خیر اور شر کی جنگ ارادۂ تخلیق انسان سے شروع ہو گئی تھی۔ ازل سے ہی حق و باطل کی قوتوں میں غلبہ حاصل کرنے کیلئے تگ و دو شروع ہے۔ اللہ رب العزت بنی نوع انسان میں سے جس کی دنیا و عاقبت سنوارنا چاہتا ہے اسے حق کا غلبہ چاہنے والوں میں شامل کر کے امر کر دیتا ہے۔ خیر کی طرف بلانے، شر سے آگاہ کرنے اور اس سے بچانے کا شعور دینے کا یہ سلسلہ انبیاء علیہم السلام کے سپرد تھا مگر حضور خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد سلسلۂ نبوت کا خاتمہ فرما دیا گیا مگر اس کے بعداللہ رب العزت نے انسانیت کی رہنمائی کیلئے مکمل دستور حیات قرآن و سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں چھوڑا اور علماء حق کو ان کا وارث بنایا۔ اللہ رب العزت جب کسی کے بارے میں خیر چاہتا ہے تو اسے دین کا فہم عطاء کرتا ہے اور فہم کے ساتھ ساتھ زبان کے عقدے کھول کر عوام میں اس کی بات کی سمجھ پیدا کر دیتا ہے۔
دنیا میں جن شخصیات نے اپنا نام روشن کیا اور رہتی دنیا تک جن کا نام روشن رہے گا ان کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی ایک خاص کام میں مہارت کی وجہ سے شہرت حاصل کی ہے اور زندگی کے دوسرے پہلوئوں میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی نے اپنی پوری زندگی میں چند ایسی کتابیں لکھ دیں جو رہتی دنیا تک صاحبِ کتاب کی وجۂ شہرت بنی رہیں گی۔ کسی نے علومِ دین میں مہارت کی وجہ سے شہرت حاصل کی تو کسی نے امورِ سلطنت میں مہارت کی وجہ سے۔ کوئی جنگجو بن کر مشہور ہوا تو کسی نے خدمتِ انسانیت میں اپنا نام کمایا مگر زندگی میں ایسی مثالیں بہت ہی کم ملیں گی جنہوں نے ایک وقت میں ان تمام امور میں نام کمایا ہو۔
19 فروری 1951 ء کو شہر جھنگ میں فرید ملت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کے گلشن میں ایک ایسا پھول کھلا جس کی مہک و چمک آج پوری دنیا میں موجود ہے۔ دنیا انہیں شیخ الاسلام، قائد انقلاب، مجدد، محقق، مفسر، مصنف، ڈاکٹر آف اسلامک لاء اور ایک مدبر سیاستدان کے طور پر جانتی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شخصیت ایسی ہمہ گیر اوصاف کی حامل ہے کہ جنہوں نے زندگی کے تقریباً سبھی پہلوئوں کا احاطہ کیا ہوا ہے۔
شیخ الاسلام نے جس میدان میں بھی قدم رکھا اسی میں اللہ نے انہیں کمال عطا کیا۔ آپ اپنے وژن میں شروع ہی سے بڑے واضح ہیں اور انہوں نے غلبہ حق کیلئے جس جدوجہد کا اپنے لڑکپن میں سوچا تھا آج بھی اسی وژن اور سوچ کے مطابق چل رہے ہیں۔ شیخ الاسلام نے تحریک کی ابتداء ہی سے اس کے روشن مستقبل کی نوید سنادی تھی۔ ابتداء میں تحریک منہاج القرآن کے تابناک مستقبل کی خبر دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’یہ ایک بین الاقوامی تحریک ہو گی جس کا Setup (تنظیمی ڈھانچہ) پوری دنیا میں قائم ہوگا‘‘۔ ان کی یہ باتیں سن کر ان کی مجلس میں موجود ہر شخص حیران ہوتا تھا کہ ایک تنظیم جو چند اشخاص اور شادماں مسجد تک محدود ہے وہ بین الاقوامی کیسے بن جائے گی؟ آج الحمدللہ ایک دنیا شیخ الاسلام کی بات کو سچ ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔
علم دین میں اللہ رب العزت نے آپ کو وہ فہم و فراست عطا کی ہے کہ اپنے تو اپنے اغیار بھی آپ کی گفتگو، فنِ تقریر اور طریقۂ زندگی کے معترف ہیں۔ آپ صرف علاقائی یا ملکی سکالر نہیں بلکہ پوری دنیا میں جانے پہچانے اور مدبر شمار کیے جاتے ہیں۔ تصنیف و تالیف میں ایک ہزار سے زائد کتب کا ذخیرہ حضور نبی اکرمA کی امت کو دے کر رہتی دنیا تک کے شعور کو بیدار رکھنے کا بندوبست کر دیا ہے۔
سہل پسندی کی وجہ سے خطباء و موا عظیں میں قرآن و حدیث سے استشہاد کا سلسلہ کمزور پڑ گیا تھا اور تقاریر میں چاشنی پیدا کرنے کے لیے روایات کا سہارا لیا جاتا تھا۔ شیخ الاسلام نے ایک بار بھر ائمہ اسلاف کے اس طریق کو زندہ کرتے ہوئے کسی بھی موضوع پر سب سے پہلے قرآن پھر احادیث اور پھر اقوال صحابہ و ائمہ سلف کے اقوال کا سہارا لیا اور پھر ہر موضوع پر اس ترتیب کے ساتھ تشنگان علم کے لیے تصانیف کی صورت میںساماں بھی کر دیا۔
فعال تنظیمی نیٹ ورک
شیخ الاسلام کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن کی مثال اس وقت دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اس کا نیٹ ورک ملکی سطح پر یونین کونسل اور یونٹ لیول تک عملی صورت میں موجود ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے 90 سے زائد ممالک میں بھی یہ تنظیمی نیٹ ورک مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ بیرون ملک اس نیٹ ورک کی شہرت کی وجہ سے کئی ملکی اور بین الاقوامی نوعیت کی حامل سیاسی اور سماجی شخصیات بھی تحریک منہاج القرآن کا ممبر بن کر شیخ الاسلام کی ہم سفر ہیں۔ اس تنظیم میں بچوں، طلبہ، نوجوانوں، بڑوں اور عورتوں کیلئے الگ الگ پلیٹ فورم مہیا کیے گئے ہیں جو ہمہ وقت معاشرے کی اصلاح پر گامزن ہیں۔
اتنا مضبوط اور فعال تنظیمی نیٹ ورک دنیا میں کسی تنظیم کا نہیں جبکہ یہ سب کچھ بغیر کسی حکومتی، ریاستی یا بین الاقوامی این جی اوز کی مدد کے ہورہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا کی اس سب سے بڑی نجی این جی او کی خدمات کا اعتراف اقوام متحدہ کو بھی کرنا پڑا۔ UNO کے ذیلی ادارے اکنامک اینڈ سوشل کونسل نے تحریک منہاج القرآن کوspecial consultative کا درجہ دے رکھا ہے۔ پوری دنیا میں سے اتنی بڑی فعال تنظیم اور تنظیمی نیٹ ورک کے قیام کی مثال نظر نہیں آتی۔
اعتدال پسندی اور بین المذاہب ہم آہنگی
شیخ الاسلام نے ابتداء ہی سے اعتدال کا رویہ اپنایا اور شاید یہی وجہ تھی کہ اس وقت دیگر مذہبی و سیاسی شخصیات ان کے ساتھ چلنے سے قاصر تھیں کیونکہ وہ جزوقتی سوچ اور متعصبانہ رویے کے ساتھ چلنا چاہتے تھے جبکہ شیخ الاسلام کسی ایک گروہ، فرقے یا مذہب کیلئے نہیں بلکہ ہر اس شخص کیلئے کام کرنا چاہتے تھے جو حق پر ہے اور ہر اس شخص کو بیداریٔ شعور کا پیغام دینا چاہتے تھے جو حق سے غافل ہے۔ یعنی بھٹکے ہوئے کو راہ راست پر لانا اور حق دار کو اس کے حقوق کا شعور دینا شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری اور تحریک منہاج القرآن کا منشور ہے۔ اس لیے آپ نے اکیلے چل کر اپنا قافلہ بنایا اور ثابت کر دیا کہ اگر بندہ حق پر ہو تو اللہ بھی اس کا ساتھ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اپنے تو اپنے غیر بھی ان کی خدمات کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔
ناقد چاہنے کے باوجود ان کی زندگی کے کسی کمزور پہلو کو سامنے نہیں لا سکے۔ میں نے خود ان کے کئی ناقدین کو یہ کہتے سنا کہ ہم ان کے کردار پر شک نہیں کرسکتے، وہ پاکیزہ جوانی کے مالک تھے ۔ اسی اعلی کردار کی وجہ سے ہی تو حکومت دھرنے کے دنوں میں پوری سفارتی مشینری کو حرکت میں لانے کے باوجود ایک روپے کی کرپشن یا منی لانڈرنگ ثابت نہ کر سکی۔
Reformer & Philanthropist
ٍ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شخصیت کا ایک اور قابل فخر پہلو آپ کا Reformer (مصلح) اور Philanthropist (ہمدرد انسان) ہونا ہے۔ آپ محض شارح قرآن و حدیث نہیں بلکہ آپ نے عملاً انسانی خدمت کے کارہائے نمایاں بھی انجام دئیے۔ میری مراد دکھی انسانیت کے لیے ان کی بے مثال خدمت ہے۔ انہوں نے منہاج القرآن انٹرنیشنل ،منہاج یونیورسٹی آف لاہور، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی، منہاج گرلز کالج، منہاج ویلفیئر فائونڈیشن، آغوش، بیت الزہرہ، فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی شکل میں انسانی فلاح و ملت اسلامیہ کی خدمت کے جو ادارے قائم کئے وہ لاکھوں مسلمانوں اور کروڑوں انسانوں کیلئے ایک نعمت ہیں۔ آپ نے ادارہ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے 36سال کے مختصر عرصہ میںاسلامیان پاکستان کیلئے جو خواب دیکھا اسے عملی تعبیر بھی دی۔
شیخ الاسلام اپنے علمی، تحقیقی، فلاحی کاموں کی بدولت ہزاروں لاکھوں افراد ،خاندانوں کیلئے رزق حلال کمانے کا باوقار وسیلہ بھی ہیں۔ ایسی مثالیں خال خال ملیں گی کہ کوئی شخصیت غیر کاروباری بھی ہو اور اس کے علم، ویژن اور خدمت کے سبب ہزاروں کی تعداد میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہورہے ہوں۔
منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کا قیام پاکستان بھر کے پسماندہ خاندانوں کے بچوں کو معیاری اور سستی تعلیم فراہم کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا اور الحمداللہ آج ساڑھے چھ سو سے زائد سکول ملک کے قریہ قریہ میں لاکھوں بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں اور ایم ای ایس کے یہ سکول ہزاروں اساتذہ کیلئے روزگا ر کا وسیلہ بھی ہیں۔ الحمدللہ شیخ الاسلام کی ذات پر پاکستان یا دنیا کی کوئی حکومت، ادارہ، تنظیم یا گروپ مالی منفعت کا الزام نہیں لگا سکتا۔ یہ سارا نظام اپنی مدد آپ کے تحت چل رہا ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ پاکستان میں جتنا کڑا احتساب اور چھان بین ڈاکٹر محمد طاہر القادری اور ادارہ منہاج القرآن کی ہوئی، اس کی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ نیب ہو، ایف آئی اے ہو، ایف بی آر ہو، اینٹی کرپشن ہو یا کوئی محتسب اصغر یا اعلیٰ ہو سب نے قانون کے مطابق نہیں بلکہ حاکمِ وقت کی خواہش اور حکم کے تابع داغ لگانے اور تلاش کرنے کی کوشش کی مگر کوئی بھی ادارہ تمام تر کوشش اور سازش کے باوجود اپنے مذموم عزائم کی تکمیل نہ کر سکا۔ سینکڑوں مقدمات قائم کیے گئے، نوٹس بھیجے گئے، انکوائریاں کی گئیں، سوال و جواب ہوئے، آڈٹ ہوئے، اکائونٹس کی چھان بین ہوئی مگر ہمارا قائد اور ادارہ منہاج القرآن اور اس کے جملہ ذیلی ادارے سب عوام اور قانون کی عدالت میں سرخرو ہوئے۔
اسی لیے شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ جو ڈیل اور سودے کرتے ہیں ان کے حلق سے آواز نہیں نکلتی۔ ہمارے قائد کا یہ شفاف کردار صرف ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کے لیے باعث اعزاز اور فخر ہے کہ ایک شخص ایسا بھی ہے جو انمول ہے۔
اصلاحِ سیاست اور بقائے ریاست میں کردار
قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زندگی کا ایک اہم اور قابل ذکر گوشہ ان کی سیاسی کاوشیں بھی ہیں۔ آپ نے جب سیاست میں قدم رکھا تو سیاسی دنیا کی قد آور شخصیات بھی آپ کی سیاسی بصیرت کی معترف نظر آئیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ لوگ جن کا لگائو دین اور تعلیم و تعلُّم سے زیادہ ہو وہ سیاست سے دور رہتے ہیں اور بالخصوص پاکستان کی سیاست کا تو انداز ہی نرالا ہے۔ یہاں سیاست کرنے کا بنیادی اصول ’’چور اچکا اورغاصب و قاتل‘‘ ہونا ہے۔ شو مئی قسمت کہ اب عوام بھی اس معیار کو قبول کر بیٹھی ہے اور وہ بھی کسی امانت دار اور پڑھے لکھے کو سیاست میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ اگرچہ یہ Trendبھی مروجہ سیاست دانوں کا بنایا ہوا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی ایماندار آکر ان کی چور بازاری کو بے نقاب کرے۔
ایسی صورت حال میں قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’سیاست نہیں، ریاست بچائو‘‘ کے ایجنڈے کو لئے ہر قسم کے خوف سے بے نیاز میدان عمل میں نکل پڑے اور پھر پاکستان کے مروجہ سیاسی نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔ سیاست دانوں کی مکارانہ چالوں سے بہکی عوام میں بیداریٔ شعور کا کام شروع کیا۔ عوام کو سیاست دانوں کی چالوں سے آگاہ کیا۔۔۔ ان کی کرپشن کو بے نقاب کیا۔۔۔ عوام کو بتایا کہ آئین کے مطابق تمہارا منتخب نمائندہ کن خصوصیات کا مالک ہونا چاہیے۔۔۔ آئین پاکستان کی رو سے عوام کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا۔۔۔ اور آئینِ پاکستان کے وہ آرٹیکلز جو عوام کے حقوق پر مبنی ہیں عوام کو زبانی یاد کروا دئیے۔
پھر صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اُن غصب شدہ عوامی حقوق کی بحالی کیلئے عملی طور پر میدان میں نکلے اور نئی جہت پر احتجاجی سیاست کی بنیاد ڈالی۔ آپ کی اس حیدری للکار سے حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کو اپنی مکارانہ سیاست کی نائو ڈولتی نظر آئی تو سب حق کی اس آواز کے خلاف متحد ہو گئے۔ قائد انقلاب اور پاکستان عوامی تحریک نے پاکستان کی سیاست میں اصول کی سیاست کی تاریخ رقم کر دی۔ آج بھی اور مستقبل میں بھی تاریخِ پاکستان کا بچہ بچہ اس بات سے واقف ہو گا کہ قائد انقلاب کے جان نثاروں نے اصولوں کی سیاست اور عوامی حقوق کی بحالی کی خاطر جانوں تک کا نذرانہ پیش کردیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ استحکامِ پاکستان کیلئے بھی قربانیاں پیش کی جائیں۔ قائد انقلاب کے جانثاروں اور پاکستان عوامی تحریک کے جیالوں نے خون کا یہ نذرانہ پیش کرکے ملک و قوم کے لئے وفادار ہونے اور قومی مفادات کو ہر سطح پر ترجیح دینے کی لازوال مثال پیش کردی۔ الغرض قائد انقلاب نے مثبت سوچ کے ساتھ تبدیلی کیلئے پوری کوشش کی ہے اور اس مقصد کے لئے اپنے تمام ذرائع بروئے کار لائے ہیں۔
حکمران، قائد انقلاب کی اس بیداریٔ شعور کی مہم اور خدمت سے اسی لئے سب سے زیادہ خوف زدہ تھے اور ہیں کہ انہیں اگر پورے ملک میں کوئی حقیقی قوت نظر آتی ہے تو وہ قائد انقلاب ہی ہیں جو عوام کے بنیادی حقوق کی بحالی اور ملک و قوم کی حفاظت کے لئے کسی بھی لالچ، خوف، ڈر، منفعت اور دیگر ہتھکنڈوں سے مرعوب نہیں ہوتے۔
محبت و خلوص کے اثرات
ایسی ہمہ جہت و ہمہ گیر اوصاف کی حامل ہستیاں کم ہوں گی جنہوں نے اس مختصر دنیاوی زندگی کے اندر اس قدر کامیابیاں حاصل کی ہوں جو زندگی کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ آپ کی عالمگیر شہرت و مقبولیت اور آپ کی علمی، فکری، روحانی، سیاسی الغرض جملہ خدمات کی ہر سطح پر پذیرائی آپ کی صدقِ نیت اور خلوص کی غماز ہے۔ آپ کی جملہ خدمات کامرکزی نکتہ محبت، امن، رواداری اور مواخات کو فروغ دینا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے فتوی بازی کی کوئی فیکٹری نہیں کھولی بلکہ ہر سطح پر بھائی چارے کا پیغام دیا ہے اور حکمت کے ساتھ لوگوں کو تعصب سے نکال کر ایک دوسرے کے قریب کیا ہے۔ آپ نے مختلف فرقوں میں نفرت پیدا کرنے کے بجائے انھیں عشقِ رسولa، احترامِ صحابہ کرام اور محبتِ اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم کا پیغام دیا۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے بجائے تعلق باللہ اور رجوع الی القرآن کی جانب متوجہ کیا۔ یورپ کی نوجوان نسل جنہیں اسلام کی عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تشریح کی ضرورت تھی اور وہ عرصہ دراز سے یہ تشنگی محسوس کر رہے تھے، اب انہیں شیخ الاسلام کی صورت میںاپنے ارمان پورے ہوتے نظر آئے تو دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ، برطانیہ اور یورپ سمیت کئی ممالک میں منہاج القرآن کے درجنوں اسلامک سنٹرز بنے جو وہاں کی نوجوان نسل کی اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق رہنمائی کر رہے ہیں۔
کامیاب انسانوں کی سب سے بڑی علامت اور شناخت ان کا اپنی زندگی میں اپنے ویژن کو عملی شکل دینا ہوتا ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ خواب کسی نے دیکھا اور تعبیر کے مراحل کسی اور کے ہاتھوں انجام پذیر ہوئے مگر شیخ الاسلام نے جو خواب دیکھا اسے افکار میں بدلا، عملی شکل دی اور آج اس خواب کی تعبیر بھی ان کے سامنے ہے۔
لوگ اکثر سوال کرتے ہیں کہ ہماری مذہبی و سیاسی تنظیموں کی عمریں منہاج القرآن سے زیادہ ہیں مگر ہم آپ کے صرف لاہور سیکرٹریٹ جیسا مرکز نہیں بنا سکے جبکہ آپ نے صرف 35 سال میں ملک و بیرون ملک مراکز کا جال بچھا دیا ہے، اس کا کیا راز ہے؟ شیخ الاسلام نے بڑا سادہ جواب دیا کہ مجھ میں اور باقی لوگوں میں فرق یہ ہے کہ میرے جبّے(قمیص) میں جیب نہیں ہے۔ یعنی میں دین کے نام پر کاروبار نہیں کرتا اور خدمت دین کا کوئی ادنیٰ سا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتا بلکہ میری تصانیف و خطابات کی CD's سے حاصل ہونے والی جملہ آمدنی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خدمتِ دین کی غرض سے منہاج القرآن کے لئے قف ہے۔
شیخ الاسلام نے مختصر عرصے میں اتنے ہمہ جہتی کام کیے مگر اہم بات یہ ہے کہ اس پورے سسٹم کو اپنی زندگی میں ہی خود کار نظام بنا دیا اور اس نیٹ ورک کو چلانے کے لیے ایسی ٹیم بھی تیار کی جسے تمام اختیارات دے کر خود عملًا انتظامی امور سے الگ ہو کر یہ یقین بھی کر لیا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے انھوں نے جو پودا لگایا تھا اور جسے پروان چڑھتے دیکھا تھا ان شاء اللہ وہ ابدالآباد تک قائم و دائم رہے گا۔انھوں نے اپنی تصانیف ،تعلیمی و فلاحی اداروں،تلامذہ اور کارکنان کے ذریعے اپنے آپ کو امر کر دیا ہے۔تاریخ ایسے لوگ بہت کم پیدا کرتی ہے جو اتنے ہمہ جہت و کامیاب ہوں۔
صوفیاء کرام کہتے ہیں وقت تلوار ہے اگر اسے نہیں کاٹو گے تو یہ آپ کو کاٹ ڈالے گا۔ شیخ الاسلام نے وقت کا صحیح استعمال کر کے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ اگر تم بھی امر ہونا چاہتے ہو تو صدقِ نیت اور خلوص کے ساتھ مخلوقِ خدا کی بھلائی کے لئے وقت کا درست استعمال سیکھو، یہی عمل تمہیں کامیابیوں کی معراج عطا کردے گا۔