ماہِ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ نیکیوں کی بہار کا موسم اپنے دامن میں اعمالِ صالحہ اور اصلاحِ احوال کی رغبت کا سامان لیے ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ بندۂ مومن کو رمضان المبارک کی صورت میں ایک ایسا روحانی ماحول میسر آنے والا ہے جس کا ہر ایک لمحہ ایمان میں مضبوطی و استحکام اور اعمال میں استقامت کی نوید لیے ہوئے ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کی پیروی میں ہر زمانہ میں مومنین اس مہینے کا شاندار استقبال کرتے آئے ہیں اور اس مہینے کی آمد سے قبل ہی اس کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔ رمضان المبارک دراصل نیک اعمال کی بوئی ہوئی فصل کاٹنے اور ثمرات سمیٹنے کا مہینہ ہے۔ یعنی اس مہینے میں سال بھر کے نیک اعمال کا اجر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں اور فیوضات کی شکل میں بندۂ مومن کا مقدر بنتا ہے۔
یہ مہینہ ایک ’’روحانی ورکشاپ‘‘ کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان نے اس ایک ماہ میں اعمال اور اصلاحِ احوال کے حوالے سے جو کچھ سیکھا ہے، اس پر سال کے بقیہ گیارہ ماہ بھی عمل پیرا رہے اور اس ماہ میں کئے گئے تمام نیک اعمال اور روحانی احوال کے اثرات اس کی شخصیت کا بھی مستقل حصہ قرار پائیں۔
شرعی طور پر روزے کی تعریف یہ ہے کہ مسلمان طلوع فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے، پینے اور نفسانی خواہشات کی تکمیل سے رُکا رہے لیکن روزے کا صحیح مفہوم اور مقصد یہ ہے کہ ظاہری اعضاء کے ساتھ ساتھ دل بھی تمام برائیوں اور رذائل کو خیر باد کہہ دے۔ پیٹ کا روزہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ دل کا روزہ نہ ہو۔ وہ شخص کیسے روزے دار کہلاسکتا ہے جو برے اور باطل اعتقادات رکھتا ہو، کتاب و سنت سے انحراف برتتا ہو اور حسد، بغض، کینہ، غیبت، استہزائ، حقارت اور نفرت کو اپنا وطیرہ بنائے رکھتا ہو۔
روزہ کا مقصد عاجزی و انکساری پیدا کرنا، رذائلِ نفس کو ختم کرنا اور خواہشاتِ نفسانی کو پامال کرنا ہے۔ اگر یہ مقاصد حاصل ہوں تو روزے سے اللہ تعالیٰ کا ایسا قرب حاصل ہوتا ہے کہ نہ صرف اس میں کی گئی دعا کو شرفِ قبولیت حاصل ہوتا ہے بلکہ مومن اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِهٖ کے فرمان میں موجود خوشخبری کا بھی حقدار بنتا ہے۔ رمضان المبارک میں بندگی اور اطاعت کی طرف طبیعت آمادہ ہوتی ہے، شرعی احکام پر یقین کے ساتھ انسان عمل کرتا نظر آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کھانے، پینے اور نفسانی خواہشات تک کو چھوڑ دیتا ہے۔
تقویٰ کا حصول، احکامِ الہٰی کو تسلیم کرنے کی طرف رغبت، نفس پر قابو، ہمہ وقت ایثار و قربانی کا پیکر بنے رہنا، خواہشاتِ نفسانیہ کی پامالی، باہمی الفت و اخوت، بھوکوں کی بھوک کا شعور و احساس اور محتاجوں کی ضروریات کا خیال یہ تمام فوائد روزہ رکھنے سے حاصل ہوتے ہیں۔ کامیاب مومن و مسلمان وہ ہے جو رمضان المبارک کے ان مقاصد و فوائد کو کماحقہ حاصل کرلیتا ہے۔
اِن مقاصد و فوائد کے حصول کے لیے رمضان المبارک میں ہم اپنے شب و روز کو کس طرح منظم کریں؟ اس کے لیے ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صالحین کے اُن اعمال کی طرف متوجہ ہونا ہوگا جو وہ رمضان المبارک میں اختیار کیا کرتے تھے۔ ان مبارک گھڑیوں میں ان کے معمولاتِ زندگی کیا تھے؟ تاکہ ہم بھی انہی ہستیوں کے طرزِ عمل سے روشنی لیتے ہوئے یہ مبارک مہینہ گزارنے کی سعادت حاصل کریں۔ رمضان المبارک میں انجام دینے والے درج ذیل اعمالِ صالحہ یقینا ہمیں اس ماہِ مقدسہ کے مقاصد و فوائد سے ہمکنار کرسکتے ہیں:
سخاوت کا موسم
رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت اور جود و کرم اپنی انتہاء پر ہوتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ اَجْوَدُ النَّاسِ وَکَانَ اَجْوَدُ مَایَکُونُ فِی رَمَضَانَ حین یلقاه جبریل فیدَارسه القرآن فلرسول الله صلی الله علیه وآله وسلم اجود من الریح المرسلة.
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان میں خصوصاً اس وقت زیادہ سخاوت کرتے جب جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملتے اور قرآن کا آپ کے ساتھ دور کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیز ہوا سے بھی زیادہ خیرات کیا کرتے تھے۔‘‘
(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب اجود ماکان النبی صلی الله علیه وآله وسلم یکون فی رمضان، 1902)
حضرت عبداللہ بن عباس کے ان الفاظ سے واضح ہورہا ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف رمضان میں سخاوت کیا کرتے تھے۔ سخاوت تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادتِ کریمہ تھی اور رمضان کے علاوہ بھی سخاوت کا یہ عمل جاری و ساری رہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے اس حد تک زیادہ سخی تھے کہ اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے انکار نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ عادت و خصلت رمضان المبارک میں اپنے کمال کو پہنچ جاتی اور آپ ’’الریح المرسلہ‘‘ (بڑی تیز اور ٹھنڈی ہوا) سے بھی زیادہ صدقہ و خیرات کرتے تھے۔ مراد یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر تیزی کے ساتھ صدقہ و خیرات کرتے کہ شب و روز یہ عمل جاری رہتا اور صرف یہاں تک نہیں بلکہ جس طرح ٹھنڈی ہوا ہر ایک کو طمانیت و سکون بخشتی ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی فقرائ، غربائ، یتامیٰ اور مساکین کو اس قدر دیتے کہ انہیں معاشی طور پر طمانیت اور سکون مل جاتا۔
تلاوتِ قرآن کی بہاریں
اِس ماہِ مبارک کو قرآن مجید کے نزول کی نسبت بھی حاصل ہے، اسی لیے رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا دوسرا اہم اور نمایاں پہلو کثرت سے قرآن حکیم کی تلاوت تھا۔ اس مبارک مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دورکرتے اور اس مہینے کی آمد پر ہمہ تن قرآن مجید کی تلاوت اور اس پر غور و تدبر میں مصروف ہوجاتے۔ قرآن کریم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ اس جیسا معجزہ اور کسی نبی اور رسول کو میسر نہیں آیا۔ دوسرے پیغمبروں کو جو معجزات ملے وہ وقتی معجزے تھے، جونہی وہ پیغمبر اس دنیا سے رخصت ہوتے، وہ معجزہ بھی ختم ہوجاتا لیکن قرآن کریم ایک ایسا زندہ و جاوید معجزہ ہے کہ قیامت تک باقی رہے گا۔
1۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم دیا:
اِقْرَاء عَلَی الْقُرْآن.
’’مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔‘‘
میں نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں قرآن آپ کو پڑھ کر سناؤں جبکہ یہ قرآن آپ پر نازل ہوا ہے۔ اس کی تعلیم میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِقْرَأ عَلَی الْقُرْآن فَانّی اَحبُّ اَن اَسْمَعه مِنْ غَیْرِی.
’’مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ، میری دلی چاہت ہے کہ میں اسے اپنے علاوہ کسی دوسرے سے سنوں۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تلاوت شروع کی اور جب آپ نے یہ آیت کریمہ پڑھی:
فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍم بِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی هٰٓؤُلَآءِ شَهِیْدًا.
’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔‘‘
(النساء: 41)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس آیت مبارکہ کو سماعت کیا تو ارشاد فرمایا:
بس بس رک جاؤ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا کہ آپ کی آنکھیں آنسو بہارہی تھیں۔
(صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب البکاء عند قرائه القرآن، 5055)
2۔ ابن ابی حاتم بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رات کی سہانی گھڑیاں قرآن حکیم کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ کی آیات میں غورو تدبر کرتے ہوئے گزارتے تھے۔ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر سے باہر نکلے، تو ایک انصاری عورت کو اپنے گھر میں ’’سورۃ الغاشیہ‘‘ کی تلاوت کرتے ہوئے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے دروازے کے پاس کھڑے ہوکر سننے لگے۔ وہ اس سورہ کو بار بار پڑھتی اور زارو قطار روتی رہی۔ یہ منظر دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عجیب کیفیت طاری ہوئی کہ یہ بڑھیا کس طرح اللہ کی خشیت میں لرزاں و ترساں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس تلاوت کو سن کر رونا شروع کردیا۔
جب بھی وہ عورت هَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَة پڑھتی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رونے لگتے اور فرماتے: ہاں میرے پاس یہ خبر آئی ہے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید سن کر اس میں غوروفکر بھی فرماتے۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن ابی حاتم الرازی، 10/ 3420، 19251)
افسوس! آج ہم اپنا وقت بات چیت، گپ شپ، کھیل کود اورسیر سپاٹے میں ضائع کرتے ہیں جبکہ صحابہ رات دن اللہ کی رضا کے لئے زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ وہ رات کو مصلیٰ عبادت پر اور دن کو میدانِ جہاد میں گھوڑے کی پیٹھ پر نظر آتے اور اسلام کے فروغ میں مصروف عمل رہتے۔
3۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھ سے سورۃ البینہ سنوں۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے جھومتے ہوئے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا اللہ نے میرا نام لیاہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اللہ تعالیٰ نے تیرا نام لیا ہے۔ اس بات سے متاثر ہوکر سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ پھر انہوں نے لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ کی تلاوت شروع کی اور سورۃ البینہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنائی۔
(صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار، باب مناقب ابی بن کعب رضی الله عنه، 3809، 4959، 4960، 4961)
قرآن مجید پر غورو تدبر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمول میں شامل تھا۔ رمضان مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کی تلاوت کا خاص اہتمام کرتے، اس لئے کہ یہ کتاب تعلق باللہ کی مضبوطی اور دلوں کا رخ اللہ رب العزت کی ذات کی طرف موڑ دیتی ہے۔ دلوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف پھیرنا ہی قرآن مجید کا اصل مقصد ہے اور یہی مقصد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمیشہ پیش نظر رہا۔۔
4۔ ایک دفعہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سحری کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر آئے تاکہ آپ کو نمازِ فجر کی اطلاع دیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کی یہ آیات پڑھ رہے ہیں:
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ. الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اﷲَ قِیٰـمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلاً سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لیے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلووں) میں فکر کرتے رہتے ہیں (پھر اس کی معرفت سے لذت آشنا ہو کر پکار اٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘
(آل عمران: 190-191)
آپ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے روتے ہوئے فرمایا:
ویل لمن قراها ولم یتدبر.
’’تباہی و بربادی ہے اس شخص کے لئے جس نے انہیں (مذکورہ آیات) پڑھا اور ان پر غورو تدبر نہیں کیا۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر، 2/ 169-170 )
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رمضان المبارک میں سب سے زیادہ نمایاں کام یہی ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور اس میں غورو تدبر کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین کا بھی یہی معمول رہا ہے کہ وہ رمضان المبارک کو قرآن مجید کے لئے مخصوص رکھتے اور بیشتر وقت اس کی تلاوت اور اس پر غورو تدبر کرنے میں مصروف ہوجاتے۔ اس میں غورو تدبر کرنے میں وہ لذت محسوس کیا کرتے تھے اور یہ ان کی زندگی کا معمول تھا۔ رمضان المبارک کا مہینہ قرآن مجید پر غورو تدبرکے لحاظ سے نہایت موزوں ہے۔ اگر اس مہینے میں غورو تدبرنہیں کیا تو پھر اس کے لئے اس سے زیادہ مناسب وقت بھلا کون سا ہوسکتا ہے۔
عبادت میں انہماک
رمضان کی راتوں میں جب اندھیرا چھا جاتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یکسو ہوکر عبادت میں مصروف ہوجاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رمضان کی راتوں میں قیام اور سجود بقیہ مہینوں کی نسبت نہایت اعلیٰ اور عمدہ ہوتا۔ جب سے ہم مسلمانوں نے رات کا قیام ترک کیا، اس وقت سے ہمارے سینوں میں ایمان و یقین کمزور ہوگیا۔ آج نئی نسل اس طرح سے زندگی بسر نہیں کرتی جس طرح سے ہمارے اسلاف زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ نئی نسل میں سستی کاہلی بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ عام شب و روز تو بڑی دور کی بات ہے رمضان المبارک میں بھی تلاوت، عبادت، قیام اللیل ہماری طبیعتوں پر بڑا گراں گزرتا ہے۔ ویسے گھنٹوں ہم دوست احباب کی محافل میں لایعنی اور بے مقصد باتوں میں گزار دیتے ہیں مگر رات کے چند لمحات بھی اللہ رب العزت کی رضا اور اپنے احوالِ قلبی کی اصلاح کے لیے صرف نہیں کرتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کی راتوں میں بالخصوص قیام اللیل کا اہتمام فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام اللیل کے سبب آپ کے پاؤں مبارک متورم ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عبادت میں اس انہماک ہی کو دیکھتے ہوئے فرمایا:
مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی.
’’(اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑجائیں۔‘‘
(طه، 20: 2)
صحابہ کرام عرض کرتے: یارسول اللہ! لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وماتاخر کے مصداق اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے تو ہماری بخشش کی نوید سنائی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر ریاضت و مجاہدہ کیوں فرماتے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے:
اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا؟
’’کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام اللیل ہی کی کیفیت کو اللہ رب العزت نے ’’سورۃ المزمل‘‘ کا موضوع بنایا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت اور کثرت سے رات کو عبادت کو اپنا معمول بنائیں۔ ماہِ رمضان روح کی تجدید کا مہینہ ہے۔ یہ قیمتی لمحات برکت کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ جہنم سے آزادی کی نوید بھی اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔ جس شخص نے رمضان کو پالیا لیکن اس نے اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے آزاد نہ کرالیا، اس کے لئے ندامت اور نقصان ہی نقصان ہے۔
رمضان المبارک میں لوگ زیادہ سے زیادہ قرآن مجید ختم کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ انہیں زیادہ ثواب ملے گا۔ اجرو ثواب تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مل جاتا ہے لیکن روح کی غذا، یقین کی دولت اور ایمان کی تازگی تو قرآن مجید پر غورو تدبر اور اس کے احکامات پر عمل کرنے سے ہی ممکن ہے۔
عجب شے ہے لذتِ آشنائی
رمضان المبارک میں ذکرِ الہٰی، استغفار، مناجات، گریہ و زاری اور اللہ کے حضور امت کے لئے دعائیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات کا حصہ ہوتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود تو صومِ و صال رکھتے مگر صحابہ کو منع فرماتے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس امر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع و اطاعت کی خواہش ظاہر کی تو فرمایا۔
اِنِّیْ لَسْتُ مِثْلُکُمْ اِنَّ رَبِّیْ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِی.
میں تم جیسا نہیں ہوں میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔
(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب الوصال، 1963)
صومِ وصال کے دوران اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک دل پر معارف کے فیض کی صورت میں روحانی غذا نازل کی جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس فیض کی لذت محسوس ہوتی، ذکرِ الہٰی کی مٹھاس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آشنا ہوتے اور دعا کی شیرینی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لطف اندوز ہوتے، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح کو تازگی محسوس ہوتی۔ ذکرِ الہٰی، تنہائی میں دعا اور مناجات سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنی لذت محسوس ہوتی کہ کھانے کا خیال ہی دل میں نہ آتا اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے جسم میں توانائی بھی محسوس ہوتی۔
یہ اسی طرح ہے کہ جیسے ہم میں سے بعض لوگوں کو جب بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے تو وہ کھانا پینا بھول جاتے ہیں۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کی بندگی سے اتنا زیادہ خوش ہوتے کہ آپ کو کھانے پینے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ عبادت کے دوران آپ کا دل انتہائی خوش ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے میں انشراح پیدا ہوجاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کیفیت کو کھانے پینے کے قائم مقام جانتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذکرِ الہٰی، تسبیح، استغفار، کثرتِ دعا کے ذریعے روحانی غذا حاصل کیا کرتے تھے۔ ہمیں چاہئے کہ رمضان کے مہینے میں ذکر الہٰی، مناجات، استغفار اور دعاؤں میں اپنے آپ کو مشغول رکھیں اور ان لمحات میں برستی ہوئی رحمت و برکت کو زیادہ سے زیادہ سمیٹیں۔
حصولِ تقویٰ
روزے کے مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد تقویٰ حاصل کرنا ہے۔ تقویٰ اسی صورت میں حاصل ہوسکے گا کہ روزے اس طرح رکھے جائیں جس طرح ان کے رکھنے کا حق ہے۔ اصل عبادت ہی یہ ہے کہ بندہ اللہ کی راہ میں اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اعمال سرانجام دے۔ اعمال کی اس انجام دہی کے دوران طبیعت میں کسی قسم کی کوئی اکتاہٹ محسوس ہو اور نہ ہی بھوکے پیاسے رہنے میں کسی قسم کی کوئی دشواری محسوس ہو۔
یاد رکھیں! کافر اس دنیا میں دو دفعہ مرتا ہے اور مومن دو دفعہ زندہ ہوتا ہے۔ کافر کی ایک موت تو اس وقت ہوتی ہے جب وہ لا الہ الا اللّٰہ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اور دوسری موت اس وقت ہوتی ہے جب اس کی زندگی کے دن پورے ہوجاتے ہیں۔
مومن دو دفعہ پیدا ہوتا ہے اور دو زندگیاں بسر کرتا ہے۔ پہلی زندگی دنیا میں آنے کی صورت میں ہے اور دوسری زندگی اسے اسلام قبول کرنے کی صورت میں میسر آتی ہے۔ یاد رہے کہ بہت سے لوگ زندہ ہوتے ہیں لیکن حقیقی زندگی سے محروم ہوتے ہیں۔ کھاتے پیتے ہیں لیکن وہ حقیقت میں زندہ نہیں ہوتے۔ اصل زندگی یہ ہے کہ انسان کا دل اللہ کی طرف سفر کرے۔۔۔ اصل زندگی وہ ہے جو اللہ کی یاد میں بسر ہو۔۔۔ حقیقی زندگی یہ ہے کہ ہم اپنی عمر کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور رضا کے مطابق گزاریں۔
مردہ اور زندہ قلوب میں فرق کی حقیقت سے قرآن مجید یوں پردہ اٹھاتا ہے:
اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰـهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا.
’’بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لیے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لیے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔‘‘
(الانعام: 122)
رمضان المبارک دلوں کو حیات بخشنے کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں عبادات کی کماحقہ ادائیگی نہ صرف بندۂ مومن کے اپنے لیے روشنی اور نور کا باعث ہے بلکہ پھر وہ بندۂ مومن اوروں کو بھی روشن اور منور کرنے کے مقام پر فائز ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہِ مقدسہ کا ادب کرنے، اس کا حق ادا کرنے اور ان بابرکت لمحات سے اپنے قلوب و ارواح کے لیے زندگی اخذ کرنے کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم