تصوف اور تعلیماتِ حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

سلطان الاولیاء، زبدۃ العارفین، امام العاشقین حضور سیدنا غوث الاعظم الشیخ محی الدین ابو محمد عبدالقادر الجیلانی البغدادی الحسنی والحسینی رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت یکم رمضان المبارک 470 ہجری بمطابق 23 مارچ 1075ء کو گیلان شہر میں ہوئی جو اس وقت سلجوق سلطنت کا حصہ تھا۔ اوائل عمری کا بیشتر زمانہ آپ نے گیلان میں گزارا۔ جب آپ کی عمر مبارک 18 سے 20 سال کے درمیان تھی تو آپ نے مزید تعلیم کے حصول کے لیے بغداد کی طرف سفر فرمایا۔ یہاں جن عظیم اساتذہ کرام سے آپ کو نسبتِ تلمذ اور نسبتِ فیض حاصل ہوئی، ان میں؛ حضرت ابو سعید مبارک المخزومیؒ، حضرت شیخ ابن عاقلؒ اور حضرت شیخ ابولخیر حماد بن مسلم الدباسؒ نہایت معروف ہیں۔ حضرت ابو سعید مبارک المخزومی اور حضرت شیخ ابوالخیر حماد بن مسلم دباسؒ آپ کے مشائخ اور سلسلۂ فیض میں سے بھی تھے۔

حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ طریق جنیدیہ سے وابستہ تھے اور اسی طریق سے فیض پایا۔ محققین و علماء کا اتفاق ہے کہ حضور غوث الاعظمؓ کو اللہ تعالیٰ نے غوثیت کے رتبے پر فائز فرمانے کے علاوہ اپنی صدی میں مجددیت بھی عطا فرمائی تھی، اسی لیے آپ کے القاب میں سے ایک لقب محی الدین بھی ہے۔ علمی، دینی اور فقہی تعلیم بغداد شریف سے مکمل فرمانے کے بعد آپ نے کم و بیش 20 سے 25 سال صحرا نوردی اور مجاہدے میں گزارے۔ اس کے بعد آپ نے مسندِتعلیم و تدریس سنبھالی اور لوگوں میں رشد و ہدایت عام فرمانے کا سلسلہ جاری فرمایا۔ گویا آپ نے زندگی کا پہلا حصہ تعلیم کے حصول میں گزارا، دوسرا حصہ ریاضت و مجاہدہ میں گزارا اور تیسرا حصہ لوگوں میں علم اور روحانیت کے فیض کو تقسیم کرنے میں بسرفرمایا۔ آپ نے 91 سال کی عمر مبارک پائی اور آپ کا وصال 11 ربیع الثانی 561 ہجری بمطابق 21 فروری 1146ء کو بغداد میں ہوا۔

متعدد تصانیف وکتب آپ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہیں جو آپ رضی اللہ عنہ نے لکھیں یا آپ کے ملفوظات عالیہ کو آپ رضی اللہ عنہ کے تلامذہ نے جمع فرمایا اور بعد از ں طبع ہوئیں۔ آپ کی معروف تصانیف میں سرالاسرار، غنیۃ الطالبین، فتوح الغیب، فتح الربانی شامل ہیں، جن سے علماء و صوفیاء اور اساتذہ و تلامذہ استفادہ کرتے چلے آئے ہیں اور یہ تصوف کے اصول ومعارف کا منبع و سرچشمہ ہیں۔ آپ کی کئی کتب ایسی ہیں جو مخطوطات کی شکل میں کچھ علاقوں میں موجود رہیں مگر طبع ہوکر لوگوں تک نہ پہنچ پائیں۔ ان میں ایک مخطوطہ ’’خمسۃ عشر مکتوبان الجیلانی‘‘ (حضور غوث الاعظم کے پندرہ خطوط) ہے۔ اہل اللہ روحانیت کا سفر طے کرتے کرتے جب کچھ منازل تک پہنچ جاتے ہیں تو انھیں کچھ کیفیات نصیب ہوتی ہیں، حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی ان کیفیات کا تذکرہ ان خطوط میں کیا ہے۔ یہ خطوط فارسی زبان میں لکھے گئے۔ ان خطوط کے اصل مخطوطے چار ہیں جن میں سے ایک مخطوطہ آج بھی جرمنی کی معروف لائبریری میں ہے۔ ایک مخطوطہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی لائبریری میں ہے، ایک مخطوطہ کنگ سعود یونیورسٹی سعودی عرب میں ہے اور ایک مخطوطہ ترکی میں ہے۔

حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی مذکورہ تصنیفات میں سے چند تعلیمات ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:

1۔ تصوف کیا ہے؟

تصوف کے معنی و مفہوم کو علماء، عرفا اور سلف صالحین نے اپنے اپنے طور پر خوب بیان کیا ہے مگر حضور غوث الاعظم نے تصوف کے مفہوم کو جس منفرد انداز میں واضح کیا ہے، وہ آپ ہی کی شان ہے۔ ذیل میں تصوف کی تعریف میں ارشاد فرمائے گئے آپ کے کلمات ملاحظہ ہوں:

(1)لفظِ تصوف کی  ’’ت‘‘  سے مراد ظاہری و باطنی توبہ ہے

حضور سیدنا غوث الاعظم تصوف کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لفظ تصوف کے چار حروف؛ ’’ت‘‘ ،  ’’ص‘‘ ،  ’’و‘‘  اور  ’’ف‘‘  ہیں۔ اگر تصوف کو سمجھنا ہو تو تصوف کا مکمل معنی ان چار حروف میں پوشیدہ ہے۔ لفظ تصوف کے پہلے حرف  ’’ت‘‘ سے مراد تو بہ ہے۔ توبہ کی دو قسمیں ہیں:

1۔ ظاہری توبہ 2۔ باطنی توبہ

1۔ ظاہری توبہ یہ ہے کہ انسان اپنے ظاہری اعضاء؛ ہاتھ، پاؤں، زبان، آنکھ، کان وغیرہ کو اللہ رب العزت کی نافرمانی اور گناہ کے امور سے روک لے۔ یعنی اس کا جسم اور اس کا ظاہر گناہ کے کسی بھی عمل اور نافرمانی میں داخل نہ ہو۔

2۔ باطنی توبہ سے مراد ہے کہ انسان کا باطن بھی گناہ کے خیال سے توبہ کرلے۔ انسان کا باطن کدورتوں، نہ نظر آنے والے گناہوں، فریب، لالچ، جھوٹ، انا، تکبر، ریا، حسد، کینہ، غصہ، بغض، چغلی اور ان جیسے دیگر رذائل سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور انسان کا باطن صبح و شام اللہ کی نافرمانی میں مصروف رہتا ہے اور اللہ کے احکام کی بجا آوری میں سستی اور کاہلی کا مرتکب ہوتا ہے۔ تصوف کی  ’’ت‘‘  سالک کو ان باطنی رذائل سے بھی توبہ کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ گویا انسان کا ظاہر بھی توبہ کرلے اور اس کا باطن بھی توبہ کرلے تو تصوف کے سفر کا آغاز ہوجاتا ہے۔

(2) لفظِ تصوف کے  ’’ص‘‘  سے مراد صفائے قلب ہے

حضور غوث الاعظم فرماتے ہیں کہ جب ظاہر و باطن دونوں کی توبہ مکمل ہوجائے گی اور سالک تصوف کی’ت‘ کا مقام عبور کرلیتا ہے تو پھر وہ لفظِ تصوف کے دوسرے حرف’ص‘ کے مقام میں داخل ہوتا ہے۔ اس  ’’ص‘‘ سے مراد صفا (صفائی) ہے۔ یہ صفائی دو طرح کی ہے:

  1. صفائے قلب
  2. صفائے سِر

1۔ صفائے قلب یہ ہے کہ انسان کے دل کے اندر موجود کدورتیں، خواہشاتِ نفسانی، مال کی خواہش اور شہوات (حد سے بڑھ جانے والی خواہشات) جب بندے کو خدا کی بندگی بھی چھوڑنے پر مجبور کردے، اسے اپنے اندر فنا کرلے اور ان کی محبت اتنی بڑھ جائے کہ وہ بندے کو ناجائز کام کروانے پر آمادہ کردے تو یہ تمام امور ایسے ہیں کہ جن کی صفائی ضروری ہے۔ گھر بار اور اولاد کی محبت ایک جائز محبت ہے، یہ محبت صرف اسی قدر کافی ہے کہ جینے کے قابل سامان کرلیں لیکن اگر یہ محبت اتنا فنا اور گم کردے کہ حلال و حرام کی تمیز بھی ختم ہوجائے تو پھر یہ اس قابل ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے۔

2۔ صفائے قلب کے بعد صفائے سِر کا مرحلہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ سِر کی صفائی یہ ہے کہ انسان اللہ رب العزت کے سوا ہر شے سے محبت چھوڑ دے یعنی دل میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کا بسیرا ہو۔ صفائے قلب تو یہ تھا کہ قلب میں جائز خواہش رہ جائے اور ہر ناجائز خواہش چلی جائے لیکن سِر کی صفائی یہ ہے کہ اب ہر جائز خواہش بھی چلی جائے اور فقط اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ اور دینِ اسلام کی محبت، رغبت اور چاہت باقی رہ جائے، باقی ہر شے چلی جائے۔ جب بندہ اس کیفیت اور درجے کو پہنچ جائے تو اسے سِرکی صفائی نصیب ہوجاتی ہے۔ قلب کو صفائی تب نصیب ہوگئی تھی، جب ناجائز خواہشات چھوڑ دی تھیں اور سِر کو صفائی اس وقت نصیب ہوجائے گی جب جائز خواہشات بھی انسان اس مالکِ حقیقی کی خاطر چھوڑ دیتا ہے۔

صفائے قلب و سِر کیسے نصیب ہو اور یہ منزل کیسے ملتی ہے؟ اس حوالے سے حضور سیدنا غوث الاعظم فرماتے ہیں کہ صفائے قلب و سِر دو طریقوں سے نصیب ہوتا ہے:

  1. کثرتِ ذکرِ الہٰی
  2. صحبتِ عرفا و صلحاء

1۔ ذکرِ الہٰی سے مراد یہ ہے کہ انسان کی زبان اور عمل بھی ہر وقت ذکرِ الہٰی کا نمونہ بنا رہے اور اس کا دل اللہ کی یاد میں گم رہے۔ اس کیفیت سے اُسے صفائے قلب و سِر حاصل ہوجائے گا۔

2۔ صفائے قلب و سِر کے حصول کا دوسرا ذریعہ عرفا کی صحبت ہے۔ ذکرِ الہٰی نے بندے کے باطن میں اللہ اور اس کی یاد کے حسین نقش و نگار بنائے تھے، عرفا اور صلحا ان رنگوں اور نقش و نگار کو پختہ کردیتے ہیں اور باطن میں نہ مٹنے والا رنگ چڑھا دیتے ہیں۔ وہ بندے کے باطن کو اُجلا کردیتے ہیں اور باطن میں موجود شہوات و رذائل کو ختم کردیتے ہیں۔

(3) لفظ تصوف کی  ’’واؤ‘‘  سے مراد ولایت ہے

حضور غوث الاعظم ارشاد فرماتے ہیں کہ لفظ تصوف کی  ’’و‘‘  سے مراد ولایت ہے۔ تصوف کی راہ کا آغاز ظاہری اور باطنی توبہ سے ہے۔ اس کے بعد صفائے قلب و سِر کا مرحلہ ہے۔ جب یہ دونوں امور نصیب ہوجائیں تو پھر تیسرے درجے پر انسان اس راہ پر چلتا ہوا ولایت کی وادی میں قدم رکھتا ہے۔

ولایت کی حقیقت واضح کرتے ہوئے حضور غوث الاعظم فرماتے ہیں کہ ولایت یعنی اللہ کی دوستی کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ انسان اپنی بشری صفات کا لبادہ کاملاً ترک کردے اور رحمانی صفات کا لبادہ اوڑھ لے۔ انسان کا اپنی تمام بشری خصلتوں کو ترک کردینا ولایت ہے۔ بندے کو تصوف کے ابتدائی مراحل میں ظاہری و باطنی توبہ تو پہلے ہی نصیب ہوچکی تھی اور جسم کے ظاہری اعضاء توبہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے رک گئے تھے۔ تمام بری خصلتیں صفائے قلب کے مرحلہ میں جاتی رہیں۔ اب عمومی جائز خصلتیں بھی جو انسان کے جسم سے وابستہ ہوتی ہیں، اس مرحلہ میں انسان انھیں بھی چھوڑ دیتا ہے اور رحمانی صفات و خصائل کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔ اب وہ سب سے محبت کرتا ہے۔۔۔ سب کو احترام دیتا ہے ۔۔۔ اسی نگاہ سے لوگوں کو دیکھتا ہے جیسے مالک اپنی مخلوق کو دیکھتا ہے۔۔۔ وہ بغیر کسی تفریق اور تخصیص کے سب کو برابر دیتا ہے۔۔۔ سب کی حاجات روائی کرتا ہے۔۔۔ سب کے لیے درد مند رہتا ہے اورلوگوں کی تکالیف کو دورکرنے کی طرف متوجہ رہتا ہے۔۔۔ وہ لوگوں کا خیر خواہ رہتا ہے اور لوگوں پر تکلیف کا آنا اپنے اوپر ناگوار سمجھتا ہے۔۔۔ الغرض پوری مخلوق کے لیے شفقت و رحمت اور محبت کا پیکر بنا رہتا ہے۔

بندہ جوں جوں یہ روحانی خصلتیں کاملاً اپناتا چلا جاتا ہے اور اپنی تمام خصلتوں کو رحمانی خصلتوں میں رنگتا چلا جاتا ہے، توں توں ولایت میں اس کا مقام بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جب بندے کی تمام خصلتیں بدل چکی ہوں اور اس میں کوئی بشری اور انسانی خصلت و رنگ باقی نہ رہے تو اللہ تعالیٰ ولایت میں اسے اتنی ہی بلندی عطافرمادیتا ہے۔

حضور غوث الاعظم مقام ولایت کی اس مذکورہ تعریف کی دلیل اس حدیث قدسی سے دیتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّهٗ ‘ فَاِذَا اَحْبَبْتُهٗ کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ‘ وَبَصَرَهُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ‘ وَیَدَهُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا‘ وَرِجْلَهُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا‘ وَلَئِنْ سَاَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّهٗ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیْذَنَّهٗ. (متفق علیہ)

بندہ نوافل کے ذریعے سے میرے قریب ہوتارہتا ہے یہاں تک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں. پس جب میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اُس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اُس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے کوئی سوال کرتا ہے تو ضرور اُسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرتا ہے تو ضرور پناہ دیتا ہوں۔

اس طرح بندے کے تمام افعال اور صفات پر اللہ تعالیٰ کا رنگ چڑھتا چلا جاتا ہے۔

(4) لفظ تصوف کی  ’’ف‘‘  سے مراد فنا فی اللہ ہے

حضور غوث الاعظم فرماتے ہیں کہ تصوف کا چوتھا حرف ’ف‘ ہے۔ اس سے مراد فنا فی اللہ ہے کہ جب انسان ولایت کی وادی میں اپنا سفر جاری رکھتا ہے تو پھر اس سفر میں ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ جہاں پر اسے کامل فنا نصیب ہوجاتی ہے۔ مقامِ ولایت تک پہنچتے پہنچتے بندے نے اپنی صفات کو فنا کیا تھا لیکن ابھی اس کی ذات باقی تھی۔ اس مرحلہ میں اب اس کی ذات بھی فنا ہوجاتی ہے۔ اب اس کی صفات بھی اپنی نہ رہیں اور وجود اور شعور بھی اپنا نہ رہا۔ یعنی وہ کاملاً فانی ہوجاتا ہے۔ یہ تصوف کی انتہا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب بندہ اپنے وجود، شعور، ہوش اور اپنی صفات سے فنا ہوجاتا ہے تو پھر باقی کا سِر باقی رہ جاتا ہے۔ باقی سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ انسان پھر اس باقی کے سِر کے ذریعے زندہ رہتا ہے یعنی پھر اس سِرِ باقی کے ذریعے اسے بقا نصیب ہوجاتی ہے۔ پھر اس کی ادا، کلام اور ہر بات باقی ہوجاتی ہے اور ہزاروں سال بعد بھی اس کی اداؤں اور باتوں کا تذکرہ جاری رہتا ہے۔

آج ہزار سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حضور غوث الاعظمؓ کے کلام کے تذکرے ہورہے ہیں، ان کی اداؤں کے تذکرے ہورہے ہیں اور ان کی ہر ہر ادا اور عمل تاریخ اور عشاق کے سینوں میں محفوظ ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ فانی ہوکر باقی ہوگئے تھے اور باقی کی ہر شے اور کلام بھی باقی ہوجاتا ہے۔ فانی کی ہر شے زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتی ہے لیکن باقی لوگوں کی تحریریں بھی باقی رہتی ہیں اور ان کے کلام اور نصیحتیں بھی باقی رہتی ہیں۔

حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ تصوف کی مذکورہ جامع تعریف اور وضاحت کے بعد ایک اہم نکتہ ارشاد فرماتے ہیں کہ تصوف کو اپنی ذاتی تعریفات کے آئینے میں نہ سمجھا کرو۔ اپنی عقل کے مطابق کی گئی تعریف جو خود تمہیں سمجھ آئے، اس کی روشنی میں تصوف اور اہلِ تصوف کو سمجھنے کی کوشش نہ کیا کرو۔ اس لیے کہ جب انسان اپنی عقل کے مطابق تصوف کی تعریف کرتا ہے تواپنے خاص نظریے سے سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیتا ہے۔ گویا آپ واضح کررہے ہیں کہ تصوف اور اہلِ تصوف کو سمجھنا اور دیکھنا مقصود ہو تو لفظ تصوف کے حروف (ت، ص، و، ف) کے تحت جو ظاہری و باطنی اسرار و حکم بیان کیے ہیں، اسی کو پیمانہ بناؤ۔ جو اپنے ظاہرو باطن میں ان صفات کا عکاس ہو، وہی اصل صوفی ہے اور وہی طریق درحقیقت تصوف ہے۔

2۔ سالک کے لیے ایصال الی المطلوب کا لائحہ عمل

حضور غوث الاعظمؓ نے دس نصیحتیں ارشاد فرمائیں کہ اگر کوئی بندہ تصوف کے راستے پر چلنا چاہتا ہے تو پھر اس کے لیے لازم ہے کہ وہ درج ذیل دس خصلتیں اپنالے اور ہمیشہ ان خصلتوں کا دامن ہاتھ میں پکڑے رکھے:

1۔ کسی بھی حالت میں اللہ کی قسم نہ کھائی جائے۔ خواہ تم سچے ہو یا جھوٹے۔ خواہ کتنی بڑی آزمائش بھی تمھارے سامنے کیوں نہ آجائے، اللہ کی قسم کھانے سے اجتناب کرو۔

2۔ دروغ گوئی یعنی جھوٹ بولنے سے ہمیشہ اجتناب کرو۔ جھوٹ نہ کبھی سنجیدگی میں بولو اور نہ کبھی مزاحاً۔ اگر تم تصوف کے راستے پر چلنا چاہتے ہو تو پھر جھوٹ کو ہمیشہ کلیتاً اپنی زندگی سے نکال پھینکو۔ یعنی انجام سے ڈرے بغیر جھوٹ کو زندگی سے نکال دو۔ ہمارے ہاں مبالغہ آرائی کا عنصر بہت حد تک پایا جاتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہ مبالغہ آرائی بھی جھوٹ میں ہی آتی ہے۔ یعنی دس فیصد اصل بات ہے تو اس میں دس فیصد اضافہ کرکے بیان کیا جاتا ہے۔ گویا سالک تصوف کے راستے پر چل ہی نہیں سکتا، اگر اس کی زندگی جھوٹ اور مبالغہ آرائی سے پاک اور خالی نہ ہو۔ جو بندہ ظاہری اعمال سے اپنے اندر جھوٹ اور مبالغہ آرائی داخل کرتا چلا جائے گا، اسے تصوف کی راہ نصیب نہیں ہوگی۔

3۔ کبھی زندگی میں وعدہ خلافی نہ کرو۔ اگر کسی سے کوئی بات کہہ دی ہے تو ہر حال میں اسے پورا کرو سوائے اس کے کہ یاد نہ رہے۔ اس پر تو اللہ کے حضور گرفت نہیں ہے لیکن اگر یاداشت میں ہے تو ارادتاً کبھی وعدہ خلافی نہ کریں۔

4۔ کبھی کسی کو لعنت نہ کی جائے۔ چاہے کسی نے تمہیں کتنی ہی تکلیف کیوں نہ پہنچائی ہو، تمھاری زبان سے اس کے لیے لعنت کالفظ نہیں نکلنا چاہیے۔ یاد رکھیں کہ لعنت صرف لفظ لعنت سے نہیں ہوتی بلکہ اس سے ملتے جلتے کئی الفاظ ایسے ہیں جن کا ہم عموماً استعمال کردیتے ہیں، ان سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔

5۔ کبھی کسی کے لیے بد دعا نہ کرو، چاہے وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو۔

6۔ کوئی بھی ایسا شخص جو تمہاری طرح قبلہ رخ ہوکر نماز پڑھتا ہے اس کو کبھی کافر یا منافق نہ کہنا۔ یعنی اگر تم اللہ کی راہ کے مسافر ہونا چاہتے ہو تو یہ نہ دیکھو کہ نماز پڑھنے والا ہاتھ کہاں باندھتا ہے، کیسے باندھتا ہے، بلکہ جو بھی نماز اد اکرتا ہے، اسے کافر یا منافق نہ کہیں۔

7۔ جو چیز گناہ کی موجب ہو چاہے وہ ارادہ ہو، نظر ہو یا بات ہو یا تمھارا کسی جگہ پر جانا ہو، ہر اس شے کو ترک کردو۔ چونکہ تمھیں پتہ ہے کہ فلاں جگہ پر جانا میرے لیے گناہ کی ترغیب کا سبب ہے، فلاں صحبت مجھے گناہ پر آمادہ کرتی ہے یا فلاں صحبت میری نگاہ و سماعت اور سوچ کو پاک نہیں رہنے دیتی بلکہ گنہگار کرتی ہے تو اسے یکسر چھوڑ دو اور توبہ کرلو۔ حتی کہ دل میں گناہ کا خیال بھی آئے تو وہاں جانے سے رک جاؤ۔

8۔ مخلوقات میں سے ہر وہ شے جسے اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا ہے، اس کےا ٓگے کبھی ہاتھ نہ پھیلاؤ۔ یعنی اپنی ضرورت مندی کا دست کسی کے آگے دراز نہ کرو بلکہ ہمیشہ اپنا حاجت روا اپنے رب کو جانو۔

9۔ لوگوں سے کسی بھی چیز کی تمنا نہ رکھنا۔ یعنی کوئی بھی بہتر سے بہتر شے کسی کے پاس دیکھ لو، چاہے مال و دولت ہو، گھر ہو، عہدہ و رتبہ ہو، شہرت ہو، سواری ہو، الغرض کسی کے پاس کوئی بھی اچھی چیز دیکھو تو اپنے دل میں اس کی تمنا پیدا نہ کرنا۔ اس خیال پر بھی نگران رہنا کہ کسی دوسرے کی شے کو دیکھ کر کبھی دل میں طمع پیدا نہ ہو۔

10۔ اچھے اعمال کا کامل نمونہ بن کر اس دنیا میں رہو۔ تکبر، رعونت، غصہ اور ایسا خیال جو آپ کو دوسروں سے منفرد اور ممتاز اور جدا خیال کرواتا ہو، ہر ایسے خیال کو اپنی زندگی سے نکال دو اور ایسے نکالو کہ پھر اس کا وجود اور اس کے اثرات بھی باقی نہ رہیں۔

حضور غوث الاعظم نے مذکورہ دس امور کی طرف توجہ مبذول کروانے کے بعد ارشاد فرمایا:

کہ اگر ایسا کرلیا تو پھر تم صحیح راہ کے مسافر ہو اور اگر یہ دس باتیں تمھاری زندگی میں داخل نہیں ہوتیں تو پھر تم تصوف کی راہ کے صحیح مسافر نہیں ہوسکتے۔

3۔ محبت کیا ہے؟

حضور سیدنا غوث الاعظم نے اپنے خطوط میں محبت کے متعلق فرمایا: ہائے افسوس! تم اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو مگر اپنا دل اوروں کے لیے بھی کھلا رکھتے ہو۔ پھر فرماتے ہیں کہ وہ مجنوں جو لیلیٰ کے عشق میں گرفتار تھا، وہ اپنی محبت میں بڑا سچا تھا۔ ایک روز کسی نے اس سے پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ کہا:لیلیٰ کے پاس سے آرہا ہوں۔ پوچھا: کہاں جارہے ہو؟ کہا: لیلیٰ کے پاس جارہا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ وہ اپنی محبت میں کیسا سچا تھا کہ اس کا آنا اور جانا دونوں منزلیں لیلیٰ تھی اور ایک ہم ہیں کہ محبت کا دعویٰ اللہ سے کرتے ہیں لیکن ہماری منزل اور توجہ کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں رہتی۔

اس موقع پر حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ جو قرآن مجید میں آیا ہے، اسے بیان کرکے اس سے استدلال کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجیدمیں فرمایا کہ

وَحَرَّمْنَا عَلَیْہِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰٓی اَهْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْنَهٗ لَکُمْ وَهُمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَ.

(القصص، 28: 12)

 ’’اور ہم نے پہلے ہی سے موسیٰ ( علیہ السلام) پر دائیوں کا دودھ حرام کردیا تھا سو (موسیٰ علیہ السلام کی بہن نے) کہا: کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کی نشاندہی کروں جو تمہارے لیے اس (بچے) کی پرورش کردیں اور وہ اس کے خیر خواہ (بھی) ہوں۔‘‘

اس واقعہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے آپ کو ٹوکری کے اندر ڈال کر دریا میں بہادیا تو یہ ٹوکری فرعون کے محل کے قریب جاپہنچی۔ جہاں حضرت آسیہj کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں جاپہنچے۔ جب حضرت آسیہj نے آپ کی رضاعت کے لیے بہت سی عورتوں کو جمع کیا تاکہ وہ آپ علیہ السلام کو دودھ پلائیں مگر سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کسی کا دودھ نہ پیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دریا میں بہتی ٹوکری کے ساتھ ساتھ آپ کی ہمشیرہ بھی کنارے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے محل تک پہنچ گئی تھیں۔ جب انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رضاعت والا معاملہ دیکھا تو کہا کہ کیا میں تمھیں ایک گھر کا پتہ نہ دوں کہ جو اس کی صحیح پرورش بھی کرے گا اور وہاں اس کے لیے ساری خیر ہوجائے گی۔ چنانچہ انھوں نے اپنے ہی گھر کا پتہ دیا اور یوں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہی کو حضرت موسیٰ علیہ السلامکو دودھ پلانا نصیب ہوا۔ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تو تمام رضاعی خواتین کا دودھ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر حرام کردیا تھا، اس لیے کہ رضاعت ایک ہی جگہ سے ہونی ہے۔

محبت کی وضاحت میں اس آیت کا اندراج کرنے سے حضور غوث الاعظم کی نگاہ ولایت کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے کس پیارے انداز سے اس آیت مبارکہ کا حوالہ پیش کیا اور فرمایا کہ محبت تو ایسے ہوتی ہے جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نصیب ہوئی تھی کہ ان کی سیرابی اور خیر کسی اور راستے اور نسبت سے نہیں بلکہ ایک جگہ سے مقرر پائی تھی۔ اسی طرح جب کوئی عاشق ہوجائے اور مولا کی راہ کا مسافر ہوجائے تو پھر ہر جگہ اور ہر راہ سے اس کی سیرابی حرام ہوجائے اور وہ اپنے لیے فقط ایک دروازہ کھلا رکھے اور وہ مولا کا دروازہ ہو۔۔۔ عطاکا ایک ہی دروازہ اس پر حلال ہو اور وہ مولا کا دروازہ ہو۔۔۔ اس کے لیے خیرات، انعام، عطا اور انوار و تجلیات کی فقط ایک بارگاہ باقی رہے اور وہ بارگاہِ حقیقت ہے۔۔۔ اگر اسے خوراک چاہیے تو مولا سے مانگے۔۔۔ اور مولا کے سوا دنیا کے تمام اسباب کو اپنے اوپر حرام جانے۔۔۔ دنیا کی ہر سفارش، ہر نسبت اور دنیا کے ہر درکے آگے جھکنے کو حرام جانے۔۔۔ اور فقط مولا کی بارگاہ کےا ٓگے جھکنا حلال سمجھے۔ انسان اگر محبت میں ایسا ہوجائے، تب وہ راہِ تصوف و سلوک کا مسافر کہلانے کا حقدار ٹھہرے گا۔

4۔ اطاعت، یقین، توکل اور صبرو شکر

سیدنا غوث الاعظم دینِ اسلام کی مختلف تعلیمات کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اے نوجوان! اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور اسلام کی حقیقت اطاعت ہے۔ صرف اطاعت کرنا سیکھو پھر اس اطاعت میں اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑاؤ بلکہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ﷺ کا حکم مل جائے تو اس کی اطاعت بجا لاؤ۔ پہلے اسلام کی حالت میں پہنچو، پھر مطیع ہوجاؤ اور اپنے ظاہر و باطن کو پاک کرو۔ یعنی پہلے اپنے ظاہر کو جھکانا سیکھو، تب اطاعت کے ذریعے اپنے باطن کو پاک کرنے کے قابل ہوجاؤ گے۔

ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت کے نظام و انتظام پر اپنے آپ کو مطمئن اور راضی کرلو اور کبھی اپنے باطن کی کیفیت کو اللہ رب العزت کے نظام و انتظام کے خلاف نہ جانے دو بلکہ ایسا خیال بھی تمھارے اندر پیدا نہ ہونے پائے کہ تم اس کی تقدیر کے خلاف اپنے باطن کو آمادہ کرلو۔

  • فرماتے ہیں کہ یقین کی کیفیات سے اپنے ایمان کو آراستہ کرلو، اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمھیں توکل عطا فرمادے گا۔
  • فرماتے ہیں کہ اے صبر کی تلقین کرنے والے! ہائے افسوس کہ تو صبر کی تلقین تو کرتا ہے جبکہ خود کو قابو میں نہیں رکھ سکتا۔۔۔ ہائے افسوس! تو شکر گزار رہنے کی تلقین لوگوں کو تو کرتا ہے مگر خود اللہ کا شکر گزار نہیں ہے۔۔۔ ہائے افسوس! تو لوگوں کو اللہ کی رضا میں راضی رہنے کی تلقین تو کرتا ہے جبکہ تو خود اللہ کی رضا پر راضی نہیں رہتا۔۔۔ تو اللہ پہ بھروسہ رکھنے کی تلقین تو کرتا ہے مگر خود مشکل حالات سے گھبرا جاتا ہے۔۔۔ تو لوگوں کو سچ بولنے کی تلقین تو کرتا ہے جبکہ خود سچ نہیں بولتا۔

5۔ حاجت روائی

لوگوں کی مدد اور غریب پروری کے حوالے سے حضور غوث الاعظم فرماتے ہیں کہ قسمت کے مارے غریب لوگ جب تمھارے دروازے پر قرض مانگنے آجائیں تو آگے بڑھ کر ان کی حاجت روائی کردیا کرو کیونکہ کوئی غریب اپنی عزتِ نفس کو کچل کر تمھارے سامنے قرض مانگنے آتا ہے تو اس کی حاجت روائی کردو۔ جب اس کو قرض دے چکو تو پھر اس قرض کا تقاضا کرنے اس کے گھر نہ پہنچ جایا کرو بلکہ اگر وہ کافی عرصہ تک تمھارا قرض نہ لوٹا رہا ہو تو اس کے گھر اس لیے جاؤ کہ وہاں یہ کہو کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے لیے تمہارا قرض معاف کردیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ تمھیں دو اجر دے گا: ایک اجر ضرورت مند کو قرض دینے کا کہ اس کی حاجت پوری ہوئی اور دوسرا اجر مقروض کے ذہن سے قرض ادا کرنے کی تکلیف دور کرنے پر ملے گا۔

لوگوں کے قرض معاف کرنے اور اُن کی حاجت روائی کی تلقین کرتے ہوئے حضور غوث الاعظم ایک حدیث مبارک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ

 ’’کسی کے دروازے پر مانگنے آنے والا، اللہ کی طرف سے اس بندے کے لیے تحفہ ہوا کرتا ہے۔‘‘

اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ وہ تحفہ کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کتنا کریم ہے کہ وہ دنیا میں تم سے لے کر آخرت میں تمھارے لیے پسِ انداز یعنی جمع کررہا ہے، جہاں تمھیں بہت ضرورت پڑنے والی ہے۔ اس لیے جب کوئی تم سے مدد مانگنے آئے تو تم اس بندے کو اللہ کی طرف سے دیا ہوا تحفہ سمجھو۔

6۔ عاجزی و انکساری، التجا و دعا اور صحبتِ صلحاء

حضور غوث الاعظم کے خطوط میں سے دو امور بہت اہم ہیں:

1۔ اللہ کے حضور عجزو انکساری کا پیکر بننا ا

2۔ ہجر و فراق میں گڑگڑا کر اللہ کے حضور التجا اور دعا کرنا

آپ فرماتے ہیں کہ اے عزیز اگر تم اشد ضرورت کی پیشانی کو بے بسی کی زمین پر نہیں رکھتے اور آنکھوں کے بادلوں سے عرقِ ندامت کی بارش نہیں برساتے تو زندگی کے چمن میں تمھاری خوشی کے پودے کبھی سرسبز نہیں ہوں گے اور امیدوں کے نخلستان تمھاری مرضی کے مطابق نہیں پھلے پھولیں گے۔۔۔ صبر کی شاخیں، قناعت کے پتوں اور روحانی اتصال کے خوشبودار پھلوں سے نہیں لدیں گے۔۔۔ تم اپنے مولیٰ کے قرب کے ثمر سے باریاب نہ ہوپاؤ گے۔

تم اگر ہجرو فراق اور ندامت میں اپنے آپ کو آنسو بہانے والا نہیں پاتے، راتوں کو گریہ و زاری کرنے والا نہیں پاتے، اور اپنے آپ کو اللہ کے حضور التجا کرتے ہوئے عجزو انکساری کا پیکر نہیں پاتے، خستہ حال اورکمزور وگرا ہوا نہیں پاتے تو سمجھو کہ تمھیں تمھاری مراد نہیں ملے گی۔ جب بھی اس کے آگے دستِ دعا دراز کرتے ہو تو تمھارا ذہن خیالوں میں بھٹکا ہوا ہوتا ہے اور تم خودکو بکھرا ہوا، ٹوٹا ہوا اور کمزور نہیں پاتے تو اس کا مطلب ہے تمھیں تمہاری مراد نہیں ملے گی۔ اس لیے کہ اس کے حضور التجا و دعا کرنے کا ادب یہ ہے کہ تمھاری آنکھوں سے ندامت کے آنسو بہہ رہے ہوں اور تم اپنے آپ کو خستہ حال، کمزور اور کائنات کی حقیر ترین شے جانو اور پھر اس کے حضور دستِ دعا دراز کرو، وہ تمھاری مراد تمھیں عطا فرمادے گا۔

  • بزرگان دین کی صحبت کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں کہ اے عزیز! خود کو خواہشاتِ دنیا کا طلب گار نہ بنانا اور اپنے آپ کو غفلت کی جگہوں سے ہمیشہ کنارہ کش رکھنا۔ جن سنگتوں، صحبتوں اور محفلوں سے تمھارے اندر غفلت میں اضافہ ہو، ان مجالس، جگہوں اور مراکز سے اپنے آپ کو دور رکھنا۔ اس لیے کہ یہ صحبتیں سخت اور سنگدل ہیں، تمھیں بھی سنگ دل کردیں گی۔۔۔ تمھارے اندر سے ندامت کے احساس کو نکال دیں گی۔۔۔ تمھیں اسی دنیا میں مشغول اور گم کردیں گی۔۔۔ اور تمھارے اندر سے مولا کی راہ کی تلاش کی رغبت اور جستجو آہستہ آہستہ بھلا دیں گی۔ بری صحبت کو ترک کرنے کا عمل تب تک جاری رکھو جب تک اپنے کانوں سے اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان نہ سن لو کہ

اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی.

(القیامۃ، 75: 36)

 ’’کیا اِنسان یہ خیال کرتا ہے کہ اُسے بے کار (بغیر حساب و کتاب کے) چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘

پس ان صحبتوں سے احتراز کرو اور اہلِ صدق کے قافلے کا حصہ بن جاؤ اور دنیا کی زیب و زینت اورفتنوں کے مہلک انجام کے راستوں سے دور رہو۔ ایسی مجالس کو اختیار کرو جو تمھارے اندر عجزو انکساری پیدا کریں اور تمھارے اندر مولا کی چاہت و رغبت پیدا کریں۔ جب تمھیں ایسی مجالس مل جائیں گی تو اللہ تعالیٰ تمھیں بشارت دے گا، تمھیں اپنے انور و تجلیات سے نوازے گا اور تمھاری سماعتوں کو اپنے کلام اور نگاہوں اور قلوب کو اپنے دیدار سے مزین فرمادے گا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہم حضور سیدنا غوث الاعظمؓ سے محبت کا دم بھرتے ہیں، تصوف کے راستے پر چلنے اور قربتِ الہٰی کے حصول کے لیے ریاضت و مجاہدہ کا دعویٰ کرتے ہیں اور حضور غوث الاعظم سے اظہارِ عقیدت کرتے ہیں لیکن یاد رکھ لیں کہ ہماری ان سے عقیدت کا اظہار تبھی سچا ہوگا اور ان کی ذات سے فیض تب نصیب ہوگا جب ہم ان کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں داخل کرلیں گے۔ اگر بالفرض ہر ماہ گیارھویں شریف کے ختم کا اہتمام نہیں بھی کرسکتے مگر ان کی تعلیمات پر دل و جاں سے عمل پیرا ہیں تو تب بھی ان کے فیوضات کا سلسلہ جارہے رہے گا۔