شریعت سے طریقت تک کا سفر

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَّاَنْ لَّوِاسْتَقَامُوْا عَلَی الطَّرِیْقَۃِ لَاَسْقَیْنٰهُمْ مَّآءً غَدَقًا.

(الجن،72: 16)

’’اور یہ (وحی بھی میرے پاس آئی ہے) کہ اگر وہ طریقت (راہِ حق، طریقِ ذِکرِ اِلٰہی) پر قائم رہتے تو ہم انہیں بہت سے پانی کے ساتھ سیراب کرتے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے دو پہلوؤں کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے:

1۔ جہتِ استقامت

2۔ جہتِ طریقت

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان پہلوؤں کے نتیجے میں اپنی بارگاہ کی طرف سے ملنے رحمت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر وہ طریقت پر گامزن رہتے تو ہم انہیں اپنی بارگاہ سے کثرت کے ساتھ رحمت، برکت، انعام و اکرام اور اپنے فضل کی شکل میں اتنا کچھ عطا کردیتے کہ ان کی توقع سے زیادہ ان کے من کی وادی سیراب ہوتی رہتی۔

طریقت کیا ہے؟ آیئے اس حوالے سے ائمہ اور صوفیا کے بعض اقوال کا مطالعہ کرتے ہیں:

  • ابن العابدین شامی سے طریقت، شریعت اور حقیقت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

الطریقۃ سلوک طریق الشریعه والشریعۃ اعمال شریعۃ محدودۃ. وھما والحقیقۃ ثلاثۃ متلازمۃ.

طریقت سے مراد شریعت کے راستے پر چلنا ہے جبکہ وہ متعین اعمال اور احکامات جن سے حلال اور حرام ثابت ہوتے ہیں، ان احکامات پر استقامت کے ساتھ چلتے رہنے کا نام شریعت ہے۔ پھر فرمایا:

شریعت، طریقت اور حقیقت یہ تینوں باہم لازم و ملزوم ہیں۔گویا شریعت اور طریقت کی نعمتوں کو اکٹھا کرلیا جائے تو اس سے حقیقت کا چشمہ پھوٹتا ہے۔ پھر فرمایا:

لان طریقۃ الیه تعالیٰ ظاهرٌ و باطن فظاهرھا الطریقۃ و باطنھا الحقیقه.

(ابن عابدین شامی،ردالمختار علی الدرمختار، 1: 150)

طریقت ایک ایسا راستہ ہے جس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ طریقت کا ظاہری راستہ اللہ رب العزت کی معرفت اور اس کی شریعت کی طرف لے جاتا ہے، اس کے احکامات اور اوامر و نواہی کی خبر دیتا ہے، اس کے نظام کے تابع ہونے کا طریقہ سکھاتا ہے، اس کی رضا جوئی میں حلال و حرام کے دائرے میں رہ کر زندگی بسر کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے جبکہ طریقت کا باطن حقیقت ہے۔

معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اور حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات جن سے احکاماتِ شریعت اخذ ہوتے ہیں، اس راستے کو طریقت، شریعت اور حقیقت کہتے ہیں۔

  • سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ سے طریقت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

من تفقه ولم یتصوف فقد تفسق ومن تصوف ولم یتفقه فقد تزندق ومن جمع بینھما فقد تحقق.

(مرقاۃ المفاتیح، ملا علی قاری، 1: 478)

جس نے تفقہ فی الدین تو حاصل کرلیا لیکن وہ متصوف نہ ہوسکا اور تصوف کی کیفیت، ماہیت اور تصوف کے دائرہ کار کو نہ سمجھ سکا اور نہ اپنی طبیعت میں اسے شامل کرسکا تو وہ فسق و فجور کے راستے پر چل پڑا اور جس نے صرف تصوف کا دامن تھاما اور تفقہ کو چھوڑ دیا وہ زندیق ہوگیا اورجس نے ان دونوں کے دامن کو اکٹھے تھامے رکھا اور انہیں اپنی ذات میں جمع کرلیا تو وہ حقیقت تک پہنچ گیا۔

معلوم ہوا کہ طریقت سے ہی تصوف اخذ ہوتا ہے اور طریقت کے راستے پر استقامت کے ساتھ چلتے رہنے سے ہی تصوف کا دروازہ کھلتا ہے۔

قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں بھی اسی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ جس نے طریقت پر استقامت اختیار کیے ہوئے شریعت کا دامن بھی تھامے رکھا، اسلام کے ظاہری اصول پر بھی عمل پیرا ہوتا رہا اور اسلام کے پنہاں اور پوشیدہ پہلوؤں پر بھی عمل پیرا ہوتا رہا، اپنے ظاہر کو بھی شریعتِ محمدی ﷺ کے مطابق اور اس کی متابعت میں سنوارتا رہا ، حرام سے بچتا رہا،حلال پر عمل پیرا رہا، متشابہات سے بھی اجتناب کرتا رہا، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو بجا لانے میں اپنی زندگی بسر کرتا رہا اور اپنی زندگی کو تقویٰ و طہارت پر چلاتا رہا۔ المختصر یہ کہ سیرت نبوی ﷺ کے مطابق اپنی زندگی کے معاملات کو استقامت کے ساتھ اسی طرح چلاتا رہا کہ اس کے قدم متزلزل ہونے سے بھی بچے رہے بلکہ کسی شائبہ کا شکار ہونے سے بھی محفوظ رہے اور وہ اپنی طبیعت اور مزاج میں اس طرح کی جامعیت لے آیا تو اس پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور انوار و تجلیات اس طرح برسائیں گے کہ جیسے موسلا دھار بارش برستی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کی یہ بارش اس کے مردہ اور بنجر دل کی وادی کو زندگی عطا کرتی چلی جائے گی۔

بغیر رہبر و رہنما راہِ طریقت پر چلنا ناممکن ہے

طریقت کے رستے پر چلنے کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہے کیونکہ طریقت کی منزل تک بغیر رہنمائی کے کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اگر شریعت کی بات کریں تو شریعت کے رستے پر چلنے کے لیے بھی نگرانی اور رہنمائی چاہیے، استاداور شیخ چاہیے۔ جس طرح دنیوی علوم کے لیے ایک نظام وضع کردیا گیا ہے کہ اس میں حسبِ ترتیب پرائمری، مڈل، میٹرک، انٹرمیڈیٹ،گریجوایشن، ماسٹرز، ایم فل اور Ph.D کی ڈگری حاصل کرسکتے ہیں، اسی طرح تمام شعبوں میں سپیشلائزیشن کا طریقہ کا روضع ہے، ان ڈگریوں کو حاصل کرنے اور اسپیشلائزیشن کرنے کے لیے باقاعدہ ادارے اور اساتذہ ہیں، جن کی رہنمائی کے بغیر یہ مراحل عبور کرنا ناممکن ہے۔ اسی طرح راہِ شریعت اور راہِ طریقت پر چلنے کے لیے بھی رہنمائی اشد ضروری ہے۔ شریعت کے مختلف علوم میں متخصص بننے کے لیے ایک رہنما، شیخ اور استاد ناگزیر ہے جو شریعت کے تمام امور کے متعلق طالب علم کو ہدایات سے نوازتا ہے۔ اسی طرح طریقت کے رستے پر چلنے کے لیے بھی باقاعدہ ایک نظم میں کسی شیخ، مربی اور مرشد کی رہنمائی کے ساتھ مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔

جس طرح حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ اور تعلیمات سے دنیوی اور شرعی علوم کا آغاز ہوا، اسی طرح طریقت اور تصوف کاآغاز بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ سے ہوا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍ.

(آل عمران،3: 164)

’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (a) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘

یتلوا علیھم آیاتہ (وہ ان پر میری آیات تلاوت کرتے ہیں) اس سے علوم القرآن، علم القرأۃ اور فن قرأت کے شعبہ کا آغاز ہورہا ہے کہ آپ ﷺ تلاوتِ قرآن کے ذریعے امت کو فیض یاب کررہے ہیں، ہر آیت کے اندر پوشیدہ اسرار و رموز کی کیفیات بھی عطا کررہے ہیں، ہر آیت کریمہ کے ظاہر اور باطن کا بھی فیض دے رہے ہیں، احکامات اور اوامر ونواہی سے بھی آگاہ کر رہے ہیں اور شریعت اور حقیقت کے اسرار و حکم سے بھی مستنیر کرر ہے ہیں۔

ویزکیہم کے مقصدِ بعثت سے تزکیہ و تصفیہ اور تصوف و روحانیت کی تعلیم دینے اور اس علم کی بنیاد رکھنے کی طرف اشارہ ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جہاں ہمیں دیگر علوم کی طرف توجہ دینے اور انھیں سیکھنے کے لیے باقاعدہ ایک نظم اور طریقہ کار کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ہمیں تزکیہ کی طرف بھی متوجہ ہونے اور اسے بھی ایک طریقہ کار کے مطابق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں خود بہ خود تصوف کی سمجھ آجائے گی اور تزکیہ و تصوف بھی by default ہمیں مل جائے گا، ایسا نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن فرمارہا ہے کہ ویزکیہم حضور نبی اکرم ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا تزکیہ کرتے ہیں یعنی تمھارے باطن کو سنوارتے ہیں اور تمھارے اندر موجود کدورتوں، کینہ پروری، رزائل اور بری خصلتوں کو نکالتے چلے جاتے ہیں اور اچھی خصلتوں کو منتقل کرتےچلے جاتے ہیں۔ آپ ﷺ اخلاق سیئہ کو اکھاڑتے چلے جاتے ہیں اور دل کی وادی میں اخلاقِ حسنہ کے پھول اگاتے چلے جاتے ہیں۔ گویا آپ ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا تزکیہ فرمانے کے لیے باقاعدہ اہتمام کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح دیگر علوم سیکھنے کے لیے اساتذہ، شیوخ، متخصصین اور محققین کی ضرورت ہے، اسی طرح تصوف کو سمجھنے، روحانیت کی راہ پر چلنے، قلب و روح کی کیفیات کو سمجھنے، باطنی احوال سے باخبر ہونے، وادیٔ زہد کا مسافر بننے اور تصفیہ و تزکیہ کے اسرار و حکم سے آگاہ ہونے اور انہیں اپنے وجود کا حصہ بنانے کے لیے بھی کسی شیخ و مربی اور متخصص کی ضرورت ہے۔

اولیاء اللہ زمین پر اللہ کے برتن ہیں

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

ان لِلّٰہ آنیۃ من اھل الارض.

(مسند الشامیین، الطبرانی، 2، 19: 840)

بلاشبہ اہلِ زمین سے بھی اللہ کے برتن ہوتے ہیں۔

ہمارے پاس بھی دنیا میں برتن ہیں جن کا حال یہ ہے کہ ایک وقت اگر ان میں کھانا کھالیں تو دوسری بار دھوئے بغیر اس میں کھانا نہیں ڈالتے۔ اس لیے کہ کھانا کھانے کے بعد اگر کچھ وقت کے لیے برتن چھوڑ دیا جائے تو اس برتن میں بیکٹیریا اور جراثیم پھیل جاتے ہیں اور اگر برتن کو دھولیا جائے تو وہ جراثیم سے پاک ہوجاتا ہے۔ پس جب ہم گندے برتن میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ڈالتے تو اللہ رب العزت کس طرح لغزشوں، گناہوں، نافرمانیوں سے لت پت ہمارے قلوب میں اپنا نور ڈالے گا۔ دل کی صفائی؛ تزکیہ، تصفیہ اور تقویٰ و طہارت سے ہوتی ہے۔

پوچھا گیا کہ یارسول اللہ ﷺ اللہ کے برتن ہم سے بھی ہوتے ہیں؟ فرمایا: ہاں! اہل زمین کے ہاں بھی اللہ کے برتن ہوتے ہیں: آنیۃ ربکم قلوب عبادہ الصالحین۔

درحقیقت اللہ کے صالحین اور تقویٰ شعار متقی لوگوں کے دل اللہ کے برتن ہوتے ہیں۔ یعنی ہم دنیوی پکوان بناکر اپنے برتنوں میں ڈالتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ عالمِ ارواح کی خوراک اپنے اولیاء کے دلوں میں ڈالتا ہے۔ پھر فرمایا:

واحبھا الیہ الینھا وارقھا.

اس میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ برتن جس سے اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے، وہ سب سے زیادہ نرم اور شفقت والا دل ہے۔

معلوم ہوا کہ جو اللہ کے پیارے بندے ہوتے ہیں وہ نرم دل اور شفیق ہوتے ہیں، وہ رقت اور آہ و بکاء والے ہوتے ہیں، ان کی دکان میں سختی والا سودا ہوتا ہی نہیں۔ جن دلوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنا برتن بنایا ہو، اس میں سختی اور تنگی آہی نہیں سکتی، اس لیے کہ اس میں تو نور ہی نور ہوتا ہے اور نور والوں کی تعریف یہ ہے کہ وہ نرم، کریم، لطیف اور ہمیشہ مسکراہٹ والے ہوتے ہیں۔وہ چلتے پھرتے پیکرِ نور دکھائی دیتے ہیں:

وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ.

(الانعام،6: 122)

’’ہم نے اس کے لیے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لیے) چلتا ہے۔‘‘

ہمارا روزمرہ زندگی کا مشاہدہ ہے کہ ہر ایک کے پاس وہی چیز ہوتی ہے جس میں وہ صبح و شام رہتا اور جس چیز کی خریدوفروخت کرتا ہے۔ کسی کریانہ سٹور سے میڈیسن نہیں مل سکتی اور کسی قصاب کی دکان سے ہم کپڑے اور جوتے طلب نہیں کرسکتے۔ اسی طرح اگر نور کی طلب ہے تو یہ اُن ہی کے پاس سے ملے گا جن کے برتنوں میں صبح و شام اللہ کی بارگاہ سے نور نازل ہوتا رہتا ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اتقوا فراسۃ المومن انہ ینظر بنوراللہ.

(سنن الترمذی، کتاب تفسیر القرآن، 5: 298، رقم: 3127)

مومن کی فراست سے بچا کرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ یعنی مومن اسی شے سے دیکھتا ہے جو اس کے برتن (دل) میں موجود ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ان اللہ رفیق یحب الرفق ویعطی علی الرفق مالا یعطی علی العنف ومالا یعطی علی ماسواہ.

(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الرفق)

’’بے شک اللہ تعالیٰ بہت نرم اور لطیف ہے اور وہ نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر وہ جو کچھ دیتا ہے، وہ سختی پر اور دیگر اشیا پر کبھی نہیں دیتا۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ اولیاء و صلحاء ہمیشہ لطیف، کریم ، نرم دل اور آسانیاں اور محبتیں بانٹنےو الے ہوتے ہیں۔ وہ کبھی کسی کو بددعا بھی نہیں دیتے۔ اس لیے کہ وہ زمین پر اللہ کے برتن ہوتے ہیں جو اللہ کے نور سے معمور ہوتے ہیں۔ ان برتنوں میں دوسروں کے لیے بددعا، نفرت اور حقارت ہوتی ہی نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ نرم دلی،محبت، رحمت، آسانی اور تحمل و برداشت کے پکوان ہوتے ہیں جنھیں وہ ہر ایک میں تقسیم کرتے رہے ہیں۔

ایک اللہ والے اپنے مریدین کے ہمراہ کشتی میں سفر کررہے تھے۔ اس کشتی میں نوجوانوں کا ایک گروہ بھی موجود تھا جو لہوو لعب میں مصروف تھا اور خوب شورو غل مچارکھا تھا۔ مریدین سے برداشت نہ ہوا کہ انھیں ہمارے مرشد کی موجودگی کا حیا نہیں، چنانچہ انھوں نے عرض کی کہ حضرت آپ ان کے لیے بددعا کریں۔ آپ نے ہاتھ اٹھائے اور ان نوجوانوں کے لیے بددعا کرنے کے بجائے فرمایا: اے مولا! جس طرح تو نے انھیں یہاں خوش رکھا ہے، آخرت میں بھی خوش رکھے۔

مریدین کہنے لگے کہ آپ نے بددعا کے بجائے دعا کیوں دی؟ فرمایا کہ میرے برتن میں تو بس یہی کچھ ہے، جو میرے پاس تھا، میں نے وہی دینا تھا۔ میں نے ان کے لیے یہ دعا اس لیے کی کہ آخرت میں وہی خوش ہوگا جو یہاں اس کا فرمانبردار ہوگا۔ بس میں نے اُن کے لیے اس دنیا میں اللہ کے فرمانبردار بن جانے کی دعا کی ہے۔

قرآن مجید ان رقیق القلب لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا.

(الفرقان،25: 63)

’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں۔‘‘

اولیاء و صلحاء دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی کرنے والے ہوتے ہیں

صوفی اور غیر صوفی میں فرق یہ ہے کہ غیر صوفی وہ ہے جسے نظر آجائے تو وہ چھپا نہیں سکتا اور بیان کردیتا ہے جبکہ صوفی وہ ہے کہ اگر کچھ دیکھ بھی رہا ہو تب بھی آنکھیں ایسے بند کرتا ہے کہ جیسے نظر ہی نہیں آیا۔ غیر صوفی کا ہاضمہ کمزور ہوتا ہے۔ جس کا ہاضمہ کمزور ہو، وہ صوفی نہیں ہوتا۔صوفیاء ہمیشہ مذکورہ آیت کی روشنی میں احتیاط کے ساتھ قدم رکھتے ہیں کہ کہیں میرے وجود سے کسی کو کوئی نقصان نہ ہو، کسی کا حق نہ مارا جائے اورکسی کا عیب اور برائی بیان نہ کروں۔ ان کی نظر اللہ کی ذات پر ہوتی ہے کہ وہ ستار العیوب ہے تو میں بھی اس کی اس صفت کا پرتو بن کر اس کے حکم پر عمل کروں، لہذا وہ اپنی زندگی دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی کے لیے وقف کردیتا ہے۔

کبار اولیاء میں سے حضرت سیدنا حاتم کا لقب ’’الاصم‘‘ تھا۔ اصم کا مطلب ’’بہرہ‘‘ ہے۔ آپ درحقیقت بہرے نہیں تھے مگر پردہ پوشی کے سبب خود ساختہ بہرے بن گئے تھے اور پھر اسی وصف کے سبب ولایت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوگئے۔ اُن کے اس لقب کی وجہ یہ تھی کہ ایک دفعہ آپ کی مجلس میں ایک خاتون حاضر ہوئی پیٹ میں خرابی کے سبب اس کی ہوا خارج ہوگئی۔ عورت بڑی شرمندہ ہوئی کہ حضرت کی موجودگی میں ایسا ہوگیا۔ حضرت حاتمؒ نے جب یہ صورتِ حال دیکھی تو اس خاتون کو شرمندگی سےبچانے کے لیے اسی وقت ایسا اظہار کیا کہ جیسے وہ بہرے ہیں اور انھوں نے کچھ سنا ہی نہیں ہے۔ جب اس خاتون نے جان لیاکہ آپ بہرے ہیں تو اسے سکون و اطمینان ہوگیا کہ وہ حضرت کے سامنے شرمندگی سے بچ گئی۔ آپ نے اس واقعہ کے سبب ایک بار جو بہرہ ہونے کا اظہار کیا تو پھر ساری عمر اسی بہرے پن کی کیفیت میں گزار دی۔

اولیاء کرام کی ان ہی تعلیمات اور عمل سے تصوف و روحانیت کا اصل مفہوم سامنے آتا ہے۔

تصوف؛ اخلاقِ کریمانہ اور مخلوق سے بے نیازی کا نام ہے

  • حضرت محمد بن علیؒ سے پوچھا گیا کہ تصوف کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:

التصوف اخلاق کریمة ظهرت فی زمان کریم من رجل کریم مع قوم کرام.

(ابن القیم، مدارج السالکین، 3: 181)

تصوف وہ کریمانہ اخلاق ہے جو کریم زمانے میں کریم آدمی سے کریم لوگوں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔

کریم ؛ شرف و بزرگی اور عظمت والے کو کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ عظمت والا بزرگ وہی ہوگا جس کا اخلاق بھی عظیم ہوگا۔ جسے اپنے آپ کو بزرگ کہلوانے کی ضرورت نہ پڑے بلکہ لوگ اس کے اخلاق و کردار کو دیکھ کر اس کی عظمت اور بزرگی کو جان لیں۔

  • حضرت معروف کرخیؒ سے پوچھا گیا کہ تصوف کیا ہے تو آپ نے فرمایا:

التصوف ھو الاخذ بالحقائق والیأسوا مما فی ایدالخلائق.

(الرسالۃ القشیریہ، ص: 441)

حقائق کو ماننے اور مخلوق کے ہاتھ میں جو کچھ ہے، اس سے بے نیازی اختیار کرنے کا نام تصوف ہے۔

  • شیخ ابوجریر سے پوچھا گیا کہ تصوف کیا ہے تو آپ نے فرمایا:

الدخول فی کل خلق سنیی والخروح من کل خلق دنیی.

(الرسالۃ القشیریہ: 441)

ہر اعلیٰ اخلاق کو اپنے اندر داخل کرنا اور ہر ادنیٰ اور رذیل اخلاق کو اپنی طبیعت سے نکالنے کا نام تصوف ہے۔

سمجھانا یہ مقصود ہے کہ اگر تصوف کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو جان لیں کہ تصوف و روحانیت پر کاربند لوگ ہمہ وقت الذین یمشون علی الارض ھونا کے مصداق احتیاط کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں کہ کہیں کوئی قدم غلط نہ اٹھ جائے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان کبار اولیاء کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے تصوف و روحانیت کا عملی پیکر بننے کی توفیق عطا فرمائے۔