شہر اعتکاف میں ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری اور شیخ حماد مصطفیٰ المدنی القادری کے خطابات

رپورٹ: محمد یوسف منہاجین، محبوب حسین

’اصلاحِ احوال اور آدابِ زندگی‘ کے عنوان سے منعقدہ تربیتی نشستوں سے ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کے خطابات

منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے شہر اعتکاف میں ’’اصلاحِ احوال اور آدابِ زندگی ‘‘کے عنوان سے منعقدہ خصوصی تربیتی نشستوں سے درج ذیل موضوعات پر خطابات ارشاد فرمائے:

1۔ موضوع: الزھد والجوع

چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے شہر اعتکاف میں ہونے والے خطابات کی پہلی تربیتی نشست (21 رمضان المبارک) سے گفتگو کرتے ہوئے اہل معرفت، اہل قربت اور اہل تصوف کے ہاں الجوع کے تصور کو واضح کیا کہ اللہ کی خاطر نفس کو بھوکا رکھنے کا نام جوع ہے۔ خواہ فاقہ کشی اور کم خوری کے باب میں ہو یا جملہ میلانات و رغبات کے باب میں۔ جوع اور زہد کے درمیان فرق ہے۔ نفس کے میلانات سے الگ ہونا جوع ہے جبکہ دل کے میلانات سے الگ ہونا زہد ہے۔ جوع کا مقصد اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ بندگان خدا اپنی جانوں، اپنے میلانات اور اپنے رجحانات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ انہیں ان چیزوں کی خود ضرورت ہی کیوں نہ ہو۔ حتی کہ وہ اپنی خواہشات اور ضروریات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ وہ خود تو بھوکے رہتے ہیں لیکن دوسروں کو بھوکا نہیں رہنے دیتے۔

بھوک اور جوع اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ حتی کہ ایمان کی حقیقت زہد اور جوع میں ہے۔ جوع انسان کے لیے آزمائش ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت میسر آتی ہے تو وہ بھوک سے آزماتا ہے۔ لہذا اس آزمائش میں کامیاب ہونے کے لیے اللہ والوں کی سنگت میں جڑ جانا اور استقامت کے ساتھ جڑے رہنا انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ یہی اللہ والے ہیں جو خود تو بھوک پیاس برداشت کرتے ہیں لیکن دوسروں کو کھلاتے اور پلاتے ہیں۔ جسے جوع مل گئی اسے تواضع وانکساری مل گئی اور جسے تواضع و انکساری مل گئی، اسے گریہ و زاری مل گئی اور جسے گریہ و زاری مل گئی، اسے مقصد حیات مل گیا اور یہی مقصد حیات رب کی بارگاہ میں پہنچادیتا ہے۔ آج کے دور میں جہاں دل کی رغبتیں دنیا کے مال و اسباب میں گم ہیں ان رغبتوں کو دنیوی مال و اسباب سے الگ کرکے مولا کی طرف پھیرنے کے لیے شہر اعتکاف سجایا جاتا ہے۔

جس کو جس شے سے محبت، لگن، چاہت اور الفت محسوس ہوتی ہے اس کے لیے اس شے میں جوع ہے۔ یعنی اگر کسی کو کپڑے پسند ہیں تو اس کی جوع کپڑے ہیں، کسی کو خوراک میں رغبت ہے تو اس کی جوع اس خوراک میں ہے۔ کسی کو مال و دولت میں دلچسپی ہے تو اس کی جوع مال و دولت ہے۔ کسی کو سیاست، عہدوں اور ناموری سے پیار ہے تو اس کی جوع اسی میں ہے لیکن جب اس کی نفسانی خواہشات دنیوی معاملات سے ختم ہوگئیں اور وہ رب کا شکر گزار بندہ بن گیا تو اس کی جوع رضائے الہٰی بن گئی۔

ظاہر کی جوع یہ ہے کہ نفس ظاہری میلانات، رجحانات اور رغبتوں سے پاک ہوجائے اور باطنی جوع یہ ہے کہ نفس باطنی میلانات، رجحانات اور رغبتوں سے پاک ہوجائے۔ جو شخص دنیا سے کٹ کر اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے تو اللہ اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا اور جو دنیا کے سپرد ہوجاتا ہے تو آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔ جس کے پاس دنیا کی مال و دولت دیکھیں تو سمجھیں وہ دنیا کے سپرد ہوگیا ہے۔ جس پر دنیا راضی ہوجائے اس سے خدا ناراض ہے اور جس سے دنیا ناراض ہوجائے یعنی وہ تنگدستی کا شکار ہو تو سمجھ لیں رب اس پر راضی ہے اور وہ جوع کی آزمائش میں کامیاب ہوگیا۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اگر دنیا کی رضا میں اللہ کی رضا ہوتی تو انبیاء کرام علیہم السلام ، اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے پاس دنیا کے مال و دولت کی کثرت ہوتی۔

2۔ موضوع: دل کیا ہوتا ہے اور انسانی جسم میں اس کی اہمیت کیا ہے؟

شہر اعتکاف کی دوسری نشست (24 رمضان المبارک) سے چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دل کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں 133 مقامات پر قلب یعنی دل کا تذکرہ کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کو دل سے کتنا پیار ہے۔ حدیث مبارک میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے جسموں اور صورتوں کی طرف نہیں دیکھتا، بلکہ دل کو دیکھتا ہے۔ وہ دل کے احوال رجحانات، میلانات اور رغبات کا معائنہ کرتا رہتا ہے۔ اللہ رب العزت نے دل کے چار خانے بنائے ہیں جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ یہ جسم میں موجود گندے خون کو جذب کرنے کے بعد اس کی تطہیر کر کے اور اسے گندگی سے پاک صاف کرکے دوبارہ جسم میں واپس بھیجتے ہیں تاکہ جب وہ صاف ستھرا خون دماغ اور دیگر اعضا تک پہنچے تو وہ عضو توانا ہوجائے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیکھنے کے لیے دو آنکھیں، سماعت کے لیے دو کان، پکڑنے کے لیے دو ہاتھ، چلنے کے لیے دو پاؤں حتی کہ جسم کے اندر دو پھیپھڑے اور دو گردے بنائے یعنی زندگی کا نظام چلانے کے لیے ہر شے کو جوڑے کی شکل میں پیدا کیا مگر اس نے اپنے لیے ایک شے بنائی جسے قلب کا نام دیا گیا ہے۔ دل نے پوچھا کہ مولا میرا جوڑ کہاں ہے؟ فرمایا اے دل تجھے میں نے اپنے ساتھ جوڑا۔ اس لیے کہ میں بھی ایک ہوں اور تجھے بھی اکیلا پیدا کیا تاکہ اپنے ساتھ جوڑ سکوں۔

دل کے بگڑنے او ر سنورنے پر ہی زندگی کا دارومدار ہے۔ حدیث مبارک میں دل کو جسم کا ایک ایسا لوتھڑا کہا گیا کہ اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جائے اور اگر وہ ٹھیک رہے تو سارا جسم سلامت رہتا ہے۔ دل جسم کے باقی اجزاء کا سردار ہے یعنی دل بادشاہ ہے اور باقی جسم کے تمام اجزاء اس کی فوج ہیں۔ اگر بادشاہ خیر اور بھلائی پر قائم رہا تو سمجھ لو اس کی پوری فوج خیر پر گامزن ہوگی اور اگر بادشاہ کرپٹ اور بدعنوان ہوگیا تو ساری فوج کرپٹ ہوجائے گی۔ گویا باطن کا سارا دارومدار دل پر ہے۔

دل کی اقسام میں سے قلب سلیم اسے کہتے ہیں جس کے آئینے میں جلوہ خدا ہو اور نفع مند وہ شخص ہوگا جو قلب سلیم کے ساتھ بارگاہ خدا میں حاضر ہوگا۔ قلب منیب اس دل کو کہتے ہیں جو خدائے رحمان سے ڈرتا رہے اور خشیت و خوف کی حالت میں رب کی بارگاہ میں پیش ہو۔ قلب متقی وہ ہوتا ہے جو اللہ رب العزت کی نشانیوں کی تعظیم کرتا رہا اور اسی حال میں اس کی بارگاہ میں پیش ہوا۔ قلب مطمئن وہ ہے کہ جب بندہ اللہ رب العزت کا ذکر کرتا ہے تو اس حال میں اس کا دل اطمینان کی کیفیت میں ہوتا ہے۔ قلب خائف وہ ہے کہ جو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیش ہونے سے ڈرتا ہے اور قیامت کے دن بھی خشیت سے دھڑکتا رہے گا۔ یہ دل اگر بیدار ہوجائے تو قلبی حیی ہے اگر مردہ ہوجائے تو اسے قلب میت کہتے ہیں۔ قلب میت وہ ہوتا ہے جو نہ دیکھ سکے اور نہ سمجھ سکے۔ اس لیے فرمایا جن کے دل میت بن گئے ان پر محنت کی ضرورت نہیں۔ قلب مریض پر محنت کریں تاکہ وہ قلب سلیم میں تبدیل ہوسکے۔

اللہ رب العزت نے دل کے ساتھ روح اور نفس کو بھی جوڑا ہے۔ جس کے دل پر روح کا قبضہ ہوگیا، وہ رحمانی ہوجائے گا اور جس کے دل پر نفس کا قبضہ ہوگیا، وہ نفسانی اور شیطانی ہوجائے گا۔ اللہ والوں کے دل قلب منیب ہوتے ہیں اور قلب منیب میں مقناطیسیت ہوتی ہے جو بھی ان کی مجلس میں بیٹھتا ہے اس کے دل پر بھی کرم طاری ہوجاتا ہے۔

حضرت عطاء السکندری سے پوچھا گیا کہ دل کو قلب حی اور قلب سلیم کیسے کریں کہ وہ معرفتِ الہٰی کے قابل ہوجائے؟ آپ نے فرمایا کہ اے بندے اگر تو اپنے دل کو بارگاہ الہٰیہ میں قربت کے مقام تک پہنچانا چاہتا ہے تو اپنے وجود کو گمنامی کی زمین میں دفن کردے، اپنے ہونے کے احساس کو مٹادے اور اپنے جاہ و منصب کے تصور کو فنا کردے تو تیرا دل زندہ ہوجائے گا اور تو ہر طرح کے فتنہ و فساد سے محفوظ ہوجائے گا۔

3۔ موضوع: دل کی اصلاح کیسے ہوتی ہے؟

چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے شہر اعتکاف میں تیسری تربیتی نشست (27 رمضان المبارک) سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ رب العزت نے انسان کو دو راستے دکھا دیئے؛ ایک برائی کا راستہ ہے اور دوسرا اچھائی کا۔ پھر انسان کے نفس اور اس کی جبلت اور سرشت میں برے کاموں کی کشش بھی رکھ دی اور نیکی، تقویٰ اور طہارت کی کشش بھی رکھ دی۔ پھر برائی اور فسق و فجور کے راستے پر چلانے کے لیے شیطان کو بھی کھلا اذن دے دیا اور تقویٰ و طہارت اور نیکی کے راستے پر قائم و دائم رکھنے کے لیے اولیاء و صالحین کی صحبت و سنگت بھی عطا کردی۔ جب دونوں مواقع یعنی لیول پلینگ فیلڈ عطا کردی تو پھر فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا. وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَا.

(الشمس، 91: 9-10)

کامیاب وہی ہوگا جو اپنے نفس کی اصلاح کرکے تقویٰ و نیکی کے راستے پر چل پڑا۔ اور جو شہواتِ نفسانی کی آڑ میں برائی کے راستے پر چلا تو وہ نامراد ہوا۔

ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دلوں پر نفس کا غلبہ ہوجاتا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کے دل متقی اور مطمئن رہتے ہیں اور ان پر روح کا غلبہ ہوتا ہے۔ ان کے دل سلیم اور منیب ہوجاتے ہیں۔ ایسے دل اپنے مولا کے علاوہ کسی کو نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ یہ ایسے دل ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا برتن کہا ہے اور یہ دل محبین، اولیاء، صالحین، متقین اور صوفیاء کے دل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دل کو اپنا برتن کہا ہے۔ برتن میں کھانا تب ڈالا جاتا ہے جب وہ صاف ہو۔ ہم ایک وقت میں جس برتن میں کھانا کھالیں تو اسے دھوئے بغیر دوسرے وقت کا کھانا نہیں ڈالتے تو کیا وہ رب اپنے برتن میں اپنا نور ڈالتے ہوئے دیکھتا نہیں ہوگا کہ یہ دل صاف ہے یا نہیں۔ لہذا اپنے دلوں کے برتنوں کو غیر کی چاہت، برائی اور غلاظت سے پاک صاف رکھا کرو تاکہ اللہ رب العزت ان میں اپنا نور ڈال سکے۔

’تاریخ تصوف اور تعلیماتِ صوفیاء‘کے عنوان سے منعقدہ تربیتی نشستوں سے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کے خطابات

منہاج القرآن انٹرنیشنل کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے شہرِ اعتکاف میں ’’تاریخ تصوف اور تعلیماتِ صوفیاء‘‘ کے عنوان سے منعقدہ تربیتی نشستوں سے درج ذیل موضوعات پر خطابات ارشاد فرمائے:

1۔ موضوع: تصوف اورتعلیمات صوفیاء

صدر تحریک منہاج القرآن صاحبزادہ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے شہر اعتکاف میں ہونے والے خطابات کی پہلی تربیتی نشست (22 رمضان المبارک) سے ’’تصوف اور تعلیمات صوفیاء‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تصوف سے متعلق مختلف نظریات رکھنے والے چار طبقات ہیں:

پہلا طبقہ وہ ہے جس کا نظریہ یہ ہے کہ تصوف کا اصل دین سے کوئی تعلق نہیں اور یہ طبقہ لوگوں میں تصوف سے متعلق اشکال پید کرتا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو صوفیاء کا کلیتاً انکاری تو نہیں مگر یہ صوفیاء کو نظر انداز کرتا ہے اور انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جس نے صوفیاء اور تعلیماتِ تصوف کے نام پر وہ کچھ متعارف کروایا جس کا تصوف و صوفیاء سے کوئی تعلق ہی نہیں بلکہ اس کا تعلق ذاتی و معاشی معاملات سے ہے تاکہ وہ تصوف کے نام پر اپنی معاشی حالت کو سدھار سکیں۔ چوتھا طبقہ وہ ہے جو اصل صوفیاء کا ہے جنھوں نے تصوف کو صرف کلام نہیں سمجھا بلکہ تعلیماتِ تصوف کو اپنی عملی زندگیوں میں شامل کیا۔

اگر کوئی پوچھے کہ حضور ﷺ کے دور میں تصوف کا نام نہیں تھا تو جواب یہ ہے کہ حضور ﷺ کے دور میں ہر صحابی صوفی تھا، اس لیے تصوف کے الگ نام کی حاجت ہی نہ تھی۔ آج کے دور میں اچھے اور برے میں فرق پیدا کرنے کے لیے لفظ تصوف ایجاد ہوا۔ جیسے حضور ﷺ کے دور میں قرآن مجید کو سننے والا ہر کوئی عربی تھا تو قرآن کو اعراب دینے کی ضرورت نہ تھی۔ پس قرآن مجید کو غیر عرب لوگوں تک پہنچانے کے لیے اعراب کی ضرورت پڑی۔ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صوفیانہ تعلیمات کو دور دراز علاقوں تک پہنچانے کے لیے لفظِ تصوف کی ضرورت پڑی۔

تصوف ایک جامع اصطلاح ہے جس کے ذیل میں بہت سے عنوانات آتے ہیں۔ جیسے آج سے 30 سال پہلے MBA جامع ڈگری ہوتی تھی جس میں بزنس اور مینجمنٹ کی تمام تعلیمات جمع تھیں۔ لیکن آج کے دور میں MBA کی تعلیم میں شامل بہت سارے علوم و فنون الگ الگ حیثیت سے معرض وجود میں آگئے ہیں۔ یہی حال آج کے دور میں تصوف کا ہے۔ لوگوں نے اپنے اپنے کاروبار اور اپنی اپنی دکان چلانے کے لیے تصوف کے مختلف عنوانات اپنا رکھے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ آج کے دور میں تصوف نالائق لوگوں کے ہاتھ چڑھ گیا ہے۔ جیسے ایک نالائق پروفیسر طلبہ کو ڈھونڈتا ہے جبکہ لائق پروفیسر کو طلباء ڈھونڈتے ہیں، اسی طرح جعلی صوفی؛ پیر کے روپ میں مریدوں کو ڈھونڈتا ہے جبکہ حقیقی صوفی کو مرید ڈھونڈتے ہیں۔

2۔ موضوع: تصور فنا و بقا اور انسانی زندگی

صدر تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے دوسری تربیتی نشست (25 رمضان المبارک/ جمعۃ الوداع) سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوفیاء کے ہاں فنا کا تصور ایک تبدیلی کا رونما ہونا ہے۔ گویا قربتِ حق کے حصول میں انسان کے اندر نفسیاتی، انفرادی، شخصی اور اجتماعی تبدیلی رونما ہونا فنا ہے۔ راہ حق کے طالب اور سلوک و معرفت کے حصول کے خواہشمند کے لیے تصور فنا؛ نہایت موثر کردار ادا کرتا ہے اورتصور فنا انا پرستی ، ذات کی نفی اور اپنی خودی سے ماوراء ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ شیخ ابن العربی فنا سے متعلق فرماتے ہیں کہ فنا سے مراد وجود کا مٹ جانا نہیں بلکہ یہ تبدیلی کا ایک عمل ہے جس میں بندہ اپنے نفس کی زنجیروں کو توڑ کر خدا کے اوصاف سے مزین ہوجاتا ہے۔ گویا انفصالِ نفس کی حالت سے اتصالِ حق کی حالت میں تبدیل ہونا فنا ہے۔ فنا کا سفر حق کی راہ کے متلاشیوں کی حقیقت ہے۔

فنا کے سفر میں جو چیز سب سے زیادہ کار آمد اور معاون ثابت ہوتی ہے وہ عشق ہے۔ عشق فنا کے حصول کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ تصور فنا میں عشق کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کیونکہ عشق repair (مرمت) نہیں کرتا بلکہ Restruct (تعمیر نو) کرتا ہے۔ اس فنا کے بعد بقاملتی ہے۔ لہذا جس کو عشق نہ ہوا، اس نے فنا کا مزہ ہی نہ چکھا۔ لہذا جو اپنی انا کو، اپنے تجربے کو، اپنی خواہشاتِ نفسانی کو فنا کرکے ’’باقی‘‘ کی طرف تعلق جوڑ لیتے ہیں تو اللہ رب العزت انہیں ایک ایسا نور عطا کرتا ہے کہ پھر ان کے ساتھ جو بیٹھتا ہے اسے بھی نور والا بنادیتے ہیں۔ فنا و بقا میں پہلا مرحلہ خودشناسی اور خود آگہی کا ہے کہ بندہ اس کے ذریعے اپنے اندر پائی جانے والی خامیوں اور خرابیوں کو پہچانتا ہے۔ دوسرا مرحلہ تزکیہ نفس ہے۔ انسان تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب و باطن کے ذریعے فنا کا سفر شروع کرتا ہے اور بقا کی منزل تک پہنچتا ہے۔ تیسرا مرحلہ جذب ہے جو عشق کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب و باطن سے پہلے عشق ہوجائے تو وہ عشق نفسانی ہوتاہے لیکن تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب و باطن ہوجانے کے بعد جو عشق ہوتا ہےو ہ رحمانی ہوتا ہے۔ چوتھے مرحلے میں کشف اورحجابات کا درجہ آتا ہے۔ اب اس مرحلے میں اللہ رب العزت براہ راست آزمائشوں کے ذریعے انسان کی تربیت کرتا ہے۔

جو بندہ صرف اپنے لیے جیتا ہے وہ فنا ہوجاتا ہے اور جو دوسروں کی خدمت کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے وہ باقی ہوجاتا ہے۔ فنا و بقا صرف تصوف سے متعلقہ موضوع نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے کیونکہ اللہ رب العزت کائنات کی ہر شے کو فنا و بقا کے مرحلوں سے گزارتا ہے۔

3۔ موضوع: تصوف کے اجزاء

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے تیسری تربیتی نشست (28 رمضان المبارک) سے خطاب کرتے ہوئے تصوف کے اجزاء بیان کیے کہ حقیقت میں تصوف کن چیزوں سے مل کر بنتا ہے۔ ان میں سے سب سے پہلی چیز محبتِ الہٰی ہے۔ صوفیاء کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے جان و مال سے، اپنے اہل و عیال سے اور اپنی روزمرہ زندگی کی آسائش و راحت سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں اور یہی تصوف کی تعلیمات ہیں اور تصوف کا لازمی جزو ہیں۔ ان کی محبت، ان کی کسی سے نفرت، دوستی و دشمنی، رہن سہن، پسند و ناپسند، رغبت اور دوری حتی کہ ان کے تمام احساسات اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کی بنیاد ہوتے ہیں۔ وہ اپنے نفس کے مطابق نہیں چلتے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے تابع زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی پسندیدگی کی بنیاد نفس کی خواہش نہیں ہوتی بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا ہوتی ہے۔

تصوف کے اجزاء میں سے دوسرا جز عبادت ہے۔ کثرتِ نوافل قرب الہٰی کا ذریعہ ہیں اور لوگ نماز تراویح کی رکعتوں پر اعتراض اٹھاتے ہیں، کس قدر حیران کن بات ہے۔ حالانکہ اللہ کا حکم ہے کہ جو کثرت نوافل کو اپنی زندگی کا شعار بناتا ہے تو اللہ ان کو اپنے قرب کی عظمتوں سے نوازتا ہے اور صوفیاء اسی کی تعلیم دیتے ہیں۔

صوفیاء کی زندگی میں صدق و اخلاص اس درجے پر ہوتا ہے کہ عام انسان اس کا اندازہ نہیں لگاسکتا۔ صوفیاء اور عام انسانوں کی زندگی میں فرق ’’اخلاص‘‘ ہے اور یہی اخلاص تصوف کا تیسرا جزء ہے۔ اس لیے کہ صوفیاء وہ لوگ ہیں جنہوں نے توبہ کرلی اور اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور اپنا دین اللہ کے لیے خالص کرلیا۔ ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ اجر عظیم سے نوازتا ہے۔

تصوف کی تعلیمات کا چوتھا جزء اعمالِ صالحہ ہیں۔ صوفیاء کی زندگی میں نظر آنے والے اعمال صالحہ عین دین ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے سکھایا ہے۔ اس لیے کہ صوفیاء کی نگاہ اپنے باطن کی طرف رہتی ہے۔ وہ دوسروں کی کمزوریوں اور خامیوں پر نگاہ نہیں ڈالتے اور نہ ہی دوسروں کو judge کرتے ہیں لیکن جو ان کی صحبت میں آجائے تو اس کو ہدایت کے راستے پر ڈال دیتے ہیں۔ صوفیاء کی ایک خاص صفت یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں پر تنقید نہیں کرتے اور نہ ہی دوسروں کی عیب جوئی کرتے ہیں۔

زہد اور دنیا سے بے رغبتی صوفیاء کی زندگی کا ایک اہم جز ہے۔ اگر کوئی کہے زہد اور دنیا سے بے رغبتی اضافی عمل ہے اور دین اس کا تقاضا نہیں کرتا تو یہ غلط ہے، اس لیے کہ یہ سب کچھ قرآن و سنت کے عین مطابق ہے۔ افسوس کہ ہم نے دین کو سمجھا ہی نہیں۔ جو چیز آسان لگتی ہے اس کو دین مان لیا لیکن جو چیز قرب الہٰی کے راستے میں مشکل پیدا کرے، اسے خارج از دین کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم فتویٰ کی طرف دوڑتے ہیں اور تقویٰ کے مسافر نہیں بنتے جبکہ صوفیاء فتوے کی روش کو چھوڑ کر تقوے کی راہ کے مسافر بن جاتے ہیں۔

’راہ محبت و شوق میں تعلق باللہ کے مختلف زاویے اور راستے‘ کے عنوان سے منعقدہ نشستوں سے شیخ حماد مصطفی المدنی القادری کے خطابات

1۔ موضوع: تعلق باللہ کا راستہ

صاحبزادہ شیخ حماد مصطفی المدنی القادری نے شہر اعتکاف کی پہلی تربیتی نشست (23 رمضان المبارک) سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تعلق باللہ کا راستہ ایک ایسا راستہ ہے جس راستے سے اولیاء کاملین گزرے۔ حضور قدوۃ الاولیاء بدرجہ اتم گزرے اور اسی راستے سے شیخ الاسلام نہ صرف گزر رہے ہیں بلکہ ہمیں بھی اس راستے سے گزار رہے ہیں۔ کیونکہ کاملین کا یہ درجہ ہوتا ہے کہ وہ اس راہ محبت و شوق، راہ جستجو و آرزو، راہ عشق، راہ تقویٰ و پرہیزگاری، راہ قناعت، راہ زہد و ورع سے نہ صرف خود گزرتے ہیں بلکہ اپنے پاس بیٹھنے والوں کو بھی گزارتے ہیں۔ تصوف کی ابتداء بھی ایک سفر سے ہوتی ہے۔ یہ سفر کبھی بیاباں اور بنجر زمین کا ہوتا ہے اور کبھی ویران صحراؤں کا، کبھی یہ سفر غیر آباد بستیوں اور شہروں کا ہوتا ہے۔ جوں جوں سالک اور متصوف اس سفر عشق و محبت میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے تو یہ سفر بیابان و بنجر زمین سے رفتہ رفتہ سبز و شاداب باغات کی طرف چلا جاتا ہے اور بالآخر اپنے نقطہ کمال تک پہنچ جاتا ہے۔ ہم نے اسی راہ محبت و شوق کا مسافر بننا ہے اور اسی راہ محبت و عشق پر گامزن ہونا ہے۔

ہمارا یہ مقام، کیفیت اور حال ہے کہ ہم آسودگی آرام اور سہولت کی زندگی بسر کررہے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم خدا کو تلاش کررہے ہیں۔ ہمارے لیے یہی فارمولا ہے کہ ہم اپنے دلوں میں خلوت نشینی اختیار کریں۔ ہمیں اپنے دلوں میں ڈوب کر خدا کو پانا ہے۔ اپنے ویران اور اجڑے ہوئے دیار میں اللہ رب العزت کی تلاش میں اسی کا ذکر کرتے کرتے اس کو پانا ہے۔ اللہ رب العزت اسی کو اپنے راستے کی طرف ہدایت عطا فرماتا ہے جو اس کی جانب مجاہدہ و ریاضت اور محنت و مشقت کرتے ہیں اور جو یہ جہد مسلسل نہیں کرتے انہیں کبھی اپنی طرف آنے والے راستوں کی طرف ہدایت عطا نہیں فرماتا۔

کسی کو اللہ رب العزت کی قربت طریقِ عشق سے ملتی ہے، کسی کو طریقِ معرفت، کسی کو طریقِ زہد و ورع سے ملتی ہے اور کسی کو تقویٰ و پرہیزگاری کی روش سے ملتی ہے مگر ان راستوں پر چلنے والوں کو قربت ضرور ملتی ہے۔ اللہ کی یاد میں اشک بہانا بھی اس کی قربت کا ذریعہ ہے جسے بکاء کہتے ہیں لیکن اگر دل سخت ہوجائیں تو بکاءنصیب نہیں ہوتی۔ شہر اعتکاف میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم قربت الہٰی میں خود کو جمالیں، عشق و محبت الہٰی میں خود کو جلالیں مگر اس کے لیے اپنی خواہشات و شہوات کو پیس کر ریزہ ریزہ کرنا پڑے گا، تب اللہ کا قرب نصیب ہوگا۔ جو اللہ رب العزت کی یاد میں محو نہیں ہوتے تو اللہ رب العزت انہیں کچھ عطا نہیں فرماتا اور جو اس کی راہ میں ہوجائیں تو انہیں اپنی لذت دیدار بھی عطا فرمادیتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم صبح و شام اس کی آرزو، جستجو اور شوقِ دیدار میں بسر کریں۔ یہی ایک راستہ ہے جس سے ہمیں اپنی منزل مقصود مل سکتی ہے۔

2۔ موضوع: محبتِ الہٰی اور شوقِ دیدار

صاحبزادہ شیخ حماد مصطفی المدنی القادری نے شہر اعتکاف کی دوسری تربیتی نشست (26 رمضان المبارک) سے محبت الہٰی اور شوق دیدار کے موضوع پر گفتگو کی اور ان ہستیوں کا ذکر کیا جن کو اللہ رب العزت نے اپنے دیدار اور مشاہدہ سے نوازا۔ جو لوگ اس کی محبت اور شوق دیدار کے مسافر بنتے ہیں، انہیں مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہم یہ احوال کیفیات اور مقامات بھی چاہتے ہیں مگر ان احوال و کیفیات اور مقامات کو حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں درکار ہیں، وہ قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ سیدنا ابوبکر صدیقg کا فرمان ہے کہ جو شخص محبت الہٰی کا مزہ چکھ لیتا ہے وہ دنیا سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے دلوں پر کئی پردے ہیں جو اللہ اور ہمارے درمیان حائل ہیں۔ یہ رکاوٹیں جاہ و منصب کی طلب، نفس کی خواہشات اور دل کے امراض ہیں۔

اللہ بندے کے دل میں جھانک کر دیکھتا ہے کہ کیا اس کے دل میں صفائے قلب ہے، طہارت اور پاکیزگی ہے، کیا اس کے دل میں میرے سوا کوئی اور خواہش، جستجو اور آرزو تو نہیں۔ اگر ہے تو اس دل میں اللہ اپنا جلوہ نہیں فرماتا۔ لہذا جو لوگ اپنے دلوں کو اللہ کے سوا ہر چیز کی چاہت سے خالی کرلیتے ہیں، صاف ستھرا اور طاہر کرلیتے ہیں، تب اللہ ان کے دلوں میں اپنی محبت ڈالتا ہے۔ جبکہ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم نے دنیوی مال و دولت کے چند ٹکوں کے عوض محبت الہٰی کو پس پشت ڈال دیا، آخرت بیچ ڈالی، اللہ کا مشاہدہ بیچ دیا اور اللہ کے دیدار کی نعمت کو بیچ دیا۔ عشاق اور محبین کے احوال اور انداز جدا ہوتے ہیں، ان کی گفتگو کے انداز جدا ہوتے ہیں، طرزِ سوچ اور طرزِ عمل جدا ہوتا ہے حتی کہ تعلق باللہ کا عمل بھی جدا ہوتا ہے۔ ان کے طرز عمل میں یکسوئی ہوتی ہے جو کہ دعویٰ محبت کو خالص کرنے کے لیے ضروری ہے اور جب دعویٰ محبت خالص ہو تو پھر انجام سے غرض نہیں ہوتی۔ پھر ستر سال کی عبادت کے رد ہونے پر بھی بندہ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔

ہمارا اللہ سے تعلق اتنا کمزور، نحیف اور حساس ہے کہ جب ہمیں نعمت ملتی ہے تو خوش ہوجاتے ہیں اور کوئی نعمت چھن جائے تو ناراض ہوجاتے ہیں۔ امام جعفر الصادق سے پوچھا گیا کہ آپ کا مشاہدہ کیسا ہوتا ہے؟ فرمایا میں ایسا عبادت گزار نہیں ہوں کہ میں اس رب کی عبادت کروں جو مجھے نظر نہ آئے۔ اس شخص نے تعجب کیا کہ آنکھیں تو اس کامشاہدہ نہیں کرسکتیں۔ فرمایا: ہاں! ان آنکھوں نے تو رب کو نہیں دیکھا مگر یہ مشاہدہ ایمان اور دل کی حقیقت کے ذریعے ہوتا ہے۔ گویا جو اللہ کے برگزیدہ لوگ ہوتے ہیں، ان کے دل میں اللہ کا نور ہوتا ہے، جس سے وہ مشاہدہ کرتے ہیں۔

3۔ موضوع: توبہ

صاحبزادہ شیخ حماد مصطفی المدنی القادری نے شہر اعتکاف کی تیسری تربیتی نشست (29 رمضان المبارک) سے توبہ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ واپسی کے سفر کو توبہ کہتے ہیں یا پلٹ کر اصل مقام کی طرف واپس آنے کو توبہ کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی اپنے اصل مقام سے کسی دوسرے مقام کی طرف سفر کرتا ہے تو لامحالہ اس نے اپنا کام کرکے واپس اپنے اصل مقام کی طرف ضرور آنا ہے کیونکہ جو مستقل ٹھکانہ ہوتا ہے، انسان بالآخر وہیں پلٹ کر آتا ہے۔ توبہ ایسا سفر ہے جس کے ذریعے انسان اپنی اصل منزل یعنی بارگاہ الہٰی تک پہنچتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی طرف سفر کرنے والوں سے فرمایا ہے کہ اگر مجھ تک پہنچنا ہے اور میری رضا حاصل کرنی ہے تو سچی توبہ کرو اور لغزشوں سے پاک صاف ہوکر میری طرف لوٹو۔ اس کے لیے اصلاحِ احوال ناگزیر ہے۔ لہذا توبہ کرنے کے بعد اپنے احوال کی بھی اصلاح ضروری ہے۔ کیونکہ جو توبہ کرے مگر اس کے بعد اپنی اصلاح نہ کرے تو اس نے توبہ کا حق ادا نہ کیا۔

توبہ کے ارکان میں سے غفلت سے بیداری سب سے بڑا رکن ہے کیونکہ غفلت توبہ کے سفر میں رکاوٹ ہے۔ غفلت کی حالت میں انسان کو محسوس نہیں ہوتا کہ میں خدا کی نافرمانی کررہا ہوں۔ اگر غفلت سے بیداری نصیب ہوجائے تو اسے توبہ کہتے ہیں۔

توبہ کا دوسرا رکن ندامت ہے۔ آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم گناہوں پر گناہ کرتے چلے جاتے ہیں مگر ندامت تک نہیں ہوتی۔ لہذا اگر جرم و گناہ کے بعد ندامت محسوس کریں تو سمجھ لیں توبہ کا سفر شروع ہوگیا ہے۔

توبہ کا تیسرا رکن تزکیہ نفس ہے کہ بندہ خود کو گناہوں سے پاک صاف کرلے اور دوبارہ گناہوں کی طرف پلٹ کر نہ جائے۔ زبان، ہاتھ، کان، پاؤں گناہ میں ملوث ہیں تو ان کو گناہوں سے پاک صاف کرلینے کو تزکیہ نفس کہتے ہیں۔

توبہ کا چوتھا رکن پختہ ارادہ ہے۔ پختہ ارادہ سے مراد یہ ہے کہ جب زبان سے توبہ کی ہے تو اب انسان لغزش، نافرمانی اور گناہوں کو چھوڑ دے اور پختہ ارادہ کرے کہ پلٹ کر دوبارہ اس عمل کی طرف نہیں لوٹنا۔

گناہوں سے ہجرت کرنا، توبہ کا پانچواں رکن ہے جو صحبت گناہ کی طرف مائل کرے اس سے ہجرت کرلینا توبہ ہے۔

قیامت تک اللہ تعالیٰ نے انسان کی توبہ قبول کرنی ہے حتی کہ نزع کے وقت بھی اگر انسان توبہ کرلے تو اللہ قبول فرمالیتا ہے۔ مرتے دم تک ہمارا توبہ نہ کرنا ہماری خطا ہے اور مرتے وقت توبہ قبول کرنا خدا کی سخا ہے۔ توبہ کی توفیق نہ ملنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم اپنے احوال و معاملات میں آزاد ہیں۔ ہم نے خود کو احکامِ الہٰیہ کا پابند نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آزادی نافرمانی کا سبب بن چکی ہے، جس کی وجہ سے ہم توبہ سے محروم رہتے ہیں۔