نعت خوانی کی توفیق اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے میسر آتی ہے۔ اللہ رب العزت کی عطا کسی شرط کی پابند نہیں ہے البتہ جس کو یہ میسر آئے، اسے سوچنا چاہیے کہ وہ اس کا کس قدر حق ادا کررہا ہے۔حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا کمال شفقت و محبت ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو منبر پر بٹھا کر نعت سنی اور لطف و کرم کی حدکردی کہ نہ صرف اپنی چادر عطا فرمائی بلکہ اپنے لب ہائے مبارکہ سے ان کے لیے دعا بھی فرمائی۔ بے شک یہ نعت خواں قبیلہ کے لیے بہت ہی بڑی سعادت کی بات ہے مگر یاد رہے قیامت تک آنے والے نعت خوانوں کو اس بات کی دعوت بھی ہے کہ جب وہ سرکار عالی مرتبت ﷺ کے غلام ہیں تو غلامی کا ایسا حق ادا کیا جائے کہ آپ ﷺ اس غلامی کی قبولیت کی سند عطا فرمادیں۔
نعت ایک ایسا ذریعۂ اظہار ہے جس سے نعت خواں اپنے من کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر اپنے محبوب ﷺ کو راضی کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اگر نعت خواں اپنے آپ کو درِ محبوب ﷺ کی دھول کے تصور میں رکھ کر نعت نہیں پڑھتا تو یوں جانیے کہ اس نے اچھے غسل، اچھے جائے نماز، اچھی ٹوپی پہن کر نماز تو پڑھی مگر اس کے باطن میں طہارت نہ ہونے کے سبب اس کی جھولی خالی رہی۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جابجا آپ ﷺ کے فضائل، خصائل اور شانوں کو بیان فرمایا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو نعت پڑھنا اللہ رب العزت کی سنت ہے دوسری طرف چونکہ آپ ﷺ نے صحابہ کرامl کی زبان سے خود اپنی نعت سماعت فرمائی ہے، تو اس تناظر میں نعت سننا سنتِ خیرالانام ﷺ ہے۔ ان دونوں طرح کی سنت پر عمل درآمد اور اس محبت کو کماحقہ سمیٹنے کے لیے ضروری ہے کہ نعت خواں کی طبیعت اور مزاج میں ایک تڑپ اور بے قراری موجود ہو۔
نعت پڑھنا کسی کے فن کا کمال نہیں، نہ آواز کا اچھا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ فلاں نعت خواں بڑا مقبول ہے۔ کسی قسم کا دعویٰ ہنر مندی اور نہ اوجِ فکرو فن، یہاں تو اگر کسی چیز کو باریابی ہے تو وہ عجز و انکساری ہے۔۔۔ نیاز مندی کو قبولیت حاصل ہے۔ لہذا نعت خواں کو ہمہ وقت سراپائے ادب ہونا چاہیے کہ کوئی ایسا شعر جو حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں درجۂ قبولیت پالے، وہ ہی روزِ محشر نجات کا ذریعہ بن جائے۔
آج کے دور کو روحانی زوال کا دورکہا جاسکتا ہے۔ ہم روحانی پستی کے اس ماحول کو بلندی کا سفر شروع کرواسکتے ہیں، اگر ہم محبتِ رسول ﷺ کے چراغ سے روشنی لے کر اپنے راستے کا تعین کریں۔ یقیناً نعت، محبتِ رسول ﷺ کے فروغ کا ہی ایک ذریعہ ہے لہذا ہمیں خالص للہ فی اللہ محافل میلادِ سرکار ﷺ کرنے اور کروانے کی سعی کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل چند امور کو ضرور پیشِ نظر رکھیں:
1۔ آخرت کے سوداگر بنیں
نعت خوانی کا شرف حاصل ہوجانے کے بعد اپنے نفس کے رذائل کو ختم کرتے ہوئے اپنے آپ کو صاحبِ نعت ﷺ کی اتباع کے سپرد کردیجیے کیونکہ محبت رسول ﷺ کی خیرات لوگوں میں تقسیم کرنے کا سبب بننا کوئی چھوٹی عزت نہیں مگر حیرت ہے کہ آج مطمع نظر کچھ اور ہی بن چکا ہے۔ نعت خواں اگر آخرت کا سوداگر بن جائے تو مقبول بارگاہِ مصطفوی ﷺ ہے اور اگر اس جہانِ فانی کا سوداگر ہے تو فرمانِ مصطفوی ﷺ کی روشنی میں آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔ہمیں غور کرنا ہوگا کہ کہیں ہم اس چند روزہ زندگی کی خاطر آخرت کی زندگی کو بھول تو نہیں گئے کیونکہ اگر ہم اِس زندگی پر توجہ رکھتے ہیں تو آخرت میں محض رسوائی ہی مقدر ہوگی۔
نعت دراصل اس جذبہ کا نام ہے جس سے انسان حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اپنی وابستگی و تعلق کا اظہار کرتا ہے۔ یاد رہے کسی بھی طرح کی کوئی چمکتی چیز آپ کو اس نعمتِ عظمیٰ سے محروم نہ کردے،کیونکہ اصل تعلق وہی ہے جو سرکار ﷺ سے ہے۔
2۔ توفیقِ خداوندی اور عنایتِ مصطفیٰ ﷺ پر نظر
اگر محفل نعت کروانے سے، نعت پڑھنے اور اندازِ نعت خوانی سے مخلوقِ خدا آپ سے متاثر ہے اور آپ کا ادب کرتی ہے تو بڑی بات نہیں، اس لیے کہ آپ تو صرف سامنے ہیں۔ دراصل تعریف کرنے والا، نذرانہ دینے والا، آپ کی تعظیم کرنے والا، اللہ کریم اورمحبوب پاک ﷺ کی تعریف کررہا ہے۔ لہذا آپ بھی اپنی توجہ اُدھر ہی لے چلیں کہ سارا فیض ادھر ہی سے ہے۔پس کسی بھی محفلِ نعت میں موجود ہونے کے بعد اپنے جسم کو سر تاپا سرکار ﷺ کی محبت میں محو کردیں اور دوسری محفل میں جانے کی سوچ آپ کے اس تصور کو ٹھیس پہنچانے کا باعث نہ بنے کیونکہ ان ﷺ کا تصور دنیا بھر کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔
توصیف نبوی ﷺ میں لب کشائی کرنے سے پہلے ذرا غور کریں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ذکر کو بلند کرنے کی ذمہ داری خود رب کریم نے اپنے ذمہ لی ہے اور یہ کام ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہےگا۔ قلم و دہن مصروفِ عمل ہیں اور رہیں گے، تمام آسمانی و زمینی مخلوقات مدحتِ محبوب ﷺ کی کرنوں سے منور ہے۔ ارض و سما، زمان و مکاں، لازمان و لامکاں، جن و انس، عوالم جمادات و نباتات و حیوانات زبانِ حال سے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں گیت الاپ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ماہ و سال، روز و شب، صبح و مسا، تمام ساعتیں، تمام لمحے، بحرو بر، دشت و صحرا، قریہ و شہر اور تمام ظروف و احوال اسی کے زیر نگر ہیں۔ لہذا یہ جذبہ قائم رہے کہ توصیف پیغمبر ﷺ توفیقِ خداوندی ہے، اس میں آپ کے کمال کا کوئی عمل دخل نہیں۔
3۔ عمل کی طرف راغب ہوں
عمل؛ دین کی ایسی خاموش تبلیغ ہے کہ جس کا وار کبھی خالی نہیں جاتا۔ محافل نعت میں شرکت اگر اسوۂ مصطفی ﷺ کی روشنی میں ہمارے عمل کی دنیا میں انقلاب برپا نہ کرے۔۔۔ عقیدے کی درستگی کا باعث نہ بنے۔۔۔ قرآن سے تعلق مضبوط نہ کرے۔۔۔ تو ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم محافلِ نعت میں شرکت اور مدحتِ مصطفی کا مقصد فراموش تو نہیں کر بیٹھے اور اپنے آپ کو کسی اور منزل کا مسافر تو نہیں بنا بیٹھے۔ مقامِ غور یہ ہے کہ باعمل راہنما و رہبر کا امتی ہونے کے باوجود ہم اپنے مقام کو جاننے سے قاصر کیوں ہیں۔۔۔؟ ہمارے عمل کے سوتے خشک کیوں ہوگئے ہیں۔۔۔؟ ہمیں یہ سوچ کر راہِ عمل مرتب کرنی ہے اور محافل میں آنے والوں کو بھی اسوۂ مصطفی ﷺ پر عمل کی ترغیب دینی ہے اور خود بھی اتباعِ رسول ﷺ کے رنگ میں رنگنا ہے۔
4۔ باطنی طہارت کا اہتمام
نعت اگر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نہ پڑھی جائے تو کسی صورت اس کی عقیدت کے دامن میں آنسوؤں کی نمی محسوس نہیں ہوتی اور اس نمی کے بغیر ہمارے عصیاں و نافرمانیوں پر قلمِ عفو نہیں پھر سکتا۔ اس لیےنعت پڑھنے کے لیے صرف تن ہی نہیں بلکہ من کی طہارت ناگزیر ہے اور یہ صرف اور صرف ربطِ رسالت اور رجوع الی القرآن سے ہی ممکن ہے۔
محبت رسول ﷺ کا طالب ہونا بہت بڑا درجہ ہے مگر نعت پڑھنے والا محبت رسول ﷺ کو لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنے اور بڑھانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس منصب کے ساتھ انصاف کرنے کے لیے احکامِ شریعت پر عمل ناگزیر ہے۔ شریعت خواہشاتِ نفسانی کو ترک کردینے کا نام ہے کیونکہ اس کے بغیر طہارتِ قلب میسر نہیں آئے گی اور اس کے حصول کے بغیر ہر بات بے سود ہے۔حضور داتا علی ہجویریؒ ’’کشف المحجوب‘‘ میں فرماتے ہیں:
آج لوگوں نے خواہشاتِ نفسانی کا نام شریعت۔۔۔ جاہ و مرتبہ کا نام عزت۔۔۔ تکبر کا نام علم۔۔۔ ریاکاری کا نام تقویٰ۔۔۔ دل میں کینہ رکھنے کا نام حلم۔۔۔ لڑنے جھگڑنے کا نام مناظرہ۔۔۔ جماعت کا نام بزرگی۔۔۔ نفاق کا نام اتفاق۔۔۔ آرزو و تمنا کا نام زہد۔۔۔ ہذیانِ طبع کا نام معرفت۔۔۔ وسوسوں کا نام محبت۔۔۔ اتحاد کا نام فقر۔۔۔ انکارِ حق کا نام برگزیدگی۔۔۔ بے دینی و زندقہ کا نام فنا۔۔۔ مکرو شر کو معاملات۔۔۔ اور حضور نبی اکرم ﷺ کی شریعت کو ترک کرنے کو طریقت کا نام دے رکھا ہے۔
بطور نعت خواں ہمیں مندرجہ بالا شیطانی افعال پر نظر رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔نیز سوچنا چاہیے کہ مادہ پرستی کی تاریکی میں محبت رسول ﷺ کا دیا جلانے کے لیے ہمارے اندر روشنی کی کتنی ضرورت ہے؟
محافل نعت کروانے کا ماحاصل محبت رسول ﷺ ہے، اگر اس میں کامیابی کی طرف پیشرفت نہیں ہورہی تو اپنی طہارت اور اعمال میں موجود کمزوریوں پر غور کریں اور استغفار کریں۔ آپ کی سنجیدگی ضرور نتائج دے گی۔ ان شاء اللہ
صاحب کردار نعت خواں ہی مثال کے لائق ہے۔ نعت خواں کو شیریں مقال ہونے کے علاوہ سگریٹ نوشی، نسوار خوری اور نشے کی ہر قسم سے منہ کو پاک رکھنا چاہیے۔
5۔ عمدہ و نفیس کلام کا انتخاب کریں
نعت خواں کے لیے فن نعت کو باقاعدہ اس لیے سیکھنا چاہیے تاکہ غلامان مدنی تاجدار ﷺ میں آپ ﷺ کی محبت کی لو کو ہوا دی جاسکے اور راہِ عمل کو تقویت نصیب ہو۔ تقریباً ہر سنجیدہ کلام اپنے اندر حقیقی اور مجازی دونوں معنی لیے ہوئے ہوتا ہے لیکن چونکہ یہ مادی دور ہے اور بدقسمتی سے یہاں کسی بات کے مثبت پہلو نکالنے کی بجائے منفی پہلو پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، لہذا حقیقت سے قریب تر کلام پڑھیں کیونکہ مجاز سے قریب کلام شاید میڈیا کی سطح پر پڑھا ہونے کی وجہ سے جلد مقبول ہوجائے مگر میڈیا کی بجائے اس بارگاہِ کریم ﷺ میں مقبول ہونا زیادہ اہم ہے، جس سے ہمارے من کی دنیا آباد ہے اور رہے گی۔ (ان شاءاللہ)
نعت خواں کو زبان و بیان کے ساتھ ساتھ مفہوم پر عبور حاصل ہو۔ کلام کا انتخاب موقع اور موضوع کے لحاظ سے کرے۔ لوازماتِ نعت اور احترامِ نعت سے آگا ہ ہو۔ محافل نعت کا انعقاد روحانی تسکین کے لیے ہوتا ہے۔ نعت خواں کے لیے درست تلفظ کی ادائیگی، لب و لہجہ ضروری ہے، بعینہ سامعین کو بھی پاکیزہ بدن و لباس و خیالات ضروری ہے تاکہ محفل نعت روحانی سرشاری کی وجہ بن سکے۔۔
ننعت خواں کے لیے ضروری ہے کہ وہ محفل کے تقدس کو قائم رکھتے ہوئے ترتیب سے کلام پیش کرے مثلاً شروع میں حمد باری تعالیٰ، پھر نعت رسول ﷺ، بعض ازاں کلام و منقبت و دیگر۔
6۔ سراپا عاجزی و انکساری بنیں
جب آپ کسی محفل میں جائیں اور لوگ کھڑے ہوکر آپ کا استقبال کریں تو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ خوشی نفس میں خرابی کے ہونے کی علامت ہے کیونکہ اگر کسی محفل میں آپ جائیں اور لوگ استقبال کے لیے کھڑے نہیں ہوں گے تو آپ کو دکھ ہوگا اور آپ شاید اس حد تک بھی پہنچ جائیں کہ اس محفل میں دوبارہ نہ آنے کا فیصلہ کرلیں۔ لہذا حالتِ عجز میں رہیں اور ہمیشہ عزت دینے والے بادشاہ کی طرف توجہ رکھیں، بے شک عزت اور ذلت اسی کے دستِ قدرت میں ہے۔ اسی طرح جب محافل نعت میں کوئی آپ کے ہاتھ کا بوسہ لے، بزرگ آپ کی عزت کریں، بزرگ عورتیں دعائیں دیں تو کبھی یہ تصور نہ کریں کہ اس میں آپ کا کمال ہے بلکہ آپ کو جو عزت مل رہی ہے، یہ صرف سرکار ﷺ کی نعت کا صدقہ ہے۔
نعت خواں جب ذکرِ سرکار کریم ﷺ کرنے کے لیے جائیں تو اس درجے کی عاجزی و انکساری کا نمونہ بن کر جائیں کہ اللہ کریم جل شانہ اس اندازِ عاجزی پر خوش ہوں۔ مزید یہ بھی یاد رہے کہ کسی بھی عمل میں روح کا ہونا ہی اس میں برکت پیدا کرتا ہے اور نعت خوانی میں تاثیر اور محبت رسول ﷺ کے حصول اور فروغ کے مقصد کے لیے اس بارگاہ میں عاجزی ناگزیر ہے۔ عاجزی سے اللہ جل شانہ کے ساتھ ساتھ مخلوقات میں بھی بندہ محبوب ہوگا مگر افسوس کہ ہم اپنے ہی مقام کی عدم شناسی کے سبب کہیں کے نہ رہے۔
7۔ توجہ الی المصطفیٰ ﷺ
نعت پڑھنا اتنا مشکل کام ہے جتنا کہ نعت لکھنا۔ نعت لکھنے کے بارے میں حضرت حفیظ تائبؒ فرماتے ہیں:
’’نعت کہنے کے لیے شاعر اگر ذاتِ رسالت مآب ﷺ کی طرف اخلاص سے رجوع کرے تو روحِ ممدوح آپ دستگیری کرتی ہے اور فضلِ ایزدی شاملِ حال ہوجاتا ہے اور یوں کٹھن مرحلے آسان ہوجاتے ہیں۔‘‘
یقیناً نعت خواں کے لیے بھی روح سرکار کریم ﷺ کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے تاکہ قلب میں سوز کی دولت میسر آئے۔نعت پڑھنے کے لیے سوزِ دروں کی دولت از بس ناگزیر ہے اور سوز کی اولین منزل کا تعلق دل سے ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ سے تعلقِ خاطر اس وقت تک استوار نہیں ہوسکتا، جب تک ان کی ہر ادا، ہر نقش، ہر بات اور ہر حکم قلب و نظر کی معراج قرار نہ پائے۔
8۔ ریا اور دکھلاوے سے احتراز
سرکار کریم ﷺ کی بارگاہ میں نذرانۂ محبت پیش کرتے ہوئے وجد میں آنا غیر شرعی ہرگز نہیں مگر یہ عمل غیر ارادی ہو، نہ کہ دکھلاوے کے لیے۔ لہذا ادب کا دامن ہمیشہ تھامے رہیں، اس لیے کہ یہی ہماری اساس ہے۔اللہ کریم اپنے بندوں پر کمال اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اس کھلے دشمن کے فریب میں وہی آتے ہیں جو میرے بندے نہیں۔ میرے بندوں کو دام فریب میں گرفتارکرنا یا رکھنا ممکن نہیں۔شیطان کے جال اور سازشوں سے بچنے کا بہترین ذریعہ ذکرِ خدا و رسول ﷺ میں خالصیت ہے۔ شاہراہِ محبت الہٰی و محبت رسول کریم ﷺ پر گامزن ہوتے ہی انسان کا دشمن سرگرم عمل ہوجاتا ہے، جس کا مقصد فقط اور فقط آپ کو اس مبارک عمل کے ثمرات و برکات سے محروم کردینا ہوتا ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ کسی بھی طرح آپ کی سوچ اور آپ کے خیال کو پراگندگی کی طرف لے جائے۔ بے شک ظاہراً آپ اپنے طور پر اپنی منزل محبت رسول ﷺ کے لیے کام کررہے ہیں مگر اصلاً آپ دنیا کی چکا چوند میں اس طرح محو ہوچکے ہوتے ہیں جیسے کوئی دنیا دار چور چوری بھی کرتا ہے مگر اس کا دل اطمینان کی دولت سے خالی رہتا ہے۔ اس طرح کھلا دشمن آپ کے اندر موجود جذبہ کو نشانہ بناتا ہے اور ایک زہر آلود انجکشن لگاتاہے تاکہ اصل منزل نظروں سے اوجھل ہوجائے۔
9۔ سراپا شکر
خوبصورت آواز اور لہجہ میں نعت پڑھنا بلاشبہ نعمتِ الہٰی ہے، لہذا اس نعمتِ ربِ کریم کے مل جانے پر ہمہ و قت اس کریم اور اس عالی شان ہستی ﷺ جن کے ذریعے وہ نعمت ہمیں عطا کی گئی ہے، ان کا شکریہ ادا کرتے رہنا واجب ہے کیونکہ شکر آپ کے ذہن میں اپنے کسی کمال کی بیماری کا بیج نہیں پڑنے دے گا اور نہ ہی اس سے دوسری کئی موذی بیماریاں جنم لیں گی۔ یقیناً نعمت کا زیادہ ہونا بھی شکر کے ہی مرہونِ منت ہے۔
اپنے اعمال کی درست ادائیگی کے لیے معیار صرف حضور نبی اکرم ﷺ کی ہستی کو رکھیں، اس لیے کہ جب سوچ کا معیار بدلتا ہے تو نعت خوان محفل نعت کروانے والے (چودھری، میاں، حاجی وغیرہ وغیرہ) کو کچھ سمجھنے لگتا ہے جس سے اس کے من کی ڈور کا رشتہ اصل سے ٹوٹنا شروع ہوجاتا ہے جو بالآخر عملی منافقت پر دلالت کرتا ہے۔ اس سوچ سے ثناء خوانی کے مقصد یعنی حصول محبت رسول ﷺ تک پہنچنا محال ہے۔
خلاصۂ کلام
جب نعت پڑھی جاتی ہے تو ہر امتی کو حسبِ استطاعت حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت کی خیرات ملتی ہے۔ اگر پڑھنے والے میں اخلاقی و روحانی اقدار اعلیٰ سطح پر موجود نہ ہوں تو ان برے اعمال و احوال سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر نعتِ رسول مقبول ﷺ پڑھنے کا مقصد یعنی محبتِ رسول ﷺ کا حصول اور فروغ قطعی حاصل نہیں ہوسکتا۔
شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ
یہ کوچۂ حبیب ہے پلکوں پہ چل کے آ