القرآن: حضور نبی اکرم ﷺ سے لامحدود محبت اور غیر مشروط وفاداری ایمان کا تقاضا ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔ قرآن مجید میں حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کرنے کا حکم صراحتاً موجود ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللهُ بِاَمْرِهٖ وَاللهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ.

(التوبة، 9: 24)

’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کے آٹھ مظاہر محبت بیان کیے ہیں کہ انسان اپنے والدین، اولاد، بیویوں، رشتہ داروں ، مکانات، مالِ دنیا اور تجارت سے الگ الگ صورتوں اور زاویوں سے محبت کرتا ہے۔ دنیا میں موجود تمام محبتیں ان آٹھ مظاہرمیں سے کسی نہ کسی ایک محبت کے تحت آجاتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان مظاہر محبت کو بیان کرنے کے بعد فرمایا: اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِهٖ یعنی اگر تمھیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے زیادہ ان مذکورہ مظاہر کے ساتھ محبت ہو تو پھر اللہ کے امر اور گرفت کا انتظار کرو۔ گویا اس آیت میں نہ صرف حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کو لفظِ محبت کے ساتھ صراحتاً بیان فرمایا بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کو ایک ہی محبت قرار دیا گیا اور اس میں دوئی کو بھی ختم کردیا گیا۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کے لیے قرآن مجید میں لفظِ اَوْلیٰ بھی بیان ہوا ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ.

(الاحزاب، 33: 6)

اس آیت کے دو معنی ہیں:

1۔ ائمہ لغت نے ’’الولی‘‘ کے کئی معانی میں سے ایک معنی ’’المحب التابع‘‘ بھی کیا ہے۔ یعنی ولی وہ ہے جو محبت کرنے والا بھی ہو اور تابعداری و وفاداری نبھانے والا بھی ہو۔ اس معنیٰ کی رو سے مذکورہ آیت کا معنی یہ ہوگا کہ مومن کے لیے واجب ہے کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کو اپنی جان سے زیادہ محبوب رکھے۔

2۔ اس آیتِ کریمہ کا دوسرا معنیٰ ’’الولی‘‘ بمعنی قریب کے لحاظ سے ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیاہ قریب ہیں۔

یہ دونوں معانی ایک ہی مفہوم پر دلالت کرتے ہیں۔ یعنی ایک بندۂ مومن کو اپنی جان اور کائنات کی ہر شے سے زیادہ حضور علیہ السلام محبوب و عزیز بھی ہیں اور قریب بھی ہیں۔ پس مومن وہ ہے جو اپنے نبی ﷺ سے تمام حدود سے بھی بڑھ کر محبت کرے۔

محبت کے معانی و مفاہیم

اگرہم محبت کے معانی و مفاہیم جان لیں تو پھر ہمیں اس امر کی بھی سمجھ اور شعور آجائے گا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کے تقاضوں کو کس طرح مکمل کیا جائے۔ محبت کے کئی معانی ہیں، ان میں سے چند کا تذکرہ ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

(1) محبت: صفائے قلب

محبت کا ایک معنی ’’صفائے قلب‘‘ ہے۔ یعنی کسی کے ساتھ موجود قلبی تعلق کو ہر قسم کی میل کچیل اور غبار سے کلیتاً پاک کردینا۔ جب قلبی تعلق ہر غرض اور غبار سے پاک ہو تو اس کیفیت کو محبت کہتے ہیں۔ اس معنی کا استنباط و استخراج ’’حَبَّۃٌ بَیْضَآءٌ نَقِیَّۃٌ‘‘ سے کیا گیا ہے۔ ایک چھوٹے خالص سفید دانہ کو حبہ کہتے ہیں، اس حَبہ سے محبت ہے یعنی دل اس رشتہ کی خالصیت سے اتنا روشن ہوجائے کہ اس میں کوئی غبار نہ رہے۔

(2) محبت: غایت و مقصود

محبت کے دوسرے معنی کا استنباط ’’حباب‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ ’’حباب‘‘ کا معنی ’’غایت و مقصود‘‘ ہے۔ یعنی محبوب کو زندگی کی غایت و مقصود بنالینا اور بقیہ تمام غایتوں سے نجات پا جانا، تمام مطالب چھوڑ دینا اور ایک ہی مطلب کو اپنا لینا محبت ہے۔ یاد رکھیں! غایت اس وقت ہوتی ہے جب محبوب، محبت کرنے والے کی زندگی کا مقصدِ وحید بن جاتا ہے۔

(3) محبت: لزوم و ثبات

محبت کے پہلے معنی کی رو سے جب دل اغیار سے صاف و پاک ہوگیا اور دوسرے معنی کی رو سے مقصود و مطلوب تنہا رہ گیا اور اس پر فوکس ہوگیا تو اب محبت کے تیسرے معنی ’’اللزوم والثبات‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے یعنی پھر محبوب کے ساتھ اس طرح چمٹ جانا کہ کوئی اٹھائے بھی تو اس سے الگ نہ ہوسکے اورکوئی ہٹائے بھی تو نہ ہٹ سکے۔ ایسا لزوم و ثبات کسی کے ساتھ قائم ہوجائے کہ نفس کی خواہشات، دنیا کے مفادات، لوگوں کے افکارو خیالات اور اغراض اسے کھینچ کر ہٹانا بھی چاہیں تو وہ مصطفی ﷺ کی دہلیز سے سر نہ اٹھائے۔ اسے کوئی مٹادے، ختم کردے، مگر کوئی اسے وہاں سے الگ نہ کرسکے۔

(4) محبت: قلق و اضطراب

کسی کے ساتھ قلبی تعلق استوار ہوجانے کے بعد اس تعلق میں ’’قلق اور اضطراب‘‘ کا رہنا محبت کہلاتا ہے۔ یعنی جب تک محبوب مل نہ جائے، اس کی زیارت نہ ہو اور وصال نہ ہوجائے، اس وقت تک دل کو سکون نہ ملے اور قلق، اضطراب اور تڑپ باقی رہے۔ دنیاوی اضطراب میں بے چینی ہوتی ہے مگر اللہ کی محبت اور حضور علیہ السلام کے ساتھ محبت کے اضطراب میں عاشقوں کو لذت ملتی ہے اور ایسا اضطراب بندے کو بے چین نہیں کرتا بلکہ حقیقت میں سکون دیتا ہے۔

(5) محبت: فنائیت

محبت کا پانچواں معنی ’’خشبات‘‘ سے مستنبط ہے۔ خشبات سے مراد گھاس ہے۔ ہم گھاس پر چلتے ہیں، فرنیچر رکھتے ہیں، یہ پاؤں تلے آتا ہے، نیچے دب جاتا ہے مگر اس قدر پامال ہونے کے باوجود کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ اس معنیٰ کی رو سے محبت کا معنیٰ ہے کہ محبوب چاہے محب کو ذلیل کردے یارفیع و عزیز کردے۔ ۔ ۔ چاہے عطا کردے یا روک دے۔ ۔ ۔ محبوب اس کی طرف دیکھے یا منہ موڑلے۔ ۔ ۔ اس سب کے باوجود اس کے رشتۂ قلب کی شدت میں کبھی کمی نہ آئے اور ہمہ وقت محبوب کی رضا میں فنا ہو۔ پس جب انسان گھاس کی طرح بچھ جاتا ہے اور اپنی عزت و ذلت کو بھی نظر انداز کردیتا ہے تو اس تعلق کو محبت کہتے ہیں۔

(6) محبت: معموریت

پانی سے لبالب بھرے ہوئے ایسے برتن کو حُبْ کہتے ہیں کہ جس میں مزید ایک یا دو قطرے پانی ڈالنے کی بھی گنجائش نہ رہے۔ اس معنی کی رو سے محبت کا معنی یہ ہے کہ ایک سے جڑے اور اس کے عشق و محبت سے ایسا بھرے کہ اس کے دل کے برتن میں محبوب کے علاوہ کسی کی محبت تو کجا کسی دوسرے کی رغبت کے لیے بھی معمولی جگہ نہ ہو۔ صبح و شام بس اسی کے تصور میں گم رہے۔

محبت اور متابعت کا باہمی تعلق

محبت کے معنی کو اگر حقیقی طور پر سمجھ لیا جائے تو یہ بندے کو متابعت کی طرف لے کر جاتی ہے کہ جب بندے نے محبوب کے قدموں تلے بچھ جانا ہے۔ ۔ ۔ اپنی ترجیحات کو آقا علیہ السلام کی ترجیحات میں فناکرنا ہے۔ ۔ ۔ اپنی سیرت کو حضور علیہ السلام کی سیرت کے مطابق ڈھالنا ہے۔ ۔ ۔ اپنی زندگی کی پسند و ناپسند کو حضور نبی اکرم ﷺ کی پسند و ناپسند میں فنا کرنا ہے۔ ۔ ۔ اپنی زندگی کی ساری سمتیں حضور علیہ السلام سے متعین کرنی ہیں تو پھر ایسا کون سا محب ہوگا جو محبوب کے تابع نہ ہو۔ محبت ہو اور متابعت نہ ہو، ایسا ناممکن ہے۔ ہم نے زندگی میں محبت اور متابعت دونوں کے ساتھ بھی دھوکہ کیا ہے۔ یاد رکھیں! محبت بغیر متابعت کے رہ نہیں سکتی اور متابعت بغیر محبت کے مقبول نہیں ہوسکتی۔ ۔ ۔ محبت کے بغیر متابعت کا دعویٰ منافقت ہے اور متابعت کے بغیر محبت کا دعویٰ دھوکہ دہی ہے۔

محبتِ مصطفی ﷺ: فرامینِ نبوی اور اسوۂ صحابہ

حضورنبی اکرم ﷺ کے کئی فرامین میں مومنین کو آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ محبت کرنے کی تاکید موجود ہے اور آپ ﷺ کے اِن فرامین کی روشنی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ ﷺ سے محبت کا حق ادا کردیا۔ ذیل میں اسی باب میں آپ ﷺ کے چند فرامین اور اسوۂ صحابہ سے اس محبت کے چند مظاہر درج کیے جارہے ہیں:

(1) محبتِ مصطفی ﷺ شرطِ ایمان ہے

آپ ﷺ نے فرمایا:

لا يؤمن احدكم، حتى اكون احب إليه من ولده، و والده، والناس اجمعين.

(صحیح مسلم، کتاب الایمان، 1: 67، رقم: 44)

”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں۔ “

تمام مظاہرِ محبت سمٹ کر اس حدیث مبارک میں آگئے کہ بندے کو جب ان تمام مظاہر سے بڑھ کر حضور نبی اکرم ﷺ محبوب ہوجائیں تو تب اسے ایمان حاصل ہوتا ہے۔ لامحدود محبت اور غیر مشروط وفاداری کا تصور اس حدیث مبارک سے واضح ہے۔

  • ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لا يؤمن أحدكم حتى يكون الله ورسوله أحب إليه مما سواهما.

(احمد بن حنبل، المسند، 3: 207، رقم: 13174)

’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اللہ اور اس کے رسول ﷺ اسے ہر ایک سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجائیں۔ ‘‘

ایک دن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے، انھوں نے آپ ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا:

يا رسول الله لأنت أحب إلي من كل شيء إلا من نفسي.

’’یارسول اللہ ﷺ ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں، سوائے میری جان کے۔ ‘‘

یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا:

لا والذي نفسي بيده حتى أكون أحب إليك من نفسك.

’’نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے جب تک میں تجھے تیری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں (تم مومن نہیں ہوسکتے)۔ ‘‘

زبان مصطفی ﷺ کے فیض کی تاثیر یہ تھی کہ یہ بات سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دل میں اتر گئی اور ان کی قلبی حالت بدل گئی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فوری عرض کیا:

یارسول اللہ! الآن والله لأنت أحب إلي من نفسي.

’’اب اسی لمحہ سے اللہ کی قسم آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ ‘‘ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:

الآن یاعمر

’’اے عمر اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔ ‘‘

(صحیح بخاری، کتاب الایمان والنذور، 6: 2445، رقم: 6257)

معلوم ہوا حضور نبی اکرم ﷺ سے لامحدود محبت بنیادی شرطِ ایمان ہے۔ صحابہ چونکہ حقیقی معنی میں مومن تھے اور مومن سچا ہوتا ہے، کسی کو دھوکہ نہیں دیتا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو چیز محسوس کرتے وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کردیتے، اس لیے کہ حضور علیہ السلام ہی تو معالج ہیں، اگر اُن کو عرض نہیں کریں گے تو وہ عقدہ کیسے کھلے گا۔ اسی بناء پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حقیقتِ حال آپ ﷺ کے سامنے عرض کردی اور آپ ﷺ نے اپنے فرمان سے اس کی وضاحت فرمادی۔

(2) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ کے جسمِ اقدس میں کانٹے کی چبھن تک گوارا نہ کرتے

  • حضرت زید پر مشرکین نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ اس ظلم و ستم کے دوران مشرکین مکہ نے حضرت زید سے پوچھا:

يا زيد أنشدك الله أتحب أنك الآن في أهلك وأن محمدا عندنا مكانك نضرب عنقه.

کیا تم پسند کرتے ہو کہ آج تم اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے اور تمہاری جگہ ہماری تلواروں کی زد میں محمد (ﷺ) ہوتے۔

یہ سن کر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

لا والله ما أحب أن محمدا يشاك في مكانه بشوكة تؤذيه وأني جالس في أهلي.

یعنی تم تلوار کی بات کرتے ہو، میں تو یہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ میرے محبوب حضور نبی اکرم ﷺ کو کانٹا بھی چبھے اور میں اپنے گھر والوں کے پاس بیٹھا ہوا ہوں۔ میں اُن کے لیے لاکھ جانیں قربان کردوں۔

حضرت زید رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سن کر مشرکین نے کہا:

والله ما رأيت من قوم قط أشد حبا لصاحبهم من أصحاب محمد له.

(الطبقات الکبریٰ، ابن سعد،2: 56)

اللہ کی قسم! ہم نے کائناتِ انسانی میں ایسی محبت کا نقشہ کہیں نہیں دیکھا کہ محمد ﷺ کے صحابی اُن سے جتنا عشق کرتے ہیں کوئی اور کسی انسان سے ایسی محبت کرتاہو۔

  • یہی صورت حال حضرت خبیب الانصاری رضی اللہ عنہ کی تھی کہ جب وہ شہید ہونے لگے تو کفار نے اُن سے پوچھا:

أتحب أن محمدا مكانك؟

’’کیا تم پسند کرتے ہو کہ تم بچ جاتے اور تمہاری جگہ محمد ہوتے؟‘‘ انھوں نے بھی جواب دیا کہ:

والله ما أحب أني في أهلي وولدي وأن محمدا ﷺ بشوكة.

(ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء، 1: 246)

’’خدا کی قسم میں گوارا نہیں کرسکتا کہ میں اپنے گھر والوں اور بچوں میں ہوں اور آقا علیہ السلام کے جسم میں کانٹا بھی چبھے۔ ‘‘

  • حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کو غزوہ احد میں بارہ نیزے لگے اور جسم چھلنی ہوگیا۔ آپ ﷺ نے ایک صحابی کو ان کے بارے میں خبر لانے کے لیے بھیجا کہ سعد کے بارے میں معلوم کریں کہ وہ کس حال میں ہے؟ چنانچہ میدانِ احد میں اس صحابی نے حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کو زخمی حالت میں تلاش کرلیا اور حضرت سعد سے کہا کہ مجھے حضورنبی اکرم ﷺ نے آپ کے متعلق خبر لانے کے لیے بھیجا ہے۔ حضرت سعد نے یہ سن کر فرمایا:حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں میرا سلام پہنچانا اور کہنا کہ یارسول اللہ ﷺ !

أني قد طعنت اثنتي عشرة طعنة وأن قد أنفذت مقاتلي وأخبر قومك أنه لاعذر لهم عند الله إن قتل رسول الله وأحد منهم حي.

(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 3: 524)

میرے جسم کو بارہ نیزوں نے چھلنی کردیا ہے، میری جان آپ ﷺ پر قربان ہے۔ میرے قبیلہ کو پیغام پہنچادینا کہ اگر میرے آقا علیہ السلام کو کچھ ہوگیا اور تم میں سے کوئی ایک شخص بھی زندہ رہ گیا تو اللہ کی بارگاہ میں تمہارا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔

(3) سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو محبتِ مصطفی ﷺ کی وجہ سے ’’المجنون‘‘ کہا جاتا

ابتدائے اسلام میں ایک دفعہ صحنِ کعبہ میں کفار و مشرکین آپ ﷺ پر حملہ آور ہوئے اور آپ ﷺ کو زخمی کردیا۔ اس موقع پر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھے اور آپ ﷺ کو کفار کے حملے سے محفوظ رکھنے کی کوشش کررہے تھے۔ اسی دوران آپ بھی شدید زخمی ہوگئے، حتی کہ بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ لوگوں نے جب والہانہ انداز میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم ﷺ کی حفاظت کرتے دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ یہ کون ہے جو ان کے لیے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کررہا تو ایک شخص نے کہا:

ابن أبي قحافة المجنون.

(مسند ا بویعلیٰ، 6: 362، رقم: 3691)

’’یہ ابوقحافہ کا بیٹا ہے اور محمد کے عشق میں پاگل ہوگیا ہے۔ ‘‘

دوسری روایت میں ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہ کو ہوش آیا تو آپ نے اس وقت تک نہ کھانے پینے کی قسم کھالی جب تک آقا علیہ السلام کی خیریت دریافت نہ ہوجائے اور ان کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں۔

پس ایمان کا تقاضا تب ہی پورا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سے عشق و محبت ہو، متابعت و فنائیت ہو اور اتنی فنائیت ہو کہ بندہ اپنی عقل اور فکر کو ختم کردے اور لوگ پاگل کہیں۔

(4) کسی شاہِ دنیا کو بھی ایسی تعظیم میسر نہیں

عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کا کیا عالم اور حال تھا۔ صلح حدیبیہ کے وقت جب وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مذاکرات کرنے کے بعد واپس مکہ مکرمہ پلٹے تو انھوں نے کفار و مشرکین سے کہا:

أي قوم والله لقد وفدت على الملوك ووفدت على قيصر وكسرى والنجاشي والله إن رأيت ملكا قط يعظمه أصحابه ما يعظم أصحاب محمد علیہ السلام محمدا والله إن تنخم نخامة إلا وقعت في كف رجل منهم فدلك بها وجهه وجلده وإذا أمرهم ابتدروا أمره وإذا توضأ كادوا يقتتلون على وضوئه وإذا تكلم خفضوا أصواتهم عنده وما يحدون إليه النظر تعظيما له۔

(صحیح بخاری، کتاب الشروط، 2: 976، رقم: 2581)

’’اے قوم! میں بادشاہوں کے دربار میں بھی گیا ہوں اور قیصرِ روم، کسریٰ اور نجاشی کا دربار بھی دیکھا ہے مگر میں نے جس طرح اصحابِ محمد کو محمد ﷺ کی تعظیم کرتے دیکھا ہے، روئے زمین کے کسی شہنشاہ کی ایسی تعظیم نہیں دیکھی۔ وہ تھوکتے ہیں تو وہ لعاب کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ پر گرتاہے اور وہ اُن کا لعابِ دہن اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا ہے، وہ جب انہیں کسی کام کے کرنے کا حکم دیتے ہیں تو صحابہ اسے فوراً بجا لاتے ہیں، وہ جب وضو کرتے ہیں تو صحابہ ان کے وضو کا پانی لینے کے لیے آپس میں شدید جھگڑتے ہیں، محمد ﷺ بات کرتے ہیں تو صحابہ کی آواز یں پست ہوجاتی ہیں اور وہ تعظیماً اُن کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ ‘‘

محبت کے ساتھ عشق کا یہ عالم اور پھر اس کے ساتھ اس طرح کی تعظیم و توقیر اور حضور علیہ السلام کی ہر شے کو اس طرح ترجیح دینا ہی اصل ایمان ہے۔ آج لوگ اس درجہ کی محبت کو ٖغلطی سے کبھی شخصیت پرستی سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی اس کو کچھ اور نام دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اصل محبت فقط متابعت ہے۔ یاد رکھیں کہ بے شک متابعت کمالِ محبت ہے مگر اصلِ محبت کو بھی سمجھیں۔ اس اصل محبت کے آداب کچھ اور ہیں اور ان آداب کو جاننے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا ہوگا۔

(5) کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری

حضور نبی اکرم ﷺ اپنے وصال مبارک سے چند ایام قبل جب شدید علیل ہوگئے تو آپ ﷺ نے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ ایک دفعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز ادا کررہے تھے کہ:

فكشف النبي علیه السلام ستر الحجرة ينظر إلينا وهو قائم كأن وجهه ورقة مصحف ثم تبسم يضحك.

آپ ﷺ نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اٹھایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھنے لگے۔ اس وقت آپ ﷺ کا چہرہ مبارک کھلے ہوئے گلاب کی مانند تھا، پھر آپ ﷺ مسکرادیئے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو سمتِ کعبہ منہ کرکے مقامِ سجدہ پر نظریں گاڑے کھڑے تھے، حجرہ مبارک کا پردہ اٹھتے ہی انھیں کعبہ کی سمت بھول گئی، انھیں مقامِ سجود بھول گیا اور انھوں نے اپنا چہرہ کعبہ سے پھیر کر کعبہ کے کعبہ کی طرف کردیا اور چہرۂ مصطفیٰ ﷺ تکنے لگ گئے اور کہتے ہیں کہ:

فهممنا ان نفتتن من الفرح برؤیته النبی.

’’پس ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت کی خوشی میں حالتِ نماز سے باہر آنا چاہا۔ ‘‘اس لیے کہ:

نمازیں جو قضا ہوں پھر ادا ہوں
نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں؟

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ آقا علیہ السلام نماز کے لیے باہر آگئے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے مصلیٰ امامت چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یہ حالت ملاحظہ فرمائی تو:

فأشار إلينا النبي علیه السلام أن أتموا صلاتكم.

(صحیح بخاری، کتاب الاذان، 1: 240، رقم: 648)

’’آپ ﷺ نے ہماری طرف اشارہ فرمایا کہ نمازیں مکمل کرلو۔ ‘‘

مقامِ غور یہ ہے کہ آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری نمازیں ٹوٹ گئیں، لہذا اعادہ کرلو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے چہرے کعبہ سے پھر گئے، وہ حضور ﷺ کے دیدار میں فنا ہوگئے، حضور ﷺ کو تکتے رہے مگر پھر بھی کسی کی نماز نہ ٹوٹی۔ اسے لامحدود محبت اور غیر مشروط وفاداری کہتے ہیں۔

  • یہی عمل ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سیرت سے بھی میسر آتا ہے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ اس حال میں آرام فرمارہے تھے کہ آپ ﷺ کا سرِ انور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ یہ نمازِ عصر کا وقت تھا، آپ ﷺ نمازِ عصر ادا فرماچکے تھے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابھی تک نماز عصر ادا نہیں کی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کے آرام میں خلل نہ آنے کے پیشِ نظر اسی حالت میں بیٹھے رہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ بعد ازاں آپ ﷺ کو جب حضرت علیؓ کی نماز عصر کے قضا ہوجانے کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیئے اور فرمایا:

اللهم ان عليا كان في طاعتك وطاعة رسولك فاردد عليه الشمس قالت أسماء فرأيتها غربت ورأيتها طلعت بعد ما غربت.

(الطبرانی، المعجم الکبیر، 24: 150، رقم: 390)

اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا پس اس پر سورج کو لوٹادے۔ حضرت اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں کہ ہم نے سورج کو غروب ہوتے دیکھا اور پھر غروب کے بعد طلوع ہوتے دیکھا۔

اندازہ کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نمازِ عصر کا قضا ہونا تو قبول کرلیا مگر آپ ﷺ کو بے آرام نہ کیا اور دوسری طرف حضور نبی اکرم ﷺ دعا کررہے ہیں کہ اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا۔ گویا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معیار یہ تھا کہ آقا علیہ السلام کی راحتِ جان، آپ کی محبت، متابعت جس میں آپ ﷺ خوش ہوں، وہی دینِ کل ہے۔ افسوس! آج ہم نے اپنی زندگیوں سے اس تصور کو نکال دیا ہے۔ اگر اس محبت اور متابعت کے رشتے کو سمجھتے تو ہماری زندگیاں حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت کے نور سے بھی معمور ہوتیں اور ہماری سیرتیں اور کردار حضور نبی اکرم ﷺ کی متابعت کے نور سے بھی روشن ہوتے۔

12 ربیع الاول عید میلاد النبی ﷺ کے دن محبت مصطفی ﷺ کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی سیرت و کردار، اپنی پسند و ناپسند، اپنے اخلاق، کردار، برتاؤ اور طور طریقے کے سب برتن توڑ دیں اور فقط حضور علیہ السلام کی سیرت اور متابعت کے برتن کو اختیار کرلیں۔ آپ ﷺ سے محبت کریں اور زندگی کا ہر پہلو آپ ﷺ کی متابعت کے مطابق ڈھال لیں۔ اس سے ہمارے اخلاق سنوریں گے، رشتے بہتر ہوں گے اور زندگی میں برکت اور کامیابی بھی ہوگی۔ جب ہمارا طرزِ عمل یہ ہوگا تب ہم غیر مسلموں اور مغرب کی دنیا میں رہنے والوں کو پیغام دینے کے قابل ہوں گے۔ غیر مسلم اور اہلِ مغرب جب حضور نبی اکرم ﷺ کا نام سنتے ہیں اور سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ان جیسی سیرت کوئی نہیں مگر جب ہمارے کردار کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کی سیرت کا عکس مسلمانوں کی سیرت و کردار میں نہیں ہے۔ ہم خود بہت سے لوگوں کو اپنے منفی کردار اور عدمِ متابعت کی وجہ سے حضور علیہ السلام اور دین اسلام سے دور بھگانے کا سبب بن رہے ہیں۔ اگر ہم صحیح سمت میں آجائیں تو خیر ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں محبت و متابعتِ مصطفی ﷺ میں استقامت و فنائیت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ