دینِ اسلام اعتدال اور رواداری پر مبنی اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار و تعلیمات کا پیامبر ہے۔ پیغمبرِ اسلام حضور نبی اکرم ﷺ کی صفات میں سے ایک سب سے نمایاں صفت آپ ﷺ کا رحمۃ للعالمین ہونا ہے۔ یعنی آپ ﷺ تمام جہانوں کے لئے باعثِ امن و سلامتی ہیں۔ آپ ﷺ نے زمانۂ امن تو کیا حالتِ جنگ میں بھی انسانی جان و مال اور عزتِ نفس کے تحفظ کے احکامات جاری کئے اور فتح مکہ کے موقع پر صلہ رحمی، عفو و درگزر اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ایک ایسی عظیم الشان مثال قائم کی کہ ایسی مثال تاریخِ انسانی پیش کرنے سے معذور و قاصر ہے۔ اسلام نے انسانی جان اور اس کے وقار کے تحفظ کے لئے جو احکامات صادر فرمائے، اس طرح کے احکامات دنیا کے کسی اور الہامی یا غیرالہامی مذہب میں نہیں ملتے۔ اسلام کو یہ شان حاصل ہے کہ اس نے ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا ہے اور ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کو بچانے سے تعبیر کیا ہے۔ اُمتِ محمدیہ وہ اُمت ہے جس کی شناخت اور پہچان قرآن مجید نے اعتدال بتائی ہے کہ یہ اُمت کسی بھی معاملے میں حد سے تجاوز نہیں کرتی، یہاں تک کہ عبادت و ریاضت میں بھی معتدل اور متوازن رہتی ہے۔
اسلام کی تعلیمات میں اس قدر وسعت و رحمت ہے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی جان و مال کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص کسی کو امان دے اور پھر اُسے قتل کر دے، اس پر جہنم کی آگ واجب ہو گئی، اگرچہ قتل ہونے والا کافر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ایک اور موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جس نے ذمی پر حدِ قذف لگائی، قیامت کے دن اس کو آگ کے کوڑوں سے مارا جائے گا۔‘‘خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقg نے فارس اور مدائین کے عیسائیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس میں رقم ہے: ’’پس بے شک میں نے تمہیں اللہ کا عہد اور میثاق دیا ہے اور اس کے انبیاء اور رسولوں اور مسلمانوں سے اصفیاء اور اولیاء کا ذمہ دیا ہے، تمہاری جانوں، تمہارے اموال، تمہارے خاندان اور تمہارے آدمیوں کے لئے اور تمہیں ہر اذیت سے امان دی ہے اور یہ بات میں نے اپنے اوپر لازم کر لی ہے کہ میں تمہاری پیچھے رہوں اور تم سے ہر اُس دشمن کو جو مجھے اورتمہیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے اپنی کوشش، اپنے پیروکاروں اور مددگاروں سے دور ہٹاؤں اور یہ کہ میں تم کو ہر اُس تکلیف سے دور رکھوں جو اہلِ جہاد حملہ کرتے وقت اٹھاتے ہیں۔ پس تم پر اِس جہاد کے معاملے میں کوئی جبر و اکراہ نہیں ہے۔‘‘
افسوس کہ آج قرآن و سنت کی ان تعلیمات سے بے اعتنائی اور اسلامی مصادر و مآخذ سے دوری نے اسلام کی زریں تعلیمات و احکامات کو دھندلا دیا ہے اور اُمت میں انتہا پسندی اور متشدد رویوں نے جگہ بنا لی ہے۔ انتہا پسندی اور تنگ نظری کے سبب سے عدمِ برداشت عمومی مزاج کا حصہ بن گیا ہے اور وہ اُمت جس کی شان اور شناخت اعتدال تھی، وہ اُمت ہر معاملے میں انتہائی ردعمل کو اسلام سمجھنے لگ گئی اور شومئی قسمت کہ بلا سوچے سمجھے انتہائی ردعمل دینے کے جرم کو ذریعۂ نجات سمجھنا شروع کر دیا گیا۔
برصغیر پاک و ہند میں اسلام کے نام پر جس انتہا پسندی کو فروغ دیا جارہا ہے اگر اِس کا راستہ نہ روکا گیا تو انسانیت اور انسانی اقدار تو ملیا میٹ ہوں گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس خطہ میں اسلام کی انسانیت کی بقا و ضمانت پر مبنی سنہری تعلیمات اور تشخص کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان میں چرچز جلانے اور مسیحی آبادی کے گھر نذر آتش کرنے کے انتہائی رویے در آئے ہیں اور پچھلے چند سالوں میں ایسے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی وجہ سے اسلام کی پُرامن تعلیمات، اقلیتوں کو دی جانے والی آئینی ضمانتیں اور پاکستان کے اعتدال و رواداری پر مبنی سیاسی، سماجی اور مذہبی اقدار و روایات کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں سانحہ سمبڑیال ہوا، سانحہ یوحنا آباد ہوا، سانحہ جوزف کالونی ہوا، سانحہ باہمنی وال ہوا، سانحہ سیالکوٹ اور اب سانحہ جڑانوالہ رونما ہوا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر اور باہر تشویش ہے۔
تاہم یہ امر قابلِ ستائش ہے کہ اس اشتعال انگیزی اور جلاؤ گھیراؤ کے عمل کی اکثریتی مسلم طبقہ نے حوصلہ شکنی بھی کی اور مسیحی برادری کے ساتھ کھل کر اظہارِ یکجہتی کر کے یہ پیغام دیا کہ اسلام کا سچا پیروکار کسی مذہبی عبادت گاہ کے تقدس کو پامال کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی رہائش گاہ کو جلا سکتا ہے اور نہ ہی قتلِ ناحق جیسے سنگین جرم کا مرتکب ہو سکتا ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد بانیٔ پاکستان نے بھی پاکستان کے ہر شہری سے رنگ و نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر جان و مال کے تحفظ کا وعدہ کیا اور پھر اس وعدے کو آئینی شقوں کی صورت میں تحفظ دیا گیا ہے۔ اکثریت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور آئینِ پاکستان کی روشنی میں اقلیتوں کو تحفظ دئیے جانے کا عہد نبھائے اور جو کوئی اس عہد کو توڑتا ہے وہ سزا کا مستحق ہے۔ہماری سیاسی جماعتوں، مذہبی تنظیموں، علمائے کرام، اساتذہ، والدین اور ریاست کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے نام پر انتہا پسندی کو فروغ دینے والے رجحانات کا تدارک کریں اور ریاست انتہا پسندی کے اس فتنے کو قانون کی عملداری اور بالادستی کے ذریعے کچل دے۔ پاکستان انتہا پسندانہ رویوں اور رجحانات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ماضی میں جو افسوسناک واقعات ہوئے، اس میں اقلیتوں کو مالی اعتبار سے تو اکاموڈیٹ کیا گیا تاہم سزا اور جزا کے کمزور کلچر کے باعث قانون ہاتھ میں لینے والوں کو وہ قرار واقعی سزا نہیں ملی جو ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ناگزیر ہے۔
اسلام وہ معتدل دین اور ضابطۂ حیات ہے جو کلمہ گو کو تمام پیغمبرانِ خدا پر ایمان لانے کو لازم قرار دیتا ہے۔ پیغمبرانِ خدا پر ایمان لائےبغیر کسی مسلمان کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ پاکستان کے قانون میں قرآن مجید کی بے حرمتی، مذہبی مقدسات کی توہین اور پیغمبرانِ خدا کی توہین کے حوالے سے واضح قوانین موجود ہیں۔ لہٰذا اس بات کا شعور اجاگر کیا جانا چاہیے کہ اس نوع کے کسی بھی افسوسناک واقعہ کی صورت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو باضابطہ طورپر آگاہ کیا جائے اور کسی صورت کوئی شہری قانون کو ہاتھ میں نہ لے۔ یہ بات لائقِ تحسین اور باعثِ فخر ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں اور آزادانہ ماحول میں اپنی مذہبی عبادات اور رسوم و رواج و دیگر سیاسی، سماجی، معاشی امور و معاملات انجام دے رہی ہیں۔ سانحہ جڑانوالہ کے بعد اہم حکومتی و ریاستی عہدیداروں نے موقع پر جا کر متاثرہ مسیحی خاندانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا ہے اور اُنہیں یقین دلایا گیا ہے کہ ان کے نقصان کاازالہ بھی ہو گا اور قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر کو قانون کے مطابق قرار واقعی سزا بھی دی جائے گی۔
یہاں تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کو بطور خاص خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے کہ انہوں نے انتہا پسندی کے فتنے کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا اور انہوں نے عرب و عجم کے سفر کر کے اُمت کو انتہا پسندی، متشدد رویوں اور عدمِ برداشت سے دور رہنے کی تلقین کی اور تحریک دی اور اس ضمن میں فکری واضحیت کے لئے انسدادِ دہشت گردی اور فروغِ امن کے لئے 40 سے زائد ضخیم کتب تحریر کیں اور اس ضمن میں سیکڑوں لیکچرز دئیے۔حکومت و ریاستِ پاکستان انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ان رجحانات کے قلع قمع کے لیے اسلام کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں مرتب کردہ شیخ الاسلام کے ان افکار سے استفادہ کرے تاکہ ہر آئے روز ہونے والے ان واقعات کا تدارک کیا جاسکے۔ اس لیے کہ اجتماعی سطح پر قوم کی اخلاقی و فکری تربیت کے ذریعے ہی ہم انتہا پسندانہ رجحانات اور رویّوں سے نجات پاسکتے ہیں۔