سوال: بعض ممالک میں اونٹوں کی دوڑیں ہوتی ہیں، اونٹوں کی رفتار تیز کرنے کے لیے پہلے اس پر معصوم بچے بٹھائے جاتے تھے جن کے رونے سے اونٹ تیز بھاگتے تھے۔ اب حکومت نے اس پر پابندی لگادی ہے تو اب اس کا متبادل انھوں نے ایک چھوٹی سی مشین ہے جسے ریموٹ سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے اونٹ کو سخت تکلیف پہنچائی جاتی ہے حتی کہ بعض اوقات اس کی جلد بھی اتر جاتی ہے۔ اس تکلیف سے اونٹ کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔ کیا اسلام جانوروں کے ساتھ اس طرح کے سلوک کی اجازت دیتا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: ظلم کا معنی ہے: وضع الشییٗ فی غیر موضعہ کسی چیز کو اس کے محل میں نہ رکھنا۔ اصمعی نے کہا: ما ظلم کا مطلب ہے اس نے فلاں چیز کو غیر محل میں نہیں رکھا۔ عربی مثال ہے: من استرعی الذئب فقد ظلم جس نے بھیڑیا چرایا (پالا) اس نے ظلم کیا۔ معلوم ہوا کہ ظلم و زیادتی سے مراد حد سے بڑھنا ہے۔ قرآن کریم میں شرک کو بڑا ظلم کہا گیا، اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ زندہ کرتا ہے، مارتا ہے، رزق دیتا اور انعام و اکرام کرتا ہے، وہ ایک ہے، کوئی دوسرا اس جیسا نہیں مگر جب کسی غیر کو اس کے برابر کر دیا جائے تو یہ سب سے بڑا ظلم ہے کہ نعمت و احسان غیر رب کی طرف کر دیا گیا۔
( ابن منظور، لسان العرب، 8: 264)
کسی چیز کو کمی یا زیادتی کر کے یا اس کے وقت یا مکان سے ہٹا کراس کے غیر محل میں رکھنا۔‘‘
(ابن الاثیر، النهایة، 3: 161)
اللہ تعالیٰ کا مخلوق پر بالعموم اور انسان پر بالخصوص احسانِ عظیم ہے کہ فرمایا:
خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا.
(البقرة، 2: 29)
’’اس نے زمین میں ہر چیز تمہارے لیے پیدا کی‘‘۔
ان نعمتوں کو شمار کرنا ہی ہمارے لیے ناممکن ہے، ہم کیسے اور کس زبان سے اس پروردگار کا شکر کریں؟ کم سے کم یہی احساس تو بیدار رہنا چاہیے۔
مگر افسوس! صد افسوس کہ طاقتور انسان اپنے سے کمزور حیوانوں،انسانوں، درختوں، کھیتوں،باغوں، آبادیوں کو اکثر اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بناتا ہے، اور اس سے وہ اپنی شیطانی خواہشات کا سامان اور مخلوقِ خدا کو اس کے قدرتی بنیادی حقوق سے محروم کرتا ہے اور یوں جنتِ ارضی کو اپنے ظلم سے جہنم بناتا رہا اور بنا رہا ہے اور نہ جانے کب تک ظلم کی شب دیجور دراز ہوتی رہے گی۔
بعض عرب و افریقی ممالک میں اونٹوں کی ریس ہوتی ہے۔ اور اس میں دو بڑے گناہ و ظلم روا رکھے جاتے ہیں:
1۔ جوأ: جیسے ہمارے ملک سمیت اکثر ممالک میں گھڑ دوڑ (ریس) کے ذریعہ جوأ کھیلا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ گھڑ دوڑ، بیلوں، بکروں، چھتروں، اونٹوں، انسانوں، کتوں وغیرہ کے دوڑ کے مقابلے اس صورت میں جائز ہیں کہ اگر کوئی حکومت، کوئی تنظیم، کوئی فرد یا افراد یا جماعت یہ مقابلے کروائے اور جیتنے والے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے انعام دے بلکہ ہارنے والوں کو بھی مناسب انعام دے کر حوصلہ افزائی کرے۔ اس طرح کرنا درست ہے۔
2۔ لیکن جب دو فریق،دو افراد یا تنظیمیں یہ مقابلے کروائیں اور مقابلہ میں حصہ لینے والے دونوں فریقوں سے رقم لے کر اپنے پاس رکھیں اور بعد ازاں ساری رقم جیتنے والے کو دے دیں، یہ جوأ اور قمار ہے اور یہ حرام ہے۔
بعض عرب و افریقی ممالک اونٹوں کی ریس کرواتے ہیں۔ مقابلہ کی ٹیموں کے لیے لاکھوں ڈالر انعامی رقوم مختص کرتے ہیں، بڑے بڑے گروپ ان مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں، اونٹوں کو تیز رفتاری کے ساتھ دوڑانے کے لیے مختلف ایشیائی و افریقی غریب بچوں کو لایا جاتا ہے، بچوں کو پیش کرنے والے اغواء کندگان اور غربت کے مارے سنگدل والدین، منتظمین کے ہاتھوں ان بچوں کو بیچتے ہیں۔ منتظمین مقابلہ کے وقت ان بچوں کو اونٹوں کی پشت پر رسوں سے باندھ دیتے ہیں پھر ان اونٹوں کو دوڑ میں شامل کرتے ہیں۔ مقابلہ جیتنے کے لیے اونٹوں کو کوڑے مار کر سواری کو تیز رفتاری کے ساتھ دوڑاتے ہیں، بچوں کی چیخ و پکار، تڑپنے، بلکنے سے اونٹوں کی رفتار اور بڑھ جاتی ہے۔ بچوں کی اذیت اور اونٹوں کی تیز رفتاری سے قرونِ اولیٰ کے ظالم بادشاہوں کے یہ شہزادے رقصِ بسمل دیکھتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بسا اوقات ظلم وستم کا شکار یہ بے کس و بے بس بچے زخمی ہو جاتے ہیں۔ کچھ نیچے گر کر پاؤں میں مسلے اور کچلے جاتے ہیں، ان جسموں سے بہتے خون اور ان کے منہ سے نکلنے والے نالے بھی ان سنگدلوں کو متاثر نہیں کرتے۔ ہوسِ مال و نفس نے ان کی آنکھوں پر حرص و لالچ کی پٹی باندھ رکھی ہے۔ ہمارے نزدیک کسی بھی ذی روح پر ظلم و زیادتی جرمِ عظیم اور گناہ کبیرہ ہے اس ظلم کو فی الفور بند کیا جانا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
إیاک و دعوة المظلوم فإنما یسأل الله تعالی حقہ وإن الله لا یمنع ذ احق حقة۔‘‘
(بیهقی، شعب الایمان، 6: 49، الرقم: 464)
’’اپنے آپ کو مظلوم کی بد دعا سے بچاؤ، وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا حق ہی تو مانگتا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ کسی حقدار کا حق نہیں روکتا۔‘‘
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
’’تم لوگ قیامت کے دن حقداروں کے حقوق ادا کروگے یہاں تک کہ بغیر سینگوں کی بکری کا سینگ والی بکری سے قصاص لیا جائے گا۔‘‘
(مسلم، الصحیح، 4: 1997، الرقم: 2582)
اندازہ لگائیں کہ یہ بدلہ تو سینگ والی بکری (یا کسی دوسرے جانور) سے لیا جائے گاجس نے بغیر سینگ والی بکری پر زیادتی کی۔ ان انسانوں کا کیا بنے گا جو حیوانوں پر ظلم کرتے ہیں۔پھر ان انسانوں کا کیا بنے گا جو انسانوں پر ظلم کریں، پھر ان انسانوں کا کیا بنے گا جو خدا اور اس کے رسول ﷺ کے حقوق پامال کریں، ان کی عزت و احترام اور اطاعت نہ کریں۔ خدا کی پناہ!
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جانتے ہو مفلس کون ہے؟ لوگوں نے عرض کی: ہمارے ہاں تو مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ ساز و سامان۔ فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزے اور زکوٰۃ جیسی بڑی نیکیاں لے کر آئے گا حالانکہ اس نے اس کو گالی دی، اس پر بدکاری کی تہمت لگائی، اس کا مال ہڑپ کیا اور اس کا خون بہایا، اسے مارا پیٹا۔ اس حقدار کو اس کی نیکیوں میں سے کچھ دے دی گئیں اور کچھ دوسرے حقدار کو۔ یوں نیکیاں ختم ہوگئیں اور اس کے ذمہ دوسروں کے حقوق باقی رہ گئے تو ان کے گناہ اس پر ڈالے جائیں گے، پھر اسے جہنم رسید کر دیا جائے گا۔
(مسلم، الصحیح، 4: 1997، الرقم: 2881)
مختصر یہ کہ جس طرح انسانوں کو ایذاء دینا حرام ہے، اسی طرح آج مروجہ طریقہ جس میں اونٹ کو تیز دوڑانے کے لیے کسی مشین کے ذریعے اونٹ کو اذیت دی جاتی ہے، یہ ایذاء دینا بھی حرام ہے اور حرام کام پر جوأ کھیلنا تو ظلم پر ظلم ہے، حرام ہے قطعی حرام ہے۔ ان مظلوموں کی طرف سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن خود اس ظلم کا بدلہ لے گا یہ کئی گناہوں کا مجموعہ ہے۔
سوال: خود کشی حرام کیوں ہے جب کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لکھی ہوتی ہے؟
جواب: صرف خود کشی ہی نہیں قتل، حادثات اور دیگر تمام جرائم کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ یہ حرام کیوں ہیں؟ جبکہ یہ سب تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لکھے جا چکے ہیں۔ دراصل ایسے خدشات مسئلہ تقدیر کے نہ سمجھنے یا ناقص معلومات کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اچھے اعمال پر بھی یہ سوال ہوگا کہ جب سب کچھ لکھا جا چکا ہے تو ان کے کرنے میں بندے کا کیا کمال ہے؟
جان لیجئے کہ اللہ تعالیٰ کا علم اور اس کا حکم الگ الگ دو چیزیں ہیں۔ بندہ حکم کا پابند ہے اور اس سے اسی کی تعمیل یا مخالفت کا سوال ہوگا۔ بندہ اسی کا مکلف ہے۔ احکامِ شرع واضح ہیں ان میں کوئی اخفا و اجمال نہیں ہے۔ رہا اللہ کا علم، سو ہمیں اللہ تعالیٰ کے علم کی کھوج لگانے کا نہ حکم ہے، نہ ضرورت اور نہ ہی اختیار اور یہی تقدیرِ الہٰی ہے۔
ہمیں ایمان لانے، نماز پڑھنے اور باقی احکامِ شرع کی ادائیگی کا حکم ہے۔ اس کے لیے ہمیں دو چیزوں کی ضرورت تھی:
(1) احکامِ شرع کا علم
(2) ان کی ادائیگی پر قدرت
حصولِ علم کے لیے، کتاب اللہ، سنتِ رسول اللہ ﷺ اور اجماع و قیاس کے ذرائع ہمیں حاصل ہیں اور قدرت دو طرح کی ہوتی ہے۔ اول: عقلی و فکری قدرت جو ہمیں دل و دماغ کے ذریعے سے ملتی ہے اور دوم: جب احکامِ شرع کا علم بھی ہمیں حاصل ہوگیا اور ان کی ادائیگی کی قدرت بھی مل گئی تو ہم پر احکامِ شرع کی تعمیل لازم ہوگئی۔ مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ کا علم بھی ہوگیا اور ان کی ادائیگی کی قدرت بھی میسر آگئی، تو ہم پر ان کی ادائیگی فرض ہوگئی۔ اب اس سلسلہ میں اگر ہم سستی کریں گے تو مجرم کہلائیں گے جس کی جوابدہی ہوگی۔
یہ امر ذہن میں رہے کہ ہم اس قدرت اور علم کے باوجود کچھ کرنے یا نہ کرنے پر مختار ہیں، مجبور نہیں۔ فرائض کی ادائیگی کرنا چاہیں تو کوئی رکاوٹ نہیں، ٹالنا چاہیں تو کوئی ہاتھ پکڑ کر مسجد کی طرف گھسیٹنے والا نہیں۔ اس اختیار میں انسان کی عظمت ہے اور اس کے غلط استعمال میں اس کی ہلاکت ہے۔ اگر یہ احساس رہے کہ یہ علم اور قدرت دے کر میرا مالک مجھے امتحان میں ڈال رہا ہے کہ کیا ان صلاحیتوں کا جائز استعمال کرتا ہوں یا ناجائز؟ تو یقینا یہ احساسِ ذمہ داری سیدھے راستے پر ڈال دے گی اور بندہ مالک کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا، اور اگر انسان یہ احساس نہ کرے اور ان تمام تر صلاحیتوں کو غلط استعمال کرکے جرائم کماتا پھرے اور ہلاکت کے گڑھے میں گرنا چاہے تو گلہ کس کا؟؟
نیکی بدی کرنے والے کو یہ معلوم نہیں کہ میری قسمت میں نیکی کرنا لکھا ہے یا بدی؟ لیکن یہ تو معلوم ہے کہ نیکی کا حکم دیا گیا ہے اور برائی سے منع کیا گیا ہے۔ لہذا انسان کی یہ روش غلط ہے کہ معلوم کو چھوڑ کر نامعلوم کے پیچھے ٹامک ٹویاں مارتا پھرے؟ جو اس کے علم میں ہے وہ حکمِ شرع ہے اور جو اس کے علم سے باہر ہے وہ علمِ الہٰی یا تقدیر ہے۔
میرے پاس زہر ہے، خنجر ہے، گولی ہے اور میں ان کے اچھے اور برے استعمال اور ان کے احکام بھی جانتا ہوں، پھر بھی ان کا غلط استعمال کر لیتا ہوں تو یہی میرا گناہ اور معصیت ہے اور اسی کا مجھے جواب دینا ہے۔ کسی آلہ کے غلط استعمال کے نتیجے میں ضرب کاری لگتی ہے یا معمولی خراش؟ موت واقع ہوتی ہے یا نہیں؟ اس کا مجھے پہلے سے کوئی علم نہیں، اور نہ ہی میں اس کا مکلف ہوں۔ موت دینے والا وہی ہے جس نے زندگی دی تھی، میں موت دینے والا نہیں البتہ اس موت کا سبب میری ’’ضرب‘‘ ہے جس سے مجھے منع کیا گیا تھا۔ میں نے اپنے اختیار سے اس ممانعت کو توڑا ہے، یہی میرا جرم ہے اور اسی کی مجھے سزا ملے گی۔
پس حکمِ الہٰی تو یہ ہے کہ میں کسی کی ہلاکت کی تدبیر نہ کروں اور علمِ الہٰی یہ ہے کہ میں یہ تدبیر کروں گا یا نہیں؟ اگر کی تو نتیجہ کیا ہوگا؟ مرے گا، زخمی ہوگا یا تدبیر ہی فیل ہو جائے گی اور وہ شخص بچ جائے گا؟ یہ سب کچھ میرے علم میں نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔
یہ مختصر سی بحث مسئلہ تقدیر کے سمجھنے میں ان شاء اللہ مددگار ثابت ہوگی۔ خود کشی حرام اس لئے ہے کہ اللہ تعالی کا واضح حکم ہے:
لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَةِ.
(البقرة، 2: 195)
’’ہلاکت میں ہاتھ نہ ڈالو۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ط اِنَّ اللهِ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا.
(النساء، 4: 29 )
’’اپنے آپ کو قتل مت کرو یقینا وہ تم پر مہربان ہے۔‘‘
چونکہ خود کشی کرنے والا اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنا حرام ہے۔ لہٰذا ایسا کرنے والا حرام کا مرتکب ہوا۔