچ سال کے اختتام پر اس ماڈل کے تحت 4 کروڑ چالیس لاکھ افراد برسر روزگار ہوچکے ہوں گے۔ اگر اس قرض کی کوئی بھی قسط واپس نہیں بھی آتی تو یہ چونکہ پہلے ہی زکوٰۃ کا پیسہ تھا لہذا اس کو dead amount تصور کرلیا جائے گا۔ اگر اقساط مکمل اور صحیح طرح واپس آرہی ہیں تو زکوٰۃ کی رقم کا دائرہ بڑھتا چلا جائے گا۔
میں نے زکوٰۃ کی تقسیم پر’’زکوٰۃ اور مائیکرو فنانس‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں غربت کے خاتمے کے لیے اور بھی بہت سے ماڈلز ڈسکس کیے گئے ہیں۔ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے اس ماڈل پر App بھی بنائی گئی ہے کہ زکوٰۃ دینے والا اور وصول کرنے والا دونوں ایک دوسرے کو آن لائن جان سکتے ہیں کہ میرا پیسہ کس طرح اور کس بزنس میں جاکر لگا ہے۔
میں نے یہ ماڈل ایک کانفرنس میں بیان کیا جہاں حکومتی نمائندے بھی موجود تھے لیکن وہ کسی وجہ سے اس میں دلچسپی ظاہر نہیں کررہے تھے۔ بعد ازاں گورنمنٹ آف عمان کےلوگوں نے اس میں دلچسپی لی اور انھوں نے ہم سے اس کی تفصیلات مانگیں، جو ہم نے انھیں فراہم کردیں۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اگر زکوٰۃ کو صحیح tool کے طور پر اختیار کرلیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ پاکستان سے غربت کا خاتمہ نہ ہوسکے۔
مذکورہ دونوں ماڈلز کی روشنی میں اب دو صورتیں ہوسکتی ہیں کہ یا تو ہم حکومت کا انتظار کریں کہ وہ کوئی پالیسی بنائے اور ہم اس کو مان لیں اور عمل کرلیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حکومت کے تعاون اور اقدامات کا انتظار نہ کریں بلکہ خود ہاتھوں سے ہاتھ ملاکر متعلقہ لوگ اس سمت میں قدم اٹھاتے چلے جائیں۔ اس ماڈل کا کاروباری حضرات اپنے اپنے چیمبرز سے آغاز کرسکتے ہیں اور اس ماڈل کو کامیاب کرکے حکومتِ پاکستان کے سامنے رکھ سکتے ہیں کہ ہم نے اس ماڈل کے ذریعے اتنے سالوں میں اتنی بے روزگاری کا خاتمہ کردیا ہے تاکہ حکومتی سطح پر بھی وہ لوگ اس کو نافذ کرنے کے بارے میں سوچیں۔ اس ضمن میں معاشرے کو اس بات کی آگہی دینا ضروری ہے کہ زکوٰۃ کیسے دینی ہے؟ اگر تو وہی دو دو ہزار کے طریقے سے زکوٰۃ دینی ہے تو اس سے کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہونےوالا، سوائے اس کے کہ وقتی طور پر راشن آجاتا ہے اور رمضان المبارک اچھا گزر جاتا ہے غربت ختم نہیں ہوتی۔
ممکن ہے علمائے کرام زکوٰۃ کے حوالے سے فقہی پابندی اور تقاضے کا سوال کریں کہ جن کو قرض دے رہے ہیں، اسے رب المال بنارہے ہیں تو اس پر زکوٰۃ کا اطلاق کیسے ہوگا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے پاس خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ماڈل بھی ہے جو اس پر دلیل ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم قرض استعمال کرنے والے کو رب المال بنارہے ہیں بلکہ اس زکوٰۃ کو جمع کرنے والے محکمے کو رب المال بنادیں۔ یعنی جب پیسہ جمع ہو تو وہ محکمہ رب المال ہے جو اس مد میں آنے والا پیسہ غربت کے خاتمے کے علاوہ کسی اور مد میں خرچ نہیں کرے گا۔ رقم recycle ہوکر واپس غریبوں کی بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ہی خرچ ہوگی۔
وہی اقوام ترقی کرتی ہیں جہاں معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشرتی ذمہ داریوں پر بھی توجہ دی جائے۔ تاجر برادری کو بھی اسی احساس کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔
خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں بیت المال کا تصور تھا اور بیت المال کے سوا کوئی سنٹرل بنک نہیں تھا۔ اس وقت کی اسلامی ریاست کے پاس زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس نہیں تھا، صرف زکوٰۃ ہی ریاست کی آمدن کا بنیادی ذریعہ تھی۔ اسی زکوٰۃ کے پیسے سے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بنتے، لوگوں کی غربت بھی دور ہوتی تھی اور وظائف بھی دیے جاتے تھے۔ لہذا خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ماڈل کے علاوہ اور کوئی ماڈل نہیں جو ہمارے لیے قابلِ تقلید ہو۔
زکوٰۃ کے اس ماڈل کو اپناکر ہم نہ صرف معاشی بحران سےنکل سکتے ہیں بلکہ بہت قلیل عرصہ میں لاکھوں افراد کو خطِ غربت سے نکال کر باعزت زندگی گزارنے کے قابل بناسکتے ہیں۔ ضرورت صرف نیت ، خلوص، ارادہ اور مخلوقِ خدا کی بھلائی کے نقطہ نظر کو اپنانے کی ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہمیں حضور نبی اکرمﷺ کے صدقے کامیابی سے سرفراز فرمائے گا۔