سوال: اللہ تعالیٰ رمضان المبارک میں امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کن تحائف سے نوازتا ہے؟
جواب: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے:
1. اِذَا کَانَ اَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ نَظَرَ اللّٰهُ تَعالی عزوجل اِلَیْهِمْ وَمَنْ نَظَرَ اللّٰهُ اِلَیْهِ لَمْ یُعَذِّبْهُ اَبَدًا.
’’جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر التفات فرماتا ہے اور جس پر اللہ کی نظر پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔‘‘
2. فَاِنَّ خُلُوْفَ اَفْوَاهِهِمْ حِیْنَ یُمْسُوْنَ اَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰهِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ.
’’شام کے وقت ان کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔‘‘
3. فَاِنَّ الْمَلاَئِکَةَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ.
’’فرشتے ہر دن اور رات ان کے لئے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔‘‘
4. فَاِنَّ اللّٰهَ عزوجل یَاْمُرُ جَنَّةُ فَیَقُوْلُ لَهَا: اسْتَعِدِّی وَتَزَیَنِی لِعِبَادِی اَوْشَکُوْااَنْ یَسْتَرِیْحُوْا مِنْ تَعَبِ الدُّنْیَا اِلَی دَارِی وَکَرَامَتِی.
’’اللہ عزوجل اپنی جنت کو حکم دیتے ہوئے کہتا ہے: میرے بندوں کے لئے تیاری کر لے اور مزین ہو جا، قریب ہے کہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔‘‘
5. اِذَا کَانَ آخِرُ لَیْلَةٍ غُفِرَ لَهُمْ جَمِیْعًا.
’’جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔‘‘
ایک صحابی نے عرض کیا:
اَهِیَ لَیْلَةُ الْقَدْرِ فَقَالَ: لَا، اَلَمْ تَرَ اِلَی الْعُمَّالِ یَعْمَلُوْنَ فَاِذَا فَرَغُوْا مِنْ اَعْمَالِهِمْ وُفُّوْا اَجُوْرَهُمْ.
’’کیا یہ شبِ قدر کو ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تب انہیں مزدوری دی جاتی ہے۔‘‘
- ( بیهقی، شعب الایمان، 3: 303، رقم: 3603)
- (منذری، الترغیب والترهیب، 2: 56، رقم: 1477)
سوال: روزے کے مقاصد کیا ہیں؟
جواب: روزے کے بہت سے مقاصد ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1۔ تقوی کا حصول
جب نفس اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی امید اور اس کے دردناک عذاب کے خوف کی وجہ سے حلال چیزوں سے رکنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو وہ بدرجہ اولیٰ حرام چیزوں سے بھی باز رہے گا۔ لہٰذا روزہ ہمیں حرام چیزوں سے بچنے کی تربیت دیتا ہے جس سے ہم فرمانِ باری تعالیٰ کے مطابق متقی بن سکتے ہیں۔
2۔ نعمت کا شکر ادا کرنے پر آمادہ کرنا
روزہ نفس کو کھانے پینے جیسی کئی نعمتوں سے روک کر ان نعمتوں کی قدر کرنے کا احساس بیدار کرتا ہے اور ہمیں شکر گزار بندے بننے پر آمادہ کرتا ہے۔
3۔ نفس کو مغلوب کرنا اور شہوت کو کم کرنا
روزہ نفسانی خواہشات کو کم کر کے نفس کو مغلوب کرتا ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَائَةَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَإِنَّه اَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَاَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْه بِالصَّوْمِ فَإِنَّه لَه وِجَاءٌ.
’’جو عورت کا مہر ادا کرسکتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ یہ نظر کو جھکاتا ہے اور شرمگاہ کے لیے اچھا ہے اور جو ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ شہوت کو گھٹاتا ہے۔‘‘
(بخاری، الصحیح، 2: 673، رقم: 1806)
4۔ مساکین پر شفقت و مہربانی
روزہ دار جب تھوڑے وقت کے لیے بھوک اور پیاس برداشت کرتا ہے تو اُسے ہمیشہ اس تکلیف میں رہنے والے انسانوں کے بارے میں احساس ہوتا ہے اور غرباء ومساکین پر شفت ومہربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
5۔ روزہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے خاص اجر حاصل کرنا
روزہ ایسی عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان راز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے خاص اپنے لیے رکھا ہے۔ حضرت ابوہریرہ اور اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُول: إِنَّ الصَّوْمَ لِی وَأَنَا أَجْزِی بِهِ.
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘
(مسلم، الصحیح، باب فضل الصیام، کتاب الصیام، 2: 807، رقم: 1151)
سوال: روزہ کی حفاظت کیسے ممکن ہے؟
جواب: اگر روزہ کو احکام و آداب کی مکمل رعایت کے ساتھ پورا کیا جائے تو بلاشبہ گناہوں سے محفوظ رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر کسی نے روزہ کے لوازم کا خیال نہ کیا اور گناہوں میں مشغول رہتے ہوئے روزہ کی نیت کی، کھانے پینے، خواہش نفسانی سے باز رہا لیکن حرام کمانے اور غیبت کرنے سے باز نہ آیا تو اس سے فرض تو ادا ہوجائیگا، مگر روزہ کے برکات و ثمرات سے محرومی رہے گی۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ یخْرِقْهِ.
’’روزہ ڈھال ہے جب تک کوئی اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔‘‘
( نسائی، السنن، 1: 167، رقم: 2233)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِه، فَلَیْسَ للّٰهِ حَاجَةٌ فِی اَنْ یَدَعَ طَعَامَه وَ شَرَابَه.
’’جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹی بات اور غلط کام نہ چھوڑے تو اللہ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ (گناہوں کو چھوڑے بغیر) محض کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
( بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، باب من لم یدع قول الزور و العمل به فی الصوم، 2: 673، الرقم: 1804)
کھانا پینا اور جنسی تعلقات چھوڑنے ہی سے روزہ کامل نہیں ہوتابلکہ روزہ کی حالت میں فواحش، منکرات اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنا بھی ضروری ہے لہٰذا مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوا:
- روزہ دار روزہ رکھ کر جھوٹ، غیبت، چغلی اور بدکلامی سے پرہیز کرے۔
- آنکھ کو مذموم و مکروہ اور ہر اس چیز سے بچائے جو یادِ الٰہی سے غافل کرتی ہو۔
- کان کو ہر ناجائز آواز سننے سے بچائے۔ اگر کسی مجلس میں غیبت ہوتی ہو تو انہیں منع کرے ورنہ وہاں سے اْٹھ جائے۔ حدیث میں ہے کہ غیبت کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں شریک ہیں۔
- بوقت افطار اتنا نہ کھائے کہ پیٹ تن جائے۔
- افطار کے بعد دل خوف اور امید کے درمیان رہے۔ کیا معلوم کہ اس کا روزہ قبول ہوا یا نہیں لیکن اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ پس اعضاء کو گناہوں سے بچانا ہی درحقیقت روزہ کی حفاظت ہے۔
سوال: کیا انجیکشن یا ڈرپ لگوانے اور انسولین لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب: انجیکشن، ڈرپ یا کوئی اور چیز جو غذا یا دوا میں شامل ہو اور دماغ یا معدہ تک اثر انداز ہو، اس کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اگر شدید بیمار ہے تو اُسے ویسے ہی روزہ نہ رکھنے کی اجازت بلکہ حکم ہے۔ وہ لازمی طور پر افطار کرے اور معالج کی ہدایات کے مطابق دوا و غذا کو استعمال کرے۔ حتّٰی کہ اگر بیماری کی شدت یا جان جانے کا خوف ہو تو روزہ رکھنا شرعاً ممنوع ہے اور روزہ رکھنے کی صورت میں مریض گناہ گار بھی ہوگا۔
اسی طرح انسولین بھی ایک دوا ہے، جو جسم کے کئی نظاموں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس لیے روزے میں انسولین لینا جائز نہیں۔ طبی معالج سے مشورے کے بعد کوشش کریں کہ سحری کے وقت اور افطاری کے بعد انسولین لگوا لیں۔
سوال: کیا روزے کی حالت میں انہیلر (Inhaler) لینا جائز ہے؟
جواب: انہیلر (Inhaler) صرف آکسیجن نہیں بلکہ اس میں دوائی ملی ہوتی ہے جو دل اور معدے تک بطورِ دوا اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لئے اس سے پرہیز کریں۔ اگر سانس کا مریض اس کے بغیر رہ نہیں سکتا اور سانس کی شدید تکلیف میں مبتلا رہتا ہے تو روزہ افطار کرلے اور اگر روبصحت ہونے کی توقع نہ ہو تو فی روزہ فطرانے کی مقدار (دو کلو گندم، آٹا، یا اس کی قیمت) فقیر، مسکین کو فدیہ دے۔ یہ فدیہ وہ خواہ ہر دن دے یا یکمشت ادا کردے، کسی ایک کو دے یا زیادہ کو دے، جائز ہے۔
سوال: کیا کسی مریض کو حالتِ روزہ میں خون دینا جائز ہے؟
جواب: جس شخص کو خون دیا جارہا ہے، اسے تو لازمی طور پر روزہ افطار کرنا ہے البتہ خون کا عطیہ دینے والا شخص اپنی صحت کا خیال کرے۔ خون دینے سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا البتہ کمزوری لاحق ہو جاتی ہے۔ اس لئے خون دینے والے کو اپنی صحت کے مطابق ایسا قدم اٹھانا چاہئے جس سے اس کا روزہ بھی برقرار رہے اور شدید نقاہت بھی نہ ہو۔ ہاں اگر ایمرجنسی ہے تو ظاہری بات ہے کہ کسی انسان کی جان بچانا فرض ہے، لہٰذا بایں صورت ضعف برداشت کرے۔
سوال: کیا رمضان کے روزے کے دوران دانت نکلوانے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے، جب کہ دانت سے خون بھی نہ نکلا ہو؟
جواب: دانت نکلوانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا بشرطیکہ کوئی انجیکشن نہ لگایا جائے اور نہ کوئی ایسی دوا استعمال کی جائے جو گلے کے اندر جائے، نہ ہی خون کا کوئی قطرہ یا کوئی بھی چیز گلے کے اندر جائے۔ اس صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
دانتوں سے خون نکل کر حلق میں داخل ہو جائے یا خود اسے نگل لیا جائے، ایسی صورت میں خون اگر تھوک پر غالب ہے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اس صورت میں صرف قضا واجب ہوگی، کفارہ نہیں اور اگر تھوک خون پر غالب ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
سوال: کیا روزے کی حالت میں مسواک یا ٹوتھ پیسٹ سے دانت صاف کرنا جائز ہے؟
جواب: روزے کی حالت میں مسواک یا ٹوتھ پیسٹ سے دانت صاف کرنا جائز ہے بشرطیکہ ٹوتھ پیسٹ کے اجزاء حلق سے نیچے نہ جائیں۔ البتہ مسواک سے دانت صاف کرنا سنت ہے۔ مسواک کے سوکھے یا تر ہونے یا خشک ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سوال: اگر دھواں، غبار، عطر کی خوشبو یا دھونی حلق یا دماغ میں چلی جائے تو کیا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب: روزہ دار کے حلق میں غبار، عطر کی خوشبو، دھونی یا دھواں چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن اگر کسی روزہ دار نے غبار یا دھویں کو قصداً اپنے حلق میں داخل کیا تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔
سوال: کیا قے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب: قے آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ کم ہو یا زیادہ لیکن اگر خود اپنے فعل اور کوشش سے قصداً قے کی جائے اور منہ بھر کر ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کم ہو تو نہیں ٹوٹے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ ذَرَعَهُ القَیْئُ فَلَیسَ عَلَیه قَضَاءٌ، وَمَنِ اسْتقَاءَ عَمْدًا فَلْیقْضِ.
’’جس شخص کو (حالتِ روزہ میں) از خود قے آ جائے تو اس پر قضاء نہیں اور (اگر) جان بوجھ کر قے کی تو وہ (اس روزہ کی) قضاء کرے۔‘‘
(ترمذی، السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء فیمن استقاء عمداً، 3: 98، رقم: 720)
سوال: کیا آنسوؤں کی نمکینی منہ میں جانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب: آنسو محض منہ میں جانے سے روزے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فتاویٰ عالمگیری کے فقہاء کے مطابق آنسو قطرہ در قطرہ منہ میں گئے اور تھوک کے ساتھ نگل لیے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا، لیکن اگر آنسو اتنے زیادہ تھے کہ تھوک پر غالب آگئے اور ان کی نمکینی پورے منہ میں محسوس ہوئی تو روزہ ٹوٹ گیا۔ اس کی قضاء کی جائے گی۔
سوال: کیا مسافر روزہ رکھ سکتا ہے؟
جواب: مسافر کو بحالتِ سفر روزہ ترک کر دینا مباح ہے بشرطیکہ سفر اتنا لمبا ہو جس میں قصر واجب ہوتی ہے، اور اگر سفر میں دشواری نہ ہو تو اس کا سفر میں روزہ رکھنا افضل ہے۔ آج کل کے دور میں ریل گاڑی، کار، ہوائی جہاز وغیرہ میں سفر معتدل ہی ہوتا ہے لہٰذا جو شخص روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور اسے روزہ رکھنے میں کوئی دشواری بھی پیش نہ آتی ہو تو اس کے لئے بہتر ہے کہ روزہ رکھے۔ اﷲ رب العزت نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
أَیَّامًا مَّعْدُودَاتٍ فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیضًا أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَهُ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْکِینٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهُ وَأَن تَصُومُواْ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَO
’’(یہ)گنتی کے چند دن (ہیں) پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو۔‘‘
(البقرة، 2: 184)
اس سلسلے میں جمہور فقہاء کا موقف ہے کہ مسافر کو روزہ رکھنے یا چھوڑنے کا اختیار ہے۔ اس لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ماہِ رمضان میں جب سفر پر روانہ ہوتے تو ان میں سے کچھ روزہ دار ہوتے اور کچھ روزہ نہ رکھتے۔ روزے دار روزہ چھوڑنے والوں کو اور روزہ چھوڑنے والا روزے دار کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
لَا تَعِبْ عَلَی مَنْ صَامَ وَلَا عَلَی مَنْ أَفْطَرَ. قَدْ صَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فِی السَّفَرِ، وَأَفْطَرَ.
’’(حالتِ سفر میں) صائم (روزہ دار) اور مفطر (روزہ نہ رکھنے والے) کو برا بھلا مت کہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی سفر میں روزہ رکھا اور کبھی نہیں رکھا۔‘‘
(مسلم، الصحیح،کتاب الصیام، باب جواز الصوم والفطر فی شهر رمضان للمسافر، 2: 785، رقم: 1113)
سوال: رمضان کے قضا روزے لگاتار رکھنے چاہئیں یا وقفہ سے رکھنے چاہئیں وضاحت فرمادیں؟
جواب:رمضان کے روزوں کی قضاء واجب ہے اور اس میں وسعت رکھی گئی ہے، وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔ لہٰذا قضاء روزے لگاتار رکھیں یا سال میں وقفے وقفے کے ساتھ، دونوں طرح جائز ہیں۔