شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی قائدانہ جدوجہد کی جہات اور اسالیب کا احاطہ تو نہیں کیا جا سکتا، ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ روئے زمین پرجہاں جہاں پہنچ کر جو جو کچھ کر رہے ہوتے ہیں ہم ان سے آگاہ رہیں، آنکھیں کھلی رکھیں ،گوش بر آواز رہیں، ذہن حاضر اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت انہی پر مرکوز کر رکھیں اور پھر جملہ معلومات ریکارڈ کرتے جائیں تو ممکن ہے ایک ادھورا سا خاکہ بن پائے کہ کیا کیا جہتیں ہیں جن میں شیخ الاسلام مصطفوی انقلاب کی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں اور مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے وہ کیا کیا اسلوب اختیار کرتے جارہے ہیں۔
ارادہ ہو توشیخ الاسلام کی تمام مصروفیات سے آگہی یوں ممکن ہے کہ ہماری ان ذرائع تک رسائی ہو جن سے یہ ساری معلومات مل سکتی ہیں۔ آپ کے خطابات اور TVانٹرویوزکی DVDs ، منہاج TVپر خطابات کی نشریات، آپ کی 500سے زائد مطبوعہ کتب کا مطالعہ، انٹرنیٹ پر آپ کی مصروفیات کی رپورٹس، مجلہ جات کا مطالعہ اور رفقا کے ساتھ رابطے اور تبادلہ خیال سے ہم یہ خاکہ بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور اپنے احباب کے ساتھ shareکر سکتے ہیں۔
شیخ الاسلام کے محققانہ اسلوب کی ایک جھلک
شیخ الاسلام نے مصطفوی مشن کے فروغ کا کام دنیا بھر میں پھیلا رکھا ہے۔ انسانیت کو بالعموم اور امت مسلمہ کو بالخصوص درپیش بحرانوں اور خطرات سے کامل آگہی، اہمیت کے لحاظ سے ان کی درجہ بندی، منہاج القرآن کے وژن کے مطابق ان مشکلات کا حل اور حل کی طرف بڑھنے کا لائحہ عمل شیخ الاسلام کے لئے ایسے مراحل ہیں جن کے لئے انہیں محض چند لمحے درکار ہوتے ہیں۔مگر وہ خود تربیت دیتے ہوئے کئی بار فرما چکے ہیں کہ وہ اپنے ہر خطاب، انٹرویو یا گفتگو کے لئے preparation (تیاری) کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ہر معاملے کے جملہ پہلو نگاہ میں رکھتے ہیں اور کس پہلو پر کس انداز سے کتنا وقت لینا ہے ان کو بخوبی مستحضر ہوتا ہے۔ اس تیاری میں سب سے زیادہ اہم مستند دلائل کو منطقی تسلسل میں رکھتے ہوئے ترتیب دینا ہوتا ہے جو گفتگو کی میز پر flagکی گئی کتب کی صورت میں ہمیں نظر بھی آرہا ہوتا ہے۔ ان حوالہ جات کا اہتمام DVDریکارڈنگز میں بھی نظر آتا ہے تاکہ سامعین اور ناظرین کو کسی دلیل کے بارے میں ابہام نہ رہے۔ آپ کا تقریر و خطابت کا یہ محققانہ اسلوب آپ کا معمول ہے اور اس کی مثال آج تک بڑے بڑے گذرے ہوئے اور معاصر مقرروں اور خطیبوں (orators, demagogues)کے ہاں بھی یکسر ناپید ہے۔
ہمہ جہتی رابطے
شیخ الاسلام کے مقاصد ان کے اسالیب متعین کرتے ہیں۔ اور مقاصد میں سرفہرست امت مسلمہ کی اصلاحِ احوال ہے جبکہ امت ایسے خطرناک بحرانوں میں گھری ہوئی ہے جن سے نجات مخلصانہ مگر فیضِ نبوت سے بہرہ ور قیادت کی صدیوں پر محیط مسلسل جدوجہد ہی سے ممکن ہے۔ مگر امت کے وہ طبقات جو غیرمسلم یورپی ممالک کے multicultural معاشروں میںنسل در نسل رہتے آرہے ہیں ان کے مسائل گھمبیر اور فوری سدّباب کے متقاضی ہیں۔
نیز مسلم ممالک میں فرقہ وارانہ، لسانی یا دیگر عوامل کی وجہ سے جاری خونریزی یا انتشار کے خاتمہ کے لئے ان ممالک کی حساس اور امت کا درد رکھنے والی قیادتوں کے ساتھ ممکنہ حل کے لئے شیخ الاسلام رابطوں کے اسلوب پر کاربند ہیں۔
دوسری طرف اپنے وطن کی صورت حال ایسے بھنور کی سی ہے جو زد میں آنے والی ہر شے کو نگل جائے۔ دشمنوں میں گھرے ہوئے مادرِ وطن کی بقا کا سوال ہے جس کے لئے انقلاب کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ لوٹ مار اورکرپشن کے جبروستم سہتے ہوئے محروم، مظلوم عوامی طبقات کے خوں آشام دشمنوں کے خلاف طبلِ جنگ بجایا جا چکا ہے۔ جانوں کا نذرانہ پیش کیا جا چکا ہے۔ دشمنوں کو مزید مہلت دینا خودکشی کے مترادف ہے۔ لہٰذا یہ معاملہ بھی فوری اقدامات کا تقاضا کر رہا ہے۔
جد و جہد کی جہتیں اور اسوۂ حسنہ کا ایک ہی اسلوب
یورپ اور امریکہ میںرہنے والے مسلمانوںکو دین اسلام کے خلاف انتہاپسندی و دہشتگردی کے الزام اور Islamophobia کے عفریت کے خطرات لاحق ہیں۔ یہ ایک بہت خطرناک صورتحال ہے جس سے شیخ الاسلام گذشتہ ایک دہائی سے جنگی بنیادوں پر نمٹ رہے ہیں۔یہ نئے صحت مند معاشرتی رویوں کو وجود میں لانے کا کام ہے۔ یہ حالات و واقعات کے تاریخی دھارے کو نئے رخ پر موڑ دینے کا کام ہے۔ یہ اعلیٰ ترین اولوالعزمی کے ساتھ حکومتی رویوں کی تشکیل نو اور اس کے لئے گہری احتیاط کے ساتھ محتاط اور موزوں حکمت عملی سے ممکن ہے۔ یہ اس حکمت عملی کی ارتقائی منازل کو مضبوط ہاتھوں میں رکھتے ہوئے اعلیٰ مصلحت اندیشی کے ساتھ راہ عمل پر گامزن رہنے کی جدوجہد ہے۔ یہ اسلام کے صحیح تشخص کی ترویج اور مختلف تہذیبوں کے مابین نظریاتی خلیج کو پاٹ دینے کا کام ہے۔اس عظیم جدوجہد کو درپیش جملہ نظریاتی، معاشرتی، سیاسی اور قانونی نوعیت کے معاندانہ رویوں اور ان کے پیچھے سرگرم عوامل کو دانش و حکمت کے ساتھ مسدود کرنے کا کام ہے اورپورے عالمی معاشرے کو انسانی فلاح اور تکریم کے فروغ کے لئے Mobilizeکرنے کا کام ہے۔
آپ نے دیکھا ان تمام امور سے اگر صرف ایک ہی شخصیت نے نبرد آزما ہونا ہو تو کب کب کیا اسلوبِ قیادت، اسلوبِ فکرواظہار، اور اسلوبِ رابطہ و تعلق درکار ہوں گے۔ پورے یورپ اور امریکہ میں پھیلی ہوئی humanity multicultural کے متفرق اور متنوع معاشرتی رویوں کی کایا پلٹ پیغمبرانہ جدوجہد کی تبلیغ و ترویج ہی سے ممکن ہے۔ وگرنہ حالات و واقعات کے تاریخی دھاروں کو کون موڑے۔۔۔؟ حکومتی رویوں کی تشکیل نو کی جدوجہد کیونکر ممکن ہے۔۔۔؟ یہ جملہ امورکم از کم ایک مصلح انسانیت کا تقاضا کرتے ہیں۔ قرآن سے رہنمائی لی جائے تو فرمانِ الٰہی ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.
’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ (a کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے‘‘
(الاحزاب: 21)
یہی وہ اسلوب ہے جو تمام مسائل کے حل کے لئے اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور جو وہبی طور پر شیخ الاسلام نے مجددانہ طریقے سے اپنا رکھا ہے۔
آپ نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 12جلدیں لکھ کر، تجدیدِ دین کے لئے احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصرِ حاضر کی ضروریات کے مطابق ترتیب و تدوین کر کے اور اسلام کے صحیح تشخص کو اجاگر کرنے کے لئے بے مثال خدمات سرانجام دیں۔ آپ نے اسلامی قوانین سے موجودہ زندگی کے لاینحل مسائل اور قیام امن کے لئے موزوں ترین اور مؤثر ترین ہونے کے ناقابلِ تردید دلائل مہیا کر کے امت مسلمہ کے لئے بالخصوص اور غیر مسلم دنیا کے لئے بالعموم محفوظ ترین راہِ عمل پیش کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے شہرہ آفاق اور ناقابلِ تردید فتویٰ لکھ کر دنیا بھر کی قیادتوں، صفحۂ ہستی پر بسنے والے جملہ معاشروں اور خصوصاً اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا کلچر پھیلانے والے عناصر کو نہ صرف خاموش کردیا بلکہ ان کی اصلاح اور رہنمائی کے لئے بھی ٹھوس دلائل فراہم کئے۔
اب آپ خود ہی سوچیں کہ اس اسلوب کو کیا نام دیا جائے۔ اس سے ایک قدم آگے چلیں تو آپ کو مختلف زبانوں میں مرتب کردہ کئی جلدوں پر مشتمل نصابِ امن بھی مل جاتا ہے جس کی تعلیم و تدریس کے لئے انگلش اور اردو میں لکھی گئی 25سے زیادہ ٹیکسٹ بکس مل جاتی ہیں جو مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں کہ محبت کا پرچار کیسے کیا جائے؟ دیرپا امن کے قیام کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ پر امن بقائے باہمی کے instrumentsکیا کیا ہیں؟ معاشروں میں میانہ روی، اعتدال، رواداری، تحمل، بردباری اور ایثاروقربانی کے رویوں کی پرورش کیسے کی جاتی ہے اور صفائے قلب اور ذہنی و روحانی سکون کا حصول کیسے ممکن بنایا جاتا ہے؟ multicultural معاشروں میں integration یا معاشرتی وحدت کے لئے جس وسعتِ قلب اور وسعتِ نظر کی ضرورت ہے وہ مسلم اور غیرمسلم طبقات معاشرہ میں کن کن طریقوں سے پیدا کی جا سکتی ہے؟ الغرض امن کا یہ نصاب دورِ حاضر کے ان تمام طوفانوں کا رخ موڑ سکتا ہے جن کی وجہ سے انسانیت اپنے مستقبل قریب تک سے بھی مایوس ہوئی بیٹھی ہے۔
یورپ میں معاشرتی وحدت کی حکیمانہ جدوجہد
امریکہ میں 9/11 اور انگلینڈ میں 7/7 کے بعد کے پے درپے واقعات سے یورپ اور امریکہ میں مقیم مسلمانوں کے لئے عدم تحفظ کی فضا پیدا ہوئی جو وقت کے ساتھ پیچیدگیوں کا شکار ہو رہی ہے ۔ مختلف کمیونٹیز میں معاشرتی وحدت (integration) کے حوالے سے سخت پوزیشن اختیار کی جارہی ہے اور Multiculturalism کو ناکام قرار دیا جارہا ہے۔ Integration کے حوالے سے ان کا خیال ہے اگرچہ مختلف پس منظر سے آئے ہوئے لوگوں کا ہم آہنگی سے رہنا ایک مثبت طریقہ ہے مگر ماضی اور حال کے حالات کے تناظر میں ہجرت کر کے آنے والے لوگ ہی اگر Integration mind setکو تسلیم نہ کرتے ہوں تو اس کے نتائج منفی اور ناقابلِ برداشت ہوتے ہیں۔
گویا دہشتگردی کے واقعات نے تمام یورپی ممالک میں مسلمان آبادی کے لئے integration کے حوالے سے ایک سنجیدہ صورتحال کو جنم دیا ہے۔ ان حالات میں فرانس، جرمنی، برطانیہ، بلجئیم، ناروے اور ڈنمارک میں آباد مسلمانوں میں integration پالیسی کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ ہے وہ چیلنج جس سے نبٹنے کے لئے شیخ الاسلام نے پچھلی ایک دہائی سے دن رات ایک کر کے اسلام کی Multiculturalism اورintegration پر تعلیمات کو عام کرنے اور مثبت اور تعمیری رویوں کے فروغ کے لئے جدوجہد کی ہے اور یوتھ کو بالخصوص targetکر کے الہدایہ کیمپس کے ذریعے ان پر تربیتی پروگرامز فوکس کئے ہوئے ہیں۔اس سلسلے میں اسوۂ حسنہ سے رہنمائی کے لئے آپ نے Muhammad the Peacemaker، Islam on Love and Compassion، Muhammad the Merciful، Islam on Serving Humanity جیسی کتب لکھ کر اسلامی تعلیمات امن و رحمت کی روشنی کو عام کردیا ہے تاکہ شرح صدر ہو اورجملہ طبقات اپنے رویوں کی اصلاح کے لئے یکساں استفادہ کر سکیں۔
شیخ الاسلام بحیثیت سفیر امن منہاج القرآن انٹرنیشنل کے عظیم قائد کے طور پر امن و سلامتی کے فروغ کی وہ آواز ہیں جو بیک وقت پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ ٹورنٹو ہو یا وین کوور۔۔۔ نیو جرسی ہو یا واشنگٹن ڈی سی۔۔۔ اوسلو ہو یا گلاسگو۔۔۔ مانچسٹر، برمنگھم یا لندن۔۔۔ استنبول ہو یا حیدر آباد دکن۔۔۔ ٹوکیو ہو یا ڈیووس جنیوا۔۔۔ یہ آواز پوری دنیا میں ہر کہیں سنائی دے رہی ہے کہ اسلام مذہبی جنون، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے وجود میں آیا۔خطابات، انٹرویوز اور Talks کا ایک سلسلہ ہے جو جاری ہے۔
یہ دراصل ان کا عالمی دانشوروں، پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم، مورخین، سفارت کاروں اور حکمرانوں کے ساتھ وہ گہرا رابطہ ہے جس کا مقصد صرف ایک ہے کہ آنے والے وقت کا رخ امن و سلامتی اور فلاح و تکریمِ انسانیت کی منزل کی طرف موڑ دیا جائے۔ مختلف ممالک کے سربراہان شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری سے رابطہ میں رہتے ہیں، اپنے ہاں مدعو کرتے ہیں اور حصولِ امن اور بقائے باہمی کے فروغ اورintegration کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے سلسلے میں رہنمائی بھی حاصل کرتے ہیں۔اس طرح آپ غیر مسلم معاشروں میں معاشرتی وحدت قائم کرنے کا تاریخی کردار ادا کر رہے ہیں۔
مقامی معاشروں اور رہنماؤں کو اسلام اور مسلمانوں کے مذہبی رویوں کی قیامِ امن میں افادیت کے پہلو سے روشناس کرانا، مختلف مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو ان معاشروں میں Integrate کرنے کے لئے تربیتی کیمپس لگانا، لٹریچر تخلیق اور تقسیم کرنا، ورکشاپس منعقد کرنا اور ضبطِ نفس کے حصول کے لئے نوجوان نسل کو تصوف کی تعلیمات کی تربیت کے مراحل سے گزارنا اور اس مقصد کے لئے ھدایہ کیمپس باقاعدگی سے منعقد کرنا اور نوجوانوں کو Moderation اور Tolerance کے راستے پر چلانے کے لئے مربیانہ انقلابی کردار ادا کرنا ایسے امور ہیں جن سے آپ نے عملی محاذ پر اپنی بصیرت کی وہ شمعیں روشن کی ہیں جن سے غیر مسلم دنیا میں اسلامی تہذیب کے خدوخال جھلملانے لگے ہیں۔آپ کی حکمت عملی وہی ہے جو سرکارِ دوعالمa نے multicultural society میں integrationکے لئے اپنائی۔ آپ کااسلوب بھی وہی ہے جو رحمۃ للعلمین aنے وحی الٰہی کے تتبع میں اپنایااور بالآخر دینِ اسلام کو متحقق کر دیا۔
Islamophobia کے انسداد کی حکمتِ عملی
معاشرتی وحدت کی کاوشوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے جو نیا محاذ کھولا گیا ہے اسے اسلاموفوبیا کہتے ہیں جس نے دہشت گردی کے سونامی سے جنم لیا ہے۔ حقیقت میں یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ پہلے القاعدہ اور اب داعش کے نام سے دہشتگرد مسلمان ہو نے ہی کے دعوے دار نہیں بلکہ مسلمانوں کو قتل بھی کرتے ہیں۔ان کا مقصود اسلام کا تشخص گڈمڈ کرنا اور غیر مسلموں میں مسلمانوںکے لئے نفرت کی آگ بھڑکانا ہے۔ اس لئے کہ دہشتگردی کی وجہ سے دنیا میں جہاں کہیں مسلمانوں کے خلاف غم و غصہ جنم لیتا ہے اس سے انہیں خوشی ہوتی ہے کہ اب یورپی معاشروں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ خوب بھڑکنے لگی ہے اور Multiculturalism اورintegration کے پروگرامز اب نا کام ہو جائیں گے اور معاشروں اور تہذیبوں میں نفرت، دوری اور عناد پیدا ہوگا۔
یورپی اقوام میں مسلمانوں کی طرف سے خطرات کو اجاگر کرنے کے لئے یہ دہشت گرد خود کو مسلمان کہہ کر مسلمانوں کے خلاف ہی دہشتگردی کرکے اور ساتھ ہی غیر مسلم اقوام کو بھی خونریزی کا نشانہ بنا کر انہیں عدمِ تحفظ کے احساس میں مبتلا کرتے ہیں جسے وہ اسلاموفوبیا کہہ کر مسلمانوں سے نفرت کے کلچر کا پرچار کرنے لگے ہیں۔ عالمی معاشروں اور تہذیبوں کے لئے یہ ایک عظیم خطرہ ہے جس سے دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھنے لگی ہے۔
شیخ الاسلام اس خطرے کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے یورپی ذہن سے اس کے نقوش دھو ڈالنے کے لئے قیامِ امن کے محاذ پر بر سر پیکار ہیں اور اس خطرے کا قلع قمع کرنے کے لئے مختلف ورلڈ پلیٹ فارمز پر اپنی جدو جہد کا آغاز کر چکے ہیں۔ آپ جس طرح اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، اسی طرح اس طوفانِ بلا کا رخ موڑنے کے لئے حکمتِ عملی (strategy) وضع کر کے اس پر عمل پیرا ہیں۔۔ اسلام کی Scientific Interpretation کے ساتھ ساتھ اصل اسلامی عقائد کے فروغ کے ذریعے اسلام کے بارے میں پائے جانے والے اس تاثر کو جڑ سے اکھاڑ رہے ہیں کہ اس کے نظریات شدت پسندی یا انتہا پسندی پر مبنی ہیں اوراس میں تحمل، بردباری اور رواداری کی گنجائش نہیں۔
وہ ان معاشروں کا حصہ بن جانے والے مسلمان شہریوں اور ان کے بچوں کی تربیت کے انتظامات کر رہے ہیںتاکہ یہ افراد خالصتاً اسلامی اخلاقیات کا طرز عمل اپنائیں۔سب سے بڑی وجہ اسلام کے بارے میں جہالت اور بے خبری ہے جسے دور کرنا ہے، تحمل اور بردباری سے ڈائیلاگ کا راستہ اپنانا ہو گا، اپنے امن پسند رویے کے عملی نمونے پیش کرنا ہوں گے، اخلاقِ حسنہ کی ترویج کرنا ہو گی۔ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا ہو گا۔ زمینی حقائق کا من و عن پرچار کرنا ہو گا تاکہ مختار اداروں میں ابہام نہ رہے۔حکومتوں کو قیامِ امن اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی کے لئے قانون سازی پر آمادہ کرنا ہوگا۔ اس معاملے میں پولیس فورس کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے اور سب سے بڑھ کر میڈیا کے حوالے سے محتاط رویہ اپنانا ہو گا اور اپنے مؤقف کے پر چار کے لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اپنی جگہ بنانا ہو گی۔ یہ کام کتنا بڑا ہے اور اس میں مضمر مسائل کتنے پیچیدہ ہیں، ان پر تدبر اور تفکر کی ضرورت ہے۔ یہ ہیں وہ جملہ امور جو شیخ الاسلام تنہا سرانجام دے رہے ہیں۔
مادرِ وطن میں شیخ الاسلام کی قیادت کے متنوع اسالیب
یورپ، امریکہ اور باقی غیرمسلم دنیا میں مسائل اور ان سے نجات کے لئے شیخ الاسلام کے حکیمانہ، مربیانہ، مصلحانہ، اور داعیانہ قیادت کا ایک ادھورا خاکہ تیار کرنے کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ مادرِ وطن کے تشویشناک حالات و واقعات سے نبردآزما ہونے، ملت کی ڈوبتی نیّا کو بچانے اور ساحل تک لانے کے لئے آپ نے کیا حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اور کن کن محاذوں پر کس کس اسلوب سے قیادت کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
منہاج القرآن کے تربیتی، دعوتی، تنظیمی، تحریکی اور انقلابی معاملات ایک طے شدہ لائحہ عمل کے تحت انجام دئیے جاتے ہیں۔ تاہم غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ انہی صفحات پر گذشتہ کئی اشاعتوں میں تفصیل سے حالات اور انقلابی اقدامات کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ لانگ مارچ ، انقلاب مارچ اور قصاص مارچ جیسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ شیخ الاسلام تربیتی اور معلمانہ اسلوب بھی اختیار کرتے ہیں کیونکہ انقلاب کے مجاہدوں کی تعلیم و تربیت ، بیداریٔ شعور اور حقائق سے آگاہی بھی ضروری ہے اور کارکنوں کو تمام معاملات کے قانونی اور آئینی پہلوؤں سے روشناس کرنا بھی کیونکہ انہی کارکنان نے عوام کو انقلاب پر آمادہ کر کے انہیں اپنی جدوجہد کے دھارے میں شامل کرنا ہے۔
شیخ الاسلام نے پوری قوم کے ذہن میں اپنے آئینی حقوق سے آگاہی اور ان کے حصول کی جنگ کی تخم ریزی کی اور پھر الیکٹرانک میڈیا پر مسلسل انٹرویوز کے ذریعے لوگوں کو منزل سے آشنا کیا۔23دسمبر2012ء کو جشن استقبال اور 17جنوری 2013ء کو لانگ مارچ کے موقع پر آپ نے لوگوں سے عہدِ وفا لیا تو مردو زن موسم کی انتہا درجہ کی شدت میں بھی چٹان بن کر جم گئے۔ یہ لانگ مارچ تاریخ کا ایک انوکھا اور ریکارڈ مارچ تھا جس میں کوئی پتا اور گملا تک بھی نہ ٹوٹا۔
قائد انقلاب نے حکمرانوں کے سامنے مطالبات رکھے کہ انتخابی نظام (Electoral System) کو آئینی دفعات کے تابع کیا جائے، نمائندوں کی جانچ پڑتال ہو، صادق اور امین نمائندے انتخابات لڑیں۔ ایسے لوگ جو کرپشن کرتے رہے ہوں، سزا یافتہ ہوں یاجو ٹیکس نادہندہ ہوں اور جن کے اثاثہ جات کا کوئی ریکارڈ نہ ہو انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی جائے۔ پاکستان الیکشن کمیشن کی آئینِ پاکستان کے مطابق تنظیم نو کی جائے اور اس میں سے صوبوں کے نمائندوں کو نکالا جائے۔ مگر مُک مکا کی سیاست نے اِن مطالبات کو اپنے ذاتی مفادات کے یکسر خلاف دیکھتے ہوئے انہیں مسترد کردیا۔
11 مئی 2013ء عام انتخابات کے دن قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہدایات پر پاکستان عوامی تحریک نے وطن عزیز کے 60بڑے شہروں میں احتجاجی کیمپس لگائے۔ جہاں ووٹرز ووٹ ڈال رہے تھے وہاں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان عوام الناس کو قائد انقلاب کا یہ پیغام پہنچا رہے تھے کہ
’’ہونے والے انتخاب ان کے آئینی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا ایک مکروہ کھیل ہے‘‘۔
یہ یقیناً ایک دلیرانہ اقدام تھا۔ ڈاکہ زنی ہوگئی، عوام کو ان کے آئینی حقوق سے مکمل طور پر محروم کر دیا گیا اور ہر کوئی یہ پکار اٹھا ’’طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے‘‘۔
جون 2014ء میں جب عوام الناس، میڈیا اور غیر جانبدار حلقے قائد انقلاب کے دیئے گئے ایجنڈے کو حق بجانب سمجھتے ہوئے اس کے حق میں اپنی آواز بلند کرنے لگے تو حکمرانوں نے17 جون2014ء کو ماڈل ٹاؤن میں PATکارکنان پر گولیاں برسائیں اور 14 کارکنوں کو شہید جبکہ100 کو شدید زخمی کردیا۔
23 جون2013ء کو قائد انقلاب کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترنے سے جبراً روکتے ہوئے جہاز کا رخ لاہور کی طرف پھیردیا۔
10 اگست کو یوم شہداء پر حکمرانوں نے پھر یزیدیت کی انتہا کردی۔ اس موقع پر قائد انقلاب نے 14 اگست 2014ء کو اسلام آباد کی طرف انقلاب مارچ کا اعلان کردیا۔ حکومتی مظالم مزید شدت اختیار کر گئے اور 12 اگست سے 14 اگست تک ماڈل ٹاؤن کا محاصرہ کرتے ہوئے نہ صرف پورا لاہور بند کردیاگیا بلکہ ملک بھر سے آنے والے قافلوں کو بھی اُن کے علاقوں تک محصور کردیا گیا۔ ماڈل ٹاؤن میں اناج تو دور کی بات ہے پینے کا پانی بھی نہیں آنے دیا جارہا تھا۔ ملک بھر سے کارکنان کی گرفتاریاں ہونے لگیں اوریہ کریک ڈاؤن آج تک جاری ہے۔
اس صورت حال میں قائد انقلاب کی ذمہ داری ہزار گنا زیادہ ہو گئی۔ ان دنوں کے ٹی وی انٹرویوز PAT اور MQI کے پاس آگہی کا ریکارڈ ایک خزانہ ہے۔ آپ کی وہ ساری گفتگو دراصل عوام کے بنیادی آئینی حقوق کے ابلاغ کا وہ موجزن سمندر ہے جس سے عوام الناس کو مستفیض ہونے کا موقع نصیب ہوا۔ آپ صرف 14 اگست کو انقلاب مارچ پر روانہ ہونے سے آدھا گھنٹہ پہلے دی جانے والی پریس بریفنگ سن لیں اور 70دن کے دھرنے کے بعد 21 اکتوبر کو دھرنے سے کیا گیا آخری خطاب سن لیں تو عوام کے بنیادی آئینی حقوق سے آگاہی میں قائد انقلاب کا کلیدی کردار واضح ہوجائے گا۔دسمبر 2014ء کے مجلہ منہاج القرآن کے شمارے میں 70روز دھرنے کی روزانہ کی روداد شائع ہوئی ہے جس سے قائد انقلاب کی انقلابی قیادت کی شان روز روشن کی طرح نکھر کر سامنے آئی ہے۔ اسی ضمن میں 19جولائی2014 ء کو ’’انقلاب کے بعد کا پاکستان کیسا ہو گا‘‘ کے موضوع پر چھ نشستوں پر مشتمل خطاب کی روداد آئین پاکستان اور پاکستان کو معاشی دہشتگردی کے لاحق خطرات پر ایک تربیتی کورس کی حیثیت رکھتی ہے۔
آپ نے MQIکارکنوں کو بالخصوص اور پوری قوم کو بالعموم بتایا بلکہ پڑھا دیا کہ ’’آئین 280 آرٹیکلز پر مشتمل ہے ۔ 240 آرٹیکل صرف کاروبارِ حکومت چلانے سے متعلق ہیں اور پہلے 40 آرٹیکلز میں عوام کے بنیادی حقوق مذکور ہیں اور آئین ان حقوق کا عوام سے وعدہ کرتا ہے۔ اس آئین کو بنے 44 سال ہو گئے۔ مگر عوام کے حقوق کا یہ حصہ principals of policy میں پڑا ہوا ہے اور اسے واجب العمل اور واجب النفاذ نہیں بنایا گیا۔یہ کام پارلیمنٹ نے کرنا تھا جس میں ڈاکو‘ چور‘ لٹیرے اور سیاسی اور معاشی دہشت گرد منتخب ہو کر جاتے ہیں۔آرٹیکل 38کو یاد کرلیں، یہی ایک آرٹیکل ہمارے انقلاب کی بنیاد ہے۔ کوئی پوچھے آپ کا انقلاب کیا ہے؟ تو بتا دیں کہ آئین کا آرٹیکل 38 ہمارا انقلاب ہے‘‘۔
انقلاب مارچ کے فوراً بعد11 نومبر 2014ء کو Democratic Rights of Overseas Pakistanisکے سیمینار سے خطاب کرنے آپ نیویارک امریکہ پہنچ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں:
’’یہ انقلاب مارچ کیوں تھا، یہ دھرنا کیوں تھا،اس میں میری کوئی ذاتی غرض نہیں تھی۔ یہ صرف اس لئے کہ دل خون کے آنسو روتا ہے، اس دھرتی نے ہمیں جنم دیا ہے، اور اس دھرتی کی مٹی میں اتنا Potential، talent اور اتنی capabilities ہیں، افراد میں، زمین میں، معدنیات میں، وسائل میں ، environment میںکہ وہ دنیا کا عظیم ملک اور دنیا کی عظیم قوم بن سکتی ہے، اگر وہ corruption-free system، کرپشن فری سوسائٹی، کرپشن فری لیڈرشپ کی نعمت سے بہرہ یاب ہوجائے۔ میں دیکھتا ہوں اگرسیاسی جمہوری انقلاب کی جدوجہد کامیاب ہو جائے، تو میں پاکستان کو BRICS (Brazil, Russia, India, China and South Africa) کا حصہ بنتے دیکھتا ہوں۔ میں اس کو G-20کا حصہ بنتے دیکھتا ہوں۔میں اسے ICSUکا حصہ بنتے دیکھتا ہوں۔ شنگھائیorganizationکا حصہ بنتے دیکھتے ہوں۔ سارک میں بڑا اہم رول ادا کرتے دیکھتا ہوں۔ کیونکہ پاکستان کا خطہ دنیا کے اہم ترین سنگھم پر، اہم ترین وسائل، اہم ترین صلاحیتیوں اور اہم ترین مواقع کے ساتھ موجود ہے۔صرف نقص یہ کہ اسے قیادت دیانتدار نہیں ملی۔قیادت کے پاس پاکستان بنانے کے لئے کچھ نہیں ہے اور ریاست اور ملک گنوانے کے لئے سب کچھ ہے۔ overseas پاکستانیوں کے لئے میرا message یہ ہے کہ پاکستان کے مقام کو پہچانو۔ مایوس نہ ہو۔اس کا مستقبل بڑا روشن ہے۔ صرف آپ کو اس عظیم جدوجہد کا حصہ بننا ہو گا۔میں پاکستان کو ترقی کے افق پہ چمکتے ہوئے ستارے کی طرح دیکھ رہا ہوں مگر قوم کے ہرفرد کو اس کے لئے اپنا رول playکرنا ہوگا۔ اس طرح انقلاب نہیں آتے کہ TVکھول کر بیٹھیںاور دل دعائیں دیں ، نہیں بلکہ قربانیوں میں حصہ دار بننا ہو گا۔‘‘
دو گھنٹے کے خطاب میں سے یہ ایک منٹ کا اقتباس ہے۔ خود تصور کریں کہ شیخ الاسلام نے overseasپاکستانیوں کے قلوب و اذہان میں کیا انقلاب برپا کیا ہوگا۔ یہ سیمینار 12نومبر کو دلاس اور 13 نومبر2014ء کو ہوسٹن میں ہوا اور اس کا لب لباب یہاں پیش کرنا ممکن نہیں۔ آپ DVDsحاصل کریں اور شیخ الاسلام کو سنیں کہ وہ کس طرح پاکستان سے باہر بسنے والے پاکستانیوں میں انقلاب کی چنگاریاں بھر رہے ہیں اور وہ کیا معلومات ہیں جو ہر پاکستانی کو پتہ ہونی چاہئیں مگر انہیں کون بتائے؟ انہیں معلم، مربی، مرشد، قائد، نجات دہندہ، معالج، اکانومسٹ، مفکر، مدبر، محقق، مصنف، ناخدا، اور ایسے محکم توسل کی ضرورت ہے جو انہیں درِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جوڑے رکھے، دنیا کے خطرات سے آگاہ بھی کرے اور محفوظ بھی اور آخرت کی کامیابی کے لئے زادِ راہ بھی عنائت کرے۔ یہی سب کچھ ہے جو شیخ الاسلام ان سب کے ساتھ کر رہے ہیں اور پاکستان میں رہنے والے محتاجوں، غریبوں اور محروموں کی داد رسی پر بھی کمر بستہ اور ان کی کشتی طوفان سے نکال کر کنارے لے جانے کی محنت شاقہ میں مصروف ہیں۔
عالمی سطح پر خدمات کے ساتھ ساتھ مملکت پاکستان میں عوام کو ان کے حقوق کا شعور دلانے اور آمادۂ جدوجہد کرنے کی سزا انہیں یہ دی جاتی ہے کہ نہ صرف اُن کے کارکنان کو بلکہ انہیں خود بھی لٹیرے اور غاصب حکمرانوں کی ریاستی بربریت اور ظلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے سفید ریش بوڑھے رفقاء کی ڈنڈے مار مار کر ہڈیاں توڑ دی جاتی ہیں اور پھر الٹا انہی زخمیوں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت FIR بھی کاٹی جاتی ہے۔ شیخ الاسلام کو اس جدوجہد سے روکنے کے لئے ہر اوچھا ہتھکنڈا استعمال کیا جاتا ہے۔ state terrorismکی دنیا بھر میں ڈھونڈے سے بھی ایسی مثال نہیں ملتی۔
فروغِ علومِ دینیہ کیلئے مجددانہ کاوشیں
انقلاب مارچ کے فوراً بعد دعوت، تربیت اور علومِ دین کے فروغ کو مہمیز لگاتے ہوئے آپ نے ’’مجالس العلم‘‘ کی ابتدا کی اور اب تک تقریباً 55 مجالس کا انعقاد کر چکے ہیں جن کے ذریعے ہر خاص و عام کو متنوع موضوعات پر زیورِ علم سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔ ان میں ’’فضیلت و اہمیت علم، علم: حصولِ ہدائت اور بلندیٔ درجات کا ذریعہ ، علمِ نافع ایمان کو ترقی دیتا ہے ، حصولِ علم کے باطنی ذرائع، حصولِ علم اور قلب ، حصولِ علم اور الہام، حصولِ علم اور صدق و تقویٰ ، حصولِ علم اور مراتبِ نفس، الہام اور اس کے مقامات ، کشف اور علمِ لدنی ، کشف اور مرتبۂ علم محمدی، احادیثِ نبوی اور خلفائے راشدین کے مکاشفات ، فضیلتِ علم اور تفقہ فی الدین کی حقیقت ، ابلاغِ علم اور اس کی فضیلت و آداب‘‘ اور ایسے متعدد موضوعات شامل ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں کہ جب پاکستان میں ہوتے ہیں تو محبت و یگانگت، وحدت و ہم آھنگی ، ایثار و قربانی کی برکات کن کن طریقوں سے اپنے رفقاء اور پیروکاروں میں بانٹ رہے ہوتے ہیں۔ اعتکاف کے خطابات ہمیشہ تربیت کا ایک مکمل پیکج ہوا کرتے ہیں۔ اعتکاف 2016ء کے خطابات کا منفرد پیکج دیکھئے جو آپ نے معتفکین کو مرحمت فرمایا۔ یہ خطابات سن کر آپ کے قدموں پر نچھاور ہونے کو جی چاہتا ہے۔ معاشرتی وحدت کے لئے یورپ میں ہدایہ کیمپس، انٹرفیتھ ڈائیلاگ ، کانفرنسز اور لٹریچر کے ٹولز استعمال ہو رہے ہوتے ہیں اور جب پاکستان آتے ہیں تو اعتکاف کے خطابات کے ذریعے ’’فَالَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہ اِخْوَانًا (اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے (3: 103) کے مصداق معاشرے کو محبت و رحمت کا گہوارہ بنانے کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔ اس مرتبہ اعتکاف میں ان کے موضوعات (’’توفیق الٰہی، تقویٰ، حسنِ خلق؛ اخوت، رفاقت حسنِ خلق؛ تعلق مع اللہ کی حقیقت اور حسنِ خُلق؛ غیبت اور چغلی سے اجتناب؛ تعلق باللہ اور معرفت الٰہیہ‘‘) ان کی اسی بے تابی کے غماز ہیں۔
یہ ہیں شیخ الاسلام جو یورپ میں ہوں توسالانہ الہدایہ کیمپ، واروک یونیورسٹی میں سہ روزہ Anti-terrorist camp ، مانچسٹر میں & Unity Global Peace کانفرنس ، واشنگٹن ڈی سی میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں Alwaleed Bin Talal Center for Muslim-Christian Understanding میں امریکی بری ، بحری اور ایئر فورس کے اعلیٰ حکام ، پالیسی میکرز، ماہرین تعلیم اور think tanks سے خطاب کرتے ہیں اور اس کے بعد US Institute of Peace کو Concept of Jihad کا درس دے رہے ہوتے ہیں تاکہ مغرب سمجھ لے کہ دہشت گردوں کو جہادی کہنا ایک افسوسناک غلطی ہے جوجہالت پر دلالت کرتی ہے۔
دور اندیش اور پیکرِ محبت قائد
قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو یہ امر بخوبی معلوم ہے کہ ان کا ہر عمل ان کے پیروکاروں کے لئے ایک نمونہ اور قابل تقلید عمل ہے اس لئے ان سے کوئی غیر ذمہ دارانہ فعل سرزد نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں۔ وہ صبر کا دامن ہمیشہ تھامے رہتے ہیں اور ثابت قدم رہتے ہوئے دشمن کے ہر وار کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں۔ اپنے رفقا سے ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی مشاورت کرنا نہیں بھولتے، کارکنوں کی نبض پر ہر وقت ان کا ہاتھ ہوتا ہے، ان کے حالات سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کی توقعات کو جانتے ہوئے ان سے گفتگو کرتے ہیں۔
ہر کوئی یہی کہتے سنائی دیتا ہے کہ بات ابھی تو میرے دل میں تھی مگر قائد نے سنے بغیر اس کا حل بھی عطا کردیا۔ ان کے لئے فرد تو فرد ہوتا ہی ہے وہ اجتماع کا بھی اتنا ہی کامل ادراک رکھتے ہیں اور موقعے کی مناسبت سے خطاب فرماتے ہیں۔ تربیتی، دعوتی، اصلاحی، حکیمانہ، مفکرانہ، مجددانہ، سپہ سالارانہ، مجاہدانہ، پدرانہ، دوستانہ غرض اس تنوع کی کوئی حد نہیں۔ کارکنوں، محبت کرنے والے پیروکاروں اور جان ہتھیلی پر رکھ کر قربانی کے لئے تیار رفقاء کے لئے آپ کی نگاہِ لطف و کرم، راحتِ جاں اور انبساطِ بہار سے کم نہیں۔ آپ کی آواز میں ہدایت کا نور جگمگاتا ہے جو ہمیں دنیوی زندگی کے شب پوش مرحلوں سے بے خوف و خطر گذارتے ہوئے کامیابی کی نویدیں سناتا رہتا ہے۔ ان کا وجود امتِ مسلمہ کے لئے بلاشبہ ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے انہیں عمرِ خضر عطا فرمائے اور ان کے ساتھ ہماری نسبت کو سلامت رکھے۔ آمین! بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!