حمد باری تعالیٰ
شر کا ہدف ہوں، خیر کی سوغات دے مجھے
امن و سکوں کے ریشمی لمحات دے مجھے
نورِ خطیم و اسود و میزاب و ملتزم
ابرِ منیٰ و نکہتِ عرفات دے مجھے
صدیوں سے خشک ہیں ندی نالے شعور کے
علم وہنر کا موسمِ برسات دے مجھے
دامن لغت کا ہے تہی مفہوم سے ابھی
میں بے نوا ہوں، ذوقِ مناجات دے مجھے
ہر وقت تیری یاد کے جلتے رہیں چراغ
توفیق بندگی کی بھی دن رات دے مجھے
تیری عطا کے نقرئی سکوں سے ہر گھڑی
لبریز ہو جو کاسۂ حاجات دے مجھے
آسودگی کے پھول میں بانٹوں گلی گلی
ایسے بھی، یاخدا، کبھی حالات دے مجھے
یارب! ترے نبیؐ کے غلاموں کا ہوں غلام
لطف و کرم کے ارض و سماوات دے مجھے
حُبِّ نبیؐ کی جن میں دھنک پرفشاں ہوئی
اصحابِ مصطفی کی وہ عادات دے مجھے
دونوں جہاں میں دے مجھے صدقہ حضورؐ کا
نقشِ قدومِ پاک کی خیرات دے مجھے
سردارِ انبیاءؐ، کی میں لکھوں گا مدحتیں
یارب! تمام حسن کی آیات دے مجھے
نسبت کی چاندنی مرے گھر میں رہے مقیم
مولا! شعورِ عظمتِ سادات دے مجھے
ہے التجا ریاضؔ کی پروردگار سے
دنیا میں مغفرت کی علامات دے مجھے
(ریاضؔ حسین چودھری)
مجھ کو درکار بخشش کی خیرات ہے
دونوں عالم پہ چشمِ عنایات ہے
رحمتِ مصطفی تیری کیا بات ہے
ہم حوادث سے محفوظ ہیں دم بہ دم
ان کی نگہِ کرم ہم پہ دن رات ہے
یہ کھلا راز قرآن پڑھتے ہوئے
ان کی توصیف مقصودِ آیات ہے
حکمِ صلوا علیہ سے ہے یہ عیاں
اصل منشائے حق آپ کی نعت ہے
شکر صد شکر فردِ عمل میں مری
مدحتوں اور درودوں کی سوغات ہے
لمسِ نعلینِ محبوبِ رب العلیٰ
وجہِ توقیرِ ارض و سماوات ہے
روکشِ باغِ جنت ہے جس کی فضا
گلشنِ شاہِ خوباں کی کیا بات ہے
میں ہوں کاسہ گرِ شافعِ امتاں
مجھ کو درکار بخشش کی خیرات ہے
کیوں ہو ہمذالیؔ خوفِ جہنم مجھے
نسبتِ مصطفی جب مرے ہاتھ ہے
{انجینئر اشفاق حسین ہمذالیؔ}