اسلام، دینِ فطرت اور دینِ رحمت ہے۔ اس کا ہر حکم فطرتِ انسانی کے عین مطابق اور اس کا عطا فرمودہ ہر عمل باعثِ رحمت ہے۔ اس لیے کہ اس کے قوانین و احکام حقیقت پسندانہ، انسانی طبیعت و مزاج کے عین مطابق اور عقل و خرد کے ساتھ طلائی وزن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دینِ حق نے دنیائے انسانی کو عبادت و معاملات میں جو بھی احکام دیئے ہیں، وہ بے مقصد یا محض وقت گزاری کے لیے نہیں بلکہ اگر کوئی صاحبِ عقل و دانش اُن میں غوروفکر کرتا ہے تو وہ بآسانی اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ دینِ اسلام کے ہر حکم کے پیچھے ایک حکمت و بصیرت، ایک نظامِ عمل اور ایک فلسفہ حیات موجود ہے۔
بقول علامہ محمد معراج الاسلام: اس نظامِ عمل اور فلسفہ حیات کا مقصد انفرادی کردار کی تشکیل، انسانی فطرت کی تہذیب اور قومی سطح پر محبت و اخوت اور ایثار و قربانی کے جذبے کی تعمیر ہے تاکہ فلاحی معاشرہ تشکیل پائے اور امن و امان اور سکون و اطمینان کو فروغ حاصل ہو۔ ایثار۔۔۔ خود غرضی، نفس پرستی، جاہ طلبی، خویش پروری اور حرص و ہوس کے مقابلے میں خیر خواہی اور دوسروں کی بھلائی چاہنے کا نام ہے۔ بالفاظِ دیگر انسانیت اور اہلِ ملت کے لیے قربانی دینے کا نام ہے۔‘‘
(معراج الاسلام، کشف المحجوب میں ایثار کا بیان، ص: 5)
ایثار کا میدان بہت وسیع ہے۔ عزت و آبرو، جان و مال، مقام و مرتبہ اور ان کے علاوہ دیگر کئی امور و معاملات میں انسان ایثار کرتا ہے۔ ایثار کو محض دو چار اقسام تک محصور کرنا ممکن نہیں۔
قرآن مجید نے جودو سخا اور ایثار کی ضد ’’شُحٌّ‘‘ بیان کی ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ.
(الحشر، 59: 9)
’’اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچالیا گیا۔‘‘
اس کی وضاحت کرتے ہوئے پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ لکھتے ہیں:
’’یہ ایک حقیقتِ واقعی ہے کہ دولت اور حاجت دونوں کی موجودگی میں جودو ایثار کی صفت کا پایا جانا بندے پر خدا تعالیٰ کا بہت بڑا لطف و کرم ہے، ورنہ ایسی صورتِ حال میں بندہ بخل کا شکار ہوجاتا ہے اور ایثار سے گریز کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شُحَّ فعل مجہول کا صیغہ استعمال کیا ہے۔
یہ نہیں فرمایا کہ جو ’’شُحَّ سے بچ جائے‘‘ کیونکہ انسان کا از خود اس بیماری سے بچنا بہت مشکل ہے بلکہ فرمایا: ’’جس کو شح سے بچالیا گیا‘‘ یعنی جس پر اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور اس مذموم خصلت سے بچالیا، وہ بچ سکتا ہے۔‘‘
(ضیاء القرآن، 5: 177)
ایثار: قرآن مجید کی روشنی میں
سرچشمہ ہدایت قرآنِ مجید زندگی کے ہر پہلو سے مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے خواہ اس کا تعلق انسانی جذبات و خواہشات سے متعلق ہو یا کسی بھی انسانی معاملہ سے متعلق ہو۔ مشاہدہ ہے کہ مال و دولت، آل و اولاد اور دنیوی جاہ و منصب انسان کی کمزوری اور اس کی خواہشات و جذبات کا مرکز ہوتے ہیں۔ وہ ان مذکورہ اشیاء کے لیے جان تک کھپا دیتا ہے، وہ ان کی خاطر ہر جائز و ناجائز اقدام کے لیے بھی ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اس لیے اصلاح و تربیتِ نفس اور تزکیہ و تطہیرِ باطن کے لیے قرآن مجید نے جو نسخہ تجویز کیا ہے، اس میں دو چیزیں بڑی اہم ہیں:
1۔ انفاق فی سبیل اللہ
2۔ خدمتِ خلق
چنانچہ قرآن مجید نے جابجا ان دونوں امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دینے کے ساتھ بخل وکنجوسی پر وعید بھی سنائی ہے۔ اسی طرح خدمتِ خلق کا حکم دیتے ہوئے انسانیت پر ظلم کرنے سے منع بھی کیا ہے۔
ایثار کا عمل صدقہ ہی کی ایک صورت ہے۔ انسان اپنے معمولاتِ یومیہ میں سے کچھ وقت نکال کر اپنے کسی غریب، حاجت مند، پریشان حال، مسکین و تنگ دست مسلمان بھائی یا کسی بھی دوسرے آدمی کی خدمت و مدد کے لیے انسانیت کی بنیاد پر اور رضائے الہٰی کے حصول کے لیے اپنے علم، وقت، قوت و طاقت، منصب و اختیار، مال و دولت یا کسی بھی صلاحیت کو خرچ کرتا ہے تو یہ اس کی طرف سے خیرات (نیکی کا کام) اور صدقہ ہے۔ خلقِ خدا کی یہ خدمت اور عمل اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند ہے کہ وہ قرآن مجید میں بندوں کو بار بار مختلف اسالیب اور پیرائے میں انفاق کا حکم دیتا ہے اور اس پر اپنی رضا کی خوشخبری دیتا ہے۔
انتخابِ مال کا اخلاقی ضابطہ
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں: ’’رضائے الہٰی کے نصب العین کی خاطر انفاق ہر ایک پر لازم ہے خواہ غریب ہو یا امیر، صاحبِ نصاب ہو یا غیر صاحبِ نصاب، تھوڑا دے سکے یا زیادہ جو کچھ بھی اسے میسر ہو، اسی میں حسبِ استطاعت انفاق کرنا ’’احسان‘‘ ہے۔ اس پر یہ شرط نہیں کہ کتنا مال ہو تو اس میں سے دے؟ یہ بات دینے والے کے اپنے ظرف، غنائے نفس اور اس کے ذاتی حالات پر منحصر ہے۔‘‘
(حسنِ اعمال، ص: 522)
لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انفاق کے لیے ایک ’’اخلاقی ضابطہ‘‘ ضرور مقرر کیا ہے تاکہ انفاق و صدقہ کے مقصودِ حقیقی کو صحیح اور کامل طور پر حاصل کیا جاسکے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی ذات کے لیے کم تر، گھٹیا اور ردی چیز پسند نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ عمدہ، بہترین اور اچھی چیز کو پسند کرتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں خرچ کی بابت یہ اخلاقی ضابطہ بیان کیا ہے کہ:
وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ ط َوَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ.
(البقرة، 2: 267)
’’اور اس میں سے گندے مال کو (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو کہ (اگر وہی تمہیں دیا جائے تو) تم خود اسے ہرگز نہ لو سوائے اس کے کہ تم اس میں چشم پوشی کر لو، اور جان لو کہ بے شک اللہ بے نیاز لائقِ ہر حمد ہے۔‘‘
گویا راہِ حق میں خرچ کرنے کے لیے کوئی مقدار نہیں ہے، البتہ معیار ضرور مقرر ہے کہ جو چیز تم خود لینا پسند نہیں کرتے، وہ اللہ کی راہ میں بھی نہ دو۔ مطلب یہ کہ اس کی راہ میں وہی خرچ کرو جو خود پسند کرتے ہو۔
صدقہ: کمال کرم نوازی کی صورت
وہ خالقِ کائنات، خزائنِ کائنات کا مالک و مختار مطلق ہے، اس کی شان یہ ہے کہ وہ ہر کسی کو نواز رہا ہے۔ ہر مخلوق جسے اس نے پیدا کیا ہے، اس کے حسبِ ضرورت سب کو کھلاتا ہے مگر خود کھاتا نہیں۔ ہر کوئی اس کے درِ جودو سخاء سے پل رہا ہے، کون ہے جسے اس در کی خیرات ملی نہیں ہے؟ وہ عطائیں بھی خود کرتا ہے مگر اس کی کمال کرم نوازی ہے کہ جب وہ بندوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیتا ہے تو پھر اپنی خوانِ نعمت سے دیئے گئے صدقہ کو قرض قرار دیتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَةً ط وَاللهُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ.
(البقرة، 2: 245)
’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے پھر وہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اللہ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں اس ذاتِ کریمہ نے خزائن کا مالک مطلق ہونے کے باوجود صدقہ کو قرضِ حسنہ قرار دیا ہے۔ قرض کا لفظ ہی اس حقیقت کو واضح کررہا ہے کہ بندہ اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرتا ہے، وہ ذاتِ کریمہ اس کو کمال مہربانی سے قرض قرار دے رہی ہے تاکہ بندہ اپنے اللہ سے اپنے خرچ کردہ مال کا بدلہ لے سکے۔
صدقہ و ایثار کی اہمیت
اسلام کی تعلیمات میں ایثار و قربانی اور انفاق کی کس قدر اہمیت ہے؟ اس کا اندازہ حضور نبی اکرم ﷺ کے درج ذیل فرامین سے لگایا جاسکتا ہے:
(1) ضرورت سے زائد روکنا برا ہے
انفاق کی اہمیت اس امر سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ضرورت سے زائد مال کو اپنے پاس روکے رکھنے کو برا قرار دیا ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
یا ابن آدم انک ان تبذل الفضل خیر لک وان تمسکه شرلک ولا تلام علی کفاف وابدا بمن تعول والید العلیا خیر من الید السفلی.
(مسلم، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب ان الید العلیا خیر من الید السفلی، 2: 718)
’’اے ابنِ آدم! تیرے لیے ضرورت سے زائد چیز کا خرچ (خیرات و صدقہ) کرنا بہتر ہے اور (ضرورت سے زائد پاس) روکے رکھنا تیرے لیے برا ہے اور بقدرِ ضرورت اپنے پاس رکھنے پر تجھے کچھ ملامت نہیں اور پہلے اُن پر خرچ کرو جو تمہارے زیر کفالت ہیں اور اوپر کا ہاتھ (یعنی دینے والا ہاتھ) نیچے کے ہاتھ (یعنی لینے والے ہاتھ) سے بہتر ہے۔‘‘
(2) انفاق، بیماریوں اور بری موت کو روکتا ہے
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا:
وداؤوا امراضکم بالصدقة.
(طبرانی، المجعم الکبیر، 10: 128، رقم: 10196)
’’اور اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو۔‘‘
حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
ان الصدقة لتطفی غضب الرب وتدفع میتة السوء.
(ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب الزکاة، ماجاء فی فضل الصدقة، 2: 44، رقم 664)
’’بے شک صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت کو دور کرتا ہے (یعنی بری موت سے بچاتا ہے)۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’صدقہ کرنے میں جلدی کرو، مصیبت صدقے سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔‘‘
(بیهقی، السنن الکبریٰ، 4: 184، رقم: 762)
(3) انفاق: ایک دائمی نیکی
صدقہ و خیرات کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سرکارِ ابد قرار ﷺ نے اپنی زبان رسالت سے ارشاد فرمایا:
اذا مات الانسان انقطع عنه عمله الا ثلاث: صدقة جاریة او علم ینتفع به او ولد صالح یدعوله.
(مسلم، الصحیح، کتاب الوصیة، باب ما یلحق الانسان من الثوب، 3: 1255، رقم: 1631)
’’جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں لیکن تین عمل منقطع نہیں ہوتے۔
(1) صدقہ جاریہ
(2) علمِ نافع
(3) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے۔
(4) انفاق سے مال کم نہیں ہوتا
شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے، وہ انسان کے دل میں وسوسہ اندازی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دیکھ اے انسان! اگر تو نے صدقہ و خیرات کیا تو تنگ دست ہوجائے گا، تیرا مال کم ہوجائے گا۔ یوں وہ سخی کو ورغلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شیطانی وسوسہ کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآءِ ج وَاللهُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا ط وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ.
(البقرة، 2: 268)
’’شیطان تمہیں (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے روکنے کے لیے) تنگدستی کا خوف دلاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے، اور اللہ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ فرماتا ہے، اور اللہ بہت وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘
صدقہ و خیرات سے مال گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے۔ چنانچہ صادق و مصدوق نبی اکرم ﷺ نے اپنی متعدد احادیث مبارکہ میں اس شیطانی وسوسہ کو رد کیا ہے۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ما نقصت صدقة من مال قط وما مد عبد یده بصدقة الا القیت فی یدالله قبل ان تقع فی ید السائل ولا فتح عبد باب مسألة له عنها عنی الا فتح الله علیه باب فقر.
(الطبرانی، المعجم الکبیر، 11: 321، رقم: 12150)
’’صدقہ دولت کو کم نہیں کرتا، جب کوئی آدمی اپنا ہاتھ صدقہ کرنے کے لیے بڑھاتا ہے تو وہ سائل تک پہنچنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ڈال دیا جاتا ہے اور جو آدمی مستغنی ہوتے ہوئے مانگنا شروع کردیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے تنگ دستی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
ان الله عزوجل یقبل الصدقات و یاخذها بیمینه فیربیها لاحدکم کما یربی احدکم مهرة اوفلوة او فصیله حتی ان اللقمة لتصبر مثل احد.
(احمد بن حنبل، المسند، 2: 471، رقم: 10090)
’’اللہ تعالیٰ صدقہ قبول کرتا ہے، اسے دائیں ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اس طرح بڑھاتا ہے جس طرح تم گائے یا اونٹنی کے بچے کو پالتے ہو، ایک آدمی ایک لقمہ صدقہ کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ یا ہتھیلی میں بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اُحد پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔‘‘
بخل اور کنجوسی پر وعید
زکوٰۃ، صدقہ، خیرات، خدمتِ خلق، ایثار و قربانی کی ضرورت و اہمیت اور فضیلت کا مطالعہ کرنے کے بعد چند ارشادات اس کی ضد، ’’بخل‘‘ کے بارے میں بھی ملاحظہ ہوں۔ ارشاد الہٰی ہے:
1. وَ اَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی. وَ کَذَّبَ بِالْحُسْنٰی.
(اللیل، 92: 8۔9)
’’اور جس نے بخل کیا اور (راہِ حق میں مال خرچ کرنے سے) بے پروا رہا۔ اور اس نے (یوں) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کو جھٹلایا۔‘‘
2۔ دوسرے مقام پر فرمایا:
وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ ط بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ ط سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ.
(آل عمران، 3: 180)
’’اور جو لوگ اس (مال و دولت) میں سے دینے میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا ہے وہ ہرگز اس بخل کو اپنے حق میں بہتر خیال نہ کریں، بلکہ یہ ان کے حق میں برا ہے، عنقریب روزِ قیامت انہیں (گلے میں) اس مال کا طوق پہنایا جائے گا جس میں وہ بخل کرتے رہے ہوں گے۔‘‘
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
والبخیل بعید من الله، بعید من الجنة، بعید من الناس، قریب من النار، والجاهل سخی احب الی الله من عابد بخیل.
(ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب البر و اصلة، باب ماجاء فی البخیل، 3: 510، رقم: 1961)
’’بخیل آدمی اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے اور لوگوں سے دور ہے اور جہنم کے قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جاہل سخی، بخیل عابد سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
4۔ ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مامن یوم بصبح العباد فیه الا ملکان ینزلان فیقول احدهما اللهم اعط منفقا خلفا ویقول الاخر اللهم اعط ممسکا تلفا.
(مسلم، الصحیح، کتاب الزکاة، باب فی المنفق واطمسک، 2: 700، رقم: 1010)
’’ہر روز صبح کو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ایک کہتا ہے اے اللہ! خرچ کرنے والوںکو مزید مال عطا کر اور دوسرا کہتا ہے: الہٰی! بخیل کا مال تباہ کردے۔‘‘
مذکورہ فرامین سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ایک انسان کی مذہبی و معاشرتی زندگی اور انفرادی حالت میں بھی ایثار و صدقہ اور خیرات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
حقیقتِ ایثار
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے وفا کیش غلام حضرت نافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک روز مچھلی کی خواہش ہوئی۔ تمام شہر میں تلاش کی مگر نہ ملی۔ چند روز بعد وہ مجھے (یعنی حضرت نافع رضی اللہ عنہ کو) ملی، فرماتے ہیں: میں نے وہ مچھلی پکوائی اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر کی۔ میں نے دیکھا کہ اس مچھلی کے پیش کرنے سے آپ مسرور ہوئے۔ اتنے میں ایک سائل نے باب عالی پر کھڑے ہوکر صدا دی۔ آپ نے حکم دیا کہ یہ مچھلی اس سائل کو دے دو۔ میں نے عرض کی: حضور! اتنی دیر بعد تو یہ مچھلی میسر آئی ہے، اب آپ سائل کو عطا فرمارہے ہیں، اس کی بجائے کچھ اور بخشش کردی جائے۔ فرمایا: اے غلام! یہ مچھلی کھانا مجھ پر حرام ہے۔ اس لیے کہ میں نے ایک حدیث کے موافق اس مچھلی کو اپنے دل کی خواہش سے باہر کردیا ہے۔ وہ حدیث یہ ہے، جو میں نے حضور ﷺ سے سنی ہے:
ایما امری یشتھی شهوة فرد شهوته واثر الاخرة علی نفسه غفرله.
(هجویری، کشف المحجوب، 259)
’’جو انسان کسی چیز کی خواہش کرے پھر اس چیز کی طرف سے دست بردار ہوکر آخرت کو نفس کی خواہش پر ترجیح دے تو لامحالہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردے۔‘‘
- ہجرت کے موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ کے بستر مبارک پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا سونا اور غزوہ اُحد کے موقع پر شہدائے اسلام کا انتہائی کرب میں بھی ایثار سے کام لیتے ہوئے خود پانی نہ پینا اور اپنے دوسرے مسلمان کی طرف پانی کردینا، تاریخ کی وہ لازوال داستانیں ہیں کہ جس پر تاریخِ انسانی ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔
ان واقعات میں دوسرے انسان کی خاطر اپنی خواہش کی قربانی اور ایثار کی عملی مثال ہمارے لیے درس ہے کہ ہم بھی معاشرے کے نادار لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایثار سے کام لیتے ہوئے اپنی خواہش کو ان پر قربان کردیں۔
بدنی ایثار کی مثال
منقول ہے کہ حضرت ابراہیم خواصؒ سفر پر جارہے تھے۔ آپ کے ساتھ تین اور آدمی بھی تھے۔ آپ جنگل میں کسی مسجد میں پہنچے اور وہاں رات گزاری۔ مسجد کا کوئی دروازہ نہ تھا اور سردی شدت کی تھی، سب سوگئے۔ صبح جب بیدار ہوئے تو ابراہیم خواصؒ کو دروازے پر کھڑا دیکھا۔ ساتھیوں نے آپ سے اس کی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں تمہیں سردی نہ لگے، اس لیے میں رات بھر وہاں دروازے پر کھڑا رہا۔
(قشیری، الرسالۃ القشیریة، ص: 436)
اسی قسم کا ایک واقعہ ابو علی رباطیؒ اپنے شیخ حضرت عبداللہ مروزیؒ کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ ان کا دستور تھا کہ وہ زادِ راہ اور سواری کے بغیر جنگل کو نکل جاتے تھے۔ جب میں ان کی صحبت میں آیا تو مجھے فرمایا کہ حاکم بننا پسند کرے گا یا میں حاکم رہوں۔ میں نے عرض کیا: آپ ہی حاکم رہیں۔ فرمایا: پھر تمہیں اطاعت کرنا ہوگی۔ میں نے کہا کہ جی ہاں۔ پھر آپ نے ایک تھیلا لیا، اس میں زادِ راہ رکھا اور اسے اپنی پشت پر اٹھایا۔ جب میں یہ کہتا کہ یہ تھیلا مجھے دیجئے تاکہ میں اسے اٹھائوں تو فرماتے: میں حاکم ہوں اور تمہیں میری اطاعت کرنی چاہیے۔
ابو علی رباطیؒ بیان کرتے ہیںکہ ایک رات بار ش ہوئی اور میرے شیخ چادر لیے صبح تک میرے اوپر سایہ کیے رہے تاکہ میں بارش سے بچا رہوں، میں دل میں کہتا: کاش! میں مرجاتا اور یہ نہ کہتا کہ آپ حاکم رہیں۔
(قشیری، الرسالة القشیریة، ص: 434)
ایثار کے بارے میں اقوالِ صوفیاء
صوفیاء کرام کی تعلیمات و افکار کا مطالعہ کرنے سے جہاں تزکیہ نفس کے لیے ذکر و فکر کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے وہاں ان کی سیرت و کردار اور اقوال و ارشادات میں خدمت خلق، جودو سخا، ایثار و قربانی اور انسانیت کے ساتھ بلا امتیازِ رنگ و نسل، مذہب و مسلک اور زبان و علاقہ کے جاہلانہ تعصبات سے مبرا محض خلقِ خدا ہونے اور انسانیت کے آفاقی تصور کے تحت اپنے پرائے، دوست، دشمن، مسلم و غیر مسلم ہر کسی کے ساتھ ہمدردی و مہربانی، محبت و شفقت کے عملی مظاہر بکثرت نظر آتے ہیں۔ جودو سخا، ایثار و قربانی اور انسانی ہمدردی و خیر خواہی انسانی کردارکی وہ روشن کرنیں ہیں کہ جنھوں نے دنیائے عالم کو روشن و منور کررکھا ہے۔
1۔ حضرت شیخ سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ کا ارشاد گرامی ہے:
’’میں تم سب کو یہ وصیت کرتا ہوں کہ تقویٰ و طاعت پر قائم رہتے ہوئے اپنے آپ پر شریعت کی ظاہری چیزوں (احکام) کو لازمی کرلو، سینے کو سلامت رکھو، نفس کو سخاوت پر آمادہ رکھو، چہرے سے اظہارِ بشاشت کرو اور خوب خرچ کرو۔ دنیا و آخرت کے معاملات میں ایک دوسرے کی معاونت کرو۔ جب دل اللہ رب العزت کے دروازے پر ٹھہرتا ہے تو اس کی طرف کرامت کا ہاتھ نکلتا ہے اور اس پر رحمت کو نازل کرتا ہے، اس کو سخی با ایثار بنادیتا ہے، مخلوق پر سخاوت کرتا ہے اور ان پر کسی چیز کے بخل کو روا نہیں رکھتا ہے۔‘‘
(جیلانی، عبدالقادر، شیخ سید، فتوح الغیب، ص: 132)
2۔ حضرت دقاقؒ فرماتے ہیں کہ ’’مال کا زکوٰۃ کی حد کو پہنچنا بخل کی علامت ہے کہ حاجت مند اردگرد موجود ہوں اور آدمی مال سمیٹ کر بیٹھا رہے اور حاجت مندوں کو پریشان حال دیکھتا رہے اور سال کے بعد دو سو روپے میں سے صرف پانچ روپے نکال کر ان کو دے اور یہ سمجھے کہ نعمتِ مال کا حق ادا کردیا۔ اس سے بڑھ کر اور بخل کیا ہوسکتا ہے۔‘‘
اصل صوفی وہ ہے کہ جو نائب حضرت رحمۃ للعالمین ﷺ ہو۔ جب وہ اس جناب کا نائب ہے تو جس طرح حضور ﷺ کا ’’باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق‘‘ ابدالاباد تک کھلا ہے، اس نائبِ حقیقی کا بھی کھلا رہے گا۔ اسی لیے شیخ سعدی شیرازیؒ فرماتے ہیں:
طریقت بہ از خدمتِ خلق نیست
بہ تسبیح و سجادہ و دلق نیست
قرآن مجید، احادیث نبویہ اور عملِ صحابہ و اولیاء سے یہ بات خوب واضح ہوگئی کہ انسانی معاشرے کی انفرادی تربیت اور تزکیہ نفس کو دینِ اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اپنے لیے تو ہر کوئی جیتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لیے جینا، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، اپنا ذاتی مفاد چھوڑ کر دوسروں کے مفاد کو ترجیح دینا ہی اصل نیکی اور انسانیت ہے۔ ہر وہ شخص جو انسان ہونے کا مدعی ہو لیکن اس میں ان میں سے کوئی صفت بھی نہ پائی جائے تو وہ انسان کہلانے کے قابل بھی نہیں ہے۔