کسی بھی کلمہ گو کا دل محبتِ رسول ﷺ سے بالکل خالی نہیں ہوتا، تاہم بعض خوش نصیبوں کو اس کا وافر حصہ ملا ہوتا ہے اور محبت کے فطری تقاضے کے مطابق ان سے بعض اعمال کا ظہور یا ارتکاب ہونا ضروری ہے۔ اسی چیز کو محبت کے عملی تقاضے یا محبت کی علامات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ محبت رسول ﷺ کے کچھ تقاضے تو حضور ﷺ کی ظاہری زندگی کے ساتھ خاص تھے جن پر عمل اب ممکن نہیں مگر کچھ ایسے تقاضے ہیں جن کا تعلق قیامت تک کے لیے ہر محبِّ رسول ﷺ سے ہے۔
زیرِ نظر مضمون کے گزشتہ حصہ (شائع شدہ ستمبر2024ء) میں حبِّ رسول ﷺ کے سات اہم عملی تقاضوں کا مطالعہ کرچکے ہیں۔ ذیل میں محبتِ رسول ﷺ کے چند مزید اہم عملی تقاضوں کو بیان کیا جاتا ہے:
(8) کتابِ الہٰی سے محبت رکھنا
حضور ﷺ کو اپنے اوپر نازل ہونے والی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید سے ذاتی طور پر جو تعلقِ خاطر، محبت اور شغف رہا ہے اور جس طرح آپ ﷺ نے اپنی امت کو قرآن سے علمی و عملی تعلق رکھنے کی تاکیدات اور قرآن مجید کو پسِ پشت ڈالنے پر سخت وعیدات فرمائی ہیں پھر قرآن مجید کی تلاوت و عمل پر دنیوی و اخروی فوائد بتائے ہیں اور جس طرح اس کی حفاظت پر زور دیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے محبتِ رسول ﷺ کا تقاضا ہے کہ قرآن مجید سے نہ صرف قلبی لگاؤ رکھا جائے بلکہ تمام دنیا میں اس کے ہمہ جہتی فروغ کے لیے مقدور بھر مساعی بھی کی جائیں کیونکہ یہی قرآن مجید آپ ﷺ کا دائمی معجزہ اور شریعتِ محمدیہ ﷺ کا بنیادی ماخذ و مصدر ہے۔
(9) امتِ محمدیہ ﷺ سے پیارکرنا
نبی کریم ﷺ کو دنیا و آخرت کے حوالے سے اپنی امت سے جو تعلقِ خاطر، محبت، شفقت، پیار، ہمدردی اور خیر خواہی ہے اورجس جس انداز میں آپ ﷺ نے امت سے کمال غم خواری کا مظاہرہ کیا ہے، انبیاء کرام علیھم السلام کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس بے مثال محبت کا عملی تقاضا ہے کہ حضور ﷺ کی امت سے بلا امتیاز اور بلا تخصیص پیار کیا جائے۔ امت کے کسی فرد کو حقیر نہ سمجھا جائے، حتی الامکان اس کی ہمدردی اور خیرخواہی کی جائے۔ بلاوجہ اس کو نقصان پہنچانے اور پریشان کرنے سے گریز کیا جائے۔ مسلمانوں کو کسی بھی حوالے سے دھوکہ دینے اور نقصان پہنچانے والوں کو حضور ﷺ نے اپنی امت سے ہی خارج قرار دیا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان) اور آخرت کے لیے عذاب کی وعیدیں سنائی ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے بعض امور کا نگران بنایا اور وہ ان کی ضروریات اور فقر سے بے پروا ہوکر بیٹھا رہا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضروریات اور فقر سے بے نیاز ہوجائے گا۔‘‘
(سنن ابی داؤد، کتاب الخراج والفئی والامارۃ)
(10) حضور ﷺ کی اطاعت و اتباع کرنا
محبتِ رسول ﷺ کی ایک بڑی پہچان یا عملی تقاضا ہر حالت میں خلوصِ دل ہی نہیں بلکہ کھلے دل سے اور کسی قسم کے احساسِ کمتری کے بغیر بڑے تفاخر سے خلوت و جلوت میں آپ ﷺ کے جملہ احکام کی بجا آوری، نواہی سے اجتناب اور آپ ﷺ کے فرمودات اور سنتوں پر عمل کرنا ہے۔ اطاعتِ رسول ﷺ کے سلسلے میں قرآن و سنت کی تصریحات، تاکیدات اور عدمِ اتباع پر وعیدات اور دنیوی و اخروی نقصان واضح ہیں۔ یہ بات دعوائے محبت بلکہ انصاف کے بھی خلاف ہے کہ آدمی اظہارِ محبت کے طور پر محفلوں، جلسوں، جلوسوں، کانفرنسوں، سیمیناروں، مذاکروں، نعتیہ و تقریری مقابلوں، اشتہاروں، نعروں، عمروں اور نوافل جیسے آسان اور وقتی طریقہ ہائے محبت پر تو بڑا زور لگائے مگر زندگی میں ہر موقع و مرحلہ اور قدم قدم پر دل و جان سے آپ ﷺ کی پیروی اور آپ ﷺ کے رنگ میں رنگے جانے سے شرم اور عار محسوس کرے یا کسی قسم کی نرمی، کمزوری، سستی اور چشم پوشی کا مظاہرہ کرے۔
شریعتِ اسلامیہ میں رسول اکرم ﷺ کی حیثیت اور مرتبہ و مقام (العیاذ باللہ) کسی ’’بابائے قوم‘‘کا نہیں کہ صرف ان کی ولادت اور برسی کے موقع پر بھرپور انداز میں خراجِ عقیدت پیش کردیا جائے۔ حضور ﷺ کی فرمانبرداری چھوڑکر محض محبت و عقیدت کا اظہار خود حضور ﷺ کو بھی پسند نہیں۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کے حکم پر دیگر صحابہ رضوان اللہ علیھم کے ہمراہ جہاد کے لیے روانہ ہونے کے حکم پر عمل پیرا ہونے سے قبل از راہِ عقیدت و محبت جب آپ ﷺ کے پیچھے جمعہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرنے کو مقدم سمجھا تو آپ ﷺ نے ایسی سوچ یا ایسے اظہارِ محبت کو سخت ناپسند فرمایا۔
(مشکوٰۃ المصابیح، باب آداب السفر)
اسی طرح ایک دن نبی اکرم ﷺ نے وضو فرمایا تو آپ ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیھم آپ ﷺ کے وضو کا پانی اپنے جسموں پر ملنے لگے۔ حضور ﷺ نے ان سے پوچھا کہ اس اظہارِ عقیدت پر تمہیں کیا چیز ابھار رہی ہے؟ انھوں نے عرض کی: ’’اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت‘‘۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس آدمی کو یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھے یا اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس سے محبت فرمائے تو اسے چاہیے کہ جب وہ بات کرے تو (ہمیشہ) سچ بولے اور جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اپنی امانت ادا کرے اور جو آدمی اس کے پڑوس میں رہتا ہو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔‘‘
(مشکوٰۃ المصابیح، باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق)
محبت کا ایک فطری اصول ہے کہ اگر آدمی محبت میں کامل اور سچاہو تو وہ اسے اپنے محبوب کی اطاعت پر مجبور کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے حضور ﷺ کے احکام کی بجا آوری ہی نہیں بلکہ آپ ﷺ کے طبعی عادات و اطوار میں بھی اتباع اور پیروی کے ریکارڈ قائم کیے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے تو بعض ایسے احکام میں بھی آپ ﷺ کی پیروی کی ہے جو بظاہر قرآن مجید کی نص کے خلاف معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً چار بیویوں تک نکاح کرنے کی قرآنی اجازت کے باوجود حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا حضور ﷺ کی خواہش پر سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی وفات تک دوسرا نکاح نہ کرنا (صحیح بخاری) اسی طرح معاملات میں دو گواہوں کے ضروری ہونے کے قرآنی ارشاد کے باوجود معاملات میں اکیلے حضرت خزیمہ کی گواہی کو کافی سمجھنا وغیرہ۔
(سنن ابی داؤد، کتاب القضا، باب اذا علم الحاکم صدق الشھادۃ الواحد)
حضور ﷺ کی اطاعت نہ کرنا ایک قسم کا انکار ہے۔ زبانی انکار کرنے والا تو خیر دائرہ اسلام سے ہی خارج ہے مگر عمل نہ کرنے والا بھی کم مجرم نہیں۔ اسے بھی کچھ عرصہ آخرت میں اپنے اس طرزِ عمل کی سزا بھگتنا پڑے گی۔
(مشکوٰۃ المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب والسعۃ)
خالصتاً مادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بھی اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ کریم نے ہر قسم کی عزت، کامیابی اور کامرانی اتباعِ نبوی ﷺ میں ہی رکھی ہے۔ اسی لیے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا:
کی محمد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
(11) ذاتِ رسول ﷺ میں نقص تلاش نہ کرنا
نبی اکرم ﷺ کا بار بار اور کثرت سے ذکر اور دیدار کا شوق بھی محبتِ رسول ﷺ کا خاصہ اور ایمان کی غذا ہے۔ کیونکہ محبت کا اصول ہے کہ من احب شیئا اکثر ذکرہ ’’جو کسی چیز سے محبت رکھتا ہے، وہ کثرت سے اسے یاد کرتا ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ ذکرِ نبوی ﷺ، نامِ رسول اور تذکارِ رسالت کے سامنے عاجزی و انکساری، تعظیم و توقیر اور خشوع کا اظہار بھی شرعاً ضروری ہے۔
(قاضی عیاض، الشفاء، 2: 26)
انسان کی عمومی عادت بلکہ فطرت ہے کہ اسے جس آدمی یا جس چیز سے محبت ہوتی ہے، اس میں اسے کوئی نقص و عیب نظر نہیں آتا۔ محبت کے اس قدرتی خاصہ کی طرف حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے یوں اشارہ فرمایا ہے کہ:
حبک الشئی یعمی ویصم۔ (سنن ابوداؤد، کتاب الادب)
’’کسی چیز کے ساتھ تیری محبت (اس کے عیب دیکھنے سے) نابینا اور (اس کے عیب سننے سے) بہرا بنادیتی ہے۔‘‘
محبت کا یہ خاصہ یا تقاضا ہر اس محبوب شے سے متعلق ہے جس میں نقص و عیب کا پایا جانا ممکن ہے تو رسول اللہ ﷺ کی وہ ذات والا شان جو ظاہری و باطنی اور خَلق و خُلق کے اعتبار سے نیر اعظم ہے اور ہر قسم کے نقص و عیب سے پاک پیدا کی گئی ہے، اس میں العیاذ باللہ نقائص و عیوب کو تلاش کرنا اور ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ کی خداداد رفعت و عظمت اور بے حد وغیر محدود بلند مرتبہ و مقام کو کسی نہ کسی طرح گھٹانے کی کوشش کرنا آپ ﷺ کے ساتھ محبت کے خلاف ہی نہیں بلکہ حقیقت اور عقلی طور پر انصاف کے بھی برعکس ہے۔
چنانچہ جب ہم نامِ نامی ’’محمد‘‘ کی لفظی و معنوی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’محمد‘‘ کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ ذات ستودہ صفات جس کی ہمیشہ، بار بار اورہر جہت و زاویہ سے تعریف کی گئی ہو۔۔ ۔ جس کی تعریف کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو۔۔ ۔ تعریف کے بعد تعریف اور توصیف کے بعد توصیف ہوتی رہے۔ چنانچہ خالقِ کائنات سے لے کر مخلوق تک انبیاء کرام علیھم السلام سے لے کرجن و ملک تک، حیوانات سے لے کر جمادات تک، غرض ہر ذی روح اور غیر ذی روح، سب نے آپ ﷺ کی تعریف کی ہے اور آج بھی دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی زبانیں دن میں نہ جانے کتنی بار آپ ﷺ کی تعریف و توصیف کے لیے متحرک رہتی ہیں حتی کہ کفار اور غیر مسلموں میں بھی ایک انصاف پسند طبقہ ایسا ہے جو اگرچہ آپ ﷺ کو رسول تسلیم نہیں کرتا مگر آپ ﷺ کے اخلاقِ عالیہ، امانت و دیانت، عدل و انصاف، صداقت و راست بازی اور انسانی ہمدردی و خیر خواہی جیسی خوبیوں کا معترف ہے۔
اسمِ ’’محمد‘‘ کی درج بالا یہ معنوی حقیقت بھلا عرب کے اہلِ زبان سے کیسے مخفی رہ سکتی تھی۔ کوئی شخص آپ ﷺ کو ’’محمد‘‘ کہہ کر آپ ﷺ کی مذمت بیان نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی کرے گا تو اپنے منہ سے جھوٹا ہوگا کہ ایک تو آپ ﷺ کو محمد (سراپا تعریف) کہتا ہے، دوسرے آپ ﷺ کی مذمت بھی کرتا ہے۔ اہلِ مکہ نے اسی تضاد اور مشکل سے بچنے کے لیے آپ ﷺ کا نام ’’محمد‘‘ کی بجائے ’’مذمم‘‘ (مذمت کیا گیا) تجویز کررکھا تھا اور اسی نام سے آپ ﷺ کی ذاتِ والا شان کو سب و شتم کرکے اپنی عاقبت خراب کرتے تھے۔ (فتح الباری، ابن حجر، 6: 558) گویا ان کا یہ طرزِ عمل اور سب وشتم کا انداز بھی خود ’’محمد‘‘ کی معنوی حقیقت پر دلالت کرنے والا تھا۔ اسی لیے حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں رسول مقبول ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا:
الا تعجبون کیف یصرف اللہ عنی شتم قریش ولعنہم یشتمون مذمما ویلعنون مذمما وانا محمد۔
(صحیح بخاری،کتاب المناقب، باب ماجآء فی اسماء رسول اللہ)
’’کیا یہ بات باعثِ تعجب و حیرت نہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے قریش مکہ کے سب و شتم اور ان کی لعنت کو میری ذات سے پھیر دیا ہے؟ وہ مذمم، نامی شخص کو گالیاں دیتے اور اس پر لعنت کرتے ہیں جبکہ میں تو (بحمداللہ) ’’محمد‘‘ (سراپا تعریف) ہوں۔‘‘
ابن سعد نے یہی روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے:
یا عبادالله انظروا کیف یصرف الله عنی شتمهم ولعنهم یعنی قریشا. قالوا کیف یارسول الله؟ قال یشتمون مذمما ویلعنون مذمما وانا محمد.
(ابن سعد، الطبقات،1: 106)
’’اے بندگانِ خدا: دیکھو اللہ کریم نے کیسے قریشِ مکہ کی گالیوں اور لعنت و ملامت کو میری ذات سے پھیر دیا ہے؟ لوگوں نے پوچھا، وہ کیسے یارسول اللہ؟ فرمایا وہ مذمم نامی آدمی کو گالیاں دیتے اور اسے برا بھلا کہتے ہیں، جبکہ میں بحمداللہ ’’محمد‘‘ (سراپا تعریف) ہوں۔‘‘
نیز نامِ محمد کی اس معنوی گہرائی اور حقیقت سے یہ بات بھی عیاں ہوئی کہ حضور ﷺ کی ذات ولا صفات میں انسانی اور پیغمبرانہ حیثیت سے کسی قسم کے نقص و عیب کا تصور کرنا آپ ﷺ کی شانِ محمدیت کے منافی ہے۔ یقیناً اسی حقیقت کے پیش نظر شاعر رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا تھا:
خلقت مبراء من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
اور اسی چیز کو فاضل بریلویؒ نے یوں خوبصورت شعری جامہ پہنایا ہے:
وہ کمالِ حسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے، یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
(12)تعلیماتِ رسول ﷺ پر عمل
محبت رسول ﷺ کا یہ بھی ایک لازمی تقاضا ہے کہ جوشِ محبت کے ساتھ ساتھ ہوش سے بھی کام لیا جائے۔ محبتِ رسول کے اظہار کا ہر ایسا انداز اور طریقہ و طرزِ عمل جس سے تعلیماتِ رسول یا شریعتِ مصطفوی کے کسی حکم کی واضح نفی اور کھلم کھلا نافرمانی ہوتی ہو، وہ خود اس ذاتِ بابرکات اور صاحبِ شریعت کو پسند نہیں جس سے اظہارِ محبت کے لیے اسے اختیار کیا جارہا ہے۔ اظہارِ محبت کے لیے ایسے خلافِ شرع طرزِ عمل سے خوش فہمی میں ظاہر بین لوگوں کی داد تو سمیٹی جاسکتی ہے مگر حضور ﷺ کی خوشنودی حاصل نہیں کی جاسکتی۔
حضرت قیس بن سعد سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں حیرہ (کوفہ کے پاس ایک شہر) میں آیا تو میں نے اہلِ حیرہ کو دیکھا کہ وہ اپنے سردار کو (تعظیماً) سجدہ کرتے ہیں۔ اس پر میں نے (دل میں) کہا کہ یقیناً رسول اللہ ﷺ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ ﷺ کے لیے سجدہ کیا جائے۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو میں نے عرض کیا (یارسول اللہ!) میں حیرہ میں گیا تھا اور وہاں میں نے لوگوں کو اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ لہذا آں جناب ﷺ تو اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ ﷺ کی تعظیم کے لیے سجدہ کیا جائے۔ اس پر آپ ﷺ نے مجھے فرمایا:
تمہارا خیال ہے کہ اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے تو کیا اسے سجدہ کرو گے؟ تو میں نے عرض کیا: نہیں۔ اس پر فرمایا: ایسا (میری زندگی میں بھی) ہرگز نہ کرنا۔ اگر میں کسی ایک آدمی کو حکم دیتا کہ وہ کسی دوسرے کو سجدہ کرے تو یقیناً عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں۔ بوجہ شوہروں کے اس حق کے جو اللہ نے ان پر واجب کیا ہے۔
(مشکوٰۃ المصابیح، باب عشرۃ النسآء)
ایک صحابیہ حضرت امیمہ بنت رقیقہ کا بیان ہے کہ میں چند خواتین کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی کہ ہم لوگ آپ ﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کریں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہم سے قرآن مجید میں موجود ان احکام پر بیعت لی کہ ’’تم چوری نہیں کرو گی، بدکاری نہیں کرو گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گی اور کسی (بے گناہ) پر بہتان نہیں لگاؤ گی‘‘۔ پھر (از راہ شفقت و رحمت) فرمایا کہ تم حسبِ استطاعت و طاقت ان احکام کو بجا لانا۔ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہم پر ہماری اپنی ذاتوں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ پھر ہم نے (فرطِ عقیدت میں) عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ کیا آپ ﷺ ہم سے مصافحہ نہیں فرمائیں گے؟ فرمایا: میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا۔ کسی ایک عورت کے لیے میری کوئی بات (حکم) سو عورتوں کے لیے بات کی مانند ہے۔
(ابن سعد، الطبقات)
اس سے اس امرکا اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ جب بعض صحابہ و صحابیات نے اس قسم کے خلافِ شرع اور تعلیماتِ رسول کے برعکس انداز میں حضور ﷺ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرنا چاہا تو صاحب شریعت ﷺ نے اس کی اجازت دی نہ اس چیز کو پسند کیا۔
(13) امتِ رسول ﷺ میں تفرقہ پیدا نہ کرنا
عام مشاہدہ ہے کہ محبت دوئی اور غیرت برداشت نہیں کرتی۔ ایک حسین بہت سی مشتاق نگاہوں کو اسیر بنالے تو ان میں باہم رقابت کی آگ بھڑکتی ہے۔ مگر اللہ کریم اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ محبت کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے چاہنےاور محبت کرنے والوں میں کسی قسم کی رقابت، غیریت اور دشمنی کی بجائے رنگ و نسل اور زبان و علاقہ کے اختلاف کے باوجود وہ باہمی محبت و اخوت، مثالی بھائی چارہ اور گہرا رشتہ پیدا ہوجاتا ہے جو تمام خونی اور قریبی رشتوں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
دل بہ محبوبِ حجازی بستہ ایم
زیں جہت با یک دگر پیوستہ ایم
ملا علی قاریؒ نے حضور ﷺ کے ساتھ والہانہ محبت کے حوالے سے متفق علیہ حدیث:لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔ کی شرح میں امام قرطبیؒ کا ایک قول نقل کیا ہے، جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ:
’’ہر وہ آدمی جو نبی اکرم ﷺ کے ساتھ صحیح ایمان رکھتا ہے، اس قسم کی ترجیحی محبت رسول ﷺ سے بالکل خالی نہیں ہوسکتا۔ چاہے وہ خواہشاتِ نفس میں مستغرق اور اکثر اوقات غفلت کے پردوں میں ہی کیوں نہ پڑا ہو۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ ہم ایسے (غافل و گنہگار) لوگوں کی اکثریت کو دیکھتے ہیں کہ جب ان کے سامنے آپ ﷺ کا ذکرِ خیر کیا جاتا ہے تو وہ آپ ﷺ کی زیارت کے لیے بے تاب ہوجاتے اور اس چیز کو اپنے اہل و عیال، اپنے مال، اپنی اولاد اور اپنے ماں باپ پر ترجیح دیتے ہیں اور اس محبت میں اپنےآپ کو پوری طمانیتِ قلبی کے ساتھ بلاتردد (بلاخوف و خطر) مصائب و خطرات میں ڈال دیتے ہیں۔ چنانچہ خارج میں اس چیز کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ ایسے بہت سے لوگ شہوت و غفلت کے غلبہ کے باوجود آپ ﷺ کی قبر شریف کی زیارت اور آپ ﷺ کے آثار و نشانات کی جگہوں کودیکھنے کے لیے ایثار و قربانی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے دلوں میں آپ ﷺ کی محبت گھر کرچکی ہے۔ صرف اتنی کمی ہے کہ ان کے قلوب مسلسل غفلت اور کثرتِ شہوت کی وجہ سے زیادہ تر فضول چیزوں میں مصروف اور اپنے لیے نفع مند چیزوں کو بھولے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اس نوع کی محبتِ رسول ﷺ کی برکت سے محروم نہیں رہیں گے اور ان کے لیے ان شاء اللہ ہر قسم کی خیر کی امید کی جائے گی۔‘‘
(ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان، الفصل الاول)
اس امر کی تائید درج ذیل حدیث نبوی ﷺ سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کےعہد مبارک میں ایک آدمی تھا جس کا نام عبداللہ اور لقب حمار تھا اور وہ رسول اللہ ﷺ کو (اپنی بعض محبانہ اداؤں سے) ہنسایا کرتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے شراب پینے کے جرم میں اس پر (کئی مرتبہ) حد بھی جاری فرمائی (چنانچہ اس نے شراب کی دیرینہ عادت کے ہاتھوں مجبور ہوکر پھر شراب پی لی) تو ایک دن اسے حضور ﷺ کے پاس لایا گیا۔ حضور ﷺ نے اسے کوڑے مارنے کا حکم فرمایا جس پر اسے کوڑے لگائے گئے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: ’’اے اللہ اس پر لعنت فرما، یہ کتنی مرتبہ شراب پینے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔‘‘ یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لا تلعنوه فوالله ماعلمت انه یحب الله ورسوله.
(صحیح بخاری، کتاب الحدود، باب مایکرہ من لعن شارب الخمر وانہ لیس بخارج من الملۃ)
’’اس پر لعنت نہ بھیجو۔ قسم بخدا میرے علم کے مطابق یہ شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہے۔‘‘
اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: یارسول اللہ ﷺ! قیامت کب آئے گی؟ فرمایا: پہلے یہ بتا کہ تو نے اس کے لیے کیا تیار کررکھا ہے؟ اس نے عرض کی: (یارسول اللہ ﷺ!) میں نے اس کے لیے نہ تو کوئی زیادہ نماز تیار کررکھی ہے، نہ روزہ اور نہ صدقہ۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے محبت رکھتا ہوں۔ فرمایا: تو (قیامت کے دن) اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ محبت رکھتا ہوگا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کو اسلام کے بعد کسی چیز پر اتنا خوش ہوتے نہیں دیکھا جتنا (حضور ﷺکی) اس بات پر خوش ہوئے۔
(مشکوٰۃ المصابیح، باب الحب فی اللہ ومن اللہ)
ان احادیثِ نبوی ﷺ اور امام قرطبی کے درج بالا قول سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کلمہ طیبہ پڑھ لینے اور حضور ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے کی برکت سے کسی گنہگار سے گنہگار آدمی کا دل بھی محبت رسول ﷺ سے بالکل خالی نہیں ہوسکتا۔ خواہشاتِ نفس کی پیروی اور مسلسل گناہوں کی نحوست و بے برکتی کے سبب محبتِ رسول ﷺ کی یہ چنگاری وقتی طور پر دب سکتی ہے مگر بجھ نہیں سکتی۔
چنانچہ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ بسا اوقات بعض عام قسم کے مسلمان نوجوانوں نے محبت رسول ﷺ کے سلسلے میں ایسے یادگار کارنامے سرانجام دیئے جو کوئی علامہ صاحب، خطیب صاحب، پیرِ طریقت، رہبرِ شریعت اور مذہبی قائد سرانجام نہ دے سکا۔ اس لیے کسی بھی مکتبۂ فکر کا اظہارِ محبت کے لیے اپنے مخصوص و متعین طریق کار اور مخصوص سوچ کے پیش نظر محبتِ رسول ﷺ کے جذبہ پر ’’اجارہ داری‘‘ کا دعویٰ اور دوسرے مکاتب فکر کے مسلمانوں کو محبت رسول ﷺ کے ’’سرٹیفیکیٹ‘‘ کے لیے غیر مستحق قرار دینے کا طرزِ عمل نہ صرف شریعتِ محمدیہ میں پائی جانے والی وسعت و آسانی کے خلاف ہے بلکہ اہلِ اسلام کے درمیان شرعی طور پر مطلوب و مقصود ’’باہمی اتحاد و اتفاق‘‘ اور امتِ مسلمہ کو درپیش معروضی حالات اور چیلنجز سے نمٹنے کے لازمی تقاضوں کے بھی برعکس ہے۔
مختصر یہ کہ کلمہ طیبہ اور ایمان بالرسالت کی برکت سے کسی بھی مسلمان کا دل محبتِ رسول ﷺ سے خالی نہیں ہوسکتا۔ لہذا مسلکی، فکری، فقہی، اجتہادی، فروعی، سیاسی، نسلی، علاقائی، معاشرتی اور سماجی قسم کے معمولی اختلافات کو بنیاد بنا کر امت میں مستقل فرقہ بندی اور لڑائی جھگڑے کو ہوا دینا بھی محبتِ رسول ﷺ کے عملی تقاضا کے خلاف ہے۔ حضور ﷺ نے تو دنیا میں امن قائم کرنے کی خاطر صلح حدیبیہ کے معاملہ میں ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ مٹادینا بھی قبول کرلیا تھا اور امت میں تفریق کے خدشہ سے بیت اللہ کی ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کا ارادہ ترک کردیا تھا مگر ہم ہیں کہ حضور ﷺ کے نام پر ہی سر پھٹول کررہے ہیں اور ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی الگ الگ مسجد بنارکھی ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین، فقہاء کرام اور دیگر علماء امت میں ہمیشہ نقطۂ نظر، رائے اور اجتہاد کا اختلاف رہا مگر انھوں نے اس اختلاف کو بنیاد بناکر وحدتِ امت کو پارہ پارہ کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ یہ نظریاتی و فروعی اختلاف کبھی ان کے درمیان باہمی محبت اور احترام میں رکاوٹ نہ بنے۔ زندگی میں لڑائی جھگڑا، ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملہ اور فریقِ مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے گھٹیا ہتھکنڈے استعمال کرنا تو بہت دور کی بات ہے، وہ تو ایک دوسرے کی قبروں کا بھی احترام کرتے تھے۔ جبکہ ہم اِدھر تو ائمہ مجتہدین کی تقلید و پیروی کا دم بھرتے ہیں اور اُدھر ان کے طرزِ عمل کے خلاف بھی کرتے ہیں۔ آج دنیائے کفر ’’الکفر ملۃ واحدۃ‘‘ کا منظر پیش کررہی ہے جبکہ عالمِ اسلام ’’اتفقوا علی ان لایتفقوا‘‘ کی تصویر بنا ہوا ہے۔ ایسے حالات میں امتِ مسلمہ کو اتحاد کی جتنی اب ضرورت ہے شاید کبھی نہیں تھی۔
مذکورہ بالا معروضات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور ملتِ اسلامیہ کے درمیان وہی تعلق ہے جو جسم و روح کے درمیان ہے۔ اگر آپ ﷺتشریف نہ لاتے تو آج ہم بھی العیاذباللہ کفر کے اندھیرے میں بھٹک رہے ہوتے۔ آپ ﷺ نے ہی ہمیں کونین کی ہر قسم کی سعادتوں سے نوازا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے صحیح فرمایا تھا:
نسخۂ کونین را دیباچہ اوست
جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست