سیالکوٹ میں سری لنکا کے ایک شہری (پریانتھا کمارا) جو ایک صنعتی یونٹ میں خدمات انجام دے رہے تھے کو ایک جنونی ہجوم نے بہیمانہ اور سفاکانہ طور پر قتل کر دیا اور لاش کی بے حرمتی کی۔ یہ واقعہ ہر اعتبار سے قابلِ مذمت اور قابلِ گرفت ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں اس نوع کی درندگی اور بربریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس قتلِ ناحق پر پاکستان بھر میں ایک گہری تشویش اور تکلیف محسوس کی گئی ہے۔ تمام سیاسی، سماجی، مذہبی جماعتوں، تحریکوں کی طرف سے اس واقعہ کی پرزور الفاظ میں مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر گہرے غم و غصہ کا اظہار کیا گیا اور اس سانحہ میں ملوث جنونی ہجوم میں شامل قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ سیالکوٹ واقعہ پر حکومت نے ایکشن لیا اور ملوث عناصر کو گرفتار کر کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اب اگلا مرحلہ پراسیکیوشن اور ٹرائل کا ہے۔ یعنی انسانی جان کو قتل کرنے والے مجرموں کو قرارِ واقعی سزا دینے کے لئے اب اگلا کردار عدالت کا ہے۔ سیالکوٹ سانحہ سے پہلے بھی متعدد واقعات میں جنونی ہجوم کی طرف سے بے گناہ شہریوں کو قتل کیا گیا جس کی بازگشت پاکستان سمیت پوری دنیا میں سنی گئی اور روایتی حاسدین ایسے واقعات کو اسلام یا پاکستان کے خلاف ایک مہم کے طور پر استعمال کرنے میں ذرہ برابر تاخیر نہیں کرتے اور ایسے واقعات کو بنیاد بنا کر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ سیالکوٹ محض پاکستان کا ایک شہر ہی نہیں ہے، اس کی وجہ شہرت سپورٹس، سرجیکل آلات، ٹیکسٹائل اور لیدر گارمنٹس کے حوالے سے بین الاقوامی نوعیت کی ہے۔ سیالکوٹ کی صنعتوں میں تیار ہونے والی اشیاء پوری دنیا میں ایکسپورٹ ہوتی ہیں اور اس سے پاکستان کثیر زرِ مبادلہ حاصل کرتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد پاکستان اور سیالکوٹ کے صنعتی تشخص کو بھی دنیا بھر میں نقصان پہنچانے کے لئے مہمات شروع کی گئیں۔ سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل سے قبل بھی اسی جنونیت کے ایک مظاہرے میں دو حافظ قرآن بھائیوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔
سیالکوٹ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کا شہر ہے جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات کا ایک آفاقی اصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہی مقصودِ فطرت ہے یہی رمزِ مسلمانی، اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی‘‘ یعنی حکیم الامت نے مختصر الفاظ میں سیرت النبی ﷺ کا ایک جامع خاکہ پیش کیا ہے کہ ایک مسلمان کا ہتھیار اور طرۂ امتیاز اخوت اور محبت کے عالمگیر جذبات کو فروغ دینا ہے مگر افسوس وہ اخوت و محبت جو مسلمانوں کا صدیوں سے طرہ امتیاز چلی آ رہی ہے اور جس کی تعلیمات حضور نبی اکرم ﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین، ائمہ و محدثین 14 سو سال سے بیان کرتے چلے آرہے ہیں، اس اخوت و محبت، صبر و تحمل اور برداشت کی تعلیمات کو آج مسخ کر کے پیش کیا جارہا ہے اور پاکستان کے اندر انتہا پسندی اور تشدد کا زہر گھولا جارہا ہے جس کی وجہ سے ایک گھٹن اور بےچینی کی سموگ چار سو پھیلی ہوئی ہے اور اس کا نقصان معمولاتِ زندگی میں خلل آنے کے ساتھ ساتھ اسلام اور پاکستان کے پرامن تشخص کو بھی پہنچ رہا ہے۔ اگرچہ جنونی سوچ رکھنے والے بیمار ذہن کسی بھی ملک اور خطے میں ہو سکتے ہیں تاہم ہمارے ہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ خود ساختہ الزامات کے تحت ہجوم کو تشدد پر اکسا کر بربریت کا مظاہرہ کیوں کیا جاتا ہے؟۔ یہ ایک ایسا موضوع اور المیہ ہے جس پر پاکستان میں کم و بیش گزشتہ 3 دہائیوں سے بطور خاص یہ بحث چل رہی ہے کہ ریاست کے اندر کسی شہری کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جرم کی نوعیت کوئی سی بھی ہو، اس پر حد جاری کرنا کسی فرد، گروہ، جماعت یاجتھے کا اختیار نہیں ہے بلکہ اس ضمن میں جزا وسزا کا اختیار ریاست کے مجاز ادارے عدلیہ کے پاس ہے۔ جب سزا اور جزا کے حوالے سے آئین و قانون اور سٹیٹ کے کلیتاً اختیار کی فلاسفی پر بات کی جاتی ہے تو کچھ کج فہم اس پر بھی فتویٰ بازی پر اتر آتے ہیں اور منفی میڈیا مہم کا سہارا لیتے اور کردار کشی کرتے ہیں۔ انتہا پسندانہ جذبات کو ہوا دینے والے افراد یا طبقات کو ہی نہیں ریاست کو بھی بلیک میل کرتے ہیں اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ ریاست ان کے اس رویے پر صرفِ نظر کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس رویے کو بدلنا ہو گا۔ اس کے لیے ایسی شخصیات، اداروں اور تحریکوں کو سپورٹ کرنا ہو گا جن کا ماضی کرسٹل کی طرح شفاف اور چمک دار ہے اور ان کی دینی، اصلاحی، تربیتی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں اور سب کے سامنے ہیں۔
تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہر نوع کے انتہا پسندانہ اور متشدد رویوں کی بیخ کنی کے لئے تن تنہا گزشتہ چار دہائیوں سے مسلسل علمی و فکری سطح پر عَلم جہاد بلند کیے ہوئے ہیں اور اس کلمہ حق کی قیمت بھی چکائی گئی ہے مگر تمام تر نامساعد حالات کے باوجود انتہا پسندی کے زہر کے خلاف تحریک منہاج القرآن کی آواز کمزور نہیں پڑی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے فروغِ امن اور متشدد رویوں کے تدارک کے لئے ہزارہا لیکچرز دینے کے ساتھ ساتھ 40 سے زائد کتب بھی تحریر فرمائی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام کے پرامن بیانیہ کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی توفیق بخشی ہے۔ انسانی جان کی حرمت اسلامی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی عالمی شہرت یافتہ کتاب ’’اسلام میں انسانی حقوق ‘‘ میں یہ نکتہ بیان کرتے ہیں کہ ’’انسان کو حاصل جملہ حقوق کی بنیاد اس کی اپنی جان کی حفاظت سے منسلک ہے یعنی جب تک کسی معاشرے میں انسانی جان کوتحفظ حاصل نہ ہو بقیہ حقوق کے نفاذ و حقوق کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ اسلام نے اسی بنیادی حق کو بیان کرتے ہوئے اہلِ ایمان کے کردار کو یوں بیان کیا: ’’اور (خدائے رحمان کے مقبول بندے) کسی ایسی جان کو قتل نہیں کرتے جسے بغیر حق مارنا اللہ نے حرام فرمایا ہے‘‘۔ ریاست پاکستان کو لاء اینڈ آرڈر اور انسانی جان کی حرمت اور تحفظ کے لئے کسی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے، ورنہ اسلام اور پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا راستہ روکنا ممکن نہیں رہے گا۔
حقوقِ انسانی کے تحفظ، انسانی جان کی حرمت، بین المذاہب رواداری اور اعتدال کی اقدار پر مبنی سوسائٹی کی تشکیل کے لئے خطبہ حجتہ الوداع ایک ایسی دستاویز اور چارٹر ہے جس کا ایک ایک حرف آج بھی امن و سلامتی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔ خطبہ حجتہ الوداع کی ہر شق اور لفظ پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے سے ہم بین الاقوامی سطح پر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ خطبہ حجتہ الوداع کو اگر مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ اعلانِ امن، اعلانِ آزادی اور اعلانِ مساواتِ انسانی ہے۔ اس خطبہ حجتہ الوداع میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’اے لوگوں بے شک تم سب کا رب ایک ہے اور تم سب کا باپ (آدم) ایک ہے۔ سن لو! کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری ہے اور نہ کسی کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت ہے سوائے تقویٰ کے، تم میں سب سے بہتر اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اس سے زیادہ ڈرنے والا ہے‘‘۔ خطبہ حجتہ الوداع انسانی حرمت و وقار کا اعلان ہی نہ تھا بلکہ ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ اللہ رب العزت ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے راستے اور آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق دے۔