ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کو وہ بلندی اور رفعت عطا کی ہے کہ ایسی بلندی اور رفعت کسی اور کو نہیں دی گئی۔ ذیل میں آپ ﷺ کو نبوت و رسالت کے باب میں حاصل رفعت و بلندی کے چند مظاہر ذکر کیے جاتے ہیں:

1۔ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس کو نبوت کے باب میں رفعت اس طرح عطا کی گئی ہے کہ آپ ﷺ کو تمام انبیاء علیہ السلام سے ممتاز اور منفرد مقام عطا فرمایا۔ ارشاد فرمایا:

تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍم مِنْهُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللہُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍ.

(البقرة، 2: 253)

’’یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے کسی سے اللہ نے (براہِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیّت دی (یعنی حضور نبی اکرم ﷺ کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی)۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے نفسِ نبوت میں سب انبیاء علیہ السلام کو برابر رکھا ہے مگر نبوت کے مراتب اور درجات میں ایک کو دوسرے پر درجہ اور فضیلت عطا کی ہے۔ ان سب انبیاء علیہ السلام میں سے درجاتِ نبوت میں سب سے افضل درجہ اور سب سے اعلیٰ مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس کو عطا کیا ہے۔ آپ ﷺ کو نبوت میں درجہ خاتم النبیین پر فائز کیا گیا ہے اور آپ ﷺ کو منصبِ رسالت میں سیدالمرسلین بنایا ہے۔

2۔ نبوت و رسالت کے باب میں رفعت کی دوسری صورت باری تعالیٰ نے آپ ﷺ کو یہ عطا کی ہے کہ آپ ﷺ کو سارے جہانوں، زمانوں اور قیامت تک کے لیے رسول بناکر بھیجا گیا ہے۔ آپ ﷺ کی بعثت کو بعثتِ عمومی اور بعثتِ کلی کی حیثیت دی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّـلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْراً.

(سباء، 34: 28)

’’اور (اے حبیبِ مکرّم ﷺ !) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لیے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں۔‘‘

آپ ﷺ کی رسالت کافۃ للناس کی حامل ہوئی ہے جبکہ آپ ﷺ سے پہلے انبیاء علیہ السلام میں سے کوئی کسی ایک گاؤں، ایک قریے، ایک خطے، ایک شہر اور ایک ملک کے لیے آیا جبکہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کسی علاقہ و نسل کی تفریق کے بغیر تمام انسانوں کے لیے ہوئی۔

3۔ نبوت و رسالت کے باب میں رسول اللہ ﷺ کی رفعت کی تیسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس کو تمام انبیاء علیہ السلام کی امم پر گواہ اور شاہد بناکر لائے گا۔ ارشاد فرمایا:

فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ م بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِیْدًا.

(النساء، 4: 41)

’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب ﷺ !) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔‘‘

یہ آیت کریمہ واضح کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا دائرہ درجۂ شہادت میں بھی تمام امم اور ملل پر حاوی ہے۔ رسول ﷺ کی شہادت ارسالِ پیغامِ نبوت میں اصل الاصول ہے۔ رسول اللہ ﷺ تمام انبیاء علیہ السلام کے بھی رسول ہیں اور تمام امم کے بھی رسول ہیں۔ نبوت و رسالت کی یہ شان وہ ہے جو کسی اور نبی کو عطا نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء و رسل علیہ السلام عالمِ ارواح میں آپ ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لاچکے اور اس بات کا صراحتاً اقرار کرچکے ہیں کہ اگر ان کے زمانۂ نبوت میں سیدالمرسلین کی بعثت ہوگی تو اُن کا اپنا عمل یہ ہوگا:

لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ.

(آل عمران، 3: 81)

’’تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے۔‘‘

یعنی وہ سب کے سب آپ ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لائیں گے۔ جب ہر امت کا رسول و نبی آپ ﷺ پر ایمان لے آئے گا تو وہ ساری امم و ملل بھی اپنے نبی کی پیروی میں رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئیں گی۔

4۔ نبوت و رسالت کے باب میں رسول اللہ ﷺ کی شانِ رفعت اپنے نقطۂ کمال کو اس وقت پہنچتی ہے، جب ہمیں آپ ﷺ کی نبوت کے آغاز کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

قالوا: یارسول اللہ متی وجبت لک النبوۃ؟ قال و آدم بین الروح والجسد.

(الترمذی، السنن، 12: 55، رقم: 3542)

’’صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا: یارسول اللہ ﷺ ! آپ کو منصبِ نبوت پر کب سرفراز کیا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس وقت جب آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسد کے درمیان تھے۔‘‘

معلوم ہوا کہ ہر دور نبوت و رسالتِ محمدی ﷺ کا ہے۔ تمام انبیاء علیہ السلام کو نبوت و رسالت آپ ﷺ کے تصدق سے ملی ہے اور آپ ﷺ پر ایمان لانے اور آپ ﷺ کے دین کی سرفرازی اور سربلندی کے لیے کاوشیں کرنے کی شرط پر میسر آئی ہے۔

(ذکر مصطفی، کائنات کی بلند ترین حقیقت، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، منہاج پبلی کیشنز لاہور، ص: 18)

5۔ اسی طرح قرآن حکیم میں انبیاء علیہ السلام کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان کے ذاتی ناموں سے کیا ہے جبکہ قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ کے ذکر کو آپ ﷺ کے ذاتی نام سے نہیں بلکہ آپ ﷺ کے صفاتی نام اور مختلف اوصاف و کمالات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یعنی قرآن کبھی آپ کو یایھا النبی اور کبھی یایھا المدثر، یا ایھا المزمل، یٰس، طٰہٓ کے پیار بھرے القابات سے یاد کرتا ہے۔

6۔ باری تعالیٰ نے شانِ رفعتِ رسول قرآن مجید میں اس طرح بھی بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ کو یداللہ (اللہ کا ہاتھ) قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَ یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ.

(الفتح، 48: 10)

’’(اے حبیب ﷺ !) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے۔‘‘

اسی طرح باری تعالیٰ نے رمیِ رسول کو رمیِ الہٰی قرار دیا ۔ ارشاد فرمایا:

وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللهَ رَمٰی.

(الانفال، 8: 17)

’’اور (اے حبیبِ محتشم ﷺ !) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔‘‘

باری تعالیٰ نے اطاعتِ رسول کو اطاعتِ الہٰی گردانا ہے۔ ارشاد فرمایا:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ.

(النساء، 4: 80)

’’جس نے رسول ( ﷺ ) کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘

پس قرآن مجید متعدد پہلوؤں میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے درمیان مختلف اعتبارات سے نسبتِ وحدت کی بات شانِ رفعت کے باب میں بیان کرتا ہے۔ نسبتِ وحدت کا سب سے بلند اور ارفع مقام؛ مقامِ رضا ہے۔ اس میں رفعتِ مصطفی ﷺ کو نسبتِ وحدت کے ساتھ قرآن نے یوں بیان کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَاللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ.

(التوبۃ، 9: 62)

’’اللہ اور اس کا رسول ( ﷺ ) زیادہ حقدار ہے کہ وہ اسے راضی کریں۔‘‘

اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اور آپ ﷺ کی رضا کو ’’ہ‘‘ ضمیر واحد کے ساتھ بیان کیا ہے کہ جو رسول اللہ ﷺ کی رضا ہے، وہی اللہ کی رضا ہے اور جو اللہ کی رضا ہے، وہی رسول اللہ ﷺ کی رضا ہے۔اس کل کائنات میں رفعتِ رسول کی اس سے بلند تر کوئی اور صورت ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے ملا علی قاری فرماتے ہیں:

ولامقام فوق ھذا فی المرتبۃ.

(شرح الشفاء، 6: 24)

’’مقام و مرتبے میں شانِ رضا سے بڑھ کر کوئی مقام و مرتبہ نہیں ہے۔‘‘

رفعتِ ذکرِ مصطفی ﷺ

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.

(الانشراح، 94: 4)

’’ہم نے آپ کا ذکر آپ کی خاطر بلند کردیا ہے۔‘‘

اس آیت کا ایک ایک کلمہ نعت و صفتِ رسول ﷺ میں بے مثال اور باکمال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس بلکہ آپ ﷺ کے ذکرِ مبارک کو بھی اوج و کمال عطا فرمایا ہے۔ ذکر کی بلندی مذکور کی عظمت کو واضح کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ذکر کو باری تعالیٰ نے کہاں اور کیسے بلند و ارفع کیا؟ اس کی ایک صورت حضرت ابن عطا یہ بیان فرماتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کو ہی اپنا ذکر بنادیا۔

جعلتک ذکرا من ذکری فمن ذکرک ذکرنی.

(شرح الشفاء، 1: 46)

’’میں نے آپ ﷺ کے ذکر کو اپنا ذکر بنادیا۔ پس جس نے آپ ﷺ کا ذکر کیا، اس نے میرا ذکر کیا۔‘‘

آپ ﷺ کو یاد کرنا، اللہ کو یاد کرنا ہے، جیسے آپ ﷺ کی اطاعت کرنا، اللہ کی اطاعت ہے۔ آپ ﷺ سے محبت کرنا، اللہ سے محبت کرنا ہے، آپ ﷺ کی رضا چاہنا، اللہ کی رضا چاہنا ہے۔ آپ ﷺ کی مخالفت اللہ کی معصیت ہے۔ ملا علی قاری نے بھی رفعتِ ذکر رسول ﷺ میں اسی حقیقت کو بیان کیا ہے کہ

ان یقال المراد یرفع ذکرہ انہ جعل ذکرہ کما جعل طاعتہ طاعتہ.

(شرح الشفاء، 16: 24)

’’رفعتِ ذکر سے مراد یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے ذکر کو اپنا ذکر بنادیا ہے جس طرح آپ ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت بنایا ہے۔‘‘

اس کی عملی صورت کا اظہار باری تعالیٰ نے اس طرح فرمایا کہ ہر جگہ اپنے نام کے ساتھ اپنے رسول ﷺ کے نام کو جوڑ دیا ہے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

وَضَمَّ الْإِلَهُ اسْمَ النَّبِيِّ مَعَ اسْمِهِ
إذَا قَالَ فِي الْخَمْسِ الْمُؤَذِّنُ أَشْهَدُ
وَشَقَّ لَهُ مِنْ اسْمِهِ لِيُجِلَّهُ
فَذُوالْعَرْشِ مَحْمُودٌ وَهَذَا مُحَمَّدٌ

(الجوہرۃ النیرۃ، باب الاذان، 1: 176)

’’باری تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے نام کو ہر جگہ ملادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مؤذن پانچ مرتبہ ہر روز آذان میں شہادتِ توحید اور شہادتِ رسالت کے کلمات بلند کرتا ہے اور اسی طرح باری تعالیٰ نے اپنے نام سے رسول اللہ ﷺ کے نام کو بنایا ہے۔ وہ رب عرش پر محمود ہے اور رسول اللہ ﷺ زمین پر محمد ﷺ ہیں۔‘‘

رفعتِ ذکرِ رسول ﷺ کے باب میں باری تعالیٰ نے کلمۂ طیبہ میں بھی اپنے نام کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے نام کو ملادیا ہے اور اس حد تک ملایا ہے کہ دونوں ناموں کے درمیان عربی زبان کے قاعدے کے طور پر واؤ عاطفہ لانے کو بھی پسند نہ فرمایا۔ اس لیے کہ واؤ عاطفہ دو ذاتوں کی مغایرت کو ظاہر کرتا ہے۔ باری تعالیٰ نے اس واؤ عاطفہ کو بھی اپنے اور رسول ﷺ کے نام کے درمیان سے ہٹاکر اپنے بندوں کو یہ پیغام دے دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول، ذاتیں اگرچہ دو ہیں اور مدارج میں بھی فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ معبود ہے اور آپ ﷺ عبد ہیں، اللہ خالق ہے اور رسول ﷺ خلق ہے، اللہ تعالیٰ مالک ہے اور رسول مملوک ہیں مگر اس کے باوجود اللہ نے اپنی اطاعت و رضا اور اپنے رسول ﷺ کی اطاعت و رضا میں کوئی فرق نہیں رکھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر اور اپنے رسول ﷺ کے ذکر میں کوئی فرق روانہیں رکھا۔ یہ سب کچھ ورفعنالک ذکرک کے نظارے ہیں جس کی طرف سید قطب مصری یوں اشارہ کرتے ہیں:

ورفعناہ فی الملاء الاعلیٰ ۔ ورفعناہ فی الارض ۔ ورفعناہ فی ھذا الوجود جمیعاً ۔ فجعلناہ اسمک مقرونا باسم اللہ کلم تحرکت بہ الشفاء.

(فی ظلال القرآن، 8: 606)

’’ہم نے آپ ﷺ کے ذکر کو ملا اعلیٰ میں بلند کردیا ہے۔ہم نے آپ ﷺ کے ذکر کو زمین میں بلند کردیا ہے۔ہم نے آپ ﷺ کے ذکر کو تمام موجوداتِ عالم میں بلند کردیا ہے۔پس باری تعالیٰ نے آپ ﷺ کے اسم مبارک کو اپنے نام کے ساتھ ملادیا ہے۔ جب بھی زبان ذکرِ خدا کرے گی تو ذکرِ مصطفی ﷺ بھی کرے گی۔‘‘

طبقہ شعراء اسلام کے سردار سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حسنِ مصطفی کی جلوہ آرائیاں اور رسول اللہ ﷺ کی صفات و کمالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آپ ﷺ کی سیرت اور اسوۂ حسنہ کے عملی نظارے دیکھے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ اپنی شاعرانہ زبان سے پیکرِ حسنِ کمال اور مظہرِ جلوۂ حق کو ان کلمات کے ساتھ بیان کرتے ہیں:

ما ان مدحت محمدا بمقالتی
ولکن مدحت مقالتی بمحمد

میں نے اپنے کلام سے رسول اللہ ﷺ کی تعریف نہیں کی ہے بلکہ ان کے ذکرِ اطہر سے اپنے کلام کو قابلِ تعریف بنایا ہے۔

وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَک کے معانی و معارف

1۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں باری تعالیٰ نے رفعتِ ذکر مصطفی ﷺ کو ضمیر متصل جمع متکلم ’’نا‘‘ سے بیان کیا ہے۔ اس اسلوبِ کلام میں حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ رب یہاں ضمیر واحد متکلم کے ساتھ رفعتِ ذکر کا بیان فرماتا تو مقصودِ توحید زیادہ حاصل ہو جاتا۔ درحقیقت اس نے ضمیر جمع متکلم بیان فرما کر رفعتِ ذکرِ مصطفی ﷺ کی عظمت کو اجاگر کیا ہے اور اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ میں رفعتِ ذکرِ مصطفی ﷺ میں اکیلا شریک نہیں ہوں بلکہ اس عمل میں میرے ساتھ میرے ملائکہ اور سارے برگزیدہ بندے بھی شریک ہیں۔ اس پر دلیل قرآن مجید کی آیت صلوٰۃ ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی ذا ت پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّ اللهَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.

(الاحزاب، 33: 56)

’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ ﷺ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘

2۔ ورفعنال لک ذکرک میں ضمیر جمع متکلم اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ باری تعالیٰ نے رفعت اور بلندی کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ عام طور پر دنیا میں کسی کو رفعت اس کے خاندان، دولت، اولاد، جاہ و منصب اور دیگر دنیوی اسباب کی وجہ سے ملتی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس کو رفعتِ ذکر کی ان ساری معروضی صورتوں سے جدا اور الگ رکھا ہے۔ باری تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذکر کو رفعت دنیوی اسباب ووجوہ کی بنا پر ہرگز نہیں دی ہے بلکہ آپ ﷺ کی رفعتِ ذکر کی سب سے بڑی وجہ اور سب سے بڑی نسبت اللہ رب العزت نےاپنی ذاتِ اقدس کو قرار دیا ہے۔ یعنی رفعتِ ذکرِ رسول کی نسبت کا انتساب اللہ کی طرف سے ہے اور اس رفعتِ ذکر کا تعلق کسی دنیوی چیز اور تعلق سے ہرگز ہرگز نہیں ہے۔

آپ ﷺ کی ہر رفعت میں ورفعنا کی نسبت اور روح کارفرما ہے۔ اس لیے کہ دنیوی اسباب و عوارض کے ساتھ اگر رفعتِ ذکرِ رسول ﷺ کی نسبت ہوتی تو دنیوی اسباب کی بے ثباتی کی بنا پر ذکرِ رسول ﷺ کو دوام حاصل نہ ہوتا۔ اس لیے کہ انسانی چیزوں پر عروج و زوال آتا رہتا ہے۔ انسان اپنی ہی بنائی چیز کو اچھا بنا بھی لیتا ہے، اسے مزید اعلیٰ بھی کرلیتا ہے اور کبھی اپنی ہی بنائی چیز کو خود ہی بگاڑ بھی دیتا ہے۔ جس طرح چراغ کو انسان خود روشن بھی کرسکتا ہے اور خود بجھا بھی سکتا ہے مگر سورج اور چاند کی روشنی کو اپنی پھونکوں اور اپنی جدید قوتوں سے بھی بجھا نہیں سکتا کیونکہ انھیں رب نے روشن کیا ہوا ہے۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی شانِ رفعتِ ذکر کی نسبت اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی طرف نہیں بلکہ اپنی طرف کی ہے کہ رفعتِ ذکرِ رسول ﷺ کسی مخلوق کے سبب سے نہیں ہے بلکہ یہ رفعتِ ذکرمیری قوت اور عظیم قدرت سے ہے۔

باری تعالیٰ نے رفعتِ ذکرِ رسول ﷺ کو جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ اپنی طرف منسوب کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ شانِ رفعتِ ذکر ہم نے عطا کی ہے۔ آپ ﷺ کے ذکر کی بلندی کسی مخلوق کی وجہ سے نہیں بلکہ ہماری عطا سے ہے۔ آپ ﷺ کے ذکر کو کوئی پست اور ہلکا نہیں کرسکتا، اس لیے کہ ہم آپ ﷺ کے ذکر کو بلند اور ارفع کررہے ہیں۔ جو آپ ﷺ کے ذکر کو نیچا کرے گا، وہ خود نیچا اور پست ہوجائے گا اور جو آپ ﷺ کے ذکر کو بلند کرے گا، وہ خود بلند ہوجائے گااور دنیا میں اس کا چرچا ہوگا۔

3۔ اس آیت کریمہ میں ورفعنا صیغہ ماضی مطلق اس حقیقت کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ آپ ﷺ کے ذکر کی بلندی آج کی نہیں بلکہ بہت پہلے کی ہے اور گزشتہ زمانے کے قرب و بعد کی قید سے بھی آزاد ہے۔ ہر زمانہ آپ ﷺ کے ذکر کی بلندی کا زمانہ ہے اور ہر مکان آپ ﷺ کے رفعتِ ذکر کے لیے بیتاب ہے۔ صیغے اور فعل کے اعتبار سے معنی رفعت صرف انسانی تفہیم کے باب میں ہے۔ وگرنہ حقیقتِ رفعتِ ذکرِ رسول ﷺ یہ ہے کہ جب زمانہ بھی موجود نہ تھا اس وقت بھی آپ ﷺ کا ذکر شانِ رفعت کے ساتھ موجود تھا۔

4۔ ورفعنالک ذکرک کا ایک مفہوم یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے آپ کے ذکر کو قیامت تک اور بعد از قیامت شانِ دوام عطا کردی ہے۔ اس دنیا میں بڑے بڑے نامور آئے مگر بالآخر ان کا نام، ان کا ذکر اور چرچا مٹ گیا مگر رسول اللہ ﷺ کا نام، آپ ﷺ کا ذکر اور آپ ﷺ کا چرچا ہر آنے والے دن مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ورفعنالک ذکرک کی آیت کریمہ کو وللآخرۃ خیرلک من الاولیٰ کی شان کی تفسیر اور عملی تعبیر حاصل ہے۔

5۔ ورفعنالک ذکرک کے کلمہ ’’لک‘‘میں لامِ تعلیل ہے یالامِ تملیک ہے؟ اگر یہ لامِ تملیک ہے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ ہم نے بلندیِ ذکر اور رفعتِ ذکر کو آپ ﷺ کی مِلک کردیا ہے۔ آپ ﷺ جس کو بلند فرمائیں، وہ بلند ہوگا، آپ ﷺ جس کو نگاہوں سے نیچے گرادیں، وہ دوزخ میں چلا جائے گا۔ آپ ﷺ کا دھتکارا ہوا زمانے میں کبھی رفعت و عزت نہ پاسکے گا۔ اس لیے کہ رفعتِ ذکر میں آپ ﷺ کو شانِ تملیک عطا کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رفعتِ ذکر کی شان کلمہ ’’لک‘‘ کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ مختص کردی ہے۔

رفعتِ ذکر ایک کمال کی طرف اشارہ ہے اور رب کو کسی کمال کی ضرورت نہیں ہے، وہ تو خود صاحبِ کمال ہے، اسے کسی تعریف کی حاجت نہیں ہے، اسے رفعتِ ذکر کی حاجت نہیں ہے، وہ تو دوسروں کو رفعت عطا کرنے والا ہے مگر وہ رب اپنی اس شان کا عملی مظہر دیکھنا چاہتا تھا۔ پس اس نے ورفعنالک ذکرک کے مصداق رفعتِ ذکر کو آپ ﷺ کی مِلک میں کردیا۔وہ تو از خود محمود ہے۔ اب اسے کسی اور ہستی کو صاحبِ محمود بنانا تھا۔

عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا.

(الاسراء، 17: 79)

’’یقیناً آپ ﷺ کا رب آپ ﷺ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ ﷺ کی طرف رجوع اور آپ ﷺ کی حمد کریں گے)۔‘‘

اگر ورفعنالک ذکرک میں کلمہ ’’لک‘‘ میں لام ’’تعلیل‘‘ کے لیے ہو تو معنی یہ ہوگا کہ ہم نے آپ ﷺ کا ذکر صرف آپ ﷺ کی خاطر بلند کیا ہے۔اس لیے تاکہ آپ ﷺ راضی ہوجائیں۔

وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی.

(الضحٰی، 93: 5)

’’اور آپ ﷺ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ ﷺ راضی ہو جائیں گے۔‘‘

خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد

خلاصۂ کلام

باری تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی ذات، آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ، آپ ﷺ کی تعلیمات اور آپ ﷺ کے دین کو قیامت تک ورفعنالک ذکرک کی صورت عطا فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ہر شان ورفعنالک ذکرک کی صورت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا داعیاً الی اللہ بنایا جانا، آپ ﷺ کو سراجاً منیراً بنایا جانا، آپ ﷺ کو نہ صرف اپنی امت بلکہ ساری امم کے لیے شاہد بنایا جانا، مبشر (خوشخبری سنانے والا) اور نذیر (اللہ کا ڈر سنانے والا) بنایا جانا، یہ سب رفعتِ رسول ﷺ کی صورتیں ہیں۔

آپ ﷺ کو النبی الامی بناکر ساری دنیا کو یتبعون الرسول کا پیغامِ اتباع دیا جانا اور آپ ﷺ کے ذکر کو تورات اور انجیل میں آپ ﷺ کے آنے سے قبل ذکر کرنا، یہ ساری کی ساری ورفعنالک ذکرک کی صورتیں ہیں۔

آپ ﷺ کی ذات اقدس کو محلل الطیبات اور محرم الخبائث کا اختیار دیا جانا، آپ ﷺ کی رفعت ہی کا اظہار ہے۔

ویضع عنهم اصرھم کے مصداق؛ آپ ﷺ کا اپنی امت کے بوجھ کو دور کرنا، والاغلل التی کانت علیہم، کے مصداق؛ آپ ﷺ کا اپنی امت کو ہر غلامی کے طوق سے آزاد کرنا اس لیے ہے کہ آپ ﷺ کو ورفعنالک ذکرک کی شان عطا کی گئی ہے۔

آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس پر محبت سے بھرپور ایمان لانا فالذین امنوا بہ اور آپ کی حد درجہ تعظیم و تکریم کرنا وعزروہ اور آپ ﷺ کے دین کی مدد و نصرت و اشاعت و ترویج کرنا ونصروہ اور اپنی زندگی کو آپ ﷺ کی کامل اطاعت و اتباع کا نمونہ بنانا، یہ ساری کی ساری شانِ رفعتِ رسول ﷺ کی صورتیں ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی بعثت اور آمد کو ہم ہی میں سے کرنا یعنی من انفسکم کی شان عطا کرنا بھی ورفعنالک ذکرک کی صورت ہے۔

آپ ﷺ کی امت جب ماعنتم کے مصداق کسی تکلیف و اذیت سے گزرتی ہے تو رسول اللہ ﷺ کو ان کے حق میں عزیزٌ علیہ، انتہائی مہربان اور مشفق بنایا جانا بھی ورفعنالک ذکرک کی صورت ہے۔

حتی کہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس کا سراپا پیکرِ شفقت و رحمت بنایا جانا اور ان کا بڑا ہمدرد اور خیر خواہ ہونے کا منصب حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم ، آپ ﷺ کی شانِ رفعتِ کو ظاہر کرتا ہے۔

غرضیکہ قرآن مجید کی ہر ہر آیت آپ ﷺ کی رفعتِ کی حقیقت کو اجاگر کرتی ہے۔ جب تک قرآن محفوظ ہے، رسول اللہ ﷺ کی شانِ رفعت اور آپ ﷺ کا ذکر بھی محفوظ ہے۔

شانِ رفعتِ مصطفی ﷺ کی ایک صورت باری تعالیٰ قیامت کے روز بھی ہمیں دکھائے گا۔ جب ساری مخلوق پریشان حال ہوگی۔ انبیاء علیہ السلام سے ان کی امم گزارش کریں گی کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں ان کی شفاعت کریں۔ ہر نبی و رسول اس دن صرف یہی کے گا: اذھبوا الی غیری، کسی اور کی طرف جاؤ۔ جب یہ امم اپنے اپنے انبیاء کرام علیہ السلام کی قیادت میں سیدالمرسلین و خاتم النبیین ﷺ کی باگاہ میں پہنچیں گی تو اس وقت رسول اللہ ﷺ ساری مخلوقِ انسانی کو امید افزاء جواب دیں گے اور ارشاد فرمائیں گے۔ انا لھا انا لھا، ہاں یہ مقام و مرتبہ اللہ رب العزت نے آج مجھے ہی دیا ہے۔ یہ کہہ کر آپ ﷺ اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجائیں گے۔ باری تعالیٰ فرمائے گا: یا محمد ارفع راسک، اے رسول مکرم ﷺ ! اپنا سر انور اٹھایئے۔۔۔ سل تعطہ، مانگیے آپ کو عطا کیا جائے گا۔۔۔ واشفع تشفع، آپ سفارش کریں، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔۔۔ یہ سب بھی ورفعنالک ذکرک کا ایک عملی اظہار ہوگا جو قیامت کے دن رونما ہوگا۔

فقط اتنا سبب ہے انعقادِ بزمِ محشر کا
کہ ان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی ہے