انسانی شخصیت میں عاجزی کمالِ بندگی ہے

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا.

(الفرقان، 25: 63)

’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں۔‘‘

عاجزی و انکساری انسان کی شخصیت کا بہت ہی خوبصورت وصف ہے اور یہ وصف اس وقت پروان چڑھتا ہے جب انسان اپنے دل میں اللہ کی عظمت کا احساس اجاگر کرلیتا ہے۔ اس سوچ کے نتیجے میں انسان میں احساسِ برتری، احساسِ عاجزی میں بدل جاتا ہے۔ معرفتِ الہٰی انسان کو عاجزی وانکساری کا پیکر بناتی ہے۔

اس حقیقت میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ معرفت و قربت الہٰی میں بڑا بلند و بالا مرتبہ و مقام صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہے۔ اسی بنا پر اللہ کی بارگاہ میں مقامِ بندگی اور مقامِ انکساری کا جو قرب و اعزاز آپ ﷺ کو حاصل ہے، کوئی اور فرد بشر اس میں شریک نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ اعلیٰ و ارفع مقامات پر فائز تھے، اس کے باوجود آپ ﷺ ساری حیات میں عجز و انکساری کا پیکر بن کر رہے۔ آپ ﷺ نے تکبر و رعونت اور مطلق العنان احساسِ برتری سے اپنے کردار کو مبرا و منزہ رکھا ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے اپنی امت کو تواضع و انکساری اور عاجزی کی تعلیم دیتے ہوئے اشاد فرمایا:

مَنْ تَوَاضَعَ لِأَخِيهِ الْمُسْلِمِ رَفَعَهُ اللهُ، وَمَنْ ارْتَفَعَ عَلَيْهِ وَضَعَهُ اللهُ.

(المعجم الاوسط، 7: 354، الرقم: 7711)

جو اپنے مسلمان بھائی کے لیے عاجزی کرتا ہے باری تعالیٰ اسے سربلند کرتا ہے اور جو اس پر اپنی برتری جتاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے پست کرتا ہے۔

عظمت و کبریائی اور سروری فقط رب کو زیبا ہے۔ بندے کی بندگی کا زیور عاجزی و انکساری ہے۔ حدیث قدسی ہے:

الکبریاء ردائی.

’’کبریائی میری چادر ہے۔ ‘‘

(مسند احمد بن حنبل، ج: 2، ص: 248، الرقم: 7376)

عاجزی و انکساری میں انسانی عظمت مضمر ہے جبکہ تکبر و استکبار میں انسان کی تباہی و بربادی پوشیدہ ہے۔ سفرِ زیست میں جب بھی انسان تفوق اور استکبار کا شکار ہونے لگے تو اسے چاہیے کہ اپنی زندگی کو صحیح سمت دینے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی اور سیرت سے راہنمائی حاصل کرے۔

عاجزی و انکساری کے حصول میں حائل رکاوٹیں

انسانی زندگی میں کچھ عوامل اور اسباب پیش ایسے آتے ہیں جو انسان سے عاجزی اور انکساری کا وصف چھین لیتے ہیں اور اس میں تکبر و استکبار اور غرور و رعونت پیدا کردیتے ہیں۔ ذیل میں ان ہی میں سے چند عوامل کا تذکرہ کیا جارہا ہے:

(1) خوشحالی اور کثرتِ دنی

عاجزی و انکساری کی راہ میں سب سے بڑا عامل انسان کا خوشحال ہوجانا ہے۔ یہ خوشحالی انسان سے عاجزی و انکساری کا وصف چھین لیتی ہے۔ مگر ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ کی وہ حیات ہے جو ہمیں زندگی کے ہر حال اور زندگی کے ہر موڑ پر سنبھالتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے شاہی زندگی پر عجز و انکسار کی زندگی کو ترجیح دی ہے۔ اگر آپ ﷺ اپنی زندگی کو خوشحال ہی خوشحال بنانا چاہتے تو اس کا عالم یہ ہوتا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں:

لَوْ شِئْتُ لَسَارَتْ مَعِيَ جِبَالُ الذَّهَبِ.

(احمد بن علی، مسند ابی یعلی، رقم الحدیث: 4920)

’’اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں۔‘‘

اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو باری تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ ساتھ بادشاہت کی دنیوی نعمت اختیار کرنے کا موقع بھی دیا تو آپ ﷺ نے بادشاہت پر اللہ کی بندگی اور عبدیت کو ترجیح دی۔ آپ ﷺ سے فرمایا گیا:

إِنْ شِئْتَ نَبِيًّا عَبْدًا وَإِنْ شِئْتَ نَبِيًّا مَلِكًا. فَقُلْتُ نَبِیًا عَبْدًا.

(احمد بن علی، مسند ابی یعلی، رقم الحدیث: 4920)

’’اگر آپ چاہیں تو نبی عبد بنیں اور اگر آپ چاہیں تو بادشاہ نبی بنیں۔ تو اس سوال اور اختیار کے جواب میں آپ ﷺ نے عرض کیا: اے میرے رب میں نبی عبد (بندگی والا نبی) بنوں گا۔‘‘

جب ہم رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس میں عجزو انکسار کے یہ مظاہر اور نمونے دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ جوں جوں باری تعالیٰ کی نوازشات کی رم جھم بڑھتی ہے توں توں آپ ﷺ کی عاجزی و انکساری میں بھی مزید اضافہ ہونے لگتا ہے۔ واقعہ معراج میں باری تعالیٰ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ میں آپ ﷺ کو کس لقب سے مشرف کروں؟ تو آپ ﷺ نے عرض کیا:

يا رَبِّ بِأنْ تَنْسِبَنِي إلى نَفْسِكَ بِالعُبُودِيَّةِ.

(فخرالدین رازی، التفسیر الکبیر، ج: 20، ص: 117)

’’مولا مجھے اپنی ذات سے نسبتِ عبدیت کے ساتھ منسوب کر۔‘‘

اب کائناتِ انسانی کا اس سے بڑا منصب، مقام اور رتبہ و اعزاز نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہے۔ واقعہ معراج کے موقع پر جس لفظ کو معراج دی گئی، وہ لفظِ عبدیت ہے۔ مقامِ عبدیت کا کمال اور عروج سراپا عاجزی اور انکساری ہے۔

(2) فتح و کامیابی

دوسرا بڑا عامل جو ہمارے وجود میں پنپنے والی عاجزی و انکساری پر حملہ آور ہوتا ہے، وہ فتح و کامرانی کی منزل کو پالینے کے بعد کا روّیہ ہے جس کے بعد بندہ اپنے ماتحتوں اور کمزوروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتا ہے۔ انسان عام حالات میں عجزو انکسار ی اختیار کررہا ہوتا ہے مگر دشمن پر فتح و کامیابی اس کی سوچ پر اثر انداز ہوتی ہے اور ایسے موقع پر وہ عاجزی و انکساری کا راستہ چھوڑ کر تکبر و رعونت اور طاقت و قوت کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ اپنے دشمن اور فریقِ مخالف پر ظلم و سرکشی کی انتہا کردیتا ہے۔ قرآن حکیم انسان کے اس شاہانہ اور حاکمانہ مزاج اور رویے کا اظہار یوں کرتا ہے:

اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَةً اَفْسَدُوْهَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّةَ هْلِهَا اَذِلَّةً وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ.

(النمل، 27: 34)

’’ بے شک جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اُسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل و رسوا کر ڈالتے ہیں اور یہ (لوگ بھی) اسی طرح کریں گے۔ ‘‘

انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ بادشاہوں نے فتح و کامرانی کے نشے میں لوگوں کے سروں کے مینار بنائے ہیں، قتل و غارت گری کی انتہا کردی اور ہر طرف لاشوں کے ڈھیر لگائے مگر رسول اللہ ﷺ کی سیرت و اسوہ نے اس موقع پر بھی انسانوں کو عاجزی و انکساری کا پیغام دیا ہے کہ فتح و کامرانی پر بھی اللہ کے حضور شکر گزار بنو، نہ کہ انسانوں پر اظہارِ فخر کرکے ان کا جینا دوبھر کردو۔ اس لیے کہ شکر گزاری سے انسانی طبیعت میں عجزو انکسار آتا ہے۔ فتح و کامرانی انسانی زندگی میں وہ موقع ہوتا ہے جب انسان تکبر و استکبار کی رو میں بہہ جاتا ہے اور وہ دوسرے انسانوں پر ظلم و ستم شروع کردیتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا یہ گوشہ بھی ہماری شخصیت کو سنوارتا ہے کہ جب باری تعالیٰ نے آپ ﷺ کو فتح مکہ کے موقع پر کامیابی و کامرانی سے نوازا اور اپنے دشمن پر غلبہ و تفوق دیا تو آپ ﷺ ایک فاتح کی حیثیت سے مکۃ المکرمہ میں داخل ہوئے لیکن آپ ﷺ کا رویہ فاتح بادشاہوں اور فاتح حکمرانوں کا نہ تھا بلکہ اللہ کے شکر گزار بندوں کا تھا۔ غرور و تکبر کا دور دور تک نشان بھی نہ تھا۔ آپ ﷺ سراپا پیکرِ عجزو انکساری اور اللہ کی بارگاہ میں ہر لحظہ اور ہر لمحہ شکر گزار بنے ہوئے تھے۔ اس شکر گزاری کے آثار آپ ﷺ کے وجودِ اقدس پر بڑے ہی نمایاں تھے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ کے مکہ معظمہ میں داخلے کی منظر کشی یوں کی ہے:

وإن رسول الله ﷺ ليضع رأسه تواضعا لله حين رأى ما أكرمه الله به من الفتح حتى إن عثنونه ليكاد يمس واسطة الرحل ۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، ج5، ص 63)

جب آپ ﷺ نے مکہ کے فتح ہونے کا منظر اور عزت و شان دیکھ لی توبلاشبہ رسول اللہ ﷺ کا سر انور عاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ کے حضور اس قدر جھکا ہوا تھا کہ قریب تھا کہ آپ ﷺ کی ریش مبارک کے بال کجاوے کو چھولیں۔ ‘‘

رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا یہ پہلو ہمیں راہنمائی دیتا ہے کہ ہماری زندگی میں جب بھی کامیابی و کامرانی کے لمحات آئیں تو ہم اپنی انسانیت کو گم نہ کریں۔ ہمارے اندر کا حیوان بے قابو نہ ہوجائے، ہم اپنی خوشی میں دوسروں کو غم نہ دیں۔ دوسرے افراد کا جینا حرام نہ کریں، اپنی کامیابی میں اندھے نہ ہوں بلکہ ہم سیرت الرسول ﷺ سے پیغامِ حیات لیتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں شکر گزار بن جائیں تاکہ اس نعمت کے ذریعے اللہ کی مزید نعمتوں کے مستحق بن جائیں۔ اس لیے کہ اس کا وعدہ ہے کہ

لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ.

(ابراهیم، 14: 7)

’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا۔‘‘

(3) اندھی محبت و عقیدت

انسانی وجود سے عاجزی اور انکساری کو چھیننے والی ایک اور چیز اندھی محبت و عقیدت بھی ہے۔ انسان کے کسی وصف کی بنا پر دوسرے انسان اس کو بے پناہ محبت اور بے مثال عقیدت دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو قابلِ احترام اور مستحقِ تکریم سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس جب کبھی اہلِ محبت اور اہلِ عقیدت کے علاوہ اس کا واسطہ دوسرے انسانوں سے پڑتا ہے تو وہ اس کی اس طرح قدر دانی نہیں کرتے اور اس طرح کی عقیدت و محبت نہیں دیتے تو وہ بگڑ جاتا ہے۔ اس کا مزاج اب ان رویوں کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا ہے۔ ایسے انسان کی طبیعت کا معاملہ بھی بچے کی طبیعت جیسا ہوجاتا ہے۔ مگر انسانی معاشرے کا یہ عمومی مزاج، مروجہ اسلوبِ حیات اور عادتِ جاریہ بھی سیرت الرسول ﷺ کے سامنے سرنگوں ہوجاتی ہے۔

دنیائے محبت و عقیدت میں جس قدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ کی عزت و تکریم کی ہے، جس قدر آپ ﷺ کی ذات سے عقیدت و محبت کی ہے اور جس قدر والہانہ عشق و وارفتگی کا تعلق آپ ﷺ سے رکھا ہے، دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ ﷺ کی ہر ادا پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے آمادہ رہتے تھے اور اس عمل کو وہ اپنا کمال سمجھتے تھے۔ وہ ہر اس چیز پر اپنی عقیدتوں کے پھول نچھاور کرتے تھے جس کا ذرا سا بھی تعلق شاہ خوباں کے ساتھ ہوتا تھا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا آپ ﷺ کے ساتھ ادب و تعظیم اور عقیدت و محبت کا ایسا رشتہ قائم تھا کہ جس کی مثال اس وقت کی موجود دنیا میں نہ تھی حتی کہ ظہور اسلام کے بعد سے اب تک انسانی دنیا میں اس کی کوئی نظیر اور کوئی مثال قطعاً نہیں ملتی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور نبی اکرم ﷺ کا اس حد تک ادب و احترام کرتے کہ جب آپ ﷺ اپنا لعابِ دہن پھینکتے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسے زمین پر نہ گرنے دیتے بلکہ اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتے، جب آپ ﷺ وضو کرتے تو آپ ﷺ کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اور بے حد تعظیم کی وجہ سے آپ ﷺ کی طرف نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ساری محبتیں اور عقیدتیں رسول اللہ ﷺ کی عاجزی اور انکساری میں اضافہ کرتی رہی ہیں۔ جس قدر آپ ﷺ کو اللہ کی نعمتیں اور اس کا فضل زیادہ سے زیادہ میسر آتا، اسی قدر آپ ﷺ کا عجزو انکسار اور آپ ﷺ کا عملِ شکر بڑھ جاتا تھا اور آپ ﷺ پہلے سے زیادہ اپنی عبادت میں اضافہ کردیتے اور ہر نعمت کو اللہ کی ذات کی طرف منسوب کرتے۔

حیاتِ مصطفی ﷺ سے عاجزی و انکساری کے مظاہر کے چند واقعات

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہر موقع پر آپ ﷺ کے ساتھ اپنی محبتوں اور عقیدتوں کا اظہار کرتے تھے اور یوں وہ اپنے ایمان کو کامل اور اکمل کرتے رہتے تھے۔ ذیل میں چند واقعات درج کیے جاتے ہیں:

(1) مساوات کی عملی مثال

غزوہ بدر کے موقع پر جب سفر شروع ہوا تو سواری کے لیے اونٹ کم تھے۔ ایک اونٹ پر باری باری تین تین افراد سوار ہوتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے حصے میں جو دو افراد آئے، ان میں سے ایک حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور دوسرے حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ تھے۔ اب باری باری سوار ہونے لگے تو جب رسول اللہ ﷺ کی باری پیدل چلنے کی آئی تو دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما عرض گزار ہوئے: یارسول اللہ ﷺ ! ہمارے لیے سعادت ہے کہ آپ ﷺ سوار ہوں اور ہم دونوں پیدل چلیں گے۔

اب یہاں سیرت النبی ﷺ کے ذریعے کردارِ رہبر، کردارِ مذہبی پیشوا اور کردارِ حاکم و سربراہ متعین ہونا تھا، آپ ﷺ نے ان دونوں کی پیشکش کے جواب میں فرمایا:

ما أنتما بأقوى على المشي مني وما أنا بأغنى عن الأجر منكما.

(رواہ احمد بن حنبل فی مسنده، ج: 7، ص: 422)

’’تم دونوں چلنے میں مجھے سے زیادہ قوی و طاقتور نہیں ہو اور میں تم دونوں سے کم اجر کا حاجت مند بھی نہیں ہوں۔ ‘‘

ہمارے معاشرے کے تمام مسائل کا حل سیرت النبی ﷺ کے اس اسلوب کی پیروی میں ہے۔ ایک مذہبی راہنما اور سیاسی رہبر بھی یہ اسوۂ سیرت اختیار کرے۔ قوم کی نجات بہترین عمل میں ہے اور اس کائنات انسانی میں سب سے بہترین عمل رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ اسی عمل اور کردار کو اپنانے کے لیے باری تعالیٰ نے ہمیں حکم دیاہے کہ

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ.

(الاحزاب، 33: 21)

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول الله (ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘

(2) گھریلو کام کاج کی ادائیگی

رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات اور شخصیت میں عاجزی و انکساری کی جو مثالیں قائم کی ہیں اور اس ضمن میں اپنا اسوۂ حسنہ امت کو دیا ہے، وہ قیامت تک انسانوں کی شخصیتوں کو خوبصورت، دلکش اور جاذب نظربناتا رہے گا۔ یہ آپ ﷺ کی عاجزی و انکساری ہی تو تھی کہ آپ ﷺ اپنے کام خود کرتے تھے اور گھریلو کام کرنے میں اپنی توہین نہ سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مل کر کام کرنے کو کبھی احساسِ کمتری نہ سمجھتے تھے اور بلاتردد ان کے ساتھ ہر کام میں شریک ہوجاتے تھے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پھول ہر جگہ پھول ہوتا ہے، وہ جہاں ہوتاہے اس جگہ کو مہک دار اور خوبصورت بنادیتا ہے۔ آپ ﷺ کبھی انفرادی اور اجتماعی کام کو سرانجام دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے تھے اور معمولی کام کو کبھی منصب کے خلاف و منافی نہ سمجھتے تھے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

کان یکون فی مھنة اھله تعنی خدمة اھله فاذا حضرت الصلاة خرج الی الصلاة.

(بخاری، الصحیح، ج: 1، ص: 239، الرقم: 643)

’’رسول اللہ ﷺ گھر میں ہوتے ہوئے گھر کے کام کاج میں مصروف رہتے تھے جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ نماز کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ ‘‘

اب گھر کے کام کاج کی کچھ تفصیلات بھی ہمیں دوسری روایات میں میسر آتی ہیں کہ

کان رسول الله یخصف نعله ویخیط ثوبه ویعمل فی بیته کما یعمل احدکم فی بیته.

(مسند امام احمد بن حنبل، ج: 6، ص: 167، رقم الحدیث: 25380)

’’رسول اللہ ﷺ اپنے نعلین خود درست کرلیتے تھے، اپنے کپڑوں کو پیوند لگالیتے، اپنے گھر میں ایسے ہی کام کرتے تھے جیسے تم اپنے گھروں میں کام کرتے ہو۔ ‘‘

یہ سارے امور رسول اللہ ﷺ کی شانِ عجز و انکسار کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان تمام کاموں کے لیے ازواج مطہرات، آپ ﷺ کے جانثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے مگر آپ ﷺ یہ سارے کام از خود کرکے امت کو اپنی سنت سکھا رہے تھے اور اپنی سیرت بتارہے تھے اور قیامت تک آنے والی اپنی امت کو زیست کے اسلوب سمجھا رہے تھے۔

(3) اجتماعی امور میں عملی شرکت

مسجد نبوی کی تعمیر ہوتی ہے تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تعمیرِ مسجد کے عمل میں شریک ہوجاتے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ بھی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ تعمیرِ مسجد کے عمل میں شریک ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پتھر اٹھا اٹھا کر لارہے ہیں تو آپ ﷺ بھی ان کےساتھ شریک ہوکر یہ ساری چیزیں اٹھا رہے ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

و طفق رسول الله ینقل معهم اللبن فی بنیانه.

(صحیح بخاری، ج: 3، ص: 1421، رقم الحدیث: 3694)

’’رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مسجد کی تعمیر کے لیے اینٹیں اٹھا اٹھا کر لارہے تھے۔‘‘

  • ایک مرتبہ ایک سفر کے دوران صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بکری ذبح کی اب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ذبح کے بعد سارے کام باہم بانٹ لیے۔ کسی نے کہا میں اس کی کھال اتارتا ہوں، کسی نے کہا میں اس کا گوشت بناتا ہوں، کسی نے کہا میں اس کو پکاتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

و علی جمع الحطب.

میں اس کو پکانے کے لیے لکڑیاں اکٹھی کرتا ہوں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے روکنے کے باوجود آپ ﷺ اس عمل میں شریک ہوئے۔

(خلاصة السیر سیدالبشر، محب الطبری، 1: 87)

(4) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشاورت

رسول اللہ ﷺ کو باری تعالیٰ نے عاجزی و انکساری کی یہ شان عطا کی کہ باوجود اس کے کہ آپ ﷺ امام الانبیاء ہیں، آپ ﷺ پر وحی کا نزول ہوتا ہے، ہر موقع پر آپ ﷺ کو اللہ کی بارگاہ سے راہنمائی میسر آتی ہے مگر آپ ﷺ مختلف معاملات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشاورت کرتے تھے اور ان کے مشورے پر عمل بھی کرتے تھے۔

  • غزوہ احد کے موقع پر آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشاورت کی کہ جنگ شہر کے اندر رہتے ہوئے لڑی جائے یا باہر جاکر لڑی جائے۔ آپ ﷺ کی رائے شہر کے اندر رہتے ہوئے جنگ لڑنے کی تھی مگر آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی رائے کو اپنی رائے پر ترجیح دی۔
  • غزوہ بدر کے موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:

اشیروا علی ایها الناس.

(السیرة الحلبیة، ج: 2، ص: 692)

’’اے لوگو مجھے مشورہ دو۔ ‘‘

وہ مشورہ اس بات پر تھا کفار کے قافلے کا تعاقب کیا جائے یا ان کے لشکر کا مقابلہ کیا جائے۔

  • اسی طرح میدان بدر میں لشکر اسلام ایک جگہ اتر گیا اور وہیں پڑاؤ کرلیا۔ حضرت حباب بن منذر نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ اس جگہ کا انتخاب اللہ کا حکم ہے یا آپ ﷺ کی تدبیرِ ذاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میری رائے ہے۔ عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! جہاں پانی زیادہ ہے، جنگی نقطہ نظر کے مطابق ہمیں وہاں پڑاؤ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسلامی لشکر کو حضرت حباب بن منذر کی رائے پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ (شیخ محمد رضا مصری، محمد رسول اللہ، ص: 30)

(5) اصول و قانون کی پاسداری

رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس کو باری تعالیٰ نے عاجزی و انکساری کی وہ شان عطا کی کہ آپ ﷺ نے کبھی خود کو قانون سے بالا نہیں سمجھا اور کبھی بھی آپ ﷺ نے تکبر اور سرکشی کو اختیار نہیں کیا۔ آپ ﷺ قانونِ اسلامی کو سب انسانوں کے لیے مساوی سمجھتے تھے اور کسی بھی طاقتور کو قانون سے بالا نہیں ہونے دیتے تھے۔ تاریخ میں قانون ہمیشہ طاقتوروں کا محافظ رہا ہے اور کمزوروں کا حاسب و محتسب رہا ہے۔ لیکن آپ ﷺ نے اسلامی ریاست میں حاکم اور اہلِ ایمان کی جانِ ایمان ہونے کے باوجود خود کو قانون سے بالا نہیں سمجھا ہے اور ہمیشہ قانون کی بالادستی کو تسلیم کیا ہے۔ حالانکہ آپ ﷺ قانون کے شارح بھی تھے اور شارع بھی تھے۔

خطبہ حجۃ الوداع میں لوگوں کو جو قانون اور ضابطہ دیا، سب سے پہلے اس پر عمل کرنے کا اعلان یوں کیا:

ألا کل شئی من امر الجاھلیة تحت قدمی موضوع و دماء الجاهلیة موضوعة وان اول دم اضع من ومائنا دم ابن ربیعة بن الحارث کان مسترضعا فی بنی سعد فقتلته هذیل وربا الجاھلیة موضوع و اول ربا اضع ربانا ربا عباس بن عبدالمطلب فانه موضوع.

(صحیح مسلم، باب حجة النبی ﷺ، ج: 2، ص: 889، الرقم: 1218)

’’خبردار زمانہ جاہلیت کی ہر چیز میرے ان قدموں کے نیچے ہے اور زمانہ جاہلیت کے ایک دوسرے پر تمام خون پامال ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا خون معاف کرتا ہوں۔ وہ ابن ربیعہ بن حارث کا خون ہے۔ وہ بنو سعد میں دودھ پیتا بچہ تھا جسے ہذیل نے قتل کردیا تھا اور زمانہ جاہلیت کے تمام سود پامال کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے اپنے خاندان کے سود کو چھوڑنے کا اعلان کرتا ہوں، وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے، ان کا تمام سود پامال کرتا ہوں۔ ‘‘

رسول اللہ ﷺ نے اپنی سیرتِ اقدس سے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ جو قانون نافذ کرو اس کی ابتداء اپنی ذات سے کرو۔ اپنی ذات اور اپنے خاندان کو قانون سے بالاتر نہ سمجھو اور کسی بھی عہدہ و منصب کو قانون سے برتر نہ سمجھو۔ قانون سب کے لیے یکساں ہے اور ہر کسی پر اس کا احترام کرنا واجب ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی اس سیرت اور اسوہ حسنہ کا یہ پیغام آج ہمارے معاشرے کے بڑوں، چھوٹوں، طاقتوروں، کمزوروں، حکومت کے اہلکاروں، اداروں کے سربراہوں، افسروں، ملازموں اور عام لوگوں سبھی کے لیے ہے کہ ہم اپنی شخصیت میں عاجزی و انکساری کا خوبصورت وصف پیدا کریں، اپنی ذات کو اس وصف سے ہر طرح خوب مزین کریں اور اپنی شخصیت میں اس وصف کی اچھی طرح آبیاری کریں۔ اسی سے معاشرہ اعلیٰ اور قوم عظیم بنتی ہے۔ شیخ سعدی نے اس حوالے سے اپنے اشعار میں بڑا دلکش اور خوبصورت پیغام دیا ہے:

فروتن بود ہوشمند گزیں
نہد شاخ پر میوہ سر بر زمیں

عقلمند و دانا شخص ہی عاجزی کو اختیار کرتا ہے، اس لیے کہ برگ و بار اور پھولوں اور پھلوں سے لدی ہوئی شاخ ہی زمین پر جھکی ہوتی ہے۔