تنہائی اور قربت کے لمحات کا احساس ہر انسان کے لیے مسحور کن ہوتا ہے۔ ماں جب اپنے شیر خوار بیٹے کو سینے سے لگاتی ہے، فرمانبردار اولاد بڑھاپے میں والدین کی راحت اور آرام کے لیے جس لمحہ ان کے قریب ہوتی ہے اور اسی طرح اپنے وطن سے دور دیارِ غیر میں سخت پریشانی کے عالم میں جب کوئی اپنا مل جائے تو قربت کے ان لمحات میں فرحت کا ایک عجیب احساس ہوتا ہے۔ اولاد اور والدین کے درمیان، دو دوستوں یا ایک ہی علاقے و زبان سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان محبت و قربت کے تعلقات ہوں، ہر قرب انسان کو کیف و سرور کی ایک کیفیت عطا کرتا ہے۔ کسی بھی جماعت کے کارکن کو جب اپنے محبوب قائد یا لیڈر سے تنہائی یا قربت میں ملاقات کا موقع میسر آئے تو وہ اس کی زندگی کا یادگار لمحہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جب کسی مرید کو یہی قرب اپنے شیخ سے میسر آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ’’یک زمانہ صحبتِ باولیاء بہتر از صد سالہ طاعتِ بے ریا‘‘۔ جب کوئی حرمِ کعبہ میں داخل ہوتے ہوئے پہلی نگاہ بیت اللہ پر ڈالتا ہے تو یہ اللہ کے گھر کی قربت کا لمحۂ خاص ہوتا ہے اور جب کسی عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گنبدِ خضریٰ یا جالی مبارک پر نظر پڑتی ہے تو اس وقت وہ قربِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج پر ہوتا ہے اور زبانِ حال سے عرض کرتا ہے:
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
قرب کی انہی لذتوں کے حصول کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام بھی ملتجی رہے۔ سیدنا زکریا علیہ السلام رات کی تنہائیوں میں انہی قربتوں کو تلاش کرتے۔ ان کی اِس کیفیت کا تذکرہ اللہ رب العزت نے یوں فرمایا:
اِذْ نَادٰی رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِیًّا.
’’جب انہوں نے اپنے رب کو (ادب بھری) دبی آواز سے پکارا۔‘‘
(مریم، 19: 3)
یہ کوہِ طور پر گزرنے والی 40 راتوں کا وہ پر کیف احساسِ قرب ہی تو تھا جو موسیٰ علیہ السلام کو دیدار کی طلب تک لے آیا اور زبان سے یہ کلمات ادا ہونے لگے:
رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ.
’’اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں۔‘‘
(الاعراف، 7: 143)
قرب کی لذتوں کا اندازہ تو محب کی نگاہوں کی مدہوشی سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی میں مذکور دیدارِ الهٰی کی قربتوں میں کیا لذتیں تھیں کہ خدا کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پلٹتے ہوئے بھی مڑ مڑ کر جلوۂ خداوندی کا نظارہ کررہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس کیفیت کی گواہی قرآن یوں دے رہا ہے:
وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰی. عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰی.
’’اور بے شک انہوں نے تو اُس (جلوهِٔ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو) سِدرۃ المنتھیٰ کے قریب۔‘‘
(النجم، 53: 13-14)
الغرض کائنات کا ہر شخص اپنے محبوب کی قربت اور توجہ کا طلبگار ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت ایک طرف کائناتِ انسانی کا محبوبِ حقیقی ہے تو دوسری طرف اپنی بنائی ہوئی مخلوقات خصوصاً انسان سے محبت بھی فرماتا ہے۔ اللہ رب العزت کی اپنے بندوں سے کیا خوب محبت ہے کہ وہ اپنے عاشقوں کے لیے تخلیہ یعنی تنہائی کا ماحول خود فراہم کرتا ہے۔ متعدد احادیثِ صحیحہ میں ہے کہ رمضان المبارک کا چاند طلوع ہوتے ہی اللہ رب العزت شیاطین کو جکڑ دیتا ہے اور جہنم کے دروازے بند کردیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
’’جب رمضان شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطان (زنجیروں میں) جکڑ دیئے جاتے ہیں۔‘‘
(صحیح بخاری فی الصحیح، کتاب: بدء الخلق، باب: صفة إبلیس وجنوده، 3/ 1194، الرقم: 3103)
یوں اللہ رب العزت اپنے بندوں کو رمضان المبارک میں تنہائی فراہم کرتا ہے کہ اس کا بندہ شر، فتنے اور فساد کے ماحول سے آزاد ہوکر خالص اللہ رب العزت کا قرب تلاش کرے۔ رمضان المبارک کے آغاز سے ایک ایسا ماحول پیدا ہوجاتا ہے کہ اللہ کے ہاں وہ عبادت گزار بندے جو فجر کی اذان سے بیدار ہوتے تھے، اب رات کے پچھلے پہر اذانِ فجر سے بھی پہلے سحری کے لیے بیدار ہوتے ہیں۔ ایسے محبوب بندوں کو اللہ رب العزت اپنے قرب کی طرف پکارتا ہے:
ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ میں اس کی جھولی اس کی مرادوں سے بھردوں۔۔۔ ہے کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا کہ میں اس کے گناہ معاف فرمادوں۔۔۔ ہے کوئی مجھ سے رزق مانگنے والا۔۔۔ ہے کوئی مجھ سے اولاد مانگنے والا۔۔۔ ہے کوئی مجھ سے ہدایت طلب کرنے والا کہ میں اس کو اس کی چاہت سے نواز دوں۔
الغرض رمضان المبارک کی راتیں اللہ سے تنہائی میں راز و نیاز کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اللہ رب العزت اس تخلیہ یعنی تنہائی (شر، باطل اور فتنہ و فساد سے دوری) کو آہستہ آہستہ اپنے قرب سے بدلتا ہے۔
رمضان المبارک کا تیسرا عشرہ شروع ہوتا ہے تو وہ اپنے بندے کو دعوت دیتا ہے کہ بندے آ! اب اپنا گھر بار، بیوی بچے والدین سب کو چھوڑ کر میرے قرب کی تلاش میں میرے گھر آجا یعنی اعتکاف کی صورت میں میرے گھر (مسجد) میں ڈیرے لگالے۔ پس تیسرا عشرۂ رمضان اعتکاف کی صورت میں اللہ رب العزت کی بارگاہ کا قرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھاسے مروی ہے کہ
’’ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب الاعتکاف، باب: الاعتکاف فی العشر الاوخر و الاعتکاف فی المساجد، 2/713، الرقم: 1922)
رمضان کے آخری عشرہ میں کیے جانے والے اس اعتکاف پر اللہ کی بارگاہ سے کتنا ثواب ملتا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بھی بیان فرمایا۔ حضرت علی بن حسین رضی اﷲ عنہما اپنے والد (حضرت امام حسینں) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف کرتا ہے اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔‘‘
(الطبرانی فی المعجم الکبیر، 3/128، الرقم: 2888)
اعتکاف تنہائی کو قرب میں بدلنے کا ذریعہ ہے۔ دنیا کا دستور یہ ہے کہ جب کوئی سوالی حاجت روا کے دروازے پر آجائے تو سخی اسے خالی نہیں پلٹاتے تو وہ مالک و مولیٰ تو سب سے بڑھ کر سخی اور عطا کرنے والا ہے، جب کوئی حاجت مند کائنات کے خالق و مالک کے در پر 10 دنوں اور راتوں کے لیے ڈیرہ لگالیں تو وہ ذات باری اپنے منگتوں کو نہ صرف دین و دنیا کی خیرات عطا کرتی ہے بلکہ طاق راتوں میں اپنے قرب کی تلاش کا راستہ بھی دکھاتی ہے۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمول مبارک کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ
’’جب رمضان کے (آخری عشرہ) کے دس دن باقی رہ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کمر بند کس لیتے اور اپنے اہلِ خانہ سے الگ ہو (کر عبادت و ریاضت میں مشغول ہو) جاتے۔‘‘
(احمد بن حنبل فی المسند، 6/66، الرقم: 24422)
ماہِ رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جو انسان کو تنہائی (شر اور فتنہ و فساد سے دوری) عطا کرتا ہے، رمضان کا آخری عشرہ بندے کو اللہ کے گھر (اعتکاف کی صورت میں) بٹھا کر اس کا قرب عطا کرتا ہے۔ آخری عشرے کی طاق راتوں میں اللہ رب العزت اپنے بندوں کو لیلۃ القدر کی صورت میں اس خلوت اور تنہائی کو اختیار کرنے کا صلہ اور اجر عطا کرتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (اور ایک روایت میں ہے کہ رمضان کی آخری سات طاق راتوں) میں تلاش کیا کرو۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب صلاة التراویح، باب تحری لیلة القدر فی الوتر من العشر الاواخر، 2/710، الرقم: 1913)
لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ کی مصداق یہ رات ہزار راتوں سے بہتر ہے، اسی لیے رب کی قربتوں کے متلاشی لیلۃ القدر کی تلاش میں ہر طاق رات اس کے حضور سر بسجود ہوکر عرض کرتے ہیں:
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
سالانہ اجتماعی مسنون اعتکاف
تحریک منہاج القرآن رمضان المبارک کے آخری عشرے میں سالانہ اجتماعی مسنون اعتکاف کی صورت میں بندگانِ خدا کو اللہ کے قرب اور خلوت کے حصول کا ذریعہ فراہم کرتی ہے۔ ایک ایسا اعتکاف جس میں ہزاروں بندگانِ خدا ہر وقت اللہ کے حضور عبادت و بندگی میں مشغول رہتے ہیں اور اس کے حضور گریہ و زاری کر کے اس کی رضا اور قرب کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ اس روحانی اجتماع میں لیلۃ القدر کی رات دنیا بھر سے کروڑوں مسلمان شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی دعا میں شریک ہوکر اللہ کے حضور سچی توبہ کرکے، اپنے قلوب و اذہان کو ہر قسم کی گندگی اور غلاظت سے پاک کرکے اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انوار سے اپنا دامن بھرتے ہیں۔ توبہ، اصلاحِ احوال اور آنسوئوں کی ایسی بستی آباد ہوتی ہے جس میں کہیں ذکرِ الہٰی کے حلقے ہوتے ہیں تو کہیں حلقاتِ قرآن۔۔۔ ایک طرف فقہی نشستیں منعقد ہوتی ہیں تو دوسری طرف خدمتِ دین کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے لیکچرز کا اہتمام۔۔۔ ایک طرف محافلِ نعت سے معتکفین کے سینوں میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع فروزاں کی جاتی ہے تو دوسری طرف دروسِ تصوف سے اصلاحِ احوال کا فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے۔۔۔ کہیں فکری نشستوں میں احیائِ اسلام کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے تو کہیں تنظیمی نشستوں میں اللہ کے دین کی نوکری کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے۔ الغرض منہاج القرآن کا سالانہ مسنون اجتماعی اعتکاف نہ صرف اللہ رب العزت کے قرب کا ذریعہ ہے بلکہ احیائِ اسلام کی جدوجہد کا تسلسل ہے۔
یہ اعتکاف جہاں بہت سارے فوائد و ثمرات سے نوازتا ہے وہاں یہ صالحین کی صحبت کے حصول کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ اس لیے اللہ رب العزت اپنی عبادت و بندگی کے لیے صالحین کی ذواتِ مقدسہ کی صحبت اختیار کرنے کا بھی حکم دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ.
’’(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں)۔‘‘
(الکهف، 18: 28)
قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیدنا طاہر علائوالدین الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی صحبت اور مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے علمی و فکری اور روحانی موضوعات پر مشتمل خطباتِ و دروس حاضرین و سامعین کی ذہنی و باطنی جِلا کا سامان فراہم کرتے ہیں اور ان کے تزکیۂ نفوس و قلوب کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن ایک تجدیدی تحریک ہونے کے ناطے عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق اعتکاف کا صحیح تصور عوام کے سامنے پیش کررہی ہے۔