اللہ رب العزت نے انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لئے ہر دور میں علم، عمل اور کردار کے ایسے چراغ عطا کئے ہیں جن کی روشنی سے زمانہ منور رہتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ان ہستیوں کے نقش قدم کی تلاش کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.
(الفاتحة: 6)
’’اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا‘‘۔
اللہ ان ہستیوں کو علم و عمل کے ساتھ ساتھ فراست و بصیرت کانور بھی عطا فرماتا ہے۔ یہ بندگان خدا صرف درس و تدریس کا فریضہ سرانجام نہیں دیتے، اپنی خانقاہوں میں محض اللہ اللہ کی ضربوں سے قلب کے احوال کو بدلنے کا ہی کام نہیں کرتے بلکہ یہ انعام یافتہ بندے اتنی بصیرت رکھتے ہیں کہ حال میں رہتے ہوئے مستقبل کا مشاہدہ کرلیتے ہیں۔
ان کی فراست و بصیرت کا ذکر کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِتَّقُوْا فِرَاسَةِ الْمُوْمِنِ وَهُوَ يَنْظُرُ مِنْ نُوْرِاللّٰه. (ترمذی)
’’مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔
نورِ خداوندی کے فیض سے یہ بندگانِ خدا اپنی قوم کے مسائل سے باخبر رہتے ہیں، قوم پر مستقبل میں آنے والے فتنوں اور آزمائشوں سے آگاہ رہتے ہیں اور بروقت ان کا حل دے کر قوم کو نقصان سے بچاتے ہیں۔
بصیرتِ خضری
بنی اسرائیل کے انعام یافتہ بندوں میں ایک عظیم نام ’’بلیا بن ملکان‘‘ ہے، جن کی کنیت ’’ابوالعباس‘‘ اور لقب ’’خضر‘‘ ہے۔ اللہ رب العزت نے انہیں علم اور رحمت کا وسیع خزانہ عطا فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا.
(الکهف، 18: 65)
’’تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر e) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا‘‘۔
اللہ رب العزت نے خضر علیہ السلام کے اوصاف بیان فرمانے کے بعد سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات اور ان کے ہمراہ ایک سفر کا تفصیلی تذکرہ فرمایا۔ اگر ہم تینوں واقعات یعنی خضر علیہ السلام کا کشتی میں سوراخ کرنا، ایک معصوم بچے کو قتل کرنا اور دو یتیم بچوں کے خزانے کی حفاظت کے لئے دیوار تعمیر کرنا کا بغور مطالعہ کریں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے خضر علیہ السلام کو علم اور رحمت کی خیرات کے ساتھ ساتھ بصیرت کا ایسا نور عطا فرمایا تھا جس سے وہ مستقبل میں اپنی قوم پر آنے والے سیاسی، مذہبی اور معاشی فتنوں اور آزمائشوں سے باخبر تھے۔ انہوں نے نہ صرف وقت سے پہلے ان فتنوں کا اندازہ لگایا بلکہ ان کا حل تجویز کرکے عملی جدوجہد کے ساتھ قوم کو اس فتنے و عذاب سے بھی بچایا۔
تینوں واقعات میں خضر علیہ السلام کی بصیرت کے حسب ذیل تین پہلو نمایاں دکھائی دیتے ہیں:
1۔ سیاسی بصیرت 2۔مذہبی بصیرت 3۔معاشی بصیرت
- سیاسی بصیرت
قوم کے سیاسی حقوق کا تحفظ، حکمرانوں کے فتنوں اور ان کی ظلم کی کارروائیوں سے باخبر رہنا اور قوم کو ان کے ظلم سے بچانا یہ وہ بصیرت ہے جو اللہ رب العزت نے حضرت خضرں کو عطا کی تھی۔اپنے سفر کے پہلے واقعہ میں حضرت خضرں نے بادشاہ (حکمران) کے فتنوں اور ظلم کے ارادوں کو پہلے ہی بھانپ لیا اور پھر کشتی میں سوراخ کر کے افرادِ معاشرہ کو ظالم حکمران کے ظلم سے بچایا۔ یہ واقعہ آپ کی بہترین سیاسی بصیرت کا نمونہ ہے۔
- مذہبی بصیرت
افرادِ معاشرہ کے ایمان کا تحفظ کرنا، انہیں ان فتنوں سے بچانا جو ان کے ایمان کو تباہ کرنے والے ہوں۔ دولت ایمان کو لوٹنے والے تمام فتنوں کا قلع قمع کرنا۔ فتنوں سے بچانے کے ساتھ ساتھ انہیں فتنوں سے پاک ایمان اور سلامتی والی متبادل زندگی عطاکرنا اعلی مذہبی بصیرت اور نہایت دور اندیشی کی صلاحیت کے بغیر ممکن نہیں۔
دوسرے واقعہ میں آپ نے ایک خاندان کے ایمان کا تحفظ کرتے ہوئے اسے مستقبل میں پیدا ہونے والے اس فتنے سے بچایا جس نے نہ صرف بچے اور اس کے ایمان بلکہ اس کے والدین کے ایمان کو بھی برباد کرنا تھا۔ آپ نے نہ صرف انہیں اس فتنے سے بچایا بلکہ بہترین متبادل بھی عطا کیا۔اس سے حضرت خضرں کو عطا کی گئی مذہبی بصیرت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
- معاشی بصیرت
قوم کے روز گار کا تحفظ کرنا، ان کے ہونے والے معاشی نقصان کا وقت سے پہلے جائزہ لے لینا، قومی وراثت کا تحفظ کرنا، لوگوں کے مال و اسباب کو لٹنے سے بچانا اور خصوصاً یتیم اور بے سہارا لوگوں کے مال و اسباب اور مستقبل کا تحفظ کرنا اسی شخصیت کا کام ہے جسے اللہ نے معاشی بصیرت سے سرفراز فرمایا ہو۔ حضرت خضرں کو اللہ رب العزت نے معاشی امور کی بھی مکمل بصیرت عطا کی تھی۔ آپ نے پہلے واقعہ میں ایک خاندان کا روزگار بچا کر انہیں فاقوں مرنے سے بچایا۔ جبکہ تیسرے واقعہ میں گری ہوئی دیوار کو دیکھ کر آپ کو ادراک ہوگیا تھا کہ یتیم بچوں کی وراثت لٹ جائے گی۔ لہذا خضرں نے ان کی دیوار تعمیر کر کے ان کی وراثت کو محفوظ کیا گویا انہیں مستقبل کا معاشی تحفظ دیا۔
حضرت خضر ں کو اللہ رب العزت کے عطا کردہ علم لدنی اور رحمت کی برکت سے نہ صرف مستقبل کے احوال و واقعات کو دیکھنے کی صلاحیت حاصل تھی بلکہ وہ قوم کو ان نقصان سے بچانے کا حل بھی تلاش فرماتے اور اپنی عملی جدوجہد سے ان فتنوں کا قلع قمع کر کے قوم کا تحفظ بھی فرماتے ۔ لہذا خضرں نے تینوں گھرانوں کو نقصان سے بچایا۔ ایک کو ظالم حکمران کے ظلم اور بے روزگاری سے بچایا دوسرے کا ایمان اور تیسرے گھرانے کی وراثت کو بچایا۔
ہر دور میں اوصافِ خضری کے حامل مردانِ حق
ہر دور میں ایک خضر ہوتا ہے جو اپنے منصب و مقام کے مطابق اس دور میں اصلاحِ احوال کا فریضہ ادا کرتا ہے اور مینارہ نور بن کر تجدیدِ دین کا بیڑہ اٹھاتا ہے۔ چونکہ اللہ رب العزت خضر کو رحمت، علم اور بصیرت کی صفات عطا کرتا ہے۔ لہذا اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مجددین بھی انہی اوصاف سے متصف ہوتے ہیں۔ بعض اوقات صفتِ رحمت غالب ہوتی ہے اور کبھی صفتِ علم زیادہ غالب ہوتی ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا جائے گا اس کے تقاضوں کے مطابق آنے والے خضر کی ذمہ داریوں اور تقاضوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اﷲَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُّجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.
(ابوداؤد فی السنن، کتاب: الملاحم، باب: مايذکر فی قرن المائة، 4/109، الرقم: 4291)
’’اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص (یا اشخاص) کو پیدا فرمائے گا جو اس (امت) کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔‘‘
اصلاح کا فریضہ سرانجام دینے والا مجدد اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے باعث مقامِ خضر پر فائز ہوتا ہے۔ اس کا مقصد امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایسے اقدامات کرنا ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کے دین کا تحفظ ممکن ہو، انہیں ایمان پر قائم رہنے کا ماحول میسرآئے، ان کے سیاسی اور معاشی حقوق کا تحفظ ہو سکے، کوئی بد دیانتی، کرپشن اور لوٹ مار سے ان کا مال نہ لوٹ سکے۔ معاشرے کے غریبوں محتاجوں اور مساکین کا معاش اور مستقبل محفوظ ہو۔ دینی اقدار اور تعلیمات میں تحریف نہ ہوسکے۔ دین ایک صدی (چار نسلیں) گزرنے سے بوسیدہ نہ ہو اور نہ ہی زمانے کے انقلابات اسے بدل سکیں۔ گویا اللہ رب العزت دین کی بقا، حفاظت اور تجدید کا برابر انتظام کرتا رہے گا۔ لہٰذا ہر دور اور ہر قرن میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو زمانہ کی ہواؤں سے دین پر پڑنے والی گرد وغبار کو جھاڑتے رہیں گے۔
مندرجہ بالا سطور کی روشنی میں یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ مجددِ دین ہی ہدایت وراہنمائی کے باعث خضر کا اصلی وحقیقی استعارہ ہے۔ علم ، معرفت، عمل، جدوجہد، رحمت، مدد ونصرت دین، تصنیف وتالیف، احیاء سنت، محبت وعشق، سلوک وتصوف، فصاحت وبلاغت، گفتگو وخطابت یہ اور اس قبیل کے جملہ اوصاف جب ایک جگہ پر مجتمع ہو جائیں تو ایسی شخصیت ’’خضر‘‘ کے عظیم منصب پر ہی فائز ہوتی ہے۔
15 ویں صدی میں بصیرتِ خضر کی حامل شخصیت
اس بد ترین دورِ فتن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے علم و رحمت کی خیرات لے کر، حضورسیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی بارگاہ سے فیضانِ غوثیت اور بصیرتِ خضری سمیٹ کر، قدوۃ الاولیاء پیر سیدنا طاہر علاؤالدین رضی اللہ عنہ کے دستِ اقدس کو بوسہ دے کر دورِ حاضر میںدہشت گردی کے اندھیروں میں امن کا چراغ جلایا۔ آپ کی فروغِ امن کے لئے خدمات کے نتیجے میں اسلام کے دامن پر لگا بد نما داغ صاف ہوا۔ مسلمانوں کو دنیا بھر میں عزت و وقار میسر آیا۔
ان صفحات میں ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے علم اور آپ کے دیگر اوصاف کا تذکرہ نہیں کررہے بلکہ آپ کی شخصیت میں موجود بصیرتِ خضری کا جائزہ لے رہے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بصیرت
اللہ رب العزت نے حضرت خضرں کوسیاسی، مذہبی اور معاشی بصیرت عطا کررکھی تھی۔ سیدنا خضرں مستقبل میں آنے والے فتنوں کا ادراک فرما لیتے اور ان فتنوں کے تدارک کا حل بھی تلاش فرما دیتے۔ جن امور میںافرادِ معاشرہ کے سیاسی، معاشی اور مذہبی کسی بھی نقصان کا خطرہ ہوتا اس کا نہ صرف تدارک فرماتے بلکہ اس کا اچھا بدل بھی عطا فرما تے۔ غاصب وظالم حکمران کے اطوار سے واقف سیدنا خضر ں نے نوجوان کی کشتی کو شکستہ کیا کیونکہ آپ صاحبِ بصیرت تھے اور جانتے تھے کہ ظالم وغاصب حکمران اس کشتی پر قابض ہو کر اس خاندان کا ذریعۂ معاش برباد کر دے گا۔ اس خضری بصیرت سے معلوم ہوا کہ جب حکمران ظالم ہوں تو بصیرتِ خضری کا تقاضا یہی ہے کہ جو کوئی اس ظلم کی زد میں آ رہا ہو اسے بچایا جائے یا کم از کم متنبہ کیا جائے ۔ اسی بصیرت کے طفیل آپ نے اپنی قوم کے افراد کو آنے والے ممکنہ خطروں اور فتنوں سے بچایا۔
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے اس دور میں جس ہستی کو اوصافِ خضری سے نوازا ہے، اسے اللہ نے کس قدر بصیرت عطا کی ہے۔
اللہ رب العزت نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو علم اور رحمت کے ساتھ ساتھ بصیرت کی نعمت بھی وافر عطا فرمائی ہے۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ سے آپ کو حاصل مذہبی، سیاسی اور معاشی بصیرت کے ذریعے آپ نے گزشتہ تین دہائیوں میں بیسیوں مرتبہ قوم کو آنے والے فتنوں سے آگاہ کیا ان سے بچنے کا نہ صرف حل دیا بلکہ قوم کو اس عذاب سے بچانے کے لئے ہر ممکن جدوجہد کی اور تا حال جاری ہے۔
- مذہبی بصیرت
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 1980ء کی دہائی میں جب وطن عزیز کے مذہبی ماحول کا جائزہ لیا تو آنے والے دور میں جن فتنوں کا سامنا ہونا تھا، اس سے آگاہ کیا۔ ان میں چند اہم حسب ذیل ہیں:
دینی و دنیاوی تعلیم کا امتزاج
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے جب تجدید و احیائے دین کا آغاز کیا تو اس وقت مذہبی طبقات باہم دست وگربیاں تھے۔ فتوی بازی، مناظرہ اور دلائل وبراہین سے عاری گفتگو کرنے کا ماحول تھا۔ علم اور بنیادی ماخذ سے رجوع نہ ہونے کے برابر تھا۔ مذہبی اور غیر مذہبی طبقات الگ الگ اپنی اپنی سمتوں(Dimentions) میں کام کر رہے تھے۔ مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے والے مولوی اور سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز سے پڑھنے والے بابو اور آفیسرز کہلاتے تھے۔ دونوں طبقات کے اندر ایک نفرت کی بڑی دیوار کھڑی تھی کہ جس کو عبور کرکے دونوں طبقات کو باہم شیر وشکر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے جب 1985ء میں جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھی تو اس میں دینی ومذہبی علوم کے ساتھ ساتھ جدید عصری علوم کو بھی لازم قرار دیا۔ جس کی بناء پر مذہبی طبقات جو کہ بصیرت سے عاری تھے، جو انگریزی اور عصری تعلیم کو شجرِ ممنوعہ سمجھتے تھے، انہوں نے فتووں کا بازار گرم کیا۔ لیکن وقت بہت بڑا استاذ ہے، وہ گزرتے لمحات کے ساتھ سب کچھ سمجھا دیتا ہے۔ صرف دس سال بعد ہی ہر مدرسہ یہی دعوی کرتا نظر آتا ہے کہ اس کے دامن میں دونوں علوم قدیم وجدید کا امتزاج موجود ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کی اس بصیرت کو ہر خاص وعام کو تسلیم کرنا پڑا۔ حکومتی سر پرستی میں اسلام آباد میں اسلامی یونیورسٹی کو قائم کیا گیا۔ تمام مدارس میں سرکاری حکم کے مطابق عصری تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا تاکہ مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے والا طالبعلم صرف ’’مولوی‘‘ اور ’’ملا‘‘ ہی نہ کہلائے بلکہ معاشرے کے لئے قابل رشک فرد بن سکے۔ الحمد للہ آج جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن، منہاج یونیورسٹی بن چکی ہے۔ جس میں جدید وقدیم تمام علوم میں ماسٹرز، ایم فل اور پی ایچ ڈیز ہو رہی ہیں، یقینا یہ شیخ الاسلام کی مذہبی بصیرت کا عملی ثبوت ہے۔
تکفیری رویے کے خاتمہ کی جدوجہد
80 اور 90ء کی دہائی کا زمانہ کفر کے فتووں کا زمانہ تھا جب تکفیریت کا عفریت منہ کھولے مذہبی ہم آہنگی اور امن و آشتی کو نگل رہا تھا۔ شیخ الاسلام کی مذہبی بصیرت کا بین ثبوت یہ ہے کہ آپ نے اس دور میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان اعلامیہ وحدت پر دستخط کیے۔ امن و محبت کا یہ معائدہ 10جنوری 1990ء کو پاکستان عوامی تحریک اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے درمیان طے پایا تاکہ شیعہ سنی فسادات کو روکا جا سکے۔ یہ ڈاکٹر طاہر القادری کی مذہبی بصیرت تھی کہ فتووں کے دور میں فتووں سے ڈرے بغیر اس قدر انتہائی قدم اٹھایا جس کے بعد فتوی بازی یقینی امر تھا۔ ہر طرف سے کفر کے فتوے برسنے لگے، شیعہ ہو جانے کا الزام لگنے لگا۔ فتوی لگانے والے شدت پسندوں کو کیا خبر تھی کہ آنے والا وقت فتوی بازی کا نہیں بلکہ مذہبی ومسلکی ہم آہنگی اور رواداری کا دور ہوگا۔
پھر وہی ہوا ایک دوسرے کو کافر و مشرک کہنے والے اتحاد بناتے رہے۔ تحریک نظام مصطفی میں مسلکی اتحاد کو بھول جانے والے کبھی MMAمیں اتحاد کرتے رہے، کبھی ملک بچانے کے نام پر انتہائی بدعقیدہ اور شدت پسند جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر کے عملاً یہ مانتے رہے کہ 1990ء میں اہل تشیع کے ساتھ مذہبی و مسلکی منافرت کے خاتمے کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کا اعلامیہ وحدت کا اعلان درست عمل تھا۔
قدامت پرستی کے نقصانات سے آگاہی
شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی مذہبی بصیرت و فراست کا اگلا واضح ثبوت ترویج و اشاعت اسلام کے سلسلے میں آپ کے موجودہ دور کے مطابق اٹھائے گئے عملی اقدامات ہیں۔ 1980ء کے اوائل میں جب تحصیلِ علم اور افشائِ علم کا واحد ذریعہ کتب تھیں، ٹیلی ویژن ہر گھر میں موجود نہ تھا۔ تصنیف و تالیف کے ساتھ آپ نے کمال بصیرت سے کام لیتے ہوئے اپنے خطابات کی آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ کا آغاز کیا۔
یہ وہ دور تھا جب علماء اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ تصویر کھنچوانا جائز ہے کہ نہیں؟ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال شرعی ہے یا غیر شرعی؟ بلکہ حقیقت کی نظر سے اگر دیکھا جائے تو ٹی وی دیکھنا حرام قرار دیا جا چکا تھا۔ تصویر کھنچوانا غیر شرعی اور حرام سمجھا جاتا تھا، بلکہ بعض کے ہاں یہ مشہور تھا کہ کیمرہ ہمارے شیخ کی تصویر نہیں کھینچتا، اگر کھینچ لی جائے تو تصویر اور کیمرہ دونوں جل جاتے ہیں۔ قائد اعظم کی تصویر والے نوٹوں سے جیبیں گرم کرکے فتوی دینے والوں نے یہ ذرا خیال نہ کیا کہ آئندہ آنے والے وقت کے تقاضے کیا ہیں۔
شیخ الاسلام کے 7000سے زائد آڈیو، ویڈیوز خطابات، متنوع موضوعات پر مختلف زبانوں میںیہ ذخیرہ علم نہ صرف انسانیت کی راہنمائی کر رہا ہے بلکہ Internetکے ذریعے برق رفتاری سے دنیا کے طول وعرض میں پھیل رہا ہے۔ یقینا یہ شیخ الاسلام کی مذہبی بصیرت کا عظیم شاہکار ہے۔
آج سے تیس سال قبل فتوی لگانے والوں اور تصویر و ویڈیو کو حرام کہنے والوں کو اپنے فتووں سے رجوع کرنا پڑا اور ایسا Uٹرن لیا کہ دعوت و تبلیغ کے لئے اپنے ٹی وی چینلز کھولنے پڑے، انٹرنیٹ اور دیگر جدید ذرائع کو اپنی تبلیغ، ترویج و اشاعتِ دین کا ذریعہ بنانا پڑا۔ لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ شیخ الاسلام کی مذہبی بصیرت دیگر مذہبی طبقات کے عملی اقدامات سے 20سال آگے ہے۔
- سیاسی بصیرت
مذہب کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے شیخ الاسلام کو سیاسی بصیرت سے بھی سرفراز فرمایا ہے۔ انہوں نے ہر موقع پر قوم کو با خبر کیا کہ ُاس کا اصل دشمن کون ہے۔ ملک و قوم کو انہوں نے متعدد مرتبہ آگاہ کیا کہ وہ کس فتنے کا سامنا کرنے والے ہیں۔ ان کی سیاسی بصیرت میں چند نمایاں پہلو حسب ذیل ہیں:
ظالمانہ نظام کی خرابیوں سے متنبہ کرنا
اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں صفاتِ خضر میں سے ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی کہ خضر علیہ السلام نے اپنے دور کے مجبور، محکوم، مظلوم طبقات کو ظالم، جابر اور غاصب حکمرانوں کے پنجہ استبداد سے بچایا ہے۔ شیخ الاسلام اوصافِ خضر کی حامل شخصیت ہیں۔ لہٰذا آپ نے اپنی سیاسی بصیرت وفراست اور تجربہ وتحقیق کی بنیاد پر اس قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اس موجودہ ظالمانہ، استحصالی نظام کے تحت تبدیلی نہیں آئے گی، اس نظام کے تحت اگر 100بار بھی الیکشن ہو جائیں، چہرے تو بدل سکتے ہیں لیکن مجبور، مقہور مظلوم طبقات کی قسمت اور مقدر نہیں بدل سکتا۔
وقت بڑا بے رحم احتساب کرتا ہے، دیکھنے والوں نے دیکھا، سننے والوں نے سنا، تجزیہ کرنے والوں نے تجزیہ کیا کہ اس ملک میں رائج جابرانہ، ظالمانہ، جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ نظام، حکمران اور طاقتور طبقات کے مفادات کا تحفظ تو کرتا ہے لیکن غریب، متوسط، سفید پوش طبقات کو مزید غربت اور پسماندگی کی حالت کی طرف دھکیل رہا ہے۔ بالآخر تمام طبقات کو اس بات کا اعتراف کرنا پڑا کہ نظام کی تبدیلی کے بغیر اصلاح کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
تبدیلیٔ نظام کے لیے عملی جدوجہد
23دسمبر 2012ء کی سرد اور ٹھٹھرتی ہوئی شام تھی جب الیکشن 2013ء قریب آ رہا تھا۔ مینار پاکستان کی وسعتوں میں انسانی سروں کے سمندر کی موجودگی میں ایک آواز اپنی سیاسی بصیرت کا اعلان کر رہی تھی، وہ آواز شیخ الاسلام کی تھی۔ لگتا یوں تھا کہ اس آواز دینے والے شخص کو فیضان و بصیرتِ خضری سے وافر حصہ ملا ہے۔ شیخ الاسلام پکار پکار کر پاکستانی قوم کو متنبہ کر رہے تھے کہ اگر اسی نظام کے تحت، اصلاح و ترمیم کیے بغیر الیکشن ہو گئے، اگر اسی غیر آئینی الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی انتخابات ہوئے تو ملکی تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوگی اور یہی کرپشن زدہ سیاسی بونے چہرے بدل کر زمامِ اقتدار سنبھالیں گے۔ ’’مک مکا‘‘ کا یہ نظام انہی وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کو تحفظ دے گا جبکہ الیکشن کے بعد کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، وہی لوٹ مار کے قصے ہوں گے، ملکی اداروں کو سستے داموں بیچا جائے گا، ملکی وسائل کو کوڑیوں کے مول بیچ کر ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
’’ڈاکٹر طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے‘‘
23دسمبراور 14جنوری2013ء کے اسلام آباد دھرنے کے بعد اس قوم کے شعور کو بڑھانے اور آئین کے مندرجات پڑھانے اور یاد کروانے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے حقوق کا شعور دیتے ہوئے یہ بتا دیا تھا کہ اگر اسی نظام کے تحت الیکشن ہوئے تو ساری قوم چیخے گی۔ پھر یہی ہوا اور 11مئی 2013ء کی شام سورج ڈھلنے کے ساتھ ہی آوازیں اور چیخیں بلند ہونا شروع ہوئیں، الیکشن کی شفافیت پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئیں،پوری قوم کی آواز تھی کہ ’’ڈاکٹر طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے‘‘، یعنی جو منظر اور نظارہ ڈاکٹر طاہر القادری کی بصیرت 6 ماہ پہلے دیکھ رہی تھی پوری قوم، دانشور اور سیاستدان اس شعور کی سطح پر 6ماہ بعد پہنچے جو کہ اس بات کا بین اور واضح ثبوت ہے کہ شیخ الاسلام کی سیاسی بصیرت آنے والے حالات کا بہتر اور مستند تجزیہ کررہی تھی جس کا اظہار متعدد، دانشور، تجزیہ نگار اور سیاستدان کر چکے ہیں۔ یقینا یہ بصیرت وفراست ہر کسی کو عطا نہیں ہوتی جن سے کوئی کام لیا جانا ہو انہیں ہی میسر آتی ہے۔
قوم کو بروقت آگاہ کرنا
کسی بھی ریاست میں نظامِ انتخاب ہی تبدیلی کی بنیاد ہوا کرتا ہے۔ عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے ظالم حکمرانوں سے نجات حاصل کرتے ہیں لیکن پاکستانی نظامِ انتخاب انتہائی فرسودہ، جانبدارانہ اور غیر منصفانہ ہے۔ جس کی بنیاد ’’مک مکا‘‘ اور گٹھ جوڑ پر ہے۔ جس میں عوام کے ووٹ پر مبنی مینڈیٹ پر ڈاکہ زنی کی جاتی ہے۔ 23دسمبر 2012ء کو ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن سے 6 ماہ قبل اسی خطرہ سے خبردار کر دیا تھا۔ اس وقت کسی نے اس آواز پر توجہ نہ دی لیکن پھر وہی ہوا اور عوام کے حق پر ڈاکہ پڑ گیا۔
ایک جماعت کی طویل تگ و دو اور جدوجہد کے بعد دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا گیا، جوڈیشل کمیشن بننے کے بعد فریق اول سے یعنی مدعی سے سوال کیا گیا کہ آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ عدلیہ کی طرف سے کیا فیصلہ ہوگا ۔ اس فریق کا جواب تھا کہ ’’ہم عدلیہ کے فیصلے کا احترام کریں گے‘‘۔
لیکن جب یہی سوال شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری سے پوچھا گیا تو آپ نے بصیرتِ خضری کے فیضان کے طفیل ایک سال بعد آنے والا فیصلہ پہلے ہی بتا دیا کہ ’’کمیشن یہ فیصلہ کرے گا کہ منظم دھندلی کے کوئی شواہد نہیں ملے، اکا دُکا مقامات پر بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ ملک میں شفاف انتخابات ہوئے‘‘۔
پھر وہی ہوا جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ حرف بحرف وہی آیا جو شیخ الاسلام نے فرمایا تھا۔ اس طرح ایک مرتبہ پھر قوم کو اعتراف کرنا پڑا کہ خضرِ وقت سچ کہتے تھے۔ یہ عدلیہ کی تاریخ کا شرمناک فیصلہ تھا۔ حکمرانوں کے کردار اور عدلیہ کے ’’مک مکا‘‘ کو دیکھتے ہوئے خضرِ وقت نے قوم کو ایک سال قبل فیصلے کے متعلق آگاہ کر دیا تھا۔
دہشت گردوں کے معاونین کو بے نقاب کرنا
دہشت گردی ایک دن کی پیداوار نہیں ہے اور نہ ہی کسی شخص کو ایک دن میںخودکُش بمبار بنایا جاسکتا ہے، اس کے پیچھے ایک پوری ٹیم ہوتی ہے۔ قوم کو فقط دہشت گردوں کا مکروہ چہرہ تو دکھایا گیا لیکن دہشت گردوں کے معاونین، سہولت کاروں (Facilitators) نرم گوشہ رکھنے والوں اور مالی اعانت کرنے والوں (Financers) کے بارے میں کچھ نہ بتایا گیا۔ دہشت گردوں کے سہولت کار سرعام ٹی وی اور دیگرذرائع پر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ دہشت گردوں کے حق میں بیان دیتے اور دہشت گردوں کی مذمت بھی نہیں کرتے۔
خضرِ وقت نے نہ صرف دہشت گردوں کے خلاف فتویٰ دے کر اور ان کی علامات بیان کرکے قوم وملت کے سامنے ان کو ننگا کیا بلکہ ان کے جملہ معاونین کو بھی ببانگ دہل بے نقاب کیا، تاکہ اصل مجرموں کو پہچان کر ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔آج پاکستان آرمی کا دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف جو آپریشن ہے۔ اس سوچ کے واحد علمبردار خضرِ وقت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہیں۔
دہشت گردی کا حل، مذاکرات نہیں جنگ
پوری قوم گواہ ہے کہ حکومت اور تقریباً تمام سیاسی جماعتیں دہشت گردوں سے مذاکرات کی حامی تھیں اور تقریباً ایک سال مذاکرات کا ڈرامہ چلتا رہا۔ شیخ الاسلام نے روزِ اول سے فرما دیا تھا کہ مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ دہشت گردی کا حل دہشت گردوں کا خاتمہ ہے۔ ایک سال تک انتظار کرنے، سینکڑوں لاشیں اٹھانے اور دہشت گردوں کو فرار کروانے کے بعد پوری قوم کو ماننا پڑا کہ ’’طاہر القادری سچ کہتے تھے‘‘۔ بالآخر پاکستان آرمی نے ضربِ عضب کا آغاز کیا اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
معاشی بصیرت
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی مذہبی و سیاسی بصیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد آیئے اب خضرِ وقت کی معاشی بصیرت پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں:
کسی بھی قوم کی معیشت اس کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ اگر معیشت برباد ہو جائے تو پوری قوم اور ملک برباد ہو جاتا ہے۔اسی لئے حضرت خضر اور موسیٰ علیہ السلام نے ان دو یتیم بچوں کی دیوار بغیر کسی معاوضے کے بنا دی۔ اوصافِ خضر سے متصف شخصیت کے فرائض میں سے ہوتا ہے کہ وہ یتیم، مساکین اور فقراء کے اموال کی حفاظت کا انتظام کرے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے جب اپنی نگاہ بصیرت سے دیکھا کہ قوم کی وراثت لٹ رہی ہے تو انہوں نے قوم کو اس سے بھی درج ذیل انداز میں باخبر کیا:
قومی لٹیروں سے بروقت خبردارکرنا
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری بصیرتِ خضری سے متصف ہو کر قوم کی قومی وراثت/دولت چوری کرنے والوں سے خبردار کر تے رہے۔ کسی کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ کس طرح انسانوں کو بطور کیرئیر استعمال کرکے منی لانڈرنگ کی جاتی ہے؟ ستمبر 2014ء میں دھرنے کے موقع پر شیخ الاسلام نے فرمایا کہ لوگو آنکھیں کھولو! تمھاری وراثت اور سرمایہ تمھارے دشمن نقد اٹھا اٹھا کر ملک سے باہر لے جا رہے ہیں۔ لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی۔ ایک سال کے بعد ملک کی ایک مشہور ماڈل بطور کیرئیر ملکی سرمایہ بیرون ملک منتقل کرتے پکڑی گئی، پھر اس نے اعتراف کیا کہ وہ کس کس سیاسی شخصیت کے لیے کام کرتی ہے اور کتنا سرمایہ وہ باہر منتقل کر چکی ہے۔
اسی طرح جب کراچی کے سمندر سے کرنسی کی بھری لانچ پکڑی گئی توتب قوم کو یہ بات سمجھ آئی کہ کس طرح اس کی وراثت باہر منتقل ہو رہی ہے؟ کس طرح (Swiss Banks) میں اربوں ڈالرز پہنچائے گئے اور کس طرح پوری دنیا میں ذاتی کاروبار اور جائیدادیں خریدی گئیں۔ ان پوشیدہ حقائق سے وہی پردہ اٹھا سکتا ہے جس کو فیضانِ بصیرتِ خضری نصیب ہوا ہو۔
قومی ذخائر کی حفاظت
پاکستان کو اللہ رب العزت نے تمام قدرتی وسائل و خزانوں سے نوازا ہے لیکن ملک کی نا اہل قیادت اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کے بجائے ملک کا معاشی نظام قرضوں پر چلا رہی ہے۔ مزید یہ کہ ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ ملک میں کثیر قدرتی ذخائر ہونے کے باوجود دیگر ممالک سے گیس کے حصول کے لیے معاہدات کیے جارہے ہیں۔ ملک میں سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، اگر صرف بلوچستان میں موجود ریکوڈیک کے ذخائر کا تخمینہ لگایا جائے تو پاکستان کے تمام مسائل کا حل ممکن ہے۔
اسلام آباد میں انقلاب مارچ کے دوران خضر وقت شیخ الاسلام نے پوری قوم کو خبردار کیا کہ ریکوڈیک (سونے کے قومی ذخائر) کو کیسے منصوبہ بندی کے ساتھ سستے داموں بیچا جا رہا ہے۔ پھر دنیا نے آپ کی بات کی صداقت کو دیکھ لیا کہ آپ کی کہی ہوئی بات سچ ثابت ہوئی کہ حکومت نے اس منصوبہ کا سربراہ سابق چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار چوہدری کو بنادیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کے بروقت خبردار کرنے پر اسے ہٹا دیا گیا۔شیخ الاسلام نے متعدد مواقع پر قومی وسائل کو استعمال میں لاکر عوام تک اس کے فوائد پہنچانے کی بات کی ہے جو یقینا خضرِ وقت کی بصیرت کی علامت ہے۔
قومی اداروں کو لوٹ سیل سے بچانا
پوری دنیا میں نجکاری کا عمل ملک وقوم کے لیے نفع بخش اور سود مند بنایا جاتا ہے۔ اس کے لیے شفاف کمیشن بنائے جاتے ہیں۔ اخبارات میں (Bids) دی جاتی ہے تاکہ اس کی شفافیت پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ لیکن پاکستان میں نجکاری کے عمل میں نیت کا فتور شامل ہوتا ہے۔ کمیشن (Kick back) حاصل کی جاتی ہیں، اداروں کو بیچاجاتا ہے اور خود ہی دوسرے نام سے خرید لیا جاتا ہے۔
ان تمام کرپشن کے معاملات کے متعلق شیخ الاسلام نے قوم کو بروقت خبردار کیا تھا کہ حکمران طبقہ قومی اداروں کو اونے پونے داموں بیچ کر خود ہی خریدنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے نجکاری کمیشن کے جملہ ممبران ان کے سربراہ کا مکمل (Bio Data) عوام کے سامنے رکھ دیا اور ان کی حکمرانوں کے ساتھ رشتہ داریاں، تعلقات اور ہمدردیوں کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ بعد ازاں شیخ الاسلام کی کہی ہوئی یہی باتیں حرف بحرف سچ ثابت ہوئیں جس کا قبل ازوقت شیخ الاسلام نے پردہ چاک کردیا تھا۔ PIAجیسے منافع بخش قومی ادارہ کو بیچنے اور خود خریدنے کے لئے حکمرانوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں۔ پاکستان سٹیل اور دیگر قومی ادارے بھی لوٹ سیل پر ہیں۔ مشتری تو ہوشیارہے لیکن اگر قوم بھی ہوشیار ہو جائے تو ڈاکٹر طاہر القادری کی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
خضرِ وقت کا دس نکاتی ایجنڈا
حضرت خضر علیہ السلام جہاں حاکم وقت سے غریب کی کشتی کو بچا رہے ہیں وہیں پر غریب ویتیم بچوں کو ان کے بہتر مستقبل کی ضمانت بھی دے رہے ہیں۔ دورِ حاضر میں اوصافِ خضر کا حامل وہی ہوگا، جو زمین میں چھپے خزانے دیکھنے کی نگاہ رکھتا ہو، جو اُن خزانوں کی حفاظت اور انہیں ان کے وارثوں تک پہنچانے کا لائحہ عمل اورصلاحیت رکھتاہو۔ غریب،یتیم، مجبورومقہور اور مظلوم طبقات کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل دے جو اُن کی حالت کو بدل دے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی 2013ء میں 10نکاتی انقلابی ایجنڈا پیش کیا اور اس کے لیے وسائل کی دستیابی کے لیے انتظامات کا بھی اعلان کر دیا۔ اس انقلابی ایجنڈے کے چیدہ چیدہ مندرجات درج ذیل ہیں:
- ہر بے گھر کو گھر دیا جائے گا۔
- ہر بے روز گار کو روز گار دیا جائے گا۔
- کم تنخواہ دار طبقہ کو بنیادی ضروریات کی اشیاء نصف قیمت پر ملیں گی۔
- تمام تنخواہ وار طبقات سے یوٹیلٹی بلز نصف لیے جائیں گے۔
- صحت کی قومی انشورنس سکیم متعارف کروائی جائے گی۔
- میٹرک تک تعلیم مفت ہو گی۔
- غریب کسانوں میںکاشت کے لئے زمینیں مفت تقسیم ہوں گی۔
- تنگ نظری، فرقہ پرستی اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔
- خواتین کے لیے بہتر روز گار مہیا کیا جائے گا۔
- تنخواہوں میں فرق ختم کیا جائے گا۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ایسا ایجنڈا فقط خضرِ وقت ہی دے سکتا ہے جس کے پاس علم بھی ہو اور کردارِ امن و رحمت بھی۔ یہ بصیرت خضری کا فیضان ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری آنے والے حالات و واقعات کا بہتر تجزیہ کرتے ہیں، قوم کو خبردار کرتے ہیں، انہیں ان کے مسائل سے آگاہ کرتے ہیںاوران کے حل کا مکمل لائحہ عمل بھی دیتے ہیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ آنے والا دور ڈاکٹر طاہرالقادری کا دور ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری قاسمِ فیضانِ خضر بن کر امن وعلم، بصیرت وشعور کا نور پھیلا رہے ہیں۔ امن کے فروغ اور علم کے افشاء کے لیے شیخ الاسلام کی کاوشیں کئی صدیوں تک تلاش خضر کرنے والوں کے لیے راہنمائی کا باعث بنیں گی۔ آپ کا نظریہ جیتے گا، شہیدوں کا لہو رنگ لائے گا اور پاکستان اور عالم اسلام میں مصطفوی انقلاب کا سورج طلوع ہوگا۔ (ان شاء اللہ)
حرف ِتمنا
معاشرے میں تصور پایا جاتا ہے کہ فیضان خضری کا امین وہ شخص ہوگا جو عالم، فاضل، زاہد، متقی اور کسی خانقاہ میں گدی نشین ہوگا۔ اگر ہم سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کے سفر کے واقعات کا جائزہ لیں تو اس سفر میں موسیٰ علیہ السلام جس علم کی تلاش میں آئے تھے اس کی وضاحت، تفہیم یا تدریس کے لئے خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو نماز، روزہ یا اس دور کی کسی عبادت سے نہیں گزارا۔ موسیٰ علیہ السلام کو بٹھا کر کسی آسمانی کتاب یا صحائف کے صفحات کا مطالعہ نہیں کروایا۔ علمی فکری لیکچر نہیں دیئے۔ تخلیق کائنات و تخلیق انسانیت کے رازوں سے پردہ نہیں اٹھایا بلکہ یتیموں، مسکینوں، محتاجوں کے حقوق کا تحفظ کیا، ان کے روزگار اور وسائل کا بندوبست کیا، ان کے خزانوں کو لٹنے سے بچایا، انہیں ظالموں کے ظلم سے بچایا اور ان کے دین و ایمان کو تحفظ فراہم کیا۔
ہر دور میں فیضانِ خضری کا حامل وہی ہوگا جو علم و رحمت کے ساتھ ساتھ دکھی انسانیت کا درد اپنے دل میں محسوس کرے۔ جو غریبوں محتاجوں کے حقوق کے لئے تن من دھن قربان کرے۔۔۔ جو یتیموں اور بے آسراء لوگوں کی وراثت کی حفاظت کے ساری عمر جدوجہد کرتا رہے۔ تعجب ہے ان بندگان خدا پر جو خضر سے تلاشِ خضر کا وظیفہ پوچھتے ہیں۔ حیرت ہے ان لوگوں پر جو خضر کی جدوجہد میں شریک بھی ہیں اور اس کے ہر عمل پر سوالات بھی کرتے ہیں۔ وہ لوگ اس بات سے کیوں بے خبر ہیں کہ راستے کسی بھی وقت جدا ہوسکتے ہیں۔