پیغمبرانہ اسلوب دعوت و فکر کی رول ماڈل تحریک

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے اپنی توفیقِ خاص سے ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم اس کے محبوب ﷺ کی امت کے مختلف طبقات کی حسبِ استطاعت خدمت کرسکیں، ممکنہ حد تک ہر میدان میں اسلام اور تعلیماتِ نبوی کا علم بلند کرسکیں، حضور نبی اکرم ﷺ کے عظیم پیغام کو اگلی نسلوں تک پہنچاسکیں اور تعلیم و تربیت کے نظام کے ذریعے لوگوں کے دین و ایمان، عقائد، افکار و نظریات، اعمال، احوال، اخلاق اور معاملات و تعلقات کی جہاں تک ہوسکے بہتری کا سامان پیداکرسکیں۔

آج سے 44 سال قبل تحریک منہاج القرآن کا قیام عمل میں آیا جو آج الحمدللہ تعالیٰ ایک عالمگیر تحریک کی صورت میں موجود ہے اور اس کا وجود، کام اور اثر دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں اپنی برکات اور اثرات دکھا رہا ہے۔ اس پر میں صمیمِ قلب سے منہاج القرآن سے وابستہ دنیا بھر کے جملہ رفقاء و کارکنان کو مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی اس مساعی جمیلہ کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔

بعض لوگوں کے کام سنگل پوائنٹ ایجنڈا ہوتے ہیں یعنی اُن کی توجہ کسی ایک نقطہ پر مرکوز ہوتی ہے۔ اس صورت میں کام کرنے والے اپنی تمام تر توانائیاں ایک ہی کام پر لگادیتے ہیں۔ اس سے ان افراد کی توانائیاں اور طاقت تقسیم نہیں ہوتی اور وہ تیز رفتاری کےساتھ اپنی منزل کی جانب بڑھتے رہتے ہیں۔ آج کے دور میں اگرچہ تعلیم اور شعور کی سطح بڑھ گئی ہے مگر ابھی تک کسی بھی سنگل پوائنٹ ایجنڈے کو فروغ دینے والی تنظیم، جماعت یا تحریک کو ہمارے اس معاشرے سے ہزاروں کی تعداد میں افراد مل جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ تنظیم اور جماعت لوگوں کو انتہا پسندی اور تنگ نظری کی طرف دعوت دے اور دورِ جدید کے تقاضوں، حلیہ، زبان، سوچ اور طرزِ فکرو عمل سے انھیں الگ کرکے بھی رکھ دے تب بھی انھیں معاشرے میں سے اپنی سوچ کے مطابق افراد میسرآجاتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سنگل پوائنٹ ایجنڈا رکھنے والوں کے نعرے دل کو بھاہ جانے والے ہوتے ہیں اور یہ نوجوانوں اور عامۃ الناس میں سے ان طبیعتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں جن کی طبیعتوں میں اس نوعیت کا عنصر پہلے سے موجود ہوتا ہے۔

اس کی ایک مثال انتہا پسندانہ خیالات کو پروان چڑھانے والی تنظیمیں، جماعتیں اور انھیں ملنے والے لوگوں کی ہے۔ یہ لوگ اسلام کا تصور نہایت محدود اور تنگ نظری پر مبنی پیش کرتے ہیں اور لوگوں کی برین واشنگ انتہا پسندانہ تعبیر کے ساتھ کرتے ہیں۔ 1980ء سے لے کر آج تک انتہا پسندانہ نظریات نے عالم اسلام میں جو کچھ کیا اور جن کی وجہ سے عالمِ اسلام پر بڑی بڑی آفات آئیں، وہ وسب کے سامنے ہیں۔ اسلام دشمن عالمی طاقتیں ایسی انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والوں تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پھر ان سے عالمِ اسلام میں عدمِ استحکام کے لیے کام بھی لیا گیا اور پھر ان کو ختم بھی کیا گیا۔ حتی کہ ان میں سے کئی لوگ عالمی طاقتوں کے آلہ کار بھی بن جاتے ہیں۔

اسی طرح مذہبی انتہا پسندی میں کسی کو کافر قرار دینا اور کافر قرار دینے کے لیے وجوہات تلاش کرنا، یہ معاملات بھی 1980ء کے اوائل میں پاکستان میں کثرت سے ہوئے، جس کے نتیجے میں قتل و غارت گری ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ یہ انتہا پسندانہ فکر اور نظریہ جماعتی صورت میں ملک میں پھیلتا چلا گیا۔ ان حالات میں دشمن ممالک اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے کے لیے شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ انتہا پسندی کو مزید فروغ دینے کے لیے وسائل بھی فراہم کرتے ہیں اور اس جماعت کی فرسٹ اور سیکنڈ لائن لیڈر شپ تک رسائی رکھتے ہیں۔ اس جماعت یا تنظیم کے کارکن اپنے خلوص اور نیت کے ساتھ سنگل پوائنٹ ایجنڈے پر کام کرتے رہتے ہیں، اس لیے کہ انھیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے اوپر کے لوگ بِک چکے ہیں اور کسی بیرونی طاقت کے ایجنڈے پر ہیں۔

پیغمبرانہ دعوت کے اسلوب پر کار فرما تحریک کے لیے کام کرنا اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کی اجتماعی ذہنیت، مروجہ فرسودہ نظام اور غلط سمت بہتے دھارے کے برعکس ایک ایسی نئی دعوت اور فکرو نظریہ کے ساتھ سامنے آتی ہے جسے معاشرہ اپنے مفادات اور مصلحتوں کے سبب قبول نہیں کرتا

بتانا یہ مقصود ہے کہ کسی بھی سنگل پوائنٹ ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے بآسانی افراد مل جاتے ہیں۔ نہ صرف مذہبی انتہا پسندی کے ایجنڈے پر کاربند جماعتوں کو لوگ مل جاتے ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کو بھی لوگ مل جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی تمام تر کرپشن اور نااہلیت کے باوجود ووٹ لیتے ہیں۔ اچھے اور برے کی تمیز نہ کرنے والے افراد معاشرے میں کثیر تعداد میں موجود ہیں، تبھی تو یہ جماعتیں قائم ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ جماعتیں بکھر کر ختم ہوگئی ہوتیں۔جن لوگوں کا کردار پڑھے لکھے لوگوں کی نظر میں گالی سمجھا جاتا ہے، وہ بھی الیکشن کے نتیجے میں بھاری اکثریت سے ووٹ لے کر اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں۔ دھن، دھونس اور دھاندلی کے عوامل بھی انتخابات میں کارفرما ہوتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کے حلقۂ انتخاب میں ایک بڑی اکثریت اُن کے چاہنے والوں کی بھی ہوتی ہے جو انھیں ووٹ دیتی ہے اور اُن کے لیے بھاگ دوڑ کرتی نظر آتی ہے۔

گویا معاشرے میں ایسے لوگ بکثرت موجود ہیں جو ان سیاسی جماعتوں کی مکمل ناکامی اور ملک وقوم کو سوائے کرپشن کے کچھ نہ دینے کے باوجود بھی ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ملک کی مجموعی صورتحال مایوس کن ہے، لوگ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو گالیاں دیتے ہیں مگر جب انتخابات کا وقت آتا ہے تو پھر عوام کا یہی ایک بڑا طبقہ ان کو ووٹ بھی دیتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ جماعتیں اقتدار میں آتی رہتی ہیں۔

سنگل پوائنٹ ایجنڈے میں لوگوں کے مختلف قسم کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے اور پھر لوگ اس میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاًپاکستان میں پچھلے دس سال میں مختلف نعرے لگے جو مذہبی حوالے سے بڑے پرکشش تھے۔اس پر لوگ میدان میں نکل آتے ہیں، دینی غیرت کو ابھارا جاتا ہے، کبھی عشقِ رسول کے نام پر، کبھی ناموس رسالت کے نام پر، کبھی اسلام کے نام پر اور کبھی قرآن کے نام پر۔الغرض لوگ مختلف اچھی اصطلاحات اور اچھے عنوانات کا غلط استعمال اور استحصال (exploitation) کرتے ہیں اور دین کو گلیوں میں لے کر نکل آتے ہیں پھر چلتے چلتے یہی لوگ ایک مذہبی تحریک بنالیتے ہیں۔

انتہا پسندانہ طبقات اور محض جذباتی نعروں پر قائم مذہبی و سیاسی جماعتوں کو عامۃ الناس سے تائید و حمایت کے مل جانے کا سبب بنیادی طور پر اس شعور کی کمی کی علامت ہے جس کے ذریعے اچھے اور برے میں امتیاز برتا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی علمی شعوری سطح بہت نیچے ہے۔ علمی شعوری سطح سے مراد شرح خواندگی نہیں، اس لیے کہ اس اعتبار سے تو ہر وہ شخص جو اپنا نام لکھ اور پڑھ سکے، وہ پڑھا لکھا تصور ہوتا ہے لیکن اسے شعور نہیں کہا جاسکتا۔ شعور یہ ہے کہ جہاں اچھے و برے، جائز و ناجائز، صحیح اور غلط کی تمیز ہوسکے۔۔۔ جہاں نظریہ کی تشخیص ہوسکے۔۔۔ جہاں دین اور کردار کی صحیح تعبیر ہوسکے۔۔۔ شخصیت اور سوچ و افکار میں اعتدال اور توازن موجود ہو۔

جب معاشرے میں اس پیمانے پر شعور کی سطح جاننا چاہیں تو وہ لوگ جن تک ہم اپنا پیغام پہنچانا چاہ رہے ہیں، اُن کی تعداد مزید کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس لیے کہ اُن کی اور ہماری wave length مختلف ہوجاتی ہے۔ جن لوگوں نے سنگل، جذباتی، لاشعوری اور انتہا پسندانہ نعروں سے راغب ہونا تھا، وہ لوگ ہماری شعوری چیزوں سے راغب نہیں ہوں گےاور ہماری باتیں اُن کے عقلی اور دماغی سانچے (frame of mind) میں نہیں بیٹھیں گی۔

یہ اسی طرح ہے کہ جس طرح معاشرے میں نیک، صالح، صاحبِ کردار اور پڑھے لکھے شخص کو الیکشن پر کھڑا کردیں تو اسے چند سو ووٹ بھی نہیں ملتے۔ اس لیے کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تھانے، کچہری کا کام نہیں کرواسکتا۔ یعنی لوگوں کا ایک مائنڈ سیٹ ہے، اس سے اوپر اُن کی سوچ ہی نہیں جاتی۔ ان کی ذہنی سطح ہی اتنی بلند نہیں ہے کہ وہ یہ سوچ سکیں کہ جسے ہم نے اپنے ووٹوں سے پارلیمنٹ کا ممبر بنانا ہے وہ قانون سازی کرے گا اور ملک کی تقدیر بدلے گا۔ یہ ووٹر اور اُن کے نمائندے ایک ہی طرح کی ذہنی ساخت رکھتے ہیں۔ نتیجتاً پڑھے لکھے لوگ ہمیشہ شکست کھاتے ہیں اور یہ روّیہ سیاسی، سماجی اور مذہبی زندگی میں اسی طرح ہے۔

یہ انسانی نفسیات ہے کہ جس شعبہ زندگی میں جذبات کا عمل دخل زیادہ ہوگا، وہاں exploitation کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں اور جہاں جذبات کے بجائے نظریہ، علم اور فکری و تحقیقی تجزیہ کا اثر زیادہ ہوگا وہاں جذباتی نعرے کم اثر انداز ہوتے ہیں۔

پس سنگل پوائنٹ ایجنڈے پر کاربند تحریکوں، جماعتوں اور تنظیموں کا کام مشکل نہیں ہے، انھیں افرادی قوت کا میسر آجانا اور عامۃ الناس میں پذیرائی مل جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، اس لیے کہ وہ لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے انھیں اپنے من پسند مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ معاشرے میں مشکل اُن لوگوں کو ہوتی ہے جو کسی بھی دور میں دین کے پیغمبرانہ تصور کو لے کر اٹھتے ہیں اور دین کا احیاء کرنا چاہتے ہیں۔

ہر پیغمبر اور نبی کا کام مشکل تھا۔ اس لیے کہ معاشرے کا جو دھارا اور سمت چل رہی ہوتی ، جس میں معاشرے کے سبھی لوگ بہہ رہے ہوتے تو پیغمبر معاشرے کے اس دھارے کے برعکس دعوت، فکر اور نظریہ کے ساتھ آتا ہے تو موجودہ ذہنی سانچوں میں اُن کی بات بیٹھتی ہی نہیں ہے۔اخلاقی برائیاں ہوں یا سماجی و اعتقادی برائیاں، شرک ہو یا جہالت، رسم و رواج اور معاشرے کی روایت ہو یا ظلم وجہالت، مذہبی اجارہ داری ہو، جسے لوگوں نے تسلیم کیا ہوتا ہے یا ذہنی غلامی کہ لوگ اپنی آزادی کا سوچ ہی نہیں سکتے اور بعض چیزوں کو اپنے لیے ناممکن سمجھتے ہیں، لوگوں نے ان کے ساتھ بہ دل نخواستہ سمجھوتہ کررکھا ہوتا ہے، پیغمبر اِن میں سے کسی کے ساتھ نہیں چلتا۔

آقا علیہ السلام جب دعوتِ اسلام لے کر تشریف لائے تو کفار مکہ ابوجہل، ابولہب، امیہ بن خلف اور دیگر کے ذہنی سانچوں میں وہ بات بیٹھتی ہی نہ تھی۔ یہاں تک کہ اُن کے غلاموں کے ذہنی سانچوں میں بھی نہیں بیٹھتی تھی۔ان غلاموں کا بھی ظلم سہہ سہہ کر ایک ذہنی سانچہ بن گیا تھا، وہ اس ماحول میں اتنے ایڈجسٹ ہوگئے تھے کہ نبی و رسول کی بات اُن کے ذہنی سانچے میں بیٹھتی ہی نہ تھی۔ اس لیے کہ ایک طرف انتہا پسندی ہے اور دوسری طرف نبی و رسول کا دیا ہوا نظریہ ہے جس میں عقل، شعور، جذبات، اطاعت، حریت ، اقتدار، آزادی، انسانی اقدار، مساوات، توازن و اعتدال، تکریم انسانیت اور رسوم و رواج کو توڑنا ہے، یہ ساری چیزیں اس سماج کے بہاؤ کے خلاف ہوتی ہیں۔

نبی اور رسول کے بعد امت میں بھی ہر صدی اور ہر دور میں یہی چیز ہوتی چلی آئی ہے اور ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص، ایک جماعت یا ایک تحریک اس پیغمبرانہ دعوت کو لے کر اٹھتی ہے تو اسے بھی اسی قسم کے ردِعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حقیقی پیغمبرانہ دعوت کیا ہے؟

اس موقع پر ’’پیغمبرانہ دعوت‘‘ کا حقیقی مفہوم سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ آج ہر وہ شخص اور تنظیم یا جماعت جو دین کی دعوت اور تعلیمات کے فروغ کا کام کررہا ہے، وہ اپنے کام کو پیغمبرانہ دعوت سے تعبیر کررہی ہے۔ اس کے کام پر پیغمبرانہ دعوت کے عنوان کا اطلاق کرنا جزوی طور پر جائز ہے یعنی جو شخص یا جماعت بھی اللہ کے دین کی دعوت آگے پہنچارہی ہے، وہ جزوی طور پر پیغمبرانہ دعوت کا ایک حصہ ہے مگر جب اس کی دعوت اور کام کا تجزیہ کیا جائے گا تو پھر معلوم ہوگا کہ وہ حقیقی ’’پیغمبرانہ دعوت‘‘ کے مشن پر کاربند ہے یا نہیں؟ اس کے لیے دیکھنا ہوگا کہ اس دعوت کا مزاج کیا ہے۔۔۔؟ اس دعوت کے اندر اعتدال و توازن کس قدر ہے۔۔۔؟ اس دعوت کی فکری اور نظریاتی اساس کیا ہے۔۔۔؟ جب اس طرح اس شخص یا جماعت کی دعوت کو پرکھتے چلے جاتے ہیں تو حقیقی پیغمبرانہ دعوت اور اس شخص یا جماعت کی دعوت میں زمین و آسمان کا فرق آجاتا ہے۔

نماز، روزہ اور نیکیوں کی طرف دعوت دینا بلاشبہ پیغمبرانہ دعوت ہے مگر یہ جزوی سطح پر ہے مگر جب اس دعوت کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں تو وہی دعوت حقیقی معنی میں پیغمبرانہ دعوت کہلائے گی کہ جس دعوتِ دین میں قدیم اقدار کو بھی برقرار رکھا جائے اور جدید دور کے معیار پر بھی پورا اترا جائے۔ ۔۔اس دعوت سے موجودہ نئی نسل بھی متنفر نہ ہو۔۔۔ اس دعوت کے نتیجے میں اسلام نئے زمانے کے دین کے طور پر بھی لوگوں کے سامنے آئے۔۔۔ اس دعوت میں تسلسل بھی ہو اور تجدید بھی ہو۔۔۔ اس دعوت میں دین کی اصل روح کو بھی فراموش نہ کیا جائے۔۔۔ وہ دعوت اعتدال و توازن پر قائم ہو۔۔۔ وہ دعوت حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی طرف بلانےو الی ہو۔۔۔ جس دور میں دعوت دے رہے ہیں، پیغمبرانہ دعوت دینےو الی تحریک اور جماعت کو اس دور کے تقاضے اور نفسیات بھی معلوم ہو۔۔۔ اس جماعت کو اس دور کی انفرادی و اجتماعی ذہنی سطح کا علم ہو۔۔۔ بین الاقوامی حملوں، فتنوں، مشکلات، چیلنجز کا بھی ادراک ہو۔

اسی طرح پیغمبرانہ دعوت کی تحریک جب دین کی دعوت دے رہی ہو اور دین کے ماڈل اور نظریہ کو پیش کررہی ہو تو اس دعوت میں حضور نبی اکرم ﷺ، صحابہ و اہل بیت اطہار اور سلف صالحین اور اولیاء کے دور کا امر بالمعروف کا حسن وجمال بھی برقرار رہے۔۔۔ اور نہی عن المنکر کا جاہ و جلال بھی اس میں برقرار رہے۔۔۔ اس دعوت میں کسی بھی مرحلہ میں انتہا پسندی نہ ہو۔۔۔ اس vision میں مسلم و غیر مسلم، مرد و عورت، بچہ و بوڑھا ہر کوئی سماسکے اور جگہ پاسکے۔۔۔ اس دعوت میں سماجی، معاشرتی، سیاسی، فلسفیانہ، سائنسی، فکری، تربیتی ہر اس پہلو کو لیا جارہا ہو جس کی زمانے کو ضرورت ہے۔۔۔جس میں مخاطب کے دماغ، دل، روح، جذبات، گھریلو، کاروباری، معاشرتی اور مذہبی ضروریات کو اعتدال و توازن کے ساتھ مخاطب کیا جارہا ہو۔ جب کوئی تحریک یا جماعت ایسا vision لے کر آئے تو اس کو من حیث الکل پیغمبرانہ vision اور پیغمبرانہ دعوت کہا جاتا ہے۔

ہر چیز کو توازن کے ساتھ لے کر چلنا مشکل ترین کام ہے چونکہ اس میں انسان وہ کیفیت پیدا نہیں کرسکتا جو سنگل پوائنٹ ایجندے پر برین واش کرکے پیدا کرسکتے ہیں۔ سنگل پوائنٹ ایجنڈے پر لوگوں کو نابینا بنایا جاتا ہے جبکہ اعتدال و توازن پر قائم پیغمبرانہ دعوت نابینا کو بینا کرتی اور اس کی آنکھیں کھولتی ہے۔ اس طرح کے vision سے متاثر ہونے والے بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ معاشرے میں حقیقی شعوری سطح جتنی کم ہوتی چلی جاتی ہے، اتنا اس دعوت سے متاثر ہونےو الوں کی کی تعداد بھی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔

پندرھویں صدی ہجری اور تجدید و احیاء دین

آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ اب قیامت تک عالمِ انسانیت کے پاس کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا اور قیامت تک اب حضور علیہ السلام ہی کی نبوت و رسالت رائج ہے۔ نبوت و رسالت کے سلسلے کے ختم ہوجانے کے بعد رشد و ہدایت کے نظام کو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی امت میں سلسلۂ تجدید کے ساتھ replace کردیا۔ اب حدیث مبارک کے مطابق ہر زمانے میں امت کے اندر سے ہر صدی کے شروع میں اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو تجدیدِ دین کرے گا۔ اس طرح دین کی تعلیمات کی قرن در قرن، زمانہ در زمانہ، نسل در نسل، صدی در صدی یاددہانی ہوتی رہے گی اور اس طرح ہر دور میں دین زندہ ہوتا رہے گا۔

تجدیدِ دین کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ دوسری قوتیں خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی و معاشرتی، میڈیا کی طاقت ہو یا سیکولر طبقات ، ہر ایک اپنے اپنے مفادات کے لیے تعلیمات ِ اسلام اور دین کی فکر کو بگاڑنے میں مصروفِ عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر چیز روبہ زوال ہے اور اخلاق، کردار، اقدار، حیا الغرض ہر معاملہ تباہی کی طرف گامزن ہے۔ دین پر حملے بھی شدید سے شدید تر ہیں اور ہر روز نئے فتنے بھی جنم لے رہے ہیں۔

گویا خرابی اور تباہی ہر روز اسی طرح بڑھتی جارہی ہے جس طرح سابقہ ادوار میں اس طرح کی خرابی و تباہی پھیلتی تھی تو اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں کوئی نبی اور رسول مبعوث فرماتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ چونکہ آپ ﷺ کے بعد اب کسی نبی اور رسول نے نہیں آنا تو اس موجودہ شر اور خرابی کو کیسے روکا جائے۔۔۔؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نبوت و رسالت کے سلسلہ کو ختم کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے خیر کے چشمے بند نہیں کیے بلکہ آپ ﷺ کی امت ہی کے بعض طبقات کو شر کو روکنے، خیر وبھلائی کو پھیلانے اور دین کی مٹتی ہوئی اقدار کو زندہ کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ یہ پیغمبرانہ ذمہ داری ہے جو غیر انبیاء یعنی امتیوں کو پیغمبرانہ ذمہ داریوں کو جاری رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔

انتہا پسندانہ طبقات اور محض جذباتی نعروں پر قائم مذہبی و سیاسی جماعتوں کو عامۃ الناس سے تائید و حمایت کے مل جانے کا سبب بنیادی طور پر اس شعور کی کمی کی علامت ہے جس کے ذریعے اچھے اور برے میں امتیاز برتا جاتا ہے

اللہ تعالیٰ نے باقاعدہ اس کا نظام وضع فرمایا ہے۔ چھوٹی سطح پر اصلاح کا عمل تو تسلسل کےساتھ جاری و ساری رہتا ہے مگر بڑی خرابیوں کے تدارک کے لیے اور اجتماعی سطح پر اصلاح کے عمل کے لیے ہر صدی کے آغاز پر مجدد کو مبعوث کرنے کا نظام وضع فرمایا گیا ہے۔ اصلاح کے کام بہت سے لوگ کررہے ہوتے ہیں مگر تجدید کا کام سو سال کے بعد نصیب ہوتا ہے۔تجدید دین کے لیے ایک صدی کا تعین اس لیے فرمایا گیا کہ تصورات، عقائد، خیالات، افکار، نظریات، اخلاق اور اعمال میں 100 سال میں وسیع پیمانے پر اتنی بڑی تبدیلی آچکی ہوتی ہے کہ پھر اصلاحی کام سے بڑھ کر ایک عظیم تجدیدی کام کی ضرورت پڑتی ہے۔

الحمدللہ تعالیٰ اس زمانے میں تجدید کا منصب اور ذمہ داری منہاج القرآن کے سپرد ہے اور اللہ تعالیٰ نے رفقاء و کارکنان تحریک منہاج القرآن کو یہ نعمت عطا فرمائی ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت اس تحریک کو روک سکتی ہے اور نہ ختم کرسکتی ہے۔ اس تحریک نے کم و بیش 60 سال مزید چلنا ہے۔ اس لیے کہ اب یہ ذمہ داری اگلی صدی میں اللہ تعالیٰ کے نظام کے مطابق کسی کے سپرد ہونی ہے۔

آج ہم الحمدللہ اپنا 44 واں یوم تاسیس منارہے ہیں۔ دنیا گواہ ہے کہ گزشتہ 44 سال میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جہاں تحریک کے علمی، فکری، اصلاحی اور تجدیدی کاموں کا گراف نیچے آیا ہو بلکہ روز اول سے ہر آن و لمحہ اس کی تجدیدی و احیائی سرگرمیوں کا گراف ہمیشہ بلند سے بلند تر ہوتا رہا اور ہر طرح کی سازشوں، ہتھکنڈوں اور منفی پروپیگنڈوں حتی کہ ریاستی دہشت گردی کے ذریعے رفقاء و کارکنان کو شہید کرنے کے باوجود ہمیں کوئی جھکا نہیں سکا۔

تحریک منہاج القرآن اس حقیقی پیغمبرانہ دعوت کے اسلوب پر قائم وہ تحریک ہے جو گزشتہ 44 سال سے تجدید دین اور احیائے اسلام کے اس مصطفوی اور پیغمبرانہ دعوت کے مشن پر عمل پیرا ہے۔ تجدیدِ دین کا یہ کام اس قدر ہمہ جہتی ہے کہ اس کے اندر، دین کا علم، فکر، فہم، ظاہر وباطن کی معرفت، علوم و فنون کا فروغ، اصلاح، رائج الوقت نظام کی خرابیوں کی نشاندہی اور ان کی اصلاح کے لیے لائحہ عمل دینا سب شامل ہے۔

اس تحریک سے وابستہ تمام لوگ جہاں بھی ہیں اور اس تحریک کی خوشبوکو پھیلا رہے ہیں، اس کے پیغام کو فروغ دے رہے ہیں، شب و روز اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں اس کے لیے صرف کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ہر عمل، ہر قدم اور ہر کاوش کو قبول فرمائے اور دنیا و آخرت کے بے حساب اجر اور برکت و سعادت سےنوازے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ