حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت اور بعثت ایک نئے دور کا آغاز اور تاریخ کی ایک نئی جہت کا تعین تھا۔ آپ ﷺ کی تشریف آوری کے بعد انسانیت مکمل طور ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ ایک ایسا دور جس میں شعور، آگہی، تہذیب، کلچر اور اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ، قیام اور استحکام کی وہ مثالیں ملتی ہیں جن کا آپ ﷺ کی آمد سے قبل تک تصور بھی نہ تھا۔ یہ سب ختمِ نبوت کا وہ فیضان تھا جو آپ ﷺ کی بعثت کے بعد آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کے ذریعے عالمِ انسانیت میں جاری و ساری ہوا۔ حضورنبی اکرم ﷺ کی شخصیت تمام اوصاف و کمالات کی جامع ہے۔ آپ ﷺ کی سیرتِ مطہرہ کے مطالعہ سے انسانِ کامل اور اسوۂ حسنہ کا صحیح نقشہ ذہن پر ثبت ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ کے حسنِ اَخلاق، حسنِ معیشت، شجاعت و بسالت، صبر و تحمل، صداقت و امانت، تدبر و بصیرت، عدالت و فقاہت، جود و سخا اور رحمت و مودت الغرض آپ کی جس بھی عظیم خصلت و وصف کا مطالعہ کیا جائے تو حضور ﷺ کی ذات گرامی کو عظیم مصلح و رہنماء، عظیم مدبر و منتظم، عادل قاضی و منصف، بے نظیر مقنن، مثالی قائد و سپہ سالار، دیانت دار تاجر، مثالی شہری، مثالی خاوند اور سربراہ خاندان اور کامیاب سربراہِ ریاست کی شانِ اکملیت کا اظہار جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔
تاریخِ اِنسانی میں یہ اِمتیاز صرف حضور نبی اکرم ﷺ کو حاصل ہے کہ آپ ﷺ کی اِنفرادی، معاشرتی اور قومی زندگی کا ایک ایک لمحہ محفوظ اور اہلِ ایمان کے لیے ہدایت کی صورت میں موجود ہے۔ آپ ﷺ کو تاریخِ انسانیت میں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر تاریخ میں سب سے زیادہ لکھا گیا اور لکھا جا رہاہے۔ حتی کہ آپ ﷺ کے سیرت نگاروں کی فہرست میں مسلم اور غیر مسلم تمام مصنفین شامل ہیں جنھوں نے ہر دور اور ہر خطہ میں اپنی بساط کے مطابق آپ کی حیاتِ طیبہ پر لکھنے کی سعادت حاصل کی۔حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کا مقصد ایک ایسے معاشرے اور دنیا کی تشکیل ہے جہاں انسان امن و سلامتی سے رہ سکے۔ آپ ﷺ کی سیرت اپنی ظاہری و باطنی وسعت کے لحاظ سے محض شخصی سیرت نہیں بلکہ ایک عالم گیر اور بین الاقوامی سیرت ہے جو تمام جہانوں کے لیے ایک مکمل دستورِ حیات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جائے گا، انسانی زندگی کے بقا، استحکام اور ترقی کے لیے سیرت کی ضرورت و اَہمیت شدید سے شدید تر ہوتی جائے گی۔
آج اُمتِ مسلمہ قلبی اور عملی طور پر ایک طرف عشقِ رسول ﷺ کی اہمیت و ضرورت سے نابلد ہے تو دوسری طرف حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مطہرہ کے حقیقی فہم سےبھی عاری ہے۔ جس وجہ سے امت نہ صرف اپنی انفرادی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں آپ ﷺ کے فیضان سے محروم رہی بلکہ عالمی سطح پر بھی سیرت اور اِسلام کا پیغام کما حقہ نہ پہنچایا جا سکا۔ لہذا آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ایک طرف عشقِ رسول ﷺ کے اصل تصور کو اجاگر کرکے امت کا آپ ﷺ کی ذاتِ بابرکات کے ساتھ قلبی و روحانی تعلق کو مضبوط و مستحکم کیا جائے اور دوسری طرف آپ ﷺ کی سیرتِ مقدسہ کے ذریعے امت کو عمل کی طرف راغب کیا جائے۔ آج کی نوجوان نسل جو تلاشِ حقیقت میں ماری ماری پھرتی ہے، اس آفاقی حقیقت سے باخبر ہو کر پھر سے اپنے آقا و مولا ﷺ کے ساتھ وہ حبی تعلق استوار کر لے کہ دنیا کی رنگینیاں اور نت نئے فلسفے اسے متاثر نہ کرسکیں اور انھیں دینِ حق کی اس کامل تعبیر کی صحیح معرفت نصیب ہوجائے جسے اِقبالؒ نے یوں بیان کیا:
بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نرسیدی، تمام بولہبی است
پس عشقِ رسول ﷺ کی اَہمیت کو قرآن و حدیث اور سیرت کی روشنی میں اَزسرِ نو نمایاں کرنا اَشد ضروری بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ دورِ حاضر کے علمی، فکری اور اخلاقی بگاڑ اور عظمت و محبت رسول ﷺ سے ناآشنائی کے سبب پیدا ہونے والے روحانی زوال کا خاتمہ کیا جاسکے۔ ایک حقیقی مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ اس کی نظر میں ایک طرف حضور سیّد دو عالم ﷺ کی وہ محبوبانہ عظمت و شان ہو جو آپ ﷺ کو بارگاہِ خداوندی میں حاصل ہے اور دوسری طرف آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے فکری، علمی اور عملی عظمت کے وہ پہلو ہوں جن سے دنیائے علم و عمل جگمگا رہی ہے۔ اس جامع اور ہمہ جہت تصور کو عوام الناس میں متعارف کروانا وقت کا تقاضا ہے تاکہ تعلیماتِ اسلام اور سیرت نبوی ﷺ کا ایسا متوازن اور جامع تصور سامنے آسکے جو بیک وقت نظروں اور عقلوں کو بھی مطمئن کرے اور دلوں اور روحوں کی اُجڑی بستی بھی سیراب کرے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر قوم اپنے مستقبل کو تابناک اور روشن بنانے کے لئے ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر اور اپنی داستانِ عروجِ و زوال کی ورق گردانی کر کے مستقبل کے لئے نہ صرف خدوخال وضع کرتی ہے بلکہ انہیں عملاً اپنے اوپر نافذ بھی کرتی ہے۔ جب ہم اُمتِ مسلمہ کی تاریخِ عروج و زوال کا بنظر عمیق مطالعہ کرتے ہیں تو یہ عجیب بات ہے کہ ہمیں ایک بنیادی و اساسی نقطہ ہی اس کے عروج و زوال میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے وہ نقطہ ذاتِ مصطفی ﷺ سے ربط و تعلق ہے۔ جب یہ تعلق اسوۂ صدیقی و بلالی کی صورت میں استوار ہوتا ہے تو یہی اُمت کے عروج و بلندی کا نقطہ اول بن جاتا ہے۔
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری حضور نبی اکرم ﷺ سے عشق و محبت اور آپ ﷺ کی سیرتِ مطہرہ کی اتباع و اطاعت کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے چہار دانگِ عالم میں حقیقی مصطفوی تعلیمات کے فروغ میں سرگرم عمل ہیں۔ آپ ﷺ کی آمد و بعثت، کمالات و فضائل اور شمائل و خصائل کا بیان ہو یا آپ ﷺ کی ہمہ جہتی تعلیمات، شیخ الاسلام نے ہر دو حوالوں سے اپنی تصانیف اور خطابات کے ذریعے ان امور کو نہایت اعلیٰ اور خوبصورت انداز سے اجاگر کیا ہے۔شیخ الاسلام نے واضح کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ صرف اہلِ ایمان کے لئے ہی نہیں بلکہ عالمِ انسانیت کے لئے مینارۂ نور اور انسانی معاشرے کی تہذیبی و معاشرتی لحاظ سے مثالی تشکیل دینے کا سرچشمہ ہے۔ آپ ﷺ کا فیض حقیقی معنی میں اسی وقت کسی کے دل میں جاگزیں ہوگا جب کوئی محبت و عشقِ مصطفی ﷺ میں ڈوب کر سیرتِ رسول ﷺ کا مطالعہ کرے گا۔ اس لیے کہ یہی محبت و عشقِ مصطفی ﷺ اسے سیرتِ مطہرہ کے ہر گوشے پر عمل کرنے پر ابھارنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
آیئے! ماہِ ربیع الاول کے ان پرسعید اور بابرکات لمحات میں صحابہ کرام l اور صلحائے اُمت کے تذکرے عام کریں جنہوں نے اپنی زندگیاں حضور ﷺ کی محبت اور والہانہ عشق میں گزاریں اور قدم قدم پر ایسے ان منٹ نقوش ثبت کئے ہیں کہ رہتی دنیا تک کوئی محب اپنے محبوب کے لئے ایسے نذرانے پیش نہیں کر سکتا۔ صحابہ کرام، اہل بیت اطہار اور اولیائے عظام کی ان ہی اداؤں کو آج بھی ہم اپنے لئے نمونہ بنا سکتے ہیں کیونکہ پریشان حال امت کے دکھوں کا مداوا حضور ﷺ کےعشق و محبت میں سرشار ہو کر آپ ﷺ کی سنت و اتباع کو اپنائے بغیر ناممکن ہے۔