وفا بالرسول ﷺ اور نصرتِ دین کی تاریخ کا اولین باب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت مبارکہ ہے۔ آپ کی وفا شعاری، محبت و تعظیمِ رسول ﷺ، نصرتِ دین اور انفاق فی سبیل اللہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے بے پناہ محبت و عقیدت اور تعظیم رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ایک عاشقِ صادق، خادمِ خاص اور ایک جانثارِ کی طرح زندگی بسر کر کے یہ ثابت کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے نبی محترم ومحتشم ﷺ کےحقیقی وفادار ہیں۔ جانثاری، وفاداری، انفاق فی سبیل اللہ اور عشق و محبت کے راستوں میں سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت صفِ اول میں نمایاں نظر آتی ہے۔ عشقِ رسول ﷺ کے باب میں ان کی سوانح حیات کا ایک ایک ورق اور ایک ایک سطر کھلی کتاب کی طرح امتِ مسلمہ کے لیے ہدایت و رشد کا سامان ہے۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اپنے آقا ومولی تاجدار کائنات سید المرسلین ﷺ کے ساتھ وفاداری و جانثاری کا تعلق ایک روشن و منور گوشہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے خیر البشر سید الکونین و الثقلین رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ عالیہ سے براہ راست تعلیم و تربیت اور اخلاقیات کا اکتساب کیا تھا۔ اسی طرح کتاب اللہ کی آیات بینات اور ان کے معانی و مفاہیم اور اسرار و رموز کی معرفت بھی وافر و کثیر براہ راست بارگاہ مصطفوی ﷺ سے حاصل کی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے قرآن حکیم اور احکام رسول ﷺ پر ہمیشہ عمل کیا۔ مکارمِ اخلاق پر تربیت نبوی ﷺ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اخلاق کریمانہ کو جلا بخشی۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:اگر بحرین کا مال ( جز یہ) آیا تو میں تمہیں اتنا اتنا تین لپ مال دوں گا۔ لیکن بحرین سے مال آنے سے پہلے ہی آپ ﷺ وصال فرماگئے:
فَأَمَرَ أَبُو بَكْرٍ مُنَادِيًا فَنَادَى مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ عِدَةٌ أَوْ دَيْنٌ، فَلْيَأْتِنَا، فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَعَدَنِي فَحَثَى لِي ثَلاَثًا.
(بخاری، الصحیح، 2: 917، الرقم: 2458)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک منادی سے یہ اعلان کرنے کے لیے کہا کہ جس سے حضور نبی ا کرم ﷺ کا کوئی وعدہ ہو یا آپ ﷺ پر اس کا کوئی قرض ہو تو وہ ہمارے پاس آئے۔ چنانچہ میں آپ کے ہاں گیا اور کہا کہ حضور نبی ا کرم ﷺ نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا یہ سن کر انہوں نے تین لپ بھر کر مجھے دئیے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ عمل آپ کی حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت و اطاعت میں فنا ہونے کا ایک عملی اظہار ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے کیے گئے وعدے کو بھی بلاتامل نبھایا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر حضورنبی اکرم ﷺ کے وصال مبارکہ کے بعد بھی آپ حضور نبی اکرم ﷺ کے فرمان کو بہر صورت پورا فرمارہےہیں تو حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں آپ ﷺ کے فرامین پر عمل درآمد میں کس قدر محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہوں گے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ اپنے گرد پھیلی ہوئی گمراہیوں، غلط رسوم و رواج، اخلاقی و معاشرتی برائیوں سے پاک صاف ہونے کے ساتھ ساتھ اوصاف حمیدہ سے بھی متصف تھے۔ آپ کے اعلیٰ محاسن و کمالات اور خوبیوں کی بنا پر مکہ مکرمہ اور اس کے قرب و جوار میں آپ رضی اللہ عنہ کو محبت و عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ حضرت سیدنا سلیمان بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اچھی خصلتیں تین سوساٹھ ہیں اور اللہ جب کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی ذات میں ایک خصلت پیدا فرمادیتا ہے اور اسی کے سبب اسے جنت میں بھی داخل فرمادیتا ہے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! کیا میرے اندر بھی ان میں سے کوئی خصلت موجود ہے؟ ارشاد فرمایا: اے ابوبکر! تمہارے اندر تو یہ ساری خصلتیں موجود ہیں۔
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفاداری، اعتماد اور عظمت کے بارے میں یوں گویا ہوتے ہیں:
إِذا تَذَكَّرتَ شَجواً مِن أَخي ثِقَةٍ
فَاِذكُر أَخاكَ أَبا بَكرٍ بِما فَعَلا
آپ کو کسی قابل بھروسہ بھائی کا غم یاد ہوتو اپنے بھائی ابوبکر کو یاد کرو جو کچھ انہوں نے (دین اسلام کے لیے)کیا۔
خَيرَ البَرِيَّةِ أَتقاها وَأَعدَلَها
إِلّا النَبِيَّ وَأَوفاها بِما حَمَلا
لوگوں میں سب سے بہتر اور ان میں سے سب سے زیادہ متقی اور عادل تھے۔سوائے نبی مکرم ﷺ کے، اور لوگوں میں سے سب زیادہ ان کے دین کے وفادار تھے۔
الثانِيَ الصادِقَ المَحمودَ مَشهَدُهُ
وَأَوَّلَ الناسِ مِنهُم صَدَّقَ الرُسُلا
اور نبی کریم ﷺ کے بعد دوسرے سچے اور قابل تعریف شخص ہیں اور لوگوں میں سب سے پہلے وہ جنہوں نے رسولوں کی تصدیق کی۔
وَثانِيَ اِثنَينِ في الغارِ المُنيفِ وَقَد
طافَ العَدُوُّ بِهِ إِذ صَعَّدَ الجَبَلا
اور دو میں سے دوسرے جو بلند غار میں موجود تھے۔جس کا دشمن پہاڑ پر چڑھتے ہی طواف کر رہا تھا۔
وعاشَ حَمداً لِأَمرِ اللهِ مُتَّبِعاً
بِهَديِ صاحِبِهِ الماضي وَما اِنتَقَلا
آپ نے خدا کے حکم کی تعریف میں زندگی گزاری اور اس پر عمل کیا۔اور اپنے صاحب (حضور ﷺ )کی ہدایت پر عمل پیرا رہے اور اس سے اعراض نہیں برتا۔
وَكانَ حِبَّ رَسولِ اللهِ ﷺ قَد عَلِموا
مِنَ البَرِيَّةِ لَم يَعدِل بِهِ رَجُلا
(الحماسۃ المعربیۃ، 2: 788)
وہ رسول خدا ﷺ کے محبوب تھے اور لوگ اس شے کو جانتے تھے۔مخلوق میں سے اور کوئی آدمی ان کے ہم پلہ نہ تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سفر ہجرت کا پسِ منظر
نبی اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، اپنے والدین کو دین حق کی پیروی کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ صبح و شام دونوں وقت رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو سخت اذیت دی جانے لگی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کی نیت سے (مکہ سے) نکلے۔ جب آپ برک الغماد کے مقام پر پہنچے تو انہیں ابن دغنہ ملا جو قبیلہ قارہ کا سردار تھا۔ اس نے پوچھا: اے ابوبکر! کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ زمین کی سیروسیاحت کروں اور اپنے رب کی یکسوئی سے عبادت کروں۔ ابن دغنہ کہنے لگے:
فَإِنَّ مِثْلَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ لاَ يَخْرُجُ وَلاَ يُخْرَجُ، إِنَّكَ تَكْسِبُ المَعْدُومَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ.
تمہارے جیسا شخص نہ تو نکلنے پر مجبور ہو سکتا ہے اور نہ اسے کوئی نکال ہی سکتا ہے کیونکہ ضرورت مند محتاج لوگوں کے پاس جو چیز نہیں ہوتی تم انہیں مہیا کرتے ہو، رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہو، ناداروں کی کفالت اور مہمانوں کی ضیافت کرتے ہو اور راہِ حق میں اگر کسی کو مصیبت آئے تو تم اس کی مدد کرتے ہو۔
لہذا میں تمہیں پناہ دیتا ہوں تم (مکہ) لوٹ چلو اور اپنے شہر میں رہ کر اپنے رب کی عبادت کرو۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ابن دغنہ کے ساتھ مکہ واپس آ گئے۔ اس کے بعد ابن دغنہ رات کے وقت قریش کے سرداروں سے ملا اور ان سے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا شخص نہ تو نکلنے پر مجبور ہو سکتا ہے اور نہ اسے کوئی نکال ہی سکتا ہے:
أَتُخْرِجُونَ رَجُلًا يَكْسِبُ المَعْدُومَ وَيَصِلُ الرَّحِمَ، وَيَحْمِلُ الكَلَّ وَيَقْرِي الضَّيْفَ، وَيُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ.
کیا تم ایسے شخص کو نکالتے ہو جو لوگوں کو وہ چیزیں مہیا کرتے ہیں جو ان کے پاس نہیں ہوتیں، وہ رشتہ داروں سے اچھا سلوک اور بے کسوں کی کفالت کرتا ہے، مہمان نوازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اور جب کبھی کسی کو راہِ حق میں تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی مدد کرتا ہے۔
قریش نے ابن دغنہ کی پناہ کو مسترد نہ کیا۔ البتہ اس سے کہا کہ تم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہہ دو کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں اور وہیں نماز یا جو چاہیں ادا کریں۔ اعلانیہ یہ کام کر کے ہمارے لیے اذیت کا باعث نہ بنیں کیونکہ یہ کام اعلانیہ کرنے سے ہمیں اپنی عورتوں اور بچوں کے بگڑنے کا اندیشہ ہے۔
ابن دغنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام پہنچا دیا تو انہوں نے اس شرط کے مطابق مکہ میں دوبارہ رہائش رکھ لی۔ چنانچہ وہ اپنے گھر میں اپنے پروردگار کی عبادت کرتے۔ نہ تو نماز اعلانیہ ادا کرتے اور نہ اپنے گھر کے علاوہ کسی دوسری جگہ تلاوت ہی کرتے۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال میں آیا تو انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنائی، وہاں نماز ادا کرتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے۔ پھر ایسا ہوا کہ مشرکین کی عورتیں اور بچے بکثرت ان کے پاس جمع ہو جاتے، سب کے سب تعجب کرتے اور آپ کی طرف متوجہ رہتے۔ چونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑی گریہ و زاری کرنے والے شخص تھے، جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو انہیں اپنی آنکھوں پر قابو نہیں رہتا تھا۔ یہ حال دیکھ کر سردارانِ قریش گھبرا گئے۔
بالآخر انہوں نے ابن دغنہ کو بلا بھیجا۔ اس کے آنے پر انہوں نے شکایت کی کہ ہم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تمہاری وجہ سے اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں، مگر انہوں نے اس سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنا لی ہے جس میں اعلانیہ نماز ادا کرتے اور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے بگڑ جائیں گے، لہذا تم انہیں منع کرو اور اگر وہ اسے منظور کر لیں کہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں تو امان برقرار ہے اور اگر نہ مانیں اور اس پر ضد کریں کہ اعلانیہ عبادت کریں گے تو تم اپنی پناہ ان سے واپس مانگ لو کیونکہ ہم لوگ تمہاری پناہ کو توڑنا پسند نہیں کرتے لیکن ہم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اعلانیہ عبادت کو کسی صورت بھی برقرار نہیں رکھ سکتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ابن دغنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تم سے کس بات پر معاہدہ کیا تھا، لہذا تم اس پر قائم رہو یا پھر میری امان مجھے واپس کرو کیونکہ میں یہ نہیں چاہتا کہ عرب کے لوگ یہ خبر سنیں کہ جس کو میں نے امان دی تھی، اسے پامال کر دیا گیا ہے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
فَإِنِّي أَرُدُّ إِلَيْكَ جِوَارَكَ، وَأَرْضَى بِجِوَارِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
میں تیری امان واپس کرتا ہوں اور میں صرف اللہ عزوجل کی امان پر خوش ہوں۔
حضور نبی اکرم ﷺ اس وقت مکہ ہی میں تھے اور آپ ﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا تھا:
إِنِّي أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ، ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لاَبَتَيْنِ.
’’مجھے تمہاری ہجرت کی جگہ دکھائی گئی ہے۔ وہاں کھجوروں کے درخت ہیں اور اس کے دونوں طرف پتھریلے میدان ہیں۔‘‘
یہ سن کر جس نے ہجرت کی تو وہ مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوا اور اکثر لوگ جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، وہ بھی مدینہ طیبہ کی طرف لوٹ آئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی مدینہ طیبہ جانے کی تیاری کی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:
عَلَى رِسْلِكَ، فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي.
’’ٹھہر جاؤ کیونکہ امید ہے کہ مجھے بھی اجازت مل جائے گی۔‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا تعجل لعل الله يجعل لك صاحبا.
(المعجم الکبیر، 22: 177، رقم: 462)
اے ابو بکر! جلدی نہ کرو، اللہ آپ کا صاحب مقرر فرما دے گا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! کیا آپ ﷺ کو اس کی امید ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ہاں۔‘‘ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کے لیے روک لیا اور اپنی دونوں اونٹنیوں کو چار ماہ تک کیکر کے پتے کھلاتے رہے۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عروہ نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر میں دوپہر کے وقت بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا: دیکھو یہ رسول اللہ ﷺ اپنے سر پر چادر اوڑھے تشریف لا رہے ہیں۔ آپ ﷺ پہلے کبھی اس وقت ہمارے پاس نہ آتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان پر میرے ماں باپ قربان ہوں! اللہ کی قسم! وہ اس وقت کسی خاص ضرورت ہی سے آئے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور آپ ﷺ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ کو اجازت دی گئی۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے اندر آ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’اپنے لوگوں سے کہو ذرا باہر چلے جائیں۔‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ ! یہاں تو آپ ہی کے گھر والے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
فَإِنِّي قَدْ أُذِنَ لِي فِي الخُرُوجِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: الصَّحَابَةُ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: نَعَمْ.
(بخاری الصحیح، 2: 804، الرقم: 2157)
مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے بھی ساتھ لیجیے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے۔‘‘
اس طرح سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کی معیت میں سفرِ مدینہ کے لیے روانہ ہوگئے۔
بطورِ امیرالمومنین ذریعۂ معاش
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیعت خلافت کے دوسرے روز کچھ چادریں لے کر بازار جارہے تھے، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟ فرمایا: بغرض تجارت بازار جارہا ہوں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اب آپ رضی اللہ عنہ یہ کام چھوڑ دیجئے، اب آپ لوگوں کے خلیفہ (امیر) ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میں یہ کام چھوڑ دوں تو پھر میرے اہل و عیال کہاں سے کھائیں گے؟ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آپ رضی اللہ عنہ واپس چلئے، اب آپ رضی اللہ عنہ کے یہ اخراجات حضرت سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ طے کریں گے۔ پھر یہ دونوں حضرات حضرت سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور ان سے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل و عیال کے واسطے ایک اوسط درجے کے مہاجر کی خوراک کا اندازہ کرکے روزانہ کی خوراک اور موسم گرما و سرما کا لباس مقرر کیجئے لیکن اس طرح کہ جب پھٹ جائے تو واپس لے کر اس کے عوض نیا دے دیا جائے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے آدھی بکری کا گوشت، لباس اور روٹی مقرر کردی۔
(تاریخ الخلفاء، امام سیوطی، ص: 59)
امام عالی مقام سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: دیکھو! یہ اونٹنی جس کا ہم دودھ پیتے ہیں اور یہ بڑا پیالہ جس میں کھاتے پیتے ہیں اور یہ چادر جو میں اوڑھے ہوئے ہوں یہ سب بیت المال سے لیا گیا ہے۔ ہم ان سے اسی وقت تک نفع اٹھاسکتے ہیں جب تک میں مسلمانوں کے امور خلافت انجام دیتا رہوں گا۔ جس وقت میں وفات پاجاؤں تو یہ تمام سامان حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دے دینا۔ چنانچہ جب آپ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے یہ تمام چیزیں حسب وصیت واپس کردیں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چیزیں واپس پاکر فرمایا:
’’اے ابوبکر! اللہ آپ پر رحم فرمائے کہ آپ نے تو اپنے بعد میں آنے والوں کو تھکادیا ہے‘‘۔
(تاریخ الخلفاء، امام سیوطی، ص: 60)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ پہلی ہستی ہیں جن کے مال سے سب سے پہلے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ انہوں نے اپنا مال اسلام کی نشرو اشاعت اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور مصالحہ عامہ کے لیے سخاوت کے ساتھ خرچ کیا۔ آپ نے ان اہلِ حق کو کفار کی غلامی سے چھٹکارا دلانے کے لیے مال خرچ کیا جن کو کفار طرح طرح کی اذیتیں اور درد ناک تکالیف پہنچاتے تھے حتی کہ ان کی جان لینے تک کا ارادہ رکھتے تھے۔کتب سیر و تاریخ میں ایسے عظیم صبرو استقامت والے صحابہ کی تعداد سات آئی ہے ان میں سے سر فہرست حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
أبو بكر سيدنا وأعتق سيدنا يعني بلالاً.
(حلیۃ الاولیاء، 1: 147)
’’حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار بلال کو آزاد کرایا۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ أَنْفَقَ زَوْجًا أَوْ قَالَ: زَوْجَيْنِ مِنْ مَالِهِ أُرَاهُ قَالَ: فِي سَبِيلِ اللَّهِ، دَعَتْهُ خَزَنَةُ الْجَنَّةِ: يَا مُسْلِمُ، هَذَا خَيْرٌ هَلُمَّ إِلَيْهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا رَجُلٌ لَا تُودَى عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: مَا نَفَعَنِي مَالٌ قَطُّ إِلَّا مَالُ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ: وَهَلْ نَفَعَنِي اللَّهُ إِلَّا بِكَ، وَهَلْ نَفَعَنِي اللَّهُ إِلَّا بِكَ، وَهَلْ نَفَعَنِي اللَّهُ إِلَّا بِكَ۔
(احمد بن حنبل، المسند، 2: 366، الرقم: 8776)
جو شخص اپنے مال میں سے ایک یا دو جوڑے والی چیزیں اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اسے جنت کے خازن بلاتے ہیں کہ اے مسلمان! یہ خیر ہے، اس کی طرف آگے بڑھ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اس شخص پر کوئی تباہی نہیں آسکتی۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ابوبکر کے مال نے مجھے جتنا نفع پہنچایا ہے، اتنا کسی کے مال نے نفع نہیں پہنچایا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اور میرا مال آپ ہی کا تو ہے۔ اللہ نے مجھے آپ کے ذریعے فائدہ پہنچایا ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ما لأحد عندنا يد إلا كافأناه عليها ما خلا أبا بكر فإن له عندنا يدًا يكافئه الله به يوم القيامة.
(الترمذی، السنن، 5: 609، الرقم: 3661)
’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ جس شخص نے ہم پر کوئی احسان کیا تھا، ہم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے، لیکن انہوں نے جو کچھ ہمیں عطا کیا ہے، اس کی جزا روز قیامت اللہ ہی انہیں عطا فرمائے گا۔ کسی شخص کے مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے مجھے فائدہ پہنچایا ہے، اگر میں نے کسی شخص کو خلیل بنانا ہوتا تو میں ابوبکر کو خلیل بناتا، سن لو ! تمہارا صاحب، اللہ کا خلیل ہے۔‘‘
حضرت ابوبکرصدیق ﷺ کو اللہ تعالیٰ اور بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں خصوصی اہمیت و فضیلت حاصل تھی۔ قرآن مجید کی تقریباً 32 آیات آپ کے متعلق ہیں جن سے آپ کی شان کا اظہار ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سیرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ سے اکتسابِ فیض کرتے ہوئے اپنے اقوال، اعمال اور احوال بدلنے کی توفیق عطا فرمائے اور محبتِ رسول ﷺ کی خیرات سے ہمارے قلوب و ارواح کو منور فرمائے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں سیرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے اکتساب کرنےاور ان کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔