القرآن: حجیتِ حدیث وسنت کا انکار کرنا دین کے چار حصوں کا انکار ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

قرآن و سنت کی روشنی میں عقائدِ صحیحہ کے موضوع پر اس سلسلہ وار تحریر میں اس بات کو واضح کیا جارہا ہے کہ کیا عقیدے کے باب میں یہ کہنا درست ہے کہ ’’صرف قرآن کافی ہے، ہم صرف قرآن ہی کو حجت مانتے ہیں، سنت اور حدیث رسول یا کوئی اور ذریعہ ہمارے لیے حجت نہیں، حدیث و سنت کی حیثیت تاریخ کی ہے، یہ ایک اچھی رہنمائی ہے مگر حجت اور اتھارٹی صرف قرآن ہے۔ ‘‘ یاد رکھیں! ایسا کہنا نہ صر ف گمراہی ہے بلکہ کفر ہے اور یہ قرآن مجید کی سیکڑوں آیات کا انکار ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً ڈیڑھ سو آیاتِ کریمہ سے حضور ﷺ کی اطاعت ، اتباع ، سنت ، حدیث اور اسوہ ٔمبارکہ کا حجت و اتھارٹی ہونا ثابت ہوتا ہے اور اس کے علاوہ بہت سی آیات اور بھی ہیں جو مختلف انداز میں اسی مضمون کو واضح کرتی ہیں۔ گویا ایسا کہنا کہ ’’صرف قرآن ہی حجت ہے اور کوئی شے حجت نہیں‘‘، یہ قرآن کے حجت ہونے کا بھی انکار کرناہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کو لازم وملزوم قرار دیا ہے۔ جس طرح ایمان باللہ اور ایمان بالرسول ﷺ میں فرق نہیں کیا جاسکتا ہے، اسی طرح اللہ کی اطاعت اور رسول اکرم ﷺ کی اطاعت میں فرق نہیں کیا جاسکتا۔

اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی ذات گرامی اورآ پ ﷺ کی بعثت کو ایمان سے بھی بڑا احسان قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اس احسان کے ذریعے ہم ایمان کے احسان تک پہنچے اور یہی احسان دوسرے احسان کا ذریعہ اور وسیلہ بنا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ، آپ ﷺ کے فرامین و ارشادات اور آپ ﷺ کے اعمال و افعال کے حجت ہونے کے بارے میں ہم متعدد آیات کا مطالعہ اس مضمون کے سابقہ حصوں میں کرچکے ہیں، اسی تناظر میں ذیل میں مزید آیات مبارکہ اور اُن کی تفسیر و تشریح بیان کی جاتی ہے:

وسیلۂ ایمان کی حجیت تسلیم نہ کرنا قرآن کا بھی انکار ہے

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:

الٓرٰ ۫ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ۙ۬ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ۝

(ابراہیم، 14: 1)

’’الف لام را (حقیقی معنی اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ (عظیم) کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کے) نور کی جانب لے آئیں (مزید یہ کہ) ان کے رب کے حکم سے اس کی راہ کی طرف (لائیں) جو غلبہ والا سب خوبیوں والا ہے۔‘‘

اس آیتِ کریمہ سے واضح ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے کفر کی تاریکیوں سے نکل کر ایمان کے نور کی طرف آنے کو حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب کیا کہ لوگوں کو دولتِ ایمان آپ ﷺ ہی کے ذریعے میسر آتی ہے۔ جن کے وسیلہ سے دولتِ ایمان میسر آرہی ہے، اگر اُن کے ہی ارشادات و فرامین اور سنت کو حجت تسلیم نہ کیا جائے تو کفر اور ظلمات سے نکل کر ایمان اور روشنی کس طرح میسر آسکتی ہے۔۔۔ ؟ صرف قرآن مجید ہی کو حجت قرار دینے والے قرآن مجید کے اس فرمان کے حوالے سے کیا کہیں گے کہ قرآن مجید تو واضح اعلان کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مبعوث ہی اس لیے کیا کہ آپ ﷺ لوگوں کو ایمان کی دولت سے ہمکنار کریں اور لازمی بات ہے کہ لوگ دولتِ ایمان سے اسی وقت بہرہ یاب ہوں گے جب وہ آپ ﷺ کی حدیث و سنت کو نہ صرف مانیں گے بلکہ ان کی حجیت تسلیم کرتے ہوئے ان پر عمل پیرا بھی ہوں گے۔

ایمان بالرسول ہی ایمان باللہ ہے

قرآن مجید میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ نے کفار کے عقائد اور ان کے خیالات و نظریات کو رد فرمایا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ نے صرف حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے کی بات کی ہے یعنی اس جگہ پر ایمان باللہ کا ذکر نہیں کیا بلکہ صرف ایمان بالرسول کا ذکرکیا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ پر ایمان لانے کو ہی اپنی ذات پرایمان لانا قرار دے دیا کہ ایمان بالرسول ہی ایمان باللہ ہے۔

جنّات کا ایک گروہ آقا ﷺ کے پاس آیا، انہوں نے آپ ﷺ سے قرآن مجید سنا اور ایمان لے آئے۔ وہ گروہ واپس اپنی قوم کی طرف انہیں اسلام کی دعوت دینے اور آخرت کے عذاب کا ڈر سنانے کے لیے گیا۔ انھوں نے اپنی قوم کو جاکر جس طرح ایمان کی دعوت دی، قرآن مجید ان کی بات کو بیان کررہا ہے:

یٰـقَوْمَنَـآ اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللہِ وَاٰمِنُوْا بِہٖ یَغْفِرْلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۝

(الأحقاف،46: 31)

’’اے ہماری قوم! تم اللہ کی طرف بلانے والے (یعنی محمد رسول اللہ ﷺ) کی بات قبول کر لو اور ان پر ایمان لے آؤ (تو) اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے گا۔‘‘

یہ بیان یوں بھی ہو سکتا تھا کہ؛ اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللہ وَاٰمِنُوْابِاللہِ وَ رَسُولِہِ  کہ تم اللہ کی طرف بلانے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ۔ مگر ایسا نہیں کہا۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا ہی حقیقت میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ہے۔ یہ آیتِ کریمہ بھی حجیتِ حدیث کے منکرین کے خلاف ایک قرآنی دلیل ہے کہ قرآن مجید کہہ رہا ہے جو تمہیں دعوت دے رہے ہیں، ان ہی پر ایمان لے آؤ، بس یہ کافی ہو جائے گا۔ اس لیے کہ جب ان پر ایمان لے آئے تو جو کچھ اس رسول ﷺ نے دیا ہے، اس سب پر ایمان لے آؤ گے اور جب تم رسول ﷺ پر ایمان لے آئے تو یہ خود بخود اللہ پر ایمان قرار پاجائے گا۔ وہ رسول ﷺ تو دعوت ہی تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دے رہے ہیں۔

کیا دعوتِ رسول صرف تلاوتِ قرآن تک محدود تھی؟

یاد رکھیں کہ آپ ﷺ کی دعوت صرف قرآن مجید تک محدود نہیں ہے بلکہ آپ ﷺ کی دعوت میں آپ ﷺ کی سنت، حدیث، دعوت، تبلیغ، تعلیم سب شامل ہے، یہ ایک مکمل پیکج ہے۔ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا مطلب آپ ﷺ کے دیے ہوئے سارے پیکج پر ایمان لانا ہے۔ آقا ﷺ کی 23 سال پر محیط دعوتِ اسلام صر ف قرآن مجید کی تلاوت تک محدود نہ تھی۔ کیا آقا ﷺ کعبہ معظمہ کے صحن میں، مکہ کی گلیوں میں، طائف کے بازاروں میں، وفود سے ملاقاتوں میں، میدانِ جنگ میں، سفرو حضر میں اور مسجد نبوی کے منبر پر کفار و مشرکینِ مکہ یا یہود و نصاریٰ یا اہلِ مدینہ کو خطاب کرتے اوردعوت دیتے، یا اہل و عیال کے ساتھ گفتگو کرتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی تعلیم و تربیت فرماتے تو آپ ﷺ صرف قرآن مجید کی آیات تلاوت کرتے تھے، یا اُس کے علاوہ بھی کچھ فرماتے تھے؟

لازمی بات ہے کہ آپ ﷺ دعوت و تربیت اور تعلیم و تدریس کے وقت صرف آیا تِ قرآنی کی تلاوت نہیں کرتے تھے بلکہ ان آیا ت کی تشریح بھی کرتے اور ان کے معانی و مفاہیم بھی بیان کرتے۔۔۔ آپ ﷺ اپنے الفاظ میں لوگوں کو دوزخ سے ڈراتے اور جنت کی طرف بلاتے۔۔۔ احکام کا اطلاق کرتے اور لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے۔۔۔ یہ سارا کچھ جو بھی بیان ہوتا یہ آیاتِ قرآنی نہیں بلکہ یہ حدیث او رسنت ہے۔ قرآن مجید تو فقط اُن الفاظ پر مشتمل ہوتا جو بذریعہ وحی جبرائیل امین آیات کی شکل میں لے کر اترتے اور ایک لفظ اور آیت میں فرق کیے بغیر آقا ﷺ من و عن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کو بیان فرمادیتے۔ اس کے علاوہ باقی جو کچھ آقا ﷺ بیان فرماتے، تعلیم دیتے، تبلیغ کرتے، وعظ و نصیحت کرتے، تشریحات فرماتے اور جو بھی عمل کرکے دکھاتے، وہ سب سنت اور حدیث ہے۔ گویا دینِ اسلام کی صورت میں موجود پیکج دو چیزوں کا مجموعہ ہے:

  1. قرآن مجید
  2. سنت نبوی

مذکورہ آیتِ کریمہ (الاحقاف: 31) میں دعوت دینے والے کی دعوت کے مکمل پیکج کو تسلیم کرنے کا کہا جارہا ہے اور ان پر ایمان لانے کی دعوت دی جارہی ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کی بات پر لبیک کہنا ہے تو آقا ﷺ کے پور ے پیکج کو لبیک کہنا ہے۔ ایسا نہیں کہ اس میں سے صرف آیاتِ قرآنی منتخب کرلیں اور باقی چھوڑ دیں اور کہیں کہ یہ حجت نہیں ہے۔ ایسا کرنا مسلمانی نہیں بلکہ گمراہی اور کفر ہے۔ جو بدقسمتی سے قرآن، اسلام اور علم کے نام پر پھیلائی جارہی ہے۔ پس اگر یہ پورا پیکج لیں گے تو تب اللہ تعالیٰ گناہ بھی معاف کردے گا اور دوزخ کے عذاب سے چھٹکارا بھی عطا فرمائے گا۔

ہماری طرف براہِ راست قرآن مجید آیا یا آپ ﷺ کو معبوث کیا گیا؟

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو براہِ راست ہماری طرف نہیں بھیجا کہ ہم سو کر اٹھیں تو ہمارے شعور میں قرآنی آیات آجائیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر صرف قرآن مجید حجت ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف پہلے اپنے محبوب رسول ﷺ کو بھیجاہے، پھر ان کی طرف قرآن مجید بھیجا، پھر آپ ﷺ کو اس قرآن مجید کا عملی پیکر اور اس کی تشریح و تعبیر کرنے والا بنایا۔ قرآن مجید میں الحمد سے والناس تک اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ ’’میں نے براہِ راست تمہاری طرف قرآن مجید بھیجا ہے، بس اُسی کو تھام لو، یہی کافی ہے، کسی اور کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘ جو بات قرآن مجید نے اپنے بارے میں نہیں کہی، اسے قرآن مجید کی طرف منسوب کردینا، قرآن مجید پر تہمت لگانا ہے۔ قرآن مجید تو ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّكُمْ ؕ

(النساء،4: 170)

’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس یہ رسول ﷺ تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تشریف لایا ہے، سو تم (ان پر) اپنی بہتری کے لیے ایمان لے آؤ۔‘‘

معلوم ہوا کہ ہمارے پاس تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے ہیں، براہ راست قرآن مجید نہیں آیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ بھی آپ ﷺ پر ہی ایمان لانے کا واضح حکم دے رہا ہے کہ تمھاری بہتری کا راز اسی بات میں مضمر ہے کہ تم رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آؤ۔ حیران کن امر یہ ہے کہ جو ہمارے پاس براہِ راست آئے، انھیں حجت تسلیم نہیں کررہے اور جو (یعنی قرآن مجید) براہِ راست نہیں آیا بلکہ رسول اللہ ﷺ کے ذریعے ملا، صرف اسی کو حجت اور اتھارٹی ماننے پر اصرار کررہے ہیں۔ یہ بات قرینِ عقل بھی نہیں ہے۔

حجیتِ حدیث و سنت کا انکار دین اور فرائضِ نبوت کے چار حصوں کا ترک کرنا ہے

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۝

(البقرۃ،2: 15 1)

’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں تلاوتِ آیات سے مراد قرآن مجید ہے اور تلاوت کرنے والے سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ ہیں جو اپنی امت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  پر تلاوت کرتے ہیں، پھر ان کے نفوس اور قلوب کا تزکیہ فرماتے ہیں اور ان کے قلب و باطن کو صاف کرکے اس قابل کرتے ہیں کہ اس میں قرآن مجید کا علم اور فہم آسکے اور پھر انھیں کتاب سمجھاتے اور اس کی تعلیم دیتے ہیں اور پھر حکمت و دانائی کی تعلیم دیتے ہیں اور پھر جو کچھ ہم نہیں جانتے، اس کی بھی تعلیم دیتے ہیں۔ یہی وہ فرائضِ نبوت و رسالت ہیں جن کی تکمیل کے لیے آپ ﷺ کو مبعوث فرمایا گیا۔

سوال پید اہوتا ہے کہ جب قرآن مجید نازل ہوگیا اور حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کی آیات بھی ہم پر تلاوت فرمائیں اور ہمارے دل و دماغ کو تزکیہ کے ذریعے قرآن مجید کو سمجھنے کے قابل بھی بنا دیا اور یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا (وہ تم پر ہماری آیات تلاوت کرتے ہیں) میں الحمد سے والناس تک قرآن مجید کا مکمل متن آگیا تو وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ (وہ تمھیں کتاب کی تعلیم دیتے ہیں) کو دوبارہ کیوں بیان کیا جارہا ہے۔۔۔ ؟ کیا آیاتِ قرآنی کی محض تلاوت اور پڑھنے کو تعلیم کا نام دیا جارہا ہے؟اس کا جواب ہے کہ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ اس آیت کریمہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے پانچ چیزوں کو بیان فرمایا جن میں سے صرف ایک حصے؛ یتلوا علیکم ایتنا کا تعلق قرآن مجید سے ہے جبکہ اگلے چار حصوں؛ ویزکیکم ویعلمکم الکتاب والحکمۃ ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون کا تعلق حدیث و سنت کے ساتھ ہے۔ گویا دین کا ایک حصہ قرآن مجید اور چار حصے حدیث و سنت ہیں۔ اب اگر کوئی حجیتِ حدیث و سنت کا انکار کرنے والا ہے تو وہ دین کے چار حصوں کو رد کررہا ہے۔

آیئے! دین کے ان پانچ حصوں کا اجمالاً جائزہ لیتے ہیں:

(1) تلاوتِ آیات کرنے کا تعلق قرآن مجید سے ہے

یتلوا علیکم ایتنا کے مصداق تلاوتِ قرآن دین کا ایک حصہ ہے اور یہ واضح ہے۔

(2) تزکیۂ نفوس کرنے کا تعلق حدیث و سنت سے ہے

وَیُزَکِّیْکُمْ کے مصداق تزکیہ دین کا دوسرا حصہ ہے۔ جس کا تعلق حدیث و سنتِ نبوی سے ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  آتے اور عرض کرتے یارسول اللہ! ہمارے دلوں میں فلاں فلاں خیال آتے ہیں۔ آپ ﷺ فرماتے: جاؤ اللہ کا ذکر کرو۔۔۔ کسی کو فرماتے: جاؤ استغفار کرو۔۔۔ کسی کو طہارت و پاکیزگی اور کسی کو خدمتِ والدین کی تلقین کرتے۔۔۔ کسی کو فرماتے کہ روزے رکھو اور کسی کو صفہ کے سائبان کے نیچے ٹھہرا لیتے کہ رات دن میری صحبت میں گزارو، تمہاری تربیت کروں گا۔ الغرض آقا ﷺ علمی و عملی طریقے اور توجہ اور صحبت کے ذریعے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کا تزکیہ فرماتے۔ یہ سارا عمل تلاوت قرآن نہیں تھا۔ جو کچھ بھی آقا ﷺ صحابہ کو تعلیم دیتے اور ان کے تزکیہ کے لیے طریقہ کار تجویز کرتے، وہ سب کچھ حدیث ہے۔ اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کو قرآن مجید کی کوئی آیت بھی پڑھنے کے لیے دی کہ اس آیت کو فلاں مسئلہ کے لیے فلاں تعداد میں پڑھو، تو پڑھنے کا یہ حکم بھی حدیث ہے۔

(3)تعلیمِ کتاب دینے کا تعلق حدیث و سنت سے ہے

وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ کے مصداق تعلیمِ کتاب دین کا تیسرا حصہ ہے اور اس کا تعلق بھی قرآن مجید سے نہیں بلکہ حدیث و سنتِ مصطفی ﷺ سے ہے۔ یتلوا علیکم ایاتنا کے مصداق محض آیات کو پڑھنا تلاوت ہے جبکہ ان آیات کی وضاحت کرنا یعلمکم الکتاب کے ذیل میں آتا ہے۔ آقا ﷺ آیاتِ قرآنی کی تلاوت بھی فرماتے اور پھر ان کے معانی و مفاہیم بھی بیان کرتے ہیں۔۔۔ ان کی تعبیر و تشریح بھی کرتے ہیں اور ان کے اطلاقات اور فروع بھی بیان کرتے ہیں۔ تلاوتِ آیات کے بعد تعلیمِ کتاب اصل میں سنت اور حدیث ہے۔ اس حصۂ دین میں قرآن مجید کے احکامات کی تعبیر و تشریح اور وضاحت بزبانِ مصطفی ﷺ کی جارہی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  نے پوچھا: یارسول اللہ! قرآن مجید میں حکم آ یا ہے کہ وَأَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ  (نماز قائم کرو)۔ کیسے پڑھیں؟ فرمایا:

صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّي

(بخاری ، الصحیح، 1: 226، رقم: 605)

’’جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھو، اس طرح پڑھا کرو۔‘‘

اس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  نے آپ ﷺ سے 23 سال کی زندگی میں ہزارہا سوالات کیے اور آپ ﷺ نے ان کے جوابات ارشاد فرمائے اور عمل کرکے دکھایا۔ ان سوالات میں بے شمار چیزیں قرآن مجید سے متعلق بھی تھیں اور کئی چیزیں زندگی کے باقی معاملات کے متعلق بھی تھیں۔ یہ سب حدیث و سنت بنا۔

(4)تعلیمِ حکمت دینے کا تعلق حدیث و سنت سے ہے

وَالْحِکْمَۃَ کے مصداق دین کے چوتھے حصے کا تعلق بھی حدیث و سنت کے ساتھ ہے۔ امام شافعی کے نزدیک حکمت سے مراد سنت ہے۔ وسیع تر معنی میں حکمت سے مراد دانائی، فہم اور تدبر ہے۔ یعنی آپ ﷺ تدبر،تفکر، دانائی اور دانشِ ربانی ہمیں پہنچارہے ہیں۔ یہ سب کچھ بھی حدیث و سنت کے ذیل میں آ تا ہے اور اس میں سے کچھ بھی آیاتِ قرآنی میں سے نہیں ہے، اس لیے کہ آیات قرآنی کا بیان یتلوا علیکم ایتنا کے تحت آچکا۔ اب تلاوت کے بعد ان آیات پر جو کچھ حضور ﷺ بیان فرمارہے ہیں، یہ ایک ایک لفظ حدیث اور سنت ہے۔ قرآن مجید کو پڑھنے، سمجھنے، مفاہیم ومعانی کو اخذ کرنے، احکامات کا اطلاق کرنے اور آیاتِ قرآنی کے مقاصد کو واضح کرنے سے متعلق آپ ﷺ کے تمام ارشادات حکمت کے تحت آتے ہیں۔ اس طرح حکمت بھی حدیث و سنتِ مصطفی ﷺ ہی ہے۔ الغرض آقا ﷺ نے جو کچھ بھی بیان فرمایا اور ان سے سائنس، فلسفہ، اخلاق، معاشرت، معیشت اور اجتماعی تعلقات کا جو نظام بھی بنتا چلا گیا، خواہ اس کی بنیاد قرآن مجید ہے یا آقا ﷺ کے ارشادات ہیں جن پر پورے دین کی عمار ت کھڑی ہے، یہ ساری حکمت ہے جو حدیث و سنت نبوی کے ذریعے معرضِ وجود میں آئی۔

(5) اسرارِ معرفت و حقیقت کی تعلیم دینے کا تعلق حدیث و سنت سے ہے

وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ  کے مصداق دین کے پانچویں حصے کا تعلق بھی حدیث و سنت سے ہے کہ آپ ﷺ وہ اسرارِ معرفت وحقیقت ہمیں سکھاتے ہیں جو ہم نہ جانتے تھے۔ آپ ﷺ سے جو کچھ پوچھا گیا، آپ ﷺ نے ان کے بارے میں رہنمائی فرمائی، یہ سب بھی حدیث ہے۔ حتی کہ سوال کرنے والے ذاتی نوعیت اور اخروی حال کے متعلق بھی آپ ﷺ سے سوال کرتے اور آپ ﷺ ہر ایک کا جواب عنایت فرماتے۔ ایک شخص نے پوچھا: یارسول اللہ! لوگ مجھے کسی اور کے نام سے بلاتےہیں۔ میرے باپ کا نام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے اسے اس کے باپ کا نام بتا دیا۔۔۔ ایک شخص نے پوچھا: یارسول اللہ! میں جہنم میں جاؤں گا یا جنت میں؟ فرمایا: تیرا ٹھکانہ دوزخ ہے۔۔۔ کسی نے پوچھا: یارسول اللہ! میرے لیے بہترین عمل کیا ہے؟ آقا ﷺ نے اس کے حال کو دیکھتے ہوئے فرمایا: نمازوں کو اپنے وقت پر ادا کرنا۔۔۔ ایک اور صحابی نے بھی اس طرح کا سوال کیا :یارسول اللہ! سب سے افضل عمل کیا ہے؟ فرمایا: اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا۔۔۔ ایک اور صحابی نے بھی یہی سوال کیا تو آقا ﷺ فرمایا: جہاد کرنا۔

سوال ایک ہے مگر سوال کرنے والے لوگ جدا ہیں اور آپ ﷺ ہر ایک کو جدا جدا جواب دے رہے ہیں۔ اس لیے کہ آپ ﷺ طبیب و معالج بھی ہیں، مرشد و آقا بھی ہیں، استاد و معلم بھی ہیں اور رسول بھی ہیں، آپ ﷺ سب کچھ ہیں، آپ ﷺ ہرایک کے حال، قلبی کیفیت، ذہنی نفسیات اور باطن کی ضرورت کو جانتے ہیں، اس لیے اسےاس کی ضرورت کے مطابق جواب دے رہے ہیں۔ لوگوں کے احوال اور قلبی کیفیات کے مطابق آپ ﷺ جو کچھ بھی فرمارہے ہیں یہ قرآن مجید نہیں ہے اور نہ یہ کسی آیت میں آیا ہے بلکہ یہ سب حدیث اور سنتِ نبوی ہے۔

پس پہلا فریضہ جو آقا ﷺ نے ادا کیا وہ یہ ہے کہ آپ ﷺنے قرآن مجید کی آیات پڑھ کر سنائیں۔ اس حصۂ دین اور فریضۂ نبوت کا تعلق قرآن مجید سے ہے بقیہ چار فرائض؛ تزکیہ نفوس، تعلیمِ کتاب، تعلیمِ حکمت، تعلیمِ اسرارِ معرفت و حقیقت کا تعلق قرآن مجید کے ساتھ نہیں ہے بلکہ آپ ﷺ نے فرائضِ رسالت کی ادائیگی میں یہ امور انجام دیئے۔ ان چار فرائض میں کہیں قرآن مجید کا متن شامل ہوتا۔۔۔ کہیں قرآن مجید کی تشریح اور تعبیر شامل ہوتی۔۔۔ کہیں اجتہاد اور ذاتی فہم شامل ہوتا۔۔۔ اور کہیں آپ ﷺ کی حکمت و بصیرت شامل ہوتی۔ اس طرح فرائضِ رسالت کے یہ چار حصے جو قرآن مجید کی تعبیر و تشریح اور انسانی زندگی کی ضرورت کے حوالے سے آپ ﷺ کے فرامین پر مبنی ہیں، یہ تمام حدیث و سنت کے ذیل میں آتے ہیں۔

صرف قرآن مجید کو حجت ماننا اور باقی کسی چیز کو حجت نہ ماننے کا مطلب فرائضِ رسالت اور دین کے ایک حصہ کو ماننا اور چار کو رد کرنا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ’’قرآن مجید کے سواکوئی شے حجت نہیں‘‘، ایسا کہنا سراسر کفر اور قرآن مجید کا انکار ہے۔ (جاری ہے)