بھارت کے اہل علم و دانش کے تبصرے و جائزے
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے فروغِ امن اور انسدادِ دہشت گردی کے مرتب کردہ اسلامی نصاب کے اجراء کے سلسلہ میں دہلی (بھارت) میں ماہنامہ جام نور کے مدیر اعلیٰ محترم علامہ خوشتر نورانی کے زیر انتظام ایک عظیم الشان پروگرام منعقد ہوا جس میں دہلی اور ہندوستان کے مختلف حصوں سے سو افراد کو مدعو کیا گیا، جن میں میڈیا پرسنز، علما، مختلف یونیورسٹیز کے پروفیسرز، تعلیمی ماہرین، حکومتی عہدیداران، سپریم کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ کے وکلا شامل تھے۔ اِن احباب نے شیخ الاسلام کی اس عظیم کاوش کو بھرپور انداز سے خراجِ تحسین پیش کیا۔ بعد ازاں ماہنامہ جام نور میں اس نصاب پر ان شخصیات کی آراء شائع کی گئیں تاکہ فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں جو غیر معمولی قدم اٹھایا گیا ہے، اس کی قدرو قیمت متعین ہوسکے اور اس حوالے سے سوسائٹی کی علمی و فکری رہنمائی کا راستہ ہموار ہوسکے۔ ذیل میں اس شمارے سے بھارت کے ان اہل علم و دانش کے تبصروں اور آراء کو نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف مشرق و مغرب کی ایک منفرد آواز
پروفیسر اختر الواسع (کمشنر: لسانی اقلیات، حکومت ہند، نئی دہلی)
دنیا جہاں سے ہر مسلک کے علما نے دہشت گردی کے خلاف فتاویٰ جاری کئے۔ یہ تمام کوششیں بلاشبہ قابل تحسین، لیکن ساری دنیا میں ایک آواز، جو منفرد قرار پائی اور جس کی پذیرائی مغرب و مشرق میں یکساں طور پر ہوئی، وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب (سربراہ: انٹرنیشنل تحریک منہاج القرآن) کی تھی۔ ان کے مبسوط، مفصل، بے لاگ اور دو ٹوک فتوے نے دہشت گردی کے خلاف اسلامی موقف کو ساری دنیا پر واضح کردیا اور اس عہد کے خوارج نے جو عناد و فساد کا ماحول بنایا تھا اور اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو جس طرح داغ دار کیا تھا، اس کو ایک دفعہ پھر روز روشن کی طرح عیاں کردیا۔
مجھے خوشی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے ان حقیقی دشمنوں کی بیخ کنی اور فکری و عملی سطح پر ان کی مخالفت کے لئے تحریک منہاج القرآن ایک دفعہ پھر آگے آئی ہے اور اس کے بانی و سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی رہنمائی میں ان کے مشہور زمانہ فتوے کی بنیاد پر فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کا اسلامی نصاب تیار کیا ہے۔ یہ نصاب ریاستی سیکورٹی اداروں کے لئے، علماء و ائمہ کے لئے، طلبہ و طالبات کے لئے، سول سوسائٹی کے جملہ طبقات کے لئے اور ڈاکٹرز، دانشور اور وکلاء کے لئے الگ الگ کتابی شکل میں تیار کیا گیا ہے اور اب تک لندن، پاکستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے اس نصاب کی رسم اجرا کی تقریبات منعقد کی جاچکی ہیں۔ ہندوستان میں بھی مولانا خوشتر نورانی کے اشتراک و تعاون سے اس پر ایک وقیع اور سنجیدہ مجلس مذاکرہ منعقد ہوچکی ہے۔
بہت ضروری ہے کہ ہم اس وقت مسلکی مصلحتوں اور گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر اس نصاب کو جن جن حلقوں اور طبقات کے لئے تیار کیا گیا ہے، نہ صرف ان تک پہنچائیں بلکہ اس ملک کی غیر مسلم اکثریت کو بھی اس سے کماحقہ متعارف کروائیں۔
یاد رکھئے! یہی وہ وقت ہے جب یہ مت دیکھئے کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ صرف یہ دیکھئے کہ کیا کہہ رہا ہے۔ اگر اس نے واقعی خدا لگتی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے من کی بات کہی ہے تو ہمیں اس پر آمنا و صدقنا کہنا ہی چاہئے۔
اسلامی نصاب کو عصری جامعات اور مدارس میں جگہ ملنی چاہئے
ڈاکٹر سید شاہ شمیم منعمی (سجادہ نشین: خانقاہ منعمیہ، میتن گھاٹ، پٹنہ (بہار)
دہشت گردی کے فتنے کا دائرہ کار چونکہ پوری دنیا ہے، اس لئے ہر رنگ و نسل اور ہر ملک و مقام، ہر قسم و قماش اور ہر سن و سال کے لوگ اس کا شکار ہیں اور ان سب کو ان کے عقل و فہم کے مطابق اس فتنے سے آگاہ کرنا ہے۔ ہزاروں علما و سینکڑوں ادارے پوری دنیا کی سطح پر خدمت اسلام میں مصروف و منہمک ہونے کے دعویدار ہیں، لیکن اس اہم ترین فریضے اور سب سے بڑی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے جو شخصیت سر فہرست نظر آئی وہ شیخ الاسلام پروفیسر طاہرالقادری کی ہے اور جو ادارہ اس کام کو انجام دینے میں باضابطہ مصروف نظر آرہا ہے وہ منہاج القرآن ہے۔
عام طور پر بڑی بڑی شخصیتیں اور ادارے اپنی ذمہ داری کو تقریر سے شروع کرکے فتوے تک پہنچا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ فتوی جاری کردینا ہی میری ذمہ داری ہے، اس کے بعد کی ساری ذمہ داری عوام کی ہے۔ اس سوچ و فکر میں دو بڑی خامیاں ہیں:
- اپنے فتوے کو حرف آخر ماننا
- اور عوام و خواص کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ سب کے سب میرے فتویٰ کے تابع ہیں۔ کس کی مجال کہ میرے فتوے کے خلاف جائے۔ ایسے لوگ نہ خود کو پہچان سکے ہیں اور نہ ہی عوام کو۔ یہ خود مریض ہیں اور کوئی مریض کسی کے لئے کیا اسباب صحت جٹائے گا، وہ تو چلتا پھرتا Infection ہے، جہاں جائے گا، مرض پھیلائے گا۔
پروفیسر طاہرالقادری نے اس فتنۂ عظیم کے سدباب کے لئے تحریر و تقریر کا جو سلسلہ قائم کیا ہے، اس نے نہ صرف عامۃ الناس کو صحیح صورت حال اور اصل حقیقت سمجھنے کے لائق بنایا ہے بلکہ خواص کی تربیت کا بھی سبب بنا ہے کہ وہ اس کے ذریعے اس فتنے کے شر اور فساد سے لوگوں کو اچھی طرح واقف کراسکیں اور بچاسکیں۔
پروفیسر طاہرالقادری کی موجودہ کوشش تحریر اور تقریر سے آگے بڑھ کر اس فتنے کے سدباب کے لئے تدریس کو بھی آلہ کار بنانے کی ہے۔ پڑھنے اور سننے والی چیز جب تک پڑھانے کے لائق نہ ہوجائے اہم نہیں ہوتی۔ تحریر کا کمال یہ ہے کہ وہ داخل نصاب ہوجائے۔ تقریر کا کمال بھی یہی ہے کہ وہ سننے کے بعد ختم نہ ہو بلکہ موضوعِ مطالعہ اور ملاحظہ بن جائے اور کیا عجب کہ وجہ انقلاب ہوجائے۔
پروفیسر طاہرالقادری کی یہ کوشش ان کی اس عظیم دور اندیشی کا پتہ دیتی ہے، جس کے نتیجے میں فتنۂ معتزلہ کے دفاع کے لئے ہمارے لائق صد احترام اسلاف نے جو طریقہ اختیار کیا تھا، وہی طریقہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف اختیار فرمایا۔
فتنۂ اعتزال کے رد و دفاع کے لئے نصاب میں جس طرح بیضاوی لائی گئی، اسی طرح فتنۂ دہشت گردی کے دفاع کے لئے پروفیسر طاہرالقادری کے ذریعے لائے گئے نصاب کو جامعات و مدارس اور یونیورسٹیوں میں جگہ ملنی چاہئے۔ یہ طریقہ یقینی طور پر اعتزال ہی کی طرح دہشت گردی کے لئے (معالجہ) Curative بھی ہوگا اور (محافظہ) Preventive بھی۔
عام طور پر فتنۂ دہشت گردی جس طبقے کو اپنا آلہ کار بناتی ہے وہ نوجوان اور طلبہ ہوتے ہیں، اس لئے اس نصاب کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جو طلبہ کے لئے مرتب کیا گیا ہے اور چونکہ اس نصاب کو اچھی طرح طلبہ تک پہنچانا اساتذہ، علما اور خطبا کا فریضہ ہے، اس لئے ان کے لئے مرتب ہونے والا نصاب بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے۔
پروفیسر طاہرالقادری صاحب کی تحریروں کا ایک بڑا کمال یہ ہے کہ وہ حوالہ جات اور ماخذات سے بہر خوبی پر ہوتی ہیں، اس سے دعویٰ مضبوط اور لب و لہجہ معیاری ہوتا ہے۔ اشکال دور ہوتے ہیں اور رد و تنکیر کا مادہ دم توڑتا ہے، اس لئے اس نصاب کا مفید و کار گر ہونا طے ہے۔
اسلامی نصاب دہشت گردی کے فریب و طلسم کو توڑ دے گ
مولانا عبیداللہ خان اعظمی (سابق ممبر آف پارلیمنٹ، نئی دہلی)
جہاں دہشت گردوں اور تشدد پسندوں کے خلاف دست و بازو کا استعمال کرتے ہوئے جنگ کی جائے وہیں یہ امر بھی لازمی تھا کہ فکری و علمی سطح پر اصلاح کی کاوشیں کی جائیں۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کراکے ہی معاشرے میں امن و امان کی ترویج، صالح فکر و عمل کا فروغ، اعلیٰ انسانی اقدار کی اشاعت اور انتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ رویوں کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔ قرآن و احادیث میں پائے جانے والے تکریم انسانیت اور امن و آشتی کے بے بہا موتیوں کو فکری اور علمی مواد کے طور پر پیش کرکے معاصر دنیا کے تشویشناک حالات کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی عملی ذمہ داری ہے جس سے عہدہ برآ ہونا ہر ایک کے بس کا نہیں ہے۔ علمی بیکرانی اور فکرو نظر کے وسیع تر افق سے ہی اس اہم مرحلے کو سر کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایسا سچا اور بے باک عالم دین جس کے ایک ہاتھ میں قرآن و احادیث کی شمع فروزاں ہو تو دوسرے ہاتھ میں عالمی حالات و رجحانات کی تصویر، تبھی جاکے وہ اس کا حق ادا کرسکتا ہے۔ ایسے میں اگر قرعۂ فال عالمِ جلیل اور عالمِ سنیت کی معتبر ترین شخصیت حضرت علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے نام نکلتا ہے تو یہ کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے۔
علامہ کی ہر تصنیف ہی اپنے باب میں مکمل اور جامع ہوتی ہے۔ فروغِ امن اور انسدادِ دہشت گردی کا اسلامی نصاب بھی علامہ کے علمی سحر کاری، فکری نکتہ ریزی اور سرپرستی سے لبا لب ہے اور اس کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہ سارے ہی شعبوں کے افراد اور نوجوانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا ہے اور ہر ایک کے لئے اس کے دائرہ عمل کا تعین بھی کردیا گیا ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ علامہ طاہرالقادری کے اس شاہکار نصاب سے عالمی سطح پر اسلام کے حوالے سے دہشت گردی کا فریب و طلسم ٹوٹے گا اور اپنوں اور غیروں دونوں کو صحیح طور پر اس انسان دشمن اور مفسدانہ طرزِ فکر و نظر کا احساس ہوگا اور اس سے تائب ہونے کی توفیق بھی حاصل ہوگی۔ خدائے بالا و برتر علامہ موصوف کی عمر میں برکت عطا فرمائے تاکہ وہ یونہی ہماری اور پوری دنیا کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہیں اور عنداللہ اور عندالرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمان کے مراتب و درجات لگاتار بلند ہوتے رہیں۔ آمین
اسلامی نصاب کی بھرپور تائید کرتا ہوں
سید محمد اشرف کچھوچھوی (بانی و صدر: علماء و مشائخ بورڈ، جوہری فارم، اوکھلا، نئی دہلی)
دنیائے اسلام کے باصلاحیت و ممتاز عالم دین اور عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری نے دہشت گردی سے متعلقہ سنگین صورت حال کا بہت پہلے ادراک کرکے پوری حوصلہ مندی اور بے باکی کے ساتھ پہلے تو دہشت گردی کے خلاف ایک ضخیم اور مبسوط فتویٰ جاری کیا، جس کی پوری دنیا میں پذیرائی ہوئی۔ اس فتوے کو مستند اسلامی بنیادوں پر داعش کو بے نقاب کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آج علمائے کرام کو دنیا کے سامنے واضح پیغام دینے کی اشد ضرورت ہے کہ داعش اسلام کی نہیں بلکہ جدید خارجیت کی نمائندگی کررہا ہے اور اب اس جانب ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر قادری نے جہاد کے نام پر مسلم معاشرے کو فکری سطح پر گمراہ کرنے والے انتہا پسندوں کا قلع قمع کرنے کے لئے متعدد جلدوں میں اپنی زیر نگرانی ایک جامع اور مؤثر نصاب مرتب کروایا ہے۔ اس اسلامی نصاب کی بھرپور تائید کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اس نصاب کے ذریعے مسلم سماج میں مثبت تبدیلی آئے گی اور لوگوں کی فکری اصلاح میں یہ نصاب غیر معمولی کردار ادا کرے گا۔
فروغِ امن کا اسلامی نصاب۔ ایک غیر معمولی کارنامہ
ڈاکٹر محمد کاظم (ڈپٹی پراکٹر: دہلی یونیورسٹی، نئی دہلی)
اسلام کی صحیح تفہیم اور مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے عالمی سطح پر ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کی تحریک نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ فروغِ امن اور انسدادِ دہشت گردی کے لئے بھی انہوں نے عالمی سطح پر غیر معمولی کام کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ انفرادی طور پر یہ سعادت ان کے علاوہ کسی بھی مسلم تنظیم اور عالم دین کے حصے میں نہیں آئی ہے۔
فروغِ امن اور انسدادِ دہشت گردی کا اسلامی نصاب مرتب کرکے انہوں نے ایک بار پھر دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ پانچ جلدوں پر مشتمل یہ نصاب تمام عالم میں فروغ امن کے لئے معاون اور انسانی دماغ میں موجود اسلام کے خلاف زہر کو قند میں بدلنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اس نصاب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ معاشرے کے تمام طبقوں کو ذہن میں رکھ کر اسے بنایا گیا ہے اور ہر ایک جلد ایک الگ طبقے کے لئے ہے۔ اس نصاب کا مقصد صرف اسلام مخالف لوگوں کے ذہن کو صاف کرنا ہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے مختلف طبقات کو بھی معلومات پہنچانا ہے کہ اصل میں اسلام کیا ہے اور امن و دہشت کے حوالے سے اس کی تعلیمات و پیغام کیا ہے اور ہم نے اسے کیا بنادیا ہے؟ ہم اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کتنی کوشش کرتے ہیں؟
گویا یہ ایک ایسا نصاب ہے جو دنیا، دنیا میں رہنے والے لوگ، سماج اور ان کے حقوق اور ہماری ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم تمام عالم کے انسانوں کا احترام کریں، ان کے ساتھ اخلاق و محبت سے پیش آئیں، سوسائٹی میں رواداری کا ماحول بنائیں اور ہم اسلام کے سچے ماننے والوں کی طرح اس پر عمل کریں کہ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
ملتِ اسلامیہ کی طرف سے فرضِ کفایہ کی ادائیگی
مولانا ذیشان احمد مصباحی (استاذ: جامعہ عارفیہ، سید سراواں، کوشامبی، الہ آباد (یوپی)
دہشت گردی وانتہاء پسندی کے خلاف مسلم علما اور دانشوران نے بڑھ چڑھ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی کوششیں کی ہیں، یہ اور بات ہے کہ ابھی یہ کوششیں ناتمام ہیں اور ان کے جو نتائج آنے چاہئے تھے وہ اب تک نہیں آسکے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سیاق میں ارباب علم و نظر کی بعض کوششیں خود تشدد آمیز رہی ہیں، نتیجے کے طور پر ان کا وہ اثر نہیں ہوسکا جو ہونا چاہئے تھا۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل اور اس کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس حوالے سے جو کام کیا ہے اس کے اثرات واضح طور پر عالمی سطح پر محسوس کئے گئے ہیں۔ انہوں نے برصغیر کی سطح تک علی الاقل فرضِ کفایہ ادا کردیا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے اسلام اور مسلمانوں کے موقف کو جس صفائی کے ساتھ رکھا ہے، یہ انہیں کا حصہ ہے۔ یقینا وہ اس کے لئے پوری ملت کی طرف سے مبارک بادیوں کے مستحق ہیں۔ مسلمانوں کی تفہیم کو مسلسل آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے انسداد دہشت گردی کا اسلامی نصاب پیش کیا ہے، اس نے ان کے کام کی قدرو قیمت اور انفرادیت کو بڑھادیا ہے۔
ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے تئیں تشدد کا جو ذہن پیدا ہورہا ہے، اس کے پیچھے اسلام کی غلط تعبیر و تشریح پر مشتمل لٹریچر ہے، ایسے میں ایک ایسے نصاب کی پیشکش زمانی اور ملی ضرورت تھی جس کو آگے بڑھ کر ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے پورا کیا۔ پوری امت میں وہ خاص سعادت مند ہیں کہ یہ توفیق ان کے حصے میں آئی۔ البتہ اس کے صحیح نتائج جب ہی برآمد ہوں گے کہ اس نصاب کی خوب خوب تشہیر ہو اور جن مختلف طبقات کے لئے علیحدہ علیحدہ یہ نصاب تیار ہوا ہے ان تک یہ پہنچے۔ اس سے مسلم ذہن کی صحیح تشکیل کے ساتھ غیر مسلم ذہن میں پیدا اسلام مخالف شبہات کا بھی بڑی حد تک ازالہ ہوگا۔ اس لئے ہمیں اس کی برقی اور مطبوعہ اشاعت کی خوب خوب کوشش کرنی چاہئے۔
ڈاکٹر قادری صاحب کا کام ایک مثال ہے، ایسی مثالیں سب کو پیش کرنی چاہئے، ساتھ ہی ایسی تقریر و تحریر سے کلیۃً احتیاط برتنے کی ضرورت ہے جس سے اسلام اور مسلمانوں پر تشدد پسندی کی تہمت کو جواز اور دلیل فراہم ہو۔
معاشرتی امن و رواداری کی ایک مستحکم کوشش
سہیل انجم (نامور مضمون نگار، سینئر صحافی، کالم نگار)
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو عناصر دہشت و بربریت کے مرکز و منبع بنے ہوئے ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ قلیل تعداد کثیر تعداد پر بھاری پڑ رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے منظر، پس منظر اور پیش منظر پر گفتگو کی جائے اور عالم انسانیت کو اس سے کیسے نجات دلائی جاسکتی ہے اس پر کھل کر بحث ہو۔ شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری کے ادارے ’’تحریک منہاج القرآن‘‘ نے اس سلسلے میں ایک انتہائی اہم، بروقت اور ضروری قدم اٹھایا ہے اور پوری دنیا کے امن پسندوں کے سامنے ایک ایسا نصاب پیش کیا کہ اگر اس کو پڑھا جائے، اس کی روح کو سمجھا جائے اور اس روح کے مطابق یا اس نصاب کی اسپرٹ کے مطابق اپنے شب و روز کی سرگرمیوں میں تبدیلی لائی جائے اور اس نصاب پر پوری طرح عمل کیا جائے تو یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ عہدِ حاضر کے اس فتنے پر قابو پانا مشکل نہیں ہوگا۔
قابل مبارک باد ہے تحریک منہاج القرآن جس نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے اور اس سلسلے میں ایک انتہائی مبسوط، جامع اور مثبت نصاب تیار کیا ہے۔ یہ نصاب انگریزی میں بھی ہے اور دوسری زبانوں میں بھی ہے۔ اس نصاب کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ انسانی آبادی کے ایسے دو طبقات سے مخاطب ہے جن پر دہشت گردی کے قلع قمع کے بارے میں سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی سول سوسائٹی کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ حقیقی اسلام کیا ہے؟ اسی کے ساتھ مسلمانوں اور بالخصوص ائمہ اور علمائے کرام کو بھی یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام کا تصور امن و سلامتی کیا ہے؟ سول سوسائٹی اگر یہ جان لے کہ فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں اسلام کا کیا موقف ہے اور مسلمان یہ جان لیں کہ اسلام دہشت گردی کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے تو یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی صورت بدل جائے گی۔
یہ نصاب انتہائی جامع اور مکمل ہے۔ اس کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوا کہ اسے ہر جگہ نافذ تو کیا ہی جائے اسے دینی مدارس میں، عصری تعلیم گاہوں میں اور اسی کے ساتھ ساتھ سیاسی اداروں میں بھی اسے رائج کیا جائے۔ اس کے علاوہ عام مسلمانوں کو یہ ترغیب دی جائے کہ وہ اس کا مطالعہ کریں۔
آج عالمی برادری کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کے بارے میں وہ از سر نو غور کریں اور اگر انہوں نے کوئی غلط رائے قائم کرلی ہے تو اس میں اصلاح کریں۔ اگر مذکورہ نصاب لوگوں کو پڑھایا جائے اور اسے عوام کی تمام سطحوں پر رائج کیا جائے تو کوئی تعجب نہیں کہ دنیا اسلام کے حوالے سے مثبت رائے قائم کرنے پر مجبور ہو۔
یہ نصاب پوری انسانیت کے لئے کار آمد ہے
ڈاکٹر نازیہ بیگم جفو (لیکچرار: مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ، موریشس)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ذریعے فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کا جو اسلامی نصاب، طلبہ و طالبات اور سول سوسائٹی کے جملہ طبقات کے لئے مرتب کیا گیا ہے، وہ موجودہ دور کی ایک اہم ضرورت بن گیا ہے، حالانکہ موریشس ایک پرامن جزیرہ ہے، لیکن وہ دنیا میں ہونے والی جنگ و جدال، دہشت گردی، قتل و غارت اور فسادات وغیرہ سے یقینا متاثر ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر عوام کو صحیح اور ایسی تعلیم دی جائے جس سے وہ اپنی اور دوسروں کی حفاظت کرسکے تو یہ پوری انسانیت کے لئے ایک قیمتی تحفہ ہوگا۔ اس نصاب میں اسلام اور اسلام کے بنیادی تقاضوں کو ایسی شستگی سے سمجھایا گیا ہے کہ اگر کسی کے ذہن میں کسی طرح کے شک و شبہات بھی ہوں تو وہ فوراً دور ہوجائیں گے۔ اس شارٹ ٹائم کورس کی اہمیت کا اندازہ تب ہوگا جب اس پر عمل کیا جائے گا پھر ان شاء اللہ یہ کائنات زندگی بسر کرنے کے لئے خوش گوار لگنے لگے گی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب برصغیر کے ایسے واحد عالم اور اسلامی اسکالر ہیں جنہوں نے انسداد دہشت گردی اور فروغ امن کے حوالے سے ان خطوں اورممالک تک اسلام کی تعلیمات اور نظریات پہنچائے ہیں، جہاں ہم تصور نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں آپ کو ’’سفیر امن‘‘ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اور آپ اس موضوع پر اتھارٹی بھی رکھتے ہیں۔ اس بات کی دلیل ان کا یہ تیار کردہ اسلامی نصاب بھی ہے۔ دہشت گردی کے جو مفاہیم ہماری سوسائٹی میں گردش کررہے ہیں، ان مفاہیم کا بغور جائزہ لینا اور ان پر سوال قائم کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کے صحیح جواب تلاش کرنا یہ نئی عہد کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے اس نصاب کے تعلق سے میں یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ انہوں نے دنیا میں جس طرح کی پھیلتی ہوئی دہشت گردی کا جائزہ لیا ہے اور خاص طور سے جہاد کے نام پر پھیلنے والی دہشت گردی کو اپنی بصیرت کی آنکھ سے دیکھا ہے، اس کے حاصل کے طور پر یہ نصاب ان کے مشاہدات کی جیتی جاگتی تصویر نظر آتا ہے۔
نئی دنیا کے اس سب سے بڑے مسئلے سے نمٹنے کے لئے میری دانست کی حد تک یہ نصاب صرف ایک مسلم قوم کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے بہت کارآمد ہے۔ میں اس نصاب کے زبان و بیان کے تعلق سے بھی یہ کہنا چاہتی ہوں کہ خوشتر نورانی صاحب کے حوالے سے جب اس نصاب کے مطالعے کا موقع ملا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ڈاکٹر صاحب نے اس کو نہایت ہی سلیس اور سادہ زبان میں ترتیب دیا ہے، جس میں انہوں نے سادہ اور آسان اصطلاحات کے ذریعے اپنی بات عوام الناس کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ میں چونکہ بنیادی طور پر زبان و ادب کی طالب علم ہوں، اس لئے اس کام کو اس حوالے سے بھی دیکھ کر مجھے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا اعتراف کرنا پڑا۔ میں تحریک منہاج القرآن کو مبارک باد دیتی ہوں کہ اس پلیٹ فارم سے دنیا اور انسانیت اور بالخصوص مسلمانوں کے لئے اس طرح کے اہم کام انجام دیئے جارہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلکی اور مذہبی تنازعات سے اوپر اٹھ کر اس نصاب کا والہانہ استقبال کیا جائے اور اس کے ذریعے اسلام کی تعلیمات کو معاشرے میں پھیلانے میں تعاون کیا جائے۔
اسلامی نصاب انتہا پسندانہ فکر کا خاتمہ کرے گا
مولانا سید سیف الدین اصدق (جانشین خانقاہ بشیریہ اصدقیہ، نالندہ (بہار) بانی تحریک پیغام اسلام، جمشید پور (جھاڑ کھنڈ)
آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ امت مسلمہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو سماجی سطح پر جہاد اور دہشت گردی کے فرق کو سمجھایا جائے اور اسلام کی امن و شانتی بھری تعلیمات اور محبت و مودت آمیز موقف کو خوب واضح انداز میں قرآن و حدیث، عقائد و فقہ اور فتاویٰ و اقوال سلف صالحین کی روشنی میں پیش کیا جائے۔ پھر مختلف زبانوں میں ہر ملک، ہر قوم اور سماج کے ہر طبقے تک اس کے تراجم پہنچانے کی کوشش کی جائے۔
الحمدللہ! اس خدمت جلیلہ کے لئے قرعہ فال شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زید مجدہ اور ان کی آفاقی تحریک منہاج القرآن کے نام نکلا اور انہوں نے ’’فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کا اسلامی نصاب‘‘ (Islamic curriculum on peace & counter Terrorism) تیار کیا، جو اردو اور انگریزی کے بعد تقریباً ایک درجن دنیا کی مختلف زبانوں میں زیر اشاعت ہے۔
بلاشبہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ علمی و عملی شخصیات کے ساتھ ساتھ اس نصاب کو باضابطہ مدارس، اسکولز، کالجز، جامعات اور یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات تک پہنچایا جائے۔ ان کے ذمہ داران سے گفت و شنید کرکے اسے تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس نصاب کے حوالے سے سیمینارز منعقد کئے جائیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس کی تشہیر ہو۔ حکومت کے ذریعے اس نصاب کو لاگو کرانے کی کوشش کی جائے۔
اس کام میں کچھ اڑچنیں بھی آسکتی ہیں اور وہ اڑچن غیر مسلموں کی طرف سے نہیں بلکہ مسلمانوں ہی کی طرف سے ہوں گی۔ اس کی چند وجوہات ہیں:
- مسلک و مشرب
- انا و حسد
- کسی کی قیادت تسلیم نہ کرنے کا مرضِ پارینہ
لیکن قیامِ امن، تکریمِ انسانیت اور اسلام کے رخِ زیبا سے تاریک دلوں کو جگمگانے کا بیڑہ اٹھانے والوں کو بڑی مضبوطی کے ساتھ یہ سمجھانا اور بتانا ہوگا کہ ان تمام امراضِ روحانی اور سوئے عمل سے دامن جھاڑنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود ہمیں اس طرح کے کومن مسلم ایشوز پر ایک زبان، ایک آواز اور ایک فکر ہونا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے کہ حضرت ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب سے آپ مکمل اتفاق نہ رکھتے ہوں۔ جی ہاں! آپ کو علمی و فکری اختلاف کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے مگر اختلاف ایسی مخالفت کی شکل اختیار نہ کرے، جس سے پوری قوم تباہی کی دہلیز پر پہنچ جائے۔ اگر ایسا ہوا تو قوم و تاریخ آپ کو کبھی معاف نہ کرے گی۔ ساتھ ہی ساتھ اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ عالمی پیمانے پر مسلمانوں کی دینی وملی قیادت کا فریضہ اگر کوئی ادا کررہا ہے تو وہ ڈاکٹر قادری ہیں اور اگر کوئی کرسکتا ہے تو وہ ڈاکٹر قادری ہی ہیں۔
اسلامی نصاب کو ہندوستان کے ہر فرد تک پہنچنا چاہئے
( سدھیندر کلکرنی (آبزر ور ریسرچ فائونڈیشن، ممبئی مہاراشڑ)
مسلم دنیا اس وقت دو بالکل متضاد قسم کی صورت حال سے گزر رہی ہے۔ جہاں ایک طرف، کئی شدت پسند تنظیمیں اپنے غلط اقدامات کو اسلام کے نام پر صحیح ٹھہرا کر دنیا میں فساد پھیلا رہی ہیں، وہیں دوسری طرف وہ نہ صرف غیر مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنارہی ہیں بلکہ کئی ہزار معصوم مسلمانوں کی بھی جان لے چکی ہیں۔ آئی ایس آئی ایس نوجوانوں کو لفظ جہاد کا غلط مفہوم سمجھا رہی ہے۔
خوش قسمتی سے ہمارے پاس اس مشکل سے بچائو کی صورت بھی موجود ہے۔ کئی ممتاز اسلامی اسکالرز نہ صرف دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے اسلامی نظریے کے تحت اس کو غلط بھی ٹھہرایا ہے۔ ان تمام شخصیات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ممتاز اہمیت کے حامل ہیں اور اسلامی دنیا کی ایک ممتاز شخصیت ہیں۔ 2010ء میں چھ سو صفحات پر مشتمل شائع ہونے والی ان کی کتاب (فتوی) Fatwa on terrorism and suicide bombings کی وجہ سے ان کی پوری دنیا میں پذیرائی ہوئی۔ انہوں نے اس کتاب میں قرآن شریف اور دوسری معتبر اسلامی کتابوں میں سے کئی ایسے حوالے دیئے جن کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام میں دہشت گردی کا وجود اور بلا جواز عام غیر مسلموں کا قتل کرنا کہیں سے ثابت نہیں ہے۔
اب اس فتویٰ کے پانچ سال کے بعد ڈاکٹر قادری نے ایک دوسرا اہم قدم اٹھایا ہے اور کئی جلدوں پر مشتمل Islamic Curriculum on peace and counter- Terrorism نامی کتاب لکھی، جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہمیں اپنی باتوں کے ذریعے آئی ایس آئی ایس (داعش) کے مہلک نظریات کو پنپنے سے روکنا ہوگا اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب مسجدوں، مدرسوں اور اسکولوں میں ہم اس بات کی تعلیم مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کو دے کر نہ صرف بیچ کی دوریاں ختم کریں بلکہ سب ایک ساتھ مل کر دہشت گردی اور شدت پسندی سے لڑیں اور یہ جانیں کہ ایسی تنظیمیں کسی بھی عقیدے سے منسلک نہیں ہیں اور نہ ان کا کوئی مذہب ہوتا ہے۔ میں پورے دل سے ڈاکٹر قادری کی اس مہم کی تائید کرتا ہوں جو کہ امن اور بین المذاہب ہم آہنگی اور اسلام کے صحیح معنی کو پوری دنیا میں پھیلارہی ہے۔ ان کے اس اسلامی نصاب کو ہندوستان میں ہر ایک فرد تک پہنچنا چاہئے تاکہ انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔
اسلامی نصاب فروغِ امن میں سنگ میل ثابت ہوگا ( ڈاکٹر نوشاد عالم چشتی (رحمت عالم نیشنل پیس فائونڈیشن علی گڑھ۔ یوپی)
تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے بانی و سربراہ شیخ الاسلام، ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت عالمی سطح پر محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ ڈاکٹر قادری علمی، فکری، سماجی، مذہبی خدمات اور غیر معمولی کارناموں کی وجہ سے پوری دنیا میں قائدانہ حیثیت کے مالک ہیں۔
اس پرفتن دور میں امن عامہ کی بقا ایک عالمی مسئلہ بنا ہوا ہے اور پوری دنیا کسی نہ کسی اعتبار سے دہشت گردی، تشدد پسندی اور انتہا پرستی سے متاثر ہے۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مذہبی دہشت گردی، بقائے امن عالم کے لئے بشکل عفریت چیلنج بنی ہوئی ہے۔ وحشت ناک ماحول، خودکش حملے، اپنے تمام مخالفین کا خاتمہ، دہشت گردوں کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے، اور یہ سب کچھ دین کے نام پر ہورہا ہے، جس کا حقیقی اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اسلام کے نام پر ہونے والی ان دہشت گردانہ کارروائیوں سے عالمی سطح پر اسلام کے ’’تصور امن و رحمت‘‘ کو دھچکا لگا ہے۔ اسلام کے خلاف کی جانے والی اس سازش کے خلاف ڈاکٹر طاہرالقادری نے نوٹس لیتے ہوئے تین بڑے ہی اہم کام کئے ہیں:
- آپ کا پہلا کام تو یہ ہے کہ آپ نے ان تمام دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دینے والوں کے متعلق ایک مربوط و مبسوط فتوی دیا ہے، جو دنیا کے مختلف زبانوں میں کئی سو صفحات پر کتابی شکل میں موجود ہے۔ اس فتوے میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ دہشت گرد اس دور کے خوارج ہیں۔ ان کا حقیقی اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ نے قرآن و سنت کی روشنی میں ان تمام اسلام مخالف حرکتوں کا علمی و تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے پوری دنیا پر واضح کردیا کہ ان دہشت گرد خوارج کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
- دہشت گرد، دہشت پسندوں کے خلاف اور اسلام کی انسان پروری پر مشتمل عربی، اردو اور انگریزی میں درجنوں کتابیں لکھی ہیں، جن کے ذریعے اسلام مخالف پروپیگنڈہ کمزور ہوا ہے۔
- آپ کا جو تیسرا بہت اہم کام اس ضمن میں سامنے آیا ہے، وہ ہے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے انسداد اور امن کے فروغ کے لئے کئی جلدوں میں اسلامی نصاب کی تشکیل و تدوین۔
تمام جلدوں کے نصاب کی تفصیلی فہرست کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی معاشرے کے مختلف پہلوئوں کو دھیان میں رکھ کر اسے ترتیب دیا گیا ہے، اسے بہت حد تک ایک جامع نصاب کہا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نصاب کی ترتیب میں بڑی محنت کی گئی ہے، جس کے لئے حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری اور منہاج القرآن پوری دنیائے انسانیت کی طرف سے قابل مبارک باد ہیں۔ ڈاکٹر قادری نے اسلام کے خلاف کی جانے والی خوارج کی سازش کو جس طرح بے نقاب کیا ہے اور پوری دنیا کو یہ پیغام دینے میں جس طرح کامیاب ہوئے ہیں کہ دہشت پسندی کا کوئی بھی تعلق اسلام سے نہیں ہے، وہ انہی کا حصہ ہے۔ امید ہے کہ یہ نصاب فروغ امن میں سنگ میل ثابت ہوگا۔
امت مسلمہ کی ترقی کا غیر معمولی ویژن
(سید صبیح الدین صبیح رحمانی (مدیر: مجلہ، نعت رنگ، کراچی (پاکستان)
انسداد دہشت گردی اور فروغ امن کے حوالے سے دنیا کی بہت سی شخصیتوں، تحریکوں اور تنظیموں نے کام کیا ہے اور اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے کر بھی رہے ہیں لیکن مشرق و مغرب کے ان تمام کاموں میں جو کام سب سے نمایاں اور جو آواز سب سے منفرد تھی، وہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی تھی۔ انہوں نے جس جرات رندانہ کے ساتھ دنیا کے سامنے اسلام کا نظریہ امن و رواداری اور غیر مشروط محبت و اخلاق کو پیش کیا ہے اس کے لئے وہ پوری امت مسلمہ کی جانب سے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کینیڈا میں مجھے دو بار ان سے تفصیلی ملاقات کا شرف حاصل رہا ہے۔ امت مسلمہ کے لئے ان کا ویژن اور درد دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس وقت اسلام کے نمائندگان میں وہ ہی واحد شخص ہیں جو عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرسکتے ہیں اور انہوں نے کیا بھی۔ امت کی ترقی و توسیع کا عالمی سطح پر شعور و ادراک رکھنا ہی بڑی بات ہے، انہوں نے تو اس شعور کو ڈیلیور بھی کیا ہے۔
عملی اور نظریاتی انتہا پسندی کے انسداد کے لئے حضرت شیخ الاسلام نے اپنی نگرانی میں متعدد جلدوں پر مشتمل جو اسلامی نصاب مرتب کروایا ہے، وہ ان کا غیر معمولی کارنامہ ہے۔ دنیا کے لاتعداد مفکرین اور اہل علم ان کے اس بروقت علمی اقدام کی حیرت کے ساتھ ستائش کررہے ہیں مگر مجھے ان کے اس اہم کارنامے پر کوئی تعجب نہیں کہ یہ ان کے وسیع علم و فن اور فکر و نظر کا ادنی مظاہرہ ہے۔ دور حاضر کے ایسے عالمی فتنے کی سرکوبی کے لئے اس طرح کی منظم علمی و فکری کوشش کی توقع ان کے علاوہ اور کس سے کی جاسکتی تھی؟
اس نصاب کی ترتیب و تدوین کے پس پردہ بنیادی فکر یہ ہے کہ دنیا میں امن کا فروغ اور دہشت گردی کا سد باب، معاشرے کو اس حوالے سے ایجوکیٹ کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس فکر سے میں سو فی صد اتفاق رکھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ یہ نصاب مسلم معاشرے میں مثبت تبدیلی کو لانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
برصغیر پاک وہند کے مقبول رسالہ ماہنامہ جامِ نور نے امت کوجو فکری ویژن دیا ہے، وہ قابلِ تقلید ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ مذکورہ اسلامی نصاب پر جامِ نور نے خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا۔ علمی دنیا میں یہ پذیرائی پروفیسر قادری صاحب کا حق تھا اور یہ حق بھی انہیں اس اہل طبقے کی طرف سے مل رہا ہے جو اس وقت عالم اسلام کے سنجیدہ فکری رجحانات کو سمجھ رہا ہے۔
پروفیسر طاہرالقادری نے اسلامی اخوت کا حق ادا کردیا
(احمد جاوید (انچارج ایڈیٹر: روزنامہ انقلاب، پٹنہ۔ بہار)
دہشت گردی کے بڑھتے رجحان کا علاج کیا ہے؟ اور اس سے نوجوانوں کو بچانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ اس ذمہ داری کو آج اگر کسی نے صحیح معنوں میں محسوس کیا اور اسلام کی آڑ میں معصوم ذہنوں میں زہر بھرنے والوں کے فریب کا پردہ چاک کرنے کی بروقت اور سچی جدوجہد کی تو وہ تحریک منہاج القرآن (انٹرنیشنل) کے بانی و رہنما شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ان کے رفقاء ہیں، جنہوں نے پہلے تو دہشت گردی کے تعلق سے تقریباً سات سو صفحات پر مشتمل مبسوط فتویٰ جاری کیا جو ’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئی اور ترسیل و ابلاغ کے جملہ ذرائع استعمال میں لاکر دور دور تک پہنچائی گئی اور اب منہاج القرآن یونیورسٹی کے اسکالرز نے اس کی مدد اور پروفیسر قادری صاحب کی نگرانی میں پانچ جلدوں میں ایک درسی کتب مرتب کی ہے جو اس موضوع پر ایک جامع نصاب ہے۔ اگر ایک جملے میں کہا جائے تو یہ نصاب دراصل اپنے پڑھنے والوں پر واضح کرتا ہے کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے یا یہ کہ قرآن اپنے ماننے والوں سے کیا کیا مطالبات کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسا شخص جو علم رکھتا ہو کہ اسلام کیا ہے، اسلام کے نام پر کسی فتنے کا شکار نہیں ہوسکتا۔
کیا ہمارے صرف یہ کہتے رہنے سے ذمہ داری ادا ہوجائے گی کہ اسلام میں کسی بھی نوعیت کی دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟ جو اس راہ پر چل رہے ہیں وہ مسلمان نہیں ہوسکتے یا یہ کہ جو دہشت گرد ہیں وہ کسی اور مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، ہم یا ہمارے بچے نہیں ہیں؟ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے یہ نہیں کیا۔ تحریک منہاج القرآن نے اس طرز فکرو عمل کے برعکس اپنی ذمہ داری محسوس کی اور اس کے بانی و محرک نے ہر اس نوجوان کو خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم، سنی ہو یا شیعہ، وہابی ہو یا غیر وہابی، سلفی ہو یا صوفی اپنے ہی ریوڑ کی بچھڑی ہوئی کالی بھیڑ سمجھا، جس کے ذہن کے کسی بھی گوشے میں تشدد یا انتقام کا کوئی زہر پل رہا ہو اور انہوںنے اپنی بساط بھر انسانی ہمدردی اور اسلامی اخوت کا سچا حق ادا کرنے کی جدوجہد کی۔ ضرورت ہے کہ ان کی کوشش اور اس نصاب کو ہر اس ہاتھ تک پہنچایا جائے جس کو آج کے دہشت گرد اپنا شکار بناسکتے ہیں۔
اسلامی نصاب کی تشکیل ایک جرأت مندانہ قدم
(مولانا سید تنویر ہاشمی (سجادہ نشین: خانقاہ ہاشمیہ، بیجا پور۔ کرناٹک)
دہشت گردی کے فروغ و توسیع میں جہاں بہت سے اساب و عوامل کار فرما ہیں، وہیں ایک اہم سبب سادہ لوح افراد کی جہاد کے نام پر غلط ذہن سازی بھی ہے، جس کی وجہ سے عام افراد بھی اس فتنے کا شکار ہورہے ہیں۔ مذہب اور قوم کے نام پر اس طرح کی غلط ذہن سازی اور پروپیگنڈے کا دروازہ بند کرنے کے لئے اور پڑھے لکھے خصوصاً سول سوسائٹی کی صحیح اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مثبت ذہن سازی کے لئے ادارہ منہاج القرآن انٹرنیشنل نے اسلامی نصاب تیار کیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کا یہ اسلامی نصاب جس عالمی رہ نما اور مبلغ کی زیر نگرانی عمل میں آیا ہے، اس کے پیش نظر یقین ہے کہ یہ نصاب وسیع پیمانے پر اثر انداز ہوگا، کیونکہ بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر و اشاعت کے لئے جس قدر وسائل کی ضرورت ہے وہ سب بحمدہ تعالیٰ ادارہ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے پاس موجود ہے۔
شیخ الاسلام پروفیسر طاہرالقادری صاحب نے جس اخلاص، للہیت اور جدوجہد کے ساتھ عالمی سطح پر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے نمایاں کام کیا ہے، وہ ان کی بصیرت اور اجتماعی و ملی درد کا غماز ہے۔ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی عالمگیر تحریک ’’ادارہ منہاج القرآن انٹرنیشنل‘‘ نے اسلام اور مسلمانوں کی تعمیر و ترقی اور بلند اقبالی کے لئے جو بھی کام کیا ہے اس میں وہ خاطر خواہ اور غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔ اس لئے یہ امید کیا جانا غلط نہیں ہوگا کہ انسداد دہشت گردی کے لئے متعدد جلدوں پر مشتمل یہ اسلامی نصاب بھی عالمی سطح پر مقبول ہوگا، مختلف ممالک میں اس کی اعلیٰ سطح پر تبلیغ و تشہیر ہوگی اور اداریائی نصاب میں اپنی شمولیت کی راہ بنائے گا۔ ضرورت ہے کہ ہم سبھی حضرات اس نصاب کی تشہیر اور موجودہ عہد میں اس کی افادیت و معنویت کو اخلاص کے ساتھ قبول کریں۔ اگر قادری صاحب کا یہ نصاب تعلیمی اداروں اور سماجی سطح پر نافذ ہوجاتا ہے تو عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی جو غلط شبیہ ہے اس کا خود بہ خود خاتمہ ہوجائے گا اور صحیح اسلام اور مسلمانوں کی امن پسندی، رواداری اور خیر سگالی کی حقیقی تصویر عالمی برادران کے ذہن و فکر پر ابھر کر سامنے آئے گی۔
انسداد دہشت گردی کے حوالے سے عہد حاضر کی ممتاز اور نمایاں عالمی شخصیات میں شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا مقام بہت بلند اور ان کا ادارہ بہت فعال ہے، جس کا اعتراف اپنے اور غیر سبھی دل کھول کر کررہے ہیں۔ بس اب ضرورت ہے کہ انہوں نے انسداد دہشت گردی کے تعلق سے جس علمی اور فکری مشن کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا ہے ہم لوگ جس لائق ہیں ان کے مشن کا حصہ بنتے جائیں اور ان کی اعلیٰ فکری بصیرت سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ قادری صاحب کی عالمی مقبولیت ان کے لئے خداداد دولت ہے۔ موجودہ عہد میں اسلام کی صحیح تصویر کی عالمی سطح پر تبلیغ، ان کا اہم کارنامہ ہے۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے انہوں نے جس حوصلے سے کام کیا ہے وہ ان کی جرات و بے باکی اور بلند حوصلگی کا شاہکار ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے متعدد جلدوں پر مشتمل اسلامی نصاب ان کا ایک جرات مندانہ قدم ہے، جس کی ہر سطح پر پذیرائی کی جانی چاہئے۔ ویسے بھی انہوں نے چند سال قبل نظریاتی تشدد کے خاتمے کے لئے دہشت گردی کے خلاف جو مبسوط فتوی جاری کیا اس کی وجہ سے وہ شدت پسند طبقے کی آنکھوں کا شہتیر بنے ہوئے ہیں لیکن اللہ و رسول کی ذات پر قادری صاحب کا یقین اس قدر پختہ ہے کہ انہیں کسی بات کا خوف نہیں ہے۔
حقانیت کا برملا اظہار ان کی شخصیت کا اہم پہلو ہے۔ وہ اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ موت و حیات بس اللہ کے ہاتھ میں ہے، کوئی شرپسند ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے جب قوم کی جیسی ضرورت ہوتی ہے قادری صاحب اس کی رہنمائی کے لئے پیش پیش نظر آتے ہیں۔ دہشت گردی سے نجات آج قوم کی بڑی ضرورت ہے لیکن اس کی روک تھام کے لئے آگے بڑھنا بڑے جگر کی بات ہے۔ یہ قادری صاحب ہی کا حوصلہ ہے کہ وہ اس نظریاتی و عملی تشدد کے خلاف منظم طور پر برسرپیکار ہیں۔
اسلامی نصاب اور دینی مدارس۔ پس منظر و پیش منظر
غلام رسول دہلوی (استاذ انگریزی: جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء، ذاکر نگر، نئی دہلی)
عالمی اسلامی درسگاہ جامعہ ازہر کے سربراہ اور صوفی مسلم رہنما شیخ الازہر احمد الطیب نے مسلم ممالک میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی پر قدغن لگانے کے لئے اسلامی درسیات میں بنیادی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے علمائے دین کو اس امر کی جانب متوجہ کیا کہ قرآن و سنت اور اسلامی تاریخ کی از سر نو تشریح اور وضاحت کرتے ہوئے امنِ عالم، عالمی بھائی چارے اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کے جذبے کے پیغام کو عام کریں۔
عالمی سطح پر علمائے دین اور اسلامی اسکالرز کے مابین شیخ الازہر احمد الطیب کی اس دعوت نے اس حوالے سے کم از کم ایک فکری تحریک کو ضرور جلا بخشی ہے تاہم اس کی عملی تصویر اب تک ندارد تھی۔ وقت کا یہ جبری تقاضا ایک عرصے سے اہل علم و دانش کو دعوت فکرو عمل دے رہا تھا مگر اب تک یہ اس لئے مجسم حقیقت نہیں ہوسکا تھا کیونکہ مضبوط اور مستند علمی و دینی بنیادوں پر کوئی تحقیقی نصابی منشور کم از کم ہندو پاک اور مغربی ایشیا کی حد تک سامنے نہیں آیا تھا۔ یہ سعادت عالم اسلام کے عظیم مبلغ، اسکالر اور داعی شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کے حصے میں آئی۔ انہوں نے اپنی نگرانی میں فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کا اسلامی نصاب تیار کرکے دنیا کے سامنے رکھ دیا تاکہ زمینی سطح پر مسلم سماج کا ہر طبقہ اس حوالے سے اسلامی تعلیمات از بر کرلے اور پھر انتہا پسندی کے خلاف ہر علمی و فکری محاذ پر ڈٹ جائے۔
اس نصاب کی ترتیب سے پہلے بھی فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر ڈاکٹر طاہرالقادری مہم چلارہے تھے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ان کی زندگی کا نصب العین ہی یہ ہے کہ پوری دنیا میں اسلام کی جو اصل شبیہ ہے اس کو پیش کیا جائے اور لوگوں کو اس آفاقی مذہب سے جوڑا جائے اور ان کو قریب کیا جائے۔ اس حوالے سے ان کی سینکڑوں کتابیں، خطابات، دروس اور لیکچرز گواہ ہیں۔ وہ عالمی سطح پر امت مسلمہ کی نمائندگی کررہے ہیں، اس حیثیت سے ان کی آواز بہت مستحکم ہے، اس لئے اسلامی نصاب کی افادیت اور اثر پذیری بھی مسلّم ہے۔ انہوں نے ہمیشہ انتہا پسندانہ مذہبی افکار و نظریات کے خلاف آواز بلند کی ہے، جن کی جڑیں دنیا بھر میں متشددجماعتوں اور ان کے مدارس و اسکولز کے نصابوں میں موجود ہیں۔