ماہ ربیع الاول کا آغاز پوری مسلم دنیا کیلئے خوشی اور مسرت کا احساس لے کر آتا ہے۔ بعثتِ محمدی ﷺ پر خوشیاں منانے کا حکم اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں دیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت سے بڑھ کر کائنات میں کوئی خوشی نہیں۔ربیع الاول کا مہینہ خوشیوں، رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ محسن انسانیت حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت پاک کی خوشی دنیا جہان کی خوشیوں سے بلند تر اور برتر ہے۔میلاد کا سب سے بڑا پیغام محبت، امن اور سلامتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے کارکنان اور وابستگان پوری دنیا میں محافل میلاد النبی ﷺ کا انعقاد کر کے دنیا کو امن، سلامتی اور احترامِ انسانیت کا پیغام دیتے ہیں اورتحریک منہاج القرآن حضور نبی اکرم ﷺ سے اظہارِ محبت و مودت کے کلچر کو فروغ دے رہی ہے۔
امسال بھی ماہِ ربیع الاول کا آغاز ہوتے ہی منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ، گوشہ درود، جامع شیخ الاسلام، کالج آف شریعہ اور متصل عمارات اور گلیوں کو برقی قمقموں سے روشن کر دیا گیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہدایت پر حسب سابق امسال بھی منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر نورِ مجسم، رحمتِ دو عالم حضور نبی اکرم ﷺ کی اس دنیا میں آمد کی خوشی میں محافلِ نعت و ضیافتِ میلاد کا بھی بھر پور اہتمام کیا گیا۔ یکم سے 11 ربیع الاول تک ان محافل میلاد اور ضیافتِ میلاد کی میزبانی کے فرائض مختلف ایام میں؛ منہاج القرآن یوتھ لیگ، آغوش کمپلیکس، تحفیظ القرآن انسٹیٹیوٹ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، نظامتِ تربیت، کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز، ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ڈویلپمنٹ، منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن، منہاج القرآن ویمن لیگ اور ڈائریکٹوریٹ آف انٹرفیتھ ریلیشنز منہاج القرآن انٹرنیشنل نے سر انجام دیے۔
پاکستان اور دنیا بھر موجود تحریک منہاج القرآن کی تنظیمات اور کارکنان نے بھی ماہ ربیع الاول میں عظیم الشان میلاد جلوس نکالے اور عظیم الشان محافلِ میلاد کا اہتمام کیا۔ ان جلوسوں اور محافل میلاد کی قیادت اور صدارت منہاج القرآن کی مرکزی، تحصیلی اورضلعی سطح کی قیادت نے کی اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے عوام و خواص نے بطور خاص شرکت کی۔ منہاج القرآن کے علماء اور سکالرز نے ان میلاد جلوسوں اور محافلِ میلاد میں محبت مصطفی ٰ ﷺ کے موضوع پر خطابات کئے اور حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت کی اطاعت کرنے اور آپ ﷺ کی ذات سے محبت و عشق کے پیغام کو نہایت خوبصورت طریقے سے اجاگر کیا۔
عالمی میلاد کانفرنس 2024ء
امسال بھی الحمد للہ تعالیٰ منہاج القرآن انٹرنیشنل کی عالمی میلاد کانفرنس 2024ء مینارِ پاکستان لاہور کے سرسبز میدان میں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور محترم پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی زیر نگرانی نہایت پر وقار انداز میں منعقد ہوئی۔ تحریکِ منہاجُ القرآن پچھلی چار دہائیوں سے عشقِ مصطفی ﷺ کی شمع کو فروزاں کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔ مینارِ پاکستان کا گراؤنڈ ہر سال لاکھوں عاشقانِ رسول ﷺ کو اپنے دامن میں سمیٹ کر اس بات کا گواہ بنتا ہے کہ یہاں حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کا جشن منا کر امتِ مسلمہ کے لاکھوں مسلمان اپنے ایمان کو تازگی بخشتے ہیں اور پورا سال ان کے دل محبتِ مصطفی ﷺ کی تپش سے دھڑکتے رہتے ہیں۔ ناظم اعلیٰ منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم خرم نواز گنڈا پور، نائب صدر محترم بریگیڈئیر (ر) اقبال احمد خان، محترم محمد رفیق نجم (نائب ناظم اعلیٰ)، محترم نوراللہ صدیقی (نائب ناظم اعلیٰ)، محترم جواد حامد (نائب ناظم اعلیٰ) اور دیگر نائب ناظمین اعلیٰ، صدور فورمز اور مرکزی قیادت کی سربراہی میں قائم 60 سے زائد کمیٹیوں نے عالمی میلاد کانفرنس کے انتظام و انصرام میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اس عالمی میلاد کانفرنس میں جامعہ الازہر کے فیکلٹی آف اصول دین کے سابق ڈین اور الازہر الشریف کی اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے رکن الشیخ ڈاکٹر عبدالفتاح عبدالغنی، کویتی فقہ انسائیکلوپیڈیا میں شعبہ تحقیق کے سربراہ اور کویت میں ہیڈ امام الشیخ عبداللہ نجیب سالم، اسلامی جمہوریہ ایران سے عالمی شہرت یافتہ قرا ء کرام اور ایک اعلیٰ سطحی وفد؛سید محمد حسین ہاشمی گل پائیدانی، محمد مہدی صادقی، محترم غلام رضا قاسمیان، استاد حامد شاکر نژاد، احمد ابوالقاسمی، محمد حسین عظیمی خوشنودی، موسی عظیمی خوشنودی، محترمہ حدیث نظری، محترمہ آنسہ ثنا نظری، محمد حسین خیر الامور، حسین حیدری، سید مہدی حسینی منش خصوصی طور پر تشریف لائے۔
پاکستان بھر سے جید علماء و مشائخ عظام، مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین، سماجی رہنما، تاجر برادری، وکلا، اور طلبہ تنظیموں کے سربراہان عالمی میلاد کانفرنس کے سٹیج پر موجود ہیں۔ پنڈال کے اندر اور ملحقہ سڑکوں پر نصب دیو قامت جدید ڈیجیٹل اسکرینوں کے ذریعے سٹیج کی کارروائی کو براہِ راست دکھایا گیا۔اس کانفرنس میں لاکھوں عشاقان مصطفیٰ بنفسِ نفیس مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں موجود تھے جبکہ منہاج ٹی وی، اور تحریک کے دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے بھی لاکھوں لوگ اس کانفرنس میں آن لائن شریک تھے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس عالمی میلاد کانفرنس میں ’’سیرت نبوی ﷺ اور حلم‘‘ کے موضوع پر علمی، فکری اور روحانی خطاب فرمایا۔اس کانفرنس کی اجمالی رپورٹ نذرِ قارئین ہے:
خطبہ استقبالیہ : محترم خرم نواز گنڈاپور (ناظم اعلی منہاج القرآن انٹر نیشنل)
41ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس 2024ء کے آغاز میں محترم ناظم اعلی ٰ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اللہ رب العزت کا شکر اور احسان اور لطف و کرم ہے کہ جس نے آج کی اس مقدس اور سہانی رات ہمیں ایک عظیم اعلی اور خیر پر مبنی مقصد کے لیے جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ میں اس عظیم الشان اکتالیسویں عالمی میلاد کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر منہاج القرآن انٹرنیشنل کے تمام فورمز اور خصوصا تحریک منہاج القرآن، نظامت اجتماعات، نظامت دعوت، منہاج القرآن وومن لیگ، منہاج القرآن یوتھ لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، منہاج القرآن علماء کونسل، پاکستان عوامی تحریک، منہاجینز اور دیگر نظامتوں اور تمام زونز کو مبارکباد دیتا ہوں کہ جن کی مسلسل محنت و مساعی سے اتنے بڑے پیمانے پر ایک تاریخی اور عظیم الشان اجتماع کا انعقاد ممکن ہوا۔ بالخصوص تحریک منہاج القرآن لاہور کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اس عظیم الشان محفل کو سجانے میں ان کی غیر معمولی کاوشوں کا ثمر بفضل تعالی آج کا یہ عظیم جمِ غفیر ہے۔ فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ کو بھی مبارکباد کہ جن کی مسلسل جدوجہد سے اس مبارک شب کی مناسبت سے آج 12نئی کتب کی اشاعت ممکن ہوئی ہے۔
میں اس عالمی میلاد کانفرنس کی زینت بننے والے قابل صد احترام شیوخ عظام خصوصا مصر سے تشریف لانے والے پروفیسر آف علوم القرآن و تفسیر ڈاکٹر عبدالفتاح عبدالغنی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہماری دعوت پر اس اجتماع کو اپنے وجود سے رونق بخشی۔ آپ جامعہ الازہر کے فیکلٹی آف اصول دین کے سابق ڈین اور الازہر الشریف کی اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے رکن ہیں۔ میں اپنے دوسرے عزت مآب مہمان الشیخ عبداللہ نجیب سالم صاحب کا بھی بے حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس عالمی میلاد کانفرنس میں شرکت کے لیے ہماری دعوت کو شرف پذیرائی بخشی۔ آپ گزشتہ تیس سالوں سے کویتی فقہ انسائیکلوپیڈیا میں شعبہ تحقیق کے سربراہ اور کویت میں ہیڈ امام کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور کویتی ریڈیو اور ٹی وی چینلز کے مقبول پیشکار جبکہ کویت کے قومی اخبارات میں لکھنے والے معروف تجزیہ کار اور کالم نویس ہیں۔ اسی طرح میں اپنے برادر اسلامی ملک اسلامی جمہوریہ ایران سے تشریف لائے ہوئے عالمی شہرت یافتہ واجب الاحترام قراء عظام قاری حامد شاکر نژاد، قاری احمد ابو القاسمی اور قاری محمد حسین عظیمی خوشنودی اور دیگر قراء کا بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اپنے لحن داؤدی سے شرکائے کانفرنس کے قلوب کو منور کرنے کے لیے ہماری د عوت پر اس عظیم الشان عالمی میلاد کانفرنس میں تشریف لائے۔ ان کے علاوہ ایرانی وفد میں شریک دیگر قابل قدر مہمانان گرامی جن میں محفل ٹیلی ویژن کے سربراہ سید محمد حسین ہاشمی، محمد مہدی صادقی اور حجت الاسلام غلام رضا قاسمیان اور دیگر مہمانان گرامی کا بھی تہہ دل سے شکر گزار ہوں. کہ وہ بھی ہماری دعوت پر اس عظیم الشان کانفرنس میں تشریف لائے. منہاج القرآن انٹر نیشنل کے ڈائریکٹر ڈپلومیٹک اور انٹر فیتھ ریلیشنز محترم سہیل احمد رضا کو بھی مبارکباد دیتا ہوں کہ ان کی خصوصی دلچسپی اور مسلسل رابطے کے باعث ایرانی مہمانوں کی آمد ممکن ہوئی۔
ہمارے لیے یہ باعثِ فخر اور باعثِ اعزاز ہے کہ ہم آج اکتالیسویں یوم میلاد النبی ﷺ کے اس اجتماع کا انعقاد کر رہے ہیں۔ اس کا ایک اہم مقصد محبت و قربتِ رسول ﷺ کا حصول اور آپ ﷺ کی ذات گرامی سے مسلمانوں کے تعلق کا احیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس امتِ مسلمہ کے ایمان کا مرکز و محور اور حقیقی اساس ہے۔ امت مسلمہ کی بقا، سلامتی اور ترقی کا راز ہی اس امر پر منحصر ہے کہ وہ فقط ذات مصطفی ﷺ کو اپنی جملہ عقیدتوں، محبتوں اور تمناؤں کا مرکز و محور گردانیں اور یہ بات قطعی طور پر جان لیں کہ آپ ﷺ کی نسبت کے استحکام اور واسطہ کے بغیر دنیا و آخرت میں کوئی عزت و سرفرازی نصیب نہیں ہو سکتی۔
میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو عالمی میلاد کانفرنس کی صورت میں قائم کی گئی اس عظیم روایت پر ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں اور چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور صدر منہاج القرآن انٹر نیشنل ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ نہایت کامیابی کے ساتھ اس مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعاگو ہوں کہ تحریک منہاج القرآن کو ہر سال اسی شان و شوکت، جوش و ولولے اور تکریم کے ساتھ یہ دن منانے کی سعادت نصیب فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر آج کی رات اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ہمیں اسی طرح اس عظیم دن کو عید سعید کے طور پر منانے کی توفیق عطا فرمائے۔
محفل قرأت و نعت
عالمی میلاد کانفرنس کے پہلے سیشن کا آغاز تلاوتِ قرآن مجید سے ہوا۔ تحفیظ القرآن انسٹی ٹیوٹ کے اساتذہ اورطلبہ نے تلاوت قرآن مجید کی سعادت حاصل کی۔ صفدر علی محسن، حافظ سعید رضا بغدادی، نظامتِ تربیت، ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ڈویلپمنٹ اور نظامتِ دعوت کے ناظمین نے نقابت کے فرائض سرانجام دیے۔ ملک کے نامور ثنا خوانانِ مصطفی ﷺ اور منہاج القرآن ویمن لیگ کے ذیلی شعبہ ایگرز کے معصوم بچوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ہدیۂ عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔
- کانفرنس میں قاری صالح احمد سراج (مدینہ منورہ) نے ائمہ حرمین کی آواز میں تلاوتِ قرآن مجید کی سعادت حاصل کی۔
- ایرانی قراء نے خوبصورت طریقے سے تلاوت کرکے عالمی میلاد کانفرنس کے حسن و وقار کو دوبالا کردیا۔
- ایرانی مہمانانِ گرامی نے اسلامی خطاطی پر مشتمل خوبصورت شیلڈز ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈا پور، شیخ ابوتراب (کوآرڈینیٹر ایرانی وفد) اور محترم سہیل احمد رضا (ڈائریکٹر انٹرفیتھ ریلیشنز منہاج القرآن انٹرنیشنل) کو پیش کیں۔
عالمی میلاد کانفرنس سے معزز مہمانان گرامی کا اظہار خیال
عالمی میلاد کانفرنس میں شریک معزز مہمانا ن گرامی نے بھی اظہار خیال کیا اور اپنے اپنے انداز میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا۔ ذیل میں کانفرنس میں شریک مہمانان گرامی کے خطابات کے خلاصہ جات پیش کیے جا رہے ہیں :
1۔ الشیخ عبداللہ نجیب سالم (کویت)
ہیڈ آف ریسرچ گورنمنٹ آف کویت شیخ عبداللہ نجیب سالم نے عالمی میلاد کانفرنس کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معزز شرکاء اور محبانِ رسول اللہ ﷺ! آپ کو اس خوبصورت محفل کے انعقاد پر مبارکباد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آپ اللہ تعالیٰ کی اس رحمت پر خوشیاں منارہے ہیں جو اس نے دونوں جہانوں پر فرمائی۔آپ لوگ یہاں حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد کی خوشیاں منانے اور س دن کی تعظیم کے لیے آئے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی اپنے یوم ولادت کو ایک عظیم دن کے حوالے سے واضح فرمایا۔ جب آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ سوموار کا روزہ کیوں رکھتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں اس دن پیدا ہوا۔ اس پر میں اللہ کی بارگاہ میں اس کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھتا ہوں۔ آقا علیہ السلام کی ولادتِ مبارکہ کے وقت عظیم معجزات کا ظہور ہوا۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کی پیدائش کے وقت ایک ایسا نور دیکھا جس کی روشنی میں آپ نے مشرق و مغرب کے محلات دیکھ لیے۔ اس سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ حضور علیہ السلام ساری کائنات کے لیے روشنی کا باعث ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے پیارے محبوب ﷺ کے ذریعے عظمت و اکرام عطا فرمایا۔ مشرق و مغرب میں ہر طرف یوم میلاد النبی ﷺ کی خوشیاں منائی جارہی ہیں۔
میں منہاج القرآن کے بانی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اس عظیم الشان جشن کے اہتمام پر مبارکباد دیتا ہوں۔ بلاشبہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت و الفت کے اظہار میں ایمان کی حلاوت اور دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ پاکستان آنے کی دعوت دینے پر میں عصر حاضر کے مجدد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ان کی لائق فائق فرزندان ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
2۔ الشیخ ڈاکٹر عبدالفتاح عبدالغنی العواری (جامعۃ الازہر مصر)
مصر سے منہاج القرآن کی خصوصی دعوت پر تشریف لانے والے معزز مہمان جامع الازہر کے عظیم محقق ڈاکٹر عبدالفتاح عبدالغنی العواری نے 41ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس کے روح پرور اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دل حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت میں ڈوبے ہیں۔ آپ ﷺ ہدایت لے کر تشریف لائے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس لیے مبعوث فرمایا تاکہ وہ لوگوں کو ظلمات سے روشنی اور نور کی طرف نکالیں۔ آپ ﷺ کی ولادت سے قبل لوگ شرک کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ہر جگہ باطل کے ڈیرے تھے۔ عدل و انصاف ناپید تھا اور دنیا ہر طرح کے ظلم کا شکار تھی۔ شیطان نے لوگوں کے برے اعمال کو ان کی نگاہوں میں اچھا بنا رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا رحم کرنے والا ہے، اس کی شایانِ شان نہیں کہ وہ لوگوں کو گمراہی اور اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دے۔ اس لیے کہ اس نے مخلوق کو عبث اور بے کار پیدا نہیں فرمایا۔ اس نے انھیں اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ پس اللہ کے ارادے اور چاہت سے اس کا نور پھیلا اور ہدایت کا سورج طلوع ہوا۔ یہ وہی ہدایت کا سورج ور اللہ کا نور ہے جن کے یومِ میلاد کو ہم منارہے ہیں۔ آپ ﷺ لوگوں کو شرک، ظلم سے نکال کر نورِ توحید، حق اور عدل کی طرف لائے۔
آپ کا یہ اجتماع نہایت مبارک ہے، آپ کی یہ محفل حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ آپ کی محبت کا اظہار ہے۔ اگر محبتِ رسول ﷺ نہ ہوتی تو اتنا عظیم اجتماع نہ ہوسکتا۔ آپ کو اس محبتِ مصطفی ﷺ پر مبارکباد دیتا ہوں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو مبارکباد دیتا ہوں کہ جنھوں نے آپ تمام کے دلوں کو عظیم اور مبارک فکر پر اکٹھا کردیا اور آپ کے اندر محبت رسول ﷺ پیدا کرنے کا حق ادا کردیا۔ آپ لوگوں کا یہ والہانہ جوش و جذبہ دیکھ کر مجھے بے حد مسرت ہورہی ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے ساتھ ہماری نسبت کو تاقیامت قائم و دائم رکھے۔
3۔ محترم سینیٹر راجہ ناصر عباس (صدر مجلس وحدت المسلمین)
میں آج کی اس بابرکت شبِ میلاد النبی ﷺپر شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے صاحبزادگان کی خدمت میں اس عظیم گلدستے کو وجود میں لانے پر ہدیہ تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں۔ اللہ کے نبی ﷺ ہماری ہدایت اور ہمیں رشد و کمال کی عظمتوں تک پہنچانے کے لیے تشریف لائے۔ آپ ﷺ ہمیں ایک ایسی امت بنانے کے لیے آئے جو اللہ کی زمین پر نفاذِ عدل کے لیے اٹھے، ظلم مٹائے، آپس میں اخوت اور بھائی چارہ کے رشتہ میں بندھی ہو اور ایک دوسرے سے لا تعلق نہ ہو۔ آپ ﷺ عالمین کے لیے رحمت اور وسیع دل رکھنے والے ہیں۔ وہ امت جس کا نبی ایسا ہے، اس امت کا اسوہ بھی رحمت ہونا چاہیے۔ انہیں بھی ظلم کے خلاف بر سرپیکار ہونا چاہیے اور انہیں بھی نفاذِ عدل کے لیے اٹھنا چاہیے۔ امتِ مسلمہ کی کوئی سرحدیں نہیں ہیں۔ جہاں تک عالم بشریت ہے، وہاں تک اس امت کا حدود اربع ہے۔ آج ہم یہاں اس لئے اکٹھے ہیں کہ یہ ہمارے نبی ﷺکی اس عالم میں تشریف فرمائی والی فضیلتوں کی رات ہے۔ آپ ﷺ کا اس دنیا میں تشریف لانے کا مقصد یہ کہ ہماری تہذیبِ نفس ہو اور ہم انسان بن جائیں اور انسانیت کے اعلی درجات اور مراتب تک جا پہنچیں۔ منہاج القرآن اسی مشن پر کاربند ہے۔ میں جب بھی آپ میں آتا ہوں تو ایسے لگتا ہے کہ اپنے گھر میں آیا ہوں۔ ہمارے لیے منہاج القرآن کے جتنے بھی ادارے ہیں، اپنے گھر کی طرح ہیں۔ ہم ہر حال میں آپ کے ساتھ ہیں اور رہیں گے۔
4۔ محترم جسٹس (ر) نذیر احمد غازی (معروف اسلامک سکالر و اینکر پرسن)
پوری دنیا پر حکومت کرنے والے مسلمان افسوس کہ آج زوال کا شکار ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امت میں اتحاد اور اتفاق نہیں رہا اور ہم فرقہ بندی کا شکار ہو گئے۔ آج اللہ تعالی کا شکر ہے کہ منہاج القرآن واحد پلیٹ فارم ہے جو اتحاد امت کے لئے سرگرمِ عمل ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی عظمت کو میں سلام کرتا ہوں کہ جو امت کو اقبال کے پیغام: ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے۔۔۔ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر ‘‘ کے مصداق ایک ہونے کی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ میں ہانگ بانگ میں بڑی مرتبہ گیا ہوں۔ میں جب بھی وہاں جاتا تھا تو وہ کہتے تھے فلاں کی مسجد میں جانا ہے، فلاں میں نہیں جانا اور ان کو ٹائم نہیں دینا۔ گذشتہ دنوں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب پہلی مرتبہ وہاں گئے اور ہانگ کانگ میں تمام مسالک کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر لیا۔ ان کی کاوشوں کے سبب انہوں نے متفقہ طور پر میلاد النبی ﷺ منعقد کی اور مل کر میلاد جلوس نکالا۔ کاش آج پاکستان میں بھی ہمارے تمام مسالک کے لوگ اکٹھے ہو جائیں۔ ہر سال ڈاکٹر صاحب کی ایک کوشش ہوتی ہے کہ وہ میلاد کے موقع پر مختلف مسالک کے لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں اور امت کو اتفاق و اتحاد کا پیغام دیتے ہیں۔
آج بدنصیبی سے ہمارے محراب و منبر پر ایسی زبان کا استعمال ہو رہا ہے جو اسلام اور مسلمان کے شایانِ شان نہیں ہے۔ میرا آج کا پیغام صرف یہ ہے کہ کیا ہم اللہ کے محبوب ﷺ کے ارشاد کہ مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ اس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوتے ہیں، کا عملی پیکر ہیں یا نہیں؟ ہمیں عشق رسول ﷺ کی قدر مشترک کو بنیاد بناتے ہوئے ایک ہونا ہو گا اور باہمی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے اتفاق و اتحاد پیدا کرنا ہو گا۔ علامہ محمد اقبال اور سر علی امام ( تحریک پاکستان کے عظیم رہنما ) میں کچھ وجوہات کی بناء پر بڑے اختلافات تھے۔ ایک کانفرنس میں شرکت کے بعد جب وہ دونوں واپس آئے اور بمبئی اترےتو دونوں آپس میں گلے ملے۔ لوگوں نے علامہ اقبال سے پوچھا کہ آپ کی تو علی امام سے بڑی لڑائی تھی، پھر آپ گلے کیسے مل رہے ہیں؟انہوں نے کہا کہ جب ہم جا رہے تھے تو عدن کی بندرگاہ آئی، جہاز پر کھڑے ہو کر علی امام نے مجھے کہا کہ اقبال صاحب اگر یہاں سے نوے کے زاویے سے ایک لائن کھینچی جائے تو وہ سیدھی گنبد خضرا سے ٹکراتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے علی امام کی آنکھیں پرنم ہو گئیں۔ ذکرِ مصطفی ﷺ کرتے ہوئے جس شخص کی آنکھیں پر نم ہو جائیں، اقبال ان کے ساتھ اپنے دل میں بغض نہیں رکھ سکتا۔
آج میں ان لوگوں سے کہتا ہوں جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمیں سید العالمین ﷺ سے محبت ہے کہ وہ آپس میں اس طرح کا اندازِ رحمت اللعالمینی پیدا کریں۔
5۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری (چیئر مین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل)
چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے عالمی میلاد کانفرنس میں عربی اور اردو دونوں زبانوں میں خطاب فرمایا۔ اس خطاب کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے:
آج کی اس مبارک رات آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے یوم ولادت با سعادت کے ان لحظات میں ماضی کے جھروکوں سے ڈیڑھ ہزار سال قبل جزیرہ العرب میں قائم ایسے معاشرے کی جھلک دیکھیں جہاں جہالت و لاقانونیت تھی۔ معاشرہ وحشت و بربریت اور ظلم و سفاکیت کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ تصور کریں کہ وہ ایک ایسا معاشرہ تھا جہاں لوگوں کے مابین نہ احساس و مروت تھا نہ ہی ادب و احترام کا وجود۔ وہ ایسا معاشرہ تھا جہاں قتل و غارت گری کو نہ کوئی گناہ تصور ہوتا تھا اور نہ گردن زنی کوئی جرم تصور ہوتا تھا۔ وہ ایسا معاشرہ تھا جہاں نہ خون کا دریا بہانے سے کوئی باز آتا تھا اور نہ ہی مفلوک الحال کی اذیت رسانی سے کوئی رکتا تھا۔ وہ ایسا معاشرہ تھا جہاں بنتِ حوا مصیبت اور بدحالی کی زندگی گزار رہی تھی۔ وہ ایک ایسا معاشرہ تھا کہ جہاں دینِ ابراہیمی کی اصل حقیقت مسخ ہو چکی تھی اور لوگ اپنے تراشیدہ بتوں کی پوجا میں لگے ہوئے تھے۔ وہ ایسا معاشرہ تھا جہاں جھوٹ، مکر و فریب اور دھوکہ عام تھا اور ہر طرف فساد اور فتنے کی آگ سلگ رہی تھی۔ الغرض وہ ایسا معاشرہ تھا جہاں امن و سکون تھا اور تحمل و بردباری نہ تھی اور نہ ہی انسانیت کا کوئی نام و نشان تھا۔
تصور کریں کہ اس جہالت اور گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے جبر و سفاکیت سے معمور معاشرے میں اچانک ایک حسین و جمیل چہرے والا، دلربا و دلکش اور کریم و لطیف پیدا ہوتا ہے جو باطل کے مقابلے میں حق کا علم بلند کرتا ہے۔ جب لوگ گمراہی میں مبتلا نظر آتے ہیں تو وہ صداقت و امانت اور حسنِ گفتار و کردار کا زیور پہن کر آتا ہے۔ جب لوگ نفاق میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں تو وہ ایمان کی علامت بن کر سامنے آتا ہے۔ جب لوگ اخلاقی رزائل کا شکار نظر آتا ہے تو وہ اخلاقِ حسنہ کا پیکر بن کر آتا ہے۔وہ کمزوروں، ناتوانوں اور بے سہاروں کی اعانت کر رہا ہے جبکہ لوگ کمزوروں کو ظلم کا نشانہ بنا رہے تھے۔ وہ یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کا سہارا بن کر آتا ہے جب کہ لوگ مفلوک الحال طبقات کا استحصال کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ جمیل و کریم سلامتی، امن اور خوشحالی کا پیامبر بن کر آتا ہے جبکہ لوگ جنگ جدال اور فساد کا پیغام دے رہے ہوتے ہیں اور اعلانیہ گناہ کر رہے ہیں۔ وہ حسین و جمیل اور دلربا کون ہے؟ وہ وہ بیواؤں، مسکینوں، یتیموں کا سہارا بننے والا کون ہے؟ وہ آپ کے اور ہمارے پیارے نبی محمد مصطفی ﷺ ہیں۔
آپ ﷺ کی شان تو یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں آپ ﷺ کی خلقت، آپ ﷺ کے اعضا جسمانی، وجودِ اقدس، چہرہ مبارک، بصارت، سماعت، نگاہوں، کانوں، زلفوں، قلبِ اطہر، سینہ اقدس، دست اقدس، قدمین مبارک، چال مبارک، تقویٰ، اخلاق، عمر مبارک کا ذکر فرمایا ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام l نے بھی نظم و نثر میں اپنے اپنے انداز میں آپ ﷺ کی مدح سرائی بیان فرمائی ہے۔ حضرت حسان بن ثابت ہوں یا حضرت ابو بکر صدیق، حضرت ابو طالب ہوں یا حضرت عبد اللہ بن سلام l ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں آپ ﷺ کی عظمت و شان کے قصیدے پڑھتا نظر آ تا ہے۔ مفسرین کرام نے صحابہ کرامl کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے نزدیک قرآن مجید میں مذکور صراط مستقیم سے مراد محمد ﷺ ہیں، عروۃ الوثقیٰ سے مراد بھی محمد ﷺ ہیں، اللہ کے فضل و رحمت سے مراد بھی محمد ﷺ ہیں اور اللہ کے ذکر سے بھی مراد محمد ﷺ ہی ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں اس قابل کرے کہ ہم آپ ﷺکے اخلاقِ کریمانہ کا لباس پہننے کے قابل ہو جائیں۔
خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
- منہاج القرآن انٹر نیشنل کے زیر اہتمام 41ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنے خطاب کے آغاز میں جامعۃ الازھر کے عظیم استادالشیخ عبدالفتاح عبدالغنی العواری اور علماء شام اور کویت میں سے ایک عظیم علمی شخصیت الشیخ عبداللہ نجیب سالم کو خوش آمدید کہتے ہوئے فرمایا کہ ان دونوں عظیم مہمانوں کی آمد سے جامعۃ الازھر الشریف اور ملک شام اور کویت کے جید علماء کی نمائندگی ہوئی۔ منہاج القرآن ان کا اپنا گھر اور پاکستان ان کا وطن ہے۔ جامعۃ الازھر اور منہاج القرآن کے درمیان بہت سی قدریں مشترک ہیں اور ان میں سے سب سے بلند مشترک قدر ان دونوں میں اعتدال اور توازن کا ہونا ہے۔
اس موقع پر شیخ الاسلام نے اسلامی جمہوریہ ایران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ منہاج القرآن کی دعوت پر انھوں نے اپنے ملک کے عظیم قراء جن کا فن قرأت اور قرآن کی خدمت میں کوئی ثانی نہیں، انھیں اس عالمی میلاد کانفرنس میں شرکت کے لئے بھیجا۔ میں ان سب کو صمیمِ قلب سے خوش آمدید کہتا ہوں اور نہایت ہی خوبصورت انداز میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے تمام قراء، ان کے والدین اساتذہ، شیوخ اور اسلامی جمہوریہ ایران کو مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ قراءت قرآن کے فن کو فروغ دینے کی صورت میں عظیم خدمت ِقرآن سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ کی آمد نے میرا ہی نہیں سب کا دل خوش کر دیا ہے۔ پاکستان اور بطور خاص منہاج القرآن آپ کا اپنا گھر ہے۔ آپ کو ہر سال اس عالمی محفل میلاد کا حصہ بننے کی دعوت ہے۔ ہم اس پروگرام میں آپ کے ہر سال منتظر ہوں گے۔ جس طرح ہر سال جامعۃ الازہر کے اکابر اس عالمی محفل میلاد میں تشریف لاتے ہیں اور منہاج القرآن ہمارے نزدیک مصر کی جامعۃ الازہر کا مسکن ثانی ہے، اسی طرح اگر آپ بھی اس محفل میں ہر سال شرکت کیا کریں تو ہمیں خوشی ہوگی۔ آپ کے ہر سال آنے سے اہل پاکستان کے دلوں میں قرآن مجید کے ساتھ محبت قائم ہوگی۔ قرأت قرآن اور تلاوت قرآن کی محبت کے جو چشمے سوکھ گئے اور خشک ہو گئے ہیں، آپ کے ہر سال مسلسل آنے سے یہ چشمے پھر سے بحال ہو جائیں گے اور یہاں کے لوگوں کی قرآن سننے، سمجھنے، سینوں میں بسانے اور اسے اپنی زندگی بنانے کے لیے رغبت اور محبت قائم ہو جائے گی۔
- جملہ مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کرنے کے بعد شیخ الاسلام نے آپ ﷺ کے حلم اور بردباری کے موضوع پر خطاب فرمایا۔ اس خطاب کا خلاصہ نذرِ قارئیں ہے:
حلم کا لغوی معنی جلد بازی کو ترک کر دینا اور عجلت پسندی کو چھوڑ دینا ہے۔ اہل لغت کے ہاں حلم کا لفظ غصہ اور غضب کے برعکس معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی اگر علم ہے تو غصہ نہیں ہوگا اور اگر غصہ ہے تو علم نہیں ہوگا۔ ائمہ لغت نے حلم کو عقلمندی کے معنی میں بھی بیان کیا ہے۔ یہ بے وقوفی کے برعکس ہے۔ حلم اللہ رب العزت کی صفات میں سے ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ کے خصال میں سے ہے۔ حلم کا ایک معنی کمالِ صبر بھی ہے۔ جب صبر اپنے آخری نقطہ کمال تک پہنچے کہ اس میں غصہ اور غضب کے پائے جانے کی مجال ہی نہ ہو، اس کیفیت کو حلم اور بردباری کہتے ہیں۔ اس کے معنی میں یہ بھی ہے کہ کوئی غلطی کی بناء پرمستحقِ سزا ہو مگر اس کی سزا کو مؤخر کردیا، تو یہ حلم اور بردباری ہے۔
جب ایسے عوامل اور اسباب پیدا ہوں جن میں انسان کو غصہ آتا ہے اور جہاں اس کی قوتِ غضب متحرک ہو جاتی ہے، اس وقت ان عوامل کے ہوتے ہوئے طبیعت میں غصے کو متحرک نہ ہونے دینا بلکہ طبیعت میں اتنی ٹھنڈک، ضبط اور قابو آجائے کہ بندہ غصے کے اسباب کے باوجود غصہ طبیعت میں داخل نہیں ہونے دیتا تو اس کیفیت کو حلم کہتے ہیں۔ حلم کا یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ کسی زیادتی کرنے والے سے انتقام لینے کی قوت و استطاعت ہو مگر اس کی برداشت اتنی ہو کہ انتقام نہ لے۔ قدرت رکھتے ہوئے انتقام نہ لینا، اگر طبیعت اور مزاج میں یہ کیفیت مستقل پیدا ہو جائے اس کو حلم کہتے ہیں۔ اس کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ غضب، ناراضگی اور غصے کی کے وقت بھی دل کا مطمئن رہنا، یعنی اس کی طبیعت متزلزل نہ ہو اور وہ عجلت میں کوئی ایسی بات نہ کہے، کام نہ کرے اور انتقام نہ لے۔ اگر طبیعت میں اتنی پختگی آجائے تو اس کیفیت کو حلم کہتے ہیں۔
قرآن مجید میں متقین کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ.
(آل عمران، 3: 134)
’’اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
1۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں متقین کا پہلا درجہ یہ بیان کیا ہے کہ وہ غصے کو پی جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غصہ آتا ہے تبھی تو اس کو ضبط کرتے ہیں اور پی جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا درجہ ہے جس میں غصہ دلانے کے عوامل و محرکات اور ماحول و اسباب موجود ہیں مگر قبل اس کے کہ اس غصے کا اظہار ہو، وہ زبان سے یا فعل اور عمل سے اس کو پی جاتے ہیں اور ضبط کر لیتے ہیں۔ گویا طبیعت میں غصہ آتا ہے مگر اپنی طبیعت اس نہج پہ کر رکھی ہے اور محنت اور مشقت ایسی کر رکھی ہے کہ اس غصے کو ضبط کر لیتے ہیں۔
2۔ اس کے بعد اس سے اوپر کا درجہ بیان کیا کہ غصے کو ضبط کر لینا ہی آخری کمال نہیں۔غصہ ضبط کرنے کا مطلب یہ ہے کہ غصے کا اظہار نہ کریں، کوئی سخت تلخ بات نہ کریں، اپنے کسی فعل اور عمل سے غصہ ظاہر نہ کریں اور انتقام نہ لیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ہیجان اندر تھا جسے ضبط کر لیا۔ مگر اس سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ جس نے غصہ دلایا، اذیت اور تکلیف دی اسے معاف کر دیا۔ اب اس معافی کا مطلب ہے کہ اس غصہ کے اثرات بھی مٹ گئےہیں۔اب طبیعت میں وہ ہیجان اور اضطراب نہیں رہتا کہ غصہ جگہ پا سکے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جس نے زیادتی کی اس کو معاف بھی کر دیا۔ پس وہ لوگ جو غصہ پی جاتے ہیں، یہ ایک درجہ ہے مگر ان سے زیادہ باکمال وہ لوگ ہیں جو معاف بھی کر دیتے ہیں۔
حلم کا یہ درجہ مجاہدہ و ریاضت سے حاصل ہوتاہے مگر بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اگر پیدا ہی نفس مطمئنہ پر کیا ہو تو اللہ تعالیٰ ان کو پیدائشی طور پر ایسا بنا دیتا ہے۔ مگر جو حلیم الطبع پیدا نہیں ہوا تو پھر وہ مشقت، تربیت، محنت اور ریاضت سے رفتہ رفتہ غصے کو دباتا ہے اور غصہ پیتے پیتے طبیعت کو عادی بنا دیتا ہے۔ گویا حلم قوت غضب کو توڑ دیتا ہے۔
عالمی میلاد کانفرنس کے موقع پر اس موضوع کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے چاہا کہ اس اجتماع کے لیے سیرت نبوی کا ایک ایسا موضوع منتخب کروں جو ہماری زندگیوں میں انقلاب پیدا کر دے۔ اس لئے کہ اگرحلم نہ ہو تو علم بے وقار ہو جاتا ہے۔ اگر حلم نہ ہو تو عمل بے وقار ہو جاتا ہے۔اگر حلم یعنی بردباری نہ ہو تو پوری زندگی اور سیرت بے وقار ہو جاتی ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے کسی کے پاس علم ہو مگر عقل نہ ہو یا کم عقل ہو۔ کم عقل بندے کے پاس اگر علم ہو تو وہ علم فائدہ مند نہیں رہتا، اس لئے کہ اس میں علم کی صحیح جہت کو سمجھنے کی صلاحیت ہے اور نہ علم کو صحیح پہنچانے کی صلاحیت ہے۔ کیا کہنا ہے، کب کہنا ہے اور کس کو کہنا ہے؟ اسے اس بات کا ادراک ہی نہیں، کیونکہ اس کےپاس عقل نہیں ہے۔ اس کےپاس علم ایک آلہ کے طور پر موجود تو ضرور ہے مگر اسی طرح موجود ہے جیسے ایک نابینا شخص ہے مگر سورج کی روشنی اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہےکیونکہ اس کے پاس بینائی نہیں ہے۔
اسی طرح کسی کی طبیعت میں حلم اور بردباری نہیں ہے تو وہ ہر روز فتوی بازی کرے گا، لوگوں کو کافر بنائے گا، کسی کو مشرک، کسی کو بدعتی، کسی کو گمراہ ٹھہرائے گا اور کسی کو اسلام اورکسی کو اہل سنت سے خارج کرے گا۔ یہ رویہ اس لئے ہے کہ اس کے علم میں حلم اور بردباری نہیں۔ جب حلم اور بردباری نہیں ہوتی تو عقل کا چراغ بجھ جاتا ہے۔ حلم کا نام عقل مندی بھی ہے۔ حلم نہیں ہے تو گویا عقل غالب نہیں اور جہاں عقل مغلوب ہوئی وہاں جہالت نے قبضہ پا لیا۔ حلم کے بغیر علم استعمال ہو تو انتہا پسندی جنم لیتی ہے اور مزاج اور رویہ میں اعتدال اور وسعت ختم ہو جاتی ہے۔ آج کے دور میں سب سے زیادہ مشکل کام لوگوں کو دین کی طرف بلانا اور انھیں راہ اعتدال پر چلانا ہے۔ اول تو لوگ ہمارے رویوں کے باعث دین سے متنفر ہوگئے ہیں، ہم نے نوجوان نسلوں میں دین کی رغبت نہیں چھوڑی، ہمارے رویوں نے انہیں بیزار کر دیا اور اگر کوئی دین سے رغبت رکھنے والا ہے تو انہیں وہ لوگ دین کی اصل تعلیمات سے دور کر کے انتہا پسندی کی طرف لے آتے ہیں جو علم کا دعوی کرتے ہیں یا علم کی اشاعت کرتے ہیں مگر ان کے پاس تحمل، برداشت اور بردباری نہیں ہے اور وہ مدرسہ، مسجد اور سوشل میڈیا کے ذریعے مزاجوں اور رویوں کو وسطیت اور اعتدال کی راہ سے ہٹا رہے ہیں۔ وہ لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں اور تشدد پر اکساتے ہیں۔ اس طرح دھڑے بندیاں ہوتی ہیں اور تفرقہ بازی جنم لیتی ہے۔ یاد رکھیں کہ اگر اہل دین کے پاس حلم نہیں ہوگا تو علم بھی بد نام ہوگا، دین بھی بدنام ہوگا اور علماء دین بھی بدنام ہوں گے۔ افسوس کہ آج یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
وہی علم؛ علمِ لدنی بن سکتا ہےاور علم نافع بن سکتا ہے جس شخص کی طبیعت میں رحمت، شفقت، نرمی، بردباری، ٹھنڈک اور برداشت ہو گی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: علم حاصل کرو اور علم کے ساتھ سکونِ قلب اور حلم اور بردباری حاصل کرو۔آقا علیہ السلام نے علم کو سکینت یعنی سکونِ قلب اور بردباری کے ساتھ جوڑا ہے۔ نرم روی نہیں ہوگی تو علم سانپ بن جائے گا۔۔۔ آقا علیہ السلام نے ایک اور مقام پر فرمایا کہ اگر حلم سیکھو گے تو علم خیر کا باعث ہو گا اور اگر تمہاری طبیعتوں میں حلم اور بردباری نہیں ہو گی، جلد بازی ہو گی، فوری غلبہ پانے کا جذبہ ہو گا، دوسرے کو دبا دینے اور اس پر چھا جانے کا جذبہ ہو گا تو تم عالم نہیں رہو گے بلکہ ظالم ہو جاؤ گے۔۔۔ سیدنا مولا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم روایت کرتے ہیں آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ مسلمان شخص اگر حلم سیکھ لے اور بردباری اپنے اندر پیدا کر لے تو اس کا درجہ یہ ہو جائے گا جیسے اس نے ساری زندگی راتوں کو قیام کیا اور دن کو روزے رکھے۔۔۔سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں اے انسان خیر یہ نہیں ہے کہ تیری زندگی میں مال، اولاد، طاقت، جاہ و حشم، قوت و سلطنت اور سامانِ دنیا بڑھ جائے بلکہ خیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے علم کی بہت دولت عطا کر دے اور تمہارے علم کوحلم سے مزین کر دے۔
تحمل و بردباری اور برداشت کے تناظر میں ہمیں سوچنا ہو گا کہ اہلِ دین، علمائے دین، دین کے مبلغین، منبر و و محراب کے وارثین کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہمارے ہاں سے حلم اور بردباری کی بات ہوتی ہے؟ ہم تو بغیر تحقیق دوسرے پہ چڑھ دوڑتے ہیں، فتوی لگاتے ہیں او ر ایک ہنگامہ پیدا کر دیتے ہیں۔ نتیجتا دین اور مذہب ہنگامہ خیزی کا نام بن کے رہ گیا ہے۔ آج تو صورت حال یہاں تک آ پہنچی کہ دین کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کو للکارتے ہیں، ایک دوسرے کی برائی کرتے ہیں، ایک دوسرے کو گمراہ ٹھہراتے ہیں اور برے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ اب تو دین پھیلانے والے لوگ نوجوان نسل کےلیے انٹرٹینمنٹ آئٹم بن گئے ہیں۔ لوگ یوٹیوب پر انہیں انٹرٹینمنٹ کے لیے سنتے ہیں اور ان سے بے عقلی کی باتیں سن کر ہنستے ہیں۔ نوجوان نسل دین کے ان نام نہاد نمائندوں کا رویہ دیکھ کر دین سے متنفر ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ یہ ایک بین الاقوامی ایجنڈا ہے، اس ایجنڈے پر لوگوں کو دانستہ یا نادانستہ لگایا گیا ہے کہ دین اور مذہب کے نام پر ایسے رویے پیش کرو، ایسے non issues کو issues بناؤ اور ایک دوسرے کے خلاف اس طرح بولو اور بھڑکو کہ تمہارے رویے سے لوگ دین سے بیزار ہو جائیں۔ اس لئے کہ لوگ دین کے علمبردار ان لوگوں کے رویہ کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دین کی تعلیم ہے۔ میں ان تمام لوگوں سے جو رہبری کا منصب ادا کر رہے ہیں، درخواست کر رہا ہوں کہ خدا را اپنے رویوں اور مزاجوں میں تحمل و بردباری پیدا کریں اور دانستہ یا نا دانستہ اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل کر اپنے دین اور ایمان کا سودا نہ کریں اور نہ ہی اپنے ان رویوں سے نوجوان نسل کو دینِ اسلام کی تعلیمات سے بیزار کریں۔
عالمی میلاد کانفرنس کے موقع پر شائع ہونے والی نئی کتب
محترم ڈاکٹر محمد فاروق رانا (ڈائریکٹر فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ ) نے 41 عظیم الشان عالمی میلاد کانفرنس کے موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری، محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور محترم پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی درج ذیل 12 نئی کتب کا تعارف پیش کیا:
1. تصوف کا لغوی اشتقاق اور معنوی استحقاق (شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)
2. وراثت اور وصیت کے احکام و مسائل (شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)
3. فن نعت نگاری (شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)
.4 EXPOSING YAZID: A Theological and Historical Examination of his Disbelief (شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)
5. فہم القرآن (شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)
6. Quran on Management (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
7. آداب اختلاف (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
8. رفیق اور رفاقت (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
.9 PHILOSPHY OF ALTRUISM & MINHAJ UL QURAN INTERNATIONAL (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
10. سبل العشاق (پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری)
11. کرپٹو کرنسی: علمی اور شرعی محاکمہ (پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری)
12. Beyond the IMF (پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری)