حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن عثمان بن عمر بن عمر القرشی التمیمی تھا اور آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد ابوقحافہ کا تعلق قریش کی معزز ترین شاخ بنو تمیم سے تھا جو شجاعت، سخاوت، مروّت اور بہادری جیسی صفات سے متصف تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے لقب صدیق اور عتیق قرار پائے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اعلانِ نبوت اور سفرِ معراج پر سب سے پہلے تصدیق وگواہی آپ رضی اللہ عنہ نے دی، جس پر آپ ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ کو حق و سچ کی تائید کرنے کا لقب (صدیق) عنایت کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کے یارِ غار اور وہ خوش نصیب صحابی ہیں جن کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر کے مال نے مجھے جتنا نفع دیا ہے اتنا کسی کی دولت سے نفع و فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین کے سرخیل و سردار ہیں۔آپ نے اپنے زمانۂ خلافت میں ایسے تاریخ ساز اور اصلاحی کارنامے سر انجام دیے جو بعد میں آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ اور مینارۂ نور بن گئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد جب معاشرتی برائیوں اور فتنوں نے سر اٹھانا شروع کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی سرکوبی کے لیے نہ صرف اہم اقدامات فرمائے بلکہ کتاب و سنت کو نافذ کر کے خلیفۃ الرسول ہونے کا عملاً حق ادا کیا۔
آپ کی زندگی صدق و اخلاص اور طاعت و زہد کی مثال تھی۔ آپ کی جبین مبارک پر عموماً خوفِ الٰہی سے پسینہ رہتا تھا۔ خشیتِ الٰہی کا یہ عالم تھا کہ ایک دن آپ رضی اللہ عنہ ایک باغ میں گئے جہاں ایک درخت تھا، اس کے سائے میں ایک چڑیا کو دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھری اور فرمایا:
’’اے چڑیا تو بڑی خوش نصیب ہے، درختوں کے پھل کھاتی ہے، درختوں کے سائے میں رہتی ہے اور حساب و کتاب سے مبرّا ہے۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’کاش میں سبزہ ہوتا اور مجھے چرند پرند کھاتے اور خوفِ عذاب اور وحشتِ یومِ حساب کا سوچ کر خیال کرتا ہوں کہ کاش مجھے پیدا ہی نہ کیا جاتا۔‘‘
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خوف و رجا کا یہ عالم تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’اگر پکارنے والا یہ پکارے کہ جنت میں صرف ایک ہی شخص داخل ہوگا تو مجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہی ہوں گا اور اگر کوئی یہ صدا بلند کرے کہ دوزخ میں ایک ہی شخص جائے گا تو مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ میں ہی نہ ہوں۔‘‘
جب نماز کا وقت ہوتا تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
’’اے آدم کی اولاد! اٹھو! اس آگ کو بجھا ڈالو جسے تم نے خود جلا رکھا ہے۔‘‘
آپ یہ دعا فرماتے تھے: ’’ اے اللہ! میری آخری عمر میں برکتیں اور بھلائی عطا فرمااور نیک اعمال پر میرا خاتمہ ہو اور تیری ملاقات کا دن میری زندگی کا بہترین دن ہو۔‘‘
خطبۂ خلافت اور اصلاحِ معاشرہ
آپ رضی اللہ عنہ نے جب خطبۂ خلافت ارشاد فرمایا تو معاشرتی اصلاح کی طرف لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے ایسے اصول وضع فرمائے جو آنے والے امراء و خلفاء کے لیے ہدایت و رشد کا ذریعہ ثابت ہوئے۔ یہ خطبہ اپنے اختصار وایجاز کے باوجود اہم ترین اسلامی خطبوں میں سے ہے۔ اس خطبہ میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اصلاحِ معاشرہ کے درج ذیل اصول وضع فرمائے:
1۔ اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول ﷺ
تعمیرِ معاشرہ کی پہلی بنیاد ہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت پر موقوف ہے۔ اطاعت و اتباع کے بغیر معاشرتی اصلاح کے قیام کا تصور ممکن نہیں۔ چونکہ انسانی معاشرہ ایک عمارت کی مانند ہے، جس کی اینٹیں ایسے افراد ہوتے ہیں جن کے معاشرتی تعلقات سے اس معاشرہ کے عناصر تشکیل پاتے ہیں۔ یہ عناصر جس قدر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کے تابع ہوں گے، اسی قدر معاشرے کو دنیا میں مقام و مرتبہ حاصل ہوگا۔ آج ہمارا معاشرہ بدامنی، خلفشار اور فتنہ فساد کا شکار ہے، اس کی وجہ فقط اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی و نافرمانی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو معاشرے کی ترقی و اصلاح کے لیے سب سے پہلے اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول ﷺ پر زور دیا اور واضح کیا کہ اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری ہی اصلاحِ معاشرے کا اصل اور اصول ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا:
أطیعونی ما أطعت الله ورسوله، فإذا عصیت الله و رسوله فلاطاعة لی علیکم.
(البدایة والنهایة 5: 248)
’’جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو۔ اور جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پرمیری کوئی اطاعت فرض نہیں ہے۔‘‘
یعنی اگر میرا حکم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی اور معصیت پر مبنی ہو توخلیفہ ہونے کے باوجود میرا حکم لوگوں کے لیے قابلِ اتباع نہیں ہوگا۔
2۔ عدل و انصاف
آپ رضی اللہ عنہ نے خطبہ میں حاکم اور رعایا کے مابین تعامل کے سلسلہ میں عدل ورحمت پر تاکید کی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
فإن أحسنت فأعینونی، وإن أسأت فقومونی.
’’اگر میں اچھا کروں تو تم میری مدد کرو، اگر برا کروں تو مجھے سیدھا کردو۔‘‘
(البدایة و النهایة 5: 248)
گویا آپ رضی اللہ عنہ نے احتساب اور حساب و کتاب کے معاملے میں واضح فرمادیا کہ کوئی شخص بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔جب تک حاکم اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش نہیں کرتا معاشرے میں عدل و انصاف کا فروغ ممکن نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید میں اسی جانب رہنمائی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ ز وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللهَ ط اِنَّ اللهَ خَبِیْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَ.
’’اے ایمان والو! اﷲ کے لیے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو! بے شک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے۔‘‘
(المائدة، 5: 8)
3۔ فواحشات سے بچنا
معاشروں کے قیام اور تہذیب وتمدن کے ظہور سے اخلاق کا انتہائی گہرا تعلق ہے۔ اگر اخلاق میں بگاڑ آجائے تو معاشرے تباہ اور ملتیں ضائع ہوجاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب خطبۂ خلافت ارشاد فرمایا تو اس میں لوگوں کو برائی، فواحش اور بے حیائی سے دور رہنے کی نصیحت فرمائی۔ کیونکہ معاشرہ کو گراوٹ وفساد سے بچانے کے لیے یہ انتہائی ضروری چیز ہے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ولا تشیع الفاحشة فی قوم قط إلاّ عمهم الله بالبلاء.
’’جس قوم میں بری باتیں عام ہوجاتی ہیں، اللہ ان پرمصیبت کو مسلط کردیتاہے۔‘‘
قرآن مجید میں بھی اسی حوالے سے تلقین کی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ.
’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔‘‘
(النحل، 16: 90)
گذشتہ اقوام وملل اور تہذیبوں کا بصیرت کی نگاہ سے جس نے مطالعہ کیا ہے، اس پر یہ حقیقت آشکاراہے کہ کس طرح تہذیب وتمدن کا قیام دینِ صحیح اور اخلاقِ کریمہ پر ہواہے۔جب تک اخلاقِ کریمہ کو مدنظر رکھااور اس کی حفاظت کی تو کامیابی وکامرانی نے ان کا ساتھ دیا اور جب فواحش ومنکرات کے جراثیم ان میں سرایت کرگئے تو پھر ان کی حکومتیں ہلاکت وتباہی کا شکار ہوگئیں اور ان کی شان وشوکت ملیا میٹ ہوگئی اور ان کی تہذیب وتمدن کا جنازہ نکل گیا۔
4۔ سچائی اور دیانتداری
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبۂ خلافت میں سچائی کو معاشرے میں فروغ دینے پر زور دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
الصدق أمانة، والکذب خیانة.
’’سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔ ‘‘
آپ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی اتباع میں ہے کہ:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ.
’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔‘‘
(التوبة، 6 : 119)
آپ رضی اللہ عنہ نے معاشرے کی اصلاح کے لیے یہ اصول وضع کیا کہ سچائی؛ حاکم اور امت کے درمیان تعامل کی اساس ہے، اس سے حاکم وعوام کے مابین اعتماد مضبوط ہوتاہے۔ یہ سیاسی خصلت معاشرے کی ترقی اور ارتقاء میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
5۔ مساوات و برابری
اسلامی نظامِ معاشرت میں تمام انسان حقوق کے اعتبار سے برابر ہیں۔ یہ اسلامی نظامِ اقدار میں اہم اور بنیادی پہلو ہے۔ مساوات کی تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام انسانوں کو باہمی یکساں حقوق پہنچائے جائیں اور کسی بھی فرد سے کسی مجبوری و معذوری، شکل و نسل اور وطن و مسکن کی بنیاد پر امتیازی سلوک اختیار نہ کیا جائے۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے خطبۂ خلافت میں مساوات کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
والضعیف فیکم قوی عندی حتی أریح علیه حقه إن شاءالله، والقوی فیکم ضعیف حتی آخذ الحق منه إن شاءاللہ.
’’ تم میں جو کمزور ہے، وہ میرے نزدیک قوی ہے چنانچہ میں اس کا شکوہ دور کردوں گا اور تم میں جو قوی ہے، وہ میرے نزدیک کمزور ہے، چنانچہ میں اس سے حق لوں گا۔‘‘
یعنی آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک معاشرے کے تمام افراد برابر ہیں۔ اگر کوئی معاشی یا معاشرتی اعتبار سے کمزور تھا تو اس کی بات بھی ایسے ہی سنی جائے گی جیسے معاشرے کے باقی لوگوں کی داد رسی کی جاتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے واضح کر دیا تھا کہ کمزور شخص کو ایسے ہی حقوق حاصل ہوں گے، جیسے معاشرے کے دیگر افراد کو حاصل ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے عہد میں زبان، وطن اور معاشرتی احوال کی بنیاد پر کبھی کسی سے امتیاز نہ برتا گیا۔
6۔ اصلاحِ معاشرہ اور تقویٰ
معاشرتی اصلاح کے لیے خشیتِ الٰہی اور تقویٰ نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اس کو مومنین کی بنیادی صفت قرار دیا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تقویٰ اور پرہیزگاری کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے تقوی کا یہ عالم تھا کہ اگر کبھی کوئی چیز تناول فرمائی اور بعد میں اس کے بارے میں شک و شبہ پیدا ہوا تو فوراً قے کر کے اگل دیتے اور فرماتے:
واللّٰه لو لم تخرج تلک اللقمة إلا مع نفسی لأخرجتها.
’’خدا کی قسم اگر اس مشتبہ کھائی ہوئی چیز کے ساتھ میری روح بھی نکل جائے تو میں اسے خارج کرنے میں تامل نہ کروں گا۔‘‘
اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی زبانِ اقدس سے سنا ہے کہ:
لا یدخل الجنة جسد غُذی بالحرام.
’’ جس جسم کو حرام کی غذا ملی ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
موجودہ دور میں اگر اسلامی معاشرے کا جائزہ لیں تو عوام سے لے کر خواص تک، ہر طبقہ سے حرام و حلال کی تمیز ختم ہو رہی ہے۔جبکہ خلیفۃ الرسول ﷺ کی زندگی تقویٰ اور پرہیز گاری کے اس معیار پر تھی کہ حرام شے تو درکنار مشتبہ اشیاء سے بھی اس طرح پرہیز فرماتے جیسے حرام اشیاء سے بچتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں افرادِ معاشرہ اس قدر تقویٰ کے اسلامی اصولوں پر کاربند تھے کہ جماعتِ صحابہ کے افراد گھرسے صبح کے وقت طلبِ معاش کے لیے نکلتے تو اُن کی ازواج ان کو یہ نصیحت کرتی تھیں:
یا هذا، اتق اللّٰه فی رزقنا، فإنا نصبر علی الجوع ولا نصبر علی النار.
’’اے فلاں! ہمارے رزق کے معاملے میں اللہ سے ڈرنا، یعنی (حرام کی کمائی سے بچنا)، ہم دنیا کی بھوک پر صبر کر سکتیں ہیں مگر (بروزِ قیامت)آتشِ جہنم پر صبر نہیں کر سکتیں۔‘‘
اصلاحِ معاشرہ سے متعلق اقوال و ارشادات
معاشرہ کی اصلاح اور احیاء کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اقوال و ارشادات اتنے ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا مشکل ہے، ذیل میں چند اقوال پیش کیے جاتے ہیں:
1۔ اللہ رب العزت رحم کرے اس مرد پر جس نے اپنی جان سے اپنے بھائی کی مدد کی۔
2۔ جب تجھ سے کوئی نیکی فوت ہو جائے تو اس کا تدارک کر اور اگر کوئی بدی تجھے آگھیرے تو اس سے بچ۔
3۔ ہم ایک حرام میں پڑنے کے خوف سے ستر حلال کو چھوڑ دیا کرتے تھے۔
4۔ جب زبان خراب ہو جاتی ہے تو انسان روتے ہیں، جب دل خراب ہو جاتا ہے تو اس پر فرشتے روتے ہیں۔
5۔ شہوت کے سبب بادشاہ؛ غلام بن جاتے ہیں اور صبر سے غلام بادشاہ بن جاتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کے قصے پر غور کر۔
6۔ جس شخص نے گناہوں کو ترک کیا، اس کا دل نرم ہوگیا اور جس نے حرام کو ترک کیا، اس کا فکر و اندیشہ صاف ہوگیا۔
7۔ تاریکیاں پانچ ہیں اور اس کے چراغ بھی پانچ ہیں:
i۔ حبِ دنیا تاریکی ہے اور اس کا چراغ تقویٰ ہے۔
ii۔ قبر تاریکی ہے اور چراغ لاالہٰ الا اللہ ہے۔
iii۔ آخرت تاریکی ہے اور اس کا چراغ نیک عمل ہے۔
iv۔ پل صراط تاریکی ہے اور اس کا چراغ یقین ہے۔
7۔ گناہ تاریکی ہے اور اس کا چراغ توبہ ہے۔
8۔ بڑائی تقویٰ میں ، دولت توکل میں اور عظمت تواضع میں ہے۔
9۔ باہم قطع تعلق نہ کرو، حسد چھوڑ کر بھائی بھائی بن جاؤ۔
10۔ عبادت ایک پیشہ ہے، اس کی دکان خلوت ہے، اس کا رأس المال تقویٰ ہے اور اس کا نفع جنت ہے۔
11۔مخلوق سے تکلیف دور کر کے خود اٹھا لینا حقیقی سخاوت ہے۔
ابوبکر بن حفص کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انتقال کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: خلیفہ بننے کے بعد میں نے قناعت کی زندگی بسر کی ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے کسی مال میں سے میرے پاس سوائے اس حبشی غلام، اونٹنی اور پرانی چادر کے اور کچھ بھی نہیں ہے، میری وفات کے بعد یہ تمام اشیاء حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دے کر بری ہو جانا۔
آپ رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جب یہ چیزیں پہنچیں تو آپ انہیں دیکھ کر آب دیدہ ہو گئے اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو آپ پر اے ابو بکر رضی اللہ عنہ! کہ اس امت کو آپ جیسا خلیفہ نصیب ہوا، جس نے اپنے نبی کی سنت کو زندہ رکھا اور دنیا کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا۔‘‘
آپ منصبِ خلافت پر دو سال چار ماہ فائزہ رہے اور بالآخر 22 جمادی الثانی 13 ہجری کو 63 برس کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔