حمد باری تعالیٰ
الٰہی! شاد ہوں میں تیرے آگے ہاتھ پھیلا کر
مری اس کیفیت کو اپنی رحمت سے پذیرا کر
بھٹکتی آنکھ کو مرکوز فرما صبغۃ اللّٰہ پر
دل بے تاب کو خوشبوئے یاسیں سے شکیبا کر
مری بھیگی ہوئی پلکیں مخاطب ہیں تو بس تجھ سے
مری تقدیر کے تاریک غاروں میں اجالا کر
مرے چاروں طرف ہے رقصِ وحشت، روک دے اس کو
مرے اندر جو دشمن بڑھ رہا ہے، اس کو پسپا کر
رسول پاکؐ کے رستے سے ہٹ کر خوار ہے امت
امین اس کو فلاح و خیر کا پھر سے خدایا کر
فروغ اقدارِ پیغمبر کا ہو پھر سے زمانے میں
پریشان آدمیت پر کرم کا باب پھر وا کر
دعائے سیدِ سادات سینے میں فروزاں ہے
حسین کر دے مری دنیا حسین تر میری عقبا کر
تیرے محبوب کی توصیف میں لب کھولتا ہوں میں
بہاراں آشنا یارب! مری سوچوں کا صحرا کر
زوال آمادہ ہیں ہر چند اعصاب و قویٰ پھر بھی
جواں رکھ میرے جذبوں کو، مرے لفظوں کو اُجلا کر
{حفیظ تائبؔ}
نعتِ رسولِ مقبول ﷺ
ہر سمت دیکھتا ہوں میں انوارِ مصطفیؐ
ہے ساری کائنات چمن زارِ مصطفیؐ
قرآن میں ہیں اُنؐ کے محاسن لکھے ہوئے
لاریب بے مثال ہے کردارِ مصطفیؐ
صحرائے زندگی کی فضائے بسیط پر
سایہ کرے گا سایۂ دیوارِ مصطفیؐ
اُنؐ کے کرم کا ابرِ مسلسل رہا ہے ساتھ
طیبہ میں دیکھ آیا ہوں دربارِ مصطفیؐ
آنکھیں غبارِ شہرِ نبیؐ میں ہیں منتظر
دیدارِ مصطفی کبھی دیدارِ مصطفیؐ
مکتب میں روشنی ہے اُنہیؐ کے وجود سے
ہر علم کی اساس ہیں اقدارِ مصطفیؐ
اسریٰ کی شب یہ راز کھلا آسمان پر
ازبر ہے کائنات کو اخبارِ مصطفیؐ
رہتا ہے اشکبار ہمیشہ پسِ ورق
یا رب! مرے قلم کو بھی دستارِ مصطفیؐ
مقروض بن کے رہتے ہیں ارض و سما ریاضؔ
کیا دلربا ہے گرمیٔ بازارِ مصطفیؐ
{ریاض حسین چودھریؔ}