تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں 27 ویں شب رمضان، لیلۃ القدر کا عالمی روحانی اجتماع جامع المنہاج بغداد ٹاؤن لاہور میں منعقد ہوا۔ شہر اعتکاف میں جملہ شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد بالخصوص علماء و مشائخ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ علاوہ ازیں ہزاروں معتکفین و معتکفات اور ملک بھر سے عشاقان مصطفیٰ کی بڑی تعداد بھی عالمی روحانی اجتماع میں شریک تھی۔ چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، شیخ حماد مصطفی المدنی القادری، ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈا پور، نائب صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، محترم ڈاکٹر جسٹس نذیر احمد غازی، محترم پروفیسر فہد علی کاظمی ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات، جملہ مرکزی نائب ناظمین اعلیٰ، ناظمین، سربراہان فورمز و شعبہ جات اور رفقاء و کارکنان تحریک بھی اجتماع میں شریک تھے۔ قراء حضرات نے تلاوتِ قرآن اور نعت خوانان نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ نقابت کے فرائض صفدر علی محسن نے سرانجام دئیے۔
- عالمی روحانی اجتماع سے محترم جسٹس نذیر احمد غازی نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ نوجوانوں کے اخلاق بگاڑے جا رہے تھے، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو یہ کریڈت جاتا ہے کہ انہوں نے نوجوانوں کی علمی و فکری تربیت کی اور انہیں حسنِ اِخلاق کا سبق دیا۔ وہ وقت دور نہیں جب ان کی کاوشوں سے اسلام کا پرچم پوری دنیا میں لہرائے گا۔ این مری شمل ایک بہت بڑی جرمن سکالر ہیں ۔ وہ علامہ محمد اقبال کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’’مسلمانوں کے ہاں یہ تصور ہے کہ اب وحی کا سلسلہ بند ہو چکا ہے او ر جبریل نےنہیں آنا لیکن میرا وجدان کہتا ہے کہ جبرائیل کے پروں نے گزرتے ہوئے علامہ اقبال کو ضرور چھوا ہے۔‘‘ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جبرائیل کے پر نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کو بھی کہیں چھوا ہوا ہے۔ اس لئے کہ اتنا بڑا کام کوئی بغیر ایسی قوت کے نہیں کر سکتا۔ ہم نے بھی کتابیں پڑھی ہیں، ہم بھی ایک زمانے سے علم کی دنیا میں لگے ہوئے ہیں لیکن اس ایک شخص نے اتنا بڑا کام کر کے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ دنیا میں حسنِ اتفاق کوئی چیز نہیں۔ یہاں صرف دو چیزیں ہیں:1۔ اللہ تعالیٰ کا حسنِ انتظام۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا حسنِ انتخاب۔ سید عالمین ﷺ کی محبت جس جس کشکول میں اور جس جس دل میں جانی ہے، وہ پہلے سے منتخب شدہ لوگ ہیں اور ڈاکٹر صاحب ان میں سے ایک ہیں۔ اس اعتکاف کے موقع پر شیخ الاسلام کے خطابات سن کر ہر شخص کو فخر محسوس ہو رہا ہے کہ ہم ساری امتوں میں سے بہترین امت ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی تعلیمات کی اس دور میں اسلام کو ضرورت ہے۔ آج پوری دنیا میں اسلام کے سب سے بڑے وکیل کا نام ڈاکٹر طاہر القادری ہے۔ دین اسلام کو اچھے وکیلوں کی ضرورت ہے اور منہاج القرآن یہ کمی پوری کر رہا ہے۔ اس موقع پر انھوں نے تمام شرکاء سے کہا کہ تمام لوگ کھڑے ہوکر ان کی علمی و دینی خدمات کو سلام پیش کریں۔
- عالمی روحانی اجتماع کے موقع پر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کو ان کی عظیم خدمات کے اعتراف میں منہاج القرآن انٹرنیشنل اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی طرف سے Global achievement award سے نوازا گیا۔ شیلڈ کی صورت میں یہ ایوارڈ روحانی اجتماع میں شریک معزز مہمانان گرامی نے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کو پیش کیا۔
خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری (موضوع: حضرت بِشر الحافی سے ملاقات)
عالمی روحانی اجتماع کے موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’حضرت بشر الحافیؒ سے ملاقات‘‘ کے موضوع پر قرآن مجید کی درج ذیل آیت مبارکہ کو موضوع گفتگو بناتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰـهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.
(الانعام: 122)
’’بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لیے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لیے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح کافروں کے لیے ان کے وہ اعمال (ان کی نظروں میں) خوشنما دکھائے جاتے ہیں جو وہ انجام دیتے رہتے ہیں۔ ‘‘
اللہ رب العزت نے اس آیت مبارکہ میں ایک بڑی خوبصورت بات ایک مثال کے ذریعے دو قسموں کے لوگوں کا موازنہ کر کے بیان فرمائی ہے۔ آج کی شب ہم بھی ایک ایسے ہی شخص سے ملاقات کرنے جا رہے ہیں جو اللہ کے نور کو بانٹتا تھا اور زمانوں تک اس کے بانٹے ہوئے نور سے لوگوں کے دل روشن ہوتے رہے۔ ان کا نام حضرت بشر الحافیؒ ہے۔
ایمان ایک بیج کی طرح ہے جو دل کی زمین پر بویا جاتا ہے۔ یہ خود بخود پروان نہیں چڑھتا اور پھل دار نہیں بنتا، بلکہ ایمان کی مضبوطی و پختگی کے سارے مرحلے اندرونی و بیرونی کوشش کے محتاج ہوتے ہیں۔ ایمان بیج کی طرح ہمارے دلوں میں آجاتا ہے لیکن ایمان کے پودے کو پھل دار بنانے کے لیے مسلسل محنت درکار ہوتی ہے۔ اگر ہم ہر قدم پر اِس کی حفاظت نہیں کریں گے تو پھر ہم اِس کے پھل سے محروم ہو جائیں گے۔ ہم اِس غلط فہمی میں ہیں کہ چونکہ ہم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں، اس لیے ہمارے ایمان کا بیج خود بخود پھل دار بن جائے گا۔ نہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ ہمیں ہر وقت ایمان کے اس پودے کی حفاظت کی ضرورت رہتی ہے۔ نیکیوں، اَعمالِ صالحہ، نماز، روزہ، حج، زکوۃ، تلاوت قرآن اور سنتِ مصطفیٰ ﷺ کی پیروی سے ایمان کی حفاظت کرنا ہوگی۔ نیک اَعمال ایمان کے محافظ اور promoter ہیں، اَعمالِ صالحہ سے ایمان کی افزائش (growth) ہوتی ہے۔
یہ تصور غلط ہے کہ ’’پردہ دل کا ہونا چاہیے، آنکھ کا کیا ہے۔ طہارت دل کی ہونی چاہیے، باہر کی طہارت کا کوئی معنی نہیں۔ سچائی دل کی ہونی چاہیے، میں دل کا مسلمان ہوں۔ ‘‘ یہ کلمات اور سوچ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف بغاوت ہے۔ کوئی شخص جس کے ظاہر میں کفر ہے، وہ دل کا مومن نہیں ہو سکتا۔ جس کے ظاہر میں فسق و فجور ہے، وہ دل کا صالح نہیں ہو سکتا۔ جس کے ظاہر میں گندگی و غلاظت ہے، اللہ اور اللہ کے رسول کی مخالفت ہے، اس کا دل اور باطن کبھی پاکیزہ اور ستھرا نہیں ہو سکتا۔ یہ تصور Godless فکر اور سوچ کا دیا ہوا ہے کہ زندگی میں ہر لمحہ حرام کماتے اور کھاتے رہیں اور پھر اسے اپنا پرائیویٹ معاملہ قرار دے دیں۔ ظاہر اور باطن کے اپنے اپنے فوائد ہوتے ہیں۔ اَعمالِ صالحہ نہ کرنا اور اِسے اپنا اور رب کا معاملہ قرار دینا بالکل غلط تصور ہے۔ یہ اِیمان کو کفر اور اِلحاد کی طرف لے جانے والی فکر ہے۔ جس طرح کسی پھل کے ظاہر یعنی اس کے چھلکے کو اتار کر پھینک دیا جائے تو اس کا گودا(اندرونی حصہ) کچھ گھنٹوں بعد خراب ہو جاتا ہے، اِسی طرح اگر ایمان کے ظاہر کی حفاظت نہیں کریں گے تو اس کا گودا یعنی ہمارا باطن بھی درست نہیں رہے گا۔ ہمیں ہر وقت نیک اعمال کے ذریعے ایمان کے ظاہر اور باطن دونوں کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایمان کے معاملے میں انسان کا کوئی معاملہ ذاتی نہیں رہتا۔ ہر معاملہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے اَحکامات کے تابع ہوگا تو ایمان محفوظ رہے گا۔ کفر غیر شعوری طور پر، لاشعوری طور پر ہماری سوچوں، فکر، عمل اور زندگی میں داخل ہو رہا ہے اور داخل کیا جا رہا ہے۔ کہیں privacy کے نام پر، کہیں personal freedom (ذاتی آزادیوں) کے نام پر۔ یہ طرح طرح کے عنوانات گمراہی ہیں، لہذا ایمان کی حفاظت اسی وقت ہوتی ہے جب ظاہر و باطن دونوں میں اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے احکام کا نفاذ ہواور پھر اس کی quality کو improve کیا جائے۔
حضرت بشر حافی سے دعا کی قبولیت کا راز پوچھا گیا تو آپنے فرمایا کہ اللہ کی نافرمانی چھوڑ دینے کا نام دعا ہے۔ یعنی اگر بندہ صرف گناہ اور اللہ کی نافرمانی چھوڑ دے تو وہ نہ بھی مانگے، تب بھی اللہ بن مانگے اسے عطا کرتا ہے۔ اللہ دیکھتا ہے کہ یہ بندہ میری رضا کی خاطر میری نافرمانی و گناہ چھوڑ گیا ہے، بس اس کے ترک کرنے پر اللہ اس کو عطا کر دے گا ۔
آپ سے پوچھا گیا کہ اگر ایک گنہگار اطاعت کی طرف جانا چاہے تو اس کا راز کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر وہ بہت بڑی اطاعت نہیں کر سکتا تو وہ صرف گناہ ہی چھوڑ دے۔ یہ اس کی سب سے بڑی نیکی ہو گی۔ گویا جب بندہ اللہ کی نافرمانی ترک کر دیتا ہے تو یہ عمل خود اتنی بڑی نیکی ہے کہ اللہ رب العزت اس بندے کو اطاعت گزار بندوں میں شامل کر دے گا۔ اطاعت کی وادی میں داخل ہونے کے لیے سب سے بڑی چابی معصیت اور گناہ کو ترک کرنا ہے۔
اللہ کی حرام کردہ تمام اشیاء کو ترک کردینا اور اپنی زندگی کو ہر حرام سے پاک کرلینا حقیقی تقویٰ ہے۔ شریعت کے اَحکام کی حفاظت کرنا مسلمانی ہے اور شریعت کے آداب کی حفاظت کرنا تقویٰ ہے۔ خود کو ہر اُس شے سے بچائیں جو آپ کے دل و دماغ میں فسق و فجور ڈالے اور آپ کو اللہ اور اُس کی یاد سے دور کرے۔ حضور غوث الاعظمؒ فرماتے ہیں کہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان اُس جگہ نہ ہو جہاں خدا اُسے دیکھنا نہیں چاہتا، اور ہر اُس جگہ موجود ہو جہاں خدا اُسے دیکھنا چاہتا ہے۔
علم بیان کرنے کے لیے نہیں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو علم عطا کیا اور انہوں نے اِس علم کے ذریعے اِنسانیت کی رہنمائی فرمائی۔ جو شخص آخرت کے عمل سے دنیا کمائے، اس سے قبیح عمل کوئی نہیں۔ جو شخص نیک اَعمال اِس نیت سے کرے کہ وہ پہچانا جائے، اِس سے بری نیت کوئی نہیں۔ جو اپنے علم کے ذریعے یہ خواہش رکھے کہ وہ پہچانا جائے اور اسے عزت و تکریم ملے، وہ نیک اَعمال کی لذت نہیں پاسکتا۔ اگر نیک اعمال کی لذت پانا چاہتے ہو تو ہر چیز سے بے نیاز ہو جاؤ۔ اپنی نیکیوں کو اُسی طرح چھپاؤ جیسے اپنے گناہوں کو چھپاتے ہو۔ جب آپ سنگتیں اور دوستیاں بناتے ہیں تو دیکھیں کن دوستیوں اور سنگتوں سے دل سخت ہوتا جا رہا ہے اور دین کی محبت کم ہوتی جا رہی ہے تو فوراً ایسی مجلس چھوڑ دیں۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید کے جملہ اَحکامات میں توبہ، ایمان اور عملِ صالح کو جوڑا ہے۔ عمل اور شے ہے اور تقریر اور شے۔ اگر دین عمل میں نہیں ڈھلا تو پھر کسی تقریر کا دنیا اور آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ۔ آج اکثر واعظین کا حال یہ ہے کہ تقریر میں عمدہ فضائل بتاتے ہیں مگر اپنے عمل میں بد زبانی پر عمل پیرا رہتے ہيں۔ تقریر میں اچھے اخلاق کا پرچار کرتے ہیں مگر معاملات میں بد اَخلاقی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ قول و عمل کے اس تضاد سے معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آسکتی۔
حضرت بشر الحافی کچھ لوگوں کے ہمراہ قبرستان میں داخل ہونے لگے تو آپ رک گئے اور فرمانے لگے کہ یہ جو مردے آپ کو قبرستان میں نظر آ رہے ہیں، ان سے عدد میں کہیں زیادہ مردے قبرستان سے باہر زندہ دنیا میں پھرتے ہیں مگر جسم ان کے زندہ ہیں۔ لوگوں نے وضاحت پوچھی تو فرمایا کہ مردوں اور زندوں کا فرق جاننا ہے تو چلتے پھرتے زندہ جسموں کو زندہ نہ جانو اور قبروں میں لیٹے ہوئے مرحومین کو مردہ نہ جانو۔ تمہارے لیے یہ بات کافی ہےکہ ایسے لوگ جو وفات پا گئے اور ہمیں جسمانی طور پر دکھائی نہیں دیتے مگر ان کا ذکر کرو تو دل زندہ ہو جاتے ہیں، اصل زندہ وہ لوگ ہیں۔ یعنی جن کی یاد سے لوگوں کے دل زندہ ہو جائیں، جن کے ذکر سے مردہ دلوں کو حیات مل جائے، اصل میں وہ زندہ ہیں اور ایسے لوگ جو دنیا میں زندہ پھرتے ہیں مگر ان کی صحبت اور دوستی اختیار کرنے سے دل مردہ اور سخت ہو جاتے ہیں، وہ مردہ ہیں۔ گویا آپ نے صحبت اور سنگت اور دوستی کا پیمانہ مقرر کر دیا۔