انبیاء کرام علیہم السلام کی ہستیوں کا ایک امتیازی پہلو یہ ہے کہ انہوں نے فریضۂ نبوت کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ معاشرے کی خدمت بھی کی اور اس خدمت کے بدلے کوئی معاوضہ قبول نہیں کیا۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے اس وصف کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا، فرمایا:
لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شُکُوْرًا.
’’نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیں۔‘‘
(الانسان، 76: 9)
انبیاء کرام علیہم السلام خدمتِ خلق کا اجر صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے اور صرف یہ کہتے کہ:
اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی ﷲِ .
’’میرا اجر صرف اﷲ ہی کے ذمّہ ہے۔‘‘
(سبا، 34: 47)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسی اخلاق و کردار کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے وحیٔ الہٰی کی پہلی آمد کے موقع پر حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے تسلی دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جن خصوصیات کو گنوایا، اس میں خدمتِ خلق کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ آپؓ فرماتی ہیں:
والله ما یخزیک الله ابدا انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق.
’’اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسوا نہیں کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہیں۔ لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، بے روزگاروں کو کمانے کے قابل کرتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور لوگوں کی جائز مصیبت میں ان کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
شاہِ حبشہ نجاشی کے دربار میں جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دینِ اسلام کے تعارف کا موقع آتا ہے توجعفر طیارؓ کا بیان قابلِ توجہ ہے، انہوں نے نجاشی کے دربار میں کھڑے ہوکر فرمایا:
اے بادشاہ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے، بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، ہمسایوں کو ستاتے تھے، بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، زبردست زیردستوں کو کھا جاتے تھے، اسی اثناء میں ایک شخص ہم میں پیدا ہوا۔ اس نے ہمیں تعلیم دی کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑ دیں، سچ بولیں، خونریزی سے باز آئیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں۔ ہمسایوں کو آرام دیں، عفیف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں۔
(مسند احمد، ج: 1، ص: 202)
اسی طرح اسلام قبول کرنے سے قبل حضرت ابوسفیان کا بیان بھی ملاحظہ کریں جو انہوں نے قیصرِ روم کے دربار میں دیا تھا۔ اس بیان میں انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا جو نقشہ کھینچا، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ بادشاہ کے سوالات پر ابو سفیان نے نہ چاہتے ہوئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر خوبی و کمال کا اعتراف کیا۔ جب ہرقل نے ابوسفیان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا:
یقول اعبدو الله وحده ولا تشرکوا به شیئا واترکوا ما یقول آبائکم ویامرنا بالصلوة والصدق والعفاف والصلة.
’’وہ کہتے ہیں، تنہا اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، تمہارے باپ دادا جو کہتے ہیں اسے ترک کردو، وہ نماز، صداقت، پاک دامنی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔‘‘
(صحیح البخاری، باب بدء الوحی، ج: 1، ص: 5)
خدمتِ خلق کا وسیع مفہوم
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ غریبوں، غلاموں، یتیموں اور بیوائوں کی خدمت کی اور ان کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدمتِ خلق کو ایک وسیع مفہوم میں بیان فرمایا۔ ذیل میں اس کے چند مظاہر کا تذکرہ درج کیا جارہا ہے:
1۔ مسکرا کر ملنا
خدمت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کے لیے مسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔ حالانکہ اس مسکراہٹ سے بظاہر اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا مگر حقیقت میں یہ خیر سگالی جذبات کا اظہار ہے۔ اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا: جو اللہ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے اچھی بات کہنی چاہئے ورنہ خاموشی اختیار کرے۔
(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب اکرام الضیف، ج: 7، ص: 104)
یعنی لوگوں کو ذہنی ایذاء نہ دینے کو بھی اچھا عمل قرار دے کر خدمت کے زمرے میں شامل کیا ہے۔
2۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر
ابو موسیٰ اشعریؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ہر مسلمان پر صدقہ ہے۔ لوگوں نے کہا کہ اگروہ نہیں دے سکتا تو پھر کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسے ہاتھوں سے محنت کرنی چاہئے، اپنے آپ کو بھی فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ صاحبِ حاجت کی اعانت کرے۔ کہا گیا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بھلائی یا معروف کا حکم دے۔ حاضرین نے کہا کہ اگر وہ نہ کرسکے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فلیمسک عن الشر فانه له صدقه.
’’وہ برائی کرنے سے رک جائے یہی اس کا صدقہ ہے۔‘‘
(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب کل معروف صدقة، ج: 7، ص: 79)
3۔ جملہ نیک اعمال کی انجام دہی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدمت کے مفہوم کو مزید وسعت دیتے ہوئے فرمایا:
کل معروف صدقة.
ہر اچھا کام صدقہ ہے (اگرچہ وہ اچھا کام زبان سے ہو یا جسم سے۔)
(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب کل معروف صدقة، ج: 7، ص: 79)
اس کو ایک روایت میں ایمان کا حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں، ان میں افضل اور برتر شاخ لا الہ الااللّٰہ کا قول ہے اور ادنیٰ شاخ اماطۃ الاذی عن الطریق راستہ سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان عدد شعب الایمان)
یعنی راستہ میں پتھر یا درخت یا گندگی پڑی ہے جس سے گذرنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے، اسے ہٹادینا بھی نیکی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے ایک شخص کو جنت میں چلتے پھرتے دیکھا (اور اس کے جنت میں جانے کی نیکی یہ تھی) اس نے راستہ میں موجود ایک درخت کاٹ دیا تھا جس سے راہ چلتے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی۔
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، فصل ازالة الاذی عن الطریق)
اس خدمت کے دائرہ کو امیر و غریب دونوں پر وسعت دیتے ہوئے فرمایا:
کل معروف یصنعه احدکم الی غنی او فقیر فهو صدقة.
’’ہر وہ کام جو کسی غریب کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا جائے یا امیر کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا جائے، وہ صدقہ ہے۔‘‘
(در منثور، ج: 3، ص: 257 )
4۔ اہل و عیال اور یتیموں کی خدمت
انسان اگر اپنا اور اپنے اہل و عیال بیوی بچوں کا خرچ اٹھاتا ہے اور ان کے مسائل حل کرتا ہے تو اگرچہ یہ کام وہ اپنے لیے کررہا ہے لیکن اسلام نے اس خدمت کو بھی اس کے لیے باعثِ ثواب قرار دیا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: ـ
کل معروف صدقة وکل ماانفق الرجل علی نفسه واهله کتب له به صدقة له وما وقی به عرضه کتب له صدقة.
’’ہر نیک کام صدقہ ہے اور انسان جو حلال کمائی کی رقم اپنے یا اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بھی اس کی جانب سے صدقہ کی مدد میں لکھ لیتے ہیں، جو بچتا ہے وہ بھی صدقہ میں شمار کیا جاتا ہے‘‘
(جامع الصغیر للسیوطی، ج: 2، ص: 94)
حالانکہ اس نے یہ خرچ اپنی اولاد کی محبت میں کیا مگر اسے بھی عبادت سمجھا گیا۔ دوسری جگہ فرمایا:
الخلق کلهم عیال الله واحب الخلق الی الله من احسن الی عیاله.
’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک محبوب وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔‘‘
(مشکوة المصابیح، کتاب الادب، باب الشفقة والرحمه علی الخلق، ج: 2، ص: 613)
زمانہ جاہلیت میں عرب اپنی بچیوں کو زمین میں زندہ گاڑ دیا کرتے تھے۔ رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ظالمانہ اور قبیح رواج کا یکسر خاتمہ کردیا۔ پھر بھی بعض لوگ بیٹیوں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک صحابی نے پوچھا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کسی شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور بیٹا کوئی نہ ہو تو پھر؟‘‘
- حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’دو یا تین تو کیا اگر کوئی شخص اپنی ایک ہی بیٹی کے ساتھ اچھا برتائو کرے اور اسے اچھی تربیت دے تو اللہ تعالیٰ اسے دوزخ کی آگ سے بچالے گا۔ یعنی دو یا تین یا زیادہ بیٹیوںسے حسنِ سلوک تو اور بھی زیادہ اجرو ثواب کا مستحق بنادیتا ہے۔
- رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں پر نہایت شفیق و رحیم تھے اور اس میں دوست اور دشمن کے بچے کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ بچے آپ کو دیکھتے تو لپک کر آپ کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بچوں کو گود میں اٹھاتے، پیار کرتے اور کوئی کھانے کی چیز عنایت فرماتے۔ کبھی کھجوریں، کبھی تازہ پھل اور کبھی کوئی اور چیز۔ کافروں سے جنگ ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرامؓ کو حکم دیتے کہ دیکھو کسی بچے کو مت مارنا، وہ بے گناہ ہیں، انہیں کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔ ایک بار فرمایا کہ جو کوئی بچوں کو دکھ دیتا ہے، اللہ اس سے ناراض ہوجاتا ہے۔
5۔ بیوہ اور مسکین کی خدمت
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے دنیا میں بیوہ عورتیں سماج میں بڑی کسمپرسی کی زندگی گذارتی تھیں۔ بیوہ عورت وارث کی ملکیت بن جاتی تھی اور وہ مالک ان کے ساتھ ہر قسم کا غیر انسانی سلوک کرتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوہ عورتوں کو اس ذلت سے نکالا اور اسے سماج میں عزت کا مقام عطا کیا۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آٹھ بیوہ عورتوں کو اپنے حرم پاک میں داخل کیا اور بیوہ کے ساتھ نکاح کو اپنی سنت بنادیا۔ بیوہ کی خدمت کو جہاد کے برابر درجہ عطا فرمایا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوائوں کی خدمت کو عظیم نیکی قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’بیوہ اور مسکین کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا ایسا ہے جیسا خدا کی راہ میں کوشش کرنے والا۔ راوی کہتا ہے میں گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا جیسے وہ نمازی جو نماز سے نہیں تھکتا اور روزہ دار جو اپنا روزہ نہیں توڑتا۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب الزهد، باب الاحسان الی الارملة، ج: 8، ص: 221)
دوسری حدیث میں فرمایا:
الساعی علی الارملة والمسکین کالمجاهد فی سبیل الله وکالذی یصوم النهار ویقوم اللیل.
’’بیوہ اور غریب کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا خدا کی راہ کے مجاہد کی طرح ہے اور اس کے برابر ہے جو دن بھر روزہ رکھتا اور رات بھر نماز پڑھتا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب الساعی علی الارملة، ج: 7، ص: 76)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یتیم پروری اور غریب نوازی ایک مسلمہ حقیقت تھی، جسے دوست دشمن سب تسلیم کرتے تھے۔ بیوائوں کی خدمت کی بہت سی صورتیں تھیں: ان کی مالی مدد کرنا، ان کا سودا سلف بازار سے لادینا، ان کی شادی کروادینا، ان کی اولادوں کی شادی کروادینا اور ان کے مسائل حل کرنا وغیرہ۔
6۔ مخلصانہ مشورہ یا سفارش
انسان قدم قدم پر اچھے مشورہ کا محتاج ہوتا ہے۔ زندگی کی پیچیدہ راہوں میں اسے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے حق کے حصول کے لیے سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔ بالخصوص آج کے مروجّہ قوانین میں انسان کو صاحبِ علم سے مشورہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ وکلاء اور ماہرینِ تجارت و صنعت اور زراعت سے مشورہ چاہئے ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مشورہ امانت ہوتا ہے۔ اس لیے جو شخص مشورہ مانگے اسے پوری دیانت و امانت کے ساتھ صحیح مشورہ دیاجائے، اس میں اس کا دنیاوی و اخروی اجر ہے۔
اگر کوئی کسی مشکل میں پھنس جائے یا پولیس ناجائز طریقے سے گرفتار کرلے یا غلط الزام لگ جائے تو اس کی رہائی کے لیے سفارش کرنا، اس کو سزا سے بچانے کے لیے سفارش کرنا یا کسی بے روزگار کو روزگار دلانے کے لیے اس کی سفارش کرنا بھی باعثِ ثواب ہے بشرطیکہ اس سفارش سے کسی حق دار کی حق تلفی نہ ہورہی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من دل علی خیر فله نصف اجر فاعله.
’’جس کسی نے خیر کی طرف رہنمائی کی تو اسے اس پر عمل کرنے والے کا نصف اجر ملے گا۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب الاماره، باب فضل اعانة الغازی فی سبیل اللہ)
ابو موسیٰ اشعری روایت کرتے ہیں کہ
انہ کان اذا اتاه السائل او صاحب الحاجة قال اشفعوا فلتوجرو او یقضی الله علی لسان رسوله ماشاء.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کوئی سائل یا ضرورت مند آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے، سفارش کرو تاکہ تمہیں اجر دیا جائے اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان پر جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری کتاب التوحید باب فی المشیة والارادة، ج: 8، ص: 93)
ایک دوسری حدیث حضرت عائشہؓ سے یوں مروی ہے کہ:
’’جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو کسی صاحبِ اقتدار سے ملوانے، اس کو فائدہ پہنچوانے یا اس کی کسی مشکل کو حل کروانے کے لیے لے کر گیا تو گویا اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس مسلمان کی قیامت کے دن صراطِ مستقیم پر سے گذرتے ہوئے مدد کرے گا جہاں سے گذرتے ہوئے لوگوں کے قدم ڈگمگا جائیں گے۔‘‘
(صحیح ابنِ حبان، کتاب البر والصلة، ص: 260)
حکومت نے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے جن افراد کو ذمہ داریاں سونپی ہیں، انہیں اس پرغور کرنا چاہئے کہ مخلوقِ خدا کی اس تناظر میں خدمت کرنا کتنا بڑا اجر ہے حتی کہ صرف سفارش کرکے کسی کو اس کا حق دلانا بھی خدمتِ خلق کی بہترین شکل اور بہترین اجر کا ذریعہ ہے۔
9۔ مظلوموں کی مدد
خدمتِ خلق کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ معاشرہ میں جن افراد و طبقات پر ظلم ہورہا ہو یا ان کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہو تو ان کی مدد کی جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایمان کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان طاقت کے ذریعہ اس برائی یا ظلم و زیادتی کو روکے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ زبان سے روکے، اس کے خلاف زبان و قلم سے احتجاج کرے اور ایمان کا آخری درجہ یہ ہے کہ اسے دل سے برا سمجھے۔
ظالم و مظلوم دونوں کی مدد کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
انصر اخاک ظالما او مظلوما.
’’اپنے بھائی کی مدد کرو ظالم ہو یا مظلوم۔‘‘
یعنی ظالم ہے تو ظلم سے روکو، مظلوم ہے تو اس کو ظلم سے بچائو۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا ہے اس میں سے ایک یہ ہے کہ مظلوم کی مدد کی جائے۔
(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب تشمیت العاطس)
امام نوویؒ نے مظلوم کی مدد کو فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ اگر کسی کا گھر برباد کیا جارہا ہو، کسی کو قتل کیا جارہا ہو یا اس کی عزت و آبرو لوٹی جارہی ہو تو دوسروں پر اس کی مدد کرنا لازم ہے اگر کوئی مدد نہیں کرے گا تو سب گناہگار ہوں گے اور اس میں کوئی تخصیص نہیں کہ مظلوم مسلم ہو یا غیر مسلم۔ اسی طرح دوسرے مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
دعوة المظلوم تستجاب وان کان کافرا.
’’مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے اگرچہ وہ مظلوم کافر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
(مسند احمد، ج: 3، ص: 53)
اگر معاشرہ کے افراد اس حدیث پر عمل شروع کریں تو آج ہی ملک سے ظلم، قتل عام، بھتہ خوری اور لوٹ مار کا سلسلہ ختم ہوسکتا ہے۔ اگر ہر کوئی ایک دوسرے کا تماشہ دیکھتا رہے گا تو ظلم و ستم کا یہ بازار یونہی گرم رہے گا اور ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں ہم بھی اس کی زد میں آجائیں۔