اداریہ: آئین کی قرآن و سنت کی روشنی میں اہمیت

چیف ایڈیٹر: ماہنامہ منہاج القرآن

میثاقِ مدینہ کو ریاستِ مدینہ کا پہلا دستور ہونے کی فضیلت حاصل ہے۔ یہ دستور حضور نبی اکرم ﷺ کی قیادت میں مدینہ منورہ کے اکناف و اطراف میں مختلف المذاہب قبائل کے ساتھ مل کر تیار کیا گیا۔ مسلموں اور غیر مسلموں کے مابین یہ دستور باہمی تعلقات اور رہن سہن کی ایک ایسی دستاویز تھی جو حدود و قیود اور حقوق و فرائض کا تعین کرتی تھی۔ پیغمبر اسلام کو اللہ رب العزت نے دین اسلام کی صورت میں جو نظامِ حیات عطا فرمایا تھا وہ اول تا آخر اصول و ضوابط کا پابند ہے۔ اس لئے آپ ﷺ نے ہجرتِ مدینہ کے فوری بعد میثاقِ مدینہ کے ذریعے کرۂ ارض کی پہلی انسانی فلاحی ریاست کی داغ بیل ڈالی۔ آج دنیا کا کوئی ملک اور معاشرہ دستور کے بغیر اپنی نظریاتی، جغرافیائی حدود کا تعین اور تحفظ نہیں کر سکتا۔ جب کسی ملک کا دستور کاغذ کا ٹکڑا بنتا ہے تو وہ ملک اور معاشرے بھی کاغذ کے ٹکڑوں کی طرح ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔

آئین اور دستور کی اہمیت پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دو جلدوں پر مشتمل اپنے شہرۂ آفاق ’’مقدمہ سیرۃ الرسول ﷺ‘‘ میں آئین کی قرآن و حدیث کی روشنی میں جو اہمیت بیان کی ہے، اُسے سیاسی، قانونی حلقوں کو بطور خاص پڑھنا چاہیے۔ دستور فقط سماج کی سیاسی ضرورت ہی نہیں بلکہ بحیثیت مسلمان اس کی پابندی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے ذیل میں آتی ہے۔ زندگی انفرادی ہو یا اجتماعی، نظم کے لئے ضابطے، قانون اور آئین کی محتاج ہے۔ انسان نے روز اول سے جوں جوں تہذیب و تمدن کی طرف بڑھنا شروع کیا، اُس کی زندگی میں قوانین و ضوابط کا عمل دخل بھی بڑھتا گیا۔ اجتماعی سطح پر معاشرے کو منظم کرنے کے لئے کبھی تو طاقت کا سہارا لیا گیا اور کبھی معاشرے کو قوانین و ضوابط کے بندھن میں باندھنے کی کوششیں ہوئیں۔ ایتھنز اور سپارٹا کی قدیم ریاستیں ہمارے سامنے یہی منظر پیش کرتی ہیں۔ پوری انسانی تاریخ میں یہ اعزاز اسلام کو حاصل ہے کہ اُس نے شعورِ انسان کو ایک واضح دستور کے تصور سے آشنا کیا کہ ریاست کو ایک ایسے دستور و آئین کے تحت چلایا جائے جو نہ صرف ریاست کے تمام اعضائے ترکیبی کے افعال و وظائف کی تشریح کرے بلکہ ریاست کے جملہ طبقات کے حقوق و فرائض کا تحفظ و تعین کرے۔

قرآن کریم کی بہت سی ایسی آیات ہیں جو دستوری و آئینی راہ نمائی کی حامل ہیں۔ ان آیات میں سیاسی نظام کو اسلامی بنیادوں پر اُستوار کرنے کے لئے کلیدی ہدایات اور احکام بیان کئے گئے ہیں:

ارشاد ربانی ہے: ’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو بے شک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے بے شک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے (اہل حق ) صاحبانِ امر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اُسے (حتمی فیصلے کے لئے) اللہ اور رسول ﷺ کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے‘‘۔ سورہ النساء کی ان آیاتِ مبارکہ کے اندر 5 اصول بیان کئے گئے ہیں:

  1. اقتدار کی امانت اہل اور صادق لوگوں کے سپرد کرو
  2. عدل و انصاف کا شفاف نظام قائم کرو
  3. قرآن مجید سپریم دستور ہے جو فیصلہ بھی کرنا ہے اس سے باہر مت جاؤ
  4. اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے احکامات کی پیروی کرو۔
  5. صاحبانِ اَمر کی پیروی کرو ۔

یعنی جب دیانت دار صاحبان اَمر منتخب کر لیں تو پھر اُن کے احکامات پر عمل کریں۔ یہاں میرٹ کے نظام پر زور دیا گیا ہے اور ہم نے دیکھا جہاں میرٹ کے برخلاف تقرریاں عمل میں آتی ہیں، وہاں لاتعداد انتظامی عوارض بھی جنم لیتے ہیں اور پوری سوسائٹی ہل کر رہ جاتی ہے۔ اللہ رب العزت نے ایک مثالی معاشرہ کی چند خوبیاں بیان فرمائی ہیں: پہلی خوبی نرم دلی، رحم دلی ہے یعنی قوانین کا اطلاق احساس ذمہ داری کے ساتھ کیا جائے اور اُس پر عملدرآمد کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کیا جائے۔ لوگوں کو باور کروایا جائے کہ یہ قوانین ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں بہترین ہے یعنی قوانین و ضوابط کا اطلاق فقط خوف، تشدد اور ظلم سے نافذ نہیں کیا جاسکتا۔

اللہ رب العزت نے سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا: ’’ (اے حبیب والا صفات )پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تند خُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور اُن کے لئے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ادارہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں بے شک اللہ توکل والوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔ یہاں 4 اہم دستوری نکات بیان کئے گئے ہیں:

  1. نرمی و درگزر
  2. وسیع تر مشاورت
  3. فیصلہ کرنے کے بعد ثابت قدمی
  4. اللہ پر توکل

یعنی ایک مسلمان حکمران ہر حال میں اللہ رب العزت کی خوشنودی کے لئے اقدامات اٹھاتا اور امور مملکت چلاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے والی ٔ ریاستِ مدینہ کی حیثیت سے ان راہ نما اصولوں پر عمل پیرا ہوکر دکھایا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ میں نے حضورنبی اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ اگر ہمیں کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس میں امر اور نہی کا بیان نہ آیا ہو تو آپ اس میں ہمیں کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم فقہا اور عابدین سے مشورہ کیا کرو اور اس میں چند خاص لوگوں کی رائے نہ نافذ کیا کرو۔ یہ حدیث رسول ﷺ اجتہاد سے متعلق ہے اور اجتہاد کا فی زمانہ مؤثر اور متعلقہ پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہے۔ پارلیمنٹ اجتہادی تقاضے اُسی صورت پورے کر سکے گی، جب اسلام کے پہلے تقاضے کہ دیانت دار لوگوں کو اور اہل لوگوں کو اپنی امانتیں سپرد کریں کا تقاضا پورا ہو گا۔

پس مذکورہ آیات قرآنیہ اور حدیث نبوی ﷺ سے یہ دستوری و آئینی اصول مترشح ہوتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں اعلیٰ ترین حاکمیت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہے، قرآن و سنت اعلیٰ ترین قانون، عدلیہ کی بالادستی ناگزیر، آئینی نظام کا یقینی نفاذ، قانون کی حکمرانی و بالادستی، آئینی و سیاسی عہدوں پر اہل افراد کی تعیناتی، سربراہ مملکت کا باوقار مسلمان ہونا، حق رائے دہی جنسی امتیاز سے ماورا، اختلاف رائے کو بنیادی حق تسلیم کرنا، اکثریتی رائے کا احترام، وسیع تر مشاورت، مذہبی آزادی کی ضمانت، سیاسی آزادی کی ضمانت، بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت اورحکومتی اختیارات کی جواب دہی ریاست کے آئینی نظام کا حصہ ہو گی۔