فقہ و اصول کی تدوین کی ضرورت و اہمیت (حصہ دوم)

مفتی ارشاد احمد ساحل

گذشتہ سے پیوستہ

فقہ و اصول؛ کتاب و سنت کے عصری تقاضوں کی کیسے خدمت کرتے ہیں اور ان پر کتاب و سنت کا فیض بار سائبان کس طرح سایہ کناں ہے، اس کا اندازہ اسی بات سےکیجئے کہ فقہ و اصول کی چار بنیادیں ہیں:

1۔ کتاب اللہ

2۔ سنت رسول اللہ

3۔ اجماع

4۔ قیاس

ان میں کتاب و سنت تو بنیادی مصادر ہیں اور اجماع و قیاس کتاب وسنت کی تائید سے مزین اورمستفاد۔ اجتہاد صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب کسی مسئلے کا حکم کتاب وسنت میں صراحتاً نظر نہ آئے تو نظائر و امثال پر اس مسئلے کو پیش کرکے اس کا شرعی حکم دریافت کرلیتے ہیں۔ اس لیے فقہ و اصول کی تدوین اور ایجاد منشائے شریعت کی تکمیل کی خاطر مشیتِ الہٰی کی تائید سے عمل میں آئی۔ اس کے بغیر اسلامی احکام کی مکمل تفہیم ناممکن ہے۔

حضرت امام سلیمان اعمشؒ عظیم محدث اور حضرت امام اعظمؒ کے استاذ ہیں۔ حضرت امام اعظمؒ آپ سے بہت مانوس تھے۔ ایک مرتبہ آپ حضرت سلیمان اعمشؒ کی محفل میں حاضر تھے، کسی شخص نے حضرت امام اعمشؒ سے کچھ مسائل دریافت کیے۔ انہوں نے امام اعظمؒ سے پوچھا کہ آپ ان مسائل کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ حضرت امام اعظمؒ نے ان سب مسائل کے شرعی احکام بیان فرمادیئے۔ امام اعمشؒ نے حیرت سے پوچھا: یہ کہاں سے کہتے ہو؟ فرمایا: آپ ہی کی بیان کردہ ان احادیث سے اور پھر آپ نے وہ احادیث اسناد کے ساتھ بیان فرمادیں۔ امام اعمشؒ نے فرمایا: بس بس! میں نے آپ سے جتنی احادیث سو دن میں بیان کیں، آپ نے وہ سب ایک دن میں سنا ڈالیں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ آپ ان احادیث پر عمل کرتے ہیں۔ اے گروہ فقہا: تم طبیب ہو اور ہم محدثین عطار، اور اے نوجوان!تم نے دونوں (حدیث اور فقاہت) کو حاصل کیا۔ (الخیرات الحسان، ص: 67)

جس طریقے سے قرأت قرآنی کے لہجوں میں اختلاف کی وجہ سے اہلِ عجم کا اس آسمانی صحیفے میں الجھنا تدوین قرآن کا سبب بنا۔۔۔ حضرات صحابہ کا تسلسل کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونا اور ان کے رواۃ میں اختلاف تدوینِ حدیث کا باعث بنا۔۔۔ وضع حدیث کے فتنے سے احادیث کو سرمائے کو محفوظ کرنے کے لیے اسماء الرجال کا فن مدون ہوا۔۔۔ اسی طرح کتاب و سنت کے معانی کی تفہیم میں اختلاف اور فقہا صحابہ کے فتاویٰ میں اختلاف نے ایسی فضا پیدا کی، جس کی وجہ سے اسلام کے ہمدردوں کو ایسے اصولِ استنباط وضع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، جن کی روشنی میں آسانی کے ساتھ مسائل کے احکام دریافت کیے جاسکیں اور درست فیصلے تک پہنچاجاسکے۔

فقہ و اصول کی تدوین کے سرخیل: امام اعظمؓ

حضرات تابعین کی اخیر صفوں نے فقہ و اصول کی تدوین کی سمت توجہ فرمائی اور اس کاروانِ سعادت کی سرخیل امام الائمہ سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ذات قدسی صفات ہے، جن کے نورِ باطن سے آج بھی دنیا درخشانیوں کی سوغات حاصل کررہی ہے۔ حضرت امام مزنی شافعیؒ فرماتے ہیں:

ابو حنیفۃ اول من دون علم الفقه وافرده بالتالیف من بین الاحادیث النبویۃ وابوابه فبدا بالطهارۃ ثم بالصلوۃثم بسائر العبادات ثم المعاملات الی ان ختم الکتاب بالمواریث وقفاه فی ذلک مالک بن انس وقفاه ابن جریج وهشام.

(تاریخ علم الفقہ، عمیم الاحسان)

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کو تدوینِ فقہ میں اولیت کا مقام حاصل ہے جنھوں نے اس علم کو احادیثِ نبویہ سے اخذ کرکے الگ ممتاز فن کی شکل عطا کی اور اس کے ابواب متعین کیے۔ سب سے پہلے باب طہارت کے مسائل رقم کیے، پھر نماز کے پھر ساری عبادات کے، ان کے بعد معاملات کے، یہاں تک کہ میراث کے مسائل پر فقہی ابواب کا اختتام فرمایا۔ اسی طرزِ تدوین و ترتیب کو بعد میں حضرت امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ پھر حضرت ابن جریج اور حضرت ہشام نے اختیار فرمایا۔

فقہی مسائل کے استنباط اور اس فن کی تدوین کا انداز شورائی تھا۔کسی ایک فقہی باب کے مسائل اٹھائے جاتے، ایک ایک مسئلہ قرآن و حدیث کے معیار پر پررکھا جاتا اور گرما گرم ابحاث ہوتیں۔ اس محفل بحث و استنباط میں ہر ایک کو شمولیت کی اجازت نہیں تھی بلکہ اسلامی علوم کے اعلیٰ ماہرین اور نورِ باطن سے سرفراز ایسے تقدس مآب چالیس افراد اس تدوین بورڈ میں شامل تھے جو اپنی نظیر آپ تھے اور ہر ایک درجۂ اجتہاد پر فائز۔ قول فیصل حضرت امام اعظم کا ہوتا۔ اس مجلس تدوین کے استناد کے لیے مشہورمحدث حضرت وکیع بن الجراح کا یہ بیان کافی ہے:

’’امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے کام میں غلطی کیسے باقی رہ سکتی ہے جبکہ واقعہ یہ تھا کہ ان کے ساتھ ابو یوسف، زفر اور محمد جیسے لوگ قیاس و اجتہاد کے ماہر موجود تھے۔ حدیث کے باب میں یحییٰ بن زکریا زائدہ، حفص بن غیاث، حبان اور مندل جیسے ماہرینِ حدیث ان کی مجلس میں شریک تھے، لغت و عربیت کے ماہرین میں قاسم بن معن یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود کے صاحبزادے عبدالرحمن بن عبداللہ بن مسعود جیسے حضرات شریک تھے۔ داؤد بن نصیر طائی اور فضیل بن عیاض جیسے لوگ تقویٰ و ورع اور زہد و پرہیز گاری رکھنے والے موجود تھے۔ جس کے رفقائے کار اور ہم نشین اس قسم کے لوگ ہوں، وہ غلطی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ غلطی کی صورت میں صحیح امر کی طرف یہ لوگ یقیناً واپس کردیتے ہوں گے۔‘‘ (جامع المسانید، ص:33)

فقہ و اصول کی تدوین اور ایجاد منشائے شریعت کی تکمیل کی خاطر مشیتِ الہٰی کی تائید سے عمل میں آئی۔ اس کے بغیر اسلامی احکام کی مکمل تفہیم ناممکن ہے۔

فقہ و اصول دونوں کی تدوین کا آغاز ساتھ ہی ہوا کیونکہ اصول کی روشنی میں ہی مسائل کا استخراج ہوتا ہے لیکن ممتاز فن کی حیثیت سے اصول نے اپنی شناخت ذرا بعد میں بنائی۔ حضرت امام اعظم کے ممتاز مجتہد تلامذہ سیدنا امام ابویوسف اور امام محمد نے اصول فقہ کے باب میں تحریریں چھوڑی ہیں۔ حضرت امام مالک نے بھی موطا میں اس فن کے بعض قواعد کی جانب واضح اشارات دیئے ہیں لیکن اصول فقہ کے باب میں ممتاز تصنیف کی شکل میں حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ کا تحریر فرمودہ ’’الرسالۃ‘‘ سامنے آیا، جسے خاصی شہرت ملی یہاں تک کہ ابن خلدون جیسے محقق کو یہ گمان ہوگیا کہ اس فن کی تدوین کا سہرا حضرت امام شافعی کے سر ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اصول فقہ پر سب سے پہلے امام شافعی نے قلم اٹھایا اور اپنا مشہور ’’الرسالۃ‘‘ قلم بند کیا، جس میں اوامر و نواہی، بیان و خبر، نسخ و علۃ القیاس کے حکم وغیرہ پر ابحاث کیں، پھر فقہائے حنفیہ نے مبسوط کتابیں تالیف کیں، جن میں اصول فقہ کے قواعد و ضوابط وضاحت و تفصیل کے ساتھ مقرر و مدون کیے اور دوسری طرف متکلمین نے بھی اسی طرح کی کتابیں تصنیف کیں۔ غرض فقہائے حنفیہ کو فقہی باریکیوں پر دسترس اور مسائلِ فقیہ سے اصول فقہ کے قواعد و قوانین اخذ کرنے میں یدِطولیٰ حاصل ہے۔

(تاریخ افکار و علوم اسلامی، راغب طباخ، 2: 30)

لیکن مشہور شافعی مؤرخ ابن خلکان اس فن کی تدوین کا سہرا حضرت امام ابو یوسف کے سر باندھتے ہیں۔ ان کا بیان دیکھئے:

’’سب سے پہلے انھوں نے (امام ابو یوسف) فقہ حنفی سے متعلق اصولِ فقہ کی تحریری بنیاد رکھی اور مسائل کا املا کرایا اور ان کی اشاعت ہوئی اور تمام اطراف اور بلا دو امصار میں امام ابوحنیفہ کا علم پھیل گیا۔‘‘

(تاریخ افکار و علوم اسلامی، راغب طباخ، 2: 33)

حضرات محققین نے خوب فرمایا:

’’فقہ کی کاشت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمائی، حضرت علقمہ نے اس کی آبیاری کی، حضرت ابراہیم نخعی نے اس کھیتی کو کاٹا، حضرت حماد نے اس کی بھوسی اتاری، حضرت امام اعظم نے اسے باریک پیسا، حضرت امام ابویوسف نے اسے گوندھا اور حضرت امام محمد بن حسن شیبانی نے اس کی روٹیاں پکائیں۔ اب ساری امت ان روٹیوں سے شکم سیر ہورہی ہے۔‘‘

(فتاویٰ ملک العلماء، ص: 24)

اجتہاد و تدوین فقہ کے سارے معاملات محض کتاب و سنت کی تفہیم اور مسائلِ حیات کی اسلامی تشریح اور تحلیل کے لیے عمل میں لائے گئے اور کتا ب و سنت کی روشنی میں احکامِ شریعت بنائے گئے۔البتہ خدا داد شعورِ شریعت اور تفقہ کی نعمت سے بہرہ مند ہونے کے سبب یہ کارنامے تو ان بزرگوں کے ہیں لیکن یہ سارے احکام علومِ نبوت کا فیضان اور کتاب و سنت اور شریعت کے احکام ہی شمار ہوں گے۔ ان کی پیروی اللہ اور رسول کے حکم کی پیروی ہی کہی جائے گی۔ انہیں اسلام سے الگ کسی غیر کی اقتدا سمجھنا سراسر نادانی ہے اور اسلامی فہم و شعور سے بے گانگی ہے۔

امام اعظمؓ کا علمی و روحانی مقام

حضرات ائمہ اسی لیے تو ہمارے مقتدا اور مقدس پیشوا ہیں کہ یہ حضرات بارگاہ خدا اور رسول سے زیادہ قرب رکھتے ہیں۔ ان کا قربِ الہٰی دیکھنا ہے تو حضرت امام اعظم کی حیات مبارکہ کا روشن ورق ہی ملاحظہ کرلیں۔ آپ حضور نبی اکرم ﷺ کی بشارت ہیں، سارے ممتاز محدثین کے بالواسطہ یا بلاواسطہ استاذ ہیں، آپ کے تلامذہ میں چالیس ایسے جلیل الشان تھے جو منصبِ اجتہاد پر فائز تھے اور قربِ خدا کی اعلیٰ منزلوں پر فائز تھے۔ قاضی بغداد عمارہ بن حسن نےآپ کو اخیر غسل دیا۔ غسل دیتے جاتے اور یہ کہتے جاتے تھے: واللہ! تم سب سے بڑے فقیہ، سب سے بڑےعابد، سب سے بڑے زاہد تھے، تم میں تمام خوبیاں جمع تھیں، تم نے اپنے جانشینوں کو مایوس کردیا ہے کہ وہ تمھارے مرتبے کو پہنچ سکیں۔ (نزہۃ القاری، 1: 163)

کبار اولیائے کرام جیسے حضرت ابراہیم بن ادھم، حضرت شقیق بلخی، حضرت معروف کرخی، حضرت بایزید بسطامی، حضرت فضیل بن عیاض، حضرت عبداللہ بن مبارک ، حضرت وکیع بن جراح، حضرت شیخ الاسلام ابوبکر بن وراق، حضرت سلطان الہند خواجہ سید معین الدین حسن چشتی اجمیری سنجری حنفی رضی اللہ تعالیٰ عنھم نے آپ کی اقتدا کو باعثِ فخر جانا۔

آپ جلیل الشان تابعی ہیں جنھوں نے متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ اسی تقدس اور طہارت کا اثر تھا کہ آپ کی دینی فکر اور شرعی خدمات کو ایسا قبولِ عام حاصل ہوا کہ دو تہائی اسلامی دنیا آپ سے شرفِ نیاز رکھتی ہے اورحنفی کا لقب ان کے لیے باعث افتخار اور دین و دنیا کا سرمایۂ سعادت ہے۔ صاحب مجمع البحار بین الاقوامی شہرت یافتہ ہندی شافعی محدث اور فقیہ علامہ محمد طاہر فتنی (م 786ھ) نے ’’المغنی‘‘ میں بہت پیاری بات فرمائی ہے:

فلولم یکن لله سرخفی فیه لما جمع له شطر الاسلام او ما یقاربه علی تقلیده حتی عبدالله بفقھه و عمل برائه الی یومنا ما یقارب اربع مائۃ و خمسین سنۃ و فیه اول دلیل علی صحته.

(المغنی، ص: 80))

’’اگر اس مذہب حنفی میں اللہ تعالیٰ کی قبولیت کا راز پوشیدہ نہ ہوتا تو نصف یا اس کے قریب مسلمان اس مذہب کے مقلد نہ ہوتے۔ ہمارے زمانے تک جس کو امام صاحب سے تقریباً ساڑھے چار سو برس کا عرصہ ہوتا ہے، ان کی فقہ کے مطابق اللہ وحدہ کی عبادت ہورہی ہے اور ان کی رائے پر عمل ہورہا ہے۔ یہ اس مذہب کے عنداللہ مقبول اورصحیح ہونے کی شاندار دلیل ہے۔‘‘

سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ (م 150ھ) کے علاوہ امام مالک بن انس(م 179ھ)، امام محمد بن ادریس شافعی (204ھ)، امام احمد بن حنبل (م 241ھ)، حضرت سفیان ثوری (م 161ھ)، امام لیث بن سعد (م175ھ)، امام ابو ثور (م 240ھ)، امام عبدالرحمن بن عمر اوزاعی (م 157ھ) نامور مجتہد فقہاء گزرے ہیں، یہ سبھی ائمہ قرآن و حدیث کے بہترین شناور، احادیث طیبہ کے زبردست ماہر، علم و ادب کے امام، زہد و تقویٰ کے نورانی منارے ہیں، جن سے دنیا ہر سطح پر رہنمائی حاصل کرتی رہی۔ یہ بے نفس بزرگ کوئی ایسی بات دین و اسلام کے تعلق سے کیسے فرماسکتے ہیں جو قرآن و حدیث کے خطوط سے ہٹ کر ہو جبکہ ان کا امتیاز ہے کہ مخلوقِ خدا میں سب سے زیادہ خشیت الہٰی ان ہی کا حصہ ہے۔

حضرت امام اعظم کا صاف ارشاد ہے:

اذا صح الحدیث فھو مذهبی.

جب کوئی حدیث صحت سند کے ساتھ دستیاب ہوجائے تو وہی میرا مذہب ہے۔

حضرت امام شافعی نے مکہ معظمہ میں ایک مرتبہ فرمایا:

’’جو چاہو، مجھ سے دریافت کرو، میں تمہیں کتاب اللہ سے اس کی خبر دوں گا۔‘‘

’’فقہ کی کاشت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمائی، حضرت علقمہ نے اس کی آبیاری کی، حضرت ابراہیم نخعی نے اس کھیتی کو کاٹا، حضرت حماد نے اس کی بھوسی اتاری، حضرت امام اعظم نے اسے باریک پیسا، حضرت امام ابو یوسف نے اسے گوندھا اور حضرت امام محمد بن حسن شیبانی نے اس کی روٹیاں پکائیں۔ اب ساری امت ان روٹیوں سے شکم سیر ہورہی ہے۔‘‘

حضرت امام غزالی ایک فقیہ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’فقیہ وہ ہے جو دنیا سے دل نہ لگائے اور آخرت کی طرف ہمیشہ راغب رہے، دین میں کامل بصیرت رکھتا ہو، طاعات پر مداومت اپنی عادت بنالے، کسی حال میں بھی مسلمانوں کی حق تلفی برداشت نہ کرے، مسلمانوں کا اجتماعی مفادہر وقت اس کے پیش نظر ہو، مال کی طمع نہ رکھے، آفاتِ نفسانی کی باریکیوں کو پہچانتا ہو، عمل کو فاسد کرنے والی چیزوں سے بھی باخبر ہو، راهِ آخرت کی گھاٹیوں سے واقف ہو، دنیا کو حقیر سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس پر قابو پانے کی قوت بھی اپنے اندر رکھتا ہو، سفرو حضر اور جلوت و خلوت میں ہر وقت دل پر خوفِ الہٰی کا غلبہ ہو۔ (احیاء العلوم)

ایک غیر مجتہد فقیہ کے جب یہ اوصاف مطلوب ہیں تو پھر مجتہد فقیہ کے لیے اوصاف کی کیسی کوالٹی مطلوب ہوگی، اس کا ہر باشعور شخص اندازہ کرسکتا ہے۔ اس لیے ان ائمہ کرام کے سارے معاملات اللہ اور رسول کی رضا میں گم ہیں۔ وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ گفتہ او گفتہ اللہ بود، ان کا امتیاز ہے۔یہ حضرات یا تو قرآن سے نور لیتے ہیں یا حدیث پاک سے روشنی۔ پھر اپنی بصیرت آشنا ژرف نگاہی سے علومِ شریعت کی غواصی کرکے امتِ مسلمہ کے لیے آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔ ان کی اقتدا ایسے نفوسِ قدسیہ کی پیروی ہے جس کی دعا ہر نماز میں کی جاتی ہے:

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ. صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ.

(الفاتحہ، 1: 5، 6)

یہ انعامات الہٰیہ سے سرفراز حضرات ہیں، جن کی اقتدا کا ہمیں اس انداز سے حکم دیا گیا ہے:

وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ.

(لقمان، 31: 15)

وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ.

(التوبۃ، 9: 119)

اس لیے ان کی اطاعت دراصل حکمِ الہٰی کی تعمیل ہے۔ وہ بے نصیب لوگ ہیں جو ان حضرات سے دامن کشاں گزرتے ہیں۔

صرف چار فقہی مذاہب ہی کی تقلید کیوں ضروری ہے؟

یہاں اس گوشے کی وضاحت کرکے اپنی بات مکمل کرتا ہوں کہ جب کتاب و سنت کے سرچشمے قیامت تک تازہ اور رواں دواں ہیں تو پھر قرنِ اول اور ثانی کے ائمہ مجتہدین کی پیروی ہی کیوں کی جائے۔ بعد کے دور میں بھی تو اہلِ اجتہاد پیدا ہوں گے جو دورِ حاضر کے نت نئے مسائل کو اپنی خداداد صلاحیتوں کی روشنی میں حل کرتے ہیں۔ ساری دنیا چار فقہی مذاہب؛ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی میں ہی کیوں محدود رہے؟

اس سلسلے میں پہلے یہ بات ذہن نشین کرلی جائے کہ دوسری صدی ہجری میں صرف چار فقہی مذاہب ہی نہیں تھے اور حضرات ائمہ مجتہدین میں ائمہ اربعہ کا ہی شمار نہیں ہوتا تھا بلکہ بیسیوں اکابرِ اسلام ایسے تھے جو منصبِ اجتہاد پر فائز تھے بلکہ کئی ایک دیگر ائمہ کے مذاہب پھیلے بھی۔ کوفہ میں حضرت سفیان ثوری، مصر میں امام لیث، بغداد میں ابوثور، اندلس اور دمشق میں امام اوزاعی کے متبعین پائے جاتے تھے لیکن ان حضرات ائمہ کو تسلسل کے ساتھ متبعین دستیاب نہیں ہوسکے کہ ان کا مذہب ہمارے دور تک پہنچتا۔ ان کے افکار کو ان کے اخلاف نے تحریری طور سے منضبط نہ کیا، اس لیے ان ائمہ کے فقہی مسائل رفتہ رفتہ زمانے کی تہوں میں گم ہوتے چلے گئے۔ جب ان کے ذخائرِ افکار اور مستنبط مسائل پوری ضروریاتِ حیات اور اسلامی گوشوں کو محیط ہوکر محفوظ ہی نہیں رہے تو بھلا امت اسے اپنائے گی کیسے؟ جبکہ رائج چاروں فقہی مذاہب اپنی مکمل تفصیلات کے ساتھ سارے فقہی ابواب پر محیط ہوکر اب بھی جوں کے توں محفوظ ہیں، بلکہ آئے دن ان کے ذخائر میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔ بلامبالغہ ہر فقہی مذہب کی تفصیلات اور تشریحات پر مشتمل اب تک لاکھوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں، اس لیے ساری صحیح العقیدہ دنیا ان چاروں مذاہب کے دائرے میں سمٹی سمٹائی ہے۔

رہ گئی قرآن و حدیث کی شاہراهِ سعادت تو وہ قیامت تک ہر زمانے میں امت کے لیے کشادہ ہے، اس کا در کبھی بند نہیں ہوا۔ لیکن ان سمندروں سے تب و تاب والے گہر ہائے ثمین نکالنے والے اہلِ ظرف عرصے سے مفقود ہیں۔ ان کی مجتہدانہ شناوری کے لیے جس معیار کا علمی شعور چاہیے وہ اہلِ نظر کی نگاہ میں تیسری صدی ہجری کے بعد سے دستیاب نہیں۔ اگر ربِ قادر کوئی ایسا بندہ پیدا کردے جو ان تمام گوشوں پر حاوی ہو جو اجتہادی صلاحیت کے لیے درکار ہوتے ہیں تو وہ بے تکلف اجتہاد کرسکتا ہے۔

حضرات ائمہ مجتہدین عہدِ رسالت سے قر ب کی بدولت جو انشراحِ صدر رکھتے تھے، اس کے دستیاب ہونے کی تو اب کوئی صورت ہی نہیں ہے لیکن کتاب و سنت جیسی واقفیت اور علوم و آداب کے جن گوشوں کی ابھی ابھی نشاندہی ہوئی، کیا اب کوئی ایسا نظر آتا ہے جو ان فنون و آداب سے واجبی سی واقفیت بھی رکھتا ہو، چہ جائیکہ ان میں اسے مہارت کی گیرائی حاصل ہو۔پھر بہت سے ایسے علوم ہیں جو زمانے کی تہوں میں دفن ہوکر رہ گئے اور اہلِ علم انہیں اپنے سینوں میں لے کر قبر کی آغوش میں جاسوئے۔ خود حدیث پاک اس بات کی نشاندہی فرماتی ہے کہ جوں جوں قیامت کا زمانہ قریب آتا جائے گا علم کی گہرائی کم ہوتی جائے گی۔

فقہ و اصول کے سارے احکام علومِ نبوت کا فیضان اور کتاب و سنت اور شریعت کے احکام ہی شمار ہوں گے۔ ان کی پیروی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی پیروی ہی کہی جائے گی۔ انہیں اسلام سے الگ کسی غیر کی اقتداء سمجھنا سراسر نادانی اور اسلامی فہم و شعور سے بے گانگی ہے

ارشاد رسول ﷺ ہے:

ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعه من العبادو لکن یقبض العلم بقبض العلماء.

(مشکوٰۃ شریف، ص: 25)

اللہ تعالیٰ بندوں سے علم کی گہرائی کو یوں نہیں ختم کرے گا کہ ان کے دلوں سے علم چھین لے بلکہ جیسے جیسے جید علماء دنیا سے اٹھتے جائیں گے، ان کا علم بھی ان کے ساتھ رخصت ہوتا جائے گا (پھر بعد میں ان کا کوئی جانشین اور ان جیسا علم والا نہیں پیدا ہوگا۔ اس طور سے علم کی گہرائی رفتہ رفتہ ختم ہوتی جائے گی)

فقہائے کرام کے سات طبقات

جب اجتہاد کی بنیادی شرطیں ہی مفقود ہیں تو پھر اجتہاد کا جواز ہی کیا رہ جاتا ہے؟ لیکن پھر دوسرا سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ جب اجتہاد امکانی سطح پر نہ سہی، عملی سطح پر ہی گم ہے تو پھر نت نئے پیش آنے والے مسائل کا کیا ہوگا، انہیں کون حل کرے گا؟ یہاں تو پھر وہی جمود نکل آیا جسے دور کرنے کے لیے فقہ و اصول کی تدوین ہوئی تھی اور اسلامی قوانین کا Flexibile رخ سامنے آیا تھا۔ اس کی توضیح یہ ہے یہ کہ مجتہد مطلق کی شرطیں تو صدیوں سے مفقود ہیں لیکن ائمہ کے متعین کردہ اصولِ استنباط کی روشنی میں آنے والے مسائل کی تشریح کرنے والے اصحابِ بصیرت پیدا ہوتے رہے اور ہوتے رہیں گے جو اپنی مومنانہ فراست سے امت کے درد کا علاج پیش فرماتے رہیں گے۔ اسی لیے اہلِ نظر نے فقہائے کرام کے سات طبقات متعین کیے ہیں:

(1) مجتہد فی الشرع / مجتہد مطلق مستقل

یہ فقہائے اسلام کا وہ طبقہ ہے جنہیں اصولی قواعد کی تاسیس، کتاب و سنت، اجماع اور قیاس سے فرعی احکام کے استنباط کی ذاتی سطح پر استعداد حاصل ہو اور وہ اصول و فروع میں کسی کی تقلید کےمحتاج نہ ہوں۔ جیسے سراج الامۃ امام اعظم ابو حنیفہ (م 150ھ)، امام مالک (م 179ھ)، امام شافعی (م 204ھ)، امام احمد بن حنبل (م241) وغیرہ۔

(2) مجتہد فی المذاہب/ مجتہد مطلق غیر مستقل

یہ ایسے فقہاء ہوتے ہیں جن میں مجتہد مطلق کی ساری صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں لیکن وہ خود کو اصول میں کسی مجتہد مطلق کا تابع رکھتے ہیں اور ان کے بنائے ہوئے اصول کی روشنی میں کتاب و سنت، اجماع اور قیاس سے مسائل کے استخراج کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یعنی اصول میں مقلد ہوتے ہیں اور فروع میں مجتہد۔ جیسے حضرت امام ابویوسف (م 183ھ)، امام محمد (م 189ھ)، امام عبداللہ بن مبارک (م 181ھ) وغیرہ تلامذہ امام اعظم ۔

(3) مجتہد فی المسائل/ مجتہد مقید

ایسے فقہاء اس زمرے میں آتے ہیں جو اصول و فروع دونوں میں مجتہد مطلق کے تابع ہوں اور ان کے وضع کردہ اصول و فروع کی روشنی میں ایسے مسائل کا استنباط کرسکتے ہوں، جن کے بارے میں ائمہ مذہب سے کوئی روایت نہیں ملتی۔ جیسے امام ابوبکر خصاف (م 261ھ)، امام ابوجعفر طحاوی (م 331ھ)، امام ابوالحسن کرخی (م 340ھ)، شمس الائمہ حلوائی (456ھ)، شمس الائمہ سرخسی (م500ھ)، امام فخرالاسلام بزدوی (م 482ھ)، امام فخرالدین قاضی خاں (م 593ھ)

(4) اصحاب تخریج

حضرات فقہاء کا یہ طبقہ اجتہاد و استنباطِ مستقل کی قدرت نہیں رکھتا، البتہ ائمہ مذہب کے وضع کردہ سارے اصول و فروع پر گہری نگاہ ہوتی ہے جس کی روشنی میں یہ مجمل کی تشریح، محتمل کی تعیین مثالوں کے حوالے سے کرسکتے ہیں۔ حضرت ابوبکر احمد بن علی رازی (370ھ) اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

(5) اصحاب ترجیح

یہ حضرات اصحاب تخریج سے کمتر فقاہت کے حامل ہوتے ہیں اور ائمہ مذہب سے منقول روایات میں سے اصول و فروع کی روشنی میں بعض کو بعض پر ترجیح دینے کی صلاحیت رکھتےہیں۔ جیسے امام ابوالحسن قدوری (م 428ھ)، صاحب ہدایہ امام ابوالحسن علی بن ابی بکر فرغانی مرغینانی (م 593ھ) وغیرہ۔ ھذا اولی، ھذا اصح، ھذا اوضح، ھذا اوفق للقیاس جیسے اقوال ان کی پہچان ہوتے ہیں۔

(6) اصحاب تمیز

فقہاء کا یہ گروہ مذہب کے قوی اور ضعیف، مقبول اور مردود اقوال میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ظاہر الروایہ اور نادر روایات کے درمیان امتیاز کی قدرت ان میں موجود ہوتی ہے، جیسے اصحاب متون معتبرہ۔ مثلاً:صاحبِ مختار، صاحبِ وقایہ، صاحب مجمع وغیرہ۔

(7) مقلد محض

جن میں مذکورہ بالا کوئی صلاحیت موجود نہ ہو، ایسے حضرات کا ذاتی قول قابل عمل نہیں ہوتا، بس یہ ائمہ مذہب کے اقوال نقل کرسکتے ہیں، جیسے موجودہ دور کے بیشتر صاحبانِ فقہ۔ ان میں ایسے ایسے افراد شامل ہیں جن کی عظمتوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ لیکن ان سب فضائل و کمالات کے باوجود یہ حضرات، ائمہ اربعہ میں سے کسی نہ کسی کے مقلد ہی رہے۔ خود حضرت امام بخاری جنہیں چھ لاکھ احادیث مبارکہ ان کے رجال اور اسناد کی ساری جزئیاتی تفصیلات کے ساتھ یاد تھیں، سیدنا امام شافعی کے مقلد تھے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دین و شریعت کا فہم، پختہ شعور، حسنِ ادب اور عمل کی توفیق سے سرفراز فرمائے اور ہدایت یافتہ حضرات کی صفوں میں باقی رکھے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ