سوال: تعلیمی اخراجات کی ادائیگی کے لیے بینک سے قرض لینے کا کیا حکم ہے۔ نیز اس سلسلہ میں بینک کسی چیز کو بطورِ ضمانت رکھوانے کا بھی کہہ رہا ہے، اس حوالے سے کیا احکامات ہیں؟
جواب: کسی سے کوئی چیز خریدنے یا قرضہ لینے پر بطور ضمانت کوئی چیز اس شرط پر بائع یا قرض خواہ کے پاس رکھنا کہ جب مشتری یا مقروض قیمت یا قرض ادا کرے گا تو بطورِ ضمانت رکھی ہوئی شئے اسے واپس مل جائے گی‘ اس معاملے کو رہن یا گروی کہا جاتا ہے۔ شریعتِ اسلامی نے مشروع امور میں رہن یا گروی کو جائز و مباح قرار دیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ اِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ وَلْیَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ.
(البقرة، 2: 283)
اور اگر تم سفر پر ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو باقبضہ رہن رکھ لیا کرو، پھر اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتماد ہو تو جس کی دیانت پر اعتماد کیا گیا اسے چاہئے کہ اپنی امانت ادا کر دے اور وہ ﷲ سے ڈرتا رہے جو اس کا پالنے والا ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
ان النبی ﷺ اشتری طعامًا من يهودی اِلٰی اجل و رهنه دِرعًا من حديد.
(بخاری، الصحيح، 2: 729، رقم: 1962)
نبی اکرم ﷺ نے ایک یہودی سے ایک مدت تک ادھار غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی ذرع رہن رکھی تھی۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
تُوُفّی رسول ﷲ ﷺ و درعه مرهونة عند يهودی بثلاثين صاعًا من شعير.
(بخاری، الصحيح، 3: 1068، رقم: 2759)
رسول ﷲ ﷺ کی وفات ہوئی تو اس وقت آپ کی ذرع ایک یہودی کے پاس تیس (30) صاع جَو کے بدلے رہن رکھی ہوئی تھی۔
درج بالا آیت و روایات سے واضح ہوا کہ قرض یا بیع و شرا کے معاملے میں گروی کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز ہے۔
لہذا قرض دیتے ہوئے بینک کا ضمانت کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز ہے۔ لیکن دوسرا امر یہ ہے کہ لازم ہے کہ یہ قرضِ حسنہ ہو‘ سودی قرض نہ ہو۔ سود لینا اور دینا مطلقاً حرام ہے؛ البتہ مجبور و محتاج کے لیے اس کی گنجائش ہے۔
”یَجُوزُ لِلْمُحْتَاجِ اَلاِسْتِقْرَاضُ بِالْرِبْحِ“ (الاشباہ) شرعاً محتاج اس شخص کو کہا جائے گا جو کمانے کی قدرت نہ رکھتا ہو اور اسے بغیر سود کے کہیں سے قرض بھی نہ مل رہا ہو کہ وہ اس سے اپنا گزر بسر کرسکے۔ ایسی صورت میں سودی قرض لینا جائز ہوگا اور قرض لینے والا گنہگا ر نہ ہوگا۔ سائل کا معاملہ کیونکہ محتاجی والا نہیں ہے اور نہ اسے درپیش ضرورت ایسی ہے کہ جس کے لیے سودی قرض کا جواز بنتا ہو، اس لیے سائل کو چاہیے کہ وہ تعلیمی اخراجات کی ادائیگی کے لیے ایسے بینک یا ادارے سے قرض لے جو بلاسود قرض فراہم کر رہا ہو۔
سوال: کیا دورِ حاضر میں غريب سادات کرام کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟ نیز کیا علوی، ہاشمی، عباسی یا قریشی کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟
جواب: علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ ﷲ علیہ نے بنی ہاشم کے بارے میں جو بیان کیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے:
عبد مناف نبی کریم ﷺ کے چوتھے اَبّ ہیں۔ انہوں نے چار بیٹے چھوڑے: ہاشم، مطلب، نوفل اور عبد الشمس۔
پھر ان میں سے سوائے عبد المطلب کے باقی تین کی نسل ختم ہو گئی۔ عبد المطلب کے بارہ (12) بیٹے تھے ان میں سے جس کی بھی نسل مسلمان ہو اور غریب ہو، اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے سوائے: عباس، حارث، اور ابو طالب کی اولاد کے۔ ابو طالب کی اولاد حضرات علی، جعفر اور عقیلl ہیں۔
ہاشمی، قریشی، عباسی بھی اسی حکم میں داخل ہیں۔ مگر اس حکم کے نفاذ کیلئے سلسلۂ نسب بسند ثابت ہونا ضروری ہے۔ اگر ثابت ہو جائے کہ کوئی شخص مذکورہ میں سے کسی نسب سے متعلق ہے تو اسے زکوٰۃ و صدقات نہیں دیئے جائیں گے بلکہ اس کی مدد مالی ہدیے اور تحائف سے کی جائے گی۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے سادات کیلئے زکوٰۃ لینا ناجائز قرار دیا ہے۔
چنانچہ مالی حوالے سے کمزور سادات کیلئے ایسے فنڈز قائم کیے جاسکتے ہیں جن میں زکوٰۃ کے علاوہ رقم جمع کی جائیں اور پھر نہایت رازداری کے ساتھ تنگ دست سادات کو دیئے جائیں۔ لیکن اگر کوئی ایسا فنڈ قائم نہیں ہے تو اس صورت میں بعض علماء کرام نے گنجائش نکالی ہے کہ زکوٰۃ کی رقم سے بھی ان کی مدد کی جاسکتی ہے۔
ابوعصمہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے رویت کی ہے کہ ہمارے زمانے میں بنی ہاشم کو زکوٰۃ دینا جائز ہے کیونکہ ان پر یہ (زکوٰۃ، عشر، فطرانہ، فدیہ) جائز نہ ہونے کی وجہ خمس (مال غنیمت کا پانچواں حصہ جو ان کو ملتا) تھا جو کہ آج کل نہیں ملتا۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک بنی ہاشم کے امیر غریب بنی ہاشم کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں، امام ابو یوسف اس کے خلاف ہیں۔ صحیح تر قول یہ ہے کہ ہاشمی کو زکوٰۃ دینا درست نہیں۔
(ابن عابدین، رد المختار، 2: 350)
مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوا عبد مناف کے بیٹے ہاشم سے چلنے والی نسل بنی ہاشم ہیں، ان میں سے جو مسلمان ہو اور مستحق بھی ہو، زکوٰۃ لے سکتا ہے اور جن پر خمس سے حصہ ملنے کی وجہ سے زکوٰۃ جائز نہیں تھی وہ بھی جائز ہو گئی کیونکہ آج کے زمانے میں نہ اس دور کی طرح جنگیں رہیں اور نہ ہی آئے روز مال غنیمت کی آمدن رہی۔ اس لئے آج کے دور میں غریب بنی ہاشم کو اگر ضرورت پڑے تو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ممانعت کی جو وجہ تھی وہی ختم ہو گئی۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فاطمی و غیر فاطمی اولاد یا ان کے علاوہ جس جس پر بھی خمس کی وجہ سے زکوٰۃ جائز نہیں تھی، ان میں سے اگر کوئی غریب ہو اور اس کی مدد کا کوئی متبادل راستہ بھی نہ ہو تو اس کو زکوٰۃ، عشر اور صدقہ فطر دے سکتے ہیں۔ لیکن احترام کی خاطر ان کو بتانے کی بجائے تحفتاً پیش کیا جائے تو بہتر ہے۔
سوال: عدالتی نکاح (COURT MARRIAGE) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: بالغ لڑکا، لڑکی اپنی پسند اور مرضی سے دستور کے مطابق نکاح کر سکتے ہیں۔ یہ حق ان کو قرآن وحدیث اور تقریباً ہر ملکی قانون نے دیا ہے مگرہمارے سماج نے نہ دیا یہی وجہ کورٹ میرج میں اضافے کا سبب بھی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ.
(النساء، 4: 3)
اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو۔
یہ پسند دو طرفہ ہو گی، لڑکے کی طرف سے بھی اور لڑکی کی طرف سے بھی، کسی پر اس کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ ٹھونسا نہیں جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر شادی کا مقصد بیان فرمایا:
وَمِنْ اٰیٰـتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ.
(الروم، 30: 21)
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوںمیں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
اس ضمن میں چند احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَ امْرَأَةً فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا فَإِنَّهُ أَحْرَی أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَکُمَا فَفَعَلَ فَتَزَوَّجَهَا فَذَکَرَ مِنْ مُوَافَقَتِهَا.
(أحمد بن حنبل، المسند، 4: 246، رقم: 18179)
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا، بعد میں حضور نبی اکرم ﷺ سے اس نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا تُنْکَحُ الْأَيِّمُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ وَکَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ أَنْ تَسْکُتَ.
(بخاري، الصحيح، 5: 974، رقم: 484)
بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی: یاسول اللہ ﷺ ! کنواری کی اجازت کیسے معلو م ہوتی ہے؟ فرمایا: اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ بھی اجازت ہے۔
فقہائے کرام فرماتے ہیں:
ينعقد نکاح الحرة العاقلة البالغة برضاها وان لم يعقد عليها ولی بکرا کانت أو ثيبا... ولا يجوز للولی اجبار البکر البالغة علی النکاح.
(مرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 196)
آزاد، عقل مند بالغ لڑکی کا نکاح اس کی رضا مندی سے ہو جاتا ہے، خواہ اس کا ولی نہ کرے، کنواری ہو یا ثیبہ۔۔۔ ولی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ کنواری بالغ لڑکی کو نکاح پر مجبور کرے۔
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ عاقل وبالغ لڑکا اور لڑکی بدستور اپنی پسند اور مرضی سے بعوض حق مہر اور دو مسلمان عاقل وبالغ گواہوں کی موجودگی میں جہاں چاہیں نکاح کر سکتے ہیں۔ لہٰذا لڑکا اور لڑکی اپنی مرضی سے عدالتی نکاح کریں تو شرعی طور پر نکاح جائز ودرست ہو گا۔
دورِ حاضر میں مسلمانوں کی، اسلامی تعلیمات سے دوری جہاں معاشرے میں دیگر خرابیوں کا باعث بن رہی ہے ان میں ایک خرابی یہ بھی سر فہرست ہے کہ اکثر والدین بچوں کی پسند وناپسند کو نظرانداز کر کے اپنی مرضی اور پسند کے رشتے طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لڑکے لڑکیاں والدین کو بتائے بغیر اپنی پسند اور مرضی کے مطابق عدالتی نکاح کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پھر دوسری طرف والدین اپنی مرضی کے خلاف کی گئی شادی کو قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے حالانکہ جس جوڑے نے آپس میں مل جل کر رہنا ہے، اگر وہ رضامند ہوں تو ان کو زندگی گزارنے کا حق دینا چاہیے جبکہ قرآن وحدیث میں بھی پسند کی شادی کرنے کا حکم ہے۔ لیکن لاعلمی وجہالت کی وجہ سے معاشرے میں لڑکی اور لڑکے کی آپس میں پسند کی شادی کو عجیب سمجھا جاتا ہے اگر وہ بذریعہ عدالت نکاح کرلیں تو مزید نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
عدالت میں نکاح کرنا بنیادی طور پر کوئی بری بات نہیں ہے۔ اصل خرابی کی جڑ والدین کا لڑکے اور لڑکی کی پسند وناپسند کو نظر انداز کرنا ہے۔ اکثر والدین مال ودولت اور جائیداد کے لالچ میں شرعی کفو کا خیال نہیں رکھتے اور بغیر سوچے سمجھے بچوں کی زندگی کا سودا کر دیتے ہیں۔ اُن کا یہ فیصلہ بعد میں ناخوشگوار زندگی کا باعث بنتا ہے۔ اگر کوئی جوڑا اپنی پسند اور رضامندی سے بذریعہ عدالت نکاح کر کے جائز وحلال تعلقات قائم کرتا ہے تو اُس کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق ملنا چاہیے۔ اگر یہ راستہ بھی بند کر دیا جائے تو اس کا مطلب ہے ہم اُن کو غلط کاری پر مجبور کرنے جا رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنی سوچیں اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ شادی بیاہ کے معاملات میں بھی والدین اور بچے اپنی اپنی حدود میں رہ کر اچھا فیصلہ کر سکیں اور طے پانے والا رشتہ دنیا وآخرت میں راحت وسکون کا باعث بنے۔