ماہ رمضان المبارک برکتوں اور سعادتوں کا ایک روحانی و جاں فزاء موسم ہے، اس میں اہلِ اسلام کی باطنی کیفیات کمال عروج پر ہوتی ہیں اور ظاہری اعمال و صدقات کا اظہار کثرت کے اعتبار سے اوج ِثریا کی بلندیوں کو چھورہا ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اس ماہِ مبارک کو بے حد برکتوں اور فضیلتوں کا منبع بنایا ہے۔ اس کی فضیلت کے بے شمار اسباب و وجوہات ہیں جن کی بدولت اسے شھر اللّٰہ کا ٹائٹل دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہی کتاب قرآن کریم کو بھی اس مہینے میں نازل فرمایاجو اس کی فضیلت کا ایک لازوال سبب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنزِلَ فِیهِ الْقُرْآنُ.
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔ ‘‘
(البقرة: 185)
لیلۃ القدر، روزے رکھنا اور اعتکاف کرنا وہ فضائل ہیں جو اس ماہ کی اہمیت و فضیلت کو ناقابلِ بیان حد تک بڑھادیتے ہیں۔ علاوہ ازیں ماہِ رمضان المبارک میں کئی قابلِ قدر احداث و واقعات بھی رونما ہوئے جن کا ذکر خیرِ کثیر کا باعث ہے۔ اِن واقعات میں سیدہ کائنات فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کایوم وصال، غزوہ بدر اور شہادت مولائے کائنات حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نہایت قابل ذکر ہیں۔ اِن ایام و واقعات کو یاد کرنا اور قلب و ذہن میں مستحضر کرنا اللہ رب العزت کے اس فرمان کے تحت ہے:
وَذَکِّرْهُمْ بِأَیَّامِ اللّهِ.
’’اور انہیں اﷲ کے دنوں کی یاد دلاؤ۔ ‘‘
(ابراهیم: 5)
ذیل میں مذکورہ بالا واقعات کے حوالہ سے اختصار کے ساتھ چند گزارشات پیش خدمت ہیں:
سیدۂ کائنات کا یومِ وصال (3 رمضان المبارک)
سیدہ کائنات حضرت فا طمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اس مقدس گھرانے کا چمکتا دمکتا روشن اور تابناک فرد ہیں ،جس نے اہلِ بیت کا الوہی لقب پایا۔ سیدہ کائنات کواہلِ کساء میں شامل ہونے کا اعزاز و شرف بھی حاصل ہے۔ اسی طرح آپ بتول، طیبہ، زاہرہ، طاہرہ، شاکرہ، عابدہ اور سیدۃ النساء جیسے پاک القاب سے بھی مشہورومعروف ہیں۔
آپ ایسی عظیم المرتبت ماں ہیں جن کے دونوں شہزادے سیدا شباب اہل الجنۃ کے فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ آپ ایسی زوجہ صالحہ ہیں جن کے شوہرِ نامدارخلیفہ راشد، منبعِ ولایت،باب مدینۃ العلم مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم ہیں۔ آپ خود سیدہ نساء العالمین ہیں جبکہ آپ کے والدماجد رحمۃ للعالمین،امام الانبیاء اور سید المرسلین ہیں۔ گویا آپ کی شان یہ ہے کہ والد ماجد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، زوجِ کریم علی المرتضی کرم اللہ وجھہ الکریم، ایک شہزادے امام حسن المجتبیٰ رضی اللہ عنہ اور دوسرے شہزادے سیدالشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ کا گھرانہ سرداروں کا گھرانہ ہے، جہاں پر رفعتیں اور عظمتیں بھی خیرات لینے کے لیے صف در صف کھڑی نظر آتی ہیں۔
کل کائنات کے اعزازات و شرف اس گھرانے کے نفوسِ قدسیہ کے نقشِ پا کی دھول ہیں۔ تمام طہارتیں اور پاکیاں آپ ہی کے وجود سے فیضیاب ہوتی نظر آتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے سیدہ کائنات کے خاندانِ عالیہ کی طہارت و پاکیزگی کا بیان کرتے ہوئے اپنی الوہی کتاب قرآن حکیم میں یوں ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیرًا.
’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔ ‘‘
(الاحزاب: 33)
کلامِ الٰہی میں اللہ رب العزت نے آپ رضی اللہ عنہ کے گھرانے کو اہلِ بیت کا لقب عطا فرما کر آپ کی عظمت اور رفعت کا چہاردانگ عالم میں ڈنکا بجا دیا اور تاقیامِ قیامت آپ کی ان عظمتوں اور رفعتوں کی بقا کی ضمانت جاری فرما دی۔ تاجدار کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلسل چھ ماہ تک آپ کو اہل البیت کی ندائے دلپذیر سے مخاطب فرما کر اہلِ اسلام کے دلوں میں آپ کے مقام و مرتبہ اور فضیلت کو ثبت کردیا اور مسلمانوں کو راہِ نجات سے روشناس کر دیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چھ ماہ تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول رہا کہ جب نماز فجر کے لیے تشریف لے جاتے تو سیدہ کائنات فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے دروازے کے پاس سے گزرتے تو فرماتے:
الصلاة یا اهل البیت.
’’اے اہل بیت نماز قائم کرو۔ ‘‘
اور پھر یہ آیت مبارکہ پڑھتے:
إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیرًا.
(الاحزاب: 33)
سیدہ کائنات کے فضائل و مناقب نہ ختم ہونے والی ایک طویل فہرست کے حامل ہیں جن سے کتبِ حدیث و آثار اور کتبِ سیر و تاریخ بھری پڑی ہیں۔ حضرت مسور بن مخرمۃ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
فاطمة بضعة منی ،فمن اغضبها اغضبنی.
’’فاطمہ میری جان کا ٹکڑا ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ ‘‘
(صحیح بخاری، باب: مناقب قرابة رسول اللہ، رقم: 351)
اس حدیث مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدۂ کائنات کو نہ صرف اپنی جان کا حصہ قرار دیا بلکہ اپنی امت کو برملا بتا دیا کہ جو مجھے خوش اور راضی دیکھنا چاہتا ہے وہ میری جان فاطمہ کو ناراض نہ کرے۔ میری شہزادی کی تعظیم و توقیر ہر ایک پر لازم ہے۔ جس نے میری جان کے ٹکڑے سیدہ فا طمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو ناراض کیاتو میں بھی اس سے ناراض ہوں۔
تاجدار کائنات اپنی شہزادی سیدہ فا طمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو بہت عزت دیتے تھے اور آپ کا بہت بلند اکرام کرتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سیدہ فا طمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو آتے ہوئے دیکھتے تو خوش آمدید کہتے اور کھڑے ہو جاتے۔ انہیں بوسہ دیتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھادیتے۔ جب سیدہ فا طمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف تشریف لاتے ہوئے دیکھتیں تو خوش آمدید کہتیں اور کھڑی ہو جاتی تھیں اور آپ کو بوسہ دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتیں۔
یہ اللہ کا خصوصی فضل وکرم ہے کہ جانِ حبیب، بنت رسول،سیدہ کائنات فا طمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو جنتی عورتوں کی سرداری عطا کی گئی اور ان کے دونوں شہزادوں کو جنتی نوجوانوں کی سرداری عطا کی گئی۔ یاد رہے کہ ہر زمانہ میں نیکوکار اور پاک خصلت خواتین کا وجود رہا ہے۔ اپنے اپنے زمانہ میں ان خواتین کا کوئی ہم پلہ نہ تھا اور ان کا بلند مقام و مرتبہ تھا مگر جب فاطمہ بنت رسول کی بات آئی تو آپ کی فضیلت عمومی اور مطلق ہے جو سب جہانوں اور زمانوں کو محیط ہے۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری زندگی میں سیدہ کائنات کو کبھی اپنے آپ سے الگ نہ کیا اور نہ خود سے دور رکھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کائنات سے ظاہری طور پر پردہ فرما گئے تو بھی آپ نے اپنی شہزادی کو زیادہ عرصہ کے لیے دور نہ رکھا بلکہ اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی سیدہ کائنات فا طمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو اس بشارت سے نوازا کہ میرے وصال سے آپ پریشان اور حزین نہ ہوں بلکہ آپ بھی جلد مجھ سے ملنے والی ہیں۔
یوں تو ہر انسان کی موت کا وقت مقرر ہے جو کسی صورت میں بھی ٹل نہیں سکتا مگر جب ہم سیدہ کائنات فا طمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے وصال کے لمحات دیکھتے ہیں اور آپ کی اللہ رب العزت اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ملاقات کی تیاری دیکھتے ہیں تو اس پر دل رشک کرتا ہے۔ ام المومنین حضرت ام سلمیٰj آپ کے لمحاتِ وصال کے بارے میں یوں بیان فرماتی ہیں:
جب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا وقتِ وصال قریب آیا تو میں ان کی تیمارداری کرتی تھی۔ مرض کے اس پورے عرصہ کے دوران جہاں تک میں نے دیکھا ایک صبح ان کی حالت قدرے بہتر تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی کام سے باہر گئے۔ سیدہ نے کہا:
اسْکُبِی لِی غُسْلًا فَسَکَبْتُ لَهَا غُسْلًا فَاغْتَسَلَتْ کَأَحْسَنِ مَا رَأَیْتُهَا تَغْتَسِلُ ثُمَّ قَالَتْ یَا أُمَّهْ أَعْطِینِی ثِیَابِیَ الْجُدُدَ فَأَعْطَیْتُهَا فَلَبِسَتْهَا ثُمَّ قَالَتْ یَا أُمَّهْ قَدِّمِی لِی فِرَاشِی وَسَطَ الْبَیْتِ فَفَعَلْتُ وَاضْطَجَعَتْ وَاسْتَقْبَلَتْ الْقِبْلَةَ وَجَعَلَتْ یَدَهَا تَحْتَ خَدِّهَا ثُمَّ قَالَتْ یَا أُمَّهْ إِنِّی مَقْبُوضَهٌ الْآنَ وَقَدْ تَطَهَرْتُ فَلَا یَکْشِفُنِی أَحَدٌ فَقُبِضَتْ مَکَانَهَا.
’’امی جان! میرے غسل کرنے کے لیے پانی لائیں۔ میں پانی لائی۔ آپ نے،جہاں تک میں نے دیکھا، بہترین غسل کیا۔ پھر بولیں: امی جان! مجھے نیا لباس دیں۔ میں نے انہیں نیا لباس دیا جسے انہوں نے پہن لیا۔ پھر فرمایا: امی جان! میرا بستر گھر کے درمیان میں کردیں، میں نے ایسا ہی کیا۔ آپ قبلہ رخ ہو کر لیٹ گئیں۔ ہاتھ مبارک رخسار مبارک کے نیچے کر لیا اور پھر فرمایا: امی جان! اب میری وفات ہوگی، میں پاک ہو چکی ہوں، لہذا کوئی مجھے عریاں نہ کرے۔ پس اسی جگہ آپ کی وفات ہو گئی۔ ‘‘
(مسند احمد بن حنبل، 6/ 461، الرقم: 27656)
اس سے پتہ چلا کہ سیدہ طاہرہ طیبہ نے اس عظیم الشان طریقہ سے اپنی زندگی گزاری کہ اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ملاقات کے لیے تیاری بھی خود کی اور خوب طہارت سے مزین ہو کر اپنی جان کو اللہ رب العزت کے سپرد کیا۔ چنانچہ مخدومہ کائنات حضرت سیدہ فا طمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے 3 رمضان المبارک 11 ہجری کو مدینہ طیبہ میں وصال فرمایا اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اہلِ بیت اطہار کی محبت و توقیر اور ادب عطا فرمائے۔
یوم شہداء بدر (17 رمضان المبارک)
غزوہ بدر 17 رمضان المبارک 2 ہجری کو مسلمانوں اور کفارِ مکہ کے مابین ہوا۔ لشکرِ اسلام کی قیادت تاجدارِ مدینہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے جبکہ لشکرِ کفار کی قیادت ابوجہل کے پاس تھی۔ اس غزوہ کو غزوہ بدر الکبریٰ اور یوم الفرقان کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ بدر ایک گاؤں کا نام ہے جو مدینہ طیبہ سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہاں پانی کے چند کنویں تھے اور شام سے آنے والے قافلے اسی مقام پر آکر ٹھہرتے تھے۔ قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کی تو قریشِ مکہ نے اسی وقت سے مدینہ طیبہ پر حملہ کرنے کی سازشیں شروع کر دیں۔ قریشِ مکہ مدینہ کے راستے شام کی طرف تجارتی سفر پر جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہیں یہ خبر ملی کہ مسلمان قریشِ مکہ کے شام سے آنے والے قافلہ پر حملہ آور ہونے کے لیے آرہے ہیں۔ چنانچہ قریش مکہ نے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ تکبر کے نشے میں مست ہو کر مدینہ طیبہ کا رخ کیا اور بدر کے مقام پر پہنچے تو وہاں لشکرِ اسلام سے جنگ ہوئی۔ اللہ رب العزت نے شیطانی طاقتوں کو نیست ونابود کردیا اور اہل اسلام کو عظیم الشان فتح و کامرانی عطا فرمائی۔ اسلامی لشکر 313 افراد پر مشتمل تھا۔ اسلحہ، خوردونوش، سواریاں بہت کم تھیں جبکہ مدِ مقابل کفار سر سے لے کر پاؤں تک اسلحہ سے لیس تھے۔ ان کی سواریاں بھی کثیر تھیں اور لاتعداد اونٹ اشیائے خوردونوش سے لدے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود کفار مکہ اس چھوٹے سے اسلامی لشکر کے وار کی تاب نہ لا سکے اور آخر کار انہیں دم دبا کر بھاگنا پڑا۔
لشکرِ اسلامی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہزاروں فرشتوں کی مدد حاصل تھی۔ کفار مکہ کے ستر سے زائد لوگ اس غزوہ میں واصلِ جہنم ہوئے اور تقریباً ستر لوگ قیدی ہوئے جبکہ 14 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔ شہداء بدر میں سے تیرہ حضرات تو میدانِ بدر ہی میں مدفون ہوئے مگر حضرت عبید ہ بن حارث نے چونکہ بدر سے واپسی پر منزل صفراء میں وفات پائی، اس لیے ان کی قبر شریف منزل صفراء میں ہے۔
اصحابِ بدر اور شہدائے بدر کی فضیلت اس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جنت کی بشارت دی۔ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إنی لارجو الا یدخل النار احد إن شاء الله تعالی ممن شهد بدرا، والحدیبیة، قالت: قلت: یا رسول الله، الیس قد قال الله: وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُهَاج کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا (مریم: 71). قال: الم تسمعیه، یقول: ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا (مریم: 72).
’’مجھے امید ہے جو لوگ بدر و حدیبیہ کی جنگوں میں شریک تھے، ان میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا، ا ن شاء اللہ۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں ہے:تم میں سے ہر ایک کو اس میں وارد ہونا ہے، یہ تیرے رب کا حتمی فیصلہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا: پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اسی میں اوندھے منہ چھوڑ دیں گے۔ ‘‘
(صحیح مسلم باب: من فضائل اصحاب الشجرة، الرقم: 2496)
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ایک بدری صحابی ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر انہوں نے اسلامی لشکر کی آمد کی اطلاع قریشِ مکہ کو کرنا چاہی مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا علم ہوگیا اور قافلہ کی روانگی کی اطلاع قریشِ مکہ کو نہ پہنچ سکی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان سے سخت انداز میں نبٹنے کا مشورہ دیا لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
إِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا یُدْرِیکَ؟ لَعَلَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اطَّلَعَ عَلَی أَهْلِ بَدْرٍ فَقَال: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ.
’’یہ بدر کی جنگ میں ہمارے ساتھ موجود تھے۔ تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالیٰ بدر والوں کے تمام حالات سے واقف تھا اور اس کے باوجود ان کے متعلق فرما دیا کہ جو جی چاہے کرو کہ میں نے تمہیں معاف کر دیا۔ ‘‘
(صحیح بخاری، باب فضل من مشهد بدر، الرقم: 3762)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حاطب رضی اللہ عنہ کا ایک غلام ان کی شکایت کرتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:
یا رسول الله، لیدخلن حاطب النار، فقال رسول الله صلی الله علیه وسلم: کذبت، لا یدخلها فإنه شهد بدرا، والحدیبیة.
’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !حاطب ضرور دوزخ میں جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے جھوٹ کہا حاطب دوزخ میں نہ جائے گا، وہ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھا۔ ‘‘
(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابه باب: من فضائل اهل بدر، 4/1942، الرقم: 2495)
غزوہ بدر اہلِ ایمان کے لیے اپنے اندر بے شمار اسباق اور دروس رکھتا ہے۔ اگر اہلِ اسلام کو غزوہ بدر کی روح سمجھ آجائے تو اللہ رب العزت کی مدد و نصرت آج بھی اتر سکتی ہے۔ بقول اقبال:
فضائے بدر پیدا کر ، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اللہ رب العزت اخلاصِ نیت سے جہاد کرنے والوں کو کبھی بھی محروم و مایوس نہیں کرتا، وہ ہمیشہ انہیں فتح و کامرانی سے نوازتا ہے۔ اگر آج بھی عالمِ اسلام کے فرزندان اہلِ بدر جیسا اخلاص پیدا کر لیں اور محنت سے آگے بڑھیں تو اللہ رب العزت کی مدد و نصرت کے حامل فرشتوں کا نزول بعید نہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ شہدائے بدر کے توسل سے تمام اہلِ ایمان پر اپنی نظرِ کرم فرمائے۔
یومِ مولائے کائنات سیدنا علی رضی اللہ عنہ (21رمضان المبارک)
مولائے کائنات حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ایک جلیل القدر صحابی رسول ہیں۔ آپ رشتہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں۔ آپ کا نبی آخر الزمان پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اصحاب میں شمار ہوتا ہے۔ آپ کا شمار اہلِ بیت میں سے بھی ہوتا ہے۔ آپ کی شجاعت و بہادری ناقابلِ فراموش ہے۔ آپ کی حکمت و فراست فقید المثال ہے۔ آپ کی روحانیت اور زہد ،چمکتے دمکتے ستارے کی مانند ہے۔ آپ علم وعرفان کے منبع و مصدر ہیں اور تقویٰ و ورع آپ کی طبیعت کا حصہ تھا۔ مولائے کائنات لاتعداد فقید المثال خوبیوں اور صفاتِ عالیہ کے مالک تھے۔ آپ کی ہر ہر خوبی کے بے شمار مظاہر ہیں جو مختلف مواقع پر آپ کے وجودِ مسعود سے ظاہر ہوتے رہے۔
آپ کے مناقب و فضائل اور صفات کا اس مضمون میں احاطہ کرنا ناممکن ہے کیونکہ آپ ہمہ جہت صفات کی مالک ہستی ہیں۔ آپ کی ہر صفت دوسری صفت سے نمایاں اور منفرد ہے۔ لہذا قارئین کے علمی ذوق کو بڑھانے اور سیدنا علی المرتضیٰ کے ساتھ روحانی وابستگی کو مزید پختہ کرنے کے لیے اس مقام پر آپ کی صفتِ شجاعت و بہادری کے چند مظاہر بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں:
1۔ غزوۂ بدر میں آپ نے شیبہ بن ربیعہ اور عتبہ بن ربیعہ کو واصلِ جہنم کیا۔ آپ کی تلوار نے اعدائے اسلام کو چن چن کر واصلِ جہنم کیا۔
2۔ غزوۂ احدمیں آپ نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آگے بڑھ کر علم سنبھالا اور چند صحابیوں کے ساتھ مل کر ان مشرکین کا رخ پھیر دیا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔
3۔ اسی شجاعت کا مظاہرہ آپ نے 5 ہجری میں غزوۂ احزاب کے موقع پرکیا اور عمروعبدود جو پورے عرب کا مانا ہوا مشہور پہلوان تھا، اس کی عمر نوے سال تھی اور پورے عرب میں اس کا مقابلہ کرنے کی کوئی طاقت نہ رکھتا تھا، غزوہ احزاب میں اس نے خندق کے پاس آکر مبارزت طلب کی اور نعرہ لگایا کہ ہے کوئی جو دوبدو میرا مقابلہ کرسکے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ مبارزت کے لیے آگے بڑھے۔ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر ہنسا اور بولا تم میرا مقابلہ کرنے آئے ہو، تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے تمسخر کا انداز اپناتے ہوئے کہا:
جب کوئی میرے ساتھ مقابلہ کے لیے آتا ہے تو میں اس کی تین خواہشات میں سے ایک ضرور پوری کرتا ہوں۔ بولو تمہاری کیا خواہش ہے؟حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
میری پہلی خواہش یہ ہے کہ تم ایمان لے آؤ۔ اس نے کہا: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بولے: میری دوسری خواہش یہ ہے کہ تم میدانِ جنگ سے واپس چلے جاؤ۔ وہ ہنسا اور بولا یہ بزدلی کا کام ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر تیسری خواہش یہ ہے کہ آؤ مقابلہ کرو تاکہ میں تمہیں قتل کر دوں۔
وہ حضرت علی کی بات پر چونکا اور برہم ہو کر گھوڑے سے اترا اور تھوڑی دیر تک سخت مقابلہ ہوا، آخر کار حضرت علی کی تلوار نے اسے کاٹ دیا۔
4۔ غزوہ خیبر میں آپ رضی اللہ عنہ نے شجاعت و بہادری کی لازوال داستان رقم کی۔ اُس موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَأُعْطِیَنَّ الرَّایَةَ أَوْ لَیَأْخُذَنَّ الرَّایَةَ غَدًا رَجُلًا یُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ’’أَوْ قَالَ‘‘: یُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ یَفْتَحُ اللَّهُ عَلَیْهِ.
’’کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا یا کل جھنڈا وہ شخص پکڑے گا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں یا یہ فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں خیبر کی فتح سے نوازے گا۔‘‘
(صحیح بخاری، باب:مناقب علی بن ابی طالب، الرقم: 3499)
اگلے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام پکارا مگر آپ آنکھوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا لعابِ دہن لگایا جس سے آپ کی تکلیف دور ہوگئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھنڈا آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دے دیا۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے آپ رضی اللہ عنہ کی بدولت خیبر کو مسلمانوں کا مقدر کر دیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ پر رمضان المبارک میں ملکِ شام سے آئے ہوئے عبد الرحمن بن ملجم نامی شخص نے مسجد کوفہ میں دورانِ نماز زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے حملہ کیا جس سے زہر کا اثر پورے جسم میں پھیل گیا۔ چنانچہ 21 رمضان کو بوقتِ فجر آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ اللہ رب العزت ہمیں اہل بیت اطہار کی عزت و تکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے توسل سے ہمیشہ ہم پر رحم و کرم فرمائے۔
گزشتہ سطور پر رمضان المبارک میں رونما ہونے والے چند ایک اہم اورقابل قدر واقعات کا تذکرہ کیا گیاہے۔ بلاشبہ ان ایام کا تذکرہ اہلِ ایمان کی قلبی و روحانی تسکین کا سبب ہے۔ سیرت سیدہ فاطمۃ الزہراء ہماری خواتین کے لیے اسوۂ حسنہ ہے اور انہیں چاہیے کہ وہ آپ کی سیرت کو اپنائیں اوراپنی زندگیاں اللہ کی اطاعت میں بسر کریں۔
اسی طرح غزوۂ بدر ایک طرف اہلِ ایمان کو جہاد، اخلاص، صبر و رضا کا درس دیتا ہے تو دوسری طرف اسلام کی حقانیت کی روشن دلیل بھی ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ اہلِ ایمان کی جان و طاقت ہے کیونکہ ذکر مولائے علی مومن اور منافق میں فرق کرنے کا اہم پیمانہ ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں رمضان المبارک کے روزے ایمان کے ساتھ رکھنے اور محاسبہ و احتساب کے ساتھ اس ماہِ مبارک کے ایام کو گزارنے اور عبادت و اطاعت بجالانے کی ہمت وتوفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم