جب ہم آقا علیہ السلام کا ذکر پاک کرتے ہیں تو ہمارا عقیدہ ہے کہ آپ ﷺ کی ذات بابرکات عالمِ بشریت اور عالمِ نورانیت کا امتزاج ہے۔ یعنی دونوں عوالم آقا علیہ السلام کی ذات بابرکات میں جمع ہیں۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ جب تاجدار کائنات ﷺ کا نور مبارک تخلیق ہوا تو اس وقت ابھی وقت کی اکائیاں بھی وجود آشنا نہ ہوئی تھیں، اس وقت عالمِ خارج کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا، کائناتِ ہست و بود اور عالمِ رنگ و بو کو ہنوز زیورِ وجود سے آراستہ نہ کیا گیا تھا اور نہ ابھی کن فیکون کا صدور و اجراء ہوا تھا۔
اس کی مثال یوں سمجھئے کہ اللہ رب العزت کی ذات بابرکات ایک حسن کا پیکر تھی مگر اس حسن وجمال کو دیکھنے والی کوئی آنکھ نہ تھی۔ پھر اللہ رب العزت نے چاہا کہ کوئی اس سراپا حسن و جمال کو دیکھنے والا ہو۔۔۔ کوئی اس حسن وجمال کی حمدو ثناء کرنے والا ہو۔۔۔ کوئی اس کی معرفت حاصل کرنے والا ہو۔۔۔ تو اللہ رب العزت نے اس مقصد کی تکمیل کی خاطر نورِ محمدی ﷺ کو تخلیق فرمایا۔ تمام کائنات کی تخلیق سے پہلے جب کُنْ فَیَکُوْن کا ماجرا وجود میں آیا تو اس پہلے کُنْ کے نتیجے میں فیکون نورِ محمدی ﷺ وجود میں آیا۔ اس حوالے سے حدیث قدسی ہے کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
کنت کنزاً مخفیاً فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق.
(روح المعانی، آلوسی، ج: 17، ص: 121)
میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، پس میں نے پسند کیا کہ میں پہچانا جاؤں، پس میں نے اپنی پہچان کے لیے مخلوق کو پیدا کیا۔
یعنی اس پیکر حسن وجمال نے چاہا کہ وہ پہچانا جائے۔۔۔ اس کی معرفت حاصل ہو۔۔۔ کوئی اس پر مرنے مٹنے والا ہو۔۔۔ اس کا ذکر کرنے والا ہو۔۔۔ اس سے محبت کا دم بھرنے والا ہو۔۔۔ پس اپنی اس چاہت کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کہ اللہ رب العزت نے چاہا کہ ایسا سراپا بنایا جائے جو اس کے سراپا حسن وجمال کو دیکھنے کے قابل ہوسکے، جس کی نگاہ میں میرا حسن سماسکے اور وہ میرے حسن کی معرفت حاصل کرنے کے اہل ہو اور پھر میری معرفت حاصل کرکے بقیہ مخلوق کو بتاسکے۔ پس اللہ تعالیٰ نے نورِ محمدی ﷺ کو تخلیق فرمادیا۔
ائمہ کرام بیان کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت کی چاہت جسے فَاَحْبَبْتُ کے الفاظ میں بیان کیا گیا، وہی درحقیقت نورِ محمدی ﷺ کی تخلیق کا سبب بنی۔ وہ محبت جب متحرک ہوئی تو ارادۂ خداوندی بن گئی اور جب ارادۂ خداوندی متحرک ہوا تو پھر نور مصطفیٰ ﷺ وجود میں آگیا۔ اس حدیث مبارک کی شرح میں حضرت شیخ عبدالکریم الجیلی بیان کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت کی اس محبت اور چاہت کہ ’’میں جانا جاؤں‘‘ کا تقاضا یہ تھا کہ تمام موجودات پر اللہ رب العزت کی حقیقت عیاں ہوتی۔ اس چاہت کی تکمیل کے لیے اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کی حقیقت کی تخلیق فرمائی اور پھر آقا علیہ السلام کی حقیقت کا نتیجہ یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں کثرت ِ موجودات وجود میں آئی اور سب سے پہلے آقا علیہ السلام نے معرفتِ خداوندی حاصل کی۔ پھر آپ ﷺ نے اس معرفت خداوندی کی خیرات تمام موجودات کو عطا فرمائی۔ پہلے خود خدا کے حامد ہوئے اور پھر آپ ﷺ نے اپنے ساتھ کل مخلوق کو اللہ کی حمد میں مصروف کردیا۔ یہ حقیقتِ محمدی ﷺ کی بنیاد تھی۔ پس اس لیے ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی صفاتی تجلیات کا مظہر ہے اور آقا علیہ السلام کی حقیقت اور آقا علیہ السلام کی ذات بابرکات اللہ رب العزت کی ذاتی تجلیات کا مظہر ہے۔
(الجیلی، الکمالات الالهٰیة فی الصفات المحمدیة، ص: 20)
نورِ الہٰی سے نورِ محمدی ﷺ کی تخلیق
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے نور سے نورِ محمدی ﷺ کی تخلیق کس طرح فرمائی؟ اس سوال کے جواب کے لیے قرآن مجید میں مذکور تخلیق آدم کے واقعہ کی طرف توجہ کریں کہ جب سیدنا آدم علیہ السلام کا جسد اقدس تشکیل پاچکا تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے ارشاد فرمارہا ہے:
وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ.
(صٓ، 38: 72)
اے فرشتو! جب میں اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے سامنے سجدے میں گر جانا۔
’’روحی‘‘ کا لفظ بتارہا ہے کہ اللہ رب العزت نے جسدِ آدم کے اندر جو کچھ پھونکا اس کو براہِ راست اللہ تعالیٰ سے نسبت ہے۔ گویا اللہ فرمارہا ہے کہ آدم کے وجود کو زندگی بخشنے کے لیے جو میں نے اس میں پھونکا، وہ میرا ہے۔ بزرگان دین لکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے جسد آدم میں جو روح پھونکی جس نے انھیں حیات بخشی، وہ نورِ محمدی ﷺ تھا۔
- اللہ تعالیٰ نے نور محمدی ﷺ کو اپنے نور سے پیدا فرمایا اور پھر وہ نورمشیتِ ایزدی سے جہاں چاہا سیر کرتا رہا اور لاکھوں کروڑوں برس اللہ رب العزت کی محبت کے پردوں میں پرورش پا تا رہا یہاں تک کہ اس کے ظہور کا وقت آگیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز میں نے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کیا:
یارسول الله یابی انت وامی اخبرنی عن اول شی خلقه اللہ تعالیٰ قبل الاشیاء قال: یا جابر ان الله تعالیٰ قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نوره.
(قسطلانی، المواهب اللدنیه، 1: 71، بروایت امام عبدالرزاق)
’’یارسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کیا چیز پیدا فرمائی؟ حضور ﷺ نے فرمایا: اے جابر! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے (نہ بایں معنی کے نور الہٰی اس کا مادہ تھا بلکہ اس نے نور کے فیض سے) پیدا فرمایا پھر وہ نور مشیتِ ایزدی کے مطابق جہاں چاہتا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ فرشتہ تھا، نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھا اور نہ انسان۔ جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کردیا: پہلے حصے سے قلم بنایا، دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش۔ پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصے سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے۔ پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے آسمان بنائے، دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت اور دوزخ۔۔‘‘
معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت نے کائنات کی ہر شے کو آقا علیہ السلام کے نور سے تخلیق فرمایا۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کائناتِ انسانی میں جس شے پر نگاہ ڈالیں، چاہے وہ انسان کا باطن ہو یا ظاہر، زمین ہو یا آسمان، جن و انس ہوں یا فرشتے، الغرض جس جس شے پر نگاہ ڈالیں گے، خیرات ِمصطفیٰ ﷺ کے سواء کچھ نہیں ہے ۔
مراحلِ ظہورِ مصطفی ﷺ
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ظہور کو درج ذیل تین مراحل سے گزارا اور ہر مرحلہ میں آپ ﷺ کو الگ الگ شان اور مقام و مرتبہ عطا فرمایا اور پھر ہر مرحلۂ ظہور میں آپ ﷺ کا فیض تقسیم ہوتا رہا:
1۔ پہلا ظہور: حقیقتِ محمدی ﷺ کی تخلیق
2۔ دوسرا ظہور: نورانیتِ محمدی ﷺ کی تخلیق
3۔ تیسرا ظہور: بشریتِ محمدی ﷺ کی تخلیق
ان تینوں مراحل اور ظہور کے حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ارشاد فرماتے ہیں کہ حقیقتِ محمدی ﷺ کی صورت میں پہلے ظہور کے نتیجے میں عالمِ آخرت وجود میں آیا۔ ظہورِ ثانی یعنی نورانیت محمدی ﷺ کے نتیجے میں عالمِ ارواح وجود میں آیا اور تیسرے ظہور یعنی بشریت محمدی ﷺ کے نتیجے میں یہ مثالی جہان وجود میں آیا۔ جہاں جہاں حقیقتِ محمدی ﷺ کا سایہ پڑا وہ جنت بن گئی اور جو جو حصہ سایۂ حقیقتِ محمدی ﷺ سے محروم رہا وہ دوزخ بن گیا۔ اس سے ایک نکتہ سمجھ آتا ہے کہ تاجدار کائنات ﷺ کی بارگاہ اقدس کے سائے میں رہو تو زندگی جنت ہے اور جسے تاجدار کائنات ﷺ کی بارگاہ کا سایہ نہ ملے، آقا علیہ السلام کی کملی اور جوڑوں کا سایہ نہ ملے، جو حضور ﷺ کی چوکھٹ سے دور ہوگیا اور جس نے حضور ﷺ کی غلامی کا پٹہ گلے سے نکال دیا اور حضور کی محبت سے دور ہوگیا، اس کی زندگی جیتے جی جہنم بن گئی۔
مراحلِ ظہورِ مصطفی ﷺ کی تفصیل درج ذیل ہے:
(1) حقیقتِ محمدی ﷺ کی تخلیق
رشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.
(یٰسین، 36: 82)
’’ اس کا امرِ (تخلیق) فقط یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو (پیدا فرمانا) چاہتا ہے تو اسے فرماتا ہے ہو جا، پس وہ فوراً (موجود یا ظاہر) ہو جاتی ہے (اور ہوتی چلی جاتی ہے)۔ ‘‘
اس آیتِ کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو تخلیق فرماتا ہے تو وہ تین مراحل سے گزرتی ہے:
1۔ کسی شے سے متعلق امر الہٰی ہوتا ہے۔
2۔ وہ امر الہٰی ارادے سے جڑ جاتا ہے۔
3۔ کُنْ کے نتیجے میں وہ چیز تخلیق پاجاتی ہے۔
اب غور طلب بات یہ ہے کہ جب اللہ رب العزت نے نورِ محمدی ﷺ کی تخلیق فرمائی تو اس وقت اس کے علاوہ کسی شے کا وجود نہ تھا کیونکہ ابھی تک کوئی شے تخلیق کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی تھی اور کُنْ کا استعمال بھی نہ ہوا تھا۔ پس اس کا پہلا ارادہ، پہلی چاہت، پہلی محبت، پہلی رغبت نورِ محمدی ﷺ تھی اور پہلا کُنْ تخلیق نورِ محمدی ﷺ کے لیے استعمال ہوا اور پہلا فَیَکُوْن نورِ محمدی ﷺ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ علماء، ائمہ مفسرین و محدثین بیان کرتے ہیں کہ پہلے کُنْ اور فَیَکُوْن کی حقیقت جاننا چاہیں تو پہلے کُنْ کے اندر ذاتِ باری تعالیٰ پوشیدہ ہے اور پہلے فَیَکُوْن کے اندر ذات مصطفیٰ ﷺ ہے۔۔۔ پہلا کُنْ خدا کی ذات کا ارادہ ہے اور اس کُنْ کے نتیجے میں پہلا فَیَکُوْن حقیقتِ نور مصطفیٰ ﷺ ہے۔
صوفیاء میں سے بعض فرماتے ہیں کہ ہم نے معارف کے سمندر میں غوطہ زنی کی تاکہ حقیقتِ محمدی ﷺ کی اصل کو جان سکیں تو اچانک اس حقیقت اور ہمارے درمیان نور کے ایک ہزار پردے حائل ہوگئے۔ اگر ان میں سے سب سے پہلے پردے کے قریب جاتے تو نور کی شدت سے اس طرح جل جاتے جس طرح ایک بال آگ میں جل جاتا ہے۔
یعنی کوئی بھی حقیقت محمدی ﷺ کا عارف نہ ہوسکا۔ حقیقتِ محمدی ﷺ کے اتنے پردے ہیں کہ اس حقیقت کی حقیقت کو ہر کوئی نہ پاسکا۔ ہر کسی کو اس کے قد اورنصیب کے مطابق حقیقتِ محمدی ﷺ کی معرفت کی خیرات ملی۔ کوئی سرکار ﷺ کے جوڑوں تک پہنچا۔۔۔ کوئی سرکار ﷺ کےقدموں سے اٹھنے والی خاک کے ذروں تک پہنچا۔۔۔ کسی کی نگاہ بشریت میں اٹک گئی تو اس نے بشر بشر کی رٹ لگالی۔۔۔ کسی کی نگاہ نور پر پڑی تو اس نے کہا کہ نہیں اس بشریت کے پیچھے نورانیت بھی ہے تو وہ بشریت کے ساتھ ساتھ نورانیت کا بھی قائل ہوگیا۔۔۔ کسی نے اور آگے بڑھ کر حقیقتِ محمدی ﷺ سے پردہ ہٹایا تو خبر مل گئی کہ نورانیت سے آگے ایک جہاں اور بھی ہے اور وہ جہاں حقیقتِ محمدی ﷺ ہے۔ اب اس کی حقیقت کیا ہے؟ وہ بنانے والا ہی جانتا ہے۔
(2) نورانیتِ محمدی ﷺ کی تخلیق
ظہورِ مصطفی ﷺ کا دوسرامرحلہ نورانیتِ محمدی ﷺ کی تخلیق ہے۔ اس مرحلہ میں آقا علیہ السلام کا نور مقدس پاک صلبوں سے پاک رحموں تک منتقل ہوتا چلا آیا۔ یعنی اب حقیقت محمدی ﷺ کی تخلیق کے بعد ظہور بشریت کی طرف سفر شروع ہوگیا۔ وہ سفر یہ تھا کہ آقا علیہ السلام کا نور اللہ رب العزت نے سیدنا آدم علیہ السلام کی صلب مبارک میں رکھا اور پھر پاکیزہ صلبوں اور رحموں سے ہوتا ہوا وہ نور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تک جاپہنچا۔ یہ ظہور محمدی ﷺ کا دوسرا دور ہے۔
اس مرحلہ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی اس روایت سے روشنی ملتی ہے کہ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا یارسول اللہ ﷺ ! آپ اس وقت کہاں تھے جب آدم علیہ السلام جنت میں تھے؟ تو آقا علیہ السلام نے فرمایا:
میں ان کی صلب میں تھا اور جس وقت انہیں زمین پر اتارا گیا تب بھی میں ان کی صلب میں تھا۔ پھر مجھے حضرت نوح علیہ السلام کی صلب میں کشتی میں سوار کیا گیا۔ پھر میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی پشت میں تھا، جب انھیں آگ میں ڈالا گیا۔ میرے نسب میں میرے کوئی بھی والدین کبھی برائی میں مبتلا نہ ہوئے، میں ہمیشہ طاہر اور طیب پشتوں سے طاہر و طیب رحموں میں منتقل ہوتا چلا آیا۔
(ابن الجوزی، الوفا باحوال المصطفیٰ، ج: 1، ص: 28، الرقم: 9)
ا ب غور کیجئے آقا علیہ السلام کا نور مقدس سیدنا آدم علیہ السلام کی پشت میں ہوتا ہے تو ان کی توبہ قبول ہوتی ہے۔۔۔ آقا علیہ السلام کا نور مبارک سیدنا نوح علیہ السلام کی صلب میں ہوتا ہے تو سارا جہاں ڈوب کر غرق ہوجاتا ہے لیکن کشتی نوح پار لگتی ہے۔۔۔ آقا علیہ السلام کا نور مبارک سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پشت میں ہوتا ہے تو دنیا کی سب سے بڑی آگ سے وہ صحیح سالم باہر تشریف لے آتے ہیں۔ گویا نور محمدی ﷺ اپنے ظہورِ ثانی میں بھی خیرات بانٹتا چلا آیا ہے۔ پہلے دور یعنی حقیقتِ محمدی ﷺ نے بھی خیرات بانٹی اور ایسی بانٹی کہ ہر شے آپ ﷺ کے نور کی خیرات سے بنی اور دوسرے ظہور میں بھی ان تمام انبیاء کرام کی پشت میں آپ ﷺ ہیں تو یہ خیرات بٹتی آرہی ہے۔
آپ ﷺ کا نور نہ صرف پاکیزہ صلبوں میں موجود تھا بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو اس کا شعور بھی تھا۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اولادوں کو اس نورِ مقدس کے احترام کی نصیحت و وصیت کرتے آئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا نور مبارک جس بھی پاکیزہ ہستی کا مقدر بنتا تو نہ صرف اُس پاکیزہ شخصیت کا ظاہر حسن و جمال اپنی مثال آپ ہوتا بلکہ اس کا باطن بھی طاہر ومطھر ہوتا۔ مزید یہ کہ پھر اِن ہستیوں سے متعدد کرامات کا صدور ہوتا۔ حتی کہ یہ نورِ مبارک حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے صلبِ مبارک سے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاک صلب میں منتقل ہوگیا۔
جب نورِ محمدی ﷺ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ میں منتقل ہوا تو حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی ساری اولاد میں سے ان کا رنگ و روپ جدا ہوگیا۔ ان کی پیشانی پر عجب سا نور چمکتا تھا، چہرے پر عجب چاشنی اور چمک تھی۔ جو دیکھتاگرویدہ ہوجاتا تھا۔ یہ سب آقا علیہ السلام کے نور مبارک کی رونقیں تھیں۔
(3) بشریتِ محمدی ﷺ کی تخلیق
پھر آقا علیہ السلام کا وہ نور اقدس سیدہ آمنہ علیہا السلام کے بطن مبارک میں آگیا اور جس روز آقا علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی، وہاں سے ظہور محمدی ﷺ کے تیسرے دور کا آغاز ہوجاتا ہے جس کو بشریت ِمحمدی ﷺ کہتے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ان مبارک لمحات کا تذکرہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں یوں کرتے ہیں کہ
نورِ مصطفی ﷺ جب سیدہ آمنہ علیہا السلام کی گود میں آگیا تو اسکی چمک سے پورا عالم بقعۂ نور بن گیا۔ ہر چند کہ یہ نور ظاہراً نور ہی تھا مگر اس کی حقیقت کچھ اور ہی تھی۔ بصارت کو بصیرت کے ساتھ ہم رنگ کرکے کل جسمانی ظلمات کو منور کردینا معمولی نور کا کام نہیں۔ یہ اس ذاتِ مقدس کا نور تھا جو انا من نوراللہ کی مصداق ہے۔ یہ نور اجسام کے اندر سرائیت کیے ہوئے تھا، غرض یہ کہ اس روز عالم میں ایک خاص قسم کی روشنی ہوئی تھی جس کے ادراک میں عقل خیرہ ہے۔ اس روز ملائکہ کو حکم ہوا تھا کہ وہ تمام آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دیں اور زمین پر حاضر ہوجائیں چنانچہ کل ملائکہ کمال مسرت سے زمین پر اتر آئے۔
شبِ ولادت اللہ تعالیٰ نے حوضِ کوثر کے کنارے مہکتی کستوری کے ستر ہزار درخت لگائے جن کے پھل اہلِ جنت کے لیے بخور کا کام دیں گے۔۔۔ اس واقعہ کی یادگار میں ہر آسمان پر ایک ستون زمرد کا اور ایک ستون یاقوت کا نصب کیا گیا۔۔۔ تین جھنڈے مشرق، مغرب اور کعبہ کی چھت پر نصب کیے گئے۔۔۔ اس رات شیاطین کو مقید کردیا گیا۔۔۔ کاہنوں کی خبریں بند ہوگئیں۔۔۔ سارے جہان کے بت سربسجود ہوئے۔۔۔ فارس کے آتشکدے جن کی پرستش سالہا سال سے ہوتی تھی، بجھ گئے۔۔۔ اس رات بادشاہوں کے تخت الٹ گئے۔۔۔ ماہرانِ نجوم ہر طرف خبریں دینے لگے کہ آج نبی آخرالزماں ﷺ کا ستارہ طلوع ہوا اور قوم بنی اسرا ئیل سے نبوت جاتی رہی، اب عرب و عجم نبی آخرالزمان ﷺ کے مطیع اور فرمانبردار بن جائیں گے۔
حضور ﷺ کی ولادت باسعادت کے ساتھ ہی ملک کی تقدیر بدل گئی، تمام سختیاں اور کلفتیں دور ہوگئیں۔۔۔ قحط سالی کے آثار جاتے رہے، ویران زمینوں پر بہار آگئی۔۔۔ ہر طرف سبزہ لہلہانے لگا اور اناج سے کھیت و کھلیان بھرگئے۔۔۔ اور اپنے محبوب ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کی خوشی میں اللہ نے پورا سال دنیا کو بیٹے عطا کرکے جشنِ میلاد مصطفی ﷺ منایا۔
غرضیکہ تاجدارِ کائنات حضور پر نور رحمتِ دو جہاں ﷺ کی ولادت باسعادت کے موقع پر اس قسم کے بہت سے قدرتی اہتمام ایسے ظہور میں آئے کہ جن کی نظیر نہیں ملتی۔
(میلاد النبی، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاهرالقادری، ص: 91)
حمد، احمد، محمد اور محمود؛ ایک ہی حقیقت کے نام ہیں
مذکورہ حدیث قدسی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’میں نے چاہا کہ میں جانا جاؤں اور لوگ میری معرفت حاصل کریں‘‘ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب کسی کی معرفت حاصل ہوجائے تو پھر اس کی تعریف کی جاتی ہے، اس کو سراہا جاتا ہے، اس لیے کہ کسی کو کسی کی معرفت دینے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ اس کی تعریف کی جائے، اس کو سراہا جائے اور اس کا ذکر کیا جائے۔ بلاتشبیہ و بلامثال جس طرح کوئی مصنف کتاب لکھتا ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اہلِ ذکر اور اہل زبان اس کا ذکر کریں، اس کی تعریف اور تذکرہ ہو۔ اسی طرح اللہ رب العزت کا ارادہ یہ تھا کہ لوگ مجھے جانیں اور میری حمد کریں، پس حقیقت میں مقصد صرف اللہ کی حمد تھی اور وہ حمد تبھی ممکن تھی کہ جب اسے جانا جاتا اور چونکہ ابھی تک کوئی مخلوق پیدا ہی نہیں ہوئی تھی تو کون اس کی حمد و تعریف بیان کرتا۔ پس جب نورِ محمدی ﷺ تخلیق ہوگیا تو اب ایک ذات باری تعالیٰ ہے اور دوسری حقیقتِ محمدی ﷺ ہے۔ کل دو چیزیں ہیں اور نہ جانے کتنا زمانہ یہ ایسے ہی رہا اور حقیقتِ محمدی ﷺ اللہ رب العزت کی حمدو ثناء میں رطب اللسان رہی۔ پتہ چلا کہ حقیقت محمدی ﷺ کی تخلیق حمد باری تعالیٰ کے لیے ہوئی ہے۔
پھر آقا علیہ السلام کے نور مبارک کی تقسیم ہوئی تو اس سے باقی ساری کائنات کو وجود ملا۔ اب یہ تخلیق بھی حمد باری تعالیٰ کے لیے ہی ہورہی ہے ۔ یعنی پہلے حقیقتِ محمدی ﷺ کو حمدِ باری تعالیٰ کے لیے تخلیق کیا گیا اور اب اس سے آگے جو کچھ حمدِ باری تعالیٰ کے لیے تخلیق پایا ہے، وہ نورِ مصطفیٰ ﷺ سے وجود میں آیا ہے۔ پھر یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اس دن سے آج تک ذاکر ایک ہی ہے اور اس دن سے آج تک معرفت رکھنے والی حقیقت ایک ہی ہے۔ اب چاہے لاکھوں مسلمان محافل سجا کر حمدِ باری تعالیٰ کریں تو یہ حمد بھی میرے مصطفیٰ ﷺ نے کی ہے۔
جب یہ امر متحقق ہوچکا کہ اللہ رب العزت کی پہلی تخلیق نور محمدی ﷺ ہے تو کائنات انسانی کی پہلی حمد بھی حضور نبی اکرم ﷺ قرار پائیں گے۔ اس لیے کہ پھر جس نے خد اکی معرفت حاصل کی ہے، اس نے بذریعہ مصطفیٰ ﷺ کی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آقا علیہ السلام کے نور کو تخلیق فرمایا اور پھر سب کو حضور ﷺ سے تخلیق فرمایا اور اس طرح سب کو آقا علیہ السلام کی ذات کی طرف متوجہ کردیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ اللہ کی تخلیقات کا ایسا حسین نقش اول ہیں کہ پھر حقیقتِ مصطفیٰ ﷺ خود اللہ رب العزت کی حمد بن گئی۔
نور محمدی ﷺ ظہور کے پہلے مرحلے میں تھا تو ’’حمد‘‘ تھا اور جب دوسرے مرحلے یعنی عالمِ نورانیت اور عالمِ ارواح میں آیا تو ’’احمد‘‘ ہوگیا۔ اسی لیے عالم ارواح میں آقا علیہ السلام کا نام احمد ہے۔ جب اس عالمِ بشریت میں وہ حقیقت مصطفیٰ ﷺ ظہور پذیر ہوئی تو ’’محمد‘‘ ہوگئی اور پھر قیامت کے روز جب شان و شوکت کے ساتھ آپ ﷺ جلوہ افروز ہوں گے تو اس وقت اس حقیقت کا نام ’’محمود‘‘ ہوگا اور آپ ﷺ کو مقامِ محمود پر بٹھایا جائے گا۔ گویا بات ایک ہی ہے مگر وہ کبھی اس حقیقت کو ’’حمد‘‘ بناکر دکھاتا ہے۔۔۔ کبھی اس حقیقت کو ’’احمد‘‘ کا جوڑا پہنا کر دکھاتا ہے۔۔۔ کبھی اس حقیقت کو ’’محمد‘‘ کا لباس پہنادیتا ہے۔۔۔ اور کبھی اہل محشر میں ’’محمود‘‘ کا جوڑا پہنا کر اٹھائے گا۔ درحقیقت کُنْ تو ایک بار ہوا ہے، باقی سب کچھ اس فَیَکُوْن کی خیرات ہے۔
- ایک اور راز جسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ نے آقا علیہ السلام کی ذات بابرکات بنائی اور پھر آپ ﷺ کی ذات سے آگے سارا جہان بنادیا یعنی اِس وحدت کو کثرت میں تبدیل کردیا۔ یعنی وہ واحد تھا، اس نے ایک اور واحد بنایا پھر دوسرے واحد کو کثرت میں تبدیل کردیا۔ اپنے تعلق کو اِسی واحد سے جوڑا اور پھر باقی ہر شے کو اس واحد سے جوڑ دیا یعنی اُس نے اپنے آپ کو یکتا رکھا اور باقی ہر شے کو وحدت یعنی آقا علیہ السلام کی ذات سے جوڑ دیا۔
نبوت میں بھی اوّلیت مصطفی ﷺ کو حاصل ہے
یہاں پر ایک نکتہ قابل توجہ ہے کہ بعض اوقات لوگوں کے ذہنوں میں اشکال پیدا ہوتا ہے یا پیدا کردیا جاتا ہےکہ آقا علیہ السلام پر نبوت کا آغاز چالیس برس بعد ہوا ہے اور اس عمر کے بعد آپ ﷺ نبوت کے منصب پر فائز ہوئے۔ یہ کہنا درست نہیں ہے۔ ایک موقع پر آقا علیہ السلام سے عرض کیا گیا کہ:
یارسول الله متی وجبت لک النبوة قال و ادم بین الروح والجسد.
(ترمذی، الجامع الصحیح، 5: 585، کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ، رقم: 3609)
’’یارسول اللہ ﷺ ! آپ کو نبوت کے شرف سے کب بہرہ ور کیا گیا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اس وقت سے جب کہ آدم علیہ السلام روح اور بدن کے درمیان تھے یعنی ان کی تخلیق بھی عمل میں نہیں آئی تھی۔ ‘‘
یعنی آپ ﷺ تب سے نبی ہیں جب لوح و قلم بھی وجود میں نہیں آیا تھا ۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ قرآن مجید کا نزول تین طرح کا ہے:
1۔ اللہ پاک کے علم سے لوح و قلم پر محفوظ ہوا ۔
2۔ بیت العزت پر لیلۃ القدر کی رات منتقل کیا گیا۔
3۔ تئیس برس میں بتدریج آقا علیہ السلام کے قلبِ اطہر پر نازل ہوا۔
اب اسی مثال سے ظہور محمدی ﷺ اور حقیقت محمدی ﷺ کو سمجھ لیں۔ آقا علیہ السلام کی ذات بابرکات کا پہلا ظہور وہ ہے جب کُنْ کہا گیا اور حقیقتِ محمدی ﷺ وجودمیں آگئی۔ پھر دوسرا نزول عالمِ نورانیت کے اندر ہوا اور پھر تیسرا ظہور عالم بشریت کا ہے جو تریسٹھ سال پر محیط ہے۔ آپ ﷺ کی نبوت پہلے سے تھی، جیسے قرآن مجید نہ جانے اللہ کے علم میں کب سے تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا چالیس سال کی عمر میں اعلانِ بعثت عالمِ بشریت کی ضرورت کے مطابق ہے، بالکل اسی طرح جس طرح قرآن مجید موجود تو پہلے سے تھا مگر رب کائنات نے ضرورت اور حالات کے مطابق تئیس سال کے عرصہ میں بتدریج نازل فرمایا۔ اب اگر کوئی نادان اپنی نگاہوں کو صرف مرحلۂ بشریت تک محدود کرلے اور پھر اس میں بھی چالیس سال کی قید لگالے اور کہے کہ نبوت چالیس برس کی عمر میں ملی ہے تو اس کی نادانی پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ حقیقت تو بہت پرانی ہے، یہ تب کی ہے جب لفظ پرانا بھی وجود میں نہیں تھا۔ یہ تب سے ہے جب وقت کی اکائیاں نہ تھیں، وقت کا شعور نہ تھا، ماضی، حال، مستقبل موجود نہ تھا، حقیقت مصطفیٰ ﷺ اورنبوت مصطفیٰ ﷺ تب سے ہے۔ اس پر قرآن مجید سے ایک استدلال ملاحظہ ہو:
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں آقا علیہ السلام کو تمام انبیاء پر گواہ بنایا اور فرمایا:
فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍم بِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی هٰٓؤُلَآءِ شَهِیْدًا.
(النساء، 4: 41)
’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب ﷺ !) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔‘‘
گواہی تبھی ممکن ہوتی ہے جب کوئی سارے واقعہ میں اوّل تا آخر موجود ہو۔ یہ تو ممکن نہیں کہ جب ایک نبی آپ ﷺ کے بعد آنا ہو اور آپ ﷺ سے سب کی گواہی مانگی جائے۔ یعنی قرآن مجید میں گواہی کا مضمون آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر خود دلیل ہے کہ آپ ﷺ سب سے آخر میں تشریف لائے، اس لیے سب پر گواہ ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ حقیقتِ محمدی ﷺ کی تخلیق بھی سب سے پہلے ہوئی اور نبوت سے بھی سب سے پہلے آپ ﷺ کو سرفراز فرمایا گیا۔
اسی باب میں ایک اور نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام آقا علیہ السلام کے مبشر ہیں۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک ہر نبی ہر دور میں اپنی امت کو حضور نبی اکرم ﷺ کے آنے کی خبر دیتا آیا ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام حضور نبی اکرم ﷺ کے مبشر ہیں جبکہ حضور ﷺ کسی نبی کے مبشر نہیں بلکہ سب پر گواہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو خاتم النبیین کہا گیا مگر قربان جائیں آقا علیہ السلام کے غلاموں کے نصیب پر کہ حضور ﷺ کسی نبی کے آنے کی خوشخبری دینے والے (مبشر) نہیں لیکن اپنی امت کو نجات، شفاعت، عطاء اور جنت کی خوشخبری دینے والے ہیں۔