اداریہ: خدا کو کیوں مانیں؟ شیخ الاسلام کے فکر انگیز خطابات

چیف ایڈیٹر ماہنامہ منہاج القرآن

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے امسال شہر اعتکاف 2024ء کے موقع پر فکر انگیز اور بصیرت افروز خطابات کئے۔ ان کے خطابات نوجوانوں میں پھیلتے ہوئے الحاد اور مذہب بیزاری کے تناظر میں تھے۔ انہوں نے مسلسل 6 راتیں ’’خدا کو کیوں مانیں؟ مذہب کو کیوں اپنائیں؟‘‘ کے عنوان پر اظہار خیال فرمایا۔ وجودِ باری تعالیٰ کی حقیقت کے بارے میں جہاں قرآن و سنت کے تناظر میں دلائل و براہین کا انبار تھا وہاں سائنسی ایجادات کے ذریعے اللہ وحدہ لاشریک کی ذاتِ کبریا کا اقرار بھی تھا۔ شیخ الاسلام کے خطابات کا ایک ایک حرف اُمت کے نوجوانوں کو فتنۂ دہریت اور لادینیت کی یلغار سے بچانے کے لئے ادا ہوا۔ انہوں نے اُمت کے نوجوانوں کو خبردار کیا کہ سوشل میڈیا اور کچھ ویب سائٹس کے ذریعے مذہب اور خدا سے دور کیا جارہا ہے۔ اس فتنے کا رد اور نوجوانوں کو فکری انتشار سے بچانا ایک بہت بڑا چیلنج اور ذمہ داری ہے۔

انہوں نے اپنے خطاب میں ایک اہم سوال اٹھایا کہ دہریت پر مبنی سوچ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لئے واویلا کرتی ہے کہ جب کسی نے اللہ اور جنت و دوزخ کو دیکھا نہیں ہے اور نہ ہی ان کے وجود کو سائنس کے ذریعے ثابت کیا گیا ہے تو پھر ہم ان دیکھی چیزوں پر یقین کیسے کر لیں؟ انہوں نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ اس باطل اور گمراہ کن پروپیگنڈا کا رد کرتے ہوئے جواب دیا کہ جو سائنس دان ایٹم اور اس کے منقسم ذروں نیوٹران، الیکٹران اور پروٹان کو دیکھے بغیر یہ اقرار کرتے ہیں کہ ان کا وجود ہے، اگرچہ آج تک کسی سائنسدان نے انہیں دیکھا اور نہ ہی کوئی ایسی خوردبین تاحال ایجاد ہوئی ہے جو ان ذرات کو دیکھ سکے، اس کے باوجود کوئی سائنسدان ان کی حقیقت کا انکار نہیں کرتا۔ ان ذروں کے وجود کے بارے میں سائنسدانوں نے یقین بالغیب سے کام لیا مگر کائنات کے بنانے اور اسے چلانے والی ہستی کے وجود کے بارے میں ثبوت مانگے جاتے ہیں جو سوائے گمراہی اور کم علمی کے کچھ نہیں ہے۔

انہوں نے اللہ کے وجود پر مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انسان کا سارا علم حواسِ خمسہ کا مرہون منت ہے۔ یہ حواس جو دیکھتے، سنتے، چکھتے، چھوتے اور سونگھتے ہیں، ان کے سگنل دماغ کو پہنچا دیتے ہیں اور پھر دماغ ان کی تاثیر اور اثرات کے بارے میں حکمنامہ جاری کرتا ہے یعنی دماغ ازخود کسی تاثیر کا نتیجہ اخذ نہیں کرتا۔ جب اللہ کی ذات حواسِ خمسہ کے علم سے بالاتر ہے تو یہاں اللہ کی حقیقت کے بارے میں دماغ کی ٹامک ٹوئیوں پر انحصار کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اسی لئے قرآن مجید میں ایمان بالغیب کا بڑی صراحت کے ساتھ حکم صادر فرما دیا گیا کہ اللہ ہے مگرآپ حواسِ خمسہ اور دماغ کی محدود استعداد کے ذریعے اُس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ یہاں ایمان بالغیب کی فلاسفی اور اہمیت وناگزیریت ظاہر ہوتی ہے۔

شیخ الاسلام نے اپنے خطاب کے دوران ایک اہم معاملہ کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ انہوں نے اس موضوع پر دن رات مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ جو جو لوگ اللہ کے وجود کے خلاف منفی اور مضحکہ خیز دلائل دیتے ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی کسی مضمون کا مستند عالم یا سائنسدان نہیں ہے۔ اس بحث کو آگے بڑھانے والوں میں زیادہ تر فرسٹریشن اور ڈپریشن کے مارے ہوئے لوگ ہیں، جن کے اپنے کچھ نفسیاتی مسائل ہیں۔ جن لوگوں کا اپنا علم ناقص اور محدود ہو، وہ لامحدود کے وجود کا احاطہ کیسے کرسکتے ہیں؟

شیخ الاسلام نے فرمایا کہ قرآن مجید نے اسی لئے علم کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور قرآن مجید عقل والوں سے ہی مخاطب ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ اقراء ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قرآن مجید میں 856 آیات ایسی ہیں جو علم کی اہمیت اور افادیت پر زور دیتی ہیں۔ 1000 آیات ایسی ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ سائنس اور اس کی برانچز سے متعلق ہیں۔ سائنس کی ساری ایجادات کی عمر 2 سے 3 سو سال کے درمیان ہے۔ 2 صدیاں قبل تک سائنس کا انحصار ٹامک ٹوئیوں پر تھا جب کہ قرآن نے 14 سو سال قبل کائنات کی حقیقت کے بارے میں حقائق کھل کر بیان کردئے تھے۔ سائنس جو بھی ایجاد کرتی ہے، درحقیقت وہ قرآن مجید کے بیان کئے گئے حقائق کی توثیق و تصدیق ہے۔

انہوں نے اپنے خطابات میں فرمایا کہ قرآن واحد کتاب ہے جو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ جو کتاب اپنے ماننے والوں کو غور و فکر اور تدبر کی دعوت دے، اس کا دیا ہوا علم مبہم کیسے ہو سکتا ہے؟ مسلم نوجوان علم کیساتھ اپنا رشتہ قائم کریں، تحقیق و تدبر سے کام لیں اور علم پر محنت کریں۔ جو شخص بھی علم سے محبت کرے گا، علم پر محنت کرے گا، اس پر کائنات کے راز اور کائنات کی حقیقت وا ہوتی چلی جائے گی اور پھر کوئی ذہنی مریض اُسے گمراہ یابدراہ نہیں کر سکے گا۔ مسلمانوں کی میراث ہی علم و تحقیق ہے۔ سائنس جو ایجادات کررہی ہے وہ درحقیقت اللہ کی واحدانیت اور حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت کی تصدیق ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے جو جو فرمایا وہ سچ ہے اور آپ ﷺ سچی خبریں سنانے والے برحق پیغمبر ہیں۔ قرآن مجید کا ایک ایک حرف آپ ﷺ کے ذریعے انسانیت تک پہنچا۔

شیخ الاسلام نے ایک کہنہ مشق وکیل اور سائنسدان کی طرح ہزاروں معتکفین کے روبرو وجود باری تعالیٰ اور مذہب کی ضرورت و اہمیت پر اپنا مقدمہ پیش کیا اور جامع المنہاج کے وسیع و عریض صحن میں قائم شہر اعتکاف میں اندرون و بیرون ملک سے آئے ہوئے ہزاروں معتکفین ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر رخصت ہوئے۔ امسال یہ شہر اعتکاف مسجد کا صحن کم اور سائنس کی تجربہ گاہ زیادہ لگ رہا تھا۔ شیخ الاسلام قرون اولیٰ کے مسلم سائنسدانوں کی طرح کائنات کے اسرار و رموز اور اس کی تخلیق و تشکیل کی غرض و غایت اور اس کی حقیقت سے پردے اٹھارہے تھے اور سامنے بیٹھے ہزاروں معتکفین اللہ کی واحدانیت اور رسالت مآب ﷺ کی نبوت پر ناز کررہے تھے۔ ہر زبان پر ایک ہی کلمہ رواں تھا کہ درس و تدریس، تعلیم و تعلم اور پڑھنے پڑھانے کا یہ منظر فی زمانہ ان آنکھوں نے کہیں اور نہیں دیکھا۔ معتکفین کا برملا اعتراف تھا کہ پہلے اللہ کو علم الغیب کے ذریعے و احد جانتے تھے، آج شیخ الاسلام نے ہمیں دل کی آنکھ سے اللہ کے وجود بر حق کو دکھا دیا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے 6 روزہ خطابات کے ذریعے قرآن مجید کی سائنسی اہمیت اور حقیقت تو بیان کی مگر اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان سمیت پوری دنیا کے علمائے کرام، مبلغین، واعظین، ائمہ مساجد اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کو خطابات کا ایک نیا موضوع دے دیا ہے اور وہ موضوع ہے قرآن اور سائنس۔ آج کا نوجوان روایت پرست نہیں ہے، وہ ہر چیز کو سائنسی نتائج کے پیمانے پر پرکھتا ہے۔ علمائے کرام اپنے مطالعہ کو عصری تقاضوں کے مطابق وسعت دیں اور نوجوانوں کے ساتھ اُن کی علمی استعداد کے مطابق مکالمہ کریں۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ شہرِ اعتکاف کے خطابات کو باربار خود بھی سنیں، عزیز و اقارب کو بھی سنائیں، دوست احباب تک بھی ان خطابات کو پہنچائیں، فی الوقت یہ ایک بلند تر خدمتِ دین ہے۔