ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً.
(آل عمران، 3: 164)
’’ بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( ﷺ ) بھیجا۔‘‘
قرآن و سنت کی روشنی میں عقائدِ صحیحہ کے موضوع پر اس سلسلہ وار تحریر میں اس methodology اور شرعی و دینی اصول و ضابطے کو بیان کیا جارہا ہے جس سے ایک عام مسلمان کو یہ سمجھنے میں مدد مل سکے کہ عقائد کے باب میں قرآن و سنت کی کون سی تعبیر و تشریح اور توضیح صحیح اور کون سی غلط ہے۔ جس طرح صحیح اور غلط کی تعبیر کے لیے دنیا کے ہر علم و فن اور سائنسز میں فارمولا، کلیہ اور ضابطہ ہوتا ہے، اسی طرح کا ضابطہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو قرآ ن و سنت کے حوالے سے بھی عطا کیا ہے۔ اگر ہم اس ضابطے کی پیروی کیے بغیر اپنی مرضی سے قرآنی آیات کی معنوی تاویلات شروع کردیں، اپنی طبیعت اور رجحا ن کے مطابق عقائد کی تشریحات کرنا شروع کردیں اور ہر عالم، خطیب اور مبلغ اس بات پر اصرار کرے کہ ’’جو تشریح میں کر رہا ہوں، یہی درست اور حق ہے، میرا کہنا ہی دراصل قرآن کا صحیح نقطۂ نظر اور مؤقف ہے‘‘ تو اس سے سوائے تفرقہ و انتشار اور گمراہی کے کچھ نصیب نہیں ہوتا۔
پس ہمیں اپنی ذاتی پسند و نا پسند کو نظر انداز کر کے اپنی من مانی تشریح اور تعبیر کی خواہشات کو قرآن مجید اور حدیث و سنتِ رسول ﷺ اور دین کے دیے ہوئے اصول، قاعدے اور ضابطے کے سامنے سر نگوں کرنا ہو گا۔ یاد رکھیں کہ اسلام نام ہی سرِ تسلیم خم کرنے کا ہے۔ اگر ہم دین کے عطا کردہ قاعدے اور ضابطے کے سامنے سرِ تسلیم خم کر لیں توپھر ہم گمراہی کے بہت سے امکانات سے بچ جاتے ہیں۔
یہ کہنا کہ ’’صرف قرآن حجت ہے یا محض قرآن ہی کافی ہے اور ہم قرآن کے سوا کسی کو حجت نہیں مانتے، یعنی حدیثِ رسول اور سنتِ نبوی ﷺ میں سے کسی کو حجت نہیں مانتے، اُن کی حیثیت صرف اُس دور کے حالات کے مطابق ایک رہنما کی تھی، جس سے اسلامی تعلیمات، عقائد اور احکام کی روشنی لی جاتی تھی، ‘‘ یہ کفر و الحاد اور انکارِ قرآن ہے۔
اللہ رب العزت نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں۔ اس کی ہر عنایت اور رحمت اس کی طرف سے ملنے والی نعمت ہی ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں لاتعداد نعمتوں سے نوازنے کے باوجود کسی نعمت پر احسان نہیں جتلایا لیکن قرآن مجید میں دو چیزیں ایسی بیان فرمائی ہیں جن کا ذکر کرکے اُنھیں اپنا احسانِ عظیم قرار دیا ہے:
1۔ اُن میں سے ایک نعمت ذاتِ مصطفی ﷺ ہے۔، جن کے بارے میں ارشاد فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً.
(آل عمران، 3: 164)
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (ﷺ) بھیجا۔‘‘
2۔ دوسرے مقام پر 'ایمان' کو اللہ نے اپنا احسان قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْا قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْ بَلِ اللہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ هَدٰکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ.
(الحجرات، 49: 17)
’’ یہ لوگ آپ پر احسان جتلاتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ہیں۔ فرما دیجیے: تم اپنے اسلام کا مجھ پر احسان نہ جتلاؤ بلکہ اللہ تم پر احسان فرماتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھایا ہے، بشرطیکہ تم (ایمان میں) سچے ہو۔‘‘
گویا حضور علیہ السلام کے وجودِ مسعود، آپ کی ولادتِ مبارکہ، آپ کی بعثتِ طیبہ، آپ ﷺ کے بطورِ نبی دنیا میں تشریف لانے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا احسانِ عظیم کہا ہے۔اللہ تعالیٰ جس ہستی کو دنیا میں مبعوث کرنا اپنا احسان قرار دے، اگر اس ہستی کو حجت نہ مانا جائے تو پھر ایمان کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
ایمان اور ذاتِ مصطفی ﷺ دونوں میں سے عظیم احسان کون سا ہے؟
جب یہ دونوں چیزیں یعنی ایمان اور رسول اکرم ﷺ کا وجودِ مسعود اور آپ ﷺ کی بعثت مبارکہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہوئیں تو اب سوال یہ ہے کہ ان دو میں سے بڑا احسان کون سا ہے؟ آیئے! اس کا جواب بھی قرآن مجید سے لیتے ہیں۔
امت کے ہر فرد کو اللہ تعالیٰ نے ایمان تک کیسے رسائی دی؟ اس حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا.
(آل عمران، 3: 193)
’’ اے ہمارے رب! (ہم تجھے بھولے ہوئے تھے) سو ہم نے ایک ندا دینے والے کو سنا جو ایمان کی ندا دے رہا تھا کہ (لوگو!) اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے۔‘‘
مومن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! تونے نبی اور رسول ﷺ کی صورت میں ایک منادی بھیجا، جو حق اور ایمان کی طرف بلانے والے تھے۔ ہم سوئے ہوئے تھے، انھوں نے ہمیں بیدار کیا۔ وہ ایمان کاسودا بیچ رہے تھے اور ایمان کی دولت عطا کرنے کے لیے بلا رہے تھے کہ اس ایمان کے سودے کے طلبگار کون ہے؟
گویا ایمان قبول کرنے میں ہمارا کوئی دخل، بڑائی، انفرادیت اور کامیابی نہیں ہے بلکہ ہم تو خوابِ غفلت میں تھے۔ ہمیں کیا خبر تھی کہ ایمان کیا ہے؟ ہم تو باری تعالیٰ کو بھی جانتے اور پہچانتے نہ تھے۔ ہم نے نہ اللہ کی آواز کو سنا اور نہ اس کے بھیجے ہوئے فرشتے کو دیکھا اور نہ وحی کو نازل ہوتے دیکھا۔ہم تو اس قابل بھی نہیں تھے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُسے سننے اور دیکھنے کی صورت میں ربط قائم کرسکتے۔ ہم پیکرانِ بشریت اور مادی جسم کے لوگ گمراہی، ضلالت، جہالت، بے خبری، خوابِ غفلت اور کفر و شرک کے اندھیروں میں پڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر پہلا احسان یہ کیا کہ اس نے ہماری طرف رسول بھیجا جو ہم میں سے ہی ہیں، تاکہ ہم انھیں جان اور پہچان سکیں۔اُن کے اعلانِ نبوت سے قبل کے چالیس برس؛ بچپن، لڑکپن، اٹھنا بیٹھنا، کلام و سکوت، اخلاق و معاملہ، کردار کی طہارت، قول کی سچائی، شخصیت، صدق، اخلاص، پاکیزگی، گناہوں اور خطاؤں سے پاک ہونا، یہ سب ہمارے سامنے تھا۔ وہ اس قابل تھے کہ ان پر آنکھیں بند کر کے بھی اعتماد کیا جاسکے۔ گویا ایسے عظیم المرتبت رسول ﷺ کو اللہ نے ہم میں بھیجا اور یہ اس کا پہلا احسان تھا کہ اس نے اپنے اور ہمارے درمیان اپنے محبوب ﷺ کو ایک واسطہ مقرر فرمایا۔
شخصیتِ مصطفی ﷺ کے دو گوشے
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی شخصیت کو جامع بنایا۔ اس جامعیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کی شخصیت کے دو گوشے ہیں:
1۔اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی شخصیت میں عالمِ امر بھی رکھا۔
2۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی شخصیت میں عالمِ خلق بھی رکھا
آپ ﷺ اللہ کا کلام اور وحی قبول کر سکتے ہیں، اسے سمجھ سکتے ہیں اور اپنے دل میں سموتے ہوئے اُسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ وہ اللہ کے کلام کے وصول کنندہ ہیں جبکہ یہ ہم نہ کر سکتے تھے، نہ ہم سے ہو سکتا تھا اور نہ ہمارے اندر یہ صلاحیت اور استعداد تھی۔ عام انسان اس صلاحیت سے محروم تھے اور محروم ہیں۔ آپ ﷺ کے اندر صلاحیت یہ ہے کہ وہ اللہ کے کلام کو وصول کرسکتے ہیں، جو ہم نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے کہ نورِ حق کو وصول کرنے کے لیے بھی نور چاہیے۔ یہ وحی جس عالم سے آئی ہے اس وحی کو اپنے اندر جذب کرنے کے لیے اِس عالم سے بھی بہتر نورانی جسم چاہیے، تاکہ وہ اسے وصول کر سکے۔
پس ایک طرف اس رسول ﷺ نے اس کلام کو اللہ تعالیٰ سے وصول کیا اور دوسری طرف اس رسول ﷺ کا ایک تعلق اللہ تعالیٰ نے عالمِ بشریت کے ساتھ بھی قائم فرمایا اور آپ ﷺ میں بشری خوبیاں بھی رکھیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نورانیت اور بشریت کا مرقع اور مجموعہ بنایا۔وہ اپنے نور ہونے کی capacity میں اللہ کا کلام جبرائیلِ امین سے وصول کر رہے تھے اور بشریت کی capacity میں انسانیت تک پہنچا رہے تھے۔ وہ رسول ﷺ ہم سے بھی بطریقِ رسالت جڑے ہوئے تھے۔ان کا تعلق اور اتصال اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ بھی تھا اور ان کا تعلق اور اتصال ہمارے ساتھ بھی تھا۔ وہ اُدھر سے لیتے تھے اور اِدھر دیتے تھے۔
افسوس کہ آج ایمان مل جانے کے بعد لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ رسول ﷺ کا کلام اور حدیث حجت نہیں، فقط قرآن کافی ہے۔ایسے لوگوں سے سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کی وحی ان پر آئی ہے؟ کیا جبرائیل امین ان پر نازل ہوتے ہیں؟ ان لوگوں کے اندر تو یہ صلاحیت ہی نہیں ہے۔ یہ باری تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اپنا رسول ﷺ ہمارے اندر بھیجا، جو اس کے اور ہمارے درمیا ن واسطہ اور وسیلہ بن گیا۔ افسوس کہ آج یہ لوگ اسی وسیلے کا انکار کرنا چاہتے ہیں۔
معجزات و کمالاتِ مصطفی ﷺ کے ظہور کا سبب
پس اُس رسول ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے احکامات لے کر ہمیں ندا دی کہ ایمان لاؤ۔اس حوالے سے انھوں نے ہمیں سمجھایا اور لاتعداد معجزات بھی دکھائے تا کہ ہم ان پر یقین کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بے شمار معجزات اور قدرت و اختیار اس لیے عطا فرمایا تاکہ ہم یہ دیکھ کر ان کی ندا کو قبول کرنے والے بن جائیں اور ایمان لے آئیں۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو معجزات، کمالات، تصرفات، خیرات و برکات، فضائل، عظمتیں اور رفعتیں سب کچھ ہمارے لیے عطا کیں تاکہ ہم ایمان لے آئیں۔
رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہمارے لیے اس لیے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ وہ ہمیں اللہ کی طرف بلاتے اور اس کا پیغام پہچانتے ہیں۔ ہم متردد تھے کہ بات مانیں یا نہ مانیں، تو انھوں نے کبھی اپنی چالیس سال کی بے عیب زندگی، بے عیب کردار اور بے عیب سیرت کو بطور دلیل بیان فرمایا اورکبھی عالمِ بالا کی کوئی نشانی دکھاتے ہوئے چاند کو دو ٹکڑے کردیے، پتھروں کو گویائی عطا فرمادی اور کبھی انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری فرمادیے۔
چنانچہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ اللہ کے بھیجے ہوئے اس منادی حضور نبی اکرم ﷺ کو سنا کہ وہ فرمارہے تھے کہ میرے پاس ایمان کا سودا ہے، اس کے خریدار بن جاؤ۔۔۔ اللہ تمہیں نظر نہیں آئے گا مگر اُسے میرے کہنے پر مان لو۔۔۔ اگر تم چاہو کہ ہم اُسے بن دیکھے نہیں مانیں گے تو تمھارا وہی حشر ہو گا جو موسی علیہ السلام کی قوم کے ساتھ ہوا تھا کہ ستر کے ستر لوگ بجلی کی ایک کڑک سے مر گئے تھے۔ تمہیں تو میں ہی نظر آؤں گا، مجھے دیکھو، میری ذات کو دیکھو، میرے کمالات، سیرت، نورانی صورت، عمل، اخلاق، تصرفات، برکات، صداقت، طہارت، جمال اور کمال کو دیکھو۔ پس ہم نے انھیں دیکھا، انھیں سنا، ان کی بات ہمیں پسندآ گئی اور ہمارے دل میں اُتر گئی۔ وہ کہہ رہے تھے:
اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ؛ اپنے رب پر ایمان لاؤ۔
وہ رب جسے تم دیکھ اور سن نہیں سکتے، جس کو چُھو نہیں سکتے، جس کا ادراک بھی نہیں کرسکتے، جس کو عقل میں بھی نہیں لا سکتے۔وہ تمہاری جسمانی استعداد میں آنے والا نہیں ہے، میں تمہیں اس کا بندہ بنانا چاہتا ہوں، تمہیں اس کی طرف لے جانا چاہتا ہوں کہ اس پر ایمان لے آؤ اور مان لو کہ وہ ہے اور ایک ہے۔
عقائد کی تعبیرو تشریح اور توضیح کے باب میں اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے مقرر کردہ اصول و ضوابط کی پیروی نہ کرنا اور من مانی تاویلات کرنا تفرقہ، انتشار اور گمراہی ہے
سوال ذہن میں آتا ہے کہ جب وہ عقل میں ہی نہیں آسکتا تو کیسے مانیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اُس نے رسول اللہ ﷺ کو اتنا حسین وجمیل اور اتنا باکمال نہ بنایا ہوتا توشاید ہم اس ندا کو بھی ٹھکرا دیتے مگر اس نے آپ ﷺ کو ایسا بنا کر بھیجا کہ ہم نے ان کی بات کو مان لیا۔ انھوں نے ہمیں ندا دی، ان کی آواز ہمارے دل و دماغ میں اتر گئی۔ ہم نے ان کے ظاہر و باطن اور کمالات کودیکھا تو ہم نے ان کی بات کو مان لیا اور ان کے کہنے پر اللہ تعالیٰ کو بن دیکھے مان لیا کہ وہ ہے۔گویا وہ جو ہمارے سامنے تھا، بس اُس کو دیکھا اور اللہ کو مان لیا۔
رسول اللہ ﷺ کی سنت کی حجیت کا انکار کرنے والے کس اسلام، قرآن اور اللہ کے ساتھ تعلق کے دعویدار بنےپھرتے ہیں۔ وہ اپنے اس تعلق پر غور کریں کہ جن کی شخصیت اورپوری حیاتِ مبارکہ کے ایک ایک لمحہ کو دیکھ کر اُس (اللہ) کو مانا، اُن ہی کو حجت ماننے سے انکارکرتے ہیں۔پس جس کے وسیلے سے ایمان ملا، اُن سے بڑا احسان کون سا ہوگا۔ پس رسول اللہ ﷺ کی صورت میں موجود وسیلہ پہلا اور سب سے بڑا احسان ہے جن کے سبب ایمان ملا اور پھر ان کے بعد اللہ کا ہم پر دوسرا عظیم احسان ایمان ہے۔ مذکورہ آیت مبارکہ کی ترتیب بتا رہی ہے کہ پہلے ایمان، اسلام اور قرآن نہیں آیا بلکہ ’’اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا‘‘ کے مصداق وہ ندا دینے والا رسول ﷺ پہلے آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام، ایمان اور قرآن میں سے کچھ بھی ہمیں براہِ راست نہیں دیا۔ اُس نے تو براہِ راست ہمارے ساتھ تعلق ہی پیدا نہیں کیا اور نہ ہی ہماری طرف فرشتوں کو بھیجا، بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ براہِ راست تعلق پیدا کیا اور انہیں ختم نبوت کا تاج پہنایا۔ اب ہم قیامت تک ان ہی کے محتاج اور احسان مند ہیں۔
پس جب ایمان تک ہر چیز کا انحصارآقا علیہ السلام کی ذاتِ گرامی پر ہے تو آپ ﷺ کی ذات گرامی، آپ ﷺ کے ہر قول، دعوت، ارشاد اور فرمان کو، حجت کیوں نہ مانا جائے۔ اگراس کے حجت ہونے کا انکار کردیا جائے تو پھر اللہ کے ہونے پر اسلام میں کیا چیز حجت اور دلیل کے طور پر باقی رہتی ہے؟ حدیثِ و سنتِ رسول ﷺ کی حجیت کے منکرین سے سوال ہے کہ وہ کس ایمان کے دعوے کرتے ہیں، اس لیے کہ رسول ﷺ بھی اللہ کا احسان اور ایمان بھی اللہ کا احسان مگر قرآن مجید کے مطابق ان دونوں میں سے بڑا احسان رسول اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کو قرار دیا ہے۔
دعوتِ رسول ﷺ کو کاملاً قبول کرنے سے ہی ایمان نصیب ہوگا
اللہ رب العزت نے ایک اور مقام پر فرمایا:
وَمَا لَکُمْ لاَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہ وَالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّکُمْ.
(الحدید، 57: 8)
’’اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے، حالاں کہ رسول (ﷺ) تمہیں بلا رہے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان لاؤ۔‘‘
قرآن مجید کی مذکورہ آیت مبارکہ میں واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا مدار ہی اس بات پر ہے کہ دعوتِ رسول ﷺ کو قبول کیا جائے۔ یہ بڑی عجیب بات ہو گی کہ ہم نے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے حوالے سے دعوتِ رسول ﷺ کو تو قبول کر لیا لیکن باقی فرامینِ رسول کو قبول نہیں کرتے اور انھیں حجت نہیں مانتے۔ اس طرح تو اپنی مرضی کا دین بن گیا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا دین نہ رہا۔ ایسا تصورِ دین من گھڑت تصور ہے۔ اس کا اسلام، قرآن اور اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے تو قاعدہ یہ بیان کیا ہے کہ اللہ پر ایمان لانے کا راستہ صرف یہی ہے کہ رسول ﷺ کی دعوت کو قبول کرو۔ رسول ﷺ کی دعوت کیا ہے؟ وہ رسول اللہ ﷺ کا قول اورعمل ہے۔ پس رسول ﷺ کی باتوں کو قبول کرو اور اللہ پر ایمان لاؤ۔ گویا اس آیت میں در اصل اللہ کہہ رہا ہے کہ میرے رسول ﷺ کی بات کو کیوں نہیں مانتے حالانکہ ان ہی کے قول و عمل کو تسلیم کرنے اور ان کی دعوت اور پکار پر سرِ نیاز خم کرنے سے ایمان نصیب ہوگا۔
زیرِ بحث مضمون کو قرآن مجید کی نگاہ سے دیکھنے سے اُن لوگوں کے دعویٰ کی حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف قرآن ہی حجت ہے۔ صرف قرآن مجید کو حجت ماننے والے قرآن مجید کی اس بات کو بھی تو مانیں کیونکہ قرآن مجید کی کچھ بات مانیں اور کچھ نہ مانیں تو یہ قرآن مجید سے سراسر انحراف ہے۔ اگر صرف قرآن ہی حجت ہے تو قرآن جو کچھ کہتا ہے، کیا ہم اس کو مانتے ہیں؟ نہیں! بلکہ ہم مانتے اپنے خود ساختہ تصور کو ہیں اورکہتے ہیں کہ صرف قرآن حجت ہے۔ ایسا کرنا قرآن کے ساتھ مذاق ہے۔
ذاتِ مصطفی ﷺ اور قرآن مجید کا باہمی تعلق
حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی، آپ ﷺ کی دعوت، قول، عمل، سنت اور حدیث کا مقام کیا ہے اور قرآن کا مقام کیا ہے؟ ان کے آپس کے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
الٓرٰ کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰـہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ.
(ابراهیم، 14: 1)
’’الف لام را (حقیقی معنی اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ (عظیم) کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کے) نور کی جانب لے آئیں (مزید یہ کہ) ان کے رب کے حکم سے اس کی راہ کی طرف (لائیں) جو غلبہ والا سب خوبیوں والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں غور طلب نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے براہِ راست لوگوں کو مخاطب نہیں کیا کہ اے لوگو! یہ ہماری کتاب قرآن ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ اے حبیب ﷺ ! اس کتاب کو ہم نے آپ ﷺ کی طرف نازل کیا ہے، اس کے حامل اور وارث میرے محبوب آپ ﷺ ہیں اور اس کو اتارا اس لیے ہے تاکہ آپ ﷺ لوگوں کو گمراہیوں کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائیں۔
آپ ﷺ نور ہونے کی حیثیت سے اللہ کا کلام اس سے وصول کرتے اور بشر ہونے کی حیثیت سے اس پیغام کو انسانیت تک پہنچاتے۔ گویا آپ ﷺ کا ایک تعلق اور اتصال اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ تھا اور ایک تعلق و اتصال مخلوقِ خدا کے ساتھ تھا
پس قرآن کا فیصلہ آ گیا کہ اللہ نے اپنا پیغام اور اپنی تعلیمات و ہدایات کا مجموعہ آپ ﷺ پر نازل فرمایا اور نازل کرکے فرمادیا کہ اب یہ قرآن آپ ﷺ کی میراث ہے۔ اب آگے آپ ﷺ کا کام ہے کہ لوگوں کو اللہ کے اذن سے گمراہی سے نکال کر قرآن، اسلام اور ہدایت کی روشنی کی طرف لے جائیں۔
معلوم ہوا کہ اللہ کی راہ کی طرف بلانا بھی رسول ﷺ کاکام۔۔۔ اللہ کی راہ پر چلانا بھی رسول ﷺ کاکام۔۔۔ اندھیروں سے نکالنا بھی رسول ﷺ کا کام۔۔۔ روشنی میں لے جانا بھی رسول ﷺ کا کام ہے۔کتنے تعجب کی بات ہوگی کہ اسی رسول ﷺ کی سنت کو ہم حجت ماننے سے انکار کردیں اور کہیں کہ قرآن ہی کافی ہے۔ قرآن اللہ نے رسول ﷺ کو عطا کیا اور رسول ﷺ نے اللہ کے اذن سے امت کو عطا کیا۔اس سے بڑھ کر بے وفائی کیا ہوگی کہ ہدایت کا جو ذخیرہ ملا، وہ تو حجت ہے مگر اس ہدایت کو دینے والا حجت نہیں ہے۔ ایسی بے وفائی پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے دھتکار دیا جائے گا اور کہا جائے گا تم مجھے کب پہنچانتے اور جانتے تھے؟ میں نے تو تمہاری طرف قرآن نہیں بھیجا تھا اور نہ تم پر جبرائیل امین کو نازل کیا۔ میں نے تو تمہیں مخاطب ہی نہیں کیا تھا۔ مجھے جب اپنی توحید اور ایک ہونے کا پیغام دینا مقصود تھا تب بھی میں نے تمہیں مخاطب نہیں کیا بلکہ تب بھی میں نے اپنے محبوب سے کہا تھاکہ:
قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ.
(الأخلاص، 112: 1)
’’(اے نبی مکرّم ﷺ !) آپ فرما دیجیے: وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔‘‘
اس طرح جب تمھیں ہدایت دینا تھی، تب بھی وہ ہدایت تمھیں اسی رسول ﷺ کے ذریعے ملی تھی۔ یہ شان بھی آقا علیہ السلام ہی کی تھی کہ:
وَاِنَّکَ لَتَھْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ صِرَاطِ اللہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ.
(الشوری، 42: 52-53)
’’اور بے شک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں۔ (یہ صراطِ مستقیم) اسی اللہ ہی کا راستہ ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آقا علیہ السلام کے حوالے سے مذکورہ آیت میں قطعی طور پر کہہ دیا کہ بے شک آپ ﷺ ہی ہیں جو صراط مستقیم کی طرف بلاتے ہیں اور سیدھا راستہ دکھاتے ہیں۔ اسی بات کو ایک اور مقام پر یوں بیان فرمایا:
وَ اِنَّکَ لَتَدْعُوْهُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.
(المومنون، 23: 73)
’’اور بے شک آپ تو (انہی کے بھلے کے لیے) انہیں سیدھی راہ کی طرف بلاتے ہیں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کی سنت کی حجیت کا انکار کرنے والے کس اسلام، قرآن اور اللہ کے ساتھ تعلق کے دعویدار بنےپھرتے ہیں۔ وہ اپنے اس تعلق پر غور کریں کہ جن کی شخصیت اورپوری حیاتِ مبارکہ کے ایک ایک لمحہ کو دیکھ کر اُس (اللہ) کو مانا، اُن ہی کو حجت ماننے سے انکارکرتے ہیں
اس آیت میں بھی یہی بیان ہے کہ راہِ حق کی طرف بلانے والے آپ ﷺ ہیں۔ پس آپ ﷺ کی شان یہ ہے کہ آپ ﷺ سیدھا راستہ دکھاتے بھی ہیں اور اس کی دعوت بھی دیتے ہیں۔
اب اگر یہ کہا جائے کہ جو سیدھی راہ رسولِ اکرم ﷺ نے دکھائی، اس میں سے صرف قرآن حجت ہے، باقی کچھ بھی حجت نہیں ہے، حتیٰ کہ راہ دکھانے والا پیغمبر، ان کا قول، عمل اور سنت بھی حجت نہیں ہے تو اس سے بڑا کفر، بے وفائی اور دین کے ساتھ دھوکہ دہی کوئی نہیں۔ حدیث و سنت کو نظر انداز کرنا، اہمیت نہ دینا، حجت نہ ماننا؛ جہالت اور دین کو ذبح کرنا ہے۔ ایسا نظریہ رکھنے والے پوری امت کو گمراہ کررہے ہیں۔ان کا انجام جہنم کے سوا کچھ نہیں۔
حیران کن امر یہ ہے کہ رسول ﷺ کی بات کو حجت نہ ماننے والے اتنی سی بات کا بھی ادراک نہیں کرپارہے کہ کس نے انھیں قرآن پہنچایا، پڑھایا اور سمجھایا تھا۔۔۔؟ کس نے قرآن پر عمل کرکے دکھایا۔۔۔؟ کس نے قرآن کی تشریح و تعبیر کی تھی۔۔۔؟ یہ کہتے ہیں کہ ’’کچھ حجت نہیں ہے، بس قرآن کافی ہے، لہذا اب قرآن کا جو معنیٰ ہماری سمجھ میں آئے گا، اس کے مطابق تعبیر و تشریح کریں گے، ‘‘ ان کے اس طرزِ عمل سے تو دین ایک مذاق بن کر رہ جائے گا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہدایت دینے والے، سیدھی راہ دکھانے اور اس کی طرف بلانے والے، ایمان کاسبب بننے والے، اللہ کا پیغام پہنچانے اور سمجھانے والے، گمراہی سے نور کی طرف اندھیروں سے روشنی کی طرف اور ضلالت سے ہدایت کی طرف لے جانے والے آپ ﷺ ہی ہیں۔ آپ ﷺ کی سنت، حدیث، قول و فعل، اسوہ اور حیات و سیرت کو حجت نہ ماننا اور اسے تاریخ بنا دینا اور کہہ دینا کہ یہ اُس دور کے لیے تھا، اس سے تو ہمارے دور کے لیے (معاذاللہ) دین کا منبع و مصدر اور ہدایت، نور اور ایمان کی دعوت دینے والا کوئی اور بن جائے گا۔ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ اس لیے کہ جو شانیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آقا علیہ السلام کو عطا ہوئیں، یہ تا قیامت اسی طرح قائم و دائم رہیں گی اور ہر شخص ایمان، ہدایت، نور اور روشنی کے لیے آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی کا ہی محتاج رہے گا۔
(جاری ہے)