دارالافتاء تحریک منہاج القرآن

سوال: كيا گناہ گار’’البغض فی اللہ‘‘ كے دائرے میں آتے ہیں؟اور ’’ونخلع و نترک مں یفجرک‘‘ سے مراد گناہ گاروں سے مکمل بائیکاٹ کرنا ہے؟

جواب: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ الْحُبُّ فِي اللهِ، وَالْبُغْضُ فِي اللهِ.

تمام اعمال سے افضل اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کرنا اور اللہ کے لئے دشمنی رکھنا ہے۔

(أبو داود، السنن، 4: 198، رقم: 4599)

درج بالا روایت اور اسی مفہوم کی دیگر روایات میں بیان کردہ ’البغض فی اللہ‘ سے مراد گنہگاروں سے یکسر قطع تعلقی نہیں بلکہ اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ بندہ مومن اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے صدقِ ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اُن لوگوں سے محبت کرے جنہیں اللہ پسند فرماتا ہے اور دشمنی و بغض بھی اسی سے رکھے جو اللہ تعالیٰ کا مبغوض ہے۔ گویا ایمان لانے کے بعد ہمارے قلبی جذبات اور معاشرتی تعلقات کی بنیاد حسد، ذاتی عدات و ناپسندیدگی یا نفع و نقصان پر نہیں بلکہ خالصتاً رضائے الٰہی پر مبنی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر کسی سے محبت و تعلق رکھا جاسکتا ہے تو یقیناً اللہ کے انعام یافتہ بندے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین، علمائے حق اور اولیاء اللہ ہوسکتے ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ان سے سچی محبت و عقیدت رکھے گا تو ظاہر ہے کہ وہ یقیناً ان کی اتباع و پیروی کرے گا اور اعمالِ صالحہ بجالائے گا۔ اسی طرح جو شخص اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے کسی سے بغض و عداوت رکھے گا تو وہ یقیناً دشمنانِ دین ہوں گے جو خدا کے دین کو مٹانے اور اس کے نظام کو تہ و بالا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسی صورت میں بندۂ مومن کا فرض ہے کہ ان دشمنانِ حق کی بیخ کنی اور دین کی سر بلندی کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروکار لائے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی دشمنانِ حق سے دوستی و تعلق رکھنے سے روکا ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ.

(الممتحنہ، 60: 8)

’’اللہ تو محض تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں (یعنی وطن) سے نکالا اور تمہارے باہر نکالے جانے پر (تمہارے دشمنوں کی) مدد کی۔ اور جو شخص اُن سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘

یہ حکم محاربین یعنی ان کفار کے بارے میں ہے جو مسلح ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں اور دینِ خدا کے خلاف اعلانیہ یا غیراعلانیہ طور پر برسرِ پیکار ہیں۔ جہاں تک غیرحربی کفار یا عام گنہگار افراد کا معاملہ ہے تو ان سے معاشرتی تعلق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لَا يَنْهَاكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ.

(الممتحنة، 60: 7)

اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

جب اللہ تعالیٰ غیر حربی یعنی امن پسند اور غیرمسلح کفار سے معاشرتی مقاطع کا حکم نہیں دے رہا بلکہ ان کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرنے اور عدل و انصاف کا برتاؤ رکھنے میں کوئی حرج بھی قرار نہیں دیتا تو عام مسلمانوں سے معاشرتی قطع تعلقی کس بنیاد پر روا رکھی جاسکتی ہے؟ اگر گنہگار افراد سے قطع تعلقی کرلی جائے تو ان کی اصلاح کی کیا صورت رہ جائے گی؟ پھر دعوت و تبلیغ تو صرف صلحاء کے لیے رہ جائے گی‘ ایسی صورت میں اسلام کی تعلیمات عام کرنے کی صورت کیا بنے گی؟

دعائے قنوت میں ’و نخلع و نترک من یفجرک‘ (جو تیری نافرمانی کرے اس سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں) سے مراد بھی یہی ہے کہ ہم گنہگاروں کے عملِ بد سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں‘ نہ کہ ان سے معاشرتی قطع تعلقی کا اعادہ کیا جا رہا ہے۔

درج بالا تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر برے اعمال سے اجتناب کیا جائے۔ دینِ حق کے خلاف برسرِ پیکار کفار سے دوستی و محبت نہ رکھی جائے۔ گنہگاروں اور غیرمسلموں سے قطع تعلقی کی بجائے ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے اور انہیں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کروایا جائے۔ لہٰذا گناہ سے نفرت کی جائے‘ گنہگاروں سے نہیں، کفر سے قطع تعلقی کی جائے پرامن کفار سے نہیں۔

سوال: رضائے الٰہی کا حصول کیوں ضروری ہے اور اس کا حصول کیونکر ممکن ہے؟

جواب: عمل کی قبولیت حسن نیت پر ہے اور حسن نیت کا نکھار اور کمال اللہ کی رضا سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے سے راضی ہو جانا دراصل دنیا و آخرت کی سب سے بڑی دولت اور سب سے بڑا انعام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

تَرٰهُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللهِ وَ رِضْوَانًا.

(الفتح، 48: 29)

’’اے دیکھنے والے تو دیکھتا ہے کہ وہ کبھی رکوع کبھی سجود میں ہیں (غرض ہر طرح) اللہ سے اس کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلبگار ہیں۔‘‘

یعنی رضائے الٰہی کے طلبگاروں کو کسی چیز کی پروا نہیں وہ صرف اور صرف اپنے رب کی رضا کے طالب ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:

وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ اَکْبَرُ.

(التوبة، 9: 72)

’’اور اللہ کی رضا سب سے بڑھ کر ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کائنات کا خالق و مالک ہے، ہر کوئی اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے مگر اللہ کسی کا محتاج نہیں۔ شان صمدیت کا مالک اور منتہائے رضا کا حقدار صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے مخلوق کے لئے اپنے خالق و مالک کی رضا حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر بندہ خود کو غلام اور اللہ تعالیٰ کو اپنا رب، خالق اور مالک حقیقی سمجھتا ہے تو پھر کونسا غلام ہو گا جسے اپنے مالک کی خوشنودی مطلوب نہ ہو اور پھر نیک اعمال کی انجام دہی جذبہ رضائے الٰہی کے لئے ایک محرک کا کام دیتی ہے۔ یہ ایسا بہترین محرک ہے کہ اگر بندے کے دل کا مرکز و محور صرف اور صرف اللہ کی رضا ہو تو دلوں کو ہر طرح کی آلائشوں سے نجات مل جاتی ہے۔ ہر طرح کے خوف، لالچ، حرص و ہوس، غرور و تکبر اور حسد و منافقت وغیرہ حرف غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں اور دل پاک صاف ہو کر اللہ کی محبت کا ٹھکانہ بن جاتے ہیں۔ بندہ اس حالت میں جو بھی عمل کرے گا وہ خواہ ادنیٰ سا ہی کیوں نہ ہو، اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کا شرف پا کر حسین ہو جائے گا۔ اس پر اللہ کی رضا و خوشنودی کی چھاپ لگ جائے گی اور یوں بندہ درجہ احسان پر فائز ہو جائے گا۔ اس لیے رضائے الٰہی کا حصول ضروری ہے۔

رضائے الٰہی کے حصول کے لئے انسان کو اپنی جان و مال اور عزت و آبرو جیسی قیمتی چیزوں کو قربان کرنا پڑتا ہے تب جا کر انسان رضائے الٰہی کے مرتبے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ جان کی قربانی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللهِ.

(البقرة، 2: 207)

’’اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے۔‘‘

پھر مال کی قربانی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرضَاتِ اللهِ.

(البقرة، 2 : 265)

’’اور جو لوگ اپنے مال اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کر دیتے ہیں۔‘‘

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَ لاَ يَخَافُوْنَ لَوْمَة لَآئِمٍ.

(المائدة، 5: 54)

’’اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔‘‘

لوگوں کی ملامت اور طعن و تشنیع کی پرواہ کیے بغیر اگر انسان اپنی یہ تینوں چیزیں راہ خدا میں قربان کر دے تو پھر کوئی سبب نہیں کہ وہ دولت رضائے الٰہی سے محروم رہے۔

سوال: كيا ’’نہی عن المنکر‘‘ صرف علماء كی ذمہ داری ہے؟

جواب: حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِکَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ.

(مسلم، الصحيح، 1: 69، الرقم: 49)

تم میں سے جو شخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے اور اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔

مذکورہ بالا حدیث مبارک میں برائی کی ہاتھوں کے ساتھ اصلاح کرنے اور طاقت نہ رکھنے کی صورت میں زبان سے اس کا رد کرنے کا فرمایا گیا ہے۔ یہ بات برحق ہے کہ ہر برائی کو ہاتھ سے روکنے کے لیے طاقت اور اختیار کا ہونا ضروری ہے، لہٰذا جہاں تک کوئی برائی علماء کے ہاتھوں قابل اصلاح ہو تو علماء کا فرض بنتا ہے کہ اس کی اصلاح کریں۔ اس کے علاوہ جن برائیوں کی روک تھام کرنا حکومت اور اداروں کا کام ہے، اُن کے لئے آواز بلند کرنا، عوام کو آگاہ کرنا اور اُن تک پہنچانا ہی علماء کا فرض ہو گا کیونکہ ہاتھ سے روکنے کی طاقت اور اختیار علماء کے پاس نہیں ہے۔ ہر ایک اپنی ذمہ داری کو جوابدہ ہو گا۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَی أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَهُ رَاعِيَةٌ عَلَی أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْؤُولَةٌ عَنْهُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَی مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْهُ أَلَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ.

(بخاری، الصحيح، 6: 2611، الرقم: 6719)

خبردار ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ لہٰذا امام لوگوں کی طرف سے نگران ہے اور اس سے اُن لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو اُس کے ماتحت تھے اور ہر آدمی اپنے گھر والوں کا نگران ہے اور اُس سے اُس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کے لیے نگران ہے اور اُس سے اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا اور آدمی کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اُس سے اُس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

لہٰذا علماء کا برائی کے خلاف آواز بلند کرنا ان کا اخلاقی فرض ہے تا کہ برائیوں کا خاتمہ ہو سکے اور معاشرے کی اصلاح بہترین انداز میں ہو۔