شہرِ اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟‘‘ کے موضوع پر خطابات ارشاد فرمائے۔ امسال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات کی انفرادیت یہ تھی کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے وجود پرسائنسی حقائق کو بیان کرتے ہوئے باقاعدہ طور پر نہایت ہی خوبصورت نظم کے ساتھ ان سائنسی انکشافات کو تصویری صورت میں بھی سکرین پر دکھانے کا اہتمام فرمایا جس سے یہ مشکل ترین موضوع ہر ایک کے لیے سمجھنا نہایت آسان ہوگیا۔ ان خطابات کے خلاصہ جات نذرِ قارئین ہیں:
1۔ موضوع: اِیمان بالغیب، قرآن اور سائنس
21 ویں شب رمضان / 31 مارچ 2024ء شہر اعتکاف کی پہلی نشست سے ’’ایمان بالغیب، قرآن اور سائنس‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :
اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَـکُمْ مَّا فِی السَّمٰـوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَهٗ ظَاھِرَۃً وَّبَاطِنَۃً وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ھُدًی وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ.
(لقمان، 31: 20)
’’(لوگو!) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ الله نے تمہارے لیے ان تمام چیزوں کو مسخّر فرما دیا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، اور اس نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے (بھی) ہیں جو الله کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب (کی دلیل) کے۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ میں واضح فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی ذات اور اس کے وجود اور اس کی ذات و صفات کے بارے میں جھگڑا کرنے والوں کے پاس ان تین بنیادی دلائل میں سے کوئی ایک دلیل بھی نہیں۔ نہ ان کے پاس آسمان سے اتری ہوئی روشن کتاب ہے کہ اس سے راہ حق کو پا لیں، نہ ان کے پاس واضح ہدایت اور قطعی دلیل ہے اور اور نہ ان کے پاس علم، دانش اور تحقیق کی دولت ہے۔ گویا پیغام یہ دیا گیا کہ لوگ اللہ کے بارے میں اپنے گمان، ظن اور تخمینہ سے کام نہ لیں بلکہ علم، تحقیق، دانش، ہدایت، ضابطہ اور روشنی کی بنیاد پر اس کو تلاش کریں اور اس تک پہنچیں۔ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْکَ مُبٰـرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰـتِهٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ.
(صٓ: 29)
’’یہ کتاب برکت والی ہے۔ جسے ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ دانشمند لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں۔ ‘‘
اللہ رب العزت نے دراصل ان آیات کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ جسے اللہ کو جاننا ہو اور اللہ کا پتہ معلوم کرنا کہ اللہ کہاں ہے؟ وہ موجود ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کہاں ہے؟ اس کو کیوں مانیں؟ اس کے بھیجے ہوئے دین و مذہب کو کیوں اپنائیں؟ جسے یہ جاننا ہو تو وہ دائیں بائیں کسی سمت نہ دیکھے اور مفروضات اور گمانوں پر کبھی بھروسہ نہ کرے بلکہ سیدھا اس مبارک کتاب کی طرف آجائے، اسے اللہ کا پتہ اسی کتاب کی آیات کے اندر سے مل جائے گا۔
اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر خدا ہے تو اس کا پتہ کیا ہے؟ وہ کہاں ہے؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پتہ اس کا ہوتا ہے، جو ایک جگہ موجود ہو۔ جو ہر جگہ موجود ہو اور ساری کائنات جس کے احاطہ میں ہو، اس کا مخصوص پتہ نہیں ہوتا۔ جس طرح کا پتہ ہم جاننا چاہتے ہیں، اس طرح کا پتہ اس کا نہیں ہے۔ جس طرح ہوا کا پتہ نہیں کہ کہاں سے آتی ہے، کہاں رہتی ہے؟ مگر چونکہ اس کی موجودگی سے ہم ہیں، اس لیے معلوم ہوا کہ وہ ہے۔ جس طرح روشنی کا پتہ نہیں کہ کہاں رہتی ہے مگر یہ ہر طرف ہے۔ اسی طرح اللہ بھی ہر طرف ہے۔ کھربوں کہکشاؤں سے اللہ وسیع ہے۔ یہ کائنات اس قابل نہیں کہ وہ اللہ کا پتہ بتائے مگر جب اس کائنات میں غوروفکر کریں گے تو وہ اللہ کی موجودگی کا اعلان کرتی نظر آتی ہیں۔
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ دین تو انسان کی آنکھیں بند کردیتا ہے، وہ جن باتوں پر ایمان لانے کا کہتا ہے، وہ تو دکھائی نہیں دیتیں۔ لہذا جو نظر نہیں، آتے ان کو کیسے مان لیں؟ یاد رکھیں! ایمان بالغیب سے ہدایت کا راستہ نکلتا ہے۔ غیب کا معنی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ غیب غیر موجود کو نہیں کہتے بلکہ ہر وہ شے جو موجود تو ہو مگر مشہود نہ ہو یعنی دکھائی نہ دے سکے اسے غیب کہتے ہیں۔ اس لیے کہ ہماری دیکھنے کی حد ہے، ہم محدود ہیں۔ اس لیے اس لامحدود کو دیکھ نہیں سکتے۔ ایمانیات (ارکان ایمان) موجود ہیں مگر ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے۔ ان کی موجودیت کائنات کی ہر شے سے زیادہ پختہ ہے۔ کسی شے کو ماننے کے دو طریقے ہیں:
1۔ حواسِ ظاہری سے جاننا (مشاہدہ کرنا)
2۔ دکھائی دینے والی چیزوں کی خصوصیات، احوال، اعمال کو دیکھ کر اس میں سے نتیجہ اخذ کرنا کہ یہ سب کچھ خود نہیں ہورہا بلکہ ان کے پیچھے کوئی ہے۔ یہ بھی جاننے کا ایک طریقہ ہے۔
اللہ کو حواسِ ظاہری اور دماغ سے سمجھنے کی کوشش کریں گے تو اللہ کو محدود بنانے کی کوشش کریں گے اور یہ امر ہمارے لیے ہلاکت کا باعث ہوگا۔ ہم میں سے ہر ایک نے ایٹم اور خلیہ کے نیوکلیئس (مرکزہ) کا نام سن رکھا ہے مگر آج کے دن تک کسی سائنسدان نے کسی بھی ذریعے سے ایٹم اور نیوکلیئس (مرکزہ) کو نہیں دیکھا۔ جس کو آج تک دیکھا نہیں، ساری دنیا اس کو مانتی ہے۔ پونے 8 ارب انسانوں اور لاکھوں سائنسدانوں میں سے کسی نے اسے نہیں دیکھا۔ اگر نظر نہ آنے پر اس کے موجود ہونے کا انکار کرنا ہے تو سب سے پہلے ایٹم اور نیوکلیئس کا انکار کرنا ہوگا۔ ایٹم اور نیوکلیس حتی کہ ایٹم کے تین ذرات نیوٹران، پروٹان اور الیکٹران کو نہ دیکھنے کے باوجود تمام دنیا ان کو مانتی ہے۔ حیران کن بات ہے کہ ان تمام سائنسی حقائق کو نہیں دیکھا مگر پھر بھی مانتے ہیں اور وہ ایمانی حقائق جن کو اللہ اور رسول نے بتایا کہ وہ ہیں تو ان کو کیوں نہیں مانتے؟
سائنس سے پوچھا جائے کہ ان سائنسی حقائق کو نظر نہ آنے کے باوجود کیوں مانتے ہو؟ سائنس کہتی ہے کہ بے شک یہ نظر نہیں آتے مگر ان کے آثار، علامات، نشانیاں اور اثرات نظر آتے ہیں، تو ہمیں معلو م ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی ہے۔ وہ جو پیچھے ہے وہ نیوٹران، الیکٹران، پروٹان ہے۔ اسی طرح جب ہم کائنات کی تخلیق، انسان کی تخلیق اور کائنات کی علامات کو دیکھتے ہیں، زمین و آسمان، کہکشاؤں کو دیکھتے ہیں، دن رات، سورج چاند، موسم، دریا اور ان کے در میان نظم کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی ہے ا ور وہ ہے اللہ۔
اللہ کے وجود کے انکار کرنے والوں سے کوئی ایک بھی ثقہ سائنسدان نہیں ہے بلکہ بکھرے اور بگڑے ہوئے لوگ ہیں۔ وہ سائنسدان اور وہ عالم نہیں ہے، اس علم کے ماہر نہیں، وہ صرف انتشار فکر کا کام کرتے ہیں۔ کسی بھی نتیجہ پر پہنچنے کے لیے اس کی بنیاد علم پر رکھیں۔ جب کسی چیز کو ماننے کے لیے ہم دونوں اطراف کے دلائل کا موازنہ کرتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں اطراف کا علم ہمارے پاس ہو۔ ہم میں سے اکثر کو قرآن اور قرآنی حقائق کا علم نہیں ہے۔ جب تک کسی بات کا علم حاصل نہیں کیا، اس وقت تک اس کے بارے میں فیصلہ نہیں کرسکتے۔ جب قرآن اور دین کا علم ہی نہیں تو پھر کس بنیاد پر موازنہ کرتے ہوئے اللہ کے ہونے کا انکار کرتے ہو۔ جب دونوں اطراف کا علم صحیح معنی میں حاصل ہو تو پھر موازنہ کرنا جائز ہوتا ہے۔
ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جب سائنس کسی چیز کو ایجاد کرلیتی ہے تو مذہبی طبقہ اس کی بنیاد قرآن و حدیث سے نکال لیتا ہے۔ اگر یہ سب کچھ قرآن حدیث میں تھا تو پھر پہلے دریافت اور ایجاد کیوں نہیں کیا؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب سائنس ایجاد کرتی ہے تو پھر صرف مسلمان ہی اس کو قرآن سے کیوں تلاش کرلاتے ہیں، دیگر مذاہب کے ماننے والے وہ اپنے مذہب کو تقویت دینے کے لیے اپنی کتاب سے اس کو تلاش کیوں نہیں کرلیتے۔ اس لیے کہ قرآن کے علاوہ کسی دوسری مذہبی کتاب میں سائنسی حقائق موجود ہی نہیں۔ مسلمان کسی چیز کی ایجاد کے بعد اسے قرآن و حدیث سے اس لیے تلاش کرلاتا ہے کہ یہ ایک قدرتی اور نیچرل بات ہے۔ مترجم اور مفسر کا علم قرآن و حدیث سے جس طرح ہے، اس طرح اس کے پاس جدید علوم نہیں ہوتے۔ یہ مترجم اور مفسر کی کمزوری ہے کہ اس کے پاس جدید سائنس کا علم نہیں ہے۔ جب سائنس کسی چیز کو ایجاد کرتی ہے تو اس سے اس مترجم اور مفسر کی عقل میں اس کی راہ کھلتی ہے کہ اس کو تو قرآن پہلے ہی بیان کرچکا ہے۔
قرآن کے علم کو بیان کرنے کے لیے انسان کے پاس سائنس کا علم بھی تو ہونا چاہیے۔ جب سائنس نے بتادیا تو عالم کے ذہن میں فوراً آگیا کہ قرآن نے یہ پہلے ہی بتادیا ہے۔ پچھلی صدیاں سائنس کی فتوحات (19اور 20ویں صدی) کی صدیاں ہیں۔ سائنس نے انکشافات کیے، تب ان آیات کے معانی سمجھ میں آئے اور معانی اس لیے سمجھ میں آئے کہ قرآن میں بیان ہوئے ہیں۔
2۔ موضوع: فرعون، شہد کی مکھی، پودے اور اِنسانی ہڈیوں کے جوڑ
شیخ الاسلام نے شہر اعتکاف کی دوسری نشست سے 22 ویں شب رمضان/ یکم اپریل2024ء کو ’’فرعون، شہد کی مکھی، پودے اور انسانی ہڈیوں کے جوڑ‘‘ کے متعلق جدید سائنس اور قرآنی حقائق کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت موسی علیہ السلام ؛ حضرت شعیب علیہ السلام کے ہاں قیام کے برس پورے کرنے کے بعد اپنی اہلیہ کو لے کر مصر کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں انہوں نے کوہ طور کی جانب سے ایک آگ دیکھی۔ قرآن مجید اس واقعہ کویوں بیان فرماتاہے:
فَلَمَّا قَضٰی مُوْسَی الْاَجَلَ وَسَارَ بِاَھْلِہٖٓ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا قَالَ لِاَھْلِهِ امْکُثُوْٓا اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِّنْھَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَۃٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَ.
(القصص: 29 )
’’پھر جب موسیٰ (علیہ السلام)نے مقررہ مدت پوری کرلی اور اپنی اہلیہ کو لے کر چلے (تو) انہوں نے طور کی جانب سے ایک آگ دیکھی (وہ شعلۂِ حسنِ مطلق تھا جس کی طرف آپ کی طبیعت مانوس ہوگئی) انہوں نے اپنی اہلیہ سے فرمایا: تم (یہیں) ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے۔ شاید میں تمہارے لیے اس (آگ) سے کچھ (اُس کی) خبر لاؤں (جس کی تلاش میں مدتوں سے سرگرداں ہوں) یا آتشِ (سوزاں) کی کوئی چنگاری (لادوں) تاکہ تم (بھی) تپ اٹھو۔ ‘‘
اس آیت کریمہ سے یہ پیغام ملتاہے کہ اگر کوئی اس کی تلاش میں سرگرداں ہو اور سالہا سال اس کی تلاش میں صدقِ نیت کے ساتھ مقررہ مطلوبہ تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے صرف کرے تو اسے اُس کی خبر ضرور ملتی ہے۔ علامہ اقبال نے شعیب و موسی علیہما السلام کے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
دمِ عارف نسیمِ صبحِ دم ہے اسی سے ریشہ معنیٰ میں نم ہے
اگر کوئی شعیب آئے میسر شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
شبانی؛ بھیڑ بکریوں کو چرانے کا عمل ہے اور کلیمی اللہ سے ہم کلام ہونا ہے۔ اقبال نے ان اشعار میں موسی علیہ السلام کی زندگی کے سفر کو بیان کیا ہے کہ یہ دو قدم ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اگر کوئی شعیب میسر آئے۔ اسی لئے سلف صالحین کہا کرتے تھے اللہ کی مجلس میں بیٹھا کرو اور اگر تم ایسے نہ بن سکو اور اس مقام مرتبہ تک نہ پہنچ سکو کہ اللہ کی مجلس میں بیٹھو تو پھر کم سے کم ان کی مجلس میں بیٹھا کرو جو اللہ کی مجلس میں بیٹھنے والے ہیں اور جنہیں اللہ کی ہم نشینی میسر ہے۔ اس لیے کہ اس محبوب حقیقی کی کچھ نہ کچھ خبر ان کی ہم نشینی سے تمہیں ملتی رہے گی اور وہ تمہیں بھٹکنے سے بچائیں گے اورتمہیں سیدھی راہ دکھائیں گے اور جو سیدھی راہ پر ہیں، انہیں سیدھی راہ پر مضبوط و مستحکم رکھیں گے۔
افسوس کہ آج نوجوان نسل قرآن مجید، حضور نبی اکرم ﷺ اور دین اسلام کی تعلیمات سے پختہ تعلق نہ ہونے کے سبب دہریت اور لا مذہبیت کی طرف راغب ہو رہی ہے۔ نوجوان نسل کو سوچنا ہو گا کہ وہ کہاں سے دین اور حق کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دہریت اور لامذہبیت کی طرف بلانے والے بھٹکے ہوئے لوگ ہیں۔ پہلی صدیوں میں سلف صالحین کہا کرتے تھے کہ جب تم دین کی بات سنتے ہو تو دیکھو وہ لوگ کون ہیں؟ جن سے تم دین کی خبر لینے جا رہے ہو؟ اگر وہ خود ثقہ اورمستند ہیں تو تمہیں بھی پختہ اور درست بات بتائیں گے اور اگر وہ خود بھٹکے ہوئے ہیں تو تمہیں بھی گمراہ کردیں گے۔
پہلے شفا خانے ہوتے تھے، اب بدقسمتی سے مرض خانے کھل گئے ہیں۔ لوگوں کو ذہنی، فکری، اعتقادی اور نظریاتی امراض بیکٹیریا پہنچا رہے ہیں۔ مختلف آن لائن گروپس بن گئے ہیں جو دہریت اور لامذہبیت کی دعوت دے رہے ہیں۔ ان میں کوئی ایک بھی عالم، محقق اور سائنسدان نہیں ہے۔ ان کی اپنی ذاتی زندگیوں میں بے شمار کجیاں اور محرومیاں ہیں جن کے ردعمل میں آ کر انھوں نے یہ راستہ اختیار کیا ہے۔
خدا کے وجود کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟ اس امر کو جاننے کے لئے ہمیں قرآن مجید سے اپنا تعلق مضبوط کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے اس پاک کلام کے اندر ایسے شواہد، انکشافات اور حقائق موجود ہیں کہ ان پر غور و فکر کے ذریعے ہم اللہ کی ذات کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرسکتے ہیں۔
1898ء میں فرعون مصر کی لاش (ممی ) ملی اور 1975ء میں یہ امر متحقق ہوا کہ یہ لاش اسی فرعون کی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں تھا اور موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب کرتےہوئے بالآخر سمندر میں غرق ہو گیا تھا۔ سائنسدان اس امر پر حیران تھے کہ اگر یہ سمندر میں غرق ہوا تو یہ لاش باہر کیسے آ گئی اور محفوظ کیسے ہو گئی؟ یہ لاش مصریوں کے ہاتھ میں کیسے لگ گئی؟ اور آج ہمارے ہاتھ میں کیسے آئی؟دس سال تک وہ اس امر کی تحقیق کرتے رہے مگر کسی نتیجہ تک نہ پہنچے۔ اس دوران پوری دنیا میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے فرعون کی لاش دریافت ہو گئی ہے جو سمندر میں غرق ہوا تھا۔ سائنسدان مورث بکائے نے مذکورہ سوالات کو جاننے کے لئے تورات اور انجیل کا مطالعہ بھی کیا کہ یہ بات وہاں پر موجود ہوگی مگر اسے ان کتب سے اس بارے کوئی معلومات نہ مل سکیں سوائے اس کے کہ فرعون اور اس کی پوری فوج سمندر میں غرق ہوگئی اور کوئی ایک شخص بھی زندہ نہ بچا۔ مگر ان کی حیرت اس وقت مزید بڑھ گئی جب انھیں سعودی عرب میں ایک کانفرنس کے دوران علماء نے اس کے سوالات کے جواب میں یہ کہا کہ قرآن مجید میں فرعون کے لاش کے محفوظ ہونے اور اسے لوگوں کے لئے عبرت بنائے جانے کا ذکر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ.
(یونس: 92)
’’(اے فرعون!) سو آج ہم تیرے (بے جان) جسم کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے (عبرت کا) نشان ہوسکے اور بے شک اکثر لوگ ہماری نشانیوں (کو سمجھنے) سے غافل ہیں۔‘‘
وہ حیران ہو کر کہنے لگے کہ مسلمانوں کی کتاب کو یہ بات کس نے بتائی؟ کیونکہ لاش تو 1898ءمیں دریافت ہوئی اور ہم 1975ء میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ لاش اسی فرعون کی ہے۔ اس قرآنی حقیقت کو جان کر سائنسدان ڈاکٹر مورث بکائے اسی وقت اسلام لے آئے اور کہنے لگے کہ مجھے قرآن مجید کی اس آیت نے خبر دی کہ اسلام سچا مذہب ہے۔ اس لیے کہ اس خبر سے صرف خدا نے وحی کے ذریعے محمد مصطفی ﷺ کو آگاہ کیا۔
یہ اللہ تعالیٰ کی وہ نشانیاں ہیں جن سے اس کے ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ آج اللہ کے وجود کے منکرین سے کوئی یہ سوال کرے کہ کیا انھوں نے اس انداز سے قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہے؟ یقیناً ان کا جواب نفی میں ہوگا۔ اس لئے کہ انہوں نے کبھی تفکر ہی نہیں کیا، ان کا مقصد صرف تشکیک پیدا کرنا نوجونوں کو گمراہ کرنا، بے راہ کرنا اور بے خدا کرنا ہے۔ افسوس کہ آج لوگ حق کی کے لیے ان لوگوں کے پاس جاتے ہیں جنہیں نہ خدا کی خبر ہے اور نہ اپنی خبر۔ کیا سچ ان سے ملے گا جن کا سچ خود گم ہو گیا ہے۔ اگر خدا نہ ہوتا اور اسلام سچا مذہب اور دین نہ ہو تو قرآن مجید میں موجود یہ علم کس نے دیا کہ جسے سائنس آج تک جھٹلا نہیں سکی۔ لمحہ بہ لمحہ سائنس جوں جوں ترقی کرتی ہے وہ اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتی چلی جاتی ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی حقیقتوں کی تصدیق کرتی ہے۔ ہم سب آقا علیہ السلام، آپ کی نبوت و رسالت، آپ کے عطا کردہ دین اور میرے مولا تیرے قرآن کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ہم سجدہ ریز ہیں، ہم تیرے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتے کہ تو نے ہمیں اسلام کی دولت سے نوازا اور اس دین اور اس پیغمبر سے جوڑا جس نے اس زمانے میں وہ حقائق بتائے جن کو دریافت کرنے میں انسان کو چودہ صدیاں گزر گئیں۔
شہر اعتکاف سے اپنے خطابات کی اس دوسری نشست میں شیخ الاسلام نے شہد کی مکھی، پودوں اور انسانی جسم کے جوڑوں کے متعلق متعدد ایسے حقائق اور انکشافات کو بیان فرمایا جن سے سائنس موجودہ صدی میں آگاہ ہو رہی ہے۔ مگر قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں وہ حقائق چودہ سو سال پہلے بیان ہوچکے ہیں۔
خطاب کے اختتام پر شیخ الاسلام نے چند ان برگزیدہ ہستیوں کا ذکر کیا جنہوں نے خدا کا صرف پتہ ہی نہیں پایا تھا بلکہ خود خدا سے ملاقات بھی کی تھی۔ اس موقع پر آپ نے حضرت سفیان ثوری، حضرت جعفر بن سلیمان، حضرت رابعہ بصری، حضرت شعبہ بن الحجاج رحمۃ اللہ علیھم کے اقوال اور واقعات بیان فرمائے کہ جب تک دل کے اندر دنیا کا حرص، لالچ، تڑپ اور رغبت قائم رہے گی اور دل دنیا سے جڑا رہے گا، اس وقت تک وہ مولا سے جڑ نہیں سکتا۔ کسی کے وصل کے لیے فصل ضروری ہے۔ اس مادی دنیا سے دل کٹے گا تو اللہ سے جڑنے کا راستہ آسان ہوجائے گا۔
3۔ موضوع: زمین، پہاڑ، کائنات کی اِبتداء، اس کا پھیلنا، سکڑنا اور اس کے ہمہ گیر ٹکراؤ پر اِختتام
شہرِ اعتکاف کی تیسری نشست 23 ویں شب رمضان / 2 اپریل 2024ء کو منعقد ہوئی۔ اس نشست میں شیخ الاسلام نے علم ارضیات، کائنات کی ابتداء، اس کے وسعت پذیر ہونے اور اس کے اختتام کے موضوع پر گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا کہ قرآن مجید میں geology، علم ارضیات یعنی زمین اور زمین کے اوپر جو کچھ ہے جس میں پہاڑ ,جنگلات , زمین کی تہیں اور کانیں شامل ہیں، ان کے متعلق بھی وہ حقائق بیان کئے ہیں جن سے سائنس آج آگاہ ہو رہی ہے۔ قرآن مجید چودہ سو سال قبل یونان میں نازل نہیں ہوا کہ جہاں پرانے دور کا سائنسی علم تھا اور جہاں ارسطو اور افلاطون پیدا ہوئے۔ یہ قرآن عرب میں نازل ہوا جسے امی (ان پڑھ) کہا جاتا تھا۔ جہاں لوگ کتاب، مکتب اور مدرسہ سے آشنا نہ تھے۔ آقا علیہ السلام کو بھی رسول ِامی بنایا کہ آپ دنیا میں کبھی کسی کے پاس جا کرنہیں پڑھے۔ یہ اہتمام اس لئے فرمایا کہ کوئی یہ الزام نہ دے سکے کہ کسی استاد، کتاب یا مکتب و مدرسہ سے سیکھ کر آئے ہیں۔ کفار مکہ نے ہر طرح کے ظلم و ستم ڈھائے مگر وہ بھی یہ الزام نہ لگا سکے کہ یہ باتیں انھوں نے فلاں شخص، فلاں کتاب یا فلاں مکتب سے سیکھی ہیں۔ اس سے عجیب بات یہ ہے کہ چودہ سو سال گزر گئے یہ تہمت آج تک بھی کوئی نہیں لگا سکا۔
قرآن مجید میں موجود سائنسی حقائق وہ آیات اور نشانیاں ہیں جو خدا کے ہونے کی خبر دیتی ہیں۔ یہ آیاتِ قرآنی بتاتی ہیں کہ خدا ہے اور خدا کو ماننا ضروری ہے اور مذہب کو اپنانا ضروری ہے۔ اگر خدا کے وجود کا انکار کر دیا جائے تو قرآن مجید کی ان آیات کا جواب کسی شخص کے پاس نہیں کہ رسول اکرم ﷺ یہ علم کہاں سے لے آئے؟ چودہ صدیاں قبل جب انسانیت جہالت کے اندھیرے میں تھی، علم کی کوئی روشنی شرق سے غرب تک نہ تھی، سائنس، لیبارٹریز، تحقیقات اور سائنسدان نہیں تھے، زمین کے اوپر نیچے study کرنے کے آلات نہیں تھے، الغرض کسی کو زمین اور اس کے متعلقات کی کچھ خبر نہیں تھی، قرآن مجید نے اس زمانے میں زمین کے متعلق حقائق بیان کئے۔
حق کو پا لینے، اس رب کی نشانیوں کو سمجھ لینے، خدا کے وجود اور اس کی قدرت کے آثار کو جان لینے کے لیے غورو فکر کرنے والوں کے لئے قرآن کی ایک ہی آیت کافی ہو جاتی ہے۔ آج وہ لوگ جو خدا کے وجود کے منکر بن رہے ہیں، انھیں حق پانے اور حق پر قائم رہنے کے لیے کتنی آیات کی ضرورت ہے۔ ہر آئے روز ہم کسی نہ کسی ذریعہ سے کسی نہ کسی کے اسلام قبول کرنے کی خبر سنتے ہیں۔ جو حق پر نہ تھے، وہ قرآن کی نشانیاں دیکھ کر دیکھ کر حق پا گئے اور ہم حق پر ہیں، حق پر پیدا ہوئے لیکن افسوس کہ ہم قرآن کی نشانیوں کو دیکھنا اور پڑھنا نہیں چاہتے اور اس کے لیے وقت صرف نہیں کرنا چاہتے۔ ہم ان لوگوں سے پوچھتے یا ان لوگوں کے گمراہ کن خیالات سے متاثر ہوتے ہیں جو خود گم ہو گئے ہیں۔ خود گم ہو جانے والا آپ کو کیا راستہ دکھائے گا۔
دہریت اور لا مذہبیت کی راہ پر چلنے والے نوجوان واپس پلٹ آئیں! اس قرآن کے دامن سے وابستہ ہو جائیں۔ اس قرآن میں ہزار ہا ایسے حقائق اور انکشافات ابھریں گے جن کا علم انسانیت اور سائنس کو آج ملا ہے۔ گزشتہ دو تین صدیوں کے اندرجو معلومات انسانوں تک کتابوں اور تحقیقات کے ذریعے پہنچی ہیں، ان کا واضح تذکرہ چودہ سو سال قبل قرآن اپنے اندر کر چکا ہے۔ خدا اور مذہب کے منکرین سے صرف ایک سوال کریں کہ یہ علم جو قرآن میں بیان کیا گیا ہے، اس کو یہ علم کس نے دیا؟ جب عالمِ انسانیت میں سے کسی کو ان امور کی خبر نہیں تھی، اس وقت یہ حقائق اگر قرآن نے بتا دیے تو قرآن کو کس نے بتائے؟ اللہ کے نبی پر کس نے یہ علم نازل کیا؟ لا محالہ اس کے جواب میں ’’ اللہ‘‘ کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اس تیسری نشست میں شیخ الاسلام نے علم ارضیات کے علاوہ زمین، آسمان، چاند، ستاروں اور سیاروں کی گردش، کائنات کی ابتداء اور ہر لمحہ اس کائنات کے وسعت پذیر ہونے کے حوالے سے ان قرآنی حقائق کو بیان کیا جن تک آج سائنس رسائی حاصل کر رہی ہے۔ چودہ صدیاں قبل تو دور کی بات ہے، دو سو سال قبل بھی کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے اور اس کی تخلیق ایک زور دار توانائی سے ہوئی تھی مگر قرآن مجید نے کہا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق زمین کی عمر اس وقت چودہ ارب سال کے قریب ہے ہو چکی اور سائنس کی تحقیق یہ ہے کہ مزید پینسٹھ ارب سال اس کائنات نے اور زندہ رہنا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا وہ بھی قرآن مجید میں بیان ہو چکا ہے۔
برطانوی سائنسدان نیوٹن نے 1687ء میں کہا کہ یہ کائنات جامد ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ بعد ازاں آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت دیااور نیوٹن کے دیے ہوئے تصور کو رد کیا اور کہا کائنات جامد نہیں ہے بلکہ کائنات میں حرکت ہو رہی ہے۔ 1929ء میں امریکن سائنسدان ایڈون ہبل نے پہلی بار یہ مفروضہ پیش کیا کہ کائنات متحرک تو ہے ہی مگر لگتا ہے کہ کائنات متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ پھیل بھی رہی ہے۔ قرآن مجید کی حقانیت اور اس کے اللہ کے کلام ہونے کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ قرآن مجیدنے چودہ سو سال قبل ہی بیان کر دیا تھا کہ کائنات ہر لمحہ وسعت پذیر ہے۔
سائنس آگے بڑھتی رہے گی اور جو جو قرآن مجید اور میرے مصطفیٰ ﷺ نے فرما دیا تھا ظاہر ہونے والی ایک ایک حقیقت قرآن کی تصدیق کرتی چلی جائے گی اور ایک وہ وقت آئے گا کہ ہم تو نہیں ہوں گے مگر ساری سائنس درِ مصطفی ﷺ پر سجدہ ریز ہو جائے گی۔ ہم خدا کو تو نہیں پا سکتے اور نہ کوئی انسان پا سکتا ہے مگر ہم نے اس کی نشانیاں پا لی ہیں اور پچھلی صدی سے نشانیوں کا پانا شروع کر دیا ہے اور ساری نشانیاں بولتی ہیں کہ کوئی ایک خالق ہے جس نے کائنات کو بنایا ہے۔
اس تیسری نشست کے اختتام پر شیخ الاسلام نے ان صلحاکا ذکر کیا جو اللہ سے جڑ گئے تھے اور جنہوں نے اللہ کو پا لیا تھا۔ اس سلسلہ میں آپ نے حضرت ابراہیم بن ادھم، حضرت فتح الموصلی کی دو عفت مآب صاحبزادیوں اور حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیھم کے اقوال اور واقعات بیان کئے کہ ان صلحا کو حاصل ہونے والی کیفیات کی لذتوں کو اپنے اندر پیدا کریں۔ دین میں استقامت پیدا کریں، صحبت صالحہ کو اختیار کریں۔ مناجات سے اس کی ملاقات تک کا سفر طے کریں۔
4۔ موضوع: جدید اِیمبریالوجی کی روشنی میں قرآن کی حقانیّت
شیخ الاسلام نے شہر اعتکاف کی چوتھی نشست (منعقدہ24 ویں شب رمضان / 3 اپریل 2024ء) سے جدید ایمبریالوجی کی روشنی میں قرآن کی حقانیت کے موضوع پر خطاب کیا۔ آپ نے فرمایا کہ تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقدہ یہ سالانہ شہر اعتکاف ایک روحانی تربیت گاہ بھی ہوتا ہے اور ان ایام میں انفرادی اور اجتماعی ہر دو طریقے سے سب حاضرین کو خود شناسی اور خدا شناسی کا سبق ملتا ہے۔ خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟ اس کے لیے میں نے قرآن مجید کا علم اور دور جدید کی سائنسی تحقیقات کے ذریعے تصدیق کی راہ کو اپنایا ہے۔ قرآن کا دعوی اور سائنس کا اعتراف؛ عقلی اور منطقی طور پر پوری وضاحت و صراحت اور وثوق کے ساتھ اس مسئلہ کو سمجھنے کا اس سے بہتر کوئی اور طریق نہیں۔ اس سلسلے میں قرآن مجید پر توجہ مرکوزکرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کو سمجھیں، قرآن کے دیے ہوئے فکر اور علم کو تدبر اور تفکر کی راہ سے اپنے قلب و باطن میں اتاریں۔
آج سے 29 سال قبل کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کیتھ مور سے میری ملاقات ہوئی۔ یہ یونیورسٹی آف ٹورانٹو کے پروفیسر تھے اور ایمبریالوجی کے میدان میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ ایمبریالوجی کے موضوع پر ان کی معروف کتابیں پوری دنیا کے میڈیکل کالجز کے نصاب میں شامل ہیں۔ میں انہیں دعوتِ اسلام دینے کے لیے کینیڈا گیا تھا۔ ان کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات ہوئی، انہوں نے اپنی کتابیں مجھے تحفہ دیں۔ میں نے بھی انہیں اپنی دو کتابیں تحفہ دیں۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوئے جب میں نے ان کو بتایا کہ میں نے اپنی کتب میں ان کی کتابوں کے reference دے کے اسلام اور قرآن کی حقانیت کو ثابت کیا ہے۔ میں نے جب انھیں اسلام کی دعوت دی تو وہ مسکرائے اور انہوں نے ایک بڑا ہی خوشگوار جواب دیا مگر میری دعوت کے جواب میں ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں ‘‘ دونوں میں سے کوئی لفظ نہ بولا۔ ان کا وہ جملہ میرے پاس ان کی امانت ہے، ان کے اس جملہ میں اسلام کے لیے ان کی محبت اور قرآن کے لیے ان کی عقیدت جھلکتی تھی اور انہوں نے یہ امر واضح کر دیا کہ اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ محمد مصطفی ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور مجھےاس امر میں کوئی شک نہیں رہا کہ میں نے جو کچھ قرآن مجید میں پایا ہے، اس کا کوئی اور جواب ممکن نہیں، سوائے اس کے کہ یہ اللہ رب العزت کی وحی ہے۔ اگر اللہ کے وجود کو نہ مانیں اور قرآن مجید کو اللہ کی نازل کردہ سچی کتاب نہ مانیں اور حضور علیہ السلام کو اللہ کا سچا نبی اور رسول نہ مانیں تو ایک سائنسدان ہونے کے ناطے میرے پاس اس امر کا اور کوئی جواب نہیں کہ جو تحقیقات ہمیں ایمبریالوجی کے میدان میں پچاس سال کے عرصے میں میسر آئیں کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی تخلیق کس طرح ہوتی ہے اور بچہ ماں کے پیٹ میں کن کن مرحلوں سے گزرتا ہے اور اس کی کیا کیا جزیات اور تفصیلات ہیں۔ یہ وہ معلومات ہیں جن کا ادراک سائنس کو اب سے صرف پچاس برس پہلے 1941ء کے بعد ہوا ہے اور اس سے پہلے سائنس کے پاس یہ معلومات نہیں تھیں مگر وہ معلومات پوری صحت، تفصیلات اور پورے تعین کے ساتھ قرآن مجید نے چودہ سو سال پہلے بیان کر دی ہیں۔ اس حیرت کا کوئی جواب میرے پاس نہیں، سوائے اس کے کہ میں مانوں کہ قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے اور حضور علیہ السلام اللہ کے سچے پیغمبر ہیں اور یہ قرآن اللہ کی وحی ہے۔
ڈاکٹر کیتھ مور کہتے ہیں کہ مجھے سعودی عرب سےکنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں اناٹمی اور ایمبریالوجی پر ایک ماہر کے طور پر لیکچر دینے کی دعوت ملی۔ اس یونیورسٹی میں ایک ایمبریالوجی کمیٹی تھی جو علم جنینیات (ماں کے رحم میں بچے کی زندگی کا آغاز) پر تحقیق کرتے تھے۔ اس کمیٹی نے میرے سامنے قرآن مجید کی کچھ آیات اور احادیث رکھیں اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں آپ ان آیات کی ایک ایمبریالوجسٹ سائنٹسٹ ہونے کے ناطے تشریح کر دیں۔ ڈاکٹر کیتھ مور کہتے ہیں کہ میں نے جب قرآن مجید کی ان آیات کا انگلش ترجمہ اور احادیث کے انگلش تراجم دیکھے تو میں دنگ رہ گیا اور حیرت میں گم ہو گیا کہ قرآن مجید کی ان آیات کے بیان میں اتنی تفصیل اور accuracy تھی کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی نشونما کی معلومات آج سے چودہ سو سال پہلے فراہم کر دیں، جس وقت کوئی انسان ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
یاد رکھیں !سائنس کی ترقی دو تین سو سال پہلے شروع ہوئی ہے، اس سے پہلے ہزار بارہ سو سال کا عرصہ یورپ میں dark age کہلاتا ہے چونکہ اس زمانے میں مغربی دنیا اور یورپ اندھیرے میں تھا مگر اسلام روشنی میں تھا۔ آقا علیہ السلام کے غلاموں نے شر ق سے غرب تک دنیا میں علم اور سائنس کا نور پھیلا دیا تھا۔ ماں کے رحم میں بچہ کن مرحلوں سے گزرتا ہے اور اس کی تفصیلات کیا ہیں، اس پر سائنس انیسویں صدی کی پہلی تین دہائیوں تک خاموش ہے۔ جب تک خوردبین ایجاد نہیں ہو گئی، سائنس ان حقائق سے بے خبر تھی مگر چودہ سو سال قبل قرآن مجید میں ایمبریالوجی سے متعلق اتنی صحت کے ساتھ معلومات کا درج ہونا اس قرآن کے وحی الہیٰ ہونے اور خدا کے وجود کے ہونے کا ایک واضح ثبوت ہے۔
ڈاکٹر کیتھ مور کہتے ہیں کہ مجھے مسیحی لوگ آ کر کہتے کہ تم نے اگر قرآن سے ایسی باتیں معلوم کرلی ہیں جس سے مسلمانوں کے مذہب کو تقویت پہنچ رہی ہے تو تم تورات اور انجیل سے بھی اس طرح کے شواہد ثابت کردو، تاکہ ہمارے مذہب کو بھی تقویت پہنچے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے انھیں کہا کہ میں سو بار بیان کرتا، اگر بائبل میں مجھے ایسی کوئی سائنٹیفک چیز ملتی۔ میرا مذہب مسیحیت ہے مگر میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ قرآن مجید کی جس آیت کو دیکھتا ہوں، وہ سائنسی حقائق پر مبنی ہے اور بائبل میں ایک مقام بھی سائنسی معلومات کی بالکل درست تصویر نہیں دیتا۔
اللہ تعالیٰ نے علم، معرفت اور حق کی بہت بڑی کائنات مسلمانوں کو دی ہے، اس سے نہ بھاگیں اور جو لوگ بکھرے ہوئے اور راہ گم کردہ ہیں، وہ واپس لوٹ آئیں۔ ان قرآنی حقائق کو دیکھیں جن کا علم آج سائنس کو ہو رہا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں قرآن میں چودہ سو سال پہلے بیان فرما دیا ہے۔ یہ سب حقائق اللہ کے وجود کے ہونے اور دین اسلام کے سچے مذہب ہونے کی علامات ہیں۔
اس موقع پر شیخ الاسلام نے ماں کے رحم میں بچے کی تشکیل کے جملہ مراحل کو تفصیل کے ساتھ قرآنی آیات اور جدید سائنس کی روشنی میں واضح فرمایا۔
5۔ موضوع: خود شناسی سے خدا شناسی تک: اِنسانی جسم کے خلیے (Cell) کا مطالعہ
شہر اعتکاف کی پانچویں نشست میں 25 ویں شب رمضان / 4 اپریل 2024ء کو شیخ الاسلام نے انسانی جسم کے خلیہ (Cell) پر گفتگو کی اور انسان کو خود شناسی سے خدا شناسی تک کے سفر سے متعارف کرواتے ہوئے کہا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
سَنُرِیْهِمْ اٰیٰـتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ اَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اَنَّهٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَهِیْدٌ.
(حم السجدة: 53)
’’ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ کیا آپ کا رب (آپ کی حقانیت کی تصدیق کے لیے) کافی نہیں ہے کہ وہی ہر چیز پر گواہ (بھی) ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً.
(النساء: 1)
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتدائ) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘
اس آیت میں مذکور ایک جان سے مراد ایک خلیہ (cell) ہےجس سے اللہ رب العزت نے انسان کو تشکیل دیا ہے۔ اگر اس خلیہ کا جائزہ لیں تو اس سے بھی اس سوال کا جواب مل جاتاہے ہے کہ خدا ہے یا نہیں؟ خلیہ انسان کی تخلیق اور تشکیل کی خشتِ اول یعنی پہلی اینٹ ہے۔ جس طرح ہم اینٹوں اور بلاکس سے گھر بناتے ہیں، اسی طرح یہ نفسِ واحدہ یعنی خلیہ انسانی وجود کی عمارت کا وہ بنیادی بلاک ہے جس سے جسم وجود میں آتا ہے۔ خلیے( cell )ملتے چلے جاتے ہیں اور انسان تشکیل پاتا چلا جاتاہے۔ فرق یہ ہے کہ اینٹیں سائز میں بڑی ہیں، اس لئے آنکھوں سے نظر آتی ہیں جبکہ جسم جن بلاکس یعنی خلیوں سے تشکیل پاتاہے، وہ خلیہ اتناچھوٹا ہے کہ روئے زمین پر کسی شخص کی آنکھ براہ راست اس کو نہیں دیکھ سکتی۔ اس کا سرسری جائزہ لینے کے لیے بھی بڑی طاقتورخوردبین(مائیکروسکوپ) درکار ہے جبکہ تفصیلی مشاہدہ کرنا چاہیں تو عام طاقتور مائیکروسکوپ بھی کام نہیں دیتی بلکہ اس کے لیے الیکٹرون مائیکروسکوپ بنائی گئی ہے۔
اس ایک خلیہ (cell) میں بھی اللہ کی ایسی نشانیاں موجود ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہیں۔ انسان کا جسم 100 کھرب خلیوں (cells) کے ساتھ تشکیل پاتا ہے اور ہر سیل اپنے اندر ایک کائنات ہے۔ ایک سیل کے اندر 100 ارب ایٹمز اور 4 کروڑ 20 لاکھ مالیکیولز ہوتے ہیں۔ ان سیلز پر تحقیق سے معلوم ہوگا کہ کوئی ذات ہے جس نے انہیں ڈیزائن کیا، بنایا اور پھر ترتیب سے ان کی جگہوں پر لگایا ہے۔ کائنات میں تمام اشیاء خلیات (cells) سے مل کر بنی ہیں۔ ایک خلیہ کا سائز اتنا ہوتا ہے کہ 10 لاکھ خلیات (cells) جمع کیے جائیں تو ان کا سائز ایسے بنتا ہے جیسے بال پوائنٹ کی نوک ہوتی ہے۔ انسانی جسم کے ہر خلیہ (cell) کے اندر ایک کائنات آباد ہے۔ خدا نے اس سیل کی ضرورت کی تمام اشیاء اس کے اندر پیدا کی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک سیل سے پورا انسان تشکیل پاسکتا ہے۔ ہمیں علم، تحقیق اور سائنس کی آنکھ کھول کر ان آفاقی حقیقتوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ہمیں خدا کے وجود کا پتہ ملے گا۔
سوال یہ ہے کہ ایک جسم کے اندر موجود کھربوں خلیوں پر مشتمل یہ نظام کیا اتفاقاً وجود میں آگیا ہے یا اس کے پیچھے کوئی بڑا ڈیزائنر اور کوئی بڑا انجینئر موجودہے؟ اس سوال کا جواب خلیہ خود دیتا ہے کہ میرا ایک خالق ہے جو بہت بڑا ڈیزائنر، منصوبہ ساز، انجینئر اور ریاضی دان ہے۔ اس نے ایک نظم، توازن، ایک مقدار اور عددی حساب کے ساتھ ہر چیز کو بنایا اور چلایا ہے۔ اس ایک چھوٹے سے خلیہ میں کھربوں مخلوق آباد ہے۔ پوری دنیا میں پونے آٹھ ارب انسان رہتے ہیں مگر اس ایک چھوٹے سے ذرے میں کھربوں کی آبادی ہے۔ جس طرح دنیا کے اندر مختلف نظام موجود ہیں، اسی طرح ایک خلیہ کے اندر بھی اس کے نظام کو چلانے کے لئے بجلی گھر، انڈسٹریز، کیمیکل پلانٹس، الیکٹرک پاور پلانٹس، ذرائع نقل وحمل، مواصلات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیکیورٹی اور دفاع کا نظام اور اس طرح کے کئی نظام موجود ہیں، جو چوبیس گھنٹے متحرک رہتے ہیں۔ اور ہمہ وقت خلیہ کے اندر رہنے والے کھربوں اجزاء اور ان کے اندرموجود اجزاء کی ہر قسم کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ آنکھ کی مثال لیں کہ یہ بھی ایک بہت بڑی کائنات ہے۔ اگر آنکھ کے پچھلے پردہ کی بات کریں جسے retina کہتے ہیں تو اس کے اندر راڈ کی شکل میں بارہ کروڑ خلیے (cells) آباد ہیں اور ساٹھ لاکھ خلیےcone کی شکل میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں جسم میں موجود ہر خلیہ کی الگ الگ ذمہ داریاں ہیں، جس طرح کی ذمہ داریاں اللہ نے انھیں دی ہیں، ان کے مطابق ان کا سائز اور شکلیں بنائی گئی ہیں۔
ان تمام خلیوں کو اپنے افعال سرانجام دینے کےلئے توانائی کی ضرورت ہے، حیران کن بات یہ ہے کہ یہ تمام خلیے اپنی توانائی کی ضرورت کو بھی خود پورا کرتے ہیں۔ آنکھ کے retina کے ایک خلیہ میں ایک ہزار سے لے کر اڑھائی ہزار تک power plants لگے ہوئے ہیں جو شب و روز کام کرتے ہیں۔ کوئی ایک خلیہ پورے وجود میں نافرمانی نہیں کرتا بلکہ اطاعت گزار ہے۔ جوذمہ داری اس کی ہے، وہ اسے پورا کرتا ہے۔ وہ اپنے دیے ہوئے discipline، نظامِ حیات، احکام اور ہدایات کے مطابق چلتا ہے اورنظم نہیں توڑتا۔ اگر آنکھ کا خلیہ جسم کا کوئی اور عضو بنانا چاہے تو بنا سکتا ہے، مگر وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ اپنے ہی کام کو سرانجام دیتاہے۔ کوئی ہے جس نے اسے ایسا کرنے سے روکا ہوا ہے اور اس خلیہ کو اپنے کام کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرنے دیتا۔ وہ خدا کی ذات ہے۔ دنیا کے کسی انسانی معاشرے میں اتنا نظم نظم نہیں ہو گا جتنا نظم اس خلیہ میں موجود ہے۔
اس موقع پر شیخ الاسلام نے خون کے سرخ اور سفیدخلیوں، DNA، دماغ، ناک اور زبان کے خلیوں کے متعلق تفصیل سے گفتگو فرماتےہوئے اللہ رب العزت کے وجود کے ہونے اور اس کی وحدانیت و ربوبیت کے متعدد دلائل و شواہد بیان کیے کہ انسان کے اندر موجود تمام خودکار نظام خود سے نہیں بنے، بلکہ انہیں کسی نے بنایا ہے اور انہیں ان کے معاملات کا شعور دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انہیں کون گائیڈ کرتا کہ انہوں نے کب، کہاں اور کس طرف جانا ہے؟ کوئی تو ان کا تخلیق کار اور ان کا صورت گر ہوگا؟
پانچویں نشست کے اختتام پر شیخ الاسلام نے حسبِ سابق چند ان صلحا کا ذکر فرمایا جنھوں نے اللہ رب العزت سے ایک مضبوط تعلق قائم کر لیا تھا۔ اس سلسلہ میں آپ نے حضرت مالک بن دینار، امام احمد بن حنبل، حضرت بشر حافی، حضرت ذوالنون مصری، حضرت رابعہ بصری اور حضرت سری سقطی رحمھم اللہ کے روحانی احوال کا ذکر فرمایا کہ ان بندوں کو اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے کہ جن کے دل میں زمین و آسمان اور دنیا و آخرت کی ساری کائنات میں اللہ کی محبت کے سواء کچھ بھی موجود نہ ہو۔
6۔ موضوع: کہکشاؤں بھری کائنات میں خدا کی تلاش) (کائنات کا بے نقص ریاضیاتی نظم اور خدائی کنٹرول)
26 ویں شب رمضان / 5 اپریل 2024ء کو شیخ الاسلام کی گفتگو کا موضوع کائنات میں موجود کہکشاؤں کے مطالعہ سے اس کائنات کے بے نقص نظام کو واضح کرنا تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کو کنٹرول فرماتا ہے۔ یہ خطاب شیخ الاسلام کے اس سلسلہ وار گفتگو ’’خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟ ‘‘کا آخری خطاب تھا۔ اس خطاب میں شیخ الاسلام نے فرمایا کہ دہریت، لا مذہبیت اور ناخدائیت کی فکری لہر دو اڑھائی سو سال قبل مغرب میں شروع ہوئی تھی۔ آغاز میں اس فتنہ میں اِسلام کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ لہٰذا اس فتنہ کا پس منظر سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ فکری اِنتشار کا شکار ہونے والی نوجوان نسل اس کی تاریخ سے آگاہ ہوسکے۔ درحقیقت یورپ میں ایک طویل عرصے تک ریاست اور چرچ کا گٹھ جوڑ تھا۔ وہاں چرچ کو خدا کے نمائندہ کی حیثیت دی جاتی تھی اور وہ اس کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے تھے۔ چرچ اور ریاست کے اس گٹھ جوڑ کے ردِ عمل میں فتنۂ اِنکارِ مذہب شروع ہوا۔ جب مذہبی راہ نُما مذہب کو اپنے مفادات کے حصول اور روزگار و دنیا کمانے کا ذریعہ بناتا ہے تو پھر اسے خود ساختہ نظریات گھڑنے پڑتے ہیں اور لوگوں کو اندھا کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ اس کی کہی کسی بات کو چیلنج نہ کریں اور یوں وہ اپنی خود ساختہ اتھارٹی کو maintain رکھ سکے۔ یورپ کے مذہبی راہنما یہ برداشت نہیں کرتے تھے کہ کوئی ان کے بنائے ہوئے نظریات کو چیلنج کرے۔ اس لیے ایک ہزار سال تک یورپ میں سائنس کو ترقی نہیں کرنے دی گئی۔ اِس وجہ سے یورپ ان ہزار سالوں کو dark ages کہتا ہے کیوں کہ ان سالوں میں سائنسی تحقیقات آگے نہیں بڑھنے دی گئیں۔
سیاست کسی کی وفادار نہیں ہوتی۔ یہ صرف اور صرف اپنے مفادات کی وفادار ہوتی ہے۔ سیاست کا مفاد صرف سیاست ہے اور اپنے مفادات کی خاطر یہ رحمان اور شیطان دونوں سے اتحاد کر سکتی ہے۔ یورپ میں بھی یہی کچھ ہوا کہ جب ریاست کو چرچ کی ضرورت نہ رہی تو اس نے سائنس کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ جب ریاست نے اپنے مفادات کی خاطر سائنسی تحقیقات کو روکنا تھا تو مذہبی رہنماؤں کا سہارا لیا اور جب ریاست نے اپنے مفادات کی خاطر چرچ کو کچلنا تھا تو اس نے سائنس کا سہارا لیا اور بالآخر یورپ میں مذہب اور سائنس کے مابین جاری جنگ میں سائنس جیت گئی۔ بعد ازاں مذہبی راہنما کمزور ہوئے تو خدا کا نمائندہ کہلانے والے مذہبی نمائندگان کے خلاف پلنے والی ایک ہزار سالہ نفرت صرف مذہبی رہنماؤں تک محدود نہ رہی بلکہ سائنس دانون نے مذہب اور خدا کے خلاف اپنا غصہ نکالا۔ حالانکہ اَصلاً وہ خدا کے وجود کے انکاری نہ تھے بلکہ صرف اُن مذہبی رہنماؤں کے خلاف تھے۔
منٹگمری واٹ کہتا ہے کہ صدیوں تک یورپ کا اِنحصار اسلامی تحقیقات پر رہا اور یورپ میں مسلم سائنس دانوں کی کتابیں پڑھائی جاتی رہیں۔ سر تھامس آرنلڈ کہتا ہے کہ یورپ کی dark ages میں مسلمان پوری دنیا کو سائنس، علم اور شعور دے رہے تھے۔ یورپ نے اسلام اور مسلمانوں سے سائنس سیکھ کر ترقی حاصل کی۔ جس دور میں مسلم سائنس دانوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عطا کردہ علوم سے سائنس کو فروغ دیا اُس وقت یورپ تاریکی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ میڈیکل سائنس کی پوری تاریخ میں ایسا کوئی کام نہیں ہے جو ابن سینا کے کام سے زیادہ پڑھا یا چھَپا ہو۔ پروفیسر فلپ کے ہٹی اپنی کتاب History of the Arabs میں لکھتا ہے کہ اسلام کا علم اسپین اور سسلی کے ذریعے پورے یورپ میں پھیلا۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔
سائنس آج کثیر تحقیقات کے بعد کہتی ہے کہ کائنات کا سارا نظام zero defect ہے، جب کہ اللہ تعالی نے آج سے چودہ سو سال قبل قرآن مجید کے ذریعے اعلان کیا کہ ساری کائنات کا مطالعہ اور مشاہدہ کرلو تمہیں کہیں کوئی ہلکا سا نقص نظر نہیں آئے گا۔ اللہ نے عقل دی ہے۔ قرآن مجید پڑھیں اور سوچیں کہ کس طرح کائنات میں موجود تمام کہکشائیں اپنے مقررہ راستوں میں چلتی ہیں اور ان میں کوئی حادثہ یا مسئلہ نہیں ہوتا۔ کون ہے اس عظیم نظام کو پیدا کرنے والا؟ کون ہے اس کو برقرار رکھنے والا؟۔ اس کا ایک ہی جواب ملتاہے کہ وہ اللہ رب العزت کی ذات ہے۔
مفاد پرست ذہنیت تحقیق و شعور کے ماحول کو قبول نہیں کرتی، مذہب کو ذریعہ روزگار بنانے والا طبقہ چاہتا ہی نہیں کہ عام آدمی تک قرآن و سنت کی جدید سائنسی فکر پہنچے اور ان کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں۔ مذہبی طبقہ کی یہ روش رہی ہے کہ وہ خدا کا خود ساختہ نائب بن کر علم و شعور کے دروازے مقفل کر دیتا ہے اور خود اتھارٹی بن جاتا ہے، جس سے مذہب کے فرسودہ اور دقیا نوسی ہونے کا غیر حقیقی تصور اجاگر ہوتا ہے۔ یہ سوچ نوجوانوں کو اللہ اور مذہب سے دور اور بیزار کرنے کا سبب بنتی ہے۔
جتنے بھی غیر مسلم سائنسدان گزرے ہیں سب نے کائنات کے رموز و اسرار پر اپنی سائنسی تحقیق کے اختتام پر اپنے انداز اور الفاظ کے ساتھ خدا کے یکتا و واحد ہونے کا اعتراف کیا کہ یہ کائنات کسی بہت ہی اعلی تن تنہا ریاضی دان کی تخلیق ہے۔ کائنات کا نظام بڑے ہی نظم و ضبط کے ساتھ رواں دواں ہے۔ چاند سورج ستارے، سیارے لاکھوں اربوں کہکشائیں اپنے متعینہ راستے اور مداروں میں محو گردش ہیں اور کوئی ایک سینٹی میٹر کا ہزارواں حصہ بھی اپنے راستے سے نہیں ہٹتا۔ ہر وہ شخص جو دیانت داری سے اِنسان کے اندر اور باہر کی کائنات میں غور و فکر کرے گا، وہ اللہ کی وحدانیت کا اِقرار اور اُس پر ایمان لائے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مذہب جس طرح خدا کا تعارف کرواتا ہے سائنس کا وہ موضوع نہیں ہے کہ تحقیق کر کے اس کے اوپر بات کرے۔ سائنس بالواسطہ اپنے طریقوں سے خدا کے وجود اور وحدانیت کے ہزارہا دلائل دے چکی ہے۔ سائنس نے اللہ کے وجود کو ماننے کے لیے data فراہم کر دیا۔ سائنس یہ بتاتی ہے کہ یہ یہ ہو رہا ہے مگر یہ کو ن کر رہا ہے؟ اس سوال کا جواب سائنس کے پاس نہیں ہے۔ مذہب یہ بتاتا ہے کہ اس سب کے پیچھے ایک خالق و مالک ہے جو اس تمام نظام کو چلا رہا ہے۔
7۔ موضوع: اِنسانی نفسیات اور قرآنی شخصیتِ محمدی ﷺ (وحیِ اِلٰہی اور سیرتِ نبوی ﷺ کے مطالعہ کا نیا زاویہ)
28 ویں شب رمضان/ 7 اپریل 2024ء کو شہر اعتکاف کی علمی و تربیتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ آج کی گفتگو میں ہم قرآن مجید سے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی شخصیت کے خاص لمحات و واقعات کا انتخاب کریں گےاور اس میں حقانیتِ خدا، حقانیتِ قرآن اور حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت کی حقانیت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ گفتگو دومقدمات پر قائم کریں گے: ایک مقدمہ ایمان کا ہے یعنی ہم بطور مسلمان اللہ رب العزت کے وجود، اس کی ذات و صفات، اس کی قدرتوں، حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت اور قرآن مجید کے اللہ تعالیٰ کی وحی ہونے پر کامل ایمان رکھتے ہیں۔ دوسرا مقدمہ کفر کا ہے۔ کفر کے مقدمہ کے مطابق نوجوان نسلوں کو یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ خدا کا وجود ہی نہیں ہے۔ جب خدا موجود ہی نہیں تو پھر کوئی پیغمبر، نبی، وحی اور دین و مذہب بھی نہیں ہے۔ آج کی گفتگو میں ان دونوں مقدمات کا موازنہ کریں گے۔
آج معاشرے میں کفر اور اِنتشار پھیلا کر نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ تصور پختہ کیا جا رہا ہے کہ کوئی خدا ہے ہی نہیں۔ جو لوگ خدا کی ذات اور اس کے وجود کے منکر ہیں، وہ حضور نبی اکرم ﷺ کو بھی رسول اور نبی نہیں مانتے۔ وہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ قرآن مجید کوئی اُلوہی کتاب نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے (معاذ اللہ) خود لکھی ہے۔ خود ہی( معاذ اللہ) رات کو سوچتے تھے اور صبح بیان کرتے تھے۔ گویا ان کے مطابق یہ کتاب اللہ نازل نہیں کرتا اور جس ہستی کو آپ اللہ کا نبی اور رسول مانتے ہیں وہ اللہ کے نبی اور رسول نہیں ہیں اور یہ مذہب بھی خود ہی بنا رکھا ہے۔
کفر کے اس مقدمہ کا موازنہ کرتے ہوئے ہم انسانی نفسیات کو سامنے رکھیں گے اور انسانی نفسیات کے اصولوں پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شخصیتِ مقدسہ کا مطالعہ قرآن مجید کی روشنی میں کریں گے۔ ایمان کا مقدمہ جیتنے کے لیے قرآن کو اللہ کی کتاب ثابت کرنا ضروری ہے اور اللہ کے رسول کو سچا پیغمبر ثابت کرنا ضروری ہے۔ قرآن اگر اللہ کی نازل کردہ کتاب ثابت ہو جائے اور آقا علیہ السلام سچے نبی اور رسول ثابت ہو جائیں اور یہ کتاب قرآن ان کی لکھی ہوئی یا لکھوائی ہوئی نہ ہو تو اس امر سے اللہ کا وجود خود بخود ثابت ہو جاتا ہے کہ خدا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان کو درپیش حالات اور واقعات انسان کی طبیعت، مزاج، طرزِ فکر، طرزِ عمل اور رویے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان حالات و واقعات کے سبب انسان میں خوشی، غمی، غصہ، تعجب و حیرانی، نفرت، وحشت، شرمندگی، احساسِ فخراوراطمینان کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ انسان ان مذکورہ کیفیات پر کچھ نہ کچھ ردعمل ضرور دیتا ہے۔ انسانی زندگی میں اللہ رب العزت نے یہ نفسیاتی نظام وضع کیا ہے اور کوئی شخص بھی ان چیزوں کے اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔
انسانی نفسیات کے اس زاویہ سے اگر ہم کفر کے مقدمہ کا جائزہ لیں (جن کے نزدیک قرآن مجید (معاذ اللہ) حضور نبی اکرم ﷺ کی لکھی ہوئی اپنی کتاب ہے) تو ان کا دعویٰ سراسر جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید حضور نبی اکرم ﷺ کی تصنیف نہیں ہے بلکہ ان پر نازل ہونے والی اللہ کی وحی ہے، اس امر کا ثبوت ہمیں قرآن مجید کے اندر سے آقا علیہ السلام کی شخصیت کے بعض گوشوں کے مطالعہ سے میسر آ جاتاہے۔
اس موقع پر شیخ الاسلام نے حضور نبی اکرم ﷺ کی ابتدائی زندگی، اعلانِ بعثت، قرآن کی مثل لانے کا چیلنچ، ہجرت حبشہ، حضرت خدیجہ اور حضرت ابو طالبk کا انتقال، سفرِ طائف، شعبِ ابی طالب، غزوۂ احد، صلح حدیبیہ، ہجرتِ مدینہ، فتح مکہ، قرآن مجیدمیں حضرت موسی ٰاور حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم f کا تذکرہ اور اس طرح کے کئی واقعات کا ذکر کیا کہ ان میں سے کئی واقعات ایسے ہیں کہ جنھیں قرآن نے بالکل بیان ہی نہیں کیا اور اگر کسی واقعہ کو قرآن مجید میں بیان بھی کیا گیا تو اس کا بھی صرف اجمالی ذکر کیا گیا ہے۔ اگر قرآن مجید حضور نبی اکرم ﷺ کی اپنی لکھی ہوئی کتاب ہوتی تو علم نفسیات کی رو سے ان واقعات کے رونما ہونے کے اثرات کے پیش نظر حضور ﷺ ضرور اس وقت اپنے اوپر بیتنے والی کیفیات کا ذکر کرتے، مگر قرآن مجید اس حوالے سے ان واقعات یا ان کی جزئیات کو بیان نہیں کرتا۔
قرآن میں عمومی، واقعاتی اور حادثاتی نوعیت کی کیفیات نہیں ہیں، جذبات کی کیفیات نہیں ہیں، اگر یہ انسان کا کلام ہوتا اور اللہ کی نازل کردہ وحی نہ ہوتی تو ہمیں قرآن ایسا نہ ملتا۔ اگر کوئی تعصب کی نگاہ ہٹا کر اور ضد اور ہٹ دھرمی کی کو چھوڑ کر، دلائل کی روشنی میں عقلی، نفسیاتی، تحقیقاتی اور علم کی بنیادوں پر جائزہ لے تو اس کے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ کہے کہ حق یہی ہے کہ یہ کتاب اللہ کی نازل کردہ ہے اور آقا علیہ السلام اللہ کے سچے نبی اور رسول ہیں۔ جب سچے نبی اور رسول ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ ہے۔ جب قرآن کا وحی الہی کی کتاب ہونا ثابت ہو گیا تو آقا علیہ السلام کی نبوت و رسالت سچی ثابت ہو گئی اور جب آقا علیہ السلام کا نبی اور رسول ہونا ثابت ہو گیا تو خدا کا ہونا ثابت ہو گیا۔ اب بھی کوئی اگر اللہ کو نہ مانے تو پھر یہ صرف انتشارِ فکری ہے۔
8۔ موضوع: دین اور ادب
شہر اعتکاف میں شیخ الاسلام کے خطابات کی آخری نشست 29ویں شب رمضان /8 اپریل 2024ء کو منعقد ہوئی۔ اس نشست سے شیخ الاسلام نے ’’دین اور ادب‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ خُلق کی تعریف یہ ہے کہ انسان کے اندر پائی جانے والی عمدگی، اچھائی اور خوبصورتی کو اندر سے باہر نکالنا تاکہ وہ چھپی اور دبی ہوئی صلاحیت نہ رہے بلکہ باہر نکل کر فطرت بالفعل (actual nature) بن جائے۔ اگر انسان کے افعال اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اَوامر و اَحکام کے تابع ہو جائیں تو وہ فعل عملِ صالح بن جاتا ہے۔ آپ جو بھی عملِ صالح کر رہے ہوں اسے نہایت عمدہ اور خوبصورت لباس پہنا دیں تو وہ ادب بن جاتا ہے۔ کسی کو اُس کے حق یا ضرورت سے زیادہ دینے کے عمل میں ناگواری کا نہ ہونا خُلقِ حسن اور ادبِ حسن کا طریق ہے۔ ہمارا پورا دین ادب سے لبریز ہے، جو بے ادب ہے گویا وہ بے دین ہے۔ اللہ تعالیٰ، اُس کے رسول ﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اہل بیت علیھم السلام، بزرگانِ دین اور ہر مخلوق کے ساتھ معاملہ کا اہنا اپنا ادب ہے۔ افسوس! ہمارا تصور دین اور تصور زندگی ادب کے پورے تصور سے خالی ہوگیا ہے۔
انبیاء کرام علیھم السلام بارگاهِ الٰہی کا ادب یوں بجا لاتے کہ بیماری یا کمزوری کی نسبت اپنی طرف کرتے، جب کہ شفاء یابی اور اپنی کامیابی کو اللہ کی طرف منسوب کرتے۔ حضرت موسی و خضر علیہما السلام کی ملاقات میں کشتی میں سوراخ کرنے کی نسبت حضرت خضر علیہ السلام نے اپنی طرف کی، جب کہ خزانے کی حفاظت کیلئے دیوار کی تعمیر کو ادباً اللہ رب العزت کی طرف منسوب کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کے نمائندہ جادوگروں کے مابین ہونے والے مکالمے میں جادگروں نے مقابلہ سے پہلے ادبا حضرت موسی علیہ السلام سے درخواست کی کہ پہلے آپ اپنا عصا ڈالیں گے یا ہم؟ صرف اس ادب کے باعث اللہ تعالی نے تمام جادوگروں کو ایمان کی دولت سے نواز دیا۔ روزِ قیامت حضرت عیسی علیہ السلام سے پوچھا جائے گا کہ مسیحیوں کو آپ نے اپنی عبادت کے لیے کہا تھا؟ حضرت عیسی علیہ السلام ادباً عرض کریں گے: مولا! اگر میں نے کہا ہوتا تو تو بہتر جانتا ہے۔ بارگاهِ الٰہی کے ادب کے باعث اُنہوں نے اپنی صفائی بھی پیش نہیں کی۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجرات میں آقا علیہ السلام کی بارگاہ کا ادب سکھایا ہے۔ آپ ﷺ کو عام لوگوں کی طرح بلانے، مخاطب کرنے یا عامیانہ انداز میں آپ ﷺ سے بات کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ چند بدو صحابہ کرام نے آقا علیہ السّلام کو حجرے کے باہر سے باآواز بلند پکارا تو اللہ رب العزت نے تنبیہ فرمائی کہ ان کو بارگاہ رسالت مآب ﷺ کے ادب کا عقل و شعور ہی نہیں۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی بارگاہ کے آداب آج بھی اُسی طرح قائم ہیں جیسا کہ آپ کی ظاہری حیات میں تھے۔ ا اللہ تعالیٰ نے اُمت کو بارگاهِ رسالت ﷺ کا ادب سکھایا اور بارگاهِ رسالت ﷺ کے ادب کو اپنا ادب قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ اور آپ سے متعلق ہر چیز کا ادب ہم پر لازم ہے۔ اس لیے کہ آپ ﷺ ظاہری حیات سے پردہ فرمانے کے باوجود زندہ ہیں۔
افسوس! آج ہم ادب سے اتنا دور ہوگئے ہیں کہ انبیاء، صحابہ کرام اور اولیاء کرام کی تعظیم و ادب کو شخصیت پرستی، شرک و بدعت اور خرافات قرار دے دیتے ہیں جبکہ ذخیرۂ حدیث میں صحابہ کرام کا آقا علیہ الصلواۃ والسلام کے لئے غایت درجہ تعظیم و ادب بجا لانا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ امام بخاری نے الأدب المفرد میں باب باندھا ہے: صحابہ کرام کا آقا علیہ السلام کے ہاتھ اور پاؤں چومنے کا باب اور اسی طرح دیگر محدثین نے بھی یہ باب باندھا ہے۔ گویا بارگاهِ رسالت کا غایت درجہ ادب و تعظیم اجل محدثین کا مشرب تھا۔ صحابہ کرام صرف حاملِ ادب نہ تھے بلکہ وہ کمالِ ادب کا مرقع تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آقا علیہ السلام کے رشتوں اور آپ ﷺ کی نسبتوں کا بھی ادب وحیاء کرتے۔
بدقسمتی سے آج ہمارا دین؛ ادب سے خالی ہوگیا ہے۔ یہ تحریک منہاج القرآن کا طرۂ امتیاز ہے کہ اُس نے لوگوں کو ادب کا شعور دیا ہے اور دلیل کے ساتھ دیا ہے اور ادب سے معمور ایمان کا تصور دیا ہے اور دلیل کے ساتھ دیا ہے۔ جب حيا ہوتا ہے تو ادب ہوتا ہے، جب ادب ہو تو ایمان مکمل ہوتا ہے۔ ادب سے پہلے ایک درجہ آتا ہے جسے "خُلق" کہتے ہیں! انسان کے اندر اچھائی کی جو صلاحیت ہے، اس potential کو utilize کرنا اخلاق حسنہ کہلاتا ہے۔ جب یہ صلاحیت آپ کا عمل بن جائے اور اس میں پختگی آجائے تو اسے ’’اخلاق‘‘کہتے ہیں اور جب ’’اخلاق‘‘ میں مزید خوبصورتی اور نکھار آ جائے تو اسے ’’ادب‘‘ کہتے ہیں۔
اس موقع پر شیخ الاسلام نے صحابہ کرام، تابعین، ائمہ کرام اور صلحاء عظام کے متعدد واقعات سے ادب اور حسن ِ اخلاق کے واقعات بیان کئے کہ ادب سیکھنے سے جو کچھ ملتا ہے وہ صرف علم سیکھنے سے نہیں ملتا۔ ادب کا ایک باب سیکھنا علم کے 70 باب سیکھنے سے بہتر ہے۔ دین کو بچانے کے لیے ہر ایک کے لیے واجب ہے کہ ادب کی طرف لوٹ آئے، ادب اور حیا کی قدریں پھر سے زندہ کریں، اور ان حدود کو قائم کریں جن حدودِ ادب کے ساتھ دین کی سلامتی ہوتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن ادبِ دین کی تحریک ہے۔ میرا یہ دین کی پختگی کا پیغام، اللہ کے وجود پر ایمان لانے کا پیغام، خدا کو کیوں مانیں کی معرفت کا پیغام اورادب سے معمور حقیقی دین کے فہم کا پیغام لوگوں تک پہچائیں، تاکہ آپ کی پوری زندگیاں دمِ آخر تک ادب سے منور ہوجائیں اور اس سے آپ کے دین کی حفاظت ہو۔