تصرفاتِ و اختیاراتِ مصطفی ﷺ اور آپ ﷺ کی شانِ رحمۃ للعالمینی

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ.

(الانبیاء، 21: 107)

’’ اور (اے رسولِ محتشم ﷺ !) ہم نے آپ ﷺ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔‘‘

حضور نبی اکرم ﷺ کی رحمت کی وسعت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے انسانیت کو جن اخلاق و آداب سے آشنا کیا، ان تمام اخلاق و آداب کی بنیاد بھی رحمت ہی ہے۔ ان اخلاق و آداب کا دائرہ کار زندگی کے ہر پہلو اور طبقہ کو محیط ہے۔ آپ ﷺ نے اٹھنے، بیٹھنے، کھانے، پینے، سونے، کلام کرنے، اتفاق کرنے ، اختلاف کرنے الغرض زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے معاملہ کو بھی اخلاق و آداب سے آشنا فرماکر اپنی رحمت کے نور سے منور فرمادیا۔حتی کہ جو آپ ﷺ کو مانتے تھے، آپ انھیں بھی اپنی مجلس میں بٹھاتے تھے اور جو نہیں مانتے تھے، انھیں بھی بٹھاتے تھے۔ کیا اس سے بھی بڑھ کر کوئی ذات رحمۃ للعالمین ہوسکتی ہے؟حالانکہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ فلاں منافق ہے، فلاں کے دل میں عناد اور منافقت کی آگ جل رہی ہے مگر آپ ﷺ صرف یہی دیکھتے تھے کہ میرا رب؛ رب العالمین ہے، وہ انھیں بھی پالتا ہے جو اسے مانتے ہیں اور انھیں بھی پالتا ہے جو اسے نہیں مانتے اور اس نے اپنی اس صفت کا مظہرِ اتم بناکر مجھے مبعوث فرمایا ہے۔ لہذا میری رحمت بھی ہر خاص و عام کے لیے ہے۔

جب ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی شان رحمۃ للعالمینی کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کی ہستی کے ہر گوشے اور ہر پہلو میں رحمت رکھی ہے۔ آپ ﷺ جب عالمِ نور میں تھے تو آپ ﷺ کا نور بھی رحمت تھا اور جب عالمِ بشریت میں منتقل ہوئے تو بشریت محمدی ﷺ بھی رحمت بن کر تشریف لائی۔اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو سر تاپا مطلقاً رحمت بناکر بھیجا ہے اور اس میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔حضرت ابو امامہؓ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

ان الله بعثنی رحمة للعالمین وهدی للعالمین.

(مسند احمد بن حنبل، ج: 5، ص: 268، الرقم: 22361)

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت بناکر مبعوث فرمایا۔‘‘

آقا علیہ السلام کی ذاتِ اقدس کو دو نعمتوں کا نمائندہ بناکر بھیجا گیا: 1۔رحمت 2۔ہدایت

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

یا أیها الناس انما أنا رحمة مھداة.

(المستدرک علی الصحیحین، الحاکم، ج: 1، ص: 91، الرقم: 100)

’’بے شک میں اللہ کی طرف سے عطا کردہ رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔‘‘

یعنی میں اللہ کی طرف سے تمہارے لیے تحفتاً اور نعمتاً رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں چالیس مقامات پر اپنے آپ کو صفتِ ربوبیت کے ذریعے متعارف کروایا۔ یاد رہے کہ قرآن مجید میں وارد ہونے والے الفاظ، حروف حتی کہ ان کی تعداد تک میں اللہ کی طرف سے کوئی نہ کوئی پیغام پنہاں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیامت تک آنے والے علماء و مفسرین اپنی اپنی بساط کے مطابق قرآن سے اکتسابِ فیض کرتے رہیں گے اور قرآن مجید ہر ایک کو اُن کے حسبِ حال علمی وفکری نکات اور ہر دور کے پیش آمدہ مسائل کا حل عطا فرماتا رہے گا۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے چالیس مرتبہ ہی کیوںخود کو رب العالمین کہا ہے؟ اس تعداد کو اس سے کم و بیش کیوں بیان نہیں فرمایا ؟ دراصل اس چالیس عدد کی نسبت حضور نبی اکرم ﷺ کی اعلانِ بعثت کی عمر سے ہے۔ اعلانِ بعثت سے قبل چالیس سال تک رب کائنات اپنی شان اور حضور علیہ السلام کی عظمت کے لائق انھیں دنیا میں آئندہ اپنا کردار ادا کرنے کی بابت تیاری کے مختلف مراحل سے گزارتا رہا۔ گویا اللہ تعالیٰ کا خود کو چالیس مرتبہ رب العالمین کہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر سال میں ایک مرتبہ اللہ رب العزت رب العالمینی کی اپنی ایک شان نبی کریم ﷺ کو تفویض فرماتا رہا اور جب چالیس شانیں مکمل طور پر اپنے نبی کریم ﷺ کو عطا فرمادیں تو پھر ان کو رحمۃ للعالمین بناکر بعثت کا اعلان کروادیا۔

آپ ﷺ نے انسانیت کو جن اخلاق و آداب سے آشنا کیا، ان تمام اخلاق و آداب کی بنیاد بھی رحمت ہی ہے۔ ان اخلاق و آداب کا دائرہ کار زندگی کے ہر پہلو اور طبقہ کو محیط ہے

امام فخرالدین رازی فرماتے ہیں:

فلما کان رحمة لکل العالمین لزم ان یکون افضل من کل العالمین.

(الرازی، تفسیر الکبیر، ج: 6، ص: 165)

جب حضور نبی اکرم ﷺ کو پورے جہانوں کے لیے رحمۃ للعالمین بنادیا تو لازم ہے کہ حضور ﷺ کو تمام جہانوں پر افضلیت بھی عطا ہو۔ آپ ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کا اظہار صرف آپ ﷺ کی ظاہری زندگی اور وصال مبارک تک ہی محدود نہیں بلکہ بعد از وصال بھی آپ ﷺ کی رحمت سے کائنات مستنیر و مستفیض ہورہی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

حیاتی خیرلکم ومماتی خیرلکم.

’’میری حیات بھی تمہارے لیے خیر ہے اور میرا وصال بھی تمہارے لیے رحمت ہے۔‘‘

یعنی میری زندگی بھی تمہارے لیے خیر اور رحمت ہے کیونکہ بذریعہ وحی الہٰی تمہیں میری نبوت و رحمت سے نئے نئے احکامات مل رہے ہوتے ہیں، اس لیے میرا وجود اور میری حیات تمہارے لیے رحمت ہے اور جب میں وصال اور پردہ فرماجاؤں گا تو میرا پردہ فرمانا بھی تمہارے لیے رحمت ہے۔ پوچھا گیا یارسول اللہ ﷺ ! آپ کا وصال کیسے رحمت ہوگیا؟ فرمایا :

تعرض علی اعمالکم فما رایت من خیر حمدت الله علیه وما رایت من شر استغفرت الله لکم.

(البزار، المسند، ج: 5، ص: 308، الرقم: 1925)

’’کیونکہ تمہارے اعمال میرے سامنے پیش ہوا کریں گے۔ چنانچہ اگر میں نیکیاں دیکھوں گا تو اللہ کا شکر بجا لایا کروں گا اور اگر میں (تمہارے اعمال نامے میں) برائیاں دیکھوں گا تو اللہ تعالیٰ سے تمہاری بخشش (و مغفرت کی دعا) مانگوں گا۔‘‘

پس جب تک تمہارے درمیان ہوں تب بھی رحمت ہوں اور جب بظاہر پردہ فرمالوں گا، تب بھی تمہارے لیے رحمت ہی ہوں گا اور اس رحمت کا اظہار اپنی امت کے گنہگاروں کی مغفرت کی دعا و سفارش کی صورت میں ہوگا۔

  • حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آقا علیہ السلام ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے:

إن عفريتا من الجن تفلت علي البارحة أو كلمة نحوها ليقطع علي الصلاة فأمكنني الله منه فأردت أن أربطه إلى سارية من سواري المسجد حتى تصبحوا وتنظروا إليه كلكم.

(بخاری، الصحیح، ج: 1، ص: 176، الرقم: 449)

گزشتہ شب میں نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک سرکش جن اچانک میرے سامنے آگیا تاکہ میری نماز توڑ دے مگر اللہ رب العزت نے مجھے اس پر غالب کردیا۔ اس وقت میں نے چاہا کہ میں اس سرکش جن کو مسجد نبوی کے کسی ستون کے ساتھ سختی کے ساتھ باندھ دوں تاکہ جب صبح ہو تو تم اس سرکش جن کو مسجد نبوی کے ستونوں سے بندھا ہوا دیکھو۔

مسند احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں اسے پکڑتا تو کوئی مجھ سے اسے چھڑوا نہ سکتا اور صبح اہل مدینہ کے بچے آکر اس کے اردگرد چکر لگاتے اور اسے دیکھتے۔

آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب میں ایسا کرنے لگا تو:

فذكرت قول أخي سليمان.

اسی وقت مجھے اپنے بھائی حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ قول اور ان کی خواہش یاد آگئی:

رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَهَبْ لِیْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْم بَعْدِیْ.

’’عرض کیا: اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو میسّر نہ ہو۔‘‘

آقا علیہ السلام کی شانِ رحمۃ للعالمینی دیکھیں کہ چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا جنات اور شیاطین پر تصرف تھا، اس لیے آپ ﷺ نے جن پر قابو پانے اور اس پر اختیار رکھنے کے باوجود حضرت سلیمان علیہ السلام کے حیاء میں کہ انھوں نے ایسی حکومت و تصرف کی دعا کی تھی کہ جو کسی اور کو میسر نہ آئے، اس خیال کے آتے ہی آپ ﷺ نے جن کو چھوڑ دیا۔

دوسری طرف ہمارا طرزِ عمل کیا ہے؟ اگر کوئی ہمارے قابو آجائے تو کسی صورت چھوڑتے ہی نہیں۔ ہمارا معیار اورمقام یہ ہے کہ طاقت سمائی نہیں جاتی اور بڑے بڑے دعوے اور اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ یاد رکھیں! بڑے وہ نہیں ہوتے جو طاقت و اختیار کا استعمال کریں بلکہ بڑے وہ ہوتے ہیں جو طاقت و تصرف کے باوجود طاقت کا استعمال نہ کریں۔لہذا تصرف و طاقت رکھتے ہوئے اس کو استعمال نہ کرنا عظمت و شانِ مصطفی ﷺ ہے۔

حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ غزوہ سے واپس آتے ہوئے ایک درخت کے نیچے آرام فرمارہے تھے اور آپ ﷺ کی تلوار درخت کی ٹہنی کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی۔ اچانک ایک کافر آیا اور اس نے آپ ﷺ کو سوتا دیکھ کر آپ ﷺ کی تلوار درخت سے اتار لی۔ اسی اثناء میں آپ ﷺ بیدار ہوگئے۔ اس کافر نے تلوار لہرا کر کہا:

من یمنعک منی؟

یا محمد ﷺ ! آج کون ہے جو آپ کو میری تلوار سے بچاسکے؟

آپ ﷺ نے بڑے آرام سے فرمایا: اللہ۔۔۔ میرا اللہ ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی آواز اس کے کانوں سے گزرتی ہوئی اس کے دل میں سرایت کرگئی اور اس پر لرزہ طاری ہوگیا۔ اسی لمحے تلوار اس کے ہاتھوں سے گرگئی۔ پھر آپ ﷺ نے وہ تلوار اٹھالی اور فرمایا:

اب تو بتاکہ اب تجھے کون میرے ہاتھ سے بچائےگا؟ اس نے کہا: کوئی نہیں سوائے آپ ﷺ کے۔ پھر آپ ﷺ نے اسے معاف فرمادیا۔

(مسلم، الصحیح، 4: 1786، الرقم: 843)

آپ ﷺ جب عالمِ نور میں تھے تو آپ ﷺ کا نور بھی رحمت تھا اور جب عالمِ بشریتِ میں منتقل ہوئے تو بشریتِ محمدی ﷺ بھی رحمت بن کر تشریف لائی

تصرف رکھتےہوئے چھوڑ دینا آپ کی شان رحمۃ للعالمینی ہے۔ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو جو تصرف و اختیار عطا فرمارکھا تھا، آپ ﷺ اس تصرف و اختیار کے استعمال میں بھی سراپا رحمت تھے۔ آپ ﷺ جس کسی کو تکلیف، بیماری اور مشقت میں دیکھتے تو آپ ﷺ کی رحمت یہ بات برداشت نہ کرپاتی کہ کوئی ایسی سخت تکلیف کے اندر رہے۔ چنانچہ آپ ﷺ اس شخص پر اپنی شانِ رحمۃ للعالمینی کے ساتھ ظاہر ہوتے اور اس کی تکلیف کو دور فرمادیتے۔ ذیل میں اس سلسلہ میں چند واقعات درج کیے جارہے ہیں:

1۔ حضرت سلیمان بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے مجھے بتایا کہ ایک عورت آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئی، اس کے ہاتھ میں ایک بچہ تھا، اس نے عرض کیا:

یارسول الله ان ابن هذا ذاھب العقل فادع الله له.

یارسول اللہ ﷺ ! میرے اس بچے کی عقل زائل ہوگئی ہے، اس کا ذہنی توازن کھوگیا اللہ کی بارگاہ میں اس کے لیے دعا کیجئے۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا: جاؤ اور ایک کٹورے میں پانی لے کر آؤ۔ وہ خاتون گئی اور ایک کٹورے میں پانی لے کر آگئی:

فتفل فيه وغسل وجهه ثم دعا فيه ثم قال اذهبي فاغسليه به واستشفي الله عز وجل.

آقا علیہ السلام نے لعاب دہن اس میں ڈال دیا پھر اس بچے کا چہرہ اس پانی سے دھودیا اور پھر وہ کٹورہ اس عورت کو دے دیا اور فرمایا کہ اس پانی سے اس بچے کو نہلاتی رہنا، یہ ٹھیک ہوجائے گا۔

حضرت سلیمان بن عمرو رضی اللہ عنہ کی والدہ کہتی ہیں کہ جب میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ تو بڑا کرم فرمارہے ہیں تو میں اس عورت کے پاس گئی اور اسے کہا کہ:

هب لي منه قليلا لابني هذا فأخذت منه قليلا بأصابعي فمسحت بها شقة ابني فكان من أبر الناس.

(احمد بن حنبل، المسند، 6: 379، الرقم: 27175)

تھوڑا سا پانی میرے بیٹے سلیمان کے لیے بھی دے۔ تو اس نے مجھے تھوڑا سا پانی دے دیا۔ وہ پانی میں نے سلیمان کے سر پر مل دیا۔ پس وہ لوگوں میں سب سے زیادہ ذہین اور نیک ہوگیا اور پھر اس کی ذہانت و متانت کا کوئی مقابلہ نہ کرتا تھا۔

حضرت سلیمان کی والدہ کہتی ہیں کہ میں یہ دیکھ کر حیران ہوئی کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے لعاب دہن کی برکت سے چند قطروں نے یہ کمال دکھایا کہ میرا بیٹا ذہین وفطین ہوگیا تو وہ خاتون جو پورا کٹورا لے گئی تو اس کے بچے کا عالم کیا ہوگا؟ اب میری والدہ اسے ڈھونڈنے لگیں، ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس بیمار بچے کی والدہ تک پہنچ گئیں اور اس سے پوچھا کہ اے بہن! تیرے بچے کا کیا حال ہوا؟ اس نے جواب دیا:

برئ أحسن برء: جیسے ہی حضور ﷺ نے کرم کیا تو وہ ایسا تندرست ہوا کہ بڑے بڑے عقل والوں سے بھی زیادہ عقلمند ہوگیا۔

یہ واقعہ ایک طرف حضور نبی اکرم ﷺ کے معجزہ اور آپ ﷺ کے لعابِ دہن کی برکت کا اظہار ہے تو دوسری طرف حضور نبی اکرم ﷺ کی شان رحمۃ للعالمینی ہے کہ آپ ﷺ رحمت کا اظہار کرتے ہوئے اس بچے کے جنون کو رفع کرنے کی طرف متوجہ ہوئے اور وہ بچہ رحمتِ مصطفی ﷺ کے سبب صحت یاب ہوگیا۔

آپ ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کا اظہار صرف آپ ﷺ کی ظاہری زندگی اور وصال مبارک تک ہی محدود نہیں بلکہ بعد از وصال بھی آپ ﷺ کی رحمت سے کائنات مستنیر و مستفیض ہورہی ہے

2۔ حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن ان کی آنکھ دشمن کے تیر کا نشانہ بن گئی اور تیر اتنا زور سے لگا کہ میری آنکھ کا ڈھیلہ نکل کر چہرے پر لٹک گیا۔ میں پریشان ہوا تو دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مشورہ دیا کہ اے قتادہ تو اسے کٹوادے۔ میں نے کہا کہ جب تک حضور ﷺ کچھ نہیں فرمائیں گے، میں نہیں کٹواؤں گا۔ جب حضور ﷺ موجود ہیں مجھے کہیں اور جانے کی ضرورت کیا پڑی۔ جب آقا علیہ السلام تشریف لائے تو میں نے اپنی آنکھ کا حال دکھایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے قتادہ تجھے اسے کٹوانے کی ضرورت نہیں ہے، میرے پاس آؤ۔ جب میں آپ ﷺ کے قریب ہوا تو آپ ﷺ نے اپنے دستِ اقدس میں اس ڈھیلے کو پکڑ کر آنکھ کے اندر دوبارہ نصب کردیا۔ اب وہ ڈھیلہ آنکھ میں ایسا جڑا کہ کوئی یہ نہیں بتاسکتا تھا کہ زخمی آنکھ کون سی تھی اور ٹھیک کون سی تھی۔

(ابویعلیٰ، المسند، 3: 120، الرقم: 1549)

یہ حضور نبی اکرم ﷺ کی شان رحمۃ للعالمینی ہے کہ آپ ﷺ نے یہ گوارا نہ فرمایا کہ اُن کا کوئی صحابی ایک آنکھ سے محروم ہوکر جسمانی نقص کا شکار ہوجائے۔ لہذا آپ ﷺ نے اپنے تصرف و اختیار کو استعمال فرمایا اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ دوبارہ روشن فرمادی۔

3۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ ایک دفعہ اندھیری رات تھی اور میرے دل میں ایک خواہش اور تڑپ پیدا ہوئی کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں جاؤں اور آپ ﷺ کا دیدار کروں اور آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھوں۔ جب نکلا تو اس وقت گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا اورمجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ بڑی مشکل سے میں بارگاہ مصطفی ﷺ میں پہنچا۔ آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ ﷺ کا دیدار کیا اور جب واپس گھر جانے لگا تو اندھیرا مزید شدید ہوگیا۔ آپ ﷺ نے مجھے پریشان دیکھا تو فرمایا کہ: اے قتادہ! کیا مسئلہ ہے؟ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، اندھیرا شدید ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

خذ هذا العرجون فتخصر به فإنك إذا خرجت أضاء لك عشرا أمامك وعشرا خلفك ثم قال إذا دخلت بيتك فاضرب به مثل الحجر الأخشن في أستار البيت، فإن ذلك الشيطان فخرجت فأضاء لي ثم ضربت مثل الحجر الأخشن حتى خرج من بيتي.

(الھندی، کنزالایمان، 12: 170، الرقم: 35393)

اے قتادہ یہ کھجور کی خشک شاخ لے لو، یہ تیرے لیے دس ہاتھ آگے اور دس ہاتھ پیچھے تک روشنی کردے گی۔ پھر فرمایا کہ جب تم گھر کے اندر داخل ہوگے تو پتھر کی مانند ایک چیز تیرے گھر کے بائیں طرف ہوگی۔ تم داخل ہوتے ہی میری یہ دی ہوئی چھڑی اس کو مارنا تو وہ چلا جائے گا اور وہ شیطان ہوگا۔

حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں کہ میں وہ خشک چھڑی پکڑ کر روانہ ہوا تو راستے میں وہ چھڑی مشعل بن گئی اور جہاں جہاں سے میں گزرا، وہ راستے روشن ہوتے چلے گئے۔ جب میں گھر میں داخل ہوا تو بائیں طرف دیکھا تو پتھر کی مانند کوئی چیز جامد پڑی تھی۔ میں نے اسے مارا تو وہ میرے گھر سے باہر نکل گیا۔

یہ حضور نبی اکرم ﷺ کی شان رحمۃ للعالمینی ہے کہ اپنے ایک صحابی کو اندھیری رات میں گھر جانے کے لیے روشنی بھی عطا فرمارہے ہیں تاکہ وہ جسمانی اور ذہنی اذیت سے محفوظ رہے۔ نیز شیطان کے حملوں اور آنے والے مصائب سے بھی بچانے کا اہتمام فرمارہے ہیں۔

مجھ سے شدید محبت کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو میرے بعد کے دور میں آئیں گے۔ ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہوگا کہ کاش میرے اہل و عیال اور مال کے بدلے میں مجھے حضور ﷺ کا دیدار ہوجائے

4۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حدیبیہ کے سفر کے دوران ایک دن پیاس نے ہمیں شدید ستایا۔ ہمارے پاس نہ پینے کے لیے پانی تھا اور نہ وضو اور طہار ت کے لیے تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! پیاس سے ہمارا برا حال ہے، کرم فرمایئے۔ تو آپ ﷺ نے چند قطرے پانی کے لانے کا حکم دیا۔ صحابہ پانی کے خالی برتنوں سے چند قطرے پانی اکٹھا کر لائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ:

فوضع يده في الركوة فجعل الماء يثور بين أصابعه كأمثال العيون فشربنا وتوضأنا قلت كم كنتم قال لو كنا مائة ألف لكفانا كنا خمس عشرة مائة.

(بخاری، الصحیح، ج: 3، ص: 1310، الرقم: 3383)

آپ ﷺ نے اس چھاگل میں اپنے دست اقدس ڈال دیئے تو آپ ﷺ کی انگلیوں کے پوروں سے پانی کے چشمے جاری ہوگئے اور اس قدر پانی نکلا کہ ہم نے سیر ہوکر پیا بھی، وضو بھی کیا اور طہارت بھی حاصل کی۔ راوی نے حضرت جابر سے پوچھا کہ آپ کتنے لوگ تھے؟ وہ فرماتے ہیں کہ خدا کی عزت کی قسم ایک لاکھ کی تعداد بھی ہوتی تو وہ پانی کافی رہتا مگر ہماری تعداد تو پندرہ سو تھی۔

مذکورہ واقعات ایک طرف تو آپ ﷺ کے معجزات میں شمار ہوتے ہیں مگر دوسرے زاویہ سے دیکھا جائے تو آپ ﷺ اپنے تصرفات و اختیارات کا استعمال اس وقت فرمارہے ہیں جب کوئی ایک صحابی یا زیادہ صحابہ کسی مشکل، پریشانی اور تکلیف میں مبتلا ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ اپنی شانِ رحمۃ للعالمینی کی وجہ سے ان صحابہ کی تکالیف برداشت نہیں کرتے اور اپنے تصرفات و اختیارات کا استعمال کرتے ہیں۔

5۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز آقا علیہ السلام نے نماز کی امامت سے فارغ ہوکرفرمایا:

أتموا الركوع والسجود فوالذي نفسي بيده إني لأراكم من بعد ظهري إذا ما ركعتم وإذا ما سجدتم.

(بخاری، الصحیح، ج: 6، ص: 2449، الرقم: 6268 )

جب میرے پیچھے نماز پڑھ رہے ہو تو اپنے رکوع اور سجود کو مکمل کیا کرو۔ جب تم رکوع اور سجود کرتے ہو تو احتیاط سے کیا کرو کہ میں تمہیں سامنے سے بھی دیکھ رہا ہوتاہوں، تمہارے پیچھے سے بھی تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہوں اور تمہارا خشوع اور خضوع بھی اپنی نگاہوں سے دیکھ رہا ہوتا ہوں۔

آپ ﷺ کا یہ فرمان جہاں ایک طرف آپ ﷺ کے علم اور نگاہ کی لامحدودیت کی طرف اشارہ ہے، وہاں رحمت کا ایک اظہار بھی ہے۔ آپ ﷺ کی رحمت نے یہ گوارا نہ کیا کہ میرے صحابہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی درست ادائیگی نہ کرنے کے سبب کہیں اس کی بارگاہ سے ملنے والی برکتوں اور رحمتوں سے محروم نہ رہ جائیں، اس لیے اپنے صحابہ کے رکوع اور سجود بھی درست کرواکر انھیں خشوع و خضوع کی تعلیم دی اور اللہ کی رحمت کا مستحق بنادیا۔ اسی طرح انھیں عبادات کی ادائیگی میں درست کرکے اپنی شانِ رحمۃ للعالمینی کا اظہار بھی فرمادیا۔

آپ ﷺ کی رحمت یہ بات برداشت نہ کرپاتی کہ کوئی سخت تکلیف اور مشقت کے اندر رہے۔ چنانچہ آپ ﷺ اس شخص پر اپنی شانِ رحمۃ للعالمینی کے ساتھ ظاہر ہوتے اور اس کی تکلیف کو دور فرمادیتے

آپ ﷺ کی شانِ رحمت للعالمینی کا ایک فیض وہ ہے جو حضور ﷺ کی بارگاہ میں بیٹھنے والوں کو مل رہا تھا اور دوسرا فیض وہ ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کے دور میں آنے والوں کومل رہا ہے۔ اس لیے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا:

وددت اني لقيت إخواني فقال أصحاب النبي أو ليس نحن إخوانك؟ قال أنتم أصحابي ولكن إخواني الذين آمنوا بي ولم يروني.

(مسند احمد بن حنبل، ج: 3، ص: 155، الرقم: 12601)

کاش میں اپنے بھائیوں سے ملوں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی: کیا ہم آپ ﷺ کے بھائی نہیں؟ فرمایا: تم میرے اصحاب ہو میرے بھائی تو وہ ہوں گے جو بعد والے زمانوں میں آئیں گے، وہ مجھ پر ایمان لائیں گے لیکن مجھے دیکھا نہ ہوگا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

من أشد أمتي لي حبا ناس يكونون بعدي يود أحدهم لو رآني بأهله وماله.

(صحیح مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا، ج: 4، ص: 2178، الرقم: 2832)

مجھ سے شدید محبت کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو میرے بعد کے دور میں آئیں گے۔ ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہوگا کہ کاش مجھے حضور ﷺ کا دیدار ہوجائے، بے شک میری اولاد بھی لے لو، میرے والدین بھی لے لو، میرا مال و متاع بھی لے لو، میرا من بھی لے لو، میری جان، مان اور شان بھی لے لو لیکن مجھے میرے مصطفی ﷺ کا دیدار کرادو۔

آج منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اسی طرح کے جذبہ عشق و محبت کو فروغ دینے کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے منعقدہ تمام تقاریب اور محافل کے انعقاد کا مقصد حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نسبت و تعلق کو مضبوط و مستحکم کرنا ہے۔۔۔ دلوں میں حضور ﷺ کی محبت کے چراغ روشن کرنا ہے۔۔۔ حضور ﷺ کا عشق ، مؤدت، ادب اور توقیر لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنا ہے۔ شیخ الاسلام نے تحریک منہاج القرآکے ذریعے مصطفوی مشن کے چراغ اس لیے جلائے ہیں تاکہ اس دورکی رحمت کا مزہ ہم بھی چکھ سکیں۔ اس لیے کہ حضور ﷺ کی رحمت کے لیے کوئی زمانہ مقید نہیں ہے جیسے آپ ﷺ کی رحمت اُس وقت تھی، ویسے ہی آج کے دور میں اِس وقت بھی ہے۔

آقا علیہ السلام کی رحمت کا پیغام یہ ہے کہ مجھے ماننے والے اور مجھ سے محبت و عشق کا دعویٰ کرنے والے خود بھی پیکرِ رحمت بن جائیں۔۔۔ اپنی طبیعتوں میں نرمی و گداز پید اکرنے والے بن جائیں۔۔۔ اپنی طبیعت میں رفق اور درگزر پیدا کریں۔۔۔ لوگوں کو معاف کرنا سیکھیں۔۔۔ لوگوں کو اپنے قریب لانا سیکھیں۔۔۔ لوگوں کے دلوں کو اپنے دلوں سے جوڑنا سیکھیں۔۔۔ اگر کوئی غلطی کرے تو معاف کرنا سیکھیں۔۔۔ یہی حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ رحمۃ اللعالمینی کا فیض ہے۔