ہر شخص اپنی طبیعت اور تربیت کے مطابق غم، خوشی اور غصے کا اظہار کرتا ہے۔ ماحول اور تربیت کا ہر شخص مزاج، عادات و اطوار پر گہرا اثر ہوتا ہے، غصے اور حق تلفی میں ردعمل دینے کی کیفیت کا تعلق بھی انسان کی تعلیم و تربیت اور اخلاقی اقدار کے تابع ہوتا ہے۔ ہم خلفائے راشدین کے ادوار سے لے کر قرون وسطیٰ کے ائمہ، محققین کے حالات زندگی اور سیاسی، سماجی مشکلات کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں بڑی بڑی علمی شخصیات پر آنے والی مشکلات اور ان کے ردعمل سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ کسی بھی ناپسندیدہ صورت حال یا غم و غصہ کی حالت میں ردعمل دیتے ہوئے حد سے تجاوز نہ کریں۔ اسلام دین محبت ہے اور اس کی تعلیمات عدم تشدد پر محیط ہیں، آج ہم اپنے روزمرہ کے امور و معاملات پر نگاہ ڈالیں تو اس پر سختی اور سنگینی کا رنگ غالب نظرآئے گا، ہم جس اللہ وحدہ لاشریک اور پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں ان کی تعلیمات امن، محبت اور حسن اخلاق پر مشتمل ہیں، اللہ تعالیٰ کی صفات میں سلامتی دینے والا، امان بخشنے والا، امن دینے والا اور ہر خوف اور دہشت و وحشت سے حفاظت فرمانے والا سرفہرست ہیں، عفو و محبت سنت الٰہیہ ہے، ایک روایت میں حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ کریم ہے، وہ کرم اور اعلیٰ اخلاق کو پسند فرماتا ہے اور برے اخلاق کو ناپسند فرماتا ہے، دین اسلام کی محبت بھری تعلیمات سے اللہ رب العزت ہمیں یہ تعلیم دینا چاہتا ہے کہ تمہاری زندگیوں میں یہ تصور راسخ ہو جائے کہ تم مرض سے نفرت کرو مگر مریض سے نہیں، اس لیے کہ اگر تم مریض سے ہی نفرت کرنے لگو گے تو اس کا ٹھکانہ کیا ہو گا، تم دکھوں سے ضرور پرہیز کرو مگر دکھیوں سے ہر گز نہیں کیونکہ اگر تم ہی ان سے دامن چھڑانے لگے تو ان شکستہ دلوں کا مداوا کون کرے گا، اسی طرح تم گناہ سے نفرت کرو مگر گنہگار سے نہیں کیونکہ اگر تم ہی گنہگاروں کو ٹھکرانے لگ گئے تو انہیں راہ راست پر لانے والا کون ہو گا۔
اسلام میں محبت اور عدم تشدد کا موضوع، انتہا پسندی، دہشتگردی اور عدم برداشت کے ماحول میں نہ صرف پاکستان بلکہ اقوام عالم کے لیے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے، دین اسلام کی جملہ تعلیمات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں ہمیں جا بجا انسانوں سے محبت اور عدم تشدد کے مظاہر نظر آتے ہیں، اللہ تبارک تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے بیان میں بھی محبت اور رحمت کو نمایاں طور پر بیان کیا ہے۔ مشرکین اور کفار مکہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے، کسی کو کوڑے مارے جاتے، کسی کو آگ کے انگاروں پر لٹایا جاتا کبھی آپ کو پتھروں سے لہو لہان کیا جاتا اور کبھی معاشرتی مقاطعہ کیا جاتا، ظلم و ستم کی اس انتہا پر جب صحابہ کرام یہ عرض کرنے پر مجبور ہو جاتے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ظالموں اور مشرکوں کے لیے بدعا کیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کے اس تقاضے پر جواباً ارشاد فرماتے مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا، مجھے تو صرف سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اگر ہم قرآن و سنت کی مذکورہ تعلیمات کا صدق دل سے مطالعہ کریں تو ہمارے دلوں میں کبھی نفرت جگہ نہیں بنا پائے گی اور ہم انسانیت سے نفرت کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
ہمارے رویوں میں انتہا پسندی اور شدید ردعمل کی بڑی وجہ اسلامی تعلیم و تربیت کے ماحول سے دوری اور بیگانگی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم تو ہے مگر تربیت کا فقدان ہے، اگر ہم صحیح معنوں میں ایک مہذب معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا احتساب کرنا ہو گا۔ ہم ایک دن میں اس نہج پر نہیں پہنچے بلکہ اس میں سالہا سال کی خرابیاں شامل ہیں، ہمارے ہاں سیاسی، مذہبی اور سماجی تقسیم پیدا ہو چکی ہے اور سب نے اسی پیغام کو فروغ دیا کہ ہم ٹھیک ہیں اور باقی سب غلط، اس سوچ سے معاشرہ بری طرح تقسیم ہو چکا ہے، اس کا ایک مظاہرہ ہم نے دسمبر کے مہینے میں دیکھا۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور دو طبقات وکلاء اور ڈاکٹرز کے درمیان تصادم کی وجہ سے سوسائٹی کے پڑھے لکھے افراد تکلیف اور تشویش میں مبتلا ہیں۔ یہ دونوں باعزت اور باوقار پروفیشن دکھی انسانیت کی خدمت سے متعلق ہیں، مظلوموں، مجبوروں کو انصاف دلوانے کے لیے وکلاء مرکزی کردار کے حامل ہوتے ہیں اور جاں بہ لب غریب مریضوں کے علاج معالجہ اور زندگی بچانے کے لیے ڈاکٹرز مسیحا کا کردار ادا کرتے ہیں، قطع نظر اس کے کہ زیادتی کس طرف سے تھی اور ردعمل دیتے ہوئے حدود و قیود سے تجاوز کس نے کیا؟ مجاز کمیشن اس بارے تادم اشاعت اپنی حتمی رپورٹ دے چکا ہو گا، تاہم یہ واقعہ گزشتہ سال کا انتہائی تکلیف دہ واقعہ ہے، جب سوسائٹی کے پڑھے لکھے طبقات قانون پر عملدرآمد کرنے کی بجائے قانون ہاتھ میں لینے لگیں گے تو سوسائٹی میں آئین، قانون اور انصاف کی حکمرانی کا نفاذ ناممکنات میں سے ہو جائیگا اور بطور قوم ہمارے لیے دنیا کے سامنے آنکھ اٹھا کر چلنا ناممکن ہو جائیگا، بطور قوم ہم پہلے ہی سیاسی، سماجی اور معاشی عوارض کی وجہ سے عالمی سطح پر بہت سارے سوالات کی زد پر ہیں۔ اگر پڑھے لکھے طبقات بھی قانون شکنی پر اتر آئیں گے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچے گا، اگر ڈاکٹرز حضرات کسی بھی وجہ سے مریض کا علاج کرنے سے انکار کردیں یا وکیل کسی بھی جائز ترین وجہ پر عدالتی عمل کا حصہ بننے سے انکار کر دیں یا قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں تو بطور قوم یہ ہمارے لیے افسوسناک رویہ ہوگا۔
آئین پاکستان ہر شہری کے ساتھ ہونے والے ظلم اور ناانصافی کے ازالے کی گارنٹی دیتا ہے، یہ بات وکلاء سے زیادہ بہتر کون سمجھتا ہے، اگر ہر طبقہ طاقت کے بل بوتے پر اپنا بدلہ اپنے ہاتھوں سے لینے کی روش اختیار کر لے گا تو پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا جنگلی قانون رائج ہو جائیگا اورایسے ماحول اور رویوں میں ملک اور قومیں آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ سوال یہ ہے کہ اس اخلاقی بحران سے نجات کاراستہ کیا ہے؟ اس حوالے سے ہمیں اپنے نظام تعلیم کی طرف توجہ دینی ہو گی، ہمیں اس پر غور کرنا ہو گا کہ قوم کامستقبل بچے (پانچ سال سے 16 سال کی عمر) کس ماحو ل میں بسرکرتے ہیں؟ کیا والدین انہیں تعلیم کی طرف رغبت دلوانے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت کا فریضہ انجام دیتے ہیں؟ کیا سکولوں کے ماحول میں اخلاقی تربیت کا عنصر موجود ہے اور پھر اسی طرح بعدازاں کالج اور یونیورسٹیز کے تعلیمی مرحلہ میں طلبہ کی اخلاقی تربیت پر فوکس کیا جاتا ہے؟ جواب یقینا نفی میں ہے۔ جب تربیت کے مراحل میں ہم قوم کے بچوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے تو پھر عملی زندگی میں ہم ان سے اعلیٰ انسانی، اخلاقی اقدار کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک اعلیٰ اخلاقی اقدار اور معیار والی سوسائٹی میں تبدیل ہو جائے تو پھر ہمیں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ (چیف ایڈیٹر نوراللہ صدیقی)