حصہ: 2
اسلام معمولی سطح کی زیادتی اور ظلم کی بھی ممانعت کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ایک معاشرے میں رہتے ہوئے دانستہ و غیر دانستہ طور بعض اوقات ایک دوسرے پر زیادتی کا ارتکاب ہوجانا بعید از قیاس نہیں ہے۔ بشری تقاضے کے تحت ایک دوسرے کی حق تلفی یا دوسرے پر زیادتی ہوسکتی ہے، ایسی صورت میں انتقام کی روش کو اپنانے سے معاشرہ انارکی کی طرف راغب ہوجاتا ہے اور معاشرت تباہ ہوجاتی ہے۔ یاد رہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو قصاص کی بھی اجازت دیتا ہے جو عین عدل کے قرآنی تقاضوں کے مطابق ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ ساتھ ساتھ عفو و درگزر اور معافی کی ترغیب بھی دیتا ہے۔
خالق کائنات نے ارشاد فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی ط اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی ط فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍ ط ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَةٌ ط فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.
(البقرة، 2: 178)
’’اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کیے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہیے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَی اللهِ.
(الشوریٰ، 42: 40)
’’پھر جِس نے معاف کر دیا اور (معافی کے ذریعہ) اصلاح کی تو اُس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے۔ ‘‘
عفو و درگزر کا یہ جذبہ جب تک معاشرے کے ہر فرد اور ہر طبقہ میں رچ بس نہ جائے اُس وقت تک کوئی بھی معاشرہ مہذب معاشرہ نہیں کہلاسکتا۔
اسلام میں رواداری کا تصور
عفو و درگزر کے ساتھ ساتھ ایک اور خوبی جو معاشرے کو مہذب بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے وہ ’’رواداری‘‘ ہے۔ رواداری کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ کسی تعصب اور بغض کے بغیر تحمل اور صبر سے کسی دوسرے کی بات کو ٹھنڈے دل سے برداشت اور تسلیم کرنا۔
اسلام میں رواداری کا تصور یہ ہے کہ متضاد خیالات کے حامل لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ اس رواداری کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے ان پر کسی قسم کی ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو مدمقابل کو رنج پہنچائے۔ اسی طرح انھیں ان کے مذہبی عقائد و اعتقاد سے پھیرنے یا مذہبی عمل سے روکنے کے لیے جبر کا طریقہ کبھی اختیار نہ کریں۔
صبرو تحمل اور معاشرتی رواداری نہ صرف قومی ضرورت ہے بلکہ اس سے عالمگیر تعلقات کی بحالی میں مدد ملتی ہے اور بین المذاہب رواداری کو فروغ ملتا ہے۔ اس جذبہ سے معاشرتی رہن سہن خواہ وہ قومی و علاقائی سطح کا ہو یا بین الاقوامی نوعیت کا ہو، اس میں باہمی اختلافات اور رنجیدگی پیدا نہیں ہوتی بلکہ معاشرہ میں خوشحالی کی نئی نئی راہیں کھلتی ہیں اور ریاستی نظم ونسق بطریق احسن چلتا رہتا ہے۔ یوں تو رواداری اسلامی لحاظ سے معاشرے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے تاہم اس کا عالمگیر پرچار باہمی محبت اور مودت کا ماحول مہیا کرتا ہے اور یہ وقت کا اہم ترین تقاضا اور ضرورت ہے۔
اسلام کلیتاً تحمل و برداشت اور رواداری کا دین ہے، اس میں کسی قسم کا جبرو زبردستی نہ ہے اور نہ ہی پوری دنیا میں اسلام تلوار اور جبرو ظلم کے ساتھ پھیلا ہے۔ ارشاد فرمایا:
لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّیْنِ.
(البقرة، 2: 256)
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘
اس آیت مبارکہ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید ہمیں عالمگیر کامیابی و کامرانی اور وقار و تشخص قائم رکھنے کے لیے اعتدال و توازن کا درس دے رہا ہے۔
اعتدال و توازن اور رواداری اسلام کی اساس ہیں
اسلام اعتدال و توازن کا دین ہے، اس میں افراط و تفریط کی قطعی گنجائش نہیں۔ حقیقی اسلامی تہذیب بے شک آقائے دو جہاں نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ کی امین ہے۔ قرآن عظیم نے امت مسلمہ کے لیے ارشاد فرمایا:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا.
(البقرة، 2: 143)
’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا ۔‘‘
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رواداری اور اعتدال و توازن کو مختلف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں چند ایک مقامات ملاحظہ ہوں:
(1) صلح و آشتی
قرآن مجید ہمیشہ امن، صلح و آشتی، رواداری، باہمی محبت، درگزر، برداشت اور معافی کی تلقین کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ.
(آل عمران، 3: 134)
’’اور (جو لوگ) غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔‘‘
(2) ظلم و زیادتی کے بدلے میں اعتدال اور رواداری
اسلام میں اگرچہ دشمن کے ظلم اور زیادتی کا بدلہ لینے کی اجازت ہے تاہم یہ بھی تاکید ہے کہ کی گئی زیادتی کے مطابق بدلہ ہونا چاہیے، حد سے تجاوز کی اجازت ہرگز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معافی، صلح اور درگزر کی تلقین و ترغیب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا ج فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَی اللهِ ط اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ.
(الشوریٰ، 42: 40)
’’اور برائی کا بدلہ اسی برائی کی مِثل ہوتا ہے، پھر جِس نے معاف کر دیا اور (معافی کے ذریعہ) اصلاح کی تو اُسکا اجر اللہ کے ذمّہ ہے۔ بے شک وہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
(3) کسی کے ناروا سلوک اور رویہ پر اچھا رویہ اختیار کرنا
دینِ اسلام اور تعلیماتِ نبوی ﷺ ہمیں کسی کے ناروا رویہ اور سلوک پر برا سلوک کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتیں بلکہ ہر موقع پر رواداری اور برداشت کا درس دیا گیا ہے۔ اس حکمت عملی سے دشمن بھی دوست بن جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَاالسَّیِّئَةُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ کَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ.
’’اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا۔‘‘
(حم السجده، 41: 34)
ایک اور مقام پر حضور ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ.
(الاعراف، 7: 199)
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔‘‘
(4) حضور اقدس ﷺ کی نرم طبعی پر نزولِ رحمت
رسول اللہ محبوب خدا ﷺ کی نرم طبعی پر رب کی رحمت جوش میں آگئی۔ فرمان خداوندی ہوا:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ.
(آل عمران، 3: 159)
’’(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں ۔‘‘
ان قرآنی احکامات سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی کے ہر قدم پر عفو و درگزر اور رواداری کا حکم دیا ہے اور ہمیشہ راہِ اعتدال پر چلنے کی تلقین کی ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی عملی رواداری اور عفو و درگزر کی امثال
حضور نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی جہاں قیامت تک ہمارے لیے مشعلِ راہ اور کامل نمونۂ حیات ہے وہاں آپ ﷺ کی پوری زیست مقدس عفو و درگزر اور رواداری سے عبارت ہے اور اسوہ حسنہ کا جزو لاینفک بھی ہے۔
ذیل میں رسول اللہ ﷺ کے فرامین اور رواداری کے عملی نمونے اختصار کے ساتھ آپ کی بصارتوں کی نذر کررہا ہوں، اس سے یقینا حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ نبوی کا خاکہ سمجھنے میں مدد ملے گی، آپ ﷺ کی شانِ اقدس اور مقام کا فہم میسر آئے گا اور ادب و توقیر مصطفی ﷺ کو صحیح معنوں میں بجا لائیں گے۔ عفو و درگزر اور رواداری کے اوصاف جو حضور اکرم ﷺ کی طبیعت و فطرت پاک اور تعلیمات سے متصل اور متصف ہیں، ملاحظہ ہوں:
(1) جنگی اصول و ضوابط میں رواداری کی تعلیمات
یہ حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کا کمال عملی نمونہ ہے کہ میدان جنگ جیسی جگہ پر بھی رواداری، وضع داری اور عفو و درگزر کو ملحوظ رکھا گیاہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جنگ اور جہاد میں قواعد و ضوابط مقرر ہیں۔ جس کے تحت آقائے دو جہاں محمد رسول اللہ ﷺ نے عورتوں، بوڑھوں، بچوں اور معذوروں کو قتل کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ اسی طرح درخت کاٹنے اور دشمن کی املاک جلانے اور تباہ کرنے سے روکا گیا ہے بلکہ کمال پہلو یہ ہے کہ اسلام میں خاص ہدایت ہے کہ دوران جنگ اگر دشمن صلح چاہے تو صلح کی طرف راغب ہوا کرو اور اگر دشمن پناہ چاہے تو اسے ہر صورت پناہ مہیا کرو۔ اسی طرح کے بہت سے اسلامی اصول و قواعدِ جنگ رواداری کے ضمن میں امتیازی حیثیت کے حامل ہیں۔
(2) مفتوحہ اقوام اور ذمیوں سے رواداری کا عملی مظاہرہ
تاریخِ عالم گواہ ہے کہ پچھلے جتنے بھی فاتحینِ عالم گزرے ہیں ان کی افواج نے مفتوحہ اقوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو کھلے عام قتل کیا گیا، یہاں تک کہ سرِ عام عورتوںکی تذلیل اور بے توقیری کی گئی۔ جبکہ دوسری طرف اسلامی تعلیمات اور عفو و درگزر اور نبوی فطرت کے مظاہر نبوت ہیں کہ مسلم افواج نے مفتوحہ عوام کے ساتھ نہایت بہترین سلوک روا رکھا اور اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے مساوی حقوق مقرر کیے ہیں۔ ان میں مذہبی حقوق، معاشرتی حقوق، سیاسی حقوق، قانونی حقوق، معاشی حقوق، تہذیبی و ثقافتی حقوق وغیرہ سب شامل ہیں۔ اسلام میں رواداری کی حیران کُن مثال یہ ہے کہ اسلام میں شراب نوشی اور خنزیرکی شدید حرمت کے باوجود غیر مسلم شہریوں کو شراب اور خنزیر اپنی ملکیت میں رکھنے، نوش و تناول کرنے اور آپس میں ان کی خریدوفروخت کرنے کی اجازت اور آزادی ہے۔
(3) اہلیانِ طائف کے لیے عفو و درگزر کا مظاہرہ
اہلیانِ مکہ کی طرف سے مسلسل مظالم اور ایذا رسانیاں جاری رہنے پر سن دس نبوی میں حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کے ہمراہ طائف جانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں کے لوگوں کو باقاعدہ دینِ اسلام کی دعوت دی جائے۔ اہلیانِ طائف نے آپ ﷺ کے ساتھ نہایت ناروا اور ناگفتہ بہ سلوک کیا، یہاں تک کہ طائف کے سرداروں نے چند اوباش نوجوانوں کو حضور ﷺ کے تعاقب میں لگادیا جنہوں نے آقائے دو جہاں محمد رسول اللہ ﷺ کو پتھر مارے۔ واپسی پر نبی مکرم ﷺ نے عقبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ کے باغ میں پناہ لی اور پیدل چل کر قرن منازل (قرن الثعالب) پہنچے۔ اس موقع پر جبرائیل امینe پہاڑوںکے فرشتے کے ہمراہ حاضر ہوئے اور رسول اللہ ﷺ سے اجازت چاہی کہ آقا ﷺ اگر آپ فرمائیں تو ہم اہلِ طائف کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر نشانِ عبرت بنادیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبرائیلؑ مجھے نظر آرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل میں سے ایسے لوگ پیدا فرمانے والا ہے جو فقط ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ آپ ﷺ کا یہ فرمان نہ صرف آپ ﷺ کے عفو و درگزر کا بیان ہے بلکہ آپ کو لہولہان کرنے اور پتھروں سے زدو کوب کرنے والوں کے ساتھ کمال عفو و درگزر اور رواداری کا یہ عمل آپ ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کی قوی دلیل بھی ہے۔
(4) میثاقِ مدینہ: مذہبی آزادی اور رواداری کا امین
حضور نبی اکرم ﷺ نے ہجرتِ مدینہ کے فوری بعد پہلے سال ہی میثاقِ مدینہ کے نام سے ایک معاہدہ فرمایا جو تقریباً 63 دفعات پر محیط 750 الفاظ پر مشتمل تھا۔ معاہدہ دو حصوں پر مشتمل تھا: ایک حصہ ان دفعات پر مشتمل ہے جن کا تعلق مہاجرین اور انصار کے باہمی تعلقات یعنی کہ اہلِ اسلام کے باہمی تعلقات کے متعلق ہے۔ دوسرا حصہ ان دفعات پر مشتمل ہے جن کا تعلق اہلِ اسلام اور یہود کے باہمی تعلقات سے ہے۔ اس معاہدے میں یہود کی مذہبی آزادی اور ان کے دیگر حقوق کا جس انداز سے ذکر ہے، یہ رواداری کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ یہ معاہدہ دنیا کا پہلا باقاعدہ تحریری دستور ہے۔ اس معاہدہ میں محمد رسول اللہ ﷺ نے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ سب سے پہلے بیان فرمایا ہے اور مابعد مسلمانوں کے باہمی معاملات تحریر کیے ہیں۔
(5) رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی سے عفو و درگزر کا اظہار
رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی منافقت کی شدت یہ تھی کہ وہ نبی اکرم ﷺ اور اسلام کے لیے شدید بغض رکھتا تھا اور اس کی طرف سے بغض و منافقت کا مظاہرہ بارہا دیکھنے میں آیا۔ غزوۂ اُحد میں تین سو منافقین کی سرپرستی کرتے ہوئے راستے سے ہی واپس لوٹ گیا جبکہ اس وقت اہلِ اسلام کو زیادہ افرادی قوت درکار تھی۔ علاوہ ازیں رئیس المنافقین نے صدیقہ کائنات اماں عائشہ صدیقہj پر تہمت لگائی۔ غزوہ مصطلق کے موقع پر نبی اکرم ﷺ اور مہاجر صحابہ کرامؓ کے متعلق اس قدر شدید گستاخانہ جملے استعمال کیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تلواریں میان سے باہر آگئیں لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی کمال شفقت کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اسے قتل کرنے سے روک دیا۔ دوسری طرف محمد رسول اللہ ﷺ کی رواداری کی معراج دیکھئے کہ اس کے مرنے پر آقائے دو جہاں رحمۃ للعالمین ﷺ نے اس کے کفن کے طور پر اپنا قمیص مبارک بھیجا اور کمال حسن سلوک اور رواداری کی معراج کہ جنازہ بھی پڑھایا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور ﷺ کی اس درجہ عفو و درگزر، تحمل و برداشت اور رحمت دیکھ کر حیران رہ گئے۔
(6) یہودی عالم زید بن سنعہؓ سے حلم و بردباری
قبولِ اسلام سے قبل حضرت زید بن سنعہؓ جو کہ یہودی عالم تھے، انھوں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کھجوروں کا ایک معاملہ کیا اور معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے دو روز پہلے ہی ادائیگی کا مطالبہ کیا جو اصولی اور اخلاقی لحاظ سے درست نہ تھا۔ اس نے آقائے دو جہاں ﷺ سے تلخ لہجے میں گفتگو شروع کردی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب یہ لہجہ اور بدکلامی سماعت کی تو برداشت نہ کرسکے اور میان سے تلوار نکال کر اس کی گردن قطع کرنا چاہی۔ آقائے کریم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منع کر دیا اور فرمایا: عمر تمہیں یہ چاہیے تھا کہ مجھے بھی کچھ تلقین کرتے اور اسے بھی حسنِ طلب کی تعلیم دیتے۔ فوری اس یہودی کو غلطی کے باوجود اس کا مطلوبہ حق تول کر اس کے حوالے کرو اور کچھ کھجوریں زائد از حساب بھی دے دو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کے حکم پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے حق سے زائد کھجوریں دیں۔ یہودی عالم کمال رواداری اور حسنِ سلوک پر فوری مسلمان ہوگیا اور قدموں میں گر گیا اور مخاطب ہوا: اے محمد رسول اللہ! آپ کی کمال رواداری اور عفو و درگزر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو میری گردن زدنی کرنے سے روکنے نے مجھے بے دام خرید لیا ہے۔
(7) بددعاؤں کے بدلے میں نرم روی اختیار کرنا
ایک دفعہ یہود کے ایک گروہ نے نبی اکرم ﷺ کو السلام علیکم (تم پر سلامتی ہو) کی بجائے دانستہ لفظ بگاڑ کہا السام علیکم کہا۔ جس کا مفہوم ہے کہ تم پر ہلاکت آئے (معاذاللہ)۔
حضور اکرم ﷺ نے فقط وعلیکم فرمادیا جبکہ حضرت عائشہ صدیقہؓ جو قریب موجود تھیں، وہ یہود کی خیانت جانچ چکی تھیں، انہوں نے غصہ کے عالم میں کہا: بل علیکم السام واللعنۃ بلکہ تم پر ہلاکت اور لعنت آئے۔ معاملہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ گستاخی اور بے ادبی کا تھا اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ایمان کا تقاضا یہی تھا۔ تاہم رحمۃ اللعالمین نبی ﷺ نے سیدہ عائشہؓ سے فرمایا: اے عائشہ! بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر معاملہ میں نرمی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ تجھے درگزرکرنا ہوگا۔
(8) بنو ثقیف کے لیے بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا
غزوہ حنین بنو ہوازن اور بنو ثقیف کے ساتھ پیش آنے والا معرکہ ہے۔ دورانِ غزوہ بنو ثقیف کے تیر اندازوں نے مسلمانوں پر تیروں کی شدید بوچھاڑ کردی جس سے صحابہ کرامؓ کے قدم اکھڑ گئے، حضرت جابرؓ فرماتے ہیںکہ صحابہ کرامؓ نے رسول پاک ﷺ کو عرض کیا کہ دشمن نے اچانک ہمیں تیروں سے چھلنی کردیا ہے، ان کے لیے بدعا کیجئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعاکے لیے ہاتھ اٹھائے اور لفظ تھے: اے رب! بنو ثقیف کو ہدایت دے۔
(9) اہلیانِ مکہ کے مظالم کے باوجود حضور ﷺ کی دعا
بعثتِ نبوی ﷺ کے بعد اہلیانِ مکہ کی چیرہ دستیاں اور ریشہ دوانیاں حد سے بڑھ گئیں اور انھوں نے آقائے دو جہاں ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ آقائے کریم ﷺ نے ان کے لیے ہمیشہ ہدایت کی دعا مانگی اور صبر و برداشت کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد ایک دفعہ مکہ مکرمہ میں شدید قحط سالی ہوئی اور اہلیانِ مکہ تڑپ اٹھے۔ ابو سفیان نے ابھی اسلام قبول نہ کیا تھا، حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور قحط کے خاتمے اور خوشحالی کی دعا کے لیے عرض کیا: رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف دعا فرمائی بلکہ مکہ والوں کے لیے غلہ بھی بھجوایا اور اردگرد کے قبائل کو بھی مکہ والوں کو غلہ دینے کی ہدایات فرمائیں۔
(10) رحمۃ للعالمین ﷺ کا یہودی کے جنازے کے لیے قیام
ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ تشریف فرما تھے کہ ایک جنازہ گزرا، رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: حضور ﷺ یہ تو یہودی ہے اور آپ کھڑے ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ انسان نہیں؟ قربان جائیں! آپ ﷺ کی رحمۃ للعالمینی پر کہ رواداری کا اس قدر مظاہرہ فرمایا۔
(11) عیسائیوں کے نجرانی وفد کا مسجد نبوی میں قیام
نجرانیوں کا ایک وفد 9 ہجری میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ملاقات اور مذاکرات کے لیے مدینہ منورہ آیا۔ آقائے دو جہاںمحمد رسول اللہ ﷺ نے انھیں مسجد نبوی کے اندر ٹھہرایا اور انہیں اپنے طریق پر عبادت کرنے کی اجازت فرمائی۔ یہ رواداری کی حد درجہ عظیم ترین مثال ہے اور یہی حقیقی تصورِ اسلام ہے۔
(12) فتح مکہ کے وقت عفو و درگزر کی عظیم مثال
فتح مکہ کے موقع پر جب مسلمان حضور ﷺ کی قیادت میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آقا دو جہاں ﷺ کی طبیعت اور چہرہ پر عجز و انکساری کے باعث تمکنت اور وقار نمایاں تھا۔ تاہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جذبات دیدنی تھے۔ کتنی قربانیوں کے بعد یہ وقت آیا تھا، ان کے سامنے اہلیانِ مکہ کے مظالم تھے۔ اس موقع پر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: الیوم یوم الملحمۃ آج کا دن خون ریزی کا دن ہے۔ یہ آواز سن کر آقا کریم ﷺ نے کھلے عام فرمادیا کہ الیوم یوم المرحمۃ آج رحم دلی کا دن ہے۔
لا تثریب علیکم الیوم اذهبوا فانتم الطلقاء.
آج اہلیان مکہ تم پر کوئی ملامت نہیں ہے، جاؤ آج تم سب آزاد ہو۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل عالمگیر پیغام امن تھا، صلح و آشتی کی دعوتِ عام تھی اور رواداری کی عظیم مثال تھی۔
(13) حضرت وحشیؓ کو معاف کرنا
ہندہ نے قبول سلام سے قبل حضرت وحشیؓ کے ذریعے سپہ سالار اسلام حضور ﷺ کے چہیتے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بے دردی سے نہ صرف قتل کروایا بلکہ آپؓ کا کلیجہ چبایا، جو ایک نہایت ظالمانہ اور وحشیانہ قدم اور ناقابلِ معافی عمل تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے لیے اسے انسانی حیثیت سے معاف کرنا بہت مشکل تھا۔ تاہم رسول اللہ رحمتِ دو عالم ﷺ نے فتح مکہ کے عالمی دن پر اس حبشی غلام کو بھی معاف کردیا جس نے ھندہ کی ایماء پر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا اور ہندہ کو بھی معاف کردیا۔ یہ شدتِ غم کے باوجود رواداری اور عفو و درگزر کی عظیم مثال ہے۔
(14) آپ ﷺ کا اپنے اوپر مظالم اور زیادتی کا بدلہ نہ لینا
تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پوری زندگی اپنے بدترین ذاتی دشمن اور زیادتی و مظالم کرنے والے دشمن سے کبھی بدلہ نہیں لیا۔ خیبر کی ایک یہودیہ عورت زینب بنت حارث نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے میں زہر ملاکر دیا، آپ ﷺ کو معلوم ہوگیا کہ یہ زہر کس نے دیا ہے۔ آپ ﷺ نے اسے معاف فرمادیا اور رواداری کی انوکھی مثال قائم فرمائی۔
البتہ کسی نے اگر ریاست کو نقصان پہنچایا یا معاہدہ شکنی کی یا شہریوں کے اجتماعی مفادات کو نقصان پہنچایا تو آپ ﷺ نے قطعی معاف نہیں فرمایا بلکہ مؤثر کارروائی فرمائی۔ئی۔
(جاری ہے)