حبِّ رسول ﷺ کی ضرورت اور عملی تقاضے

ڈاکٹر حافظ محمد سعداللہ

اللہ کریم کے آخری نبی معظم و رسول محتشم سیدالمرسلین خاتم النبیین رحمۃ للعالمین حضرت سیدنا محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کی دائمی و عالمی نبوت و رسالت پر جس طرح ایمان لانا فرض ہے اور جس کے بغیر کوئی آدمی شرعاً مومن کہلاسکتا ہے اور نہ دائرہ اسلام میں داخل ہوسکتا ہے، نیز جس طرح آپ ﷺ کی مطلق و غیر مشروط اطاعت و اتباع شرعاً لازم اور ہر لحاظ سے تعظیم و توقیر واجب ہے جو ایک مومن پر نبی رؤف رحیم ﷺ کا لازمی حق ہے، ٹھیک اسی طرح قرآن و حدیث کی رو سے رسول مقبول ﷺ کی ذات والا شان کے ساتھ والہانہ اور ہر چیز سے زیادہ محبت رکھنا بھی واجب ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی کے ساتھ جب تک اس درجہ کی محبت اور اس قسم کا قلبی تعلق اور عزت و ناموسِ رسالت ﷺ پر مرمٹنے کا حقیقی جذبہ و داعیہ پیدا نہ ہو تو آدمی نہ ایمان کی حلاوت پاسکتا ہے، نہ کامل ایمان کے درجہ پر فائز ہوسکتا ہے اور نہ ازروئے قرآن اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں محبتِ نبی ﷺ ایمان کی روح ہے اور اس کے بغیر جملہ اعمال اور مقامات و احوال بے جان ڈھانچہ ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے بالکل سچ کہا ہےکہ:

مغزِ قرآں روحِ ایماں جانِ دیں
ہست حبِ رحمۃ للعالمین

علاوہ ازیں تاریخ شاہد ہے کہ محبتِ رسول ﷺ کے قدرتی اور فطری نتیجے میں ایک محبِّ رسول ﷺ کے لیے ایمان کے سارے تقاضوں کو پورا کرنا اور اللہ تعالیٰ او ر اس کے رسول ﷺ کے احکام پر چلنا نہ صرف یہ کہ آسان ہوجاتا ہے بلکہ اس راہ میں جانِ عزیز تک دینے میں بھی وہ ایک لذت محسوس کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایمان کی معنوی حلاوت اور باطنی مٹھاس پانے کے لیے جن خصائل و صفات کو ایک مومن کے لیے ضروری قرار دیا ہے ان میں سرِ فہرست یہ بات رکھی ہے کہ :

أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا۔(صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب حلاوۃ الایمان،1: 14، رقم: 16)

اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس کے نزدیک باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں ۔

حلاوۃِ ایمان کا معنی امام نوویؒ نے یہ لکھا ہے کہ آدمی کو طاعت (نیکیاں، عبادات) بجا لانے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی کی خاطر تکالیف اٹھانے میں لذت محسوس ہو اور اس چیز کو دنیا کے مال و متاع پر ترجیح دے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے بندے کی محبت یہ ہے کہ اس کی اطاعت کرے اور اس کی مخالفت چھوڑ دے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت کا بھی یہی معنی ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت کرے اور آپ ﷺ کی مخالفت ترک کردے۔ (نووی، شرح صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان خصال من اتصف، 1: 49)

اس کے برعکس جس آدمی کے دل میں محبتِ رسول ﷺ کا کوئی جذبہ نہ ہوگا، اس کے لیے روزمرہ کے اسلامی فرائض کی ادائیگی اور عام ایمانی مطالبات کی تعمیل بھی سخت گراں اور بڑی کٹھن ہوجاتی ہے اور جتنا کچھ وہ کرتا بھی ہے تو اس کی حیثیت زیادہ سے زیادہ بس قانونی پابندی یا مجبوری کی سی ہوتی ہے جبکہ قرآن نبی اکرم ﷺ کے لیے اس اعزاز اور توقیر و اکرام کا طالب ہے جو قلب کی گہرائیوں کی پیداوار ہو۔ وہ آپ ﷺ سے جذباتی لگاؤ اور محبت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ آپ ﷺ کی صرف اس اطاعت پر راضی نہیں جو جذبات، محبت اور تعظیم سے خالی ہو جیسے کہ رعایا کا بادشاہ کے ساتھ اور دوسرے فوجی و سول لیڈروں کے ساتھ ایک رسمی یا مجبوری کا تعلق ہوتا ہے۔ قرآن صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر فرائض کی ادائیگی ہی کافی نہیں سمجھتا بلکہ اس کا مطالبہ ہے:

لِّتُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ۔(الفتح،48: 9)

’’ تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور آپ ( ﷺ کے دین) کی مدد کرو اور آپ ﷺ کی تعظیم بجا لاؤ۔‘‘

اس لیے اس نے ہر اس چیز کا حکم دیا جس میں آپ ﷺ کی عزت و حرمت کی حفاظت ہوتی ہو اور ہر اس چیز سے منع کردیا جس سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ادنیٰ بے ادبی یا بے ادبی کا شائبہ ہو اور جس سے (العیاذ باللہ) آپ ﷺ کی عزت مجروح، آپ ﷺ کی رفعتِ شان گھٹتی اور آپ ﷺ کا ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ والا بلند مرتبہ کم ہوتا ہو۔

حبِ رسول ﷺ کی عقلی ضرورت

محبتِ رسول ﷺ کی اس دینی، ایمانی، روحانی اور شرعی ضرورت و اہمیت اور حد درجہ افادیت و منفعت کے علاوہ اگر دنیا کے کسی بھی انسان کی آنکھوں پر فکری، مذہبی اورنسلی تعصب کی پٹی نہ بندھی ہو اور پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات ستودہ صفات سے بغض، عناد اور مخالفت برائے مخالفت نے اس کے دل کے دریچے بند نہ کردیے ہوں تو وہ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ عدل و انصاف اور عقلِ سلیم کا لازمی تقاضا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی رحمتِ عالم ذات کے ساتھ ساری دنیا سےبڑھ کر اور ٹوٹ ٹوٹ کر محبت کی جائے۔ کیونکہ محبت و پیار کی دنیا میں حسی، ظاہری اور باطنی اعتبار سے محبت کے جتنے قدرتی و فطری عوامل، محرکات اور اسباب ہوسکتے ہیں، مثلاً: ظاہری حسن و جمال، باطنی، اخلاقی اور علمی و فنی کمال اور نوازشات و احسان وغیرہ تو یہ سب اسباب و محرکات نبی کریم ﷺ کی جامع الصفات اور ہر جہت و زاویے سے بے عیب و محمود ذات میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔

چنانچہ امام نوویؒ شرح صحیح مسلم میں محبت کا معنی اور اس کے اسباب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’محبت کی اصل محبّ (محبت کرنے والے) کا اس چیز کی طرف میلان ہے جو اس کے موافق ہو (دل کو اچھی لگے)۔ پھر یہ میلان کبھی تو اس وجہ سے ہوتا ہے کہ انسان اس چیز سے لذت حاصل کرتا اور اسے اچھا سمجھتا ہے جیسے شکل و شباہت کا حسن (خوبصورتی)، آواز کا حسن (سریلی آواز) اور کھانے وغیرہ کا حسن (لذیذ ہونا)۔ کبھی یہ قلبی میلان اس لیے ہوتا ہے کہ انسان کسی چیز میں پائے جانے والے باطنی معانی (خوبیوں) کی وجہ سے عقلی طور پر اس سے لذت حاصل کرتا ہے، جیسے صلحاء، علماء اور اہلِ فضل کی محبت (ان کے کمالِ علم و فضل اور تقویٰ کی وجہ سے) اور کبھی آدمی کا یہ میلان کسی چیز یا انسان کی طرف اس لیے ہوتا ہے کہ اس نے اس پر کوئی احسان کیا یا اس سے کسی مضرت و تکلیف کو دور کیا ہے۔ محبت کے یہ جملہ اسباب و معانی نبی اکرم ﷺ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اس لیے کہ ظاہری جمال اور باطنی کمالات اور ہر قسم کے فضائل آپ ﷺ کی ذات میں جمع کردیئے گئے ہیں۔ تمام مسلمانوں پر آپ ﷺ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں صراطِ مستقیم پر چلایا، جنت کی ابدی نعمتوں کا مستحق ٹھہرایا اور جہنم کی آگ سے دور کیا۔ (نووی، شرح صحیح مسلم، باب وجوب محبۃ الرسول۔۔۔، 1: 49)

مومنین کا آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ تعلق کا تقاضا

حضور نبی کریم ﷺ کی سراپا رافت و شفقت ذات کا اہلِ ایمان کے ساتھ جو منفرد، بے مثال، مخلصانہ، خیر خواہانہ، ہمدردانہ، بے غرض، بے لوث اور قریبی تعلق ہے، اس کا بھی فطری تقاضا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی محسن ذات سے ساری کائنات بلکہ اپنی ذات سے بھی زیادہ محبت کی جائے۔ مومنین کے ساتھ اس تعلق کی وضاحت قرآن مجید نے یوں فرمائی ہے:

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ۔ (الاحزاب،33: 6)

’’ یہ نبیِ (مکرّم ﷺ ) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں۔‘‘

اس گہرے اور مخلصانہ تعلق کی مزید وضاحت خود نبی کریم ﷺ نے یوں فرمائی ہے:

’’میری اور میری امت کی حالت اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی ہو پھر مختلف پتنگے اس میں گرنے کے لیے دوڑے چلے آرہے ہوں۔ ٹھیک اسی طرح میں تمھیں تمھاری کمروں سے پکڑ پکڑ کر بچانے کی کوشش کررہا ہوں اور تم ہو کہ اس (ہلاکت اور کفر کی آگ) میں گرے جارہے ہو۔‘‘

(کنزالعمال، 1: 102، رقم: 896)

حقیقت یہ ہے کہ جو تعلقِ خاطر ، پیارو محبت، شفقت، خیر خواہی، ہمدردی اورغم خواری حضور نبی اکرم ﷺ کو تمام انسانیت اور اپنی امت سے رہی ہے اور جو اس وقت بھی جاری و ساری ہے، اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔

حبِّ رسول ﷺ کی شرعی حیثیت

حبِ رسول ﷺ کی درج بالا دینی، دنیوی،عقلی ضرورت اور مومنین کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے مذکورہ دائمی انمٹ اور دنیا و آخرت میں بے مثال اور مخلصانہ تعلق کی بنا پر ہی آپ ﷺ کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرما جانے کے بعد بعض مسلمانوں سے چند موہوم اندیشوں کی وجہ سے جب ہجرت کر جانے کے حکم کی تعمیل میں کچھ کمزوری ، کوتاہی، تاخیر اور سستی کا ارتکاب ہوا تو اللہ نے تنبیہ فرمائی:

’’(اے حبیب ﷺ !) آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے (اولادیں) اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارے کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے بگڑ جانے سے تم ڈر رہے ہو اور وہ گھر جنہیں تم پسند کرتے ہو (یہ سب) تم کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے اور اس کی راہ میں جہادکرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم بھیج دے اور اللہ نافرمان لوگوں (فاسقوں) کوہدایت نہیں دیتا۔‘‘

(التوبہ: 24)

اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے مفسر قرطبیؒ نے لکھا ہے:

وفی الایۃ دلیل علی وجوب حب اللہ ورسولہ ولا خلاف فی ذالک بین الامۃ.

(قرطبی، جامع الاحکام القرآن، 8: 95)

’’آیت میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ محبت کے واجب ہونے کی دلیل ہے اور اس مسئلے میں امت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔‘‘

حبِّ رسول ﷺ کے شرعی اعتبار سے اس وجوب اور ہر چیز پر مقدم ہونے کی صراحت خادم رسول ﷺ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں خود نبی کریم ﷺ نے قسم کے ذریعے موکد کرنے کے بعد یوں ارشاد فرمایا:

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.

(صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب حب الرسول من الایمان، 1: 24، رقم: 14)

’’تم میں سے کوئی بھی آدمی اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک کہ میری ذات اس کے نزدیک اپنے والد، اپنی اولاد اور تمام دوسرے لوگوں سے زیادہ محبوب نہیں بن جاتی۔‘‘

یہ حدیث بتلاتی ہے کہ اگر باپ کے لیے کبھی ایسا موقع آئے کہ محض رسول اللہ ﷺ پر ایمان اور آپ ﷺ کے ساتھ ایمانی تعلق کی پاداش میں اسے اپنی اولاد چھوڑنی پڑجائے یا اولاد کے لیے ایسا موقع ہو کہ انہیں اپنے والدین ترک کرنا پڑیں تو ایمان کا تقاضا ہے کہ یہ قربانی و ایثار کر گزرے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی درج بالا روایت کے لیے امام مسلم نے باب کا جو طویل عنوان قائم کیا اور اس سے جو حکم مستنبط کیا ہے، وہ قابلِ غور اور امام موصوف کی فقاہت و باریک بینی پر گواہ ہے۔ باب کا عنوان ہے:

بَاب وُجُوبِ مَحَبَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَكْثَرَ مِنْ الْأَهْلِ وَالْوَلَدِ وَالْوَالِدِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ وَإِطْلَاقِ عَدَمِ الْإِيمَانِ عَلَى مَنْ لَمْ يُحِبُّهُ هَذِهِ الْمَحَبَّةِ.

(صحیح مسلم، 1: 154)

’’رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنے اہل خانہ، اولاد، ماں باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ محبت رکھنے کا واجب ہونا اور اس آدمی پر مومن نہ ہونے کا طلاق جو آپ ﷺ سے اس درجہ کی محبت نہیں رکھتا۔‘‘

جس ماحول میں اب ہم رہ رہے ہیں، یہ ماشاء اللہ اسلامی ماحول ہے۔ اولاد بھی مسلمان اور باپ بھی مسلمان۔ اس لیے اس طرف ذہن کم ہی جاتا ہے کہ خدا اور رسول ﷺ کی محبت کا والدین یا اولاد کی محبت سے کوئی تقابل ہوسکتا ہے لیکن ابتدائے اسلام میں جب یہ ماحول نہیں تھا اور اسلام دنیا کو کفر کی تاریکی سے نورِ ہدایت کی طرف آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ اس وقت خدا اور رسول ﷺ کی محبت؛ والد و اولاد کی عداوت کے ہم معنی بنی ہوئی تھی۔ جو خدا سے محبت کرتا، اسے اپنے مال و اولاد کو چھوڑنا پڑتا اور جو اپنے مال و اولاد کا ساتھ دیتا، اسے خدا اور رسول ﷺ سے بغاوت کرنا ہوتی۔

ایک دوسری روایت میں اپنی جان حضور ﷺ سے زیادہ محبوب رکھنے کو بھی ایمان کے منافی قرار دیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن ھشام کہتے ہیں کہ

كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ فَإِنَّهُ الْآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ الْآنَ يَا عُمَرُ.

(صحیح بخاری،کتاب الایمان والنذور، باب قول النبیؐ وایم اللہ، 2: 299، رقم: 6142)

ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ اس دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنی قلبی کیفیت بیان کرتے ہوئے)کہا: یارسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جب تک میں تمھارے نزدیک تمھاری اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ قرار پاؤں ،تم مومن نہیں ہوسکتے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اب آپ ﷺ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوگئے ہیں۔ فرمایا: اے عمر! تو اب تم پکے مومن ہوگئے۔‘‘

یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی صداقت تھی کہ انھوں نے اپنی اندرونی کمزوری یا باطنی بیماری دربارِ رسالت میں صاف صاف بیان کردی۔ دوسری طرف نگاہِ نبوت اور فیضِ نبوت کاکمال تھا کہ ایک سیکنڈ میں آپ ﷺ نے ایمان کے تمام ارتقائی مدارج انہیں طے کرادیے۔ وہ سینہ جو ابھی ابھی اپنی جان کو عزیز سمجھ رہا تھا، دوسری ساعت آنے نہیں پائی کہ رسول اکرم ﷺ کی ذات کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھنے لگتا ہے۔ کہنے کو تو یہ دو فقرے ہیں مگر آپ ﷺ کے فیضِ صحبت کی یہ برقی تاثیر عقلِ انسانی کے لیے موجبِ حیرت ہے۔ اب سوچو کہ جہاں سیکنڈوں کی صحبت کے آثار یہ ہوں وہاں ہفتوں، مہینوں اور کئی کئی سالوں کے اثرات کیا ہوں گے۔ ؎قیاس کن زگلستان من بہار مرا

حبِّ رسول ﷺ سے متعلق ان احادیث کی شرح میں محدثین نے اگرچہ یہ بات لکھی ہے کہ یہاں طبعی، جبلی اور فطری محبت مراد نہیں جو انسان کے اختیار میں نہیں ہوتی بلکہ ایمانی، عقلی اور اختیاری محبتِ رسول ﷺ مراد ہے لیکن کمال ایمان کا تقاضا ہے کہ اس محبت میں اس قدر ترقی ہونی چاہیے کہ یہ محبت طبعی محبت پر غالب آجائے اور اتباعِ سنت میں وہ لذت محسوس ہو جو ہر تکلیف کو راحت اور ہر تلخی کو شیریں بنادے۔ یہی محبت کا اعلیٰ اور مطلوب مقام ہے۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ و رسول ﷺ کے ساتھ اہلِ ایمان کو جو محبت ہوتی ہے، وہ ماں باپ اور بیوی بچوں کی محبت کی طرح خونی رشتوں یا دوسرے طبعی وغیر اختیاری اسباب کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ وہ روحانی، ایمانی اور عقلی وجوہ سے ہوتی ہے مگرجب عقلی محبت کامل ہوجاتی ہے تو اس کے سوا دوسری تمام محبتیں جو طبعی، خود غرضانہ، مفاد پرستانہ یا نفسیاتی اسباب کی وجہ سے ہوتی ہیں، مغلوب ہوجاتی ہیں۔ اس بات کو ہر وہ شخص سمجھ سکتا ہے جس کو اللہ نے اس کا کوئی حصہ نصیب فرمایا ہو۔

یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی پر من جانب اللہ سلسلۂ نبوت و رسالت ختم کردینے کی ایک حکمت علماء نے یہ بھی بتائی ہے کہ حضور ﷺ کے ساتھ مومنین کے قلبی تعلق و محبت میں کسی قسم کی کمی اور کمزوری واقع نہ ہو۔

حبِّ رسول ﷺ کے عملی تقاضے

محبت ایک قلبی میلان، دلی جذبہ، اندرونی تڑپ اور باطنی کیفیت کا نام ہے جس میں کمی بیشی بھی ممکن ہے مگر کسی کی پیشانی پر نہیں لکھا ہوتا کہ یہ آدمی فلاں شخص یا فلاں چیز سے محبت رکھتا ہے اور کس قدر رکھتا ہے۔ تاہم حقیقی محبت کا ظہور کسی نہ کسی طرح ہوکر رہتا ہے۔ جذبہ ٔمحبت کا فطری، لازمی اور قدرتی تقاضا ہے کہ محبت کرنے والے کی ذات سے بعض ایسے اعمال، افعال اور حرکات کا لامحالہ ظہور ہو جو محبوب سے محبت اور تعلقِ خاطر پر دلیل ہوتی ہیں۔ ورنہ یہ دعوائے محبت چوری کھانے والے مجنوں کی طرح محض زبانی اور حلق سے اوپر اوپر اور جھوٹا ہوگا۔

جہاں تک آپ ﷺ کی محبوب ذات کے ساتھ ایک مسلمان کی محبت کا تعلق ہے تو کلمہ طیبہ اور ایمان بالرسول ﷺ کی برکت سے اگرچہ کسی بھی کلمہ گو کا دل محبتِ رسول ﷺ سے بالکل خالی نہیں ہوتا، تاہم بعض خوش نصیبوں کو اس کا وافر حصہ ملا ہوتا ہے اور درج بالا محبت کے فطری تقاضے کے مطابق ان سے بعض اعمال کا ظہور یا ارتکاب ہونا ضروری ہے۔اسی چیز کو محبت کے عملی تقاضے یا محبت کی علامات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ محبت رسول ﷺ کے کچھ تقاضے تو حضور ﷺ کی ظاہری زندگی کے ساتھ خاص تھے جن پر عمل اب ممکن نہیں مگر کچھ ایسے تقاضے ہیں جن کا تعلق قیامت تک کے لیے ہر محبِّ رسول ﷺ سے ہے۔ اس قسم کے چند اہم تقاضے درج ذیل ہیں:

(1) خواہشاتِ نفس کا شریعتِ محمدیہ ﷺ کے تابع ہوجانا

محبتِ رسول ﷺ کا اولین تقاضا ہے کہ حضور ﷺ پر ایمان لانے کے بعد شریعتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے سامنے ذاتی پسند و ناپسند اور اپنی مرضی ختم ہوجائے۔ اسے متابعتِ شریعت میں وہ لطف و لذت محسوس ہونے لگے جو طبعی مرغوبات میں ہوتی ہے۔ سخت سردیوں میں فجر کی نماز کے لیے اٹھنا اور کڑاکے کی گرمی میں رمضان کے روزے رکھنے کی ایسی خواہش ہو جیسے سردی میں گرم کپڑے پہننے اور گرمی میں ٹھنڈک حاصل کرنے کی ہوتی ہے۔ یہ کیفیت اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک کہ نفس اپنی سرشت چھوڑ کر حضور ﷺ کی شریعت کے تابع نہ ہوجائے۔ آپ ﷺ نے اس امر کی صراحت یوں فرمائی:

لَا يُؤْمِن أَحَدكُمْ حَتَّى يَكُون هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْت بِهِ.

’’تم میں سےکوئی آدمی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی نفسانی خواہشات اس شریعت کے تابع نہ ہوجائیں ،جس کو میں لایا ہوں۔‘‘(فتح الباری،لابن حجر، 2: 364)

اس حدیث کی شرح میں علامہ قاضی عبدالدائم دائم لکھتے ہیں کہ ’’کیا ہم نے آقاe کے ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کررکھا ہے؟ کیا ہم نے اپنی ہر خواہش کو نظامِ مصطفی ﷺ کے تابع کردیا ہے؟ کیا ہماری صورت اور سیرت اسلامی ڈھانچے میں ڈھل گئی ہے؟ کیا ہماری گفتار و کردار پر مصطفوی رنگ چڑھ چکا ہے؟ اگر نہیں اور بالیقین نہیں تو مجھے کہنے دیجئے کہ رنگ برنگی جھنڈیاں لگانے، نوبہ نو محرابیں بنانے، بلند و بالا عمارتیں سجانے، ہزاروں شمعیں اور قمقمے جلانے ، صبح دم بلند آہنگ بارودی گولے چلانے، جلسوں اور جلوسوں میں شب و روز نعتیں سنانے، پوری طاقت سے توحید اور رسالت کے نعرے لگانے اور کئی کئی گز کے علم لہرانے کے باوجود لایومن احدکم کی ہولناک تنبیہ تلوار کی طرح ہر دم سر پر لٹکی ہوئی ہے۔ اب گری کہ تب گری۔ اللهم ارحم

(2) حضور ﷺ کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھنا

محبتِ رسول ﷺ کا لازمی تقاضا ہے کہ حضور ﷺ کی مرغوب اور پسندیدہ چیز آدمی کے نزدیک مرغوب اور پسندیدہ اور آپ ﷺ کی ناپسند، ناپسند قرار پائے۔ جیسے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ہمیشہ اس لیے سبتی جوتے پہننا کہ حضور ﷺ کو انہوں نے اس قسم کے جوتے پہنتے دیکھا تھا۔۔۔ کدو کے سالن کا زندگی بھر کے لیے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی مرغوب غذا ٹھہرنا کہ ایک دعوت میں انھوں نے حضور ﷺ کو شوق سے کدو کھاتے دیکھا تھا۔ اسی طرح محبتِ رسول ﷺ کا مطالبہ ہے کہ جن چیزوں کو نبی اکرم ﷺ نے پسند نہیں فرمایا، محبتِ رسول ﷺ کا دعویدار بھی ہمیشہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھے اور کبھی اس کے نزدیک نہ پھٹکے۔

عام محبت بھی جب کامل ہوجاتی اور رسوخ پیدا کرلیتی ہے تو نفسیات و طبیعت بلکہ شکل و شباہت پر بھی اس کا اثر پڑنے لگتا ہے۔ جس محبت کا نام ایمان ہے اس میں چونکہ عقیدت بھی شامل ہوتی ہے اس لیے اس کی تاثیر بھی کچھ اور ہے۔ علامہ بدرالدین عینیؒ نے لکھا ہے:

’’ہمارے اصحاب نے بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کہے کہ آنحضرت ﷺ کدو پسند فرماتے تھے اور اس کے مقابلے میں دوسرا شخص بول اٹھے کہ مجھے تو کدو پسند نہیں تو اس بے محل انکار پر اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔‘‘

(عمدۃ القاری، شرح بخاری، 5: 446)

(3) حضور نبی اکرم ﷺ کے محبوب سے محبت اور دشمن سے دشمنی رکھنا

اس سلسلے میں اصل یہ ہے کہ محبت اور عداوت دونوں متعدی صفات ہیں۔ جب محبت پیدا ہوتی ہے تو اپنے اطراف میں بھی پھیلتی ہے۔ یہی حال عداوت کا ہے حتی کہ ایک شٰخصیت کی وجہ سے تمام جہاں نظروں میں محبوب یا دشمن بن جاتا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں ان تمام لوگوں سے محبت رکھنا ضروری ہے جن سے آپ ﷺ محبت فرمایا کرتے تھے۔ مثلاً صحابہ کرامl، مہاجرین و انصارؓ اور اہلِ بیت رسول ﷺ ۔ اسی طرح جو لوگ آپ ﷺ کے دشمن تھے یا ہیں، ان سے عداوت رکھنا بھی محبتِ رسول ﷺ کا لازمی تقاضا ہے چاہے وہ قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہوں۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بیٹے اور مخلص صحابی حضرت عبداللہ نے بارگاہِ نبوی ﷺ میں عرض کیا تھا کہ اگر حکم ہو تو باپ کا سر لاکر حاضر خدمت کردوں۔علاوہ ازیں متعدد مثالیں ہیں کہ صحابہ کرامl نے حضور ﷺ کی محبت میں ان تمام اعزہ و اقارب اور دوست احباب سے قطع تعلقی کرلی تھی جو آپ ﷺ سے عقیدت و محبت نہیں رکھتے تھے۔

(4) فقیرانہ زندگی کو ترجیح دینا

دس لاکھ مربع میل کی حکمرانی اور زمین کے سارے خزانوں کی چابیاں عطا کیے جانے اور سونے کے پہاڑوں کی پیشکش کے باوجود حضور ﷺ کے گھروں میں دو دو ماہ آگ نہ جلنے اور دم وصال تک زہد و فقر اور درویشی اختیار کیے رکھنے کو دیکھتے ہوئے محبتِ رسول ﷺ کا تقاضا ہے کہ آدمی عیش و عشرت کی زندگی کی بجائے فقیرانہ زندگی کو ترجیح دے۔ اس چیز کی تائید حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ:

’’ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا کہ مجھے آپ ﷺ سے محبت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ غور کر، کیا دعویٰ کرتا ہے؟ اس نے پھر قسم کھاکر تین مرتبہ کہا: میں آپ ﷺ سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تو سچ بولتا ہے تو پھر فقر کو اپنی چادر یا فقر کے لیے اپنے واسطے آہنی جھول تیارکرلے کیونکہ فقر مجھ سے محبت رکھنے والے کی طرف اس سیلاب سے زیادہ تیز دوڑ کر آئے گا جو پہاڑی سے نیچے کی طرف آتا ہے۔‘‘

(قاضی عیاض، الشفاء، 2: 28)

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص رسول مقبول ﷺ سے دعویٰ محبت رکھتا ہے اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ آپ ﷺ کی ہمرنگ زندگی اختیار کرے۔ اب اسے تجوریاں بھرکر اور مال جمع کرکے نہیں رکھنا ہوگا۔ ذرائع آمدن میں حلال و حرام کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ لمبی چوڑی کوٹھیاں نہیں بناناہوں گی بلکہ محبت رسول ﷺ کے دعویٰ کا تقاضا ہے کہ اپنا پیٹ کاٹ کر بھوکوں کو کھانا کھلادے اور خود بھوکا رہ جائے۔ پانی دوسروں کو پلادے اور خود پیاسا رہ جائے۔ اپنی سواری دوسرے ضرورت مند پیادوں کو دے دے اور خود پیدل چلے۔ غرض اپنا مال و اسباب اور سارا اندوختہ حضور ﷺ کی طرح دوسروں میں تقسیم کرکے انہیں غنی بنا ڈالے اور خود زاہد و فقیر اور درویش بن جائے۔

حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ خد اکے رسول ﷺ سے محبت رکھنے والے فقیر ہی ہوتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی ہمدردی میں وہ اپنی زندگی فقیرانہ بنالیتے ہیں۔ دنیا میں ہر غمزدہ کا غم ان کے لیے موجبِ غم ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ دوسرے بھوکے ہوں اور یہ شکم سیر، دوسرے پیاسے ہوں اور یہ سیراب، دوسرے ننگے پھریں اور یہ لباسِ فاخرہ پہنیں۔

(5) ہر سنت رسول ﷺ سے محبت رکھنا

محبتِ رسول ﷺ کا لازمی تقاضا ہے کہ آں جناب ﷺ کی ہر سنت، ہر طریقہ، ہر طرزِ عمل بلکہ ہر سوچ سے محبت ہوجائے۔ خادم رسول ﷺ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:

’’اے پیارے بیٹے اگر تم سے یہ ہوسکے کہ تم صبح اور شام اس حال میں کرو کہ دل میں کسی ایک آدمی کے لیے بھی کھوٹ (غش) نہ رہے تو کر گزرو۔ کیونکہ یہ چیز (ہر قسم کی کدورت سے سینہ پاک رکھنا) میری سنت ہے اور جس نے میری سنت سے محبت کی تو گویا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے میرے ساتھ محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘

(مشکوٰہ المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)

حدیث کا مطلب واضح ہے کہ صرف عبادات، نماز، روزہ، مسواک، عمامہ، ٹخنے ننگے رکھنا اور کھانے کی پلیٹ صاف کرنا جیسی آسان سنتوں پر زور دینا ہی محبتِ رسول ﷺ کے لیے کافی نہیں بلکہ آپ ﷺ کے تمام اوصاف و اطوار کو اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ محبتِ رسول ﷺ کا بلند معیار یہ ہے کہ عبادات کے سوا محبوب مکرم ﷺ کی عادات، نفسیات اور طبائع بھی نظروں میں قابلِ اتباع بن جائیں بلکہ وہ غیر اختیاری جذبات جو اپنے مخالف کے لیے قلب میں موجزن ہوتے ہیں، اس لیے قلب میں جمنے نہ پائیں کہ یہ آنحضرت ﷺ کی سیرت و سنت کے خلاف ہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ ﷺ کی محبت رگ رگ میں سرایت کرچکی ہو۔

(6) رضا مندی رسول ﷺ کا خیال رکھنا

حکمِ رسول ﷺ کو بجا لانا تو شرعاً واجب ہے ہی مگر کمالِ محبت کا تقاضا ہے کہ حضور ﷺ کی رضا مندی اور خواہش کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ اپنے بلند قبہ (مکان) کے متعلق حضور ﷺ کی ناپسندیدگی کا علم ہونے پر انصاری صحابی کا شوق اور بھاری خرچ سے تعمیر کیا گیا مکان زمین بوس کردینا۔۔۔ صرف حضور ﷺ کی مرضی اور خواہش پاکر حضرت حارثہ بن نعمان کا جگر گوشہ رسول ﷺ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے لیے مکان پیش کردینا۔۔۔حضور ﷺ کی ناپسندیدگی کے باعث چادر کو آگ میں ڈال دینا۔۔۔ حضور ﷺ کی طرف سے سونے کی انگوٹھی ناپسند کیے جانے پر اسے پھینک دینا اور پھر نہ اٹھانا۔۔۔ حضور ﷺ کے زمانے میں مسجد نبوی ﷺ کے دروازے کو خواتین کے لیے مخصوص کیے جانے کی خواہش نبوی ﷺ پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا زندگی بھر اس دروازے سے مسجد میں داخل نہ ہونا۔۔۔یہ تمام رضا مندی رسول ﷺ حاصل کرنے کی عمدہ مثالیں ہیں۔

دین و دنیا کے تمام معاملات میں حضور ﷺ کی مرضی اور پسند کو مدنظر رکھنا ہو تو یہ چیز آج بھی قرآن، سنتِ، سیرت اور فقہ کی کتابوں سے معلوم کی جاسکتی ہے۔

(7) دینِ محمدی ﷺ کی نصرت کرنا

حضور نبی اکرم ﷺ جس دین، شریعت اور نظام کو لائے اور جس کی خاطر آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ کی گلیوں، طائف کے بازاروں اور اُحد کے میدان میں پتھر کھائے اور جس کی آبیاری آپ ﷺ نے اپنے مبارک و پاکیزہ خون سے کی اور جس کی ترویج و اشاعت اور فروغ کے لیےا ٓپ ﷺ آخری دم تک مساعی فرماتے رہے، اس دینِ محمدی ﷺ کی مقدور بھر اور دل و جان سے نصرت و تائید، ہر محاذ پر اس کا دفاع اور دامے، درمے، سخنے، قدمے تعاون بھی محبتِ رسول ﷺ کا لازمی تقاضا ہے۔ صرف تعاون ہی نہیں بلکہ مومن کی زندگی کا مقصد ہی دین کی سرفرازی و سربلندی بن جائے۔

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

(جاری ہے)