الفقہ: جشنِ میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت اور خوشیاں منانے کا درست طریقہ

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: عید میلادالنبی منانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب: ولادت ہر انسان کے لیے خوشی و مسرت کا باعث ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یومِ پیدائش کی ایک خاص اہمیت نظر آتی ہے، اور یہ اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ان دنوں کی نسبت انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف ہو۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت فی نفسہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ ہے۔ ہر نبی کی نعمتِ ولادت کے واسطہ سے اس کی اُمت کو باقی ساری نعمتیں نصیب ہوئیں۔ ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کے صدقے امتِ محمدی ﷺ کو بعثت و نبوتِ محمدی ﷺ کی نعمتِ ہدایتِ آسمانی اور وحی ربانی کی نعمتِ نزولِ قرآن اور ماہِ رمضان کی نعمت، جمعۃالمبارک اور عیدین کی نعمت، شرف و فضیلت اور سنت و سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کی نعمت، الغرض جتنی بھی نعمتیں ایک تسلسل کے ساتھ عطا ہوئیں، ان ساری نعمتوں کا اصل موجب اور مصدر ربیع الاوّل کی وہ پرنور، پرمسرت اور دل نشین و بہار آفریں سحر ہے جس میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت ہوئی اور وہ بابرکت دن ہے جس میں آپ ﷺ کی اس دنیائے آب و گل میں تشریف آوری ہوئی۔ لہٰذا حضورنبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت پر خوش ہونا اور جشن منانا ایمان کی علامت اور اپنے آقا نبئ محتشم ﷺ کے ساتھ قلبی تعلق کا آئینہ دار ہے۔

قرآن مجید نے بعض انبیاء کرام علیہم السلام کے ایام ولادت کا تذکرہ فرما کر اس دن کی اہمیت و فضیلت اور برکت کو واضح کیا ہے:

1۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا.

(مريم، 19: 15)

’’اور یحییٰ پر سلام ہو، ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔ ‘‘

2۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کلام کی نسبت کرکے قرآن مجید فرماتا ہے:

وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا.

(مريم، 19: 33)

’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ ‘‘

3۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کی ولادت کا ذکر مبارک قسم کے ساتھ بیان فرمایا۔ ارشاد فرمایا:

لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ. وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ. وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ.

(البلد، 90: 1۔ 3)

’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔ (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی۔ ‘‘

اگر ولادت کا دن قرآن و سنت اور شریعت کے نقطہ نظر سے خاص اہمیت کا حامل نہ ہوتا تو اس دن پر بطور خاص سلام بھیجنا اور قسم کھانے کا بیان کیا معنی رکھتا ہے؟ لہٰذا اسی اہمیت کے پیشِ نظر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام کے میلاد کا ذکر فرمایا ہے۔

ذکرِ مصطفیٰ ﷺ اَزل تا اَبد جاری و ساری ہے۔ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کا چرچا آپ ﷺ کو وجود میں لانے سے بھی بہت پہلے کر دیا تھا۔ عرشِ بریں پر اپنے نام کے ساتھ آپ ﷺ کا نام رقم کیا۔ جنت کے پتے پتے پر آپ ﷺ کا اِسم گرامی جلوہ گر رہا۔ فرشتے آپ ﷺ کا نام جپتے رہے۔ آج اگر اُمتِ مسلمہ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کے واقعات کو تصوّر و تخیل میں لا کر آپ ﷺ کی آمد کی خوشی میں محافل کا اِنعقاد کرتی ہے تو یہ اُسی نوری سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو اَزل تا اَبد جاری رہے گا۔ یہ محبوب و پسندیدہ عمل ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کے میلاد کی خوشی میں ضیافت کرنا، صدقہ و خیرات کرنا، روشنیوں کا اِہتمام کرنا، قمقمے روشن کرنا، مشعل بردار جلوس نکالنا اور دل کھول کر خرچ کرنا بارگاہِ اِلٰہی میں مقبول اور اُس کی رضا کا باعث ہے۔ اُمتی حضور ﷺ کی ولادت پر خوش ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اُن سے خوش ہوگا۔

سوال: کیا میلاد النبی ﷺ منانا بدعت ہے؟

جواب: حضور تاجدارِ کائنات ﷺ روحِ اِیمان ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے رشتہِ محبت اُستوار کیے بغیر نہ تو لذتِ اِیمان نصیب ہوسکتی ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ سے تعلقِ عبودیت قائم ہوسکتا ہے۔ آپ ﷺ خالقِ کائنات تک پہنچنے کا واحد اور لازمی واسطہ ہیں، لہٰذا سینے میں آپ ﷺ کی اُلفت و رحمت کے چراغ فروزاں کیے بغیر جادہِ مستقیم پر گامزن نہیں ہوا جا سکتا۔

یہ ایک اَلمیہ ہے کہ بعض لوگ ظاہر بینی سے کام لیتے ہوئے چھوٹی چھوٹی باتوں کو کفر و ایمان کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور دین کی اَصل روح اور کار فرما حکمت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ظاہر پرست علماء محافلِ میلاد اور جشنِ میلاد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے صرف اِس لیے اِسے ناجائز قرار دیتے ہیں کہ اِس قسم کی محافل اور جشن کی تقاریب اَوائلِ اسلام میں منعقد نہیں ہوئیں۔ حالانکہ لغت کی رُو سے نئے اُمورِ خیر کو بدعت کہنا صحیح ہے لیکن صرف بدعت کہہ کر اِنہیں ہدفِ تنقید بنانا اور ناپسندیدہ قرار دینا محض تنگ نظری اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔ ہر دور میں ہر چیز کی ہیئت و صورت حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ اس میں کئی جدتیں اور عصری تقاضے شامل ہوتے رہتے ہیں مگران کی ہیئت اَصلیہ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔

جشنِ میلاد النبی ﷺ کی موجودہ صورت اپنی اَصل کے اِعتبار سے حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت ہے۔ جس طرح ہم محافلِ میلاد میں حضور ﷺ کے لیے نعت کا اہتمام کرتے ہیں، آپ ﷺ کے فضائل و کمالات بیان کرتے اور مختلف انداز میں سیرتِ طیبہ کا ذکر کرتے ہیں، جو فی الواقعہ ہمارے جشنِ میلاد منانے کا مقصد ہے، اِسی طرح کی محفلیں جن میں حضورنبی اکرم ﷺ کے فضائل و کمالات کا ذکر ہوتا تھا، عہدِ نبوی ﷺ میں بھی منعقد ہوتی تھیں اور آپ ﷺ محفل میں تشریف فرما ہوتے تھے حتی کہ اپنی محفلِ نعت خود منعقد کرواتے تھے۔ اس سے یہ اَمر پایہِ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ میلاد النبی ﷺ منانا بدعتِ ممنوعہ نہیں بلکہ ایک مباح، مشروع اور قابلِ تحسین اور عملِ خیر ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف ’’کیا میلاد النبی منانا بدعت ہے؟‘‘ کا مطالعہ کیجیے۔ )

سوال: جشن میلاد منانے کے شرعی احکام کیا ہیں؟

جواب: جشنِ میلادالنبی ﷺ کا اِہتمام کرنا یقیناً مستحسن اور باعثِ اَجر و ثواب عمل ہے لیکن اِس موقع پر اگر اِنعقادِ میلاد کے بعض قابلِ اِعتراض پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُنہیں برقرار رہنے دیا جائے تو ہم میلادالنبی ﷺ کے فیوض و برکات سے محروم رہیں گے۔ جب تک اس پاکیزہ جشن میں طہارت، نفاست اور کمال درجہ کی پاکیزگی کا خیال نہیں رکھا جائے گا، سب کچھ کرنے کے باوجود اِس سے حاصل ہونے والے مطلوبہ ثمرات سمیٹنا تو درکنار ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم ﷺ کی ناراضی مول لیں گے۔ محفلِ میلاد ہو یا جلوسِ میلاد، یہ سارا اِہتمام چونکہ حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی کے سلسلہ میں ہوتا ہے، لہٰذا اس کا تقدس برقرار رکھنا اُسی طرح ضروری ہے جس طرح حضور نبی اکرم ﷺ کی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں آپ ﷺ کی مجلس کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ پوری کوشش ہونی چاہیے کہ ماحول کی پاکیزگی کو خرافات اور خلافِ شرع بے ہودہ کاموں سے آلودہ نہ ہونے دیں۔

اِس کے ساتھ ساتھ جشنِ میلاد کے موقع پر محفلیں منعقد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا، جانی و مالی، علمی و فکری غرضیکہ ہر قسم کی قربانی کا جذبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیبِ مکرم ﷺ کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ صبح و شام حضور ﷺ پر درود و سلام کے علاوہ اپنی اُمت کے دوسرے نیک و بد اَعمال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ حضور ﷺ اچھے کام دیکھ کر خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور برائی دیکھ کر ناراضگی اور اَفسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہماری یہ میلاد کی خوشیاں بھی حضور ﷺ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اگر ان میں صدق و اخلاص شامل نہیں ہوگا تو حضور ﷺ کو ہماری ایسی محفلوں کے انعقاد سے کیا مسرت ہوگی؟ اور اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اپنے محبوب ﷺ کی خاطر کی جانے والی اس تقریب کو کیوں کر شرفِ قبولیت سے نوازے گا؟ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ صدقہ و خیرات میں کثرت اور اِظہارِ مسرت کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوس اُس بارگاہ میں باعثِ شرف و قبولیت نہیں جب تک کہ ظاہری عقیدت میں اخلاصِ باطن اور حسنِ نیت شامل نہ ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی سچی محبت اور ادب و تعظیم ہی ہمارے ہر عمل کی قبولیت کی اَوّلیں شرائط میں سے ہیں۔

بدقسمتی سے آج اُمتِ مسلمہ دو بڑے طبقوں میں بٹ گئی ہے:

1۔ ایک طبقہ جشنِ میلادالنبی ﷺ کو سرے سے ناجائز، حرام اور بدعت کہہ کر اِس کا اِنکار کر رہا ہے۔

2۔ دوسرا طبقہ میلاد کے نام پر (اِلا ماشاءاللہ) ناجائز اور فحش کام سرانجام دینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اُنہوں نے کچھ غیر شرعی اُمور کو داخلِ میلاد کر کے میلادالنبی ﷺ کے پاکیزہ تصور کو بدنام اور تقدس کو پامال کردیا ہے۔

ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اِن انتہاء پسند رویوں کے بین بین اِعتدال پسندی کی روش اِختیار کی جائے۔ ہم نے میلاد اور سیرت کے نام پر مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے:

1۔ کوئی صرف میلاد کا داعی بن گیا

2۔ کوئی صرف سیرت کا نام لیوا

میلاد کا نام لینے والا سیرت سے کتراتا ہے اور سیرت کا داعی میلاد کو ناجائز کہہ کر اپنی دانش وری اور بقراطیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ سوچ ناپید ہے کہ اگر میلاد نہ ہوتا تو سیرت کہاں سے ہوتی اور اگر سیرت کے بیان سے اِحتراز کیا تو پھر میلاد کا مقصد کیسے پورا ہو سکتا ہے؟ بیانِ میلاد اور بیانِ سیرت دونوں حضور ﷺ کے ذکر کے طریقے ہیں۔ دونوں ایک شمع کی کرنیں ہیں۔ میلاد کو نہ تو بدعت اور حرام کہہ کر ناجائز سمجھیں اور نہ اِسے جائز سمجھتے ہوئے اس کے پاکیزہ ماحول کو خرافات سے آلودہ کیا جائے۔

میلاد النبی ﷺ منانے کے لئے ہر وہ کام سر انجام دینا شرعی طور پر جائز ہے جو خوشی ومسرت کے اظہار کے لئے درست اور رائج الوقت ہو۔ میلاد کی روح پرور تقریبات کے سلسلے میں انتظام وانصرام کرنا، درود وسلام سے مہکی فضاؤں میں جلوس نکالنا، محافلِ میلاد کا انعقاد کرنا، نعت یا قوالی کی صورت میں آقا علیہ السلام کی شان اقدس بیان کرنا اور عظمت مصطفی ﷺ کے چرچے کرنا سب قابلِ تحسین، قابلِ قبول اور پسندیدہ اعمال ہیں۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کو حرام قرار دینا حقائق سے لاعلمی، ضد اور ہٹ دھرمی کے سواء کچھ نہیں ہے۔

عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت جاننے کیلئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلّہ العالی کی کتاب ’میلاد النبی ﷺ‘ ملاحظہ کیجیے۔ یہ کتاب میلاد النبی ﷺ کے موضوع کا اِنسائیکلوپیڈیا کا درجہ رکھتی ہے، جس میں قرآن و سنت، آثارِ صحابہ اور اَقوالِ اَئمہ و محدّثین اور دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں اِنتہائی جامع انداز میں جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کے جواز کے دلائل اکٹھے کیے گئے ہیں۔