ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
(پہلے حصے کے مطالعے کے لیے یہاں کلک کریں)
زیرِ نظر مضمون کے پہلے حصہ (شائع شدہ اپریل 2019ء) میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تقویٰ کی وضاحت کرتے ہوئے اس کی شرائط اور تقاضوں کو بالتفصیل بیان فرمایا۔ آپ نے اس امر کی وضاحت کی کہ ہم نے ترجیحات میں اختلاط کے باعث تقویٰ اور اس جیسے دیگر ایمانی حقائق کو عملاً نظر انداز کر رکھا ہے۔ ہم دینِ اسلام کے کسی ایک تصور یا عبادت میں سے Pick & Choose کی روش پر گامزن ہیں، اس بناء پر وہ ایمانی حقیقت جسے مکمل طور پر اختیار کرنے کا حکم ہے، اس پر جزوی عمل کے باعث ہم اس کے کماحقہ اثرات و نتائج سے محروم رہتے ہیں۔ قرآن مجید ہدایت ہے مگر ہدایت کا معنی ہر ایک کے لیے یکساں نہیں ہے۔ ھدیً للناس کا معنی ’’وضاحت کے ساتھ بیان کرنا‘‘ ہے کہ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہر ضروری چیز کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ جبکہ ھدیً للمتقین کے اعلان سے قرآنی ہدایت کے حقدار صرف متقین کو ٹھہرایا گیا ہے۔ شیخ الاسلام نے قرآنی مرتبہ ہدایت پر فائز ہونے کے لیے یقین کے حصول اور تشکیک کے سدِّباب کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے تشکیک اور تذبذب کا علاج صحبتِ صالحہ کو قرار دیا اور معنوی صحبت کی وضاحت کرتے ہوئے اس کی اقسام کو بیان فرمایا۔ اس مضمون کا آخری حصہ نذرِ قارئین ہے:
تقویٰ اور ہدایت کے باہمی تعلق اور شرائط و تقاضوں کے مطالعہ کے بعد اب آیئے تقویٰ کے نتائج و ثمرات اور اس کے انفرادی و اجتماعی زندگی پر اثرات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
تقویٰ اور حق و باطل میں فرق کا شعور
متقین کو اللہ رب العزت کی بارگاہ سے نصیب ہونے والی ہدایت کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متقی کو حق و باطل میں فرق کرنے کا شعور عطا ہوجاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا ﷲَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَاناً.
’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لیے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا۔‘‘
یعنی تقویٰ کے ذریعے تمہیں یہ بنیادی شعور مل جائے گا کہ تم حق و باطل اور خیر و شر میں فرق کرنے کی صلاحیت و معرفت کے حامل ہوجاؤ گے۔
ہماری اصل ضرورت اور تقاضا نیکی اور بدی، خیر اور شر، گمراہی اور ہدایت میں فرق کرنے کے شعور کا حصول ہے اور تقویٰ سے پیدا ہونے والے نور سے اللہ تعالیٰ ہمیں یہ شعور عطا فرمادیتا ہے۔ پھر اُس نور سے ایک خاص قسم کا علم اور معرفت متقی شخص کا نصیب ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی اُمّی (جو کسی مدرسہ و مکتب میں نہیں پڑھے) اولیاء اپنے وقت کے قطب ہوئے اور ولایت میں اعلیٰ مرتبے تک پہنچے۔ انہوں نے علم و حکمت کی کتابیں امت کو دیں، ہزار ہا لوگوں تک رُشد و ہدایت پہنچائی اور ساری مخلوق کے مرجع بنے حالانکہ خود ایک سطر بھی نہ لکھ سکتے تھے اور ایک دن بھی کسی مکتب میں استاذ کے پاس جاکر ایک صفحہ نہیں پڑھے تھے۔ اُن کو یہ تمام علم و معرفت اور مرتبۂ فرقان بطریقِ تقویٰ ہی حاصل ہوا تھا۔
تقویٰ اور رنج و غم سے آزادی
تقویٰ سے جہاں حق و باطل اور نیکی و بدی میں فرق کا شعور حاصل ہوتا ہے وہیں تقویٰ کے ذریعے انسان کو اللہ رب العزت کی بارگاہ سے دنیا و آخرت کے رنج و غم سے نکلنے کی سبیل بھی میسر آجاتی ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَمَنْ یَّتَّقِ ﷲَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا.
’’اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے۔‘‘
(الطلاق، 65: 2)
تقویٰ اختیار کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مخرج (Exit) عطا کیا جاتا ہے، اس مخرج (Exit) سے کیا مراد ہے؟ اس کی وضاحت ایک مثال سے کرتا ہوں۔ اگر ہم کسی ایسے شہر یا گاؤں جانا چاہتے ہوں جو موٹروے پر نہیں ہے لیکن ہم سفر موٹروے پر کر رہے ہوں تو موٹروے پر جگہ جگہ exit بنے ہوتے ہیں۔ ہم کسی Exit پر اترتے ہیں تو ہمیں وہ راستہ مل جاتا ہے جو سیدھا ہمیں ہمارے متعلقہ گاؤں یا شہرمیں لے جاتا ہے۔ گویا جب ہم کسی ایک خاص صورت حال (Situation) میں پھنسے ہوئے ہوں تو جس راستے یا ذریعے سے اُس سے نکل جائیں تو اس راستہ کو مخرج (exit) کہتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم شک، شبہ، گناہوں، بربادی، خطرات، ذہنی ضلالات، تنگیوں اور پریشانیوں میں پھنسے ہوئے ہوں تو تقویٰ ہمیں مخرج (exit) دے گا اور اس مشکل سے باہر نکال دے گا۔ معلوم ہوا کہ تقوی کے ذریعے ایک ایسی راہنمائی ملتی ہے جو ہمیں الجھن سے نکال کر منزل تک پہنچاتی ہے۔۔۔ تقویٰ ایک ایسا راستہ کھول دے گا کہ پریشانیوں اور شکوک و شبہات کی فضا میں ایک exit آ جائے گا۔۔۔ ایک بند جگہ چشمے کی طرح کھل جائے گی اور وہاں سے اس کے لیے نور پھوٹ پڑے گا۔ ارشاد فرمایا:
اَفَمَنْ شَرَحَ ﷲُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ.
’’اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہوجاتا ہے۔‘‘
(الزمر، 39: 22)
یعنی جس کا سینہ اللہ تعالیٰ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے تو اُسے بطریقِ تقوی نور ملے گا اور وہ نور اُسے شرحِ صدر، انفتاح اور معرفت عطا کرے گا۔
تقویٰ از خود (itself) دلیل ہے
اللہ رب العزت کے فرمان ’’ھدیً للمتقین‘‘ میں ہدایت سے مراد دلیل اور حجتِ قاطعہ ہے۔ ایسی دلیل جو مکمل رہنمائی (Complete Guidance) ہے اور صحیح راہ اور منزلِ مقصود تک پہنچانے والی ہے۔
دلیل کی دو قسمیں ہیں:
- وہ بات جس سے استدلال و استنباط کیا جاتا ہے۔
- وہ بات جو بذاتِ خود (Itself) دلیل ہے۔
دلیل کی پہلی قسم وہ ہے جس سے ہم علوم و فنون میں استدلال و استنباط (derive) کرتے ہیں، عقل و صلاحیت استعمال کرتے ہیں اور کوئی مطلوبہ چیز اخذ کرتے ہیں۔ وہ دلیل جس سے بطریقِ استدلال further intellectual effort اور مزید دماغی، ذہنی، محنت کے ساتھ اخذ کرنے سے ہدایت ملے، هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ میں مذکور ہدایت سے مراد یہ دلیل نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایسی دلیل اہلِ علم کے لیے آگے مسائل سمجھانے کے لیے ہوتی ہے۔ اگر ہدایت سے مراد یہ دلیل لیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن مجید صرف پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ہدایت ہے جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ قرآن مجید نے یہاں هُدًی لِّلْعُلَماء، هُدًی لِّلْفُقَهَاء، هُدًی لِّلْمُتَکَلِّمِیْن، هُدًی لِّلْفَلاسفة اور هُدًی لِّلْمُتَفَکِّرِیْن نہیں کہا کہ قرآن مجید تدبر و تفکر کرنے والوں اور اہلِ علم و فن کے لیے ہدایت ہے بلکہ فرمایا:
هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo
(یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔
متقی کے لیے بہت بڑا عالم و فقیہ ہونا، متکلم، فلسفی اور منطقی ہونا ضروری نہیں۔ ضروری علمِ دین تو ہر شخص کے لیے لازم ہے، اس لیے کہ اُس کے بغیر تقویٰ نہیں مگر متقی ہونے کے لیے بہت اونچے درجے کا عالم ہونا اور علم کے بڑے اونچے مرتبے درکار نہیں ہیں۔ اس لیے کہ تقویٰ وہ دلیل ہے کہ جس کے ساتھ قطعی علم، شعور، معرفت، فہم اور فرقان نصیب ہوتا ہے۔ تقویٰ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو استدلالِ نظری، استدلالِ عقلی اور استدلالِ فکری پر مبنی ہو بلکہ تقویٰ از خود (itself) دلیل ہے۔ پڑھا لکھا آدمی قرآن پڑھے تو اُسے بھی ہدایت ملے گی لیکن شرط یہ ہے کہ تقویٰ ہو۔۔۔ اَن پڑھ قرآن پڑھے تو اُسے بھی روشنی مل جائے گی۔۔۔ ظلمت کا قفل ٹوٹ جائے گا۔۔۔ اندھیرے میں بھی نور کی ایک کرن اور چشمہ پھوٹ پڑے گا۔۔۔ لیکن شرط یہ ہے کہ بندہ متقی ہو۔ تقویٰ کی دولت سے دامن معمور ہو تو پھر بندۂ مومن کتابوں کا محتاج نہیں رہتا بلکہ قرآن مجید اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ خود اس کی کفیل ہوجاتی ہے۔
اگر قرآن مجید ایسی ہدایت یا دلیل ہوتا جو صرف منطقی و فلسفی استدلال سے ممکن ہے تو پھر صرف وہی بندے ہدایت پاتے جو زیادہ تعلیم یافتہ ہوتے اور اس سے اخذ و استنباط کے قابل ہوتے۔ اس صورت میں اُن لوگوں کا کیا قصور جو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں مگر متقی ہیں۔۔۔ سادا دن ہل چلاتے ہیں، مگر نماز، روزہ کی پابندی کرتے، حلال و حرام کا خیال رکھتے، رذائلِ اخلاق سے پاک اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل ہیں تو ایسے لوگوں کا کیا قصور ہے کہ وہ قرآنی ہدایت سے محروم رہیں۔۔۔؟
پس قرآن مجید سب لوگوں کے لیے بنفسہ (itself) دلیل ہے، یہ از خود منبعِ ہدایت ہے لیکن شرط یہ ہے کہ تقوی ہو۔
قرآن مجید کیونکر منبعِ ہدایت ہے۔۔۔؟
قرآن مجید قلب میں یقین پیدا کرتا ہے اور اس یقین کے ذریعے ہدایت کے مزید راستے کھلتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّکُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖٓ اِیْمَانًاج فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّهُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ.
’’اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان (منافقوں) میں سے بعض (شرارتاً) یہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کون ہے جسے اس (سورت) نے ایمان میں زیادتی بخشی ہے، پس جو لوگ ایمان لے آئے ہیں سو اس (سورت) نے ان کے ایمان کو زیادہ کردیا اور وہ (اس کیفیت ایمانی پر) خوشیاں مناتے ہیں۔‘‘
(التوبة، 9: 124)
اللہ رب العزت عام مومنین کی بات کر رہا ہے کہ جب کوئی سورت اترتی ہے یا سورت کی کچھ آیات اترتی ہیں تو وہ دل جن میں صرف ایمان ہے، اُس سورت کے نازل ہونے سے ہی اُن کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔ یہاں اللہ رب العزت نے عقل، حکمت، استدلال، فلسفیانہ، منطقی اور دانشورانہ کاوشوں سے سیکھنے، سمجھنے، تفسیر کرنے، معانی پر بات کرنے، دلائل سے اخذکرنے، الغرض کسی بھی اس طرح کی چیز کو بیان نہیں فرمایا بلکہ صرف اتنا فرمایا کہ جونہی قرآن کی کوئی سورت اور آیات نازل ہوتی ہیں اور یہ اسے سنتے ہیں تو اس آیت کا نفسِ مضمون ہی فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّهُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ کے مصداق اُن کا ایمان بڑھا دیتا ہے اور اُنہیں ہدایت مل جاتی ہے۔ گویا قرآن کا متن Itself انہیں ہدایت سے نوازتا ہے۔
پھر ارشاد فرمایا:
وَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا.
’’اور جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے تو اس (سورت) نے ان کی خباثت (کفر و نفاق) پر مزید پلیدی (اور خباثت) بڑھا دی۔‘‘
(التوبة، 9: 125)
یہی آیات اور سورتیں جب وہ لوگ سنتے ہیں جن کے دلوں میں ظلمت و خرابی ہے تو محض سننے سے ہی اُن کے اندر پلیدی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ پلیدی شک وشبہ، ارتیاب و نافرمانی، تردد و کنفیوژن اور Ifs & buts ہیں۔
ایک طرف ان ہی سورتوں اور آیات کا یہ اثر (effect) ہو رہا ہے کہ محض سن اور پڑھ کر ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ایمان بڑھنے کا مطلب ہے کہ نور بڑھتا ہے۔ نور بڑھتا ہے تو فرقان کا مرتبہ آتا ہے، روشنی آتی ہے، اندھیرے چھٹتے ہیں اور حق اور باطل کا فرق سمجھ میں آتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اُن کے دل صحت مندتھے اور دل کے صحت مند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اندر تقویٰ موجود تھا۔
دوسری طرف وہ لوگ تھے جن کے دلوں میں مرض ہے، اُن پر اِن آیات اور سورتوںکے پڑھنے سے یہ اثر ہوا کہ ان میں ایمان کے بڑھنے کی بجائے پلیدی، شک اور تردد بڑھنے لگ جاتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے دل بیمار ہیں اور دل کے بیمار ہونے کا مطلب ہے کہ ان دلوں میں تقویٰ موجود نہیں ہے۔
محلِّ تقویٰ کہاں ہے؟
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَمَنْ یُّـعَـظِّـمْ شَعَآئِرَ ﷲِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِo
’’اور جو شخص اﷲ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اﷲ یا اﷲ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہوگیا ہو)۔‘‘
(الحج، 22: 32)
معلوم ہوا کہ تقویٰ دل کے حال کو کہتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر تقوی کی جگہ قلب ہے۔ تقوی پہلے دل میں ہوتا ہے اور پھر دل میں قائم ہونے والا تقویٰ آنکھوں، ہاتھوں، کانوں، خیالات، دماغ، پاؤں الغرض تمام اعضائے جسم میں قرار پکڑ لیتا ہے۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ ﷲِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ ﷲُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰیط لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ.
’’بے شک جو لوگ رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لیے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہے۔‘‘
(الحجرات، 49: 3)
مذکورہ دو آیات اِس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ محلِ تقوی دل ہے۔ تقوی کا اسٹیشن دل ہے اور پھر وہاں سے مختلف ٹریکس اور لائنز آگے جاتی ہیں۔ جس طرح ایک ریلوے سٹیشن پر مختلف اطراف میں جانے کے لیے متعدد ٹریکس اور لائنز ہوتی ہیں، اسی طرح تقوی کا اصل چشمہ قلب ہے، جہاں سے پیدا ہونے والے اثرات تمام انسانی اعضاء کو کنٹرول کرتے ہیں۔
تقویٰ کی شرط: ایمان بالغیب
اگر تقوی نصیب ہو اور دل سنور جائیں تو پھر ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ سے متصلاً بعد فرمایا:
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ
متقین وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں یعنی بِن دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ بنی اسرائیل اور پہلی دیگر امتیں اپنے انبیاء سے نتائج کا مشاہدہ کروانے کا تقاضا کرتی تھیں کہ نتائج دکھائیں تب ایمان لائیں گے۔ وہ ایمان لانے کو نتائج اور مشاہدہ کے ساتھ مشروط کرتی تھیں۔ وہ ایمان بالمشاہدہ والی تھیں، ایمان بالغیب (بغیر دیکھے ایمان لانا) کی حامل نہ تھیں۔
بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ
لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی ﷲَ جَهْرَةً.
’’ہم آپ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ ہم اللہ کو (آنکھوں کے سامنے) بالکل آشکار دیکھ لیں۔‘‘
(البقرة، 2: 55)
یعنی ہمیں اللہ دکھا دیں، ہم اسے دیکھ لیں تو ایمان لے آئیں گے اور جو آپ کہتے ہیں، اُس کو مان لیں گے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: نہیں، یہ طریقہ درست نہیں۔ معلوم ہوا کہ نہ صرف تقویٰ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ ایمان کا تعلق بھی بن دیکھے ماننے سے ہے، مشاہدہ کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر دیکھ کر مانا تو وہ ایمان نہیں ہے۔
فرعون جب ڈوبنے لگا اور اُس نے دیکھ لیا کہ میں غرق ہو رہا ہوں تو کہا کہ میں موسیٰ کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ اُس کا ایمان قبول نہ ہوا، حالانکہ اُس نے اعلان کردیا تھا کہ میں ایمان لاتا ہوں۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ دیکھ کر ایمان لانے کا اعلان کررہا تھا۔ اُس نے دیکھ لیا تھا کہ میں غرق ہو رہا ہوں اور موسیٰ علیہ السلام اپنا لشکر لے کر نکل گئے ہیں۔ وہ نتیجہ دیکھ کر ایمان لایا، لہذا ایمان کا اعلان کرنے کے باوجود اس کا ایمان قبول نہیں ہوا، کیونکہ شرط الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ ہے۔
مستقبل میں کیا ہوتا ہے۔۔۔؟ نتائج کیا نکلتے ہیں۔۔۔؟ یہ دیکھے بغیر جو ایمان لائے وہی مومن اور وہی متقی ہے۔ یہ کیفیت ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی ہوگی۔
ایمان، تصدیق کا نام ہے
ایمان اصلاً تصدیق کا نام ہے اور پھر آدمی اُس تصدیقِ قلب کا زبان سے بھی اقرار کرتا ہے۔ یاد رکھیں! تصدیق مشاہدے کی نہیں بلکہ خبر کی ہوتی ہے اور خبر ہمیشہ غیب سے متعلق ہوتی ہے۔ جس چیز کو انسان دیکھ رہا ہو، اُس کی تصدیق نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو مشاہدہ ہے۔ تصدیق اُس کی ہوتی ہے جسے بندہ خود نہیں دیکھ رہا، بلکہ کوئی اور خبر دے رہا ہے۔ اللہ کے نبی ہمیں جن امور اور عقائد کی خبر دیتے ہیں، ہم نے اُن اشیاء یا ہستیوں کو از خود نہ سنا اور نہ دیکھا، پس اللہ کے نبی کی خبر کو مان لیا۔ اِس کو تصدیق کہتے ہیں اور اس تصدیق کا نام ایمان ہے۔
علماء، اساتذہ، طلبہ اور متکلمین یاد رکھ لیں! ایمان تصدیق کا نام ہے اور کفر تکذیب کا نام ہے۔ کسی چیز کی تصدیق اور تکذیب کا تعلق مشاہدہ سے نہیں ہے۔ اگر کوئی مشاہدہ کی تکذیب کرے گا تو اس کو پاگل پن، جھوٹ، عناد اور تعصب کہیں گے۔ پس تصدیق یا تکذیب ہمیشہ خبر کی ہوتی ہے اور خبر وہ ہوگی جو بالغیب ہوگی۔
کفار کو جب حضور علیہ السلام نے خبرد ی کہ مجھے آج رات معراج ہوئی ہے اور میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ اور پھر ساتوں آسمانوں سے ہوتا ہوا لامکاں تک گیا اور واپس آگیا تو کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دی جانے والی اس خبر کی تصدیق کے لیے شہادت مانگی۔ کیوں؟ اِس لیے کہ جس کے بارے خبر دی جارہی تھی، اُسے وہ دیکھ نہیں رہے تھے۔ اگر آقا علیہ السلام ایک ایسی بات فرماتے جو اُنھیں نظر آرہی ہوتی اور وہ اس کا مشاہدہ کر رہے ہوتے تو اُس کی تصدیق کا مطالبہ نہ کرتے۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ’’صدیق‘‘ کے لقب سے نوازے جانے کی وجہ بھی یہ تھی کہ انہوں نے اس خبر کی تصدیق کردی جس کو اگرچہ انہوں نے خود دیکھ یا سن نہ رکھا تھا مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتانے پر اس کو مان لیا اور اس کی تصدیق کردی، نتیجتاً وہ ’’صدیق‘‘ ہوگئے۔ یعنی انہوں نے ایک ایسی خبر کی تصدیق کی، جو نہ دیکھی گئی، نہ دیکھی جا سکتی ہے ، نہ کسی اور material sources، حواس اور دیگر ذرائع سے کوئی اس کو verify کر سکے گا۔ غیب کی خبر سُن کر سننے والے کے پاس دو ہی آپشن ہیں کہ مان لے یا انکار کر دے۔ انکار کفر ہے اور مان لینا ایمان ہے۔ پس خبر وہ ہوتی ہے جس پر تکذیب اور تصدیق کا انحصار ہوتا ہے۔
اللہ رب العزت نے هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ سے پہلے لاَرَیْبَ فِیْهِ فرماکر شک کی جڑ کاٹی اور هُدًی لِّلْمُتَّقِیْن کے معاً بعد الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْب فرماکر بھی شک کی جڑ کاٹی۔ یعنی شک کی جڑ کاٹنے اور یقین قائم کرنے کے حصار میں ’’تقویٰ‘‘ کو بیان کیا۔ جب اس طرز، بنیاد اور نہج پر تقویٰ پیدا ہوجائے تو پھر اعمالِ صالحہ وہ نتائج اور فوائد دیتے ہیں جس سے نور پیدا ہوتا ہے اور درجات بلند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر ایمان کی عمارت کی foundation اس طریق پر استوار نہ ہو تو اس پر قائم کی گئیں دیواریں اور چھت کمزور ہوتی ہیں۔
ایمان کی عمارت اعمالِ صالحہ ہیں
تقویٰ کی بنیاد پر قائم ایمان کی عمارت ’’اعمال‘‘ ہیں۔ اللہ رب العزت نے ایمان کی بنیاد ’’تقویٰ‘‘ کو واضح کرنے کے بعد اعمال کی طرف متوجہ فرمایا کہ
وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَo
’’اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں۔ اورجو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں۔‘‘
متقین ایک طرف شک و ارتیاب کی جڑ کاٹتے اور یقین کے حامل ہوتے ہیں تو دوسری طرف وہ اعمالِ صالحہ کو بھی فراموش نہیں کرتے بلکہ وہ نماز کو اس کی تمام شرائط، خشوع و خضوع اور اخلاصِ قلب و نیت کے ساتھ قائم کرتے ہیں۔ گویا دنیا اور آخرت میںاللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ جو کچھ انہیں اللہ کی بارگاہ سے میسر آتا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یہ لوگ زکوۃ اور واجب و نفلی صدقات بھی دیتے ہیں اور اللہ کے دین کی سربلندی، دعوتِ دین کو پھیلانے، حضور علیہ السلام کے پیغام و مشن کو عام کرنے اور انسانیت کے فائدہ کے لیے جسم کی طاقت و توانائی اور اپنی عقلی و دماغی صلاحیت بھی خرچ کرتے ہیں۔ یہ تمام کچھ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ کے تحت آتا ہے۔ جسم کی سلامتی، صحت، علم، مال اور طاقت بھی رزق ہے جو اللہ کی بارگاہ سے ہمیں میسر ہے۔
پھر ارشاد فرمایا:
وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ.
’’اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘
یعنی نتائج کو دیکھنے کی شرط نہیں لگائی بلکہ فرمایا آپ پر اور آپ سے پہلے جو کچھ نازل کیا، اُس کو بھی بغیر دیکھے مان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے۔ If & But نہیں کرتے، ’’اگر‘‘، ’’مگر‘‘، ’’ایسا ہو‘‘، ’’کچھ نظر آئے‘‘، ’’کچھ پتہ چلے‘‘، اس طرح کی باتیں نہیں کرتے بلکہ ایمان اس حد تک ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے اتر چکا، وہ زمانہ ہی نہیں دیکھا مگر پھر بھی اس کو مان لیتے ہیں۔ گویا ایمان بالغیب اتنا پختہ ہونا چاہیے۔ پھر فرمایا:
وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ.
’’اورآخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں۔‘‘
بات لاَ رَیْبَ فِیْہِ سے شروع کی تھی، شک کی جڑ کاٹنے اور یقین سے بات کا آغاز کیا تھا اور اختتام بھی یقین پر فرمایا۔ گویا اول بھی یقین ہے اور آخر بھی یقین ہے اور جو اِن تمام شرائط اور اس پورے پیکج کو قبول کرلے وہی متقی ہے۔
پھر ارشاد فرمایا:
اُولٰٓـئِکَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِم وَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
’’وہی اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی حقیقی کامیابی پانے والے ہیں۔‘‘
یعنی متقین اللہ کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہ ہدایت وہ ہے جو اِنہیں کامیابی کی منزل تک پہنچائے گی۔ گویا ہدایت کا معنی اور مرتبہ بھی واضح فرمادیا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پائیں گے، کامیاب وکامران اور سعادت مند ہوں گے۔ یہ ساری کامیابیاں اُن کو نصیب ہوں گی جو اللہ کی طرف سے ہدایت پر فائز ہوں گے اور متقین ہوں گے۔ معلوم ہوا کہ متقین وہ ہیں جو ایمان بالغیب کے یقین کے ساتھ دنیاوی و اُخروی طاعت، عبادات، معاملات اور زندگی کی ساری کوششوں (struggles) میں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے تابعِ فرمان رکھیں گے۔
ایمان اور کفر کا تعلق دل سے ہے
جب دل سنور جائیں تو ہدایت کا راستہ کھل جاتا ہے اور یقین، ہدایت، کامیابی و کامرانی آجاتی ہے اور دوسری طرف جب دل بگڑ جائیں تو کفر کا راستہ کھل جاتا ہے اور دلوں اور کانوں پر بھی مہر لگ جاتی ہے۔ پھر سن کر بھی ہدایت نہیں ملتی، آنکھوں پر بھی پردہ آجاتا ہے اور دیکھ کر بھی ہدایت نہیں ملتی۔ الغرض ہدایت کے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں۔
گویا ایمان و تقوی کا تعلق بھی دل سے ہے اور کفر و نافرمانی اورہلاکت و بربادی کا تعلق بھی دل سے ہے۔ ہدایت کی ابتداء شک کو ختم کرکے اپنی حالت کو یقین میں بدلنے سے ہوتی ہے۔ اس کے حصول کے لیے تدبیر یہ ہے کہ وہ ساری جگہیں، دوستیاں، تعلقات، صحبتیں، سنگتیں اور وہ سارا سننا و دیکھنا جن سے تشکیک و تذبذب داخل ہوتا ہے، اُن کو خیر باد کہنا ہوگا۔ اس کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ اگر ان کو برقرار رکھ کر ہم ایمان بالغیب، تقویٰ، یقین، کامیابیاں اور ہدایت لینا چاہیں تو یہ قطعی ناممکن ہے اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف ہے۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان، تقویٰ اور ہدایت کے اس تصور کی طرف متوجہ کرے اور ہمیں اسے اپنانے کی توفیق مرحمت فرمائے کہ ہم اسے اپنی زندگی کا manifesto (دستور) بنائیں اور اِس سے اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور چاہت کے مطابق اپنے دامن کو معمور کرتے چلے جائیں۔ آمین بجاہِ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم