ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
دینِ اسلام کی تعلیمات کے حوالے سے ہمارا افسوسناک طرزِ عمل یہ ہے کہ ہم دین کا وہ حصہ قبول کر لیتے ہیں جو ہمارے نفس کو بھلا لگتا اور جو حصہ عمل کے اعتبار سے نفس پر گراں گزرتا ہے، ہم اسے قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ گویا اس طرح ہم دین کو دو حصوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال اولیاء اللہ سے نسبت ہے۔ اولیاء اللہ سے نسبت کی بات کرتے ہوئے ہم متابعت (یعنی اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا) اور استقامت کا حصہ نہ بیان کرتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرتے ہیں۔ ہماری بات نسبتِ محبت سے شروع ہو گی اور محبت پر ختم ہو جائے گی اور ایسے ہی بیڑے پار کرتے رہیں گے۔
آقا علیہ السلام سے لے کر صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین، حضور غوث الاعظمl الغرض آج تک جتنے بھی ائمہ و اولیاء اور صالحین کی زندگیوں کا میں نے جتنا بھی مطالعہ کیا ہے، یہی معلوم ہوا کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں محبت، متابعت اور استقامت تینوں کو یکجا کیے بغیر کسی کا بیڑا پار نہیں ہوا اور نہ ہی کسی نے ان تینوں کو یکجا کیے بغیر بیڑے پار کرنے کی بات کی ہے۔ محبت، متابعت اور استقامت کے بغیر بیڑے پار کرنے کی بات صرف دنیا داری اور حرص و طمع کے پیشِ نظر کی جاتی ہے۔
یاد رکھیں! عقیدے خراب ہونے کا سبب صرف دوسروں کے گھر میں تلاش نہیں کرتے بلکہ اپنے گھر میں بھی خرابی کی وجوہات کا کھوج لگاتے ہیں اور پھر ان خرابیوں کی اصلاح بھی کرتے ہیں۔ اس لیے کہ عقیدہ میں صحت و درستگی کے باوجود بھی غلطیاں اور افراط و تفریط کے آنے کا امکان ہوتا ہے۔ ہمارے نام نہاد کاروباری پیر لوگوں کو یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ’’بس مرید ہو جا، ہاتھ میں ہاتھ دے دے، بیڑا پار ہے۔‘‘ اس طرح بیڑا پار کرنے کی بات تو جنید بغدادی، اویس قرنی، بشر الحافی، سری سقطی، بایزید بسطامی، سیدنا غوث الاعظم، شاہِ نقشبند، خواجہ اجمیر، شیخ سہرورد، امام ابو الحسن شاذلیl، الغرض کل اولیاء و صالحین اور بزرگانِ دین میں سے کسی نے بھی نہیں کی بلکہ جملہ اولیاء علم، عمل، متابعت، استقامت، کتاب و سنت کی اتباع، ﷲ کی عبادت اور مجاہدہ و ریاضت کو لازمی قرار دیتے۔ اِن امور کے بغیر بیڑے پار کروانے کا کوئی تصور اُن کے ہاں موجود نہ تھا اس لیے کہ اسلام میں اس شئے کا سرے سے وجود ہی نہیں۔
جب سے تصوف دکانداری میں بدل گیا تب سے اس طرح کے من گھڑت مفروضے اپنے کاروبار کے لئے ہم لوگوں نے وضع کر لیے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یاد رکھیں! جب محبت کے ساتھ متابعت اور استقامت یکجا ہوں، تب بیڑا پار ہوتا ہے۔ پھر انسان تو کیا کتے کا بیڑا بھی پار ہوجاتا ہے۔ اس امر پر قرآن مجید کی سورۃ الکہف کی آیات شاہد ہیں۔ جب ہم اپنے عقائد پر قرآن مجید سے دلائل لائیں گے تو نہ صرف ہمارے عقائد میں آجانے والی افراط و تفریط کا خاتمہ ہوگا بلکہ ہمارا کیس اور مقدمہ مضبوط دلائل کی بنیاد پر قائم ہونے کی وجہ سے مزید مضبوط و مستحکم ہوگا۔
میں ہمیشہ اعتدال کے ساتھ سوچتا ہوں اور افراط و تفریط سے بچتا ہوں۔ اللہ کی عزت کی قسم! میں مکمل وثوق اور یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اہلِ سنت کا مقدمہ اور کیس سچا ہے مگر دلائل کمزور اور شہادتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ ہم قرآن و حدیث سے پختہ و مضبوط دلائل اور شہادتیں نہیں لاتے اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کمزور شہادتوں سے کیس نہیں جیتے جاتے۔ دوسرے لوگوں کے کیس غلط ہیں مگر ان کے دلائل مضبوط اور مواد اچھا ہے، لہذا وہ جیت رہے ہیں جبکہ ہم کمزور وکیل اور ناپختہ دلائل کی وجہ سے صحیح کیس بھی ہار رہے ہیں، اس لیے کہ خالی محبت کے زور پر کیس نہیں جیتا جاسکتا۔
حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے واقعہ سے ولایت و کرامت کا اثبات
اصحابِ کہف کے واقعہ سے ولایت و کرامت کے اثبات پر تفصیلی بحث (شمارہ دسمبر 2019ء ملاحظہ فرمائیں) کے بعد قرآن مجید سے اس حوالے سے دوسری دلیل سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا خضر علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کیا: باری تعالیٰ! زمین پر مجھ سے بڑا بھی کوئی عالم ہے؟ فرمایا: ہاں ایک ہے، آپ اس کے پاس جائیں، اس سے ملیں اور سیکھیں۔ یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے اُن سے ملاقات کی جگہ کی نشانی بھی بتادی کہ جہاں مجمع البحرین ہوگا، دو سمندر (دریا) آپس میں مل رہے ہوں، وہاں آپ اس بندے کو پالیں گے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے حضرت یوشع بن نونؑ کو ساتھ لیا اور حضرت خضر علیہ السلام کی تلاش میں روانہ ہوگئے۔ اس سفر میں انہوں نے اپنے کھانے کے لیے تلی ہوئی مچھلی بھی ساتھ لے لی۔ ایک مقام پر پہنچ کر حضرت موسیٰؑ نے حضرت یوشع بن نونؑ کو کھانا لانے کو کہا جو وہ اپنے ساتھ لے کر چلے تھے۔ اس پر حضرت یوشع بن نونؑ جو آپؑ کے ساتھ بطورِ خادم سفر کررہے تھے، انہوں نے کہا:
اَرَئَ یْتَ اِذْ اَوَیْنَآ اِلَی الصَّخْرَۃِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ وَمَآ اَنْسٰنِیْہُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْکُرَہٗ وَاتَّخَذَ سَبِیْلَہٗ فِی الْبَحْرِ عَجَبًا.
’’کیا آپ نے دیکھا جب ہم نے پتھر کے پاس آرام کیا تھا تو میں (وہاں) مچھلی بھول گیا تھا، اور مجھے یہ کسی نے نہیں بھلایا سوائے شیطان کے کہ میں آپ سے اس کا ذکر کروں، اور اس (مچھلی) نے تو (زندہ ہوکر) دریا میں عجیب طریقہ سے اپنا راستہ بنا لیا تھا (اور وہ غائب ہوگئی تھی)۔‘‘
(الکہف، 18: 63)
حضرت موسیٰؑ نے جب یہ سنا کہ فلاں مقام پر وہ تلی ہوئی مچھلی زندہ ہوکر دریا میں واپس چلی گئی تھی، تو انہوں نے فرمایا:
ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلٰٓی اٰثَارِہِمَا قَصَصًا.
’’موسیٰ علیہ السلام نے کہا: یہی وہ (مقام) ہے ہم جسے تلاش کر رہے تھے، پس دونوں اپنے قدموں کے نشانات پر (وہی راستہ) تلاش کرتے ہوئے (اسی مقام پر) واپس پلٹ آئے۔‘‘
(الکہف: 64)
ان آیات سے درج ذیل امور ثابت ہوتے ہیں:
1۔ اولیاء کی برکت سے موت کا حیات میں بدلنا
جس جگہ حضرت خضر علیہ السلام موجود تھے، عین اسی جگہ پر ایک بھنی اور تلی ہوئی مچھلی کا دوبارہ زندہ ہوکر دریا میں چلے جانا اس حقیقت کو واضح کر رہا ہے کہ ﷲ کے بندوں کی علامت یہ ہے کہ جس جگہ وہ موجود ہوں، وہاں موت حیات میں بدل جاتی ہے۔ موت سے مراد غفلتِ قلب ہے اور حیات سے مراد دل کا ذاکر ہونا ہے۔ قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًاo
’’اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہے۔‘‘
(الکہف، 18: 28)
یہ حکم عبارۃ النص ہے، اس سے اشارۃ النص یہ ہے کہ ُان کے پیچھے جا اور ان کی اطاعت و پیروی کر کہ جن کے دل ذاکر ہیں اور جو ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا: بہترین مجلس اُن لوگوں کی ہے کہ اُن کے چہروں کو دیکھو تو ﷲ یاد آجائے، اُ ن کو سنو تو دین کی حکمت معلوم ہو جائے اور اُن کے عمل دیکھو تو آخرت یاد آجائے۔
2۔ نقص کی نسبت اپنی طرف کرنی چاہیئے
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب حضرت یوشع بن نونؑ سے کھانا مانگا تو انہوں نے کہا کہ فلاں مقام پر مچھلی زندہ ہوکر دریا میں چلی گئی تھی اور مجھے آپ کو بتانا یاد نہ رہا۔ انہوں نے کہا:
وَمَا اَنْسٰنِیْہْ اِلاَّ الشَّیْطٰن.
’’مجھے یہ کسی نے نہیں بھلایا سوائے شیطان کے۔‘‘
(الکہف، 18: 28)
اس سے تصوف و سلوک کا یہ نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ تصوف اور سلوک سراسر ادب کا نام ہے۔ حضرت یوشع بن نونؑ پر نسیان کا طاری ہونا ﷲ کی طرف سے تھا مگر بھول جانے میں چونکہ نقص ہے، اس لیے انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ﷲ نے بھلا دیا بلکہ فرمایا کہ مجھے شیطان نے بھلا دیا تھا۔ پس اس سے یہ درس ملتا ہے کہ جب بندہ کسی نقصان یا شر سے دو چار ہو تو اسے اپنے نفس کی طرف منسوب کرے یا شیطان کی طرف اور جب اسے خیر نصیب ہو تو اسے ﷲ کی طرف منسوب کرے۔ اسی ادب کا نام سلوک و تصوف ہے۔
3۔ ولی، علمِ لدنی کا حامل ہوتا ہے
حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع بن نون علیہما السلام پلٹ کر اسی مقام پر دوبارہ پہنچے جہاں مچھلی زندہ ہوئی تھی۔جب وہاں پہنچے تو:
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَـآ اٰتَیْنٰـہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰـہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا.
’’تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام ) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔‘‘
(الکہف، 18: 65)
اس آیت میں اللہ نے اپنے اس خاص بندے (ولی) کی پہچان بیان کی کہ وہ رحمت کے خاص خزانے اور ﷲ کی طرف سے علمِ لدنی کا حامل ہوتا ہے۔
4۔ اولیاء کی طرف سفر کرنا سنت ہے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت کی وجہ سے اعلیٰ مقام حاصل ہے، اس کے باوجود اللہ رب العزت انہیں اپنے مقام و مرتبہ سے کم مقام کی حامل شخصیت کی طرف بھیج رہا ہے۔ حالانکہ چھوٹے کو بڑے کی طرف آنا چاہئے نہ کہ بڑے کو چھوٹے کی طرف جانا چاہئے۔ ایسا کیوں ہوا؟
اگر حضرت خضر علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف جاتے تو یہ عمل سنتِ نبی نہ بنتا، اس لیے کہ ولی کا عمل سنت نہیں بنتا بلکہ صرف کسی عمل کو جائز و بابرکت بناتا ہے، اس سے شریعت میں سنت نہیں بنتی، شریعت میں سنت صرف نبی کا عمل بنتا ہے۔ ﷲ رب العزت نے چاہا کہ اولیاء و صلحاء کی طرف زیارت کے لئے جایا جائے، ان سے سیکھا جائے، ان کی مجلس میں بیٹھا جائے، اکتسابِ فیض کیا جائے اور یہ عمل سنت بن جائے۔ لہذا اللہ نے اس عمل کو سنت بنانے کے لئے رسول اور نبی کو ولی (حضرت خضرؑ) کی طرف بھیجا۔
یاد رکھیں! بڑے چھوٹے کی طرف جائیں یا چھوٹے بڑے کی طرف جائیں، یہ امر کسی کے لئے نقص نہیں ہوتا۔ چھوٹے بڑوں کی طرف جاتے تھے۔ صحابہ، تابعین سے سیکھتے اور کئی احادیث کی روایات ان سے لیتے تھے۔ اکابر صحابہ، صغار صحابہ سے روایات لیتے تھے، جس طرح حضرت عبد ﷲ بن عباسg سے اکثر کبار صحابہ کی روایات ملتی ہیں۔ یہ ایک طریقہ اور سنت ہے۔ جس سے جو ملے، لینا چاہئے، اس سے شان نہیں گھٹتی۔ افسوس ہم اس طرزِ عمل کو اپنی شان کے کم ہونے پر محمول کرتے ہیں۔
5۔ دورانِ سفر کرامات کا ظہور
حضرت موسیٰؑ اور حضرت خضرؑ نے اس ملاقات کے بعد جب اکٹھے سفر شروع کیا تو اس سفر کے دوران تین کرامات ظاہر ہوئیں۔ ان کرامات اور ان سے مستنبط احوالِ سلوک و تصوف میں سے چند کا تذکرہ ذیل میں درج کیا جارہا ہے:
1۔ دورانِ سفر جس پہلی کرامت کا ظہور ہوا، اس کا پس منظر قرآن یوں بیان کرتا ہے:
فَانْطَلَقَا حَتّٰی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیْنَۃِ خَرَقَہَا قَالَ اَخَرَقْتَہَا لِتُغْرِقَ اَہْلَہَا لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا اِمْرًا.
’’پس دونوں چل دیے یہاں تک کہ جب دونوں کشتی میں سوار ہوئے (تو خضر علیہ السلام نے) اس (کشتی) میں شگاف کر دیا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: کیا آپ نے اسے اس لیے (شگاف کرکے) پھاڑ ڈالا ہے کہ آپ کشتی والوں کو غرق کر دیں؟ بے شک آپ نے بڑی عجیب بات کی۔‘‘
(الکہف، 18: 71)
بعد ازاں حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے اس عمل کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسٰکِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَہَا وَکَانَ وَرَآئَ ہُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا.
’’وہ جو کشتی تھی سو وہ چند غریب لوگوں کی تھی وہ دریا میں محنت مزدوری کیا کرتے تھے پس میں نے ارادہ کیا کہ اسے عیب دار کر دوں اور (اس کی وجہ یہ تھی کہ) ان کے آگے ایک (جابر) بادشاہ (کھڑا) تھا جو ہر (بے عیب) کشتی کو زبردستی (مالکوں سے بلامعاوضہ) چھین رہا تھا۔‘‘
(الکہف، 18: 79)
یعنی بادشاہ اچھی کشتیوں کو قبضے میں لے رہا تھا۔ یہ کشتی بھی بڑی اچھی تھی، اگر اس کو غاصب بادشاہ قبضہ میں لے لیتا تو اِن غریبوں کی کشتی چھن جاتی جو ان کے روزگار کا ذریعہ تھا، پس میں نے چاہا کہ یہ بچ جائے، لہذا کشتی کو توڑ کر شکستہ کر دیا۔
- اس واقعہ سے اولیاء کے کشف کا ثبوت ملتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی کو توڑا جبکہ بادشاہ ابھی دور تھا اور کسی کو بھی اس کے بارے میں خبرنہ تھی مگر آپ علیہ السلام نے مستقبل میں ہونے والا واقعہ دیکھ کر بتا دیا۔ اس عمل کو کشف کہا جاتا ہے۔
- لوگو! ایک غاصب بادشاہ ہمارے ارد گرد بھی پھر رہا ہے، اس کا نام شیطان ہے۔ وہ نفوس اور جسموں کی کشتیاں دیکھتا ہے کہ کس کے نفس اور جسم خوب پلے ہوئے اور خوبصورت ہیں۔ جس کے نفس اور جسم کو وہ دیکھتا ہے کہ یہ بڑا دھیان رکھنے والا ہے، غاصب بادشاہ یعنی شیطان اسی نفس پر قبضہ جما لیتا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے پہلا سبق دیا کہ اگر شیطان کے قبضے اور غصب سے بچنا چاہتے ہو تو نفس کی کشتی کو مجاہدے کی لاٹھی سے توڑ ڈالو۔ راتوں کو جاگو، نیند کو کم کرو، کھانا کم کرو، فاقہ زیادہ کرو، حضورA کی سنت پر عمل کرو، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کرو الغرض جتنی ریاضت اور مجاہدہ کرو گے نفس کی کشتی اتنی ہی شکستہ ہوگی۔ جن کی نفس کی کشتی شکستہ ہو جاتی ہے، شیطان ادھر دھیان ہی نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ ٹوٹی پھوٹی کشتی ہے، میں نے اس سے کیا لینا ہے، لہذا وہ شیطان کے حملے سے بچ جاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
2۔ اس سفر کے دوران حضرت خضر علیہ السلام سے جس دوسری کرامت کا ظہور ہوا، قرآن مجید اس کے پسِ منظر کو یوں بیان کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
فَانْطَلَقَا حَتّٰی اِذَا لَقِیَا غُلٰـمًا فَقَتَلَہٗ قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّۃً بِغَیْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُّکْرًا.
’’پھر وہ دونوں چل دیے یہاں تک کہ دونوں ایک لڑکے سے ملے تو (خضر علیہ السلام نے) اسے قتل کر ڈالا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: کیا آپ نے بے گناہ جان کو بغیر کسی جان (کے بدلہ) کے قتل کر دیا ہے؟ بے شک آپ نے بڑا ہی سخت کام کیا ہے۔‘‘
(الکہف، 18: 74)
بعد ازاں حضرت خضر علیہ السلام نے بچے کو مارنے کی حکمت یہ بیان کی:
وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوَاہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَـآ اَنْ یُّرْہِقَہُمَا طُغْیَانًا وَّکُفْرًا۔ فَاَرَدْنَـآ اَنْ یُّبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْرًا مِّنْہُ زَکٰوۃً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا.
’’اور وہ جو لڑکا تھا تو اس کے ماں باپ صاحبِ ایمان تھے پس ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ (اگر زندہ رہا تو کافر بنے گا اور) ان دونوں کو (بڑا ہوکر) سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا۔ پس ہم نے ارادہ کیا کہ ان کا رب انہیں(ایسا) بدل عطا فرمائے جو پاکیزگی میں (بھی) اس (لڑکے) سے بہتر ہو اور شفقت و رحمدلی میں (بھی والدین سے) قریب تر ہو۔‘‘
(الکہف، 18: 80۔81)
- اس واقعہ سے بھی ایک ولی کامل (حضرت خضر علیہ السلام ) کے کشف کا ثبوت ملتا ہے کہ وہ امر جو ابھی پوشیدہ ہے، اُسے جان لیا۔
- دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ اس بچے کے نعم البدل میں جس اولاد کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے وہ دعا اس طرح قبول فرمائی کہ انہیں ایک ایسی بیٹی عطا فرمائی جس کی پشت سے بارہ انبیاء پیدا ہوئے۔
3۔ اس سفر میں تیسری کرامت کے ظہور کو قرآن نے یوں بیان فرمایا:
فَانْطَلَقَا حَتّٰی اِذَٓا اَتَیَآ اَہْلَ قَرْیَۃِ نِاسْتَطْعَمَآ اَہْلَہَا فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْہُمَا فَوَجَدَا فِیْہَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیْہِ اَجْرًا.
’’پھر دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب دونوں ایک بستی والوں کے پاس آ پہنچے، دونوں نے وہاں کے باشندوں سے کھانا طلب کیا تو انہوں نے ان دونوں کی میزبانی کرنے سے انکار کر دیا، پھر دونوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گرنے والی تھی تو (خضر علیہ السلام نے) اسے سیدھا کر دیا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس (کی تعمیر) پر مزدوری لے سکتے تھے۔‘‘
(الکہف، 18: 77)
بعد ازاں حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے اس عمل کی حکمت یوں (الکہف، 18: 82) بیان فرمائی:
وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰـمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوْہُمَا صَالِحًا فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَآ اَشُدَّہُمَا وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَہُمَا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ.
’’اور وہ جو دیوارتھی تو وہ شہر میں (رہنے والے) دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا، سو آپ کے رب نے ارادہ کیا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے وہ اپنا خزانہ (خود ہی) نکالیں۔‘‘
- اس واقعہ سے بھی حضرت خضرؑ کی کرامت بصورتِ کشف ثابت ہورہی ہے کہ آپ نے زمین کے نیچے چھپے خزانے کو دیکھ لیا۔
- دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حضرت خضر علیہ السلام نے دونوں یتیم بچوں کے خزانے کی حفاظت کے اہتمام کی وجہ یہ بیان کی کہ ’’ابوھما صالحا‘‘ ’’ان کا باپ صالح تھا۔‘‘ معلوم ہوا کہ نیک عمل کا ثواب اور اثر پشت در پشت نیچے اولاد تک والدین کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔
6۔ نقص اپنی طرف جبکہ خیر اللہ کی طرف منسوب کرنا
حضرت خضرؑ نے دورانِ سفر تین افعال سرانجام دیئے مگر ان تینوں افعال کی حکمت کو بیان کرتے ہوئے علیحدہ علیحدہ اسلوب اختیار کیا:
ایک مقام پر کہا: ’’فاردت ان اعیبھا‘‘ ’’میں نے ارادہ کیا ہے کہ کشتی عیب دار کر دوں۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا: ’’فاردنا‘‘ ’’ہم (رب نے اور میں نے) نے ارادہ کیا۔‘‘ تیسرے مقام پر کہا: ’’فاراد ربک‘‘ ’’آپ کے رب نے ارادہ کیا۔‘‘
سوال یہ ہے کہ ایسا اسلوب کیوں اختیار فرمایا؟ دراصل یہ تصوف کے مدارج ہیں، اس سے ولایت کی منزلیں طے ہوتی ہیں۔ کشتی کو توڑنا عیب تھا اور جو عمل عیب دار تھا، اس کی نسبت اپنی طرف کی اور کہا: فاردت ان اعیبہا کہ میں نے ارادہ کیا کہ اس کو عیب دار کردوں۔ پس عیب کی بات کی نسبت اپنی طرف کرنی چاہئے، یہ تعلیم سلوک و تصوف ہے۔
بچے کو مارنا بھی ظاہراً نقص اور شر کی بات ہے، جبکہ نعم البدل کی دعا خیر کی بات ہے۔ یہاں خیر و شر دونوں جمع ہیں، اس لیے ’’أردنا‘‘ جمع کا صیغہ کہا کہ میں نے اور ﷲ نے ارادہ کیا۔ اس اسلوب سے خیر کی نسبت ﷲ کی طرف کی اور شر کی نسبت اپنی طرف کی۔
یتیموں کی گرتی ہوئی دیوار کو بلامعاوضہ تعمیر کر دیا، یہ عمل خیر ہی خیر ہے، اس میں شر کا کوئی پہلو نہیں۔ اس لیے وہاں کہا: فأراد ربک ’’آپ کے رب نے چاہا۔‘‘
لہذا تصوف کا درس یہ ہے کہ انسان ہر عیب اور خرابی کو اپنی ذات کی طرف منسوب کرے لیکن جہاں بھلائی و نیکی آجائے تو اسے اپنے رب کی طرف منسوب کرے اور جہاں دونوں پہلو ہوں تو خیر کا حصہ ﷲ کی طرف اور شر کا حصہ اپنی طرف منسوب کرے۔ یہ آدابِ سلوک و تصوف ہیں۔
حضرت مریم علیہا السلام سے صادر ہونے والی کرامات
اصحابِ کہف اور حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے واقعات کے مطالعہ کے بعد ولایت و کرامات کے اثبات کے لیے قرآن مجید سے تیسری دلیل ہمیں حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت مریم علیہما السلام کے واقعہ سے ملتی ہے:
1۔ سیدہ مریم علیہما السلام بچین میں حضرت زکریا علیہ السلام کی زیرکفالت تھیں۔ اس زمانے میں حضرت زکریا علیہ السلام نے دیکھا کہ بے موسمی پھل بند کمرے میں ان کے پاس آتے تھے۔ انہوں نے فرمایا:
یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ھٰذَا.
’’اے مریم! یہ چیزیں تمہارے لیے کہاں سے آتی ہیں‘‘؟
حضرت مریم علیہا السلام نے جواب دیا:
ھُوَ مِنْ عِنْدِ ﷲِ.
’’یہ (رزق) ﷲ کے پاس سے آتا ہے۔‘‘
(آل عمران، 3: 37)
حضرت مریم علیہا السلام نبی نہیں بلکہ اللہ کی نیک و صالحہ بندی ہیں، ان کے پاس بندے کمرے میں پھل کا آنا، ان کی کرامت ہے۔
2۔ سیدہ مریم علیہا السلام کی ایک اور کرامت کا بیان بھی قرآن مجید میں مذکور ہے۔ جب عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا وقت آیا تو حضرت مریم علیہا السلام لوگوں کی نظروں سے دور ایک جگہ تشریف لے گئیں جہاں کھجور کے ایسے درخت تھے جو خشک ہوچکے تھے اور جن پر پھل موجود نہ تھا۔ حضرت مریم علیہا السلام کو اس مقام پر بھوک محسوس ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کو فرمایا:
وَ ھُزِّٓیْ اِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسٰقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا.
’’اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ وہ تم پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرا دے گا۔‘‘
(مریم، 19: 25)
حضرت مریمؑ نے ایسا ہی کیا اور جونہی ان کے ہاتھوں نے کھجور کی خشک شاخوں کو چھوا تو وہ شاخیں نہ صرف ہر ی ہوگئیں بلکہ ان پر پھل بھی لگ گیا۔ یہ حضرت مریم علیہا السلام سے کرامت کا ظہور ہے اور اس ولیہ و صالحہ خاتون کی کرامت کو قرآن خود بیان فرمارہا ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے امتی کی کرامت کا بیان
قرآن مجید سے اصحابِ کہف، حضرت موسیٰ و حضرتخضر اور حضرت مریمf کے واقعات کے بیان کے بعد ولایت و کرامات کے اثبات کے لیے چوتھی دلیل حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک امتی آصف بن برخیا کی ہے۔ اس کرامت کا پسِ منظر یہ ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا کہا تو ایک جن کھڑا ہوا:
قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ وَاِنِّیْ عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ.
’’ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا: میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بے شک میں اس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانت دار ہوں۔‘‘
(النمل، 27: 39)
آپ علیہ السلام نے اس کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار فرمادیا۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام کی امت کا ایک ولی کھڑا ہوا، اس کا تعارف قرآن نے یوں بیان کیا ہے:
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ.
’’(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کاکچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے۔‘‘
(النمل، 27: 40)
حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس امتی کا نام آصف بن برخیا تھا۔ انہوں نے اپنی اس طاقت و کرامت کے اظہار کو ’’ھذا من فضل ربی‘‘ کے الفاظ سے بیان کیا کہ اس میں میرا کچھ نہیں بلکہ یہ ﷲ کا فضل ہے۔ جبکہ اس جِن نے اپنی طاقت کا اعلان کیا تھا کہ ’’میں‘‘ اسے لاسکتا ہوں۔ پس تصوف و ولایت میں پہلی نفی ’’میں‘‘ کی ہوتی ہے۔
ان واقعات سے مستنبط جملہ دلائل سے ولایت و کرامات کے حوالے سے نہ صرف جملہ اشکالات کا ازالہ ہوتا ہے بلکہ قرآن مجید کی روشنی میں ولایت و کرامات کے باب میں عقائد صحیحہ بھی نکھر کر سامنے آتے ہیں۔
ولی کون ہے؟
قرآن مجید سے ولایت و کرامات کے دلائل کے بیان کے بعد آیئے! اب ولایت اور تصوف کے مفہوم کا اولیاء و صلحاء کی تعلیمات کی روشنی میں مطالعہ کرتے ہیں:
1۔ امام قشیری نے رسالہ قشیریہ میں کل اکابر اولیاء و صوفیاء کے حوالے سے روایت کیا ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ اولیاء کون ہوتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: :
<لیس للاولیاء سوالاولیاء وہ ہوتے ہیں جو کسی سے کوئی سوال نہ کریں۔
یعنی ولی ﷲ کے سوا کسی سے سوال نہیں کرتا۔ ﷲ کے سوا کسی سے کسی چیز کا طالب اور حاجتمند نہیں ہوتا۔ وہ کسی کے پیچھے اس کو اپنا مرید بنانے یا ذاتی طمع کے لیے مارا مارا نہیں پھرتا، وہ صرف ﷲ کے لئے پھرتا ہے۔ مزید فرمایا:
إنما ھو زبول والحمول.
یعنی ولایت اپنی ذات سے فنا ہو جانا ہے۔ گویا ﷲ اپنے بندے کو جس حال میں رکھے اس پر راضی رہے، اسی کو ولایت کہتے ہیں۔
2۔ امام ابو عبد الرحمن السلمی نے الطبقات الصوفیہ میں اور دیگر ائمہ نے اپنی اپنی کتب میں بیان کیا ہے کہ جب اُن سے ولی کی علامات پوچھی گئیں تو انہوں نے فرمایا کہ اولیاء کی علامتیں تین ہیں:
شغلہ بﷲ، وفرارہ الی ﷲ، وھمہ ﷲ.
- شغلہ باللہ: جس کا قلب و باطن، روح، ارادہ، خیال، توبہ، محبت، دھیان ہر وقت ﷲ کے ساتھ مشغول رہے۔ اللہ کے سواء جس کا دل، ذہن، دماغ کسی اور سے مشغول نہ ہو، اسے ولی کہتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ جب کسی سے مشغول نہیں تو غیبت، مخالفت، مسابقت، مقابلہ بازی اور ان جیسے تمام دھندوں سے بچ جائے گا۔ وہ اپنے حلقہ ارادت میں اضافہ یا جائیدادیں بنانے کی دوڑ میں شامل نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اس نے اپنے نفس کے دھیان و تعلق کو اللہ کے ساتھ مشغول کرلیا ہے۔ اب وہ نہ کسی پر تہمت لگائے گا، نہ الزام تراشی کرے گا، نہ ذاتی نفرت کرے گا، نہ عجب کرے گا، نہ کبر کرے گا، نہ نخوت ہوگی، نہ حسد ہوگا، نہ دنیا کا حرص و طمع ہوگا، نہ مال و دولت کی جمع کے لئے بھاگ دوڑ ہوگی، اس لیے کہ وہ ہمہ وقت ﷲ کے ساتھ مشغول ہے۔
- وفرارہ الی ﷲ: اس کا دل زہد عن الدنیا سے ایسا مالا مال ہوتا ہے کہ دل ہر شے سے بھاگ کر ﷲ کی طرف راجع ہوجاتا ہے۔ ﷲ کے تعلق کے سواء کسی تعلق میں اسے سکون نہیں ملتا۔۔۔ ﷲ کے انس کے سواء اسے قرار نہیں ملتا۔۔۔ ﷲ کے وصال کے سواء اسے اطمینان نہیں ملتا۔
- وھمہ ﷲ: اس کا فکر و خیال اور ارادہ و ہمت ہر وقت خالصتاً ﷲ کے لئے رہتی ہے۔
جس بندے میں یہ تین چیزیں پیدا ہو جائیں تو اُسے ولی کہتے ہیں۔
تصوف کیا ہے؟
حضور غوث الاعظمؒ نے اپنی کتاب ’’سر الاسرار‘‘ میں ولایت کے باب میں بحث کرتے ہوئے تصوف کا یہ معنی بیان کیا ہے کہ لفظِ تصوف چار حروف کا مجموعہ ہے:
1۔ لفظ تصوف کے پہلے حرف ’’ت‘‘ سے مراد ’’توبہ‘‘ ہے۔ یہ توبہ اعضائے ظاہری اور اعضائے باطنی دونوں کی ہے۔ ظاہر کی توبہ گناہوں اور مخالفات کو چھوڑ کر طاعات کی طرف جانا ہے اور باطن کی توبہ یہ ہے کہ اس کا قلب اور روح ﷲ کے ہر امر کے ساتھ موافق ہوجائے، اوصافِ مذمومہ اور اخلاقِ رذیلہ کو چھوڑ کر اس کا باطن اوصافِ حمیدہ کے ساتھ مالا مال ہو جائے۔ جب تک ظاہر و باطن کے اعتبار سے اس طرح کی توبہ نہیں کرتا، اس وقت تک وہ ولی تصوف کی ’’ت‘‘ کا سفر مکمل نہیں کرتا۔
2۔ لفظ ’’تصوف‘‘ کا دوسرا حرف ’’ص‘‘ ہے۔ جب ظاہر و باطن تائب ہو جائیں تو ’’ص‘‘ میں صفائے قلب اور صفائے سِر ہے یعنی دل صفاتِ بشریہ سے پاک کر دیا جائے اور دنیا کے علائق اور شہوتوں کے ساتھ دل نہ لگے۔ دنیا کے علائق سے مراد یہ ہے کہ کثرتِ طعام، کثرتِ کلام، کثرتِ نوم نہ رہے۔ کثرت کے ساتھ دنیاوی مال و دولت کی دلچسپیاں، حبِ جاہ و منصب، حبِ مال و اولاد نہ رہے۔ اگر ان تمام علائق دنیوی سے دل پاک ہو جائے اور ﷲ کے ساتھ محبت و تعلق میں بندے کی روح اور اس کا سِر متعلق ہو جائے تو گویا اس نے ولایت میں تصوف کی راہ میں ’’ص‘‘ کا سفر مکمل کرلیا۔
گویا ماسوی ﷲ جو کچھ ہے اس سے قرار نہ ملے۔۔۔ جب تک خدا کا ذکر نہ ہو اس کا دل بے رغبت اور زندگی بے مزہ رہے۔۔۔ جب تک خدا کے لقاء کی بات نہ ہو وہ بے تاب رہے۔ اس لیے اللہ والوں کی علامت یہ ہے کہ وہ دن میں بے قرار ہوتے ہیں اور رات کو مصلے پر باقرار ہوتے ہیں، کیونکہ اس وقت مولا سے ملاقات و مناجات کا وقت آتا ہے۔ جو لذت وہ سجود میں پاتے ہیں، وہ لذت آرام دہ بستر پر نہیں پاتے۔ جب تک طبیعت کے یہ میلانات بدل نہ جائیں، تصوف میں سالک ’’ص‘‘ کا سفر طے نہیں کرتا۔
3۔ تصوف میں تیسرا حرف ’’واؤ‘‘ ہے۔ واؤ میں ولایت ہے۔ ’’ت‘‘ اور ’’ص‘‘ کی دو منزلیں طے کر کے تیسرے مرتبے پر بندہ ولی بنتا ہے۔ ظاہر و باطن کی باکمال و باتمام توبہ اور قلب و سِر کی باتمام و باکمال صفا کے مرحلے جب عبور ہو جائیں تو صوفی تصوف کی راہ میں ولایت پر آتا ہے۔ اس مقام پر اس کے اپنے اخلاق ختم ہو جاتے ہیں اور خدا کے سارے اخلاق اس پر نافذ ہوجاتے ہیں۔ پھر تخلقوا بأخلاق ﷲ کے مصداق ولی کے اپنے اخلاق نہیں رہتے بلکہ ﷲ کے اخلاق کا رنگ اس کے اندر جاگزیں ہوجاتا ہے۔
4۔ تصوف میں چوتھا حرف ’’ف‘‘ ہے۔ اس سے مراد فنا ہے۔ بندہ کس طرح اللہ کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور کس طرح اس کی محبت میں فنا ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ صرف مسلمانوں کا رب نہیں بلکہ وہ ہر ایک کو عطا کرتا ہے خواہ کوئی اُسے مانے یا نہ مانے، ہر ایک کے لیے اس کی ربوبیت عام ہے۔ اسی طرح ولی اپنی ولایت میں اس درجہ کا حامل ہوتا ہے کہ اس کے قلب میں رحمتِ عامہ موجود ہوتی ہے۔ کوئی جو کچھ چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے، وہ تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرتا ہے، خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے، انتقام نہیں لیتا، نفرت و حقارت اس سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ گویا وہ اپنے نفس سے فنا ہوجاتا ہے اور متخلق بﷲ ہوتا ہے۔
پھر وہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق کے رنگ میں اس قدر رنگا جاتا ہے کہ حدیث مبارک کے مصداق اس کی آنکھ میں ﷲ تعالیٰ کا نور ہوتا ہے، کان میں ﷲ کی سماعت ہوتی ہے، اس کے ذوق میں ﷲ رب العزت کا امر ہوتا ہے، اس کے چلنے پھرنے میں ﷲ تعالیٰ کی ترجیحات ہوتی ہیں۔
حضور غوث الاعظم نے فرمایا: ولایت اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک بندہ اپنی صفاتِ بشریہ سے فنا ہو جائے اور صفاتِ احدیت کے رنگ میں رنگا نہ جائے۔
حضور غوث الاعظم ص نے فرمایا:
کل شی ہالک الا وجہ ﷲ.
’’ہر شے ہلاک ہو جاتی ہے مگر خدا کی محبت باقی رہ جاتی ہے۔‘‘
جب تک بندہ ﷲ کی رضا میں فنا نہ ہو اور خدا کی رضا کے ساتھ اس کی بقا نہ ہو اس وقت تک اس کی ولایت کامل نہیں ہوتی۔