تخلیقِ آدم کے وقت فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ کے نائب بنانے اور دنیا میں انہیں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجے جانے پر اپنے تحفظات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ایسا کیا ہے جو ہم میں نہیں ہے؟ اس کو تو نے اپنی خلافت کے لیے کیوں چنا ہے؟ اللہ رب العزت نے اس کا جواب عطا فرمایا کہ کیا اِن چیزوں کے نام جو آدم کو آتے ہیں تمہیں بھی آتے ہیں؟ فرشتوں نے کہا: مولیٰ ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھایا ہے۔ ہم ان ناموں سے واقف نہیں ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی برتری فرشتوں پر ثابت کی۔
ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ چیزوں کے نام جاننے میں کیا کمال ہے کہ اللہ رب العزت فرشتوں کے اعتراض کا جواب یوں دے رہا ہے کہ آدم کو اشیاء کے نام آتے ہیں اور فرشتے ان اشیاء کے نام نہ بتاسکے۔ تو کیا فقط اشیاء کے نام جان لینا اس کائناتِ انسانی پر اللہ رب العزت کا خلیفہ بننے کے لیے کافی ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ پھر اللہ رب العزت نے اُن فرشتوں کا جواب یوں کیوں دیا کہ آدم نے ان چیزوں کے نام بتادیئے ہیں، اس لیے خلیفہ بنا رہا ہوں۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ چیزوں کی حقیقت کیا ہے؟
جب کسی شے کا نام کوئی ذی شعور انسان جانتا تو ہو مگر اس شے سے واقف نہ ہو تو کیا اس شے کے نام جاننے کا کوئی فائدہ ہوگا؟ نہیں، اس لئے کہ اگر کوئی بندہ کسی خاص شے کی حقیقت سے واقف ہی نہیں ہے تو اس شے کا نام جاننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ الغرض کسی شے کا جاننا اسی صورت فائدہ مند ہوگا جب اس کی حقیقت بھی جانیں گے۔
جب اللہ رب العزت نے فرمایا: کہ آدم نے چیزوں کے ہمارے سکھائے ہوئے نام بتادیئے ہیں، اس لیے یہ خلیفہ بن سکتا ہے تو اس سے مراد یہ تھا کہ اسے فقط نام نہیں سکھائے بلکہ اس شے کی حقیقت بھی بتائی ہے۔ اس شے کی ابتدائ، انتہاء اور مقصد بھی اس کے علم میں ہے۔ جو کچھ خدا نے بنایا ہے ہر شے کی حقیقت آدم جانتا ہے، اس لیے وہ خلیفہ بننے کے اہل ہے۔
قیادت کا معیار
گویا اللہ رب العزت نے ایک معیار مقرر فرمادیا کہ تمہارا خلیفہ، قائد اور رہبر و رہنما وہ ہے جو فقط فلسفے نہ جانتا ہو بلکہ معاملات کی حقیقت سے بھی واقف ہو۔۔۔ فقط امراض گِن گِن کر سناتا نہ ہو بلکہ ان کا حل دینا بھی جانتا ہو۔۔۔ یہ نہ کہے کہ دہشگردی نے ملک کو مار دیا بلکہ دہشتگردی کا خاتمہ کرنا بھی جانتا ہو۔۔۔ یہ نہ کہے کہ لوڈ شیڈنگ نے ملک و قوم کو اندھیروں میں دھکیلا ہے بلکہ اس کا علاج دینا بھی جانتا ہو۔۔۔ یہ نہ کہے کہ قوم بے راہروی کا شکار ہو گئی بلکہ وہ اگلی نسل کی تربیت کرنا بھی جانتا ہو۔۔۔ یہ نہ کہے کہ اس قوم کو تبدیلی چاہیے بلکہ اس دھرتی پر انقلاب بپا کرنا بھی جانتا ہو۔۔۔ پھر فقط انقلاب کا نعرہ نہ لگاتا ہو بلکہ اسے پتہ ہو کہ انقلاب سے پہلے کیا کرنا ہے، دورِ انقلاب میں کیا کرنا ہے اور بعد از انقلاب کیا کرنا ہے۔۔۔؟ جو یہ تمام visions رکھے، وہ قائد ہوتا ہے اور اسی کو لیڈر کہتے ہیں۔
تہذیبیں اور فلسفے زوال کا شکار کیوں ہوئے؟
انسانی تاریخ کا جائزہ لیں تو ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس کائنات میں بہت سی تہذیبیں، مذاہب، نظریات اور افکار وجود میں آئے، چاہے ان افکار و نظریات کا تعلق مذہب سے تھا، یا سیاست، معیشت، معاشرت سے، الغرض بہت سے فلسفے آئے اور بہت سے نعرے لگے۔ مثلاً:
ایک وقت ایسا آیا کہ یہودیت کا راج تھا، ان کا فلسفہ اپنے عروج پر تھا، ان کے معلمین، رہنماؤں کا نام تھا پھر اس فلسفہ کو زوال آگیا۔ حالانکہ فلسفہ تو وہی تھا جو ان کی توراۃ میں بیان کیا گیا تھا، باتیں تو وہی تھیں لیکن عروج کو زوال آ گیا۔
پھر عیسائیت کا دور آیا۔ بے شمار ممالک میں ان کے فلسفہ اور مذہب کے ماننے والے پیدا ہوئے۔ اس فلسفے و نظریے کا راج تھا، ان کے معلمین اور مبلغین جانے جاتے تھے۔ پھر کیا ہوا؟ ان کی تعلیمات تو وہی تھیں جو انجیل میں تھیں لیکن ایک دن آیا کہ وہ زوال کا شکار ہوگئے اور وہ بات ان کے فلسفے اور نظریے میں نہ رہی۔
اسی طرح چودہ سو سال پہلے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیماتِ اسلام کا تحفہ انسانیت کو عطا فرمایا۔ کم و بیش ان تعلیمات کا عروج ایک ہزار برس تک رہا۔ اسلام دنیا کی سب سے طاقتور civilisation بن گئی، دنیا کو تہذیب سکھانے والا دین اسلام بن گیا۔ دنیا کو حقوق دینے والا دین اسلام بن گیا۔ اسلام سب سے طاقتور نظریہ بن کر ابھرا۔ سیاست سکھانے والا، انسانیت کو حقوق دینے والا، معیشت کے قوانین سکھانے والا دین اسلام ٹھہرا۔ لیکن کیا ہوا؟ تعلیماتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو وہی ہیں جو پہلے تھیں، افکار بھی وہی تھے، جو قرآن نے دیئے۔ ہر شے اسی طرح آج بھی درج ہے مگر وہ اسلام جس کا عملی اظہار ہزار برس تک دنیا پر ہوتا رہا آج زوال کا شکار ہو گیا۔ وہی نظریہ جو کائنات کو ایک نئی راہ اور سمت دکھا رہا تھا، آج زوال کا شکار ہو گیا۔ وہی نظریہ، وہی دین، وہی فلسفہ جو پورے عالم پر حکومت کرتا تھا، آج محکوم ہو گیا۔
مذاہب کے علاوہ اگر دنیا میں رائج ماڈلز کی بات کریں تو ایک دور Capitalism (سرمایہ دارانہ نظام) کا تھا۔ بہت سارے ممالک نے اسے اپنایا، بہت شور اور غلغلہ تھا۔ قوانین تو Capitalism کے آج بھی وہی ہیں لیکن آج Capitalism کا نظریہ زوال کا شکار ہے۔ پھر کمیونزم وجود میں آئی۔ ایک دنیا نے ان ماڈلز کو اپنایا۔ اس کی تعلیمات آج بھی وہی ہیں لیکن کمیونزم کا وجود نہیں ہے۔
اسی طرح بہت ساری سلطنتیں (dynasties) تھیں۔ جن کا ایک غلغلہ تھا، انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں سینکڑوں برس حکومت کی، ان کا فلسفہ اور طوطی بولتا تھا لیکن پھر ان کو زوال آگیا۔ اس کے بعد ان کا کوئی نام لینے والا نہ رہا۔
فکرو فلسفہ اور نظریہ کی بقاء کا راز
ان مثالوں سے سمجھانا یہ مقصود ہے کہ نظریات، فلسفے، تہذیب، نعرے، ہر دور میں لگتے ہیں، ان کا ایک دور رہتا ہے مگر پھر زوال آجاتا ہے۔ اس سے ایک بات سمجھ آئی کہ مذہب ہو، فلسفہ ہو، تاریخ ہو یا نظریہ، ہر بات چھوٹی ہے، بڑا ہے تو صرف وہ انسان ہے جو اس نظریہ و فکر کا علمبردار بن کر کھڑا ہوا اور اپنے عمل و کردار کی سچائی سے اس نظریہ و فکر کو دوام عطا کردیا۔
مذکورہ تہذیبیں، ماڈلز، فلسفے تب تک عروج پر تھے، جب تک ان فلسفوں کو اپنی زباں سے ادا کرنے والے لوگ طاقتور تھے۔ لیڈرز بڑے تھے تو ان فلسفوں کو عزت حاصل تھی۔ جب لیڈرز کمزور اور بے کار ہوگئے تو ان کی زباں سے ادا ہونے والا فلسفہ اور نعرہ بھی کمزور پڑگیا۔ یہی وجہ ہے کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعلیماتِ اسلام کے فروغ کے لئے مکہ مکرمہ میں بھرپور کاوشیں فرمارہے تھے، آپ کی زبان اقدس سے شریعت محمدی ادا ہو رہی تھی، شریعت کا پیغام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دے رہے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ رب العزت کے حضور یہ دعا بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’میرے مولا! اسلام کو عُمر بن خطاب عطا کر، تاکہ اسلام کو طاقت مل جائے‘‘۔ اس سے یہ بات سمجھ آئی کہ نظریے میں جتنی بھی جان ہو جب تک اس نظریے کو طاقتور قیادت نہ ملے اس نظریہ کے فروغ میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
شیخ الاسلام اور معاصر قائدین
پاکستان میں غربت ہر دور میں رہی ہے، جاگیردارانہ نظام ہر دور میں رہا ہے، مفلسی ہر دور میں رہی ہے، ظلم و بربریت کا بازار ہر دور میں گرم رہا ہے اور تبدیلی کے نعرے بھی ہر دور میں لگے ہیں، انقلاب کے نعرے بھی ہر دور میں لگے ہیں، روٹی، کپڑا، مکان کے نعرے بھی ہر دور میں لگے ہیں، سینکڑوں سیاسی قیادتیں بھی بنی ہیں لیکن کیا ہے کہ ہر محلے اور گلی سے اٹھ کر لوگ ہر روز ایک نیا جلسہ سجاتے ہیں، تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن فرق نہیں پڑتا۔
پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ چشمِ فلک نے دیکھا جب اسی انقلاب کا نعرہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری لگاتے ہیں تو اسلام آباد کی سخت سردی میں بھی لاکھوں لوگ جم کر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔ ریاستی جبرو بربریت کے سامنے جھکتے نہیں بلکہ سینہ تان کر مقابلہ کرتے ہیں۔۔۔ ایک طرف حکمرانوں کے ظلم و ستم برداشت کرتے ہوئے قائد انقلاب کے حکم پر انقلاب مارچ میں شرکت کرتے ہیں تو دوسری طرف انہی کے حکم پر موسم کی شدت کو برداشت کرتے ہوئے 70 دن مسلسل دھرنے میں بیٹھے رہتے ہیں۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نعرہ کسی ایسے شخص کی زبان سے ادا نہیں ہورہا جس کے قول و عمل میں مطابقت نہ ہو، جس کو اسلام کی حقانیت کا یقین نہ ہو، جس کے اندر ملک و قوم کا درد موجود نہ ہو، جو سراپا صدق و اخلاص نہ ہو بلکہ ڈاکٹر طاہر القادری کی زبان سے نکلا ہے۔
اسی طرح کے حکم دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی اپنے اپنے کارکنان کو دیتے ہیں مگر ان کے کارکنان پر بھی ان کی باتیں بے اثر رہتی ہیں چہ جائیکہ عامۃ الناس ان سے متاثر ہو۔ دیگر جماعتوں کے کارکنان پر ان کے قائدین کے کنٹرول اور اطاعت کا حال تو ہم اکثر TV چینلز پر بھی دیکھتے ہیں کہ کھانے تقسیم پر ہی باہم دست و گریبان نظر آتے ہیں۔ گویا ہر بات اس وقت تک چھوٹی ہے جب تک کہنے والا مضبوط سیرت و کردار کا مالک نہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں انقلاب نہ آنے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں بہت سے ادارے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں حکمران وہی شخص قبول ہے جو ہمارے قوانین کی پاسداری کرتا ہو، جس کے سامنے ہمارا موجودہ فرسودہ سسٹم بڑا ہو اور وہ چھوٹا بن کر اسی فرسودہ نظام کا حصہ بن کر رہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے زمانوں میں اور ایسے حالات میں انقلاب نہیں آتے کہ جہاں ہر کوئی فرسودہ نظریات و افکار سے چمٹے بیٹھا ہو اور تمام نام نہاد قائدین اس نظام و نظریہ کے غلام ہوں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری اس لیے لوگوں کی نگاہ میں کھٹکتے ہیں کہ وہ پاکستان میں واحد قیادت ہیں جن کے سامنے ہر باطل و فرسودہ نظام اور ہر غلط نظریہ غلط ہے۔ وہ کسی بھی قیمت پر باطل کو حق اور جھوٹ کو سچ نہیں کہہ سکتے۔ ان کی زبان سے کہا ہر لفظ، ہر کلام ہر جملہ بڑا ہے۔ لوگ ان پر اعتبار کرتے ہیں، ان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں اور کیوں نہ ہوں اس لئے کہ انہی جیسوں کے بارے میں فرمایا گیا:
اِتَّقُوْا فِرَاسَةِ الْمُوْمِنِ وَهُوَ يَنْظُرُ مِنْ نُوْرِاللّٰه. (ترمذی)
’’مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔
آج ہم پوری دنیا میں اس عظیم قیادت کا 66 واں یوم ولادت منارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس عظیم قیادت کی سنگت و صحبت عطا کی ہے۔
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہنے فرمایا تھا:ـ
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قومی و بین الاقوامی سطح پر خدمات اس امر پر گواہ ہیں کہ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہنے جن بندگانِ خدا کا تذکرہ ان اشعار میں کیا ہے، شیخ الاسلام کی شخصیت میں یہ اوصاف بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔
ذوقِ خدائی کیا ہے؟
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہکہتے ہیں کہ ایسے بندے بھی ہیں جنہیں اللہ نے ذوقِ خدائی عطا کر رکھا ہے۔ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ذوقِ خدائی ہوتا کیا ہے؟ خدا خدائی کرتا ہے، خدا کا وہ کیا ذوق ہے جس کے تحت وہ خدائی کرتا ہے؟ اس ذوق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اللہ رب العزت نے کائناتِ انسانی میں سب سے طاقتور بادشاہ حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کو بنایا ہے اور ان کی طاقت میں اپنی تمام مخلوق دے دی۔ ہواؤں، پرندوں، جانوروں الغرض ساری مخلوق کو ان کے تابع کر دیا اور پھر ایک ایسا دن بھی آیا کہ کہا مولیٰ جو تو نے بنایا ہے وہ ہر ہر شے میرے تابع کی ہے صرف ایک شے رہ گئی ہے، اسے بھی چند دن میرے قابو میں کردے۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ سلیمان علیہ السلام نے عرض کیا: مولیٰ! شیطان کو بھی میرے قابو میں دے دے۔ اللہ نے شیطان بھی تین دن حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت کے پائے سے باندھ دیا تا کہ ہر شے ایک وقت میں آپ علیہ السلام کے قابو میں آجائے۔
حضرت سیلمان علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے جب ہر شے پر حاکم بنا دیا تو وہ ایک روز کہنے لگے: مولیٰ! تو رزّاق ہے، لوگوں کو کھلاتا پلاتا ہے، تو نے چونکہ ہر شے کو میرا مطیع بنادیا ہے لہذا اب ایک روز تو اپنی مخلوق کو رزق نہ دے بلکہ مجھے کھلانے کی اجازت دے۔ یہ وہ ذوقِ خدائی ہے کہ خدا بھوکوں کو کھلاتا ہے، اپنی مخلوق کو پالتا ہے تو میں بھی یہ کام سرانجام دوں۔ سلیمان علیہ السلام میں بھی یہ ذوقِ خدائی پیدا ہوگیا کہ مولیٰ، ایک دن مجھے بھی تمام مخلوق کی دعوت کرنے دے۔ اللہ رب العزت نے اجازت دے دی۔
سلیمان علیہ السلا م نے بہت دن لگا کر بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا۔ کھانوں کے انبار پکائے۔ جب پکا چکے اور دل کو تسلی ہو گئی کہ خدا کی کُل مخلوق کے لیے اب کافی ہے تو دعوت شروع ہونے سے کچھ گھڑیاں قبل سمندر کے کنارے سے ایک بہت بڑی مچھلی نکلی اور کہنے لگی کہ سلیمان! میں نے اپنے بچوں کو کھانا کھلانا ہے، تیری دعوت تو ہوتی رہے گی، مجھے میرا حصہ کھا لینے دے۔ فرمایا: چل تو کھا لے۔ اس نے منہ کھولا اور سلیمان علیہ السلام نے جو کُل مخلوق کے لیے پکایا تھا، اس نے ایک لقمے میں سارا کھا لیا اور کہا سلیمان! میں نے تو ایک لقمہ کھایا ہے، بھوک ختم نہیں ہوئی۔ باقی کہاں ہے؟ سلیمان علیہ السلام اُسی وقت خدا کی بارگاہ میں گر گئے کہ مولیٰ! یہ تیرا ہی کام ہے کہ جس طرح تو مخلوق کو پالتا ہے۔
ذوقِ خدائی کا یہ سلسلہ انبیاء کے بعد اولیاء میں بھی چلتا رہتا ہے۔ جو اس کے مقربین اور عشاق ہوتے ہیں انہیں خدا اپنی صفات کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ ان کی اپنی خواہشات فنا ہو جاتی ہیں اور وہ صرف مخلوق کے لیے جینا شروع کرتے ہیں۔ جب ان میں ذوقِ خدائی پیدا ہوتا ہے تو پھر سیدنا فاروق اعظمؓ کی زبان سے یہ کلمات ادا ہوتے ہیں کہ ’دجلہ کے کنارے اگر بکری کا بچہ بھی بھوک سے مرگیا تو عُمر سے اس بارے پوچھا جائے گا‘۔ یہ ذوقِ خدائی ہے کہ خدا کی مخلوق کی فکر ہمیشہ ان کے دامن گیر رہتی ہے۔
ولایت اور ذوقِ خدائی کا باہمی تعلق
ولایت اصل میں انسان میں ذوقِ خدائی پیدا کرتی ہے۔ امام قشیری ’’ولی‘‘ کی تعریف میں لکھتے ہیں:
’’ولی وہ شخص ہے کہ شاید خدا کے حقوق میں اس سے کوئی کمی رہ جائے لیکن خدا کی مخلوق کے حقوق میں وہ کمی نہیں رہنے دیتا‘‘۔
اس کا جینا مرنا خدا کی مخلوق کے لیے ہو جاتا ہے۔ وہ نہ عذاب کے خوف سے خدا کی بندگی اور اطاعت کرتا ہے اور نہ کسی اچھے ٹھکانے کی خواہش میں خدا کی اطاعت و بندگی کرتا ہے بلکہ وہ فرائض اور واجبات اس لیے ادا کرتا ہے کہ اس کو اپنے جینے کا مقصد وہی لگتا ہے۔
کئی لوگ یہ سوچتے ہیں کہ خدا کا ولی کیسے بنا جاتا ہے؟ اس کا دوست کیسے بنا جاتا ہے؟ کبھی خیال آتا ہے کہ ایک شب میں ہزار ہا نوافل پڑھ لوں تو خدا راضی ہو جائے گا۔۔۔ کبھی خیال آتا ہے کہ پوری عمر روزوں میں گزار لوں تو شاید خدا راضی ہو جائے گا۔۔۔ کبھی کہتا ہے کہ میں یہ عبادت کر لوں تو خدا راضی ہو جائے گا۔۔۔ کبھی کہتا ہے کہ وہ عبادت کر لوں تو خدا راضی ہو گا۔۔۔ آیئے ولایت کی ایک خوبصورت تعریف ملاحظہ کرتے ہیں کہ ولایت کیسے ملتی ہے اور کوئی ولی کیسے بنتا ہے؟
اس بات کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ سمجھیں کہ انسان اپنا دوست کسے بناتا ہے؟ کیا ہم اس شخص کو اپنا دوست بناتے ہیں جو صبح و شام ہماری خوشامد کرتا ہو؟ ہمارے گن گاتا ہو؟ ہماری ذاتی خدمت میں مصروف رہتا ہو؟ ہم اسے اپنی دوستی دیں گے یا اسے اجر دیں گے؟ دنیا کا قانون ہے کہ ہم ایسے شخص کو اجر اور صلہ دیں گے لیکن اپنی دوستی نہیں دیں گے۔
اس کے برعکس اپنا دوست اس شخص کو بنائیں گے کہ جس کے ساتھ ہم خیالی ہو۔۔۔ جس کے ساتھ ہماری سوچ ملتی ہو۔۔۔ جس کے ساتھ بیٹھنے کو دل چاہے۔۔۔ یعنی اس کا ذوق بھی اسی شے میں لگتا ہو جس میں ہمارا ذوق لگتا ہے۔۔۔ وہ بھی ویسا ہی سوچتا ہو جیسا ہم سوچتے ہیں۔۔۔ اس کی بھی دلچسپی اسی پروجیکٹ میں ہو جس پروجیکٹ میں ہماری دلچسپی ہے۔۔۔ یعنی ہماری اور اس کی دلچسپیاں مشترک ہوں۔۔۔ اگر اکٹھے بیٹھیں تو بات کرنے کے موضوعات مشترک ہوں۔۔۔ اس کے ساتھ نشست کرنے کو دل چاہے۔۔۔ گویا دلچسپی مشترک ہو تو اسے دوست بناتے ہیں۔ خوشامد اور تعریف کرنے والے کو دوست نہیں بناتے بلکہ اس کو تعریف کرنے کا اجر اور صلہ دے دیتے ہیں۔
بلا تشبیہ و بلا مثال اللہ رب العزت کا قانون اس سے مختلف نہیں ہے۔ جو شخص فقط نوافل اور وظائف کی کثرت اور خلوت و چلّے کاٹنے سے یہ سمجھے کہ خدا اُسے اپنا ولی بنالے گا، تو ایسا نہیں ہوتا۔ اللہ اجر کے طور پر جنت تو دے دے گا لیکن اپنی ولایت اور دوستی نہیں دے گا۔ خدا اپنا ولی اس شخص کو کرتا ہے جس کی اور اللہ کی دلچسپی مشترک ہو interest common ہوں۔
سوال یہ ہے کہ خدا کا انٹرسٹ (دلچسپی) کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کا انٹرسٹ (دلچسپی) اس کی مخلوق ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق میں جہالت کے اندھیرے دور ہو جائیں۔۔۔ خدا چاہتا ہے اس کی مخلوق میں ظلم کا خاتمہ ہو جائے۔۔۔ خدا چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق کے بے روزگاروں کو روزگار مل جائے۔۔۔ خدا چاہتا ہے کہ ظالموں کا ہاتھ مروڑ دیا جائے۔۔۔ خدا چاہتا ہے کہ بے سہاروں کو سہارا دیا جائے۔۔۔ خدا چاہتا ہے بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے۔۔۔ قرآن میں جابجا خدا کہتا ہے کہ یتیموں کا سہارا بن، بے سہاروں کا سہارا بن۔۔۔ ظالموں کی گرفت کر، جہالت میں علم کا نور پھیلا۔۔۔ انصاف کر، شفا دے۔۔۔ لوگوں کی مدد کر، لوگوں کو جینے کے آداب سکھا۔۔۔ لوگوں کو شریعت کی تعلیم دے۔۔۔ یہ سب خدا کے انٹرسٹ (دلچسپیاں) ہیں اور جب کوئی بندہ یہی سارے انٹرسٹ اپنی ذات میں پیدا کر لیتا ہے، مخلوق کے درد میں تڑپتا ہے۔۔۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔۔۔ بے روزگاروں کو روزگار دینا چاہتا ہے۔۔۔ بے سہاروں کا سہارا بننا چاہتا ہے۔۔۔ بے سہارا عورتوں کے سر کی چادر بنتا ہے۔۔۔ انصاف کرنا چاہتا ہے۔۔۔ تو خدا فرشتوں کو بلاتا ہے اور کہتا ہے: دیکھو ان لوگوں میں وہی نظر آتا ہے جو صفتیں مجھ میں دیکھتے ہو، لہذا مخلوقِ خدا میں منادی کردو کہ ان کو میں نے اپنا ولی بنالیا ہے۔
خدا کا ایک اور انٹرسٹ بھی ہے جو سب سے بڑھ کر ہے اور وہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ میرے فرشتو! میں اور تم مل کر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر درود پڑھتے ہیں، پھر وہ سب کو دعوت دیتا ہے کہ میری رفاقت میں آ جاؤ، میرے رفیق بن جاؤ اور مل کر میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر عشق کا نذرانہ پیش کرو اور درود و سلام پیش کرو۔ اس لیے کہ میرا ایک انٹرسٹ میرا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے، جو میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میری طرح چاہتا ہے، وہ میرا بھی رفیق ہے۔
ولایت کی قیمت ہر دور میں بدل جاتی ہے
ولایت کی قیمت ہر دور میں بدل جاتی ہے۔ مثلاً اگر عام حالات ہوں اور کوئی فساد سے بچ کر اپنی جان بچائے تو عبادت ہے۔ عام حالات میں، گلی محلے کی لڑائی میں فساد انگیزی سے بچے اور اپنی جان کی حفاظت کرے تو یہ خدا کے حضور عبادت ہے۔ لیکن اگر میدان جہاد اور راہ انقلاب میں جان بچا کر کوئی دوڑے اور راستے میں مارا جائے تو خدا کہتا ہے کہ یہ گناہ کی موت مرا۔ عمل ایک ہے، جان دونوں جگہ بچائی گئی ہے لیکن حالات مختلف ہیں۔ ایک جگہ وہی عمل کیا تو عبادت، دوسری جگہ وہی عمل کیا تو گناہ۔
اسی طرح ہر دور میں ولایت کی قیمت بدل جاتی ہے۔ اس لئے کہ ہر دور میں مخلوق کی ضرورت بدلتی رہتی ہے۔ خدا کو اپنی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ اس کو منتخب کرتا ہے جو اس کی مخلوق کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ جب ہر دور میں مخلوق کی ضرورت نے ہی بدل جانا ہے تو پرانے فارمولے پر کیسے دوستی ہو گی؟
ہر دور کی ضرورتیں جدا تھیں، جب اسلام اپنے عروج پر تھا، ترقی کی منازل طے کر رہا تھا، حکمران بھی مسلمان تھے، اسلامی ریاستوں کے انبار لگے ہوئے تھے، معیشت بھی مسلم تھی، بڑے بڑے سائنسدان بھی مسلمان تھے، بڑی بڑی ایجادات بھی مسلمان کر رہے تھے تو اس دور میں امت کو تصوف، بے نیازی، رغبت الی اللہ اور خلوتوں کی ضرورت تھی۔ چنانچہ اس دور میں صوفیاء اٹھے، انہوں نے ان خلوتوں کے درس دیئے، انہوں نے جنگلوں میں ریاضتیں کیں، اس لئے کہ اس دور میں مادیت سے دور لے جانا مقصود تھا۔ جنہوں نے اس پیغام کو پھیلایا، خدا نے ولایت کے لیے انہیں چن لیا۔
بعد میں آنے والے آج کے لوگوں نے سمجھا کہ آج بھی خلوت میں بیٹھے رہو اور دنیا کے امراض اور مسائل سے بیگانے رہو تو شاید آج بھی وہ ولایت دے گا لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس لئے کہ آج امت مسلمہ کا ہر پہلو زوال کا شکار ہے۔ نہ آج حکومت اسلام کے پاس ہے۔۔۔ نہ آج علم کی ترقی اسلام کے پاس ہے۔۔۔ نہ آج سائنسی ایجادات اسلام کے پاس ہیں۔۔۔ نہ فوجی طاقت اسلام کے پاس ہے۔۔۔ نہ سائنسدان اسلام کے پاس ہیں۔۔۔ نہ تعلیمِ شریعت اور احکام الٰہی اسلام کے پاس ہیں۔۔۔ نہ اخلاقیات اسلام کے پاس ہے الغرض آج کچھ بھی مسلمانوں کے پاس نہیں ہے۔ مجموعی زوال آگیا ہے۔
آج اگر کوئی خلوت میں بیٹھ کر خدا کی دوستی چاہے گا تو ولایت کی قیمت آج ’’خلوت‘‘ نہیں ہے۔ آج کوئی ولایت چاہے، خدا کی دوستی چاہے تو اس کی قیمت ’’انقلاب‘‘ ہے۔ آج امت مسلمہ، پاکستان اور ملت پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت انقلاب ہے۔ اس مخلوق کی ضرورت آج انقلاب ہے کیونکہ انقلاب اس سرزمین کو ہمہ جہتی ترقی دے سکتا ہے۔ لہذا آج انقلاب لانے کے لیے جو جو نکلے گا خدا اس کو اس کے اجر کے طور پر اپنی دوستی دے گا اور جو انقلاب سے پیٹھ موڑ کر خلوتوں میں جان دے گا، اُسے رب ثواب تو دے دے گا، لیکن اپنی دوستی عطا نہیں کرے گا۔
آج مخلوق کی ضرورت کے مطابق کردار ادا کرنا ہی ولایت کی قیمت ہے۔ جس نے انقلاب کی صورت میں مخلوق کی اس ناگزیر ضرورت سے منہ موڑ کر خلوتوں میں، وظیفوں میں جان کھپائی اور مخلوق باہر گلیوں میں مرتی رہی، اس کی یہ خلوتیں اُس کو بھی فائدہ نہ دیں گی۔ اسی لیے علامہ نے کہا:
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
آج کا دور رسمِ شبیری مانگتا ہے، خانقاہوں کی خلوتیں نہیں مانگتا۔ اگر رسمِ شبیری ادا نہ کی تو یہ خانقاہیں بھی تباہ ہو جائیں گی، یہ مدرسے بھی باقی نہیں رہیں گے کیونکہ ان خانقاہوں کی بقا بھی رسمِ شبیری میں ہے، ان مدرسوں کی سلامتی بھی رسمِ شبیری میں ہے۔
شیخ الاسلام سے محبت کے تقاضے
آج شیخ الاسلام کے یوم ولادت کی تقریبات منعقد کرتے ہوئے جہاں ہم اللہ کی بارگاہ میں شکر بجا لا رہے ہیں وہاں یہ دن ہم سے کچھ تقاضا بھی کر رہا ہے اور وہ تقاضا رسمِ شبیری کی ادائیگی ہے۔ وہ تقاضا خدا کے انٹرسٹ کو اپنانے میں ہے۔ وہ تقاضا آج کے دور کے مطابق ولایت کی قیمت ادا کرنا ہے۔ جو شخص قائد سے محبت کرتا ہے، قائد کے فلسفے اور ایجنڈے سے محبت کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ہمارا قائد اللہ کا مقرب بندہ ہے، اس کا ولی ہے، اس کا دوست ہے تو پھر ان کی راہ کو اپنائے۔ یہ سفر جیسے انہوں نے طے کیا ہے اسی نقش قدم پر چلتے جائیں۔ وہ نقشِ قدم اور راستہ مخلوق کا درد اور مخلوق کی خدمت ہے۔
آج کا دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ خواب، وہ نعرہ، وہ فلسفہ، وہ نظریہ، وہ ایجنڈا جس نے ہمارے قائد کو بے قرار کررکھا ہے، اس کی تکمیل تک کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عہد کیا جائے۔ شیخ الاسلام کا خواب اس سرزمین پر پستی ہوئی، حقوق سے محروم مخلوق کو ان کے حقوق دلوانا ہے۔۔۔ ان کا خواب اس سر زمین پاکستان کو خوشحال دیکھنا ہے۔۔۔ ان کا خواب مظلوموں کو انصاف دلوانا ہے۔۔۔ ان کا خواب بے روز گاروں کو روزگار اور جہالت کے اندھیروں میں نور کو پھیلانا ہے۔۔۔ ان کا خواب دہشتگردی کے ماحول میں امن کی شمع فروزاں کرنا ہے۔۔۔ ان کا خواب ہر گھر میں خوشیاں بکھیرنا اور اس سرزمین پر بنجر زمینیں آباد کرنا ہے۔۔۔ اس سرزمین کے لیے جو خون دے اس کا اس سرزمین پر حق تسلیم کروانا ہے۔۔۔ ان کا خواب ہر گھر کو باعزت طریق سے ضروریاتِ زندگی فراہم کرنا ہے۔۔۔ ان کا خواب ہے کہ کوئی خالی پیٹ نہ سوئے۔۔۔ ان کا خواب ہے کہ کسی بہن اور ماں کی عزت نہ لٹے۔۔۔ ان کا خواب ہے کہ کوئی شخص انصاف سے محروم نہ رہے۔۔۔ ان کا خواب ہے کہ اس سرزمین پر وہ تمام حقوق میسر آ جائیں جو آئین پاکستان نے اس سرزمین کے باشندوں کو دئیے ہیں۔۔۔ ان کا خواب ہے کہ ہر شخص آزادی کی سانس لے۔۔۔ ان کا خواب کہ پاکستان کا ہر شخص حقیقی معنی میں آزاد ہوجائے۔
بس اتنا خواب ہے اور جس قائد سے ہم پیار کرتے ہیں، جس سے محبت کرتے ہیں، جن کا دم بھرتے ہیں، جن کے ایجنڈا کا نعرہ لگاتے ہیں، ان کے لیے سب سے بڑا تحفہ یہی ہے کہ اس قائد کا خواب پورا کر دیا جائے۔ اس خواب کو اس سرزمین پر بپا کرنے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے ’’انقلاب‘‘۔
یاد رکھیں! انقلاب ایک اجتماعی کاوش ہے۔ ہر شخص کو اس میں کردار ادا کرنا ہوگا، مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑنا ہوگا۔ اپنا حق لینے کے لئے آئینی و قانونی طریق پر آگے بڑھنا ہوگا۔
آج ہمیں اپنے قائد سے وعدہ کرنا ہے اور یہ عزم مصمم کرنا ہے کہ ہم اپنی کوششوں کو جاری رکھیں گے اور اپنی زندگی کا ہر لمحہ اس مقصد کے لیے وقف کر دیں گے۔ صرف عزم پختہ ہو جائے، یقین کامل ہو جائے تو راہیں آسان ہو جاتی ہیں۔
یقینِ محکم، عملِ پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں