پیغمبرِ اسلام حضور نبی اکرم ﷺ کرۂ ارض کی وہ واحد ہستی ہیں جن کی پاک سیرت کے بارے میں اپنے اور پرائے 14 سو سال سےخامہ فرسائی کرتے چلے آرہے ہیں۔ بلاشبہ جس معزز و متبرک ہستی کا ذکر اللہ رب العزت نے بلند کر دیا ہو، اس ہستی کے مقام و مرتبہ کا احاطہ انسانی ذہن و شعور کیونکر کرسکتا ہے۔ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس بے شمار خَلقی اور خُلقی صفات کے ساتھ کائنات میں مرکزیت کی حامل ہے ۔ سعد بن ہشام بن عامر روایت کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہj سے عرض کیا: ام المومنین! مجھے رسول اللہ ﷺ کے اَخلاق کے بارے میں آگاہ کیجئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’کیا تم قرآنِ مجید کی تلاوت نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں (ضرور کرتا ہوں) اس پر سیدہ عائشہ j نے فرمایا (جان لو) حضور نبی اکرم ﷺ کا اَخلاق قرآن ہی تو ہے‘‘۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس کے بارے میں غیر مسلم سکالرز نے بھی اپنے اپنے انداز میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے شہرۂ آفاق ’’مقدمہ سیرۃ الرسول ﷺ ‘‘ میں مغربی مفکرین کی تحریروں کے کچھ اقتباسات رقم کئے ہیں جن کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ غیر مسلم مفکرین بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی عظمت و جلالت کے حصار میں تھے۔ ذیل میں مقدمہ سیرت الرسول ﷺ اور دیگر کتب سے اس سلسلے میں چند اقتباسات درج کیے جارہے ہیں:
1۔ آپ (ﷺ) کے سیرت و کردار میں کریمانہ خوش مزاجی سایہ فگن تھی: سر ولیم میور
’’تمام ارباب سیر کا اس پر اتفاق ہے کہ محمد (ﷺ) کا عہدِ شباب حیا و پاکیزگی اور اعلیٰ اَخلاقی اقدار کا حامل تھا جو مکہ کے لوگوں میں بہت کم پائی جاتی تھی۔ ایک بزرگانہ سادگی ان کی زندگی پر چھائی ہوئی تھی۔ہر کام کو اپنے ہاتھ سے کرنا ان کا معمول تھا۔ کسی سوالی کو ’نہ‘ کا جواب دینا اُنہیں ناپسند تھا۔ اگر کسی کی فریاد کا جواب اثبات میں نہ دے پاتے تو خاموشی کو ترجیح دیتے۔ یہ کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی نے اُن کو گھر آنے کی دعوت دی ہو اور انہوں نے انکار کیا ہو، خواہ دعوت دینے والا کتنا ہی کم حیثیت اور ادنیٰ درجہ کا ہوتا۔اسی طرح وہ کسی کا تحفہ قبول کرنے سے انکار نہ کرتے، خواہ وہ کتنا ادنیٰ کیوں نہ ہوتا۔ مصیبت اور مشکل کے وقت بھی وہ اپنے دستر خوان پر کھانے کے لئے دوسروں کو بلا لیتے۔ وہ اپنے ہم نشینوں میں سے ہر ایک کے ذاتی آرام کا اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر خیال رکھتے۔ ان کی سیرت و کردار کے ہر گوشے میں ایک کریمانہ خوش مزاجی سایہ فگن تھی۔‘‘
2۔ آپ (ﷺ) مشاورت کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے: ڈی ایس مرگولیتھ
’’بحیثیت ایک سپہ سالار، شارع، منصف اور سفارتکار کے ان فرائض کی انجام دہی کے دوران میں آپ (ﷺ) کبھی معلم اور مبلغ کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں غفلت و تساہل سے کام نہیں لیتے تھے۔ تمام ممکنہ سوالات پر آپ سے رہنمائی طلب کی جاتی اور ایسے مواقع کبھی نہیں آئے جب آپ (ﷺ) سے کوئی جواب نہ بن پایا ہو۔ آپ (ﷺ) شکایات سنتے، انصاف مہیا کرتے اور شرعی قوانین کی تشریح و تعبیر کرتے تھے۔ آپ مسلسل کام میں لگے رہتے اور دن کے اوقات میں بھی آرام نہ کرتے۔ کوئی بھی مسئلہ ہوتا، آپ مشاورت کرنے اور بات سننے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔‘‘
3۔ خدا کے رسول (ﷺ) کو روزمرہ گھریلو کام کرنے میں کوئی عار نہ تھی: ایڈورڈ گبن
’’محمد (ﷺ) کی اچھی افتادِ طبع شاہانہ شان و شوکت کو خاطر میں لاتی تھی، خدا کے رسول کو روزمرہ گھریلو کام کرنے میں کوئی عار نہ تھی، وہ آگ جلا لیتے، فرش کی صفائی ستھرائی کرلیتے، بکریوں کا دودھ دوہ لیتے اور اپنے ہاتھ سے جوتوں کی مرمت کرتے اور اپنے کپڑوں کو پیوند لگا لیتے۔ راہبانہ طرزِ زندگی کو حقارت سے مسترد کرتے ہوئے بغیر کسی لگی لپٹی اور دکھلاوے کے وہ ایک عرب سپاہی کی طرح سادہ غذا پر گزر بسر کرتے۔ سنجیدہ مواقع پر وہ اپنے ساتھیوں کی تواضع اور مہمان نوازی دیہاتی وافر کھانوں کی ضیافت کے ساتھ کرتے لیکن گھریلو زندگی میں کئی کئی ہفتے گزر جاتے اور پیغمبر ﷺ کے گھر چولہے میں آگ نہ جلائی جاتی۔‘‘
4۔ آپ (ﷺ) کا کردار پاکیزہ اور بے داغ تھا: گوسٹاویل
’’محمد (ﷺ) نے اپنے لوگوں کے لئے ایک تابندہ مثال قائم کی، ان کا کردار پاکیزہ اور بے داغ تھا، ان کا گھر، مکان اور غذا سب میں فقید المثال سادگی جھلکتی تھی۔‘‘
5۔ محمد (ﷺ) عظیم ہستی، انسانیت کے نجات دہندہ: جارج برنارڈ شا
’’محمد (ﷺ) ایک عظیم ہستی اور صحیح معنوں میں انسانیت کے نجات دہندہ تھے۔ اگر آج محمد (ﷺ) جیسا کوئی انسان دنیا کی لیڈر شپ سنبھال لے تو زمین امن و مسرت کا گہوارہ بن جائے، کل کا یورپ اسلام قبول کر لے گا، یہ میری پیشینگوئی ہے۔‘‘
6۔ عظیم مفکر، قانون ساز، سپہ سالار، تصورات و عقائد کا فاتح: الفونس لیمرٹین
’’عظیم مفکر، بلندپایہ مبلغ، پیغمبر، قانون ساز، سپہ سالار، تصورات اور عقائد کا فاتح، سچے نظریۂ حیات کو قائم کرنے والا، باطل خداؤں اور صنم پرستی اور وہم و گمان کو مٹانے والا، بیس دنیاوی سلطنتوں کا بانی اور ایک آسمانی روحانی بادشاہ کا نقیب۔ یہ ہے محمد (ﷺ) ۔ انسانی عظمت کو ناپنے کے جتنے پیمانے لا سکتے ہو، لے آؤ اور پھر خود سے پوچھو کہ دنیا میں اس سے بڑا انسان بھی کوئی گزرا ہے۔‘‘
7۔ آپ (ﷺ) کی ذات صداقت اور سچے اعتقادات کا خزانہ ہے: تھامس کارلائل
’’محمد (ﷺ) کا پیغام فطرتِ دل کی براہ راست آواز ہے، اس کے مقابلے میں باقی جو کچھ ہے، ہوا سے ہلکا ہے۔ ہم مسیحیوں نے اس مقدس ہستی کے گرد دروغ و افتراء کا جو انبار لگایا ہے وہ خود ہمارے لئے باعثِ شرم ہے۔ ایک انسان سچائی، دیانت اور وفاء کا پیکر نہ صرف عمل کا سچا بلکہ قول و فکر میں کھرا، اس کی بات ایسی بات جو کہنے کے لائق اور سننے کے قابل، بانیٔ اسلام کے افکار و فضائل کا انکار انصاف کا خون کرنا اور حق پسندی کی پیشانی پر کلنگ کا ٹیکا لگانا ہے۔ ہمارے خیال میں محمد (ﷺ) کا مرتبہ انسانی عظمت کی بلندیوں سے کہیں ارفع ہے، آپ (ﷺ ) کی ذات صداقت اور سچے اعتقادات کا خزانہ ہے۔‘‘
8۔ عورتوں کو وراثت میں حصہ دلانا اور دُختر کشی کا خاتمہ آپ ﷺ کی عظیم اصلاحات: انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا
’’مذہبی شخصیات میں محمد (ﷺ) بلا شک کامیاب ترین شخصیت تھے، آپ (ﷺ) اگرچہ اُمی تھے لیکن علم اور ذہانت کا وافر حصہ آپ (ﷺ) حاصل کر چکے تھے۔ آپ (ﷺ) کا مذہب حقیقتاً دینِ ابراہیم علیہ السلام کا احیاء تھا۔ قانون ساز، ماہرین حرب، منتظم اور جج یہ آپ (ﷺ) کی شخصیت کے مختلف پہلو تھے۔ اُس خوفناک قبائلی تعصب کا خاتمہ کرنا جس کی بنا پر ایک خونی طویل جنگوں کا باعث بن جاتا، عورتوں کو ان کے حقوق، خاص کر وراثت میں حصہ دلانا اور دُختر کشی کا خاتمہ آپ (ﷺ) کی عظیم اصلاحات ہیں۔‘‘
9۔ محمد (ﷺ) رحم و کرم اور مہربانی کا پیکر تھے: دیوان چندر شرما
’’محمد (ﷺ) رحم و کرم اور مہربانی کا پیکر تھے۔ان کے مقدس وجود کے اثر کو محسوس کئے بغیر کوئی شخص رہ نہ سکتاتھا اورکبھی انہیں بھول نہیں سکتا تھا۔‘‘
10۔ محمد (ﷺ) مذہبی اور دنیاوی اعتبار سے کامیاب و کامران ہوئے: مائیکل ہارٹ
’’قارئین میں سے ممکن ہے کہ لوگوں کو تعجب ہو کہ میں نے دنیا جہان کی مؤثر ترین شخصیات میں محمد (ﷺ) کو سرفہرست کیوں رکھا؟ وہ مجھ سے اس کا جواب طلب کر سکتے ہیں، حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں صرف وہی ایک انسان تھے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے کامیاب و کامران ہوئے۔‘‘
11۔ تاریخ کی یکتا مثال محمد (ﷺ): ریورنڈ سمتھ
’’ تاریخ کی یکتا مثال محمد (ﷺ) ایک قوم، ایک سلطنت اور ایک مذہب کے تاجدار، قیصری لشکروں کے بغیر عظیم رہنما تھے۔ نہ ان کے کوئی باڈی گارڈ تھے، نہ محلات، اگر کسی بھی شخص کو یہ کہنے کا حق پہنچتا تھا کہ وہ خدائی حکومت قائم کررہے ہیں تو وہ صرف محمد (ﷺ) تھے‘‘۔
12۔ محمد (ﷺ) نے حق پرستی کو اپنی زندگی کا سرچشمہ بنائے رکھا: سٹیلنے لین پول
’’محمد (ﷺ) ان گنے چنے خوش بخت افراد میں سے تھے جنہوں نے حق پرستی کو اپنی زندگی کا سرچشمۂ عمر بنائے رکھا۔ محمد (ﷺ) کا جذبہ اور ولولہ ایک انتہائی بلند اور مقدس مشن کے لئے وقف تھا۔ وہ خدائے واحد کے پیغمبر تھے اور اُنہیں یہ حقیقت آخری سانس تک ایک ایک لمحہ یاد رہی۔‘‘
13۔ محمد (ﷺ) نے مذاہب کے ہر عقیدے کی اصلاح کر دی: ڈاکٹر مارکس ڈوڈز
’’محمد (ﷺ) نے مذاہب کے ہر عقیدے کی اصلاح کر دی اور عربوں کو دنیا کی سب سے بڑی قوموں کے آگے کھڑا کر دیا‘‘
14۔ وہم و گمان سے بلند آزادی کا تصور دینے والا: ڈاکٹر موڈی ورئیڈن
’’محمد (ﷺ) کے دین نے اس حقیقی آزادی کا اعلان کیا جو انسان کے وہم و گمان سے بلند تھا، اسلام کا خدا اتنا بلند و بالا ہے کہ اُس کے سامنے دنیا کے تمام افکار اور نظام ہیچ ہیں۔‘‘
15۔ مصائب و افلاس اور خوشحالی میں لوگ آپ (ﷺ) پر نثار تھے: ایم ایچ ہیڈمین
’’محمد (ﷺ) نے خود کو صرف عام بشر اور پیامبرسے زیادہ حیثیت کبھی نہیں دی۔ جب وہ مصائب و افلاس میں گھرے تھے تو بھی لوگ ان کے گرویدہ تھے اور جب وہ ایک عظیم الشان سلطنت کے مالک ہو گئے، تب بھی ان پر نثار تھے۔ یہ تھا ان کا بلند و بالا کردار، اپنی ذات پر اعتماد، نصرتِ خداوندی پر یقینِ محکم، نہ زندگی کا کوئی گوشہ زیر نقاب، نہ موت میں کوئی راز یا افسانہ، پھر بھی عظمت کے سب معترف۔‘‘
16۔ محمد (ﷺ) کی تعلیم کسی مقام پر بھی ناکام ثابت نہیں ہوسکتی: جوہن گوئٹے
’’محمد (ﷺ) کی تعلیم کسی مقام پر بھی ناکام ثابت نہیں ہوسکتی۔ ہمارے نظام ہائے تمدن اس کی حدود سے آگے نہیں جا سکتےاور حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی انسان قرآن سے آگے جا ہی نہیں سکتا۔‘‘