ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
اگر دل محبت سے لبریز ہو تو ایسا ایثار اور ایسی سخاوت جنم لیتی ہے کہ پھر دل میں کسی قسم کی تنگی نہیں رہتی اور جب دل میں تنگی نہیں رہتی تو دوسروں کو نعمت ملنے پر دل میں حسد پیدا نہیں ہوتا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا موازنہ و محاسبہ کریں کہ کسی دوسرے کو مالی فراخی و کشادگی، علم و تقویٰ، عزت و طاقت الغرض کسی بھی حوالے سے اللہ کی نعمت میسر آتی ہے تو اس پر ہمارا دل خوش ہوتا ہے یا اس میں تنگی آتی ہے...؟ اگر دوسروں کو اللہ کی نعمت اور کشادگی میسر آنے پر دل میں مسرت ہوتی ہے تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سخائے قلب عطا کی ہے۔ لیکن اگر دوسروں کو خوشحالی ملنے پر ہم پریشان ہوجائیں تو ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور اس سے نفس اور قلب کی سخاوت کی توفیق طلب کریں۔
کئی لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کو نعمت ملنے پر اگر انھیں پریشانی نہیں ہوتی تو خوشی بھی نہیں ہوتی۔ یاد رکھیں! دوسروں کو نعمت ملنے پر خوشی و مسرت کا احساس ہونا حالتِ ایمان ہے۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کی یہ لذت دی ہے تو جان لیں کہ اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا عکس پیدا کیا ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس آجائے تو سمندر بھی اس کے دل کی وسعت کے سامنے تنگ نظر آتے ہیں، اس کے دل میں خیر ہی خیر اور خوشی ہی خوشی ہوتی ہے اور وہ دوسروں سے ہمیشہ محبت کرتا ہے۔ دوسروں کو نعمت ملنے پر بندے کا خوش ہونا اس بات کا اظہار اور علامت ہے کہ وہ بندہ اللہ کی تقسیم پر خوش ہے۔ اس کا خوش ہونا، بندے پر خوش ہونا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر خوش ہونا ہے، کیونکہ اسے یہ نعمت اللہ نے دی ہے۔ لہذا وہ اللہ تعالیٰ کے امر پر خوش ہورہا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر خوش ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمت بڑھادیتا ہے۔
سخاوتِ نفس اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرزِ عمل
قرآن مجید کی آیت (الحشر: 9) کے تفصیلی مطالعہ کے بعد آیئے! اب سخائے نفس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حاصل مقام کا احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں مطالعہ کرتے ہیں:
1۔ حضرت ابن عمر ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی کو کسی شخص نے بکرے کی سری ہدیہ کے طور پر دی۔ انہوں نے خیال کیا کہ میرا فلاں ساتھی زیادہ ضرورت مند ہے، کنبہ والا ہے اور اس کے گھر والے زیادہ محتاج ہیں، اس لیے اس نے وہ سری اس کے ہاں بھیج دی۔ انھیں جب یہ سری ہدیہ کے طور پر ملی تو اِن کے دل میں بھی اپنے ساتھ والے کی محتاجی اور بھوک کا خیال آیا، لہذا انھوں نے وہ سری اپنے ساتھ والے کو ہدیہ کردی، جب ان کے پاس یہ ہدیہ پہنچا تو انھیں بھی اپنے ہمسائے کے متعلق یہی خیال پیدا ہوا، لہذا انھوں نے یہ سری اُسے ہدیہ کردی:
فَلَمْ یَزَلْ یَبْعَثُ بَهٖ وَاحِدًا الیٰ آخر حَتَّی تَدَاوَلَها سَبْعَةَ اَبْیَات حتیٰ رجعت اِلَی الْاَوَّل.
(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 526، رقم: 3799)
غرض اسی طرح وہ سری سات گھروں میں پھر کر سب سے پہلے صحابی کے گھر لوٹ آئی۔
یہ طرزِ عمل دل کی سخاوت ہے۔ خود بھوک کی حالت میں ہیں مگر اپنی بھوک کا نہیں، دوسروں کی بھوک کا زیادہ احساس ہے۔ جب کسی کے دل میں دوسروں کا فکر زیادہ پیدا ہوجاتا ہے اور ’’میں‘‘ بھول جاتی ہے تو وہ بندہ اپنے مَن اور دل کا سخی ہوجاتا ہے۔ ایسے مَن کے سخی کو اللہ پسند کرتا ہے۔ لہذا وہ بندہ اللہ کا ولی اور دوست ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کا ولی اور دوست لینے والا نہیں بلکہ دینے والا ہوتا ہے۔
2۔ ابوجہم بن حذیفہ ﷺ فرماتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی کے دوران میں اپنے چچازاد بھائی کی تلاش میں نکلاکہ وہ لڑائی میں شریک تھے۔ اپنے ساتھ میں نے پانی کا ایک مشکیزہ بھی لیا کہ ممکن ہے وہ پیاسے ہوں توپانی پلاؤں۔ اتفاق سے وہ ایک جگہ اس حالت میں پڑے ہوئے ملے کہ دم توڑ رہے تھے۔ میں نے پوچھاکہ پانی کاگھونٹ دوں؟ انہوں نے اشارے سے ہاں کی۔ اتنے میں دوسرے صاحب نے جوقریب ہی پڑے تھے اور وہ بھی مرنے کے قریب تھے، انھوں نے آہ کی۔ میرے چچازاد بھائی نے اس کی آواز سنی تو مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا۔ میں ان کے پاس پانی لے کر گیا، وہ ہشام بن العاص تھے۔ ان کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ان کے قریب ایک تیسرے صاحب اسی حال میں پڑے دم توڑ رہے تھے، انہوں نے آہ کی۔ ہشام نے مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا۔ میں ان کے پاس پانی لے کر پہنچا تو ان کا دم نکل چکا تھا۔ ہشام کے پاس واپس آیا تو وہ بھی جاں بحق ہو چکے تھے۔ اپنے چچا زاد بھائی کے پاس جلدی سے پہنچا تو وہ بھی جامِ شہادت نوش کرچکے تھے۔
(ابن مبارک، الزهد، رقم: 525)، (بیهقی، شعب الایمان، 3: 260، رقم: 3483)
یہ رویہ نفیٔ ذات اور سخاوتِ نفس ہے جس میں بندہ حا لتِ نزع میں بھی اپنی موت کی فکر نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو موت سے بچانے کی فکر کرتا ہے۔ جب سخاوتِ نفس نصیب ہوجاتی ہے تو پھر زندگی تو چھوٹی سی بات ہے، بندہ اپنی موت تک بھول جاتا ہے۔ سخاوتِ نفس کسی قول اور عمل کا نام نہیں بلکہ ذہن اور دل کی حالت کا نام ہے، جس میں بندہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتا اور انھیں مقدم رکھتا ہے۔ یہ دلوں کی وسعت اور نرمی کا نام ہے، جہاں بندہ دوسروں کا خیال رکھتا، اُن سے محبت کرتا، اُن کی مدد کرتا، اُن کے حقوق کا ادب و احترام کرتا اور اپنی پوری زندگی دوسروں کی ضروریات اور حقوق پورے کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جب یہ کیفیت پیدا ہوجائے تو اسے سخاوتِ نفس کہا جاتا ہے۔
سخاوتِ نفس سے متعلقہ روزمرہ امور
یاد رکھیں! سخاوتِ نفس حسنِ اخلاق کا کمال ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
حُسْنُ الْخُلُقِ مِنْ خِصَالِ اَهْلِ الْجَنَّةِ.
’’حسنِ خلق جنتیوں کی خصلت ہے۔‘‘
ذیل میں سخاوتِ نفس سے متعلقہ چند امور کو احادیث مبارکہ کی روشنی میں واضح کیا جارہا ہے:
1۔ لوگوں کے قریب ہونا
حسنِ خلق کے باب میں ایک معمولی سی سخاوتِ نفس کی طرف حضور نبی اکرم ﷺ نے اس طرح اشارہ فرمایا:
اِنَّ مِنْ مَکَارِمِ الْاَخْلاَقِ اَلتَّزَاوُرُ فِی اللّٰه.
(هندی، کنزالعمال، 9: 18، رقم: 24827)
’’اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے ملنے کے لیے جانا مکارم اخلاق میں سے ہے۔‘‘
دوسروں کو ملتے ہوئے یہ کبھی محسوس نہ کریں کہ ’’میں بڑا ہوں اور وہ چھوٹا ہے، اُسے چاہیے کہ مجھے ملنے آئے، نہ کہ میں اسے ملنے جائوں‘‘، اس طرح کی تمام سوچیں اصل میں دل کی تنگی کے سواء کچھ نہیں ہیں۔ ’’میں، ہم، ہمیں‘‘ (us, we, i) اصل میں تین بت ہیں۔ ہم کبھی ان دائروں سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ اِن بتوں کی پوجا کرکے ہم شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جو بندہ اپنی فکرمیں رہتا اور خود غرضی اختیار کرتا ہے تو گویا اس نے نفس کی کنجوسی اختیار کی۔ ایسا بندہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلْمُوْمِنُ یَاْلَفُ وَیُؤْلَف وَلاَ خَیْرَ فِیْمَنْ لَا یَأْلفَ وَلاَ یُؤْلَف.
(طبرانی، المعجم الاوسط، 6: 58، رقم: 5787)
’’مومن وہ ہے جو دوسروں کے قریب ہے اور دوسرے لوگ اس کے قریب ہیں اور اس میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں جو دوسروں کے قریب نہیں اور دوسرے اس کے قریب نہیں۔‘‘
یہ امر متحقق ہے کہ لوگوں کے قریب وہی ہوگا جس کے دل میں سخاوت ہوگی، کیونکہ وہ دوسروں کے لیے اپنے احساسات، جذباتِ خیر، بھلائی و احسان اور محبت کی وجہ سے دوسروں کے قریب ہوگا۔ ایسے شخص کا دوسروں کے معاملات کے ساتھ ایک ربط اور تعلق قائم ہوجاتا ہے ایسے میں وہ دوسروں کا خیال کرے گا، اُن سے محبت کرے گا اور اسی بناء پر وہ لوگوں کے قریب ہوگا۔
اسی طرح لوگ بھی اُس کے قریب ہوں گے، اس لیے کہ وہ کوئی سخت اور بدمزاج بندہ نہیں ہوگا، وہ کسی کے لیے مشکلات کا باعث نہیں ہوگا، لوگ اُس کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں آسانی محسوس کریں گے، وہ نرم مزاج ہوگا، اس کی انہی خوبیوں اور خصلتوں کی بنا پر لوگ اُس سے تعلق قائم کرنے کی طرف مائل ہوں گے۔ ایسے شخص کو حضور نبی اکرم ﷺ نے مومن قرار دیا۔
اگر عبادات، وعظ و نصیحت، تبلیغ اور تعلیم و تدریس کے فرائض سرانجام دینے کے باوجود ہمارے دل تنگ ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ عبادات، وعظ و نصیحت، پڑھنے پڑھانے اور سننے سنانے کا نور ہمارے رویہ میں نہیں آیا۔ ہمارے اقوال، وعظ و نصیحت، تعلیم و تدریس محض الفاظ ہیں، اگر اِن الفاظ کا معنی ہمارے دل میں نہیں اترا تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے دل تنگ ہیں۔
لہذا مذکورہ حدیث مبارک سے یہ اصول واضح ہوا کہ مومن وہ ہے جو فاصلے مٹائے، وہ اللہ کے بھی قریب ہو، مخلوق کے بھی قریب ہو اور مخلوق بھی اُس کے قریب ہو، یعنی اللہ کی رحمت و شفقت کا فیض بانٹے۔
2۔ لوگوں کو جوڑنا
حضورنبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلْمُؤْمِنُ اِلْفٌ مَأْلُوْفٌ.
(قضاعی، مسند الشهاب، 1: 108، رقم: 129)
’’مومن وہ ہے جو دلوں کو جوڑے۔‘‘
اِلْفٌ کا ایک معنی لَازِمٌ لِشَئیٍ ہے۔ گویا مومن کے اندر الفت و محبت لازمی طور پر موجود ہوگی۔ یعنی دوسروں سے محبت کرنا، دوسروں کی خیر و بھلائی چاہنا، دوسروں کے لیے شفقت و رحمت اور آسانی کا باعث ہونا، یہ مومن کی صفتِ لازمہ ہے۔ گویا یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی شخص کے دل میں ایمان ہو اور اُس کا دل اللہ کے بندوں اور اس کی مخلوق کے قریب نہ ہو۔ اس لیے کہ ایمان، اللہ کی مخلوق سے دور نہیں ہونے دیتا۔
اِلْفٌ میں مبالغہ کا معنی بھی پایا جاتا ہے، یعنی مومن وہ ہے کہ جس میں محبت، الفت، شفقت اور رحمت کمال درجے کی پائے جائے۔ گویا اِلْفٌ کے دو معنی ہیں:
1۔ محبت و شفقت لازمی طور پر موجود ہو۔
2۔ محبت و شفقت انتہائی درجے کی پائی جائے۔
معلوم ہوا کہ جسے جتنا حسین الخلق پائیں، جس کے چہرے کو جتنا مسکراتا پائیں، جس میں لوگوں کے لیے جس قدر پیار، محبت، شفقت، نرمی، رحمت پائیں تو جان جائیں کہ اس کے اندر ایمان اتنے ہی کمال پر ہے۔ کیونکہ یہ صفات ایمان کے عکس ہیں۔ انہی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی حضور نبی اکرم ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تعلیم دیتے اور تلقین فرماتے۔
حضرت ابو سعید خدری ﷺ روایت کرتے ہیں کہ ایک صحابی نے رات کے کھانے پر حضور نبی اکرم ﷺ کو مدعو کیا۔ آپ ﷺ صحابہ کرامؓ کے ہمراہ اس کے گھر تشریف لے گئے۔ جب میزبان نے کھانا لگادیا تو ایک صحابی نے کھانا کھانے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ: اِنِّیْ صَائِمٌ (میں روزے سے ہوں)۔ آپ ﷺ نے اس صحابی سے فرمایا:
دَعَاکُمْ اَخُوْکُمْ وَتَکَلَّفَ لَکُمْ ثُمَّ تَقُوْلُ اِنِّیْ صَائِمٌ، اَفْطِرْ ثُمَّ صُمْ یَوْمًا مَکَانَہ اِنْ شِئْتَ.
(طبرانی، المعجم الاوسط، 3: 306، رقم: 3240)
’’تمہیں تمہارے بھائی نے دعوت دی، تمہارے لیے تکلیف اٹھائی اور آپ کہتے ہو کہ میں روزے سے ہوں۔ روزہ افطار کرلو، بعد میں اس کی جگہ جب چاہنا روزہ رکھ لینا‘‘۔
یعنی آپ ﷺ نے ایک صحابی کے جذبات اور اس کے دل کی خوشی کا احساس کرتے ہوئے دوسرے صحابی کو نفلی روزہ افطار کرنے کا حکم فرمایا۔ یہی روحِ شریعت اور فہمِ دین ہے۔ ہم نے شریعت کے الفاظ لے لیے اور ان کے معانی چھوڑ دیئے ہیں۔ ہم شریعت کے الفاظ کی وجہ سے باہم دست و گریبان ہیں۔ ہمیں اس کی خبر ہی نہیں ہوتی کہ الفاظ مختلف ہیں، ہوسکتا ہے کہ معنی سب کا ایک ہو۔ ہم چونکہ معنی سے بے خبر ہیں، اس لیے جھگڑوں میں پڑے ہیں۔
’’اِلْفٌ‘‘ سے ہی الفت اور تالیف کے الفاظ نکلے ہیں۔ کتاب لکھنے کو تالیف اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں الفاظ کو آپس میں جوڑا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ’’مؤلفۃ القلوب‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ پس تالیف کا معنی دلوں کو جوڑنا اور فاصلوں کو مٹانا ہے۔ اس لیے آپ ﷺ نے مومن کی تعریف ’’اِلْفٌ مأ لوفٌ‘‘ کے ذریعے یہ کی کہ مومن وہ ہے جو لوگوں کو جوڑتا اور اکٹھا کرتا ہے، وہ کسی کو توڑتا نہیں ہے۔ دوسروں کو جوڑنے اور اکٹھا کرنے کا عمل اس وقت ممکن ہے جب جوڑنے والا دوسروں کے دلوں کے جذبات و احساسات کا خیال کرے۔
3۔ لوگوں کو خوشی اور راحت بخشنا
امام ابو عبدالرحمن السلمی، امام بیہقی کے شیخ ہیں اور امام بیہقی کی کتاب ’’السنن الکبریٰ‘‘ کے تقریباً ہر صفحہ پر مذکور کم از کم ایک تہائی یا نصف روایات امام بیہقی نے امام السلمی سے روایت کی ہیں۔ لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہے۔ امام السلمی کا نام ’’محمد بن حسین‘‘ ہے۔ امام بیہقی نے امام ابو عبدالرحمن السلمی کے اسی نام سے السنن الکبریٰ میں روایات درج کی ہیں۔
اسی جلیل القدر اور اعلیٰ مقام و مرتبہ کے حامل امام عبدالرحمن السلمی سے روایت ہے کہ حضرت حسین بن زید نے سیدنا امام جعفر الصادق ﷺ سے عرض کی کہ کیا کبھی ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے مزاح فرمایا؟ حضرت امام جعفر الصادق ﷺ نے جواب دیا: اللہ نے آپ ﷺ کو مزاح اور خوش مزاجی کے بہترین طریقے اور آداب سے نوازا تھا۔ اللہ نے اپنے جتنے پیغمبر بھیجے، ان میں سے اکثر میںسنجیدہ مزاج غالب تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو مبعوث فرمایا تو آپ ﷺ شفقت و رحمت اور محبت و نرمی سے معمور تھے۔ آپ ﷺ کی لوگوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کی ایک علامت یہ بھی تھی کہ آپ ﷺ لوگوں کے ساتھ مزاح فرمایا کرتے تھے۔ حضرت سیدنا علی ﷺ سے مروی ہے کہ:
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ لِیُبَشِّرَ رَجُلَ مِنْ اَصْحَابِهٖ اِذَا رَاٰهٗ مَغْمُوْمًا.
(السلمی، کتاب الفتوة، ص: 18، 19)
یعنی حضور نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ میں سے اگر کسی کو غمزدہ دیکھتے تو اپنی خوش مزاجی اور مزاح کے ساتھ اُس کو خوش کرتے اور اس کی زندگی سے غم اور اداسی کو دور فرماتے۔
دوسرے مقام پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللّٰهَ یُبْغِضُ المعبس فِیْ وُجُوْهِ اِخْوَانهٖ.
(السلمی، کتاب الفتوة، ص: 18، 19)، (کنزالعمال، 3: 178، رقم: 735)
’’بے شک اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو اپنے دوستوں کے لیے ناراض، مغموم اور اداس چہرہ رکھتے ہیں۔‘‘
یعنی جو دوستوں میں اپنے چہروں کو فراخ اور کشادہ ظاہر نہیں کرتے، اپنے چہرے پر نرمی، مسکراہٹ، رحمت، شفقت اور محبت کا عکس نہیں لاتے اور دوستوں سے مسکرا کر نہیں ملتے، وہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگوں میں شامل نہیں ہوتے۔
آپ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا کہ صدقہ کرو۔ اس نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ! میرے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تبسمک فی وجہ اخیک لک صدقۃ ’’اپنے بھائی سے مسکراتے ہوئے چہرے سے ملنا بھی صدقہ ہے۔‘‘
(سنن الترمذی، کتاب البر والصلة، 4: 339، رقم: 1956)
گویا لوگوں کے دلوں کو راحت بخشنا اور خوشی دینا اور لوگوں کے احساسات اور جذبات کا خیال رکھنا بذاتِ خود صدقہ ہے۔
حضرت واثلہ القرشی کی ایک روایت کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں بیان کیا ہے (یہ امر ذہن میں رہے کہ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ میں نے شعب الایمان میں ’’صحیح حدیث‘‘ لینے کا اہتمام کیا ہے) کہ ایک شخص مسجدِ نبوی ﷺ میں داخل ہوا، اس وقت حضور نبی اکرم ﷺ مسجدِ نبوی میں اکیلے تشریف فرما تھے۔ حدیث مبارک کے الفاظ ہیں کہ فَتَحَرَّکَ لَہٗ النَّبِی ﷺ ۔ آپ ﷺ نے اس کے لیے اپنی جگہ سے تھوڑی سی حرکت فرمائی۔‘‘ عرض کیا گیا: یارسول اللہ ﷺ ! اَلْمَکَانُ وَاسِعٌ: ’’جگہ وسیع ہے‘‘۔ آپ ﷺ نے اس کے لیے جگہ کیوں چھوڑی اور اپنی جگہ سے حرکت کیوں فرمائی؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
اِنَّ لِلْمُوْمِنِ حَقًّا اذا رآه اخوه ان یتزحزح له.
’’یہ مومن کا حق ہے کہ جب وہ اپنے بھائی کو دیکھے تو اس کے لیے کشادگی پیدا کرے۔‘‘
(کنزالعمال، 9: 98، رقم: 25767)
یعنی جگہ ضرور وسیع ہے مگر دل کے اندر مومن کے لیے وسعت ہونی چاہیے۔ یہ مومن کا حق ہے کہ اُسے عزت دی جائے، اُسے خوش آمدید کہے جانے اور عزت دیئے جانے کا احساس دلایا جائے۔ اس لیے کہ اپنے عمل سے Wellcoming کا احساس دلانا، دوسرے کو خوش کردیتا ہے۔ ایسی Body language یا الفاظ استعمال کرنا یا مصافحہ کرتے ہوئے ہاتھوں سے گرم جوشی کا اظہار کرنا، چہرے پر خوشی اور مسکراہٹ لانا، خوش کن کلام کرنا اور اس کی طرف پورے طریقے سے متوجہ ہونا تاکہ اُسے محسوس ہو کہ میرے دوست یا بھائی نے مجھے خوش آمدید کہا ہے اور مجھے باعزت طریقے سے ملا ہے تو یہ امر اسے خوشی عطا کردیتا ہے۔ اگر آنے والے سے رسمی طور پر اس طرح ملا جائے کہ نہ چہرے پر مسکراہٹ آئے، نہ اس کا حال پوچھیں، نہ Body Language سے اُسے محبت منتقل کریں تو یہ مصافحہ ہی نہیں ہے۔
سخاوتِ نفس؛ دخولِ جنت کا باعث
سخاوتِ نفس ایک ایسی صفت ہے جو مومن کو جنت میں لے جانے کا باعث بنتی ہے۔ اس سلسلہ میں چند احادیث ملاحظہ ہوں:
1۔ حضرت ابو سعید خدری ﷺ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اَبْدَالَ اُمَّتِیْ لَمْ یَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِالْأَعْمَالِ، وَفِی رَوَایَةِ اُخْرٰی بِکَثْرَةِ صلاتهم ولا صیامهم وَلٰکِنَّ اِنَّمَا دَخَلُوْها بِرَحْمَةِ اللّٰهِ وَسَخَاوَةِ الْاَنْفُس وَسَلاَمَةِ الصُّدُوْر وَرَحْمَةً لِجَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْن.
(بیهقی، شعب الایمان، 7: 439، رقم: 10892، 10893)
’’بے شک میری امت کے ابدال (اولیاء) اعمال کے بل بوتے پر جنت میں داخل نہیں ہوں گے، دوسری روایت میں ہے کہ کثرتِ صوم و صلوٰۃ کی وجہ سے جنت میں داخل نہ ہوں گے بلکہ وہ جنت میں اللہ کی رحمت، سخاوتِ نفس، صدور کی (وساوس و خواہشات سے) سلامتی اور تمام مسلمانوں کے لیے رحمت ہونے کی وجہ سے داخل ہوں گے۔‘‘
گویا اِن اولیاء کا ہر ایک کے لیے رحمت و شفقت کا پیکر ہونا، ان کے جنت میں داخلے کا سبب ہوگا۔ ان کے دلوں میں کنجوسی نہیں ہوگی بلکہ سخاوت ہوگی، ان کے دل طمع، لالچ، حسد، بغض اور کینے سے پاک ہوں گے اور یہ امر انھیں جنت میں لے جانے کا باعث ہوگا۔
2۔ حضرت عبداللہ بن عمر ﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خِیَارُ اُمَّتِیْ فِیْ کُلِّ قَرْنٍ یَعْفُوْنَ عَمَّنْ ظَلَمَهُمْ وَیُحْسِنُوْنَ اِلٰی مَنْ اَسَاءَ اِلَیْهِمْ وَیَتَوَاسَوْنَ فِیْمَا آتَاهُمُ اللّٰهُ.
(ابو نعیم، حلیة الاولیاء، 1: 8)
’’ہر زمانے میں میری امت کے سب سے بہترین لوگ وہ ہوں گے جو اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو معاف کردیں گے، اپنے ساتھ برا سلوک کرنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے اور اللہ تعالیٰ جب بھی اُنھیں کسی نعمت سے نوازے گا وہ اُسے دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ کردیں گے۔‘‘
3۔ حضرت امام حسن بصری ﷺ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ میری امت کے اولیاء جنت میں کثرتِ صوم و صلوٰۃ کے سبب داخل نہیں ہوں گے بلکہ وہ اپنے دلوں کی طہارت اور سخاوتِ قلب کے سبب جنت میں داخل ہوں گے۔
(بیهقی، شعب الایمان، 7: 439، رقم: 10892)
یعنی ان کے دلوں میں بغض، حسد، عناد، عداوت اور تنگی نہیں ہوگی بلکہ وہ دلوں کی فراخی و طہارت اور سخاوتِ نفس کے مالک ہوں گے۔
4۔ حضرت عبداللہ بن عمر ﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ہر صدی میں میری امت میں سے بہترین لوگ وہ ہوں گے جو سخاوتِ نفس، عفو و درگزر اور وسعتِ قلبی کے باعث دوسروں سے ممتاز ہوں گے۔‘‘
(دیلمی، مسند الفردوس، 3: 140، رقم: 4375)
5۔ حضرت انس بن مالک ﷺ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لیسوا بالمتماوتین ولا المتهالکین ولا المتناوشین لم یبلغوا ما بلغوا بکثرة صوم و لاصلاة و انما بلغوا ذلک بالسخاء والصحة القلوب والمناصحة لجمیع المسلمین.
(ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، 26: 435، رقم: 3124)
’’وہ لوگ جو زندگی میں ہر ایک کا حق (حقوق اللہ اور حقوق العباد) ادا کرتے ہیں، وہ لوگ جو کسی کے لیے نقصان کا سبب نہیں بنتے اور وہ لوگ جو ہر ایک کی بھلائی کے چاہنے والے ہوتے ہیں، وہ جنت میں کثرتِ صوم و صلوٰۃ کے سبب داخل نہیں ہوں گے بلکہ سخاوتِ نفس، سلامتِ قلب اور جمیع مسلمین کے ساتھ محبت کی وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘
حاملینِ سخاوتِ نفس کا جنت میں مقام
بندہ جب مخلوق سے محبت کرتا ہے تو پھر اللہ اُس بندے سے محبت کرتا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل ﷺ فرماتے ہیں کہ
اَلْمُتَحَابُّوْنَ فِی جَلَالِی لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُوْرً یَغْبِطُهُمُ النَّبِیُّوْنَ وَالشُّهَدَاءُ.
(سنن الترمذی، کتاب الزهد، باب ماجاءٔ فی البر والاثم، 4: 597، رقم: 2390)
یعنی وہ لوگ جو اللہ کی جلالت و عظمت کی وجہ سے آپس میں محبت کرتے ہیں، وہ قیامت کے دن نور کے منبروں پر جلوہ افروز ہوں گے، انبیاء اور شہداء بھی اُن کا مقام دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ یہ نبی اور شہید بھی نہیں ہیں پھر بھی اللہ نے انھیں یہ مقام عطا کیا ہے۔
حضرت عمر فاروق ﷺ روایت کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ نے یہ فرمایا تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! ہمیں ان کے بارے میں بتائیں کہ یہ کون لوگ ہوں گے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوا بِرُوحِ اللّٰهِ عَلٰی غَیْرِ أَرْحَامٍ بَیْنَهُمْ وَلَا اَمْوَالٍ یَتَعَاطُونَهَا، فَوَاللّٰهِ اِنَّ وُجُوهَهُمْ لَنُوْرٌ وَاِنَّهُمْ لَعَلَی نَوْرٍ.
(ابوداؤد، السنن، کتاب البیوع، باب: فی الرهن، 3: 288، رقم: 3527)
’’وہ ایسے لوگ ہیں جن کی باہمی محبت صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوتی ہے نہ کہ رشتہ داری اور مالی لین دین کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ کی قسم! ان کے چہرے نور (سے مزّین) ہوں گے اور وہ نور (کے ٹیلوں) پر ہوں گے۔‘‘
اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.
’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔‘‘
(یونس، 10: 62)
جب ایمان انسان کا گھر بن جاتا ہے اور بندہ ایمان کے گھر میں رہنا شروع کردیتا ہے تو پھر وہ ہر ایک سے محبت کرتا ہے اور کسی سے نفرت نہیں کرتا۔ گویا دلوں کی طہارت، وسعتِ ظرفی اور سخاوتِ نفس ہی کے سبب اللہ تعالیٰ اِن اولیاء کو جنت میں یہ اعلیٰ مقام عطا کرے گا۔
ایک اور مقام پر حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
وَحقت مَحَبَّتِی لِلْمُتَحَابِیْنَ فِیَّ، وَحَقَّتْ مَحَبَّتِیْ للمتباذلین فِیَّ، وَحَقَّتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَصَادِقِیْنَ فِیَّ والمتواصلین.
(مسند احمد بن حنبل، 5: 229)
’’وہ لوگ جو میری وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں، میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں، میری وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ سچے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں، ان پر میری محبت واجب ہوگئی۔‘‘
جب دل سخی ہوجائیں، دلوں میں طہارت آجائے اور اس کے نتیجے میں لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں اور اللہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے سے محبت کریں تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنا محبوب بنالیتا ہے اور اس عمل سے انسانی کردار اور قلوب و ارواح کی تطہیر ہوجاتی ہے۔
سخاوتِ نفس اور اکابر اولیاء کے احوال
اکابر اولیاء، صلحاء اور اہل اللہ کے دلوں میں جب سخاوت آجاتی ہے تو اُن کی سوچ، مزاج، عادات، رویہ اور زندگی بسر کرنے کا طور طریقہ بدل جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن جعفر ﷺ کا گزر دورانِ سفر ایک دفعہ کھجوروں کے باغ سے ہوا، انھوں نے وہاں ایک کالے رنگ کا غلام دیکھا، جس کے چہرے پر گزشتہ دو تین دن سے بھوکے رہنے کے آثار تھے۔ انھوں نے اپنے پاس موجود تین روٹیاں اس غلام کو دے دیں۔ اتنی دیر میں ایک کتا اُس غلام کے پاس آبیٹھا۔ غلام جو خود بھی بھوکا تھا، اس نے ایک روٹی اُس کتے کے آگے پھینک دی۔ کتے نے وہ روٹی کھالی۔ غلام نے دوسری روٹی بھی کتے کے آگے پھینک دی، کتے نے وہ بھی کھالی مگر کتا وہاں سے نہ گیا۔ غلام نے تیسری روٹی بھی اس کتے کو پھینک دی، اس نے وہ بھی کھالی۔ تیسری روٹی کھاکر کتا وہاں سے چلا گیا۔ اس سارے منظر کو حضرت عبداللہ بن جعفرؓ دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے اس غلام سے پوچھا:
کَمْ قُوْتُکَ کل یَوْم یَا غُلاَم؟
’’اے نوجوان ہر روز تیری خوراک کتنی ہے؟ ‘‘
اس نے کہا: تین روٹیاں۔
پوچھا: فَلِمَ اثرت بہ ھذا الْکَلْبَ ’’تو نے ساری روٹیاں کتے کو کیوں کھلادیں؟‘‘ اس نے کہا:
ماہی بارض کلاب، انہ جآء من مسافۃ بعیدۃ جائعا فکرہت ان اشبع وھو جائع۔
’’ہماری زمین پر کتے نہیں ہوتے، میں نے جب اس کتے کو دیکھا تو مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ کتا کہیں بہت دور سے آیا ہے اور بھوکا ہے۔ میرا دل نہیں مانا کہ میرا پیٹ بھرا ہوا ہو اور کتا بھوکا ہو۔‘‘
حضرت عبداللہ بن جعفرؓ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ:
الام علی السخاء ان هذا الغلام لاسخی منی.
(غزالی، احیاء العلوم الدین، 3: 258)
’’یہ سخاوتِ نفس کا معاملہ ہے اور یہ غلام مجھ سے زیادہ سخی ہے۔‘‘
روحانیت، اللہ کی ولایت، اللہ کی دوستی اور قرب کے حصول کا دارومدار سخاوت پر ہے۔ اس کو سخاوتِ نفس کہتے ہیں کہ بندہ ایک کتے کو بھی پریشانی اور بھوک میں نہ دیکھ سکے۔
ایک مرتبہ حضرت معروف کرخیؒ (ایک روایت میں حضرت ذوالنون مصریؒ کا ذکر ہے) اپنے کچھ مریدین کے ہمراہ ایک کشتی میں سفر کررہے تھے۔ اس کشتی میں بغداد کے کچھ نوجوان بھی سوار تھے، وہ شراب پی رہے تھے، اودھم مچارہے تھے اور ناچ گارہے تھے۔ ان کے مریدین اور طلبہ نے عرض کیا کہ حضرت ان کو آپ کا بھی حیاء نہیں ہے، ان کے لیے بددعا کریں۔ حضرت معروف کرخیؒ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھالیے اور دعا کی کہ باری تعالیٰ ان کو آخرت میں بھی اسی طرح خوش رکھ جس طرح یہ آج یہاں خوش ہیں۔
مریدین اور طلبہ پریشان ہوگئے اور حضرت معروف کرخیؒ سے عرض کیا کہ ہم نے تو ان کے لیے بددعا کا عرض کیا تھا تاکہ ان کو سبق ملے، مگر آپ نے ان کے لیے آخرت میں بھی خوشی مانگ لی۔ آپ نے فرمایا: آخرت میں اللہ اِن کو تب ہی خوش رکھے گا کہ ان کی توبہ قبول کرے گا۔ ان کی توبہ قبول ہوگی تو تب ہی آخرت کی خوشی نصیب ہوگی۔ میں نے تو اللہ کے حضور ان کی توبہ کی توفیق کی دعا کی ہے تاکہ آخرت میں بھی خوش رہیں۔
(السلمی، کتاب الفتوة، ص: 59)، (القشیری، الرسالة، ص: 265)
پس جن کے دل سخی ہوجاتے ہیں، وہ اللہ کے قریب ہوجاتے ہیں اور ان کی زبان بددعا بھی نہیں دے سکتی۔ وہ سرتاپا رحمت و دعا اور محبت و شفقت ہوتے ہیں۔ یہی ایمان کا راز ہے اور ایمان کا راز سخاوتِ قلب، دلوں کی نرمی، وسعتِ ظرفی میں پوشیدہ ہے۔ اگر یہ کرلیں تو انسانی رویہ، مزاج اور کردار کی تطہیر ہوجاتی ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں کردار کی تطہیر عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ