اخلاق کی تہذیب و اصلاح، سیرت و کردار کے نکھا ر اور شخصیت کی ترقی و ارتقاء میں علم ایک مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ علم ایک ایسا درخت ہے جس پر سوچ اور سمجھ کی شاخیں اُگتی ہیں، بصیرت اور عقل کے پھل لگتے ہیں اور اس کے سبب شخصیت کی نشوونما میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ علم ایک ایسا نور ہے جو شخصیت سے منفی اثرات کو غائب کر دیتا ہے۔ جب کسی انسان میں علم کا نور داخل ہوتا ہے تو اُس میں محبت و شفقت، عزت و احترام، ہمدردی و خیر خواہی، ایثار و قربانی، تواضع و انکساری، صداقت و دیانت اور خلوص جیسے اعلیٰ اوصاف پیدا کر دیتا ہے۔ ایسے انسان کا وجود معاشرے کے لیے روشنی کے مینار کی مانند ہوتا ہے جو نہ صرف خود روشن ہوتا ہے بلکہ اپنے وجود سے دوسرے لوگوں کو بھی روشن کرتا ہے اور اُن کی رہنمائی کرتا ہے۔
انسانیت کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں علم کا بہت زیادہ کردار ہے۔ ہر دور میں وہی قومیں قیادت کے منصب پر فائز ہوئیں جو علم ميں دوسروں سے آگے تھیں۔ جس زمانے میں مسلمان علمی میدان میں برتری کے حامل تھے، اُس وقت امامتِ عالم کا تاج بھی انہی کے سر پر سجا ہوا تھا لیکن جب سے علم کی دوڑ میں مغربی اقوام آگے بڑھ گئی ہیں، زندگی کے دوسرے میدانوں میں بھی قائدانہ حیثیت اُنہی کو حاصل ہے اور مسلمان ہر معاملے میں اُن کی پیروی کرنے پر مجبور ہیں۔
اس کائنات میں طاقت کے بہت سے ذرائع ہیں۔ مال و دولت بھی اپنے اندر ایک طاقت رکھتی ہے، کسی عہدہ و منصب پر فائز ہونا بھی طاقت کا حامل بناتا ہے، ہم خیال لوگوں کا میسر آجانا بھی انسان کو طاقتوربناتا ہے۔ اسی طرح بندوق، توپ، ٹینک اور دوسرے ہتھیار بھی طاقت کا ذریعہ ہیں مگر دنیا کی کوئی مادی طاقت ایسی نہیں ہے جو علم کی طاقت کا مقابلہ کر سکے۔ دنیا میں بڑے بڑے انقلابات علم کی طاقت سے ہی بر پا ہوتے ہیں۔ علم سے مراد کوئی مخصوص علم نہیں ہے بلکہ ہر قسم کا علم ہے۔ یہ علم روحانی بھی ہو سکتا ہے اور مادی بھی۔۔۔ دین کا بھی ہو سکتا ہے اور دنیا کا بھی۔۔۔ قدیم بھی ہو سکتا ہے اور جدید بھی۔۔۔ کسی مخصوص شعبے (Specific Field)کا بھی ہو سکتا ہے اور عمومی (General) بھی۔ ایک شخص جو کسی بھی میدان میں ہے مثلاً ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ تو جب تک وہ اپنے مخصوص شعبے کے حوالے سے علمی پختگی کا حامل نہیں ہو گا، بہت زیادہ ترقی نہیں کر سکے گا اور نہ ہی اس میں اپنا مقام بنا سکے گا۔ عمومی علم سے مراد یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔۔۔ ؟ قومی معاملات کیا ہیں اور بین الاقوامی مسائل کیا ہیں۔۔۔ ؟ دنیا کن خطوط پر آگے بڑھ رہی ہے۔۔۔ ؟ زندگی کے مختلف شعبوں میں کیا ترقیاں (Developement) ہو رہی ہیں۔۔۔ جو شخص جس معاملے میں جتنا زیادہ علم حاصل کرے گا، اُس کی ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے امکانات اُتنے ہی زیادہ روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔
علم اور تسخیرِ کائنات
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور کائنات اور اس کی جملہ اشیاء کو انسان کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔ نیز پور ی کائنات اور اُس کے جملہ مظاہر کو انسان کے لیے مسخر بھی کر دیا گیا ہے تاکہ وہ حسبِ منشا اُن سے کام لے سکے۔ لیکن انسان کے اندر مسخر کرنے کی قوت اور کائنات کے اندر مسخر ہونے کی صلاحیت بالقوہ ہے، بالفعل نہیں ہے یعنی بطور امکان تو ہے لیکن بطورِ واقعہ نہیں ہے۔ جیسے ایک بیج کے اندر درخت بننے کا امکان تو موجود ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ درخت بن بھی جائے۔ اس امکان کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اُس پر قوانینِ فطرت کی روشنی میں محنت کرناہو گی۔ ایسے ہی تسخیرِ کائنات کو بطورِ واقعہ معرضِ وجود میں لانے کے لیے اُس کی حکمتِ عملی کوا پنانا ہوگا اور اُس حکمتِ عملی کو آشکار کرنے والی قوت کا نام علم ہے۔ علم ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے انسان ستاروں پر کمندیں ڈال سکتا ہے، ہواؤں اور فضاؤں پر حکمرانی کر سکتا ہے، پہاڑوں کا جگر کاٹ سکتا ہے،بھپرے ہوئے سمندروں کا رُخ موڑ سکتا ہے، زمین کا سینہ چیر کر اُس کی تہہ میں چھپے ہوئے خزانوں کو اپنے تصرف میں لا سکتا ہے اور شیر، چیتے، ہاتھی وغیرہ جیسے وحشی درندوں کو پنجرے میں بند کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام بڑے ٹھوس اور محکم قوانین پر اُستوار کیا ہے۔ یہ قوانین اتنے اٹل ہیں کہ ان میں کسی بھی قسم کا تغیر و تبدل ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ اس کائنات میں رونما ہونے والے ہر چھوٹے بڑے واقعہ کی تہہ میں کوئی نہ کوئی قانون کام کر رہا ہوتا ہے جسے سائنس کی زبان میں علت و معلوم کا قانون (Law of Cause & Effect) کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی درخت کی شاخ سے ایک پتہ بھی کسی قانون کے بغیر نہیں گرتا ہے۔ علم کائنات کے سر بستہ رازوں کو انسان پر آشکار کرتا ہے اور اُن قوانین کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے جو تمام حرکات و سکنات کے پسِ پردہ کار فرما ہیں۔ چنانچہ علم کی بدولت انسان کے لیے مظاہر کائنات کی حقیقت کو سمجھ کر اُن پر تصرف کرنا اور اُنہیں اپنے لیے مفید بنانا آسان ہو جاتا ہے۔ جو اقوام آج ترقی کے بامِ عروج پر پہنچی ہوئی ہیں اور بحروبر پر حکمرانی کر رہی ہیں اُن کے پیچھے یہی علم کی قوت ہے۔ سائنس کی تمام ایجادات علم ہی کے مرہونِ منت ہیں۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ سائنس قوانین کو ایجا د نہیں کرتی بلکہ صرف اُنہیں دریافت کرتی ہے اور پھر اُنہیں استعمال میں لاتے ہوئے ترقی و ارتقاء کا سفر طے کرتی ہے۔
علم اور تسخیرِ ذات
مندرجہ بالا پہلو علم کی افادیت کا خارجی پہلوہے، جہا ں تک اس کے داخلی پہلو کا تعلق ہے تو علم انسان کو کائنات کی تسخیر کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کی تسخیر کا طریقہ بھی بتاتاہے۔ جس طرح کائنات کا کارخانہ مخصوص قوانین کے تحت چل رہا ہے، اسی طرح خالقِ کائنات نے زندگی کی بقاء، ارتقاء اور نشونما کے بھی قوانین بنا رکھے ہیں۔ عروج و زوال اور فنا و بقاء کو خاص ضابطوں کا پابند بنا رکھا ہے۔ علم کے ذریعے اُن قوانین کو جان کر زندگی کے معیار کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے اور کامیابی، ترقی اور عرو ج کی فطری خواہش کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ ہر انسان کے اندر ایک وسیع کائنات موجود ہے جہا ں جذبات، خیالات، خواہشات، آرزوئیں، اُمنگیں اور تمنائیں ہیں۔ علم کے ذریعے اپنے من کی دنیا میں جھانک کر ان چیزوں کو نظم و ضبط کا پابند بنا کر اپنی شخصیت کو مہذب اور پاکیزہ بنا یا جاسکتا ہے۔ شخصیت کے منفی رجحانات پر قابو پا کر مثبت رویوں کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے اور اپنی ذات کو اتنا نفیس بنایا جا سکتا ہے کہ وہ دنیا کے باغ میں ایک پھول کی طرح ماحول کو معطر کرے، سورج کی طرح روشنی بکھیرتے ہوئے ماحول کو منور کرے اور مرنے کے بعد جنت کی حسین و جمیل وادیوں میں بسنے کے قابل ہو سکے۔ چنانچہ علم انسان کو دنیا اور آخرت دونوں جگہوں میں مطلوب اور پسندیدہ بنا دیتا ہے۔
علم اور اصلاحِ اخلاق
انسانی زندگی کاپہلاقانون ’’دفع ضرر اور جِلبِ منفعت ہے۔ ‘‘یعنی ضرر سے بچنااور نفع کوحاصل کرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی فطرت اور جبلّت میں یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ وہ ہر قسم کے نقصان سے اپنے آپ کو بچانا چاہتی ہے اورہرقسم کے فائدے کوحاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ تقاضا صرف انسان میں ہی نہیں بلکہ ہر ذی روح کے اندر اس طرح سمو دیاگیا ہے کہ وہ کسی حال میں اُس سے جدانہیں ہوسکتا اور اس کے خلاف چلنا کسی کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ دنیاکی بقا، ارتقا، اورنشوونماکا تمام تردارومداراسی قانون پرہے۔
اس قانون کی مثالیں ہمیں جابجاملتی ہیں۔ مثلاً ایک دن کاپیداہونے والا شیرخوار بچہ جب بھوک محسوس کرتاہے تووہ اُس کے ازالے کے لیے کسی شے کی طلب کااظہارکرتے ہوئے روناشروع کردیتاہے حالانکہ وہ لفظِ بھوک سے آشنا بھی نہیں ہے۔ اسکی وجہ محض یہی ہے کہ بھوک کی حالت اُس کے لیے ضرررساں اور نقصان دہ ہے، لہٰذا اُس کی فطرت اُسے اس حالت سے بچاناچاہتی ہے اور وہ اس حالت سے باہر آنے کے لیے دودھ یاکسی اورچیزکی طلب کرتاہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہماراہاتھ اگر کہیں بے دھیانی میں آگ کی سمت بڑھنے لگے تو فوراً ہمارے ارادے کے بغیر ہی پیچھے ہٹتا ہے۔ ہماری آنکھوں میں اگر کوئی چیز پڑنے لگے تووہ غیر ارادی طور پرچشمِ زدن میں بند ہوجاتی ہیں تاکہ ہر قسم کے نقصان سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ یہ مثالیں اس حقیقت کوآشکار کرتی ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص ہر معاملے میں فطری اور جبلّی طور پر ہر قسم کے نقصان سے بچناچاہتا ہے اور ہر قسم کے فائدے اور منافع کو اپنے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے۔
لیکن دوسری طرف روزمرہ کامشاہدہ بتاتاہے کہ لوگوں کی اکثریت شاہراہِ حیات پر سفر کرتے ہوئے تعمیر کوچھوڑکر تخریب کی طرف چل پڑتی ہے اور بیسیوں ایسے کام کرتی ہے جو اُسے تباہی و بربادی کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں۔ مثلاً سگریٹ نوشی اور دوسرے نشہ جات کااستعمال، قتل، زنا، چوری، ڈکیتی، دوسروں کوناحق ستانا اوراسی طرح کے بہت سے مذہبی، اخلاقی، سماجی و معاشرتی جرائم جن میں مبتلاہوکر انسان دوسروں کونقصان پہنچانے اورمعاشرے کاامن و سکون تہس نہس کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کوبھی ذہنی و قلبی سکون و اطمینان سے محروم کر لیتا ہے اور دنیاو آخرت کی تباہیاں، بربادیاں، رسوایاں اورذلتیں خرید لیتاہے۔
سوال یہ ہے کہ ایساکیوں ہوتاہے؟ انسان اپنی فطرت کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اُن کی مخالف سمت میں چلتے ہوئے نفع کی بجائے نقصان کاسوداکیوں کرلیتا ہے اور کامیابی و کامرانی کے راستے کوچھوڑکر ناکامی و نامرادی کے راستے پر چل کر اپنی منزل کو کھوٹا کیوں کر لیتا ہے؟ اس سوال کے جواب پرغورکرنے سے جوبات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی دوچیزوں سے عبارت ہے: ایک فکر اور دوسرا عمل۔
فکراورعمل اگرچہ دوالگ الگ چیزیں ہیں مگر دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر اورلازم ہیں اوراسی طرح ملی ہوئی ہیں جیسے آگ کے ساتھ حرارت اورسورج کےساتھ روشنی۔ ان دونوں میں تعلق یہ ہے کہ فکر مقدم ہے اورعمل مؤخر۔ انسان کاہرعمل اُس کی فکر کاآئینہ دارہوتاہے۔ ہرچیز پہلے خیال اورفکر کی سطح پرنمودارہوتی ہے اورپھراُس کے بعد عمل کے سانچے میں ڈھلتی ہے۔ لہٰذا فکر اگردرست ہوگی تو عمل بھی درست ہوگا اورفکر غلط ہوگی توعمل بھی غلط ہوجائے گا۔ لہٰذا عمل کو درست کرنا ہے تو پہلے فکر کو درست کرنا ہوگا۔ یہ فکر کی گمراہیاں ہیں جوانسان کوتعمیر کے راستے سے ہٹاکر تخریب کے راستے پرڈال دیتی ہیں۔ تاریخِ انسانی میں جو بھی تخریب کاریاں، تباہیاں اوربربادیاں ہمیں دکھائی دیتی ہیں، وہ سب کی سب پہلے انسانوں کے اذہان میں جنم لیتی رہی ہیں اورپھر ہی عمل کاروپ دھارتی رہی ہیں۔ فکری گمراہیوں کاسبب ذہنی مغالطے، غلط فہمیاں اور توہمات ہیں جو حقیقت کے چہرے پرپردہ ڈال دیتے ہیں اورانسان کواشرف المخلوقات کے بلند ترین مقام سے نیچے گرا کرجانوروں کی سطح پر بلکہ بعض اوقات اس سے بھی نیچے لے آتے ہیں۔
جب انسان کو کسی بھی معاملے میں صحیح علم حاصل ہو جاتا ہے تو وہ لازماً عمل کاروپ دھارتاہے جوکہ نیکی کی شکل بنتی ہے۔ اسکے برعکس کسی بھی معاملے میں جہالت سے انسان کے اندر توہمات اور غلط تصورات پیداہوتے ہیں جن سے غلط عمل جنم لیتا ہے جو بدی کی شکل بنتی ہے۔ انسانی فکر کوسنوارنے اوربگاڑنے میں علم کابہت بڑاعمل دخل ہے۔
علم اور اسلام
اسلام کا مقصد لوگوں کے اخلاق کی اصلاح کرنا ہے تاکہ وہ دنیا و آخرت کی سعادتیں حاصل کر سکیں۔ سطور بالا میں بتایا جا چکا کہ اصلاح ِ اخلاق میں علم کا بہت اہم کردار ہے۔ چنانچہ اسلا م نے علم کے حصول پر بہت زیادہ زور دیا ہے ا ور اس کو اتنی اہمیت دی ہے جتنی دنیا کے کسی اور مذہب اور تہذیب میں نہیں دی گئی۔ قرآن مجید کی پہلی وحی کا آغاز ہی حصولِ علم کی تلقین سے ہو رہا ہے۔ علاوہازیں قرآن مجید کی متعدد آیات کریمہ میں جا بجا علم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ قرآنِ مجید کے نزدیک علم سے بڑی فضیلت کوئی نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ علم کی اس فضیلت کے ضمن میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے اس سے مراد کون سا علم ہے؟ کیا محض قرآن و حدیث و فقہ وغیرہ کا علم مراد ہے یا سائنس ٹیکنالوجی اور دیگر دنیوی علوم بھی اس میں شامل ہیں؟
اس حوالے سے جاننا چاہئے کہ علم کی تقسیم در تقسیم کے نتیجے میں آج علم کی سیکڑوں شاخیں (Branches) معرضِ وجود میں آچکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہر آنے والے دن میں علوم و فنون کے نئے نئے گوشے آشکار ہو رہے ہیں اور یوں علوم کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے مگر اس سے قطع نظر اسلام علوم کو بنیادی طور صرف دو اقسام میں تقسیم کرتا ہے:
1۔ علمِ نافع
2۔ علم غیر نافع
علم نافع (نفع دینے والا علم) سے مراد وہ علم ہے جو انسان کو فکری لغزشوں، گمراہیوں، توہم پرستی سے نکال کر حقیقت سے آشنا کردے۔ اور غیر نافع( نفع نہ دینے والا علم) وہ ہے جو انسان کو شکوک و شبہات اور گمراہیوں کی دلدل میں ڈال کر حقیقت سے دور کردے۔ حضورe علمِ نافع کے حصول کے لیے دُعا کیا کرتے تھے:
اللهم اني أسألك علما نافعا.
(سنن نسائی، كتاب عمل اليوم والليلة، رقم: 9920: 6/21)
اور دوسری طرف علم غیر نافع سے پناہ مانگا کرتے تھے:
اللھم انی اعوذبک من علم لا ینفع.
(ابن ماجہ، السنن، رقم: 250، 1/92)
’’اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اُس علم سے جو نفع نہ دے۔‘‘
اسلام جہا ں بھی علم کی بات کرتا ہے اُس سے مراد یہی علم نافع ہی ہے جس میں قرآن و حدیث تو سرِ فہرست ہیں تاہم سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر عصری علوم بھی درجہ بدرجہ شامل ہیں۔ اسلام کے نزدیک علمِ نافع وہ ہے جس کے ذریعے سے انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت تک پہنچ جائے۔۔۔ زندگی کے اسرار و رموز سے آگاہ ہو جائے۔۔۔ اور اُس علم کے مثبت اثرات خود اُس کی ذات اور کسی نہ کسی حد تک ماحول پر بھی دکھائی دیں۔ گویا اسلام کے نزدیک علم و ہی ہے جو انسان کو خد اتک پہنچادے۔۔۔ حقائقِ حیات سے آشنا کر دے۔۔ زندگی کی راہوں کو روشن کر دے۔۔۔ اور عمل کی جہات کو درست کر دے۔
جس علم میں مندرجہ بالا میں سے کچھ بھی نہ ہو تو وہ محض معلومات کا انبار ہے جو زندگی کو بوجھل بنا دینے کے سوا و ر کچھ نہیں کر سکتا۔ ایسے علم کو غیر نافع قرار دے کر اس سے پناہ مانگی گئی ہے۔
علم کا نفع بخش نہ ہونا دو جہات سے ہو سکتا ہے:
1۔ علم نظریاتی طور پر غلط ہو اور اُس کے نتیجے میں انسان فکری گمراہیوں کا شکار ہو جائے، جن کا لازمی نتیجہ عملی گمراہیوں کی شکل میں نکلے گا۔
2۔ علم کے غیر نفع بخش ہونے کی دوسری جہت یہ ہے کہ علم بذاتِ خود تو صحیح ہو لیکن وہ عمل کا روپ نہ دھار سکے۔
اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ انسان کا علم نظری اعتبار سے بھی صحیح ہونا چاہیے اور اُسے انسانی شخصیت میں اس طرح رچ بس جانا چاہیے کہ انسان اُس کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہو جائے اور یہی وہ علم ہے جو انسان کے اعمال اور اخلاق کو درست سمت میں گامزن کرنے میں بہت مؤثر کردار اداکر سکتا ہے۔